حضور ﷺ کے خصائص دنیوی کا بیان

حضور ﷺ کی شان اقدس پر اعتراض اور طعنہ زنی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب دیے جانے کا بیان

بَابٌ فِي رَدِّ اللهِ سُبْحَانَه وَتَعَالٰی عَلَی الْمُعْتَرِضِيْنَ عَلَيْهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَالطَّاعِنِيْنَ فِيْهِ

{حضور ﷺ کی شانِ اقدس پر اعتراض اور طعنہ زنی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب دیے جانے کا بیان}

84 / 1. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: صَعِدَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم الصَّفَا ذَاتَ يَوْمٍ فَقَالَ: يَا صَبَاحَاهُ فَاجْتَمَعَتْ إِلَيْهِ قُرَيْشٌ قَالُوا: مَا لَکَ؟ قَالَ: أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَخْبَرْتُکُمْ أَنَّ الْعَدُوَّ يُصَبِّحُکُمْ أَوْ يُمَسِّيْکُمْ أَمَا کُنْتُمْ تُصَدِّقُونَنِي قَالُوْا: بَلٰی، قَالَ: فَإِنِّي نَذِيْرٌ لَکُمْ بَيْنَ يَدَي عَذَابٍ شَدِيْدٍ فَقَالَ أَبُوْ لَهَبٍ: تَبًّا لَکَ أَلِهٰذَا جَمَعْتَنَا؟ فَأَنْزَلَ اللهُ {تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ}. مُتَّفَقٌ عَليْهِ.

1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب قوله: إن هو إلا نذير لکم بين يدي عذاب شديد، 4 / 1804، الرقم: 4523، وأيضًا في باب قوله: وتبّ ما أغنی عنه ماله وما کسب، 4 / 1902، الرقم: 4688، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب في قوله تعالی: وأنذر عشيرتک الأقربين، 4 / 1902، الرقم: (355) 208، والترمذي في السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة تبّت يدا، 5 / 451، الرقم: 3363، وقال: هذا حديث حسن صحيح، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 244، الرقم: 10819، وأيضًا في عمل اليوم والليلة، 1 / 543، الرقم: 983، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 281، الرقم: 2544، وابن منده في الإيمان، 2 / 884، الرقم: 951.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوہِ صفا پر تشریف لائے اور دستور کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آواز دی: ’اے لوگو! فریاد کو پہنچو‘ یہ سن کر قریش کے تمام افراد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اکٹھے ہو گئے اور پوچھا: بتائیے کس لیے بلایا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر میں آپ لوگوں سے یہ کہوں کہ دشمن جمع ہو کر صبح یا شام کو تم پر حملہ کرنے والے ہیں تو کیا تم مجھے سچا مانو گے؟ سب نے کہا: کیوں نہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک میں تو سخت عذاب (کے آنے) سے پہلے تمہیں (بروقت) ڈر سنانے والا ہوں (تاکہ تم غفلت سے جاگ اُٹھو)۔ اِس پر ابو لہب نے کہا: (العیاذ باللہ) آپ ہلاک ہو جائیں کیا ہمیں اس لیے اکٹھا کیا ہے۔ اِس پر اللہ تعالیٰ نے سورہ اللھب نازل فرمائی: ’’ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ ہو جائے۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

85 / 2. عَنْ جُنْدُبِ بْنِ سُفْيَانَ رضي الله عنه قَالَ: اشْتَکَی رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَلَمْ يَقُمْ لَيْلَتَيْنِ أَوْ ثَـلَاثًا فَجَاءَتْهُ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ: يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي لَأَرْجُوْ أَنْ يَکُوْنَ شَيْطَانُکَ قَدْ تَرَکَکَ لَمْ أَرَهُ قَرِبَکَ مُنْذُ لَيْلَتَيْنِ أَوْ ثَـلَاثٍ قَالَ: فَأَنْزَلَ اللهُ عزوجل {وَالضُّحَیo وَاللَّيْلِ إِذَا سَجٰیo مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلٰیo} [الضحٰی، 93: 13]، قَوْلُه: {مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلٰی} تُقْرَأُ بِالتَّشْدِيْدِ وَالتَّخْفِيْفِ بِمَعْنًی وَاحِدٍ مَا تَرَکَکَ رَبُّک. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: مَا تَرَکَکَ وَمَا أَبْغَضَکَ. مُتَّفَقٌ عَليْهِ.

2: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب ما ودّعک ربّک وما قلی، 4 / 1892، الرقم: 4667، ومسلم في الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب ما لقي النبي صلی الله عليه وآله وسلم من أذی المشرکين والمنافقين، 3 / 1422، الرقم: (115) 1797، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 312، الرقم: 18823، وأبو عوانة في المسند، 4 / 342، الرقم: 6912، والطبراني في المعجم الکبير، 2 / 173، الرقم: 1711، والبيهقي في السنن الکبری، 3 / 14، الرقم: 4497، والنووي في شرحه علی صحيح مسلم، 12 / 156، والعيني في عمدة القاري، 7 / 171.

’’حضرت جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیمار ہوگئے تو دو یا تین راتیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیام نہ فرمایا۔ پس ایک عورت (ابو سفیان کی بہن عورا بنت حرب زوجہ ابو لہب) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر کہنے لگی: اے محمد! مجھے اُمید ہے کہ تمہارے شیطان نے تمہیں چھوڑ دیا ہے کیونکہ میں نے دو تین راتوں سے اُسے تمہارے پاس آتے ہوئے نہیں دیکھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں: ’’(اے حبیب مکرم!) قسم ہے چاشت (کی طرح آپ کے چہرہ انور) کی (جس کی تابانی نے تاریک روحوں کو روشن کر دیاo) (اے حبیبِ مکرّم!) قَسم ہے سیاہ رات کی (طرح آپ کی زلفِ عنبریں کی) جب وہ (آپ کے رُخِ زیبا یا شانوں پر) چھا جائےo) آپ کے رب نے (جب سے آپ کو منتخب فرمایا ہے) آپ کو نہیں چھوڑا اور نہ ہی (جب سے آپ کو محبوب بنایا ہے) ناراض ہوا ہےo‘‘ اللہ تعالیٰ کے فرمان: {مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلٰی} اِسے دال کی تشدید سے پڑھیں یا تخفیف سے، دونوں صورتوں میں معنی ایک ہی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس نے اِس کی تفسیر میں فرمایا: نہ اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑا اور نہ ہی آپ سے ناراض ہوا ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

86 / 3. عَنْ جُنْدُبٍ رضي الله عنه يَقُوْلُ: أَبْطَأَ جِبْرِيْلُ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ الْمُشْرِکُوْنَ: قَدْ وُدِّعَ مُحَمَّدٌ فَأَنْزَلَ اللهُ: {وَالضُّحَیo وَاللَّيْلِ إِذَا سَجٰیo مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلٰیo} [الضحٰی، 93: 13].

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

3: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب ما لقي النبي صلی الله عليه وآله وسلم من أذی المشرکين والمنافقين، 3 / 1421، الرقم: (114) 1797، والترمذي في السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة والضحی، 5 / 442، الرقم: 3345، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 4 / 475، الرقم: 2533، وأبو عوانة في المسند، 4 / 342، الرقم: 6909، والطبراني في المعجم الکبير، 2 / 173، الرقم: 1712، والحميدي في المسند، 2 / 342، الرقم: 777، والعسقلاني في فتح الباري، 3 / 8، الرقم: 1072، والسيوطي في الدر المنثور، 8 / 540.

’’حضرت جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام کے آنے میں تاخیر ہو گئی، مشرکین کہنے لگے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو چھوڑ دیا گیا تب اللہ تعالیٰ ل نے یہ آیت نازل کی: (اے حبیب مکرم!) قسم ہے چاشت (کی طرح آپ کے چہرہ انور) کی (جس کی تابانی نے تاریک روحوں کو روشن کر دیاo) (اے حبیبِ مکرّم!) قَسم ہے سیاہ رات کی (طرح آپ کی زلفِ عنبریں کی) جب وہ (آپ کے رُخِ زیبا یا شانوں پر) چھا جائےo) آپ کے رب نے (جب سے آپ کو منتخب فرمایا ہے) آپ کو نہیں چھوڑا اور نہ ہی (جب سے آپ کو محبوب بنایا ہے) ناراض ہوا ہےo۔‘‘

اِس حدیث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

87 / 4. عَنْ عِکْرِمَة عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: لَمَّا قَدِمَ کَعْبُ بْنُ الأَشْرَفِ مَکَّةَ قَالَتْ لَهُ قُرَيْشٌ: أَنْتَ خَيْرُ أَهْلِ الْمَدِيْنَةِ وَسَيِّدُهُمْ قَالَ: نَعَمْ قَالُوْا: أَلَا تَرَی إِلٰی هٰذَا الْمُنْبَتِرِ مِنْ قَوْمِه يَزْعَمُ أَنَّه خَيْرٌ مِنَّا وَنَحْنُ يَعْنِي أَهْلَ الْحَجِيْجِ وَأَهْلِ السَّدَانَةِ. قَالَ أَنْتُمْ خَيْرٌ مِنْه فَنَزَلَتْ: {اِنَّ شَانِئَکَ هُوَ الْاَبْتَرُ} [الکوثر، 108: 3]، وَنَزَلَتْ {اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِينَ اُوْتُوْا نَصِيْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ يُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ} إِلٰی قَوْلِه: { فَلَنْ تَجِدَ لَه نَصِيْرًا} [النساء، 4: 51].

رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَالنُّمَيْرِيُّ. وَقَالَ ابنُ کَثِيْرٍ: هٰکَذَا رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَهُوَ إِسْنَادٌ صَحِيْحٌ.

4: أخرجه النسائي في السنن الکبری، باب قوله تعالی: إن شانئک هو الأبتر، 6 / 524، الرقم: 11707، والنميري في أخبار المدينة، 1 / 250، الرقم: 815، والطبري في جامع البيان، 5 / 133، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 514، وأيضًا، 4 / 560.

’’حضرت عکرمہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا: جب کعب بن اشرف مکہ آیا تو قریش نے اُس سے کہا: تو مدینہ کا سب سے بہتر انسان اور اہلِ مدینہ کا سردار ہے؟ اُس نے کہا: ہاں، اُنہوں نے کہا: کیا تو اُس شخص کو نہیں دیکھتا جو اپنی قوم سے کٹا ہوا ہے، اور گمان کرتا ہے کہ وہ ہم سے بہتر ہے جبکہ ہم حاجیوں والے اور خانہ کعبہ کی تولیت والے ہیں۔ اُس نے کہا: تم اُس سے بہتر ہو۔ اِس پر یہ آیت نازل ہوئی: ’’بے شک آپ کا دشمن ہی بے نسل اور بے نام و نشاں ہو گا‘‘ اور یہ آیت نازل ہوئی: ’’کیا آپ نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں (آسمانی) کتاب کا حصہ دیا گیا ہے (پھر بھی) وہ بتوں اور شیطان پر ایمان رکھتے ہیں‘‘ اللہ تعالیٰ کے اِس فرمان تک: ’’تو اُس کے لیے ہرگز کوئی مددگار نہ پائے گا‘‘۔‘‘

اِسے امام نسائی اور نمیری نے روایت کیا ہے۔ علامہ ابن کثیر نے کہا: امام بزار نے بھی اِسی طرح روایت کیا ہے اور اِس کی اِسناد صحیح ہے۔

88 / 5. عَنْ عِکْرِمَةَ رضي الله عنه قَالَ: لَمَّا أَوْحِيَ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَتْ قُرَيْشٌ: بُتِرَ مُحَمَّدٌ فَنَزَلَتْ: {اِنَّ شَانِئَکَ هُوَ الْاَبْتَرُ} [الکوثر، 108: 3]، الَّذِي رَمَاکَ بِه هُوَ الْأَبْتَرُ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

5: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 326، الرقم: 31796، والطبري في جامع البيان، 30 / 330، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4 / 560، وابن عدي في الکامل، 7 / 85، الرقم: 2009، والذهبي في ميزان الاعتدال، 7 / 117، والسيوطي في الدر المنثور، 8 / 652.

’’حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف (کچھ عرصہ) وحی نازل نہ کی گئی تو قریش نے کہا: محمد مصطفی (العیاذ باللہ) بے نام ہو گئے تو یہ آیت اُتری: ’’بے شک آپ کا دشمن ہی بے نسل اور بے نام و نشاں ہو گا۔‘‘ بے شک آپ کو طعنہ دینے والا ہی نسل بریدہ اور بے نام و نشان ہے۔‘‘

اِسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved