معمولات میلاد

ابتدائیہ

یوں تو سارا سال حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تذکارِ جمیل کی محفلیں منعقد ہوتی رہتی ہیں لیکن جونہی ماہِ ربیع الاول کی آمد ہوتی ہے مسرتوں اور خوشیوں کا ایک سیلِ رواں شہر شہر، قریہ قریہ امڈ آتا ہے اور اہلِ ایمان وارفتگی کے عالم میں محافلِ میلاد اور جلسہ و جلوس کی صورت میں اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی قلبی محبت و عقیدت کا اِظہار کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تھمتا نہیں بلکہ ایک دیدنی جوش و خروش کا رنگ اِختیار کر لیتا ہے۔ اس موقع پر گھر گھر چراغاں کیا جاتا ہے۔ مجالس و محافلِ میلاد کا خصوصی اہتمام ہوتاہے۔ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی اور احترام میں بپا کی جانے والی محافل میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ترانے الاپے جاتے ہیں، قرآن مجید کی تلاوت ہوتی ہے اور نعت گو شاعر، نعت خواں اور خطباء حضرات تحریر و تقریر اور نعت و بیان کے ذریعے حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور اپنے اپنے گلہائے عقیدت پیش کرتے ہیں۔ الغرض ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق نظم و نثر کے پیرائے میں تخلیق و ولادت اور عظمت و شانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں رطب اللسان ہوتا ہے۔

میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر خوشی و مسرت کا اِظہار کس کس طریقے سے کیا جاتا ہے؟ جشنِ مسرت مناتے وقت غلامانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولات کیا ہوتے ہیں؟ وہ کون کون سے اَفعا ل و اَعمال سر انجام دیتے ہیں؟ بہ اَلفاظِ دیگر جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَجزائے تشکیلی کون سے ہیں؟ زیرِ نظر کتاب میں ہم اسی حوالہ سے بحث کریں گے اور بنیادی اَجزائے تشکیلی یا عناصرِ ترکیبی قرآن وسنت کی روشنی میں بیان کریں گے اور ان کا تحقیقی جائزہ پیش کریں گے کیوں کہ کسی بھی عمل کی حلت و حرمت اور اُس پر اَجر و ثواب یا عذاب و عتاب کا اندازہ اس اَمر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اِس عمل کے اَجزاء کون کون سے ہیں۔

میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَجزائے تشکیلی اور اِس کے اندر ہونے والی ایمان افروز اور روح پرور سرگرمیوں کو درجِ ذیل عنوانات کے تحت بیان کیا جا سکتا ہے:

  1. مجالس و اِجتماعات کا اِہتمام
  2. بیانِ سیرت و فضائلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  3. مدحت و نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  4. صلوٰۃ و سلام
  5. قیام
  6. اِہتمامِ چراغاں
  7. ضیافت ِمیلاد
  8. جلوسِ میلاد

آئندہ صفحات میں اِن تمام معمولات کو علیحدہ علیحدہ باب میں بالتفصیل بیان کیا جائے گا۔

باب اَوّل: مجالس و اِجتماعات کا اِہتمام

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پر مسرت موقع پر محافلِ نعت، مجالسِ ذکرِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں درود و سلام پیش کرنے کے لیے خصوصی اِجتماعات منعقد کیے جاتے ہیں۔ لوگ اِن محافل میںاِنتہائی عقیدت و اِحترام اور جوش و خروش سے شریک ہوتے ہیں اور اپنے قلوب و اَذہان کو محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکرِ جمیل سے معطر کرتے ہیں۔ اپنے میلاد کے بیان کے لیے خود تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اِجتماعات کا اہتمام فرمایا۔ اِس ضمن میں متعدد اَحادیث موجود ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مجلسِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں اپنی تخلیق کا ذِکر

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا:

یا رسول اﷲ! متی وجبت لک النبوة؟

’’یا رسول اﷲ! آپ کو شرفِ نبوت سے کب نوازا گیا؟‘‘

یہ ایک معمول سے ہٹا ہوا سوال تھا کیوں کہ صحابہ میں سے کون نہیں جانتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت چالیس سال کی عمر مبارک میں ہوئی۔ لہٰذا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اِس سوال سے واضح ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بارے میں نہیں پوچھ رہے تھے بلکہ وہ عالم بالا میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُس روحانی زندگی کی اِبتداء کی بات کررہے تھے جب اﷲ گ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خلعتِ نبوت سے سرفراز فرمایا تھا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواباً فرمایا:

و آدم بین الروح والجسد.

’’(میں اُس وقت بھی نبی تھا) جب آدم کی تخلیق ابھی رُوح اور جسم کے مرحلے میں تھی۔‘‘

  1. ترمذی نے’’الجامع الصحیح، کتاب المناقب، باب فی فضل النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، (5: 585، رقم: 3609 )‘‘ میں اس حدیث کو روایت کیا اور حسن صحیح قرار دیا ہے۔
  2. أحمد بن حنبل نے ’’المسند (4: 66، 5: 59، 379)‘‘ میں یہ حدیث حضرت میسرہ الفجر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔
  3. حاکم نے ’’المستدرک علی الصّحیحین (2: 665، رقم: 4209)‘‘ میں اس حدیث کو حضرت میسرہ الفجر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا اور صحیح الإسناد قرار دیا ہے۔
  4. إبن أبی شیبۃ نے اسے ’’المصنف (7: 369، رقم: 36553)‘‘ میں عبد اﷲ بن شیقق کے واسطے سے روایت کیا ہے۔
  5. طبراني نے ’’المعجم الأوسط (4: 272، رقم: 4175)‘‘ میں حضرت میسرہ الفجر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔
  6. طبراني نے ’’المعجم الکبیر (12: 92، 119، رقم:12571، 12646؛ 20: 353، رقم: 833)‘‘ میں حضرت میسرہ الفجر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔
  7. ابن مستفاض نے ’’کتاب القدر (ص: 27، رقم: 14)‘‘ میں کہا ہے کہ اِس کے رِجال ثقہ ہیں۔
  8. تمام رازی نے ’’کتاب الفوائد (1: 241،رقم: 581)‘‘ میں عبد اﷲ بن شقیق کے واسطے سے روایت کی ہے۔
  9. ابن حبان، کتاب الثقات، 1: 47
  10. لالکائی، اعتقاد أھل السنۃ، 1: 422، رقم: 1403
  11. بیہقی، دلائل النبوۃ ومعرفۃ أحوال صاحب الشریعۃ، 2: 130
  12. سیوطی، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، 6: 569
  13. ناصر الدین البانی نے اِس حدیث کو صحیح قرار دیتے ہوئے ’’صحیح السیرۃ النبویۃ (ص: 54، رقم: 53)‘‘ میں بیان کیا ہے۔

مذکورہ بالاحدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ کے ساتھ بھی مروی ہے:

قال بین خلق آدم و نفخ الروح فیه.

حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 2: 665، رقم: 4210

’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :(میں اُس وقت بھی نبی تھا) جب آدم ں ابھی تخلیق اور روح پھونکے جانے کے مرحلے میں تھے۔‘‘

اِس حدیث مبارکہ سے مراد ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس وقت بھی نبی تھے جب روح اور جسم سے مرکب حضرت آدم ں کا خمیر ابھی مکمل طور پر تیار نہیں ہوا تھا۔ اِس طرح حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ایک مجلس میں اپنی ولادت سے بھی پہلے اپنی تخلیق اور نبوت کے بارے میں آگاہ فرمایا۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مجلسِ صحابہث میں تخلیقِ آدم ں کے وقت بھی اپنے نبی ہونے کا ذکر کرنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عالم اَرواح میں تخلیق کی طرف اشارہ ہے۔ اہلِ اسلام بھی اپنی مجالس و اجتماعات میں جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے تذکرے کرتے ہیں وہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خَلقت و نورانیت کو بھی قرآن و حدیث اور آثارِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی روشنی میں بیان کرتے ہیں۔ یہ عمل سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی پیروی میں معمولاتِ میلاد کا حصہ ہے۔

2۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے میلاد کے بیان کے لیے اِہتمامِ اِجتماع

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول مبارک تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اِجتماع سے خطبہ جمعہ کے علاوہ بھی وقتاً فوقتاً دینی و ایمانی، اَخلاقی و روحانی، علمی و فکری، سیاسی و سماجی، معاشی و معاشرتی، قانونی و پارلیمانی، اِنتظامی و اِنصرامی اور تنظیمی و تربیتی موضوعات پر خطبات اِرشاد فرماتے۔ اس کے علاوہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی حسبی و نسبی فضیلت اوربے مثل ولادت پربھی گفتگو فرماتے۔ درج ذیل اَحادیثِ مبارکہ سے واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنی تخلیق و ولادت کی خصوصیت و فضیلت کے بیان کے لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اِجتماع کا اہتمام فرمایا۔

حضرت مطلب بن ابی وداعہ سے مروی ہے:

جاء العباس إلی رسول اﷲ صلی الله علیه وآله وسلم فکأنه سمع شیئاً، فقام النّبیّ صلی الله علیه وآله وسلم علی المنبر، فقال: من أنا؟ فقالوا: أنت رسول اﷲ، علیک السّلام۔ قال: أنا محمد بن عبد ﷲ بن عبد المطّلب، إن اﷲ خلق الخلق فجعلنی فی خیرهم فرقة، ثم جعلهم فرقتین، فجعلنی فی خیرهم فرقة، ثم جعلهم قبائل، فجعلنی فی خیرهم قبیلة، ثم جعلهم بیوتاً، فجعلنی فی خیرهم بیتاً وخیرھم نسباً.

’’حضرت عباس رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے، (اس وقت ان کی کیفیت ایسی تھی) گویا انہوں نے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق کفار سے) کچھ (نازیبا الفاظ) سن رکھے تھے (اور وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتانا چاہتے تھے)۔ (حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ کلمات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتائے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علمِ نبوت سے جان گئے) تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ اَفروز ہوئے اور فرمایا: میں کون ہوں؟ سب نے عرض کیا: آپ پر سلام ہو، آپ اﷲ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں عبد اللہ کا بیٹا محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہوں۔ اﷲ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور اس مخلوق میں سے بہترین گروہ (انسان) کے اندر مجھے پیدا فرمایا اور پھر اس کو دو گروہوں (عرب و عجم) میں تقسیم کیا اور ان میںسے بہترین گروہ (عرب) میں مجھے پیدا کیا۔ پھر اﷲتعالیٰ نے اس حصے کے قبائل بنائے اور ان میں سے بہترین قبیلہ (قریش) کے اندر مجھے پیدا کیا اور پھر اس بہترین قبیلہ کے گھر بنائے تو مجھے بہترین گھر اور نسب (بنو ہاشم) میں پیدا کیا۔‘‘

  1. ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب الدعوات، 5: 543، رقم: 3532
  2. ترمذی نے’’الجامع الصحیح (کتاب المناقب، باب فی فضل النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، 5: 584، رقم: 3608)‘‘ میں وخیرھم نسبا کی جگہ وخیرھم نفسا کے الفاظ بھی بیان کیے ہیں۔
  3. احمدبن حنبل نے ’’المسند (1: 210، رقم: 1788)‘‘ میں آخر حدیث میں ’’فأنا خیرکم بیتا وخیرکم نفسا‘‘ کا اضافہ کیا ہے۔
  4. أحمد بن حنبل، المسند، 4: 165
  5. ہیثمی، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 8: 216
  6. بیہقی، دلائل النبوۃ ومعرفہ أحوال صاحب الشریعۃ، 1: 169

اس حدیث مبارکہ میں درج ذیل نکات قابلِ غورہیں:

  1. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا کہ جب کسی موضوع پر کوئی اَہم اور قابلِ توجہ بات تمام صحابہ کو بتانا مقصود ہوتی توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا خطبہ یا تقریر منبر پر کھڑے ہو کر اِرشاد فرماتے۔ اگر معمول کی کوئی بات ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موقع پر موجود صحابہ کے گوش گزار کر دیتے لیکن منبر پر کھڑے ہو کر خاص نشست کا اہتمام عامۃ المسلمین تک کوئی خاص بات پہنچانے کے لیے ہوتاتھا۔ حدیثِ مذکورہ میں بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر کھڑے ہو کر اِرشاد فرما رہے ہیں، اور یہ اِہتمام اِس اَمر کی طرف اشارہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ سے کوئی اہم بات کرنے والے ہیں۔
  2. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے سوال کیا: ’’میں کون ہوں؟‘‘ سب نے عرض کیا: ’’آپ پر سلام ہو، آپ اﷲ کے رسول ہیں۔‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہ جواب اگرچہ حق و صداقت پر مبنی تھا لیکن مقتضائے حال کے مطابق نہ تھا۔ اس دن اس سوال کا مقصد کچھ اور تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کا جواب بھی مختلف سننا چاہتے تھے۔جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف سے متعلقہ جواب موصول نہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود ہی فرمایا: ’’میںعبد اﷲ کا بیٹا محمد ہوں۔‘‘ معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں اپنی ولادت اور نسبی فضیلت کے باب میںکچھ ارشاد فرمانا چاہتے تھے۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا وہ گوشہ ہے جس کا تعلق براہِ راست آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد سے ہے۔ اگرچہ یہ وہ معلومات تھیں جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بہ خوبی جانتے تھے مگر اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِس قدر اِہتمام کے ساتھ اس مضمون کو بیان فرمانے کا مقصد جشنِ میلاد کو اپنی سنت بنانا تھا۔
  3. مذکورہ حدیث میں اَحکامِ اِلٰہی بیان ہوئے ہیں نہ اَعمال و اَخلاق سے متعلق کوئی مضمون بیان ہوا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو اپنی ولادت اور نسبی فضیلت کے بارے آگاہ فرمایا ہے جو موضوعاتِ میلاد میں سے ہے۔
  4. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ بیان انفرادی سطح پر نہیں بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اجتماع سے تھا جو خصوصی اِنتظام و اِنصرام کی طرف واضح اِشارہ ہے۔

کتبِ حدیث اور سیرت و فضائل میں سے امام بخاری (194۔256ھ)، امام مسلم (206۔ 261ھ)، امام ترمذی (210۔279ھ)، قاضی عیاض (476۔544ھ)، علامہ قسطلانی (851۔923ھ)، علامہ نبہانی (1265۔1350ھ) جیسے نام وَر اَئمہ و محدثین اور شارحین کی تصانیف میں ایسی بے شمار احادیث موجود ہیں جن کا تعلق کسی شرعی مسئلہ سے نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت، حسب و نسب، خاندانی شرافت و نجابت اور ذاتی عظمت و فضیلت سے ہے۔

حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اﷲ عنھما روایت کرتے ہیں:

قلت یارسول ﷲ! إن قریشاً جلسوا فتذاکروا أحسابہم بینہم، فجعلوا مثلک کمثل نخلة فی کبوة من الأرض، فقال النّبيّ صلی الله علیه وآله وسلم: إن اﷲ خلق الخلق فجعلنی من خیرهم من خیر فرقهم وخیر الفریقین، ثم تخیّر القبائل فجعلنی من خیر قبیلة، ثم تخیّر البیوت فجعلنی من خیر بیوتهم، فأنا خیرهم نفساً وخیرهم بیتا.

’’میں نے عرض کیا: یارسول اﷲ! قریش نے ایک مجلس میں اپنے حسب و نسب کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی مثال کھجور کے اُس درخت سے دی جو کسی ٹیلہ پر ہو۔ اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو مجھے ان کی بہترین جماعت میں رکھا اور ان کے بہترین گروہ میں رکھا اور دونوں گروہوں میں سے بہترین گروہ میں بنایا، پھر قبائل کو منتخب فرمایا اور مجھے بہترین قبیلے میں رکھا، پھر اُس نے گھرانے منتخب فرمائے تو مجھے اُن میں سے بہتر گھرانے میں رکھا، پس میں اُن میں سے بہترین فرد اور بہترین خاندان والا ہوں۔‘‘

  1. ترمذی، الجامع الصحیح، ابواب المناقب، باب فی فضل النبي صلی الله علیه وآله وسلم، 5: 584، رقم: 3607
  2. أحمد بن حنبل، فضائل الصحابة، 2: 937، رقم: 1803
  3. أبو یعلی، المسند، 4: 140، رقم: 1316

حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إن اﷲ اصطفی من ولد إبراہیم إسماعیل، واصطفی من ولد إسماعیل بنی کنانة، واصطفی من بنی کنانة قریشاً، واصطفی من قریش بنی هاشم، واصطفانی من بنی هاشم.

’’بے شک ربِ کائنات نے اِبراہیم (علیہ السلام) کی اَولاد میں سے اِسماعیل (علیہ السلام) کو منتخب فرمایا، اور اِسماعیل (علیہ السلام) کی اَولاد میں سے بنی کنانہ کو، اور اَولادِ کنانہ میں سے قریش کو، اور قریش میں سے بنی ہاشم کو، اور بنی ہاشم میں سے مجھے شرفِ اِنتخاب سے نوازا اور پسند فرمایا۔‘‘

  1. ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب المناقب، باب فی فضل النبي صلی الله علیه وآله وسلم، 5: 583، رقم: 3605
  2. مسلم، الصحیح، کتاب الفضائل، باب فضل نسب النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وتسلیم الحجر علیہ قبل النبوة، 4: 1782، رقم: 2276
  3. أحمد بن حنبل، المسند، 4: 107
  4. ابن أبی شیبة، المصنف، 6: 317، رقم: 31731
  5. أبو یعلی، المسند، 13: 469، 472، رقم: 7485، 7487
  6. طبرانی، المعجم الکبیر، 22:66، رقم: 161
  7. بیہقی، السنن الکبری،6:365، رقم: 12852
  8. بیہقی، شعب الإیمان، 2: 139، رقم: 1391

اِس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا پورا سلسلۂ نسب بیان فرما دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے إصطفی کا لفظ اس لیے بیان کیا کہ صاحبِ نسب، مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (چُنے ہوئے) ہیں اور پورے نسبی سلسلہ کو یہ صفاتی لقب دیا گیا ہے۔

3۔ بیانِ شرف و فضیلت کے لیے اِہتمامِ اِجتماع

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیانِ میلاد کے علاوہ اپنی شرف و فضیلت بیان کرنے کے لیے بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اِجتماع کا اہتمام فرمایا:

حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

جلس ناس من أصحاب رسول اﷲ صلی اللہ علیه وآله وسلم ینتظرونه، قال: فخرج حتی إذا دنا منهم سمعهم یتذاکرون فسمع حدیثهم، فقال بعضهم عجباً: إنَ اﷲ ل اتّخذ من خلقه خلیلاً، اتّخذ إبراهیم خلیلاً، وقال آخر:ماذا بأعجب من کلام موسی کلّمه تکلیماً، وقال آخر: فعیسی کلمة اﷲ وروحه، وقال آخر: آدم اصْطفاه اﷲ۔ فخرج علیهم فسلّم، وقال صلی الله علیه وآله وسلم : قد سمعت کلامکم وعجبکم أن إبراهیم خلیل اﷲ وهو کذلک، وموسٰی نجی اﷲ وهو کذالک، وعیسی روح اﷲ وکلمته وهو کذلک، وآدم اصْطفاه اﷲ وهو کذلک، ألا! وأنا حبیب اﷲ ولا فخر، أنا حامل لواء الحمد یوم القیامة ولا فخر، وأنا أول شافعٍ وأول مشفعٍ یوم القیامة ولا فخر، وأنا أول من یحرک حلق الجنة فیفتح اﷲ لی فیدخلنیها، ومعي فقراء المومنین ولا فخر، وأنا أکرم الأوّلین والآخرین ولا فخر.

’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کئی صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتظار میں بیٹھے تھے کہ اتنے میںآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لے آئے، جب ان کے قریب ہوئے تو سنا کہ وہ آپس میں کچھ باتیں کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے کہا: بڑے تعجب کی بات ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے (ابراہیم ں کو اپنا) خلیل بنایا۔ دوسرے نے کہا: یہ اس سے زیادہ تعجب انگیز نہیں ہے کہ خدا نے موسیٰ ں سے کلام کیا۔ تیسرے نے کہا: عیسیٰ ں تو اللہ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں۔ چوتھے نے کہا: آدم ں کو اللہ تعالیٰ نے برگزیدہ کیا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے حلقے میں تشریف لے آئے، سلام کیا اور فرمایا: میں نے تم لوگوں کا کلام اور اِظہارِ تعجب سن لیا ہے۔ ابراہیم ں اللہ کے خلیل ہیں، بے شک وہ ایسے ہی ہیں۔ اور موسیٰ ں اللہ تعالیٰ سے سرگوشی کرنے والے ہیں اور وہ ایسے ہی ہیں۔ اور عیسیٰ ں اس کی روح اور اس کا کلمہ ہیں اور وہ ایسے ہی ہیں۔ اور آدم ں کو اللہ تعالیٰ نے منتخب کیا اور وہ ایسے ہی ہیں۔ آگاہ ہو جاؤ! میں اللہ کا حبیب ہوں لیکن میں فخر نہیں کرتا اور میں قیامت کے دن لوائِ حمد (حمد کا جھنڈا) اٹھانے والا ہوں گا اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں، اور میں قیامت کے دن سب سے پہلا شفیع اور سب سے پہلا مشفع ہوں گا اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں اور میں پہلا شخص ہوں گا جو بہشت کے دروازے کی زنجیر ہلائے گا اور اللہ تعالیٰ اسے میرے لیے کھولے گا اور مجھے اس میں داخل کرے گا اور میرے ساتھ وہ مومنین ہوں گے جو فقیر (غریب و مسکین) تھے لیکن مجھے اس پر بھی کوئی فخر نہیں، اور اَوّلین و آخرین میںسب سے زیادہ مکرّم و محترم میں ہی ہوں اور مجھے اس پر بھی کوئی فخر نہیں۔‘‘

  1. ترمذی،الجامع الصحیح، کتاب المناقب، باب ما جاء فی فضل النبی صلی الله علیه وآله وسلم ، 2: 202، رقم: 3616
  2. دارمی، السنن 1: 39، رقم: 47
  3. بغوی، شرح السنة، 13: 198، 204، رقم: 3617، 3625
  4. رازی، مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر)، 6: 167
  5. ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1: 560
  6. سیوطی، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، 2: 705

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

أن النّبيّ صلی الله علیه وآله وسلم خرج یوماً فصلی علی أهل أحد صلاته علی المیت، ثم انصرف إلی المنبر، فقال: إنی فرط لکم وأنا شهید علیکم، وإنی واﷲ! لأنظر إلی حوضی الآن، وإنی أعطیت مفاتیح خزائن الأرض أو مفاتیح الأرض، وإنی واﷲ! ما أخاف علیکم أن تشرکوا بعدی، ولکن أخاف علیکم أن تنافسوا فیها.

’’ایک روز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر (میدانِ اُحد کی طرف) تشریف لے گئے، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہدائے اُحد پر نمازِ جنازہ کی طرح نماز پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ اَفروز ہوئے اور فرمایا: بے شک میں تمہارا پیش رَو ہوں اور میں تم پر گواہ (یعنی تمہارے اَحوال سے باخبر) ہوں۔ اﷲ کی قسم! میں اِس وقت حوضِ کوثر دیکھ رہا ہوں اور مجھے روئے زمین کے خزانوں کی چابیاں عطا کی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! مجھے یہ خوف نہیں ہے کہ تم میرے بعد شرک میں مبتلا ہو جائو گے، البتہ یہ خوف ضرور ہے کہ تم دنیا پرستی میں باہم فخر و مباہات کرنے لگو گے۔‘‘

  1. بخاری، الصحیح، کتاب الجنائز، باب الصلاة علی الشھید، 1: 451، رقم: 1279
  2. بخاری، الصحیح، کتاب المناقب،باب علامات النبوة، 3: 1317، رقم:1401
  3. بخاری، الصحیح، کتاب المغازی،باب أحد یحبنا، 4: 1498، رقم: 3857
  4. بخاری، الصحیح، کتاب الرقاق، باب ما یحذرمن زھرة الدنیا والتنافس فیها، 5: 2361، رقم: 6062
  5. بخاری، الصحیح، کتاب الحوض ، باب فی الحوض، 5: 2408، رقم: 6218
  6. مسلم، الصحیح، کتاب الفضائل، باب إثبات الحوض، 4: 1795، رقم: 2296
  7. أحمد بن حنبل، المسند، 4: 149، 153
  8. ابن حبان، الصحیح، 7: 473، رقم: 3168
  9. ابن حبان، الصحیح، 8: 18، رقم: 3224

اِس حدیثِ مبارکہ کے الفاظ- ثم انصرف إلی المنبر (پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ اَفروز ہوئے) - سے ایک سوال ذہن میں اُبھرتا ہے کہ کیا قبرستان میں بھی منبر ہوتا ہے؟ منبر تو خطبہ دینے کے لیے مساجد میں بنائے جاتے ہیں، وہاں کوئی مسجد نہ تھی، صرف شہدائے اُحد کے مزارات تھے۔ اُس وقت صرف مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی میں منبر ہوتا تھا۔ اس لیے شہدائے احد کی قبور پر منبر کا ہونا بظاہر ایک ناممکن سی بات نظر آتی ہے۔ مگر در حقیقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر شہدائے اُحد کے قبرستان میں منبر نصب کرنے کا اِہتمام کیا گیا، جس کا مطلب ہے کہ منبر شہر مدینہ سے منگوایا گیا یا پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ساتھ ہی لے کر گئے تھے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ اتنا اہتمام کس لیے کیا گیا؟ یہ سارا اِہتمام و اِنتطام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل ومناقب کے بیان کے لیے منعقد ہونے والے اُس اِجتماع کے لیے تھا جسے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود منعقد فرما رہے تھے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اس اجتماع میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تحدیثِ نعمت کے طور پر اپنا شرف اور فضیلت بیان فرمائی جس کے بیان پر پوری حدیث مشتمل ہے۔ اِس طرح یہ حدیث جلسۂ میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی واضح دلیل ہے۔

مذکورہ بالا احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شرف و فضیلت کو بیا ن کرنے کے لیے اِجتماع کا اہتمام کرنا خود سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ لہٰذا میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافل سجانا اور جلسوں کا اِہتمام کرنا مقتضائے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ آج کے پُر فتن دور میں ایسی محافل و اِجتماعات کے اِنعقاد کی ضرورت پہلے سے کہیں بڑھ کر ہے تاکہ اُمت کے دلوں میں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عشق و محبت نقش ہو اور لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور اُسوۂ حسنہ پر عمل کرنے کی ترغیب دی جائے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved