210 / 1. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ أَهْلُ بَيْتٍ مِنَ الْأَنْصَارِ لَهُمْ جَمَلٌ يَسْنُوْنَ عَلَيْهِ، وَإِنَّ الْجَمَلَ اسْتُصْعِبَ عَلَيْهِمْ فَمَنَعَهُمْ ظَهْرَه، وَإِنَّ الْأَنْصَارَ جَاؤُوْا إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالُوْا: إِنَّه کَانَ لَنَا جَمَلٌ نُسْنِي عَلَيْهِ وَإِنَّهُ اسْتُصْعِبَ عَلَيْنَا وَمَنَعَنَا ظَهْرَه، وَقَدْ عَطَشَ الزَّرْعُ وَالنَّخْلُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم لِأَصْحَابِه: قُوْمُوْا فَقَامُوْا فَدَخَلَ الْحَائِطَ وَالْجَمَلُ فِي نَاحِيَةٍ، فَمَشَی النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم نَحْوَه. فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ: يَا نَبِيَّ اللهِ، إِنَّهُ قَدْ صَارَ مِثْلَ الْکَلْبِ، وَإِنَّا نَخَافُ عَلَيْکَ صَوْلَتَه، فَقَالَ: لَيْسَ عَلَيَّ مِنْه بَأْسٌ، فَلَمَّا نَظَرَ الْجَمَلُ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم أَقْبَلَ نَحْوَه حَتّٰی خَرَّ سَاجِدًا بَيْنَ يَدَيْهِ، فَأَخَذَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم بِنَاصِيَتِه أَذَلَّ مَا کَانَتْ قَطُّ حَتّٰی أَدْخَلَه فِي الْعَمَلِ، فَقَالَ لَه أَصْحَابُه: يَا رَسُوْلَ اللهِ، هٰذِه بَهِيْمَةٌ لَا تَعْقِلُ تَسْجُدُ لَکَ وَنَحْنُ نَعْقِلُ فَنَحْنُ أَحَقُّ أَنْ نَسْجُدَ لَکَ؟ وفي رواية: قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، نَحْنُ أَحَقُّ بِالسُّجُوْدِ لَکَ مِنَ الْبَهَائِمِ. فَقَالَ: لَا يَصْلُحُ لِبَشَرٍ أَنْ يَسْجُدَ لِبَشَرٍ وَلَوْ صَلَحَ لِبَشَرٍ أَنْ يَسْجُدَ لِبَشَرٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا مِنْ عِظَمِ حَقِّه عَلَيْهَا…الحديث.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَنَحْوَهُ الدَّارِمِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ: رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ بِإِسْنَادٍ جَيِّدٍ وَرُوَاتُه ثِقَاتٌ مَشْهُوْرُوْنَ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ غَيْرَ حَفْصِ ابْنِ أَخِي أَنَسٍ وَهُوَ ثِقَةٌ.
1: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 158، الرقم: 12635، والدارمي في السنن، باب ما أکرم اللہ به نبيه من إيمان الشجر به والبهائم والجن، 1 / 22، الرقم: 17، والطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 81، الرقم: 9189، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 320، الرقم: 1053، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 5 / 265، الرقم: 1895، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 / 35، الرقم: 2977، والحسيني في البيان والتعريف، 2 / 171، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 / 311، وأيضًا، 9 / 4، والمناوي في فيض القدير، 5 / 329.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری گھرانے میں ایک اونٹ تھا جس پر (وہ کھیتی باڑی کے لئے) پانی بھرا کرتے تھے، وہ ان کے قابو میں نہ رہا اور انہیں اپنی پشت (پانی لانے کے لئے) استعمال کرنے سے روک دیا۔ انصار صحابہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ہمارا ایک اونٹ تھا ہم اُس سے کھیتی باڑی کے لئے پانی لانے کا کام لیتے تھے اور وہ ہمارے قابو میں نہیں رہا اور اب وہ خود سے کوئی کام نہیں لینے دیتا، ہمارے کھیت اور باغ پیاسے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا: اُٹھو، پس سارے صحابہ اُٹھ کھڑے ہوئے (اور اس انصاری کے گھر تشریف لے گئے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احاطہ میں داخل ہوئے تو اونٹ ایک کونے میں بیٹھا تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُونٹ کی طرف چل پڑے تو انصار کہنے لگے: (یا رسول اللہ!) یہ اُونٹ کتے کی طرح باؤلا ہو چکا ہے اور ہمیں اِس کی طرف سے آپ پر حملہ کا خطرہ ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے اِس سے کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ اُونٹ نے جیسے ہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بڑھا یہاں تک (قریب آکر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سجدہ میں گر پڑا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے پیشانی سے پکڑا اور حسب سابق دوبارہ کام پر لگا دیا۔ صحابہ کرام نے یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ تو بے عقل جانور ہوتے ہوئے بھی آپ کو سجدہ کر رہا ہے اور ہم تو عقلمند ہیں اس سے زیادہ حقدار ہیں کہ آپ کو سجدہ کریں اور ایک روایت میں ہے کہ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم جانوروں سے زیادہ آپ کو سجدہ کرنے کے حقدار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کسی فردِ بشر کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی بشر کو سجدہ کرے اور اگر کسی بشر کا بشر کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو اُس کی قدر و منزلت کی وجہ سے سجدہ کرے جو کہ اُسے بیوی پر حاصل ہے۔‘‘
اِسے امام احمد نے اور اِسی کی مثل امام دارمی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام منذری نے فرمایا: اِسے امام احمد اور نسائی نے اسنادِ جید کے ساتھ روایت کیا ہے اور اس کے راوی ثقات مشہور ہیں۔ امام ہیثمی نے بھی فرمایا: اِس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں سوائے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے بھتیجے کے (لیکن) وہ بھی ثقہ ہیں۔
211 / 2. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ فِي نَفَرٍ مِنَ الْمُهَاجِرِيْنَ وَالْأَنْصَارِ، فَجَاءَ بَعِيْرٌ، فَسَجَدَ لَه. فَقَالَ أَصْحَابُه: يَا رَسُوْلَ اللهِ، تَسْجُدُ لَکَ الْبَهَائِمُ وَالشَّجَرُ، فَنَحْنُ أَحَقُّ أَنْ نَسْجُدَ لَکَ. فَقَالَ: اعْبُدُوْا رَبَّکُمْ وَأَکْرِمُوْا أَخَاکُمْ. وَلَوْ کُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا. …الحديث.
رَوَاهُ أَحْمَدُ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: إِسْنَادُه جَيِّدٌ.
2: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 76، الرقم: 24515، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 9، 4 / 310، وابن کثير في شمائل الرسول / 326، والمناوي في فيض القدير، 5 / 329.
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مہاجرین و انصار کی ایک جماعت میں تشریف فرما تھے کہ ایک اونٹ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سجدہ ریز ہو گیا۔ صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کو جانور اور درخت سجدہ کرتے ہیں جبکہ ہم زیادہ حقدار ہیں کہ آپ کو سجدہ کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنے ربّ کی عبادت کرو اور اپنے بھائی کی عزت کرو۔ اگر میں کسی فردِ بشر کو حکم دیتا کہ وہ کسی اور کو سجدہ کرے تو میں ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہرکو سجدہ کرے۔‘‘
اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِس کی اسناد جید ہے۔
212 / 3. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما أَنَّ رَجُـلًا مِنَ الْأَنْصَارِ کَانَ لَه فَحْـلَانِ، فَاغْتَلَمَا. فَأَدْخَلَهُمَا حَائِطًا فَسَدَّ عَلَيْهِمَا الْبَابَ ثُمَّ جَاءَ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَأَرَادَ أَنْ يَدْعُوَ لَه، وَالنَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم قَاعِدٌ وَمَعَه نَفَرٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللهِ، إِنِّي جِئْتُ فِي حَاجَةٍ، وَأَنَّ فَحْلَيْنِ لِي اغْتَلَمَا وَأَنِّي أَدْخَلْتُهُمَا حَائِطًا وَسَدَدْتُ الْبَابَ عَلَيْهِمَا، فَأُحِبُّ أَنْ تَدْعُوَ لِي أَنْ يُسَخِّرَهُمَا اللهُ لِي. فَقَالَ لِأَصْحَابِه: قُوْمُوْا مَعَنَا. فَذَهَبَ حَتّٰی أَتَی الْبَابَ فَقَالَ: افْتَحْ. فَأَشْفَقَ الرَّجُلُ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: افْتَحْ. فَفَتَحَ الْبَابَ، فَإِذَا أَحَدُ الْفَحْلَيْنِ قَرِيْبٌ مِنَ الْبَابِ، فَلَمَّا رَأَی النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم سَجَدَ لَه. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: ائْتِنِي بِشَيئٍ أَشُدُّ بِه رَأْسَه وَأُمَکِّنُکَ مِنْه. فَجَاءَ بِخِطَامٍ فَشَدَّ بِه رَأْسَه وَأَمْکَنَه مِنْه، ثُمَّ مَشَی إِلٰی أَقْصَی الْحَائِطِ إِلَی الْفَحْلِ الْآخَرِ. فَلَمَّا رَآهُ وَقَعَ لَه سَاجِدًا، فَقَالَ لِلرَّجُلِ: ائْتِنِي بِشَيئٍ أَشُدُّ بِه رَأْسَه. فَشَدَّ رَأْسَه وَأَمْکَنَه مِنْه، فَقَالَ: اذْهَبْ فَإِنْهُمَا لَا يَعْصِيَانِکَ. فَلَمَّا رَأَی أَصْحَابُ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ذَالِکَ، قَالَ: قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، هٰذَيْنِ فَحْلَيْنِ لَا يَعْقِلَانِ سَجَدَا لَکَ. أَفَـلَا نَسْجُدُ لَکَ؟ قَالَ: لَا آمُرُ أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ. وَلَوْ أَمَرْتُ أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَفِيْهِ أَبُوْ عُزَّةَ الدَّبَّاغُ وَثَّقَهُ ابْنُ حِبَّانَ وَاسْمُهُ الْحَکَمَ بْنُ طَهْمَانَ وَبَقِيَةُ رِجَالِه ثِقَاتٌ.
3: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 356، الرقم: 12003، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 4.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری شخص کے پاس دو اُونٹ تھے وہ دونوں سرکش ہو گئے۔ اُس نے اُن دونوں کو ایک باغ کے اندر قید کر دیا اور پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کے لیے دعا فرمائیں۔ (وہ جب حاضر ہوا تو) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انصار کے ایک گروہ میں تشریف فرما تھے۔ اُس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ کے پاس ایک حاجت لے کر حاضر ہوا ہوں۔ میرے دو اُونٹ ہیں جو سرکش ہو گئے ہیں۔ میں نے اُنہیں باغ میں داخل کر کے دروازہ بند کر دیا ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ آپ میرے لیے دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں میرا فرماں بردار بنا دے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: اُٹھو، میرے ساتھ آؤ۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلے یہاں تک کہ اُس باغ کے دروازے پر تشریف لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دروازہ کھولو۔ اُس شخص کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے خدشہ تھا (کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جانور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کر دیں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا: دروازہ کھولو۔ اُس نے دروازہ کھول دیا۔ دونوں اُونٹوں میں سے ایک دروازہ کے قریب ہی کھڑا تھا۔ جب اُس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو فوراً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس کوئی چیز لاؤ جس کے ساتھ باندھ کر میں اُسے تمہارے حوالے کر دوں۔ وہ صحابی ایک نکیل لے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس سے اُسے باندھ دیا اور اُسے صحابی کے حوالے کر دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باغ کے دوسرے حصے کی طرف چلے جہاں دوسرا اُونٹ تھا۔ اُس نے بھی جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس صحابی سے فرمایا: مجھے کوئی چیز لا دو جس سے میں اِس کا سر باندھ دوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا سر باندھ کر اُسے بھی صحابی کے حوالے کر دیا اور فرمایا: جاؤ اب یہ تمہاری نافرمانی نہیں کریں گے۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ سارا واقعہ دیکھا تو عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ! یہ اُونٹ جو کہ بے عقل ہیں آپ کو سجدہ کرتے ہیں تو کیا ہم بھی آپ کو سجدہ نہ کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں کسی انسان کو یہ حکم نہیں دیتا کہ وہ کسی دوسرے انسان کو سجدہ کرے۔ اگر میں کسی انسان کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو میں ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔‘‘
اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
امام ہیثمی نے فرمایا: اِس کی سند میں ابو عزہ الدباغ راوی ہے جسے امام ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے اور اس کا نام حکم بن طہمان ہے اور اِس کے باقی رجال بھی ثقہ ہیں۔
213 / 4. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما أَنَّ نَاضِحًا لِبَعْضِ بَنِي سَلَمَةَ اغْتَلَمَ. فَصَالَ عَلَيْهِمْ وَامْتَنَعَ عَلَيْهِمْ حَتّٰی عَطَشَتْ نَخْلَةٌ. فَانْطَلَقَ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَاشْتَکَی ذَالِکَ إِلَيْهِ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: انْطَلِقْ. وَذَهَبَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم مَعَه. فَلَمَّا بَلَغَ بَابَ النَّخْلِ قَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، لَا تَدْخُلْ، فَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْکَ مِنْهُ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: ادْخُلُوْا فَـلَا بَأْسَ عَلَيْکُمْ. فَلَمَّا رَآهُ الْجَمَلُ، أَقْبَلَ يَمْشِي وَاضِعًا رَأْسَه حَتّٰی قَامَ بَيْنَ يَدَيْهِ فَسَجَدَ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: ائْتُوْا جَمَلَکُمْ فَاخْطَمُوْهُ وَارْتَحِلُوْهُ. فَأَتَوْهُ فَخَطَمُوْهُ وَارْتَحَلُوْهُ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي الدَّلَائِلِ.
4: أخرجه البيهقي في دلائل النبوة، 6 / 28.
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ بنی سَلَمَہ کے کسی شخص کا اُونٹ مستی میں آ گیا۔ وہ لوگوں پر حملہ آور ہونے لگا۔ اُن کے کام سے رُک گیا یہاں تک کہ کھجور کے درخت (پانی نہ ملنے کی وجہ سے) خشک ہونے لگے۔ اُس شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اس امر کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: چلو چلیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بھی اس کے ساتھ تشریف لے گئے۔ جب بابِ نخل تک پہنچ گئے تو اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ اندر داخل نہ ہوں کیونکہ مجھے اس سے آپ کے حوالے سے خطرہ ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: داخل ہو جاؤ اور فکر نہ کرو۔ جب اونٹ کی نظر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پڑی تو سر جھکائے ہوئے چل کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے آ کھڑا ہوا، پھر سجدہ کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنے اونٹ کے پاس آؤ، اسے نکیل ڈالو اور اس پر کجاوہ رکھو۔ چنانچہ لوگوں نے آ کر اُسے نکیل ڈالی اور اُس پر کجاوہ رکھا۔‘‘
اِسے اِمام بیہقی نے دلائل النبوۃ میں روایت کیا ہے۔
214 / 5. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنْ سَفَرٍ، حَتّٰی إِذَا دَفَعْنَا إِلٰی حَائِطٍ مِنْ حِيْطَانِ بَنِي النَّجَّارِ، إِذَا فِيْهِ جَمَلٌ لَا يَدْخُلُ الْحَائِطَ أَحَدٌ إِلَّا شَدَّ عَلَيْهِ. قَالَ: فَذَکَرُوْا ذَالِکَ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَجَاءَ حَتّٰی أَتَی الْحَائِطَ. فَدَعَا الْبَعِيْرَ، فَجَاءَ وَاضِعًا مِشْفَرَه إِلَی الْأَرْضِ حَتّٰی بَرَکَ بَيْنَ يَدَيْهِ. قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: هَاتُوْا خِطَامًا. فَخَطَمَه وَدَفَعَه إِلٰی صَاحِبِه. قَالَ: ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَی النَّاسِ قَالَ: إِنَّه لَيْسَ شَيئٌ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِلَّا يَعْلَمُ أَنِّي رَسُوْلُ اللهِ إِلَّا عَاصِيَ الْجِنِّ وَالإِْنْسِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: قُلْتُ: فِي الصَّحِيْحِ بَعْضَه…وَفِيْهِ عَبْدُ الْحَکِيْمِ بْنُ سُفْيَانَ ذَکَرَهُ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ وَلَمْ يَجْرَحْه أَحَدٌ وَبَقِيَةُ رِجَالِه ثِقَاتٌ.
5: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 310، الرقم: 14372، والدارمي في السنن، 1 / 24، الرقم: 18، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 315، الرقم: 31719، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 337، الرقم: 1122، وابن حبان في الثقات، 4 / 223، الرقم: 2615، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 7.
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک سفر سے واپس آئے۔ راستے میں ہم بنو نجار کے ایک باغ میں پہنچے تو ہمیں معلوم ہوا کہ اُس باغ میں ایک سرکش اُونٹ ہے، جو باغ میں کسی کو داخل نہیں ہونے دیتا اور جو باغ میں داخل ہونا چاہے اُس پر حملہ کر دیتا ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے اِس بات کا ذکر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور باغ میں داخل ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُونٹ کو بلایا تو وہ اپنے ہونٹ زمین سے لگاتا ہوا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِس کی نکیل لاؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے نکیل دی اور اُسے اُس کے مالک کے سپرد کر دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: بے شک زمین و آسمان میں سوائے سرکش جنوں اور انسانوں کے کوئی چیز ایسی نہیں جو یہ تسلیم نہ کرتی ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔‘‘
اِسے امام احمد، دارمی، ابن ابی شیبہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: میں کہتا ہوں کہ یہ حدیث مختصراً (صحیح بخاری و مسلم) میں بھی ہے۔ اِس کی سند میں ایک راوی عبد الحکیم بن سفیان ہے۔ امام ابن ابی حاتم نے اُس کا ذکر بغیر کسی جرح کے کیا ہے اور اُس کے بقیہ تمام رجال بھی ثقات ہیں۔
215 / 6. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: دَخَلَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم حَائِطًا لِـلْأَنْصَارِ، وَمَعَه أَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ رضي الله عنهما وَرِجَالٌ مِنَ الْأَنْصَارِ. قَالَ: وَفِي الْحَائِطِ غَنَمٌ فَسَجَدَتْ لَه. قَالَ أَبُوْ بَکْرٍ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّا نَحْنُ أَحَقُّ بِالسُّجُوْدِ لَکَ مِنْ هٰذِهِ الْغَنَمِ. فَقَالَ: إِنَّه لَا يَنْبَغِي أَنْ يَسْجُدَ أَحَدٌ لِأَحَدٍ. وَلَوْ کَانَ يَنْبَغِي أَنْ يَسْجُدَ أَحَدٌ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا. رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْمَقْدِسِيُّ وَاللَّفْظُ لَه وَإِسْنَادُه حَسَنٌ.
6: أخرجه أبو نعيم في دلائل النبوة، 2 / 379، الرقم: 276، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 6 / 130. 131، الرقم: 2129، 2130.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اور چند دیگر انصار صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہمراہ انصار کے ایک باغ میں داخل ہوئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ باغ میں بکریاں تھیں۔ اُنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اُن بکریوں سے زیادہ ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم آپ کو سجدہ کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کسی انسان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے انسان کو سجدہ کرے اور اگر ایک دوسرے کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔‘‘
اِسے امام ابو نعیم اور مقدسی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے اور اُس کی اسناد حسن ہے۔
216 / 7. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ جَعْفَرٍ رضي الله عنهما قَالَ: فَدَخَلَ حَائِطًا لِرَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ فَإِذَا جَمَلٌ. فَلَمَّا رَأَی النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم حَنَّ وَذَرَفَتْ عَيْنَاهُ. فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَمَسَحَ ذِفْرَاه، فَسَکَتَ فَقَالَ: مَنْ رَبُّ هٰذَا الْجَمَلِ؟ لِمَنْ هٰذَا الْجَمَلُ؟ فَجَاءَ فَتًی مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ: لِي، يَا رَسُوْلَ اللهِ، فَقَالَ: أَفَـلَا تَتَّقِي اللهَ فِي هٰذِهِ الْبَهِيْمَةِ الَّتِي مَلَّکَکَ اللهُ إِيَاهَا، فَإِنَّه شَکَا إِلَيَّ أَنَّکَ تُجِيْعُه وَتُدْئِبُه.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: فِيْهِ عَبْدُ الْحَکِيْمِ بْنُ سُفْيَانَ ذَکَرَهُ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ وَلَمْ يَجْرَحْه أَحَدٌ وَبَقِيَةُ رِجَالِه ثِقَاتٌ.
7: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الجهاد، باب ما يؤمر به من القيام علی الدواب والبهائم، 3 / 23، الرقم: 2549، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 205، الرقم: 1754، وأبو يعلی في المسند، 12 / 157، الرقم: 6787، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 321، الرقم: 31756، والحاکم في المستدرک، 2 / 109، الرقم: 2485، والبيهقي في السنن الکبری، 8 / 13، الرقم: 15592، والطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 54، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 1 / 314، الرقم: 437، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1 / 159، الرقم: 186، وأبو عوانة في المسند، 1 / 197، 168، الرقم: 497، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 9 / 158. 160، الرقم: 1330. 1336، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 4 / 374، 27 / 374، والوادياشي في تحفة المحتاج، 2 / 238، الرقم: 1536، والنووي في رياض الصالحين، 1 / 243، الرقم: 243، والمزي في تهذيب الکمال، 6 / 165، وأبو المحاسن في معتصر المختصر، 2 / 19، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 8.
’’حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک انصاری شخص کے باغ میں داخل ہوئے تو وہاں ایک اُونٹ تھا۔ جب اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو وہ رو پڑا اور اُس کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کے پاس تشریف لے گئے اور اُس کے سر پر دستِ شفقت پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اُس اُونٹ کا مالک کون ہے اور یہ کس کا اونٹ ہے؟ انصار کا ایک نوجوان حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ میرا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس بے زبان جانور کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے جس کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں مالک بنایا ہے۔ اُس نے مجھے شکایت کی ہے کہ تم اُسے بھوکا رکھتے ہو اور اُس سے بہت زیادہ کام لیتے ہو۔‘‘
اِسے امام ابو داود، احمد، ابو یعلی، ابن ابی شیبہ، حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اِس حدیث کی سند صحیح ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِس کی سند میں عبد الحکیم بن سفیان نامی راوی ہیں امام ابن ابی حاتم نے اُن کا بغیر کسی جرح کے ذکر کیا ہے اور اس کے بقیہ تمام رجال بھی ثقہ ہیں۔
217 / 8. عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي الصَّحْرَاءِ فَإِذَا مُنَادٍ يُنَادِيْهِ ’’يَا رَسُوْلَ اللهِ‘‘ فَالْتَفَتَ فَلَمْ يَرَ أَحَدًا. ثُمَّ الْتَفَتَ فَإِذَا ظَبْيَةٌ مُوْثَقَةٌ فَقَالَتْ: أُدْنُ مِنِّي، يَا رَسُوْلَ اللهِ، فَدَنَا مِنْهَا فَقَالَ: حَاجَتُکِ؟ قَالَتْ: إِنَّ لِي خَشْفَيْنِ فِي ذَالِکَ الْجَبَلِ. فَخَلِّنِي حَتّٰی أَذْهَبَ فَأُرْضِعَهُمَا ثُمَّ أَرْجِعُ إِلَيْکَ. قَالَ: وَتَفْعَلِيْنَ؟ قَالَتْ: عَذَّبَنِيَ اللهُ عَذَابَ الْعَشَّارِ إِنْ لَمْ أَفْعَلْ. فَأَطْلَقَهَا، فَذَهَبَتْ، فَأَرْضَعَتْ خَشْفَيْهَا، ثُمَّ رَجَعَتْ، فَأَوْثَقَهَا. وَانْتَبَهَ الْأَعْرَابِيُّ فَقَالَ: لَکَ حَاجَةٌ، يَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، تُطْلِقُ هٰذِه. فَأَطْلَقَهَا، فَخَرَجَتْ تَعْدُوْ وَهِيَ تَقُوْلُ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلاَّ اللهُ وَأَنَّکَ رَسُوْلُ اللهِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
8: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 331، الرقم: 763، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 321، الرقم: 1176، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 4 / 380، والعسقلاني في لسان الميزان، 6 / 311، الرقم: 1124، وابن کثير في تحفة الطالب، 1 / 186، الرقم: 80، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 295.
’’حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیںکہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک صحراء میں سے گزر رہے تھے کہ کسی ندا دینے والے نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’یارسول اللہ‘ کہہ کر پکارا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس آواز کی طرف متوجہ ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سامنے کوئی نظر نہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ غور سے دیکھا تو وہاں ایک ہرنی بندھی ہوئی تھی۔ اُس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے قریب تشریف لائیے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے قریب ہوئے اور اس سے پوچھا: تمہاری کیا حاجت ہے؟ اُس نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) اُس پہاڑ میں میرے دو چھوٹے چھوٹے نومولود بچے ہیں۔ پس آپ مجھے آزاد کر دیجئے کہ میں جا کر اُنہیں دودھ پلا سکوں پھرمیں واپس لوٹ آؤں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: کیا تم ایسا ہی کرو گی؟ اُس نے عرض کیا: اگر میں ایسا نہ کروں تو اللہ تعالیٰ مجھے سخت عذاب دے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے آزاد کر دیا۔ وہ گئی اُس نے اپنے بچوں کو دودھ پلایا اور پھر واپس لوٹ آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے دوبارہ باندھ دیا۔ پھر اچانک وہ اعرابی (جس نے اس ہرنی کو باندھ رکھا تھا) متوجہ ہوا اور اُس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ کی کوئی خدمت کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اِس ہرنی کو آزاد کردو۔ تو اُس اعرابی نے اُسے فوراً آزاد کردیا۔ وہ وہاں سے دوڑتی ہوئی نکلی اور وہ یہ کہتی جارہی تھی: میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپ اللہتعالیٰ کے (سچے) رسول ہیں۔‘‘ اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
218 / 9. عَنْ سَفِيْنَةَ رضي الله عنه قَالَ: رَکِبْتُ الْبَحْرَ فِي سَفِيْنَةٍ، فَانْکَسَرَتْ فَرَکِبْتُ لَوْحًا مِنْهَا، فَطَرَحَنِي فِي أَجَمَةٍ فِيْهَا أَسَدٌ، فَلَمْ يَرُعْنِي إِلاَّ بِه فَقُلْتُ: يَا أَبَا الْحَارِثِ، أَنَا مَوْلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَطَأْطَأَ رَأْسَه وَغَمَزَ بِمَنْکَبِه شِقِّي، فَمَا زَالَ يَغْمِزُنِي وَيَهْدِيْنِي إِلَی الطَّرِيْقِ، حَتّٰی وَضَعَنِي عَلَی الطَّرِيْقِ، فَلَمَّا وَضَعَنِي هَمْهَمَ، فَظَنَنْتُ أَنَّه يُوَدِّعُنِي.
رَوَاه الْحَاکِمُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَغَوِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
9: أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 675، الرقم: 4235، وأيضًا، 3 / 702، الرقم: 6550، والبخاري في التاريخ الکبير، 3 / 195، الرقم: 663، والطبراني في المعجم الکبير، 7 / 80، الرقم: 6432، وابن راشد في الجامع، 11 / 281، واللالکائي في کرامات الأولياء، 1 / 158، الرقم: 114، والبغوي في شرح السنة، 13، 313، الرقم: 3732، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 400، الرقم: 5949.
’’حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں سمندر میں ایک کشتی پر سوار ہوا۔ وہ کشتی ٹوٹ گئی تو میں اُس کے ایک تختے پر سوار ہو گیا اُس نے مجھے ایک گھنے جنگل میں پھینک دیا جہاں شیر رہتا تھا۔ وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا کہ (اچانک) وہ شیر سامنے تھا۔ میں نے کہا: اے ابو الحارث (شیر)! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلام ہوں تو اُس نے فوراً اپنا سر خم کر دیا اور اپنے کندھے سے مجھے اشارہ کیا اور وہ اُس وقت تک مجھے اشارہ اور رہنمائی کرتا رہا جب تک کہ اُس نے مجھے صحیح راہ پرنہ ڈال دیا پھر جب اُس نے مجھے صحیح راہ پر ڈال دیا تو وہ دھیمی آواز میں غر غرایا۔ سو میں سمجھ گیا کہ وہ مجھے الوداع کہہ رہا ہے۔‘‘
اِسے امام حاکم، بخاری نے التاریخ الکبير میں، طبرانی اور بغوی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اِس حدیث کی سند صحیح ہے۔
219 / 10. عَنِ ابْنِ الْمُنْکَدِرِ أَنَّ سَفِيْنَةَ مَوْلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم أَخْطَأَ الْجَيْشَ بَأَرْضِ الرُّوْمِ أَوْ أُسِرَ فِي أَرْضِ الرُّوْمِ. فَانْطَلَقَ هَارِبًا يَلْتَمِسُ الْجَيْشَ فَإِذَا بِالْأَسَدِ. فَقَالَ لَه: يَا أَبَا الْحَارِثِ، أَنَا مَوْلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَإِنَّ مِنْ أَمْرِي کَيْتَ وَکَيْتَ. فَأَقْبَلَ الْأَسَدُ لَه بَصْبَصَةً حَتّٰی قَامَ إِلٰی جَنْبِه. کُلَّمَا سَمِعَ صَوْتًا أَتَی إِلَيْهِ ثُمَّ أَقْبَلَ يَمْشِي إِلٰی جَنْبِه. فَلَمْ يَزَلْ کَذَالِکَ حَتّٰی بَلَغَ الْجَيْشَ ثُمَّ رَجَعَ الْأَسَدُ. رَوَاهُ ابْنُ رَاشِدٍ وَالْبَيْهَقِيُّ.
10: أخرجه معمر بن راشد في الجامع، 11 / 281، والبيهقي فيدلائل النبوة، 6 / 46، واللالکائي في کرامات الأولياء، 1 / 159، الرقم: 114، وابن کثير في شمائل الرسول / 346347، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 400، الرقم: 5949.
’’حضرت ابن منکدر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ جو کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے ایک دفعہ روم کے علاقہ میں لشکرِ اسلام سے بچھڑ گئے یا وہ ارضِ روم میں قید کر دیئے گئے۔ وہ وہاں سے بھاگے تاکہ لشکر سے مل سکیں کہ اچانک ایک شیر اُن کے سامنے آ گیا۔ اُنہوں نے اُس سے کہا: اے ابو حارث! میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلام ہوں اور میرا معاملہ اِس طرح ہے (کہ میں لشکر سے بچھڑ گیا ہوں)۔ یہ سننا تھا کہ شیر فوراً دُم ہلاتا ہوا اُن کی طرف آیا اور اُن کے پہلو میں کھڑا ہو گیا۔ جب بھی وہ شیر (کسی درندے کی) آواز سنتا تو فوراً حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ کے آگے آجاتا (جب خطرہ ٹل جاتا تو) پھر وہ واپس آ جاتا اور اُن کے پہلو میں چلنا شروع کر دیتا۔ وہ اِسی طرح اُن کے ساتھ چلتا رہا یہاں تک کہ وہ لشکر میں پہنچ گئے۔ اِس کے بعد شیر واپس لوٹ آیا۔‘‘
اِسے امام ابن راشد اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
220 / 11. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه قَالَ: عَدَا الذِّئْبُ عَلٰی شَاةٍ فَأَخَذَهَا، فَطَلَبَهُ الرَّاعِي، فَانْتَزَعَهَا مِنْهُ، فَأَقْعَی الذِّئْبُ عَلٰی ذَنَبِه. قَالَ: أَ لَا تَتَّقِي اللهَ تَنْزِعُ مِنِّي رِزْقًا سَاقَهُ اللهُ إِلَيَّ؟ فَقَالَ: يَا عَجَبِي، ذِئْبٌ مُقْعٍ عَلٰی ذَنَبِه يُکَلِّمُنِي کَـلَامَ الإِنْسِ؟ فَقَالَ الذِّئْبُ: أَ لَا أُخْبِرُکَ بِأَعْجَبَ مِنْ ذَالِکَ؟ مُحَمَّدٌ صلی الله عليه وآله وسلم بِيَثْرِبَ يُخْبِرُ النَّاسَ بِأَنْبَاءِ مَا قَدْ سَبَقَ. قَالَ: فَأَقْبَلَ الرَّاعِي يَسُوْقُ غَنَمَه حَتّٰی دَخَلَ الْمَدِيْنَةَ، فَزَوَاهَا إِلٰی زَاوِيَةٍ مِنْ زَوَايَاهَا، ثُمَّ أَتَی رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأَخْبَرَه. فَأَمَرَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَنُوْدِيَ: الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ، ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ لِلرَّاعِي: أَخْبِرْهُمْ. فَأَخْبَرَهُمْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: صَدَقَ. وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِه، لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی يُکَلِّمَ السِّبَاعُ الإِنْسَ، وَيُکَلِّمُ الرَّجُلَ عَذَبَةُ سَوْطِه، وَشِرَاکُ نَعْلِه، وَيُخْبِرَه فَخِذُه بِمَا أَحْدَثَ أَهْلُه بَعْدَه. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ حُمَيْدٍ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ مُسْلِمٍ.
11: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 83، 88، الرقم: 11809، 11859، والحاکم في المستدرک، 4 / 514، الرقم: 8444، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 277، الرقم: 877، والبيهقي في دلائل النبوة، 6 / 41، 42، 43، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1 / 113، الرقم: 116، وابن کثير في شمائل الرسول / 339، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 291.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک بھیڑیا بکریوں پر حملہ آور ہوا اور اُن میں سے ایک بکری کو اُٹھا کر لے گیا۔ چرواہے نے اُس کا پیچھا کیا اور اُس سے بکری چھین لی۔ بھیڑیا پچھلی ٹانگوں کو زمین پر پھیلا کر سرین پر بیٹھ گیا اور اگلی ٹانگوں کو کھڑا کر لیا اور اُس نے چرواہے سے کہا: کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے کہ مجھ سے اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ رزق چھین رہے ہو؟ چرواہے نے حیران ہوکر کہا: بڑی حیران کن بات ہے کہ بھیڑیا اپنی دم پر بیٹھا مجھ سے انسانوں جیسی باتیں کر رہا ہے؟ بھیڑیے نے کہا: کیا میں تمہیں اِس سے بھی عجیب تر بات نہ بتاؤں؟ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کہ یثرب (مدینہ منورہ) میں تشریف فرما ہیں لوگوں کو گزرے ہوئے زمانے کی خبریں دیتے ہیں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ چرواہا فوراً اپنی بکریوں کو ہانکتا ہوا مدینہ منورہ میں داخل ہوا اور اُنہیں اپنے ایک ٹھکانہ پر چھوڑ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ پھر اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر باجماعت نماز کے لئے اذان کہی گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے اور چرواہے سے فرمایا: سب لوگوں کو اس واقعہ کی خبر دو۔ پس اُس نے وہ واقعہ سب کو سنایا۔ اُس کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِس نے سچ کہا۔ مجھے قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! قیامت اُس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ درندے انسان سے کلام نہ کریں اور انسان سے اُس کی چابک کی رسی اور جوتے کے تسمے کلام نہ کریں۔ اُس کی ران اُسے خبر دے گی کہ اُس کے بعد اُس کے گھر والے کیا کرتے رہے ہیں۔‘‘
اِسے امام احمد، حاکم اور ابن حمید نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔
221 / 12. عَنْ شِمْرِ بْنِ عَطِيَةَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ مُزَيْنَةَ أَوْ جُهَيْنَةَ قَالَ: صَلّٰی رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم الْفَجْرَ فَإِذَا هُوَ بِقَرِيْبٍ مِنْ مِائَةِ ذِئْبٍ قَدْ أَقْعَيْنَ وَفُوْدُ الذِّئَابِ. فَقَالَ لَهُمْ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: تَرْضَخُوْا لَهُمْ شَيْئًا مِنْ طَعَامِکُمْ وَتَأْمَنُوْنَ عَلٰی مَا سِوَی ذَالِکَ؟ فَشَکَوْا إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم الْحَاجَةَ. قَالَ: فَآذِنُوْهُنَّ. قَالَ: فَآذَنُوْهُنَّ فَخَرَجْنَ وَلَهُنَّ عُوَاءٌ.
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.
12: أخرجه الدارمي في السنن، المقدمة، باب ما أکرم اللہ به نبيه صلی الله عليه وآله وسلم من إيمان الشجر به والبهائم والجن، 1 / 25، الرقم: 22، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 4 / 376.
’’حضرت شمر بن عطیہ، مزینہ یا جہینہ کے ایک آدمی سے روایت بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازِ فجر ادا فرمائی۔ اچانک تقریباً ایک سو بھیڑئیے پچھلی ٹانگوں کو زمین پر پھیلا کر اور اگلی ٹانگوں کو اُٹھائے ہوئے اپنی سرینوں پر بیٹھے (باقی) بھیڑیوں کے قاصد بن کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (اے گروہ صحابہ!) تم اپنے کھانے پینے کی اشیاء میں سے تھوڑا بہت اُن کا حصہ بھی نکالا کرو اور باقی ماندہ کھانے کو (اُن بھیڑیوں سے) محفوظ کر لیا کرو۔ پھر اُنہوں (بھیڑیوں) نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی کسی حاجت کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِنہیں اجازت دو۔ راوی بیان کرتے ہیں اُنہوں نے اُن (بھیڑیوں) کو اجازت دی پھر وہ تھوڑی دیر بعد اپنی مخصوص آواز نکالتے ہوئے چل دیئے۔‘‘
اِسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔
222 / 13. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: کَانَ لآلِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَحْشٌ. فَإِذَا خَرَجَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم لَعِبَ وَاشْتَدَّ وَأَقْبَلَ وَأَدْبَرَ. فَإِذَا أَحَسَّ بِرَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَدْ دَخَلَ، رَبَضَ فَلَمْ يَتَرَمْرَمْ، مَا دَامَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي الْبَيْتِ، کَرَاهِيَةَ أَنْ يُؤْذِيَه. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَالطَّحَاوِيُّ.
وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُ أَحْمَدَ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
13: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 112، 150، الرقم: 24862، 25210، وأبو يعلی في المسند، 8 / 121، الرقم: 4660، وابن راهويه في المسند، 3 / 617، الرقم: 1192، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4 / 195، والبيهقي في دلائل النبوة، 6 / 31، وابن عبد البر في التمهيد، 6 / 314، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 3.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل (یعنی اہلِ بیت) کے لئے ایک جانور رکھا گیا۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لاتے تو وہ کھیلتا کودتا اور (خوشی سے) جوش میں آ جاتا اور (حالتِ وجد میں) کبھی آگے بڑھتا اور کبھی پیچھے آتا۔ اور جب وہ یہ محسوس کرتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اندر تشریف لے گئے ہیں تو پھر ساکت کھڑا ہو جاتا، اور جب تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر میں موجود رہتے کوئی حرکت نہ کرتا، اِس ڈر سے کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف نہ ہو۔‘‘
اِسے امام احمد، ابو یعلی اور طحاوی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: امام احمد کی سند کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
223 / 14. عَنْ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنه قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي سَفَرٍ فَانْطَلَقَ لِحَاجَتِه فَرَأَيْنَا حُمَرَةً مَعَهَا فَرْخَانِ فَأَخَذْنَا فَرْخَيْهَا فَجَائَتِ الْحُمَرَةُ فَجَعَلَتْ تَفْرِشُ فَجَاءَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: مَنْ فَجَعَ هٰذِه بِوَلَدِهَا رُدُّوْا وَلَدَهَا إِلَيْهَا وَرَأَی قَرْيَةَ نَمْلٍ قَدْ حَرَّقْنَاهَا فَقَالَ: مَنْ حَرَّقَ هٰذِه؟ قُلْنَا: نَحْنُ، قَالَ: إِنَّه لَا يَنْبَغِي أَنْ يُعَذِّبَ بِالنَّارِ إِلَّا رَبُّ النَّارِ.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ.
14: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الجهاد، باب في کراهية حرق العدو بالنار، 3 / 55، الرقم: 2675، وأيضًا فيکتاب الأدب، باب في قتل الذر، 4 / 367، الرقم: 5268، والذهبي في الکبائر، 1 / 206، والزيلعي في نصب الراية، 3 / 407، والنووي في رياض الصالحين / 367، الرقم: 367.
’’حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک سفر میں ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے تو ہم نے ایک چڑیا دیکھی جس کے ساتھ دو بچے تھے۔ ہم نے اُس کے بچے پکڑ لئے تو وہ چڑیا پھڑپھڑانے لگی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کس نے اِسے اِس کے بچوں کی وجہ سے تڑپایا ہے؟ اِس کے بچے اِسے لوٹا دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چیونٹیوں کا ایک بِل دیکھا جسے ہم نے جلا دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِسے کس نے جلایا ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے: (یا رسول اللہ!) ہم نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آگ کے ساتھ عذاب دینا، آگ کے (پیدا کرنے والے) ربّ کے سوا کسی کے لئے مناسب نہیں ہے۔‘‘
اِسے امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔
224 / 15. عَنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي سَفَرٍ وَمَرَرْنَا بِشَجَرَةٍ فِيْهَا فَرْخَا حُمَّرَةٍ، فَأَخَذْنَاهُمَا. قَالَ: فَجَائَتِ الْحُمَّرَةُ إِلٰی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم وَهِيَ تَصِيْحُ، فَقَالَ: مَنْ فَجَعَ هٰذِه بِفَرْخَيْهَا؟ قَالَ: فَقُلْنَا: نَحْنُ. قَالَ: رُدُّوْهُمَا. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
15: أخرجه الحاکم في المستدرک، 4 / 267، الرقم: 7599، والبيهقي في دلائل النبوة، 1 / 321، والهناد في الزهد، 2 / 620، الرقم: 1337، والجزري في النهاية، 4 / 121.
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے، ہم ایک درخت کے پاس سے گزرے جس میں چَنڈُول(ایک خوش آواز چڑیا) کے دو بچے تھے، ہم نے وہ دوبچے اُٹھا لئے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ چَنڈُول حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں شکایت کرتے ہوئے حاضر ہوئی۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کس نے اِس چَنڈُول کو اِس کے بچوں کی وجہ سے تکلیف دی ہے؟ راوی بیان کرتے ہیں: ہم نے عرض کیا: ہم نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِس کے بچے اِسے لوٹا دو۔‘‘
اِسے امام حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اِس حدیث کی سند صحیح ہے۔
225 / 16. عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه قاَلَ: کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي سَفَرٍ فَمَرَرْنَا بِشَجَرَةٍ فِيْهَا فَرْخَا حُمَّرَةٍ، فَأَخَذْنَاهُمَا. قَالَ: فَجَائَتِ الْحُمَّرَةُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم وَهِيَ تَعَرَّضُ، فَقَالَ: مَنْ فَجَعَ هٰذِه بِفَرْخَيْهَا؟ قَالَ: قُلْنَا: نَحْنُ. قَالَ: رُدُّوْهُمَا قَالَ: فَرَدَدْنَاهُمَا إِلٰی مَوَاضِعِهِمَا. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
16: أخرجه البيهقي في دلائل النبوة، 1 / 321، والهناد في الزهد، 2 / 620، الرقم: 1337.
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے ہم ایک درخت کے پاس سے گزرے جس میں چَنڈُول(ایک خوش آواز چڑیا) کے دو بچے تھے۔ ہم نے وہ دوبچے اُٹھا لئے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ چَنڈُول حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں شکایت کرتے ہوئے حاضر ہوئی۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کس نے اس چَنڈُول کو اس کے بچوں کی وجہ سے تکلیف دی ہے؟ راوی بیان کرتے ہیں: ہم نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) ہم نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِس کے بچے اِسے لوٹا دو۔ راوی بیان کرتے ہیں: پس ہم نے وہ دو بچے جہاں سے لیے تھے وہیں رکھ دیئے۔‘‘ اِسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved