140 / 1. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّ أَهْلَ مَکَّةَ سَأَلُوْا رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنْ يُرِيَهُمْ آيَةً، فَأَرَاهُمُ انْشِقَاقَ الْقَمَرِ مَرَّتَيْنِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وََاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
141 / 2. وفي رواية: عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه قَالَ: انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلٰی عَهْدِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فِلْقَتَيْنِ. فَسَتَرَ الْجَبَلُ فِلْقَةً وَکَانَتْ فِلْقَهٌ فَوْقَ الْجَبَلِ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: اَللّٰهُمَّ اشْهَدْ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
1-2: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب سؤال المشرکين أن يريهم النبي صلی الله عليه وآله وسلم آية، فأراهم انشقاق القمر، 3 / 1330، الرقم: 3437. 3439، وأيضًا في کتاب التفسير / القمر، باب وَانْشَقَّ الْقَمَرُ: وَإِنْ يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوْا، ]1، 2[، 4 / 1843، الرقم: 4583. 4587، ومسلم في الصحيح، کتاب صفات المنافقين وأحکامهم، باب انشقاق القمر، 4 / 2158. 2159، الرقم: 2800. 2801، والترمذي في السنن، کتاب تفسير، باب من سورة القمر، 5 / 398، الرقم: 3285. 3289، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 476، الرقم: 1552. 1553، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 377، الرقم: 3583، 3924، 4360، وابن حبان في الصحيح، 4 / 420، الرقم: 6495، والحاکم في المستدرک، 2 / 513، الرقم: 3758. 3761، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ، والبزار في المسند، 5 / 202، الرقم: 1801. 1802، وأبويعلی في المسند، 5 / 306، الرقم: 2929، والطبراني في المعجم الکبير، 2 / 132، الرقم: 1559. 1561، والطيالسي في المسند، 1 / 37، الرقم: 280، والشاشي في المسند، 1 / 402، الرقم: 404.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اہلِ مکہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معجزہ دکھانے کا مطالبہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دو مرتبہ چاند کے دو ٹکڑے کر کے دکھائے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
’’اور ایک روایت میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا واقعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک میں پیش آیا۔ ایک ٹکڑا پہاڑ میں چھپ گیا اور ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر تھا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! توگواہ رہنا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
142 / 3. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ: أُتِيَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِإِنَاءٍ، وَهُوَ بِالزَّوْرَاءِ، فَوَضَعَ يَدَه فِي الإِنَاءِ، فَجَعَلَ الْمَاءُ يَنْبُعُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِه، فَتَوَضَّأَ الْقَوْمُ. قَالَ قَتَادَةُ: قُلْتُ لِأَ نَسٍ: کَمْ کُنْتُمْ؟ قَالَ: ثَـلَاثَ مِائَةٍ، أَوْ زُهَاءَ ثَـلَاثِ مِائَةٍ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
3: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1309. 1310، الرقم: 3379. 3380، 5316، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب في معجزات النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 4 / 1783، الرقم: 2279، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب (6)، 5 / 596، الرقم: 3631، ومالک في الموطأ، 1 / 32، الرقم: 62، والشافعي في المسند، 1 / 15، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 132، الرقم: 12370، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 316، الرقم: 31724، والبيهقي في السنن الکبری، 1 / 193، الرقم: 878.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں پانی کا ایک برتن پیش کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زوراء کے مقام پر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے برتن کے اندر اپنا دستِ مبارک رکھ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک انگلیوں کے درمیان سے پانی کے چشمے پھوٹ نکلے اور تمام لوگوں نے وضو کر لیا۔ حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا: آپ کتنے (لوگ) تھے؟ انہوں نے جواب دیا: تین سو یا تین سو کے لگ بھگ۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
143 / 4. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنَّ عِفْرِيْتًا مِنَ الْجِنِّ تَفَلَّتَ عَلَيَّ الْبَارِحَةَ أَوْ کَلِمَةً نَحْوَهَا لِيَقْطَعَ عَلَيَّ الصَّـلَاةَ فَأَمْکَنَنِي اللهُ مِنْه فَأَرَدْتُ أَنْ أَرْبِطَه إِلٰی سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ حَتّٰی تُصْبِحُوْا وَتَنْظُرُوْا إِلَيْهِ کُلُّکُمْ فَذَکَرْتُ قَوْلَ أَخِي سُلَيْمَانَ: {رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْکًا لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي} [ص، 38: 35]، قَالَ رَوْحٌ: فَرَدَّهُ خَاسِئًا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
144 / 5. وفي رواية لأحمد: قَالَ: رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: فَلَوْ أَخَذْتُه مَا انْفَلَتَ مِنِّي حَتّٰی يُنَاطَ إِلٰی سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ يَنْظُرُ إِلَيْهِ وِلْدَانُ أَهْلِ الْمَدِيْنَةِ.
وفي رواية: حَتّٰی يُطِيْفَ بِه وِلْدَانُ أَهْلِ الْمَدِيْنَةِ.
4-5: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الصلاة، باب الأسير أو الغريم يربط في المسجد، 1 / 176، الرقم: 449، وأيضًا في کتاب أحاديث الأنبياء، باب قول اللہ تعالی: ووهبنا لداود سليمان نعم العبد إنه أوّاب، 3 / 1260، الرقم: 3241، وأيضًا في کتاب تفسير القرآن، باب قوله: وهب لي ملکا لا ينبغي لأحد من بعدي إنک أنت الوهاب، 4 / 1809، الرقم: 4530، ومسلم في الصحيح، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب جواز لعن الشيطان في أثناء الصلاة، 1 / 384، الرقم: 541، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 443، الرقم: 11440، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 298، الرقم: 7956، 5 / 104، الرقم: 21038، وابن حبان في الصحيح، 14 / 328، الرقم: 6419، والدار قطني في السنن، 1 / 365، الرقم: 16.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: گزشتہ رات ایک سرکش جن اچانک میرے سامنے آ گیا یا ایسا ہی لفظ ارشاد فرمایا تاکہ میری نماز توڑ دے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر غلبہ عطا فرما دیا تو میں نے چاہا کہ اسے مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون سے باندھ دوں تاکہ صبح کے وقت تم سارے اسے دیکھتے لیکن مجھے اپنے بھائی حضرت سلیمان علیہ السلام کا قول یاد آ گیا ’’کہ اے میرے پروردگار! مجھے بخش دے، اور مجھے ایسی حکومت عطا فرما کہ میرے بعد کسی کو میسّر نہ ہو۔‘‘ حضرت روح کا بیان ہے کہ اسے ذلیل کر کے بھگا دیا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
’’امام احمد بن حنبل کی روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میں اسے پکڑ لیتا تو وہ مجھ سے بھاگ نہ سکتا یہاں تک کہ اسے مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ باندھ دیا جاتا، اہلِ مدینہ کے بچے اسے دیکھتے۔‘‘
’’اور ایک روایت میں فرمایا: یہاں تک کہ اہلِ مدینہ کے بچے اس کے گرد چکر کاٹتے پھرتے۔‘‘
145 / 6. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ: أَصَابَ أَهْلَ الْمَدِيْنَةِ قَحْطٌ عَلٰی عَهْدِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَبَيْنَا هُوَ يَخْطُبُ يَوْمَ جُمُعَةٍ إِذْ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، هَلَکَتِ الْکُرَاعُ هَلَکَتِ الشَّاءُ فَادْعُ اللهَ يَسْقِيْنَا فَمَدَّ يَدَيْهِ وَدَعَا قَالَ أَنَسٌ: وَإِنَّ السَّمَاءَ لَمِثْلُ الزُّجَاجَةِ فَهَاجَتْ رِيْحٌ أَنْشَأَتْ سَحَابًا ثُمَّ اجْتَمَعَ ثُمَّ أَرْسَلَتِ السَّمَاءُ عَزَالِيَهَا فَخَرَجْنَا نَخُوْضُ الْمَاءَ حَتّٰی أَتَيْنَا مَنَازِلَنَا فَلَمْ نَزَلْ نُمْطَرُ إِلَی الْجُمُعَةِ الْأُخْرَی فَقَامَ إِلَيْهِ ذَالِکَ الرَّجُلُ أَوْ غَيْرُه فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، تَهَدَّمَتِ الْبُيُوْتُ فَادْعُ اللهَ يَحْبِسْه فَتَبَسَّمَ ثُمَّ قَالَ: حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا فَنَظَرْتُ إِلَی السَّحَابِ تَصَدَّعَ حَوْلَ الْمَدِيْنَةِ کَأَنَّه إِکْلِيْلٌ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
6: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1313، الرقم: 3389، ومسلم في الصحيح، کتاب الاستسقاء، باب الدعاء في الاستسقاء، 2 / 614، الرقم: 897، وأبو داود في السنن، کتاب صلاة الاستسقاء، باب رفع اليدين في الاستسقاء، 1 / 304، الرقم: 1174، والبخاري في الأدب المفرد / 214، الرقم: 612، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 95، الرقم: 2601، وأيضًا في الدعاء / 596. 597، الرقم: 2179، وابن عبد البر في الاستذکار، 2 / 434، والحسيني في البيان والتعريف، 2 / 26، الرقم: 957.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ایک دفعہ اہل مدینہ (شدید) قحط سے دوچار ہوگئے۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہوکر عرض کیا: یا رسول اللہ! گھوڑے ہلاک ہوگئے، بکریاں مرگئیں، اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ ہمیں پانی مرحمت فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس وقت آسمان شیشے کی طرح صاف تھا لیکن ہوا چلنے لگی، بادل گھر کر جمع ہوگئے اور آسمان نے ایسا اپنا منہ کھولا کہ ہم برستی ہوئی بارش میں اپنے گھروں کو گئے اور متواتر اگلے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ پھر (آئندہ جمعہ) وہی شخص یا کوئی دوسرا آدمی کھڑا ہوکر عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! گھر تباہ ہو رہے ہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ اب اس (بارش) کو روک لے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اس شخص کی بات سن کر) مسکرا پڑے اور (اپنے سرِ اقدس کے اوپر بارش کی طرف انگلی مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے) فرمایا: ’’ہمیں چھوڑ کر ہمارے گردا گرد برسو۔‘‘ تو ہم نے دیکھا کہ اسی وقت بادل مدینہ منورہ کے اوپر سے ہٹ کر یوں چاروں طرف چھٹ گئے گویا وہ تاج ہیں (یعنی تاج کی طرح دائرہ کی شکل میں پھیل گئے)۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
146 / 7. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: أَصَابَتِ النَّاسَ سَنَهٌ عَلٰی عَهْدِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَبَيْنَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَخْطُبُ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ قَامَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، هَلَکَ الْمَالُ وَجَاعَ الْعِيَالُ فَادْعُ اللهَ لَنَا فَرَفَعَ يَدَيْهِ وَمَا نَرَی فِي السَّمَاءِ قَزَعَةً فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِه، مَا وَضَعَهَا حَتّٰی ثَارَ السَّحَابُ أَمْثَالَ الْجِبَالِ ثُمَّ لَمْ يَنْزِلْ عَنْ مِنْبَرِه حَتّٰی رَأَيْتُ الْمَطَرَ يَتَحَادَرُ عَلٰی لِحْيَتِه صلی الله عليه وآله وسلم فَمُطِرْنَا يَوْمَنَا ذَالِکَ وَمِنَ الْغَدِ وَبَعْدَ الْغَدِ وَالَّذِي يَلِيْهِ حَتّٰی الْجُمُعَةِ الْأُخْرَی وَقَامَ ذَالِکَ الْأَعْرَابِيُّ أَوْ قَالَ: غَيْرُه فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، تَهَدَّمَ الْبِنَاءُ وَغَرِقَ الْمَالُ فَادْعُ اللهَ لَنَا فَرَفَعَ يَدَيْهِ فَقَالَ: اَللّٰهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا فَمَا يُشِيْرُ بِيَدِه إِلٰی نَاحِيَةٍ مِنَ السَّحَابِ إِلَّا انْفَرَجَتْ وَصَارَتِ الْمَدِيْنَةُ مِثْلَ الْجَوْبَةِ وَسَالَ الْوَادِي قَنَاةُ شَهْرًا وَلَمْ يَجِيئُ أَحَدٌ مِنْ نَاحِيَةٍ إِلَّا حَدَّثَ بِالْجَوْدِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
7: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب الاستسقاء في الخطبة يوم الجمعة، 1 / 315، الرقم: 891، وأيضًا في باب من تمطر في المطر حتی يتحادر علی لحيته، 1 / 349، الرقم: 986، ومسلم في الصحيح، کتاب صلاة الاستسقاء، باب، الدعاء في الاستسقاء، 2 / 614، الرقم: 897، والنسائي في السنن، کتاب الاستسقاء، باب رفع الإمام يديه عند مسألة إمساک المطر، 3 / 166، الرقم: 1528، وابن الجارود في المنتقی، 1 / 75، الرقم: 256، والطبراني في الدعاء، 1 / 297، الرقم: 957.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں لوگ قحط سالی میں مبتلا ہو گئے۔ ایک مرتبہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعہ کے روز خطبہ دے رہے تھے تو ایک اعرابی کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! مال ہلاک ہو گیا اور بچے بھوکے مر گئے، اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے۔ ہم نے اس وقت آسمان میں بادل کا کوئی ٹکڑا تک نہیں دیکھا تھا پھر قسم اس کی ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے ہی تھے کہ پہاڑوں جیسے بادل اُمڈ آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر سے اترے بھی نہیں کہ میں نے بارش کے قطرے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک سے ٹپکتے دیکھے۔ اس روز بارش برسی، اگلے روز بھی، اس سے اگلے روز بھی یہاں تک کہ اگلے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ پس وہی اعرابی کھڑا ہوا یا کوئی دوسرا شخص اور عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! مکانات گر گئے اور مال ڈوب گیا۔ اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا کیجئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے اور کہا: اے اللہ! ہمارے اردگرد برسا، ہم پر نہیں۔ پس جس طرف دست مبارک سے اشارہ کرتے ادھر کے بادل چھٹ جاتے یہاں تک کہ مدینہ منورہ (کے اوپر) ایک دائرہ سا بن گیا۔ قناہ نامی نالہ مہینہ بھر بہتا رہا اور جو بھی آتا وہ اس بارش کا حال بیان کرتا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
147 / 8. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ: عَطِشَ النَّاسُ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ، وَالنَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بَيْنَ يَدَيْهِ رِکْوَهٌ فَتَوَضَّأَ، فَجَهِشَ النَّاسُ نَحْوَه، فَقَالَ: مَا لَکُمْ؟ قَالُوْا: لَيْسَ عِنْدَنَا مَاءٌ نَتَوَضَّأُ وَلَا نَشْرَبُ إِلَّا مَا بَيْنَ يَدَيْکَ، فَوَضَعَ يَدَه فِي الرِّکْوَةِ، فَجَعَلَ الْمَاءُ يَثُوْرُ بَيْنَ أَصَابِعِه کَأَمْثَالِ الْعُيُوْنِ، فَشَرِبْنَا وَتَوَضَّأْنَا قُلْتُ: کَمْ کُنْتُمْ؟ قَالَ: لَوْکُنَّا مِائَةَ أَلْفٍ لَکَفَانَا‘ کُنَّا خَمْسَ عَشْرَةَ مِائَةً. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَابْنُ خُزَيْمَةَ.
8: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1310، الرقم: 3383، وأيضًا في کتاب المغازی، باب غزوة الحديبية، 4 / 1526، الرقم: 3921. 3923، وأيضًا في کتاب الأشربة، باب شرب البرکة والماءِ المبارک، 5 / 2135، الرقم: 5316، وأيضًا في کتاب التفسير / الفتح، باب إِذْ يُبَايِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ: (18)، 4 / 1831، الرقم: 4560، والدارمي في السنن، 1 / 21، الرقم: 27، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 329، الرقم: 14562، وابن خزيمة في الصحيح، 1 / 65، الرقم: 125، وابن حبان في الصحيح، 14 / 480، الرقم: 6542، وأبو يعلی في المسند، 4 / 82، الرقم: 2107، والبيهقي في الاعتقاد، 1 / 272، وابن الجعد في المسند، 1 / 29، الرقم: 82.
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حدیبیہ کے دن لوگوں کو پیاس لگی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پانی کی ایک چھاگل رکھی ہوئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے وضو فرمایا: لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف جھپٹے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے پاس وضو کے لئے پانی ہے نہ پینے کے لئے۔ صرف یہی پانی ہے جو آپ کے سامنے رکھا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (یہ سن کر) دستِ مبارک چھاگل کے اندر رکھا تو فوراً چشموں کی طرح پانی انگلیوں کے درمیان سے جوش مار کر نکلنے لگا چنانچہ ہم سب نے (خوب پانی) پیا اور وضو بھی کر لیا۔ (سالم راوی کہتے ہیں) میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اس وقت آپ کتنے آدمی تھے؟ انہوں نے کہا: اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تب بھی وہ پانی سب کے لئے کافی ہو جاتا، جبکہ ہم تو پندرہ سو تھے۔‘‘
اِسے امام بخاری، احمد، دارمی اور ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔
148 / 9. عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه في رواية طويلة قَالَ: سِرْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم حَتّٰی نَزَلْنَا وَادِيًا أَفْيَحَ، فَذَهَبَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقْضِي حَاجَتَه. فَاتَّبَعْتُه بِإِدَاوَةٍ مِنْ مَاءٍ. فَنَظَرَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَلَمْ يَرَ شَيْئًا يَسْتَتِرُ بِه فَإِذَا شَجَرَتَانِ بِشَاطِيئِ الْوَادِي. فَانْطَلَقَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم إِلٰی إِحْدَاهُمَا فَأَخَذَ بِغُصْنٍ مِنْ أَغْصَانِهَا. فَقَالَ: انْقَادِي عَلَيَّ بِإِذْنِ اللهِ. فَانْقَادَتْ مَعَه کَالْبَعِيْرِ الْمَخْشُوْشِ الَّذِي يُصَانِعُ قَائِدَه حَتّٰی أَتَی الشَّجَرَةَ الْأُخْرَی. فَأَخَذَ بِغُصْنٍ مِنْ أَغْصَانِهَا. فَقَالَ: انْقَادِي عَلَيَّ بِإِذْنِ اللهِ فَانْقَادَتْ مَعَه کَذَالِکَ، حَتّٰی إِذَا کَانَ بِالْمُنْصَفِ مِمَّا بَيْنَهُمَا، لَأَمَ بَيْنَهُمَا يَعْنِي جَمَعَهُمَا فَقَالَ: الْتَئِمَا عَلَيَّ بِإِذْنِ اللهِ فَالْتَأَمَتَا. قَالَ جَابِرٌ: فَخَرَجْتُ أُحْضِرُ مَخَافَةَ أَنْ يُحِسَّ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم بِقُرْبِي فَيَبْتَعِدَ فَجَلَسْتُ أُحَدِّثُ نَفْسِي. فَحَانَتْ مِنِّي لَفْتَهٌ، فَإِذَا أَنَا بِرَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم مُقْبِـلًا. وَإِذَا الشَّجَرَتَانِ قَدِ افْتَرَقَتَا. فَقَامَتْ کُلُّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا عَلٰی سَاقٍ. فَرَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَقَفَ وَقْفَةً فَقَالَ بِرَأْسِه هٰکَذَا وَأَشَارَ أَبُوْ إِسْمَاعِيْلَ بِرَأْسِه يَمِيْنًا وَشِمَالًا ثُمَّ أَقْبَلَ فَلَمَّا انْتَهَی إِلَيَّ قَالَ: يَا جَابِرُ، هَلْ رَأَيْتَ مَقَامِي؟ قُلْتُ: نَعَمْ، يَا رَسُوْلَ اللهِ، قَالَ: فَانْطَلِقْ إِلَی الشَّجَرَتَيْنِ فَاقْطَعْ مِنْ کُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا غُصْنًا. فَأَقْبِلْ بِهِمَا. حَتّٰی إِذَا قُمْتَ مَقَامِي فَأَرْسِلْ غُصْنًا عَنْ يَمِيْنِکَ وَغُصْنًا عَنْ يَسَارِکَ. قَالَ جَابِرٌ: فَقُمْتُ فَأَخَذْتُ حَجَرًا فَکَسَرْتُه وَحَسَرْتُه. فَانْذَلَقَ لِي. فَأَتَيْتُ الشَّجَرَتَيْنِ فَقَطَعْتُ مِنْ کُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا غُصْنًا. ثُمَّ أَقْبَلْتُ أَجُرُّهُمَا حَتّٰی قُمْتُ مَقَامَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، أَرْسَلْتُ غُصْنًا عَنْ يَمِيْنِي وَغُصْنًا عَنْ يَسَارِي، ثُمَّ لَحِقْتُهُ فَقُلْتُ: قَدْ فَعَلْتُ يَا رَسُوْلَ اللهِ، فَعَمَّ ذَاکَ؟ قَالَ: إِنِّي مَرَرْتُ بِقَبْرَيْنِ يُعَذَّبَانِ. فَأَحْبَبْتُ: بِشَفَاعَتِي، أَنْ يُرَفَّهَ عَنْهُمَا مَا دَامَ الْغُصْنَانِ رَطْبَيْنِ…الحديث.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ حِبَّانَ.
9: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الزهد والرقائق، باب حديث جابر الطويل، وقصة أبي اليَسَر، 4 / 2306، الرقم: 3012، وابن حبان في الصحيح، 14 / 455. 456، الرقم: 6524، والبيهقي في السنن الکبری، 1 / 94، الرقم: 452، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1 / 53. 55، الرقم: 37، وابن عبد البر في التمهيد، 1 / 222، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 383، الرقم: 5885.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ (ایک غزوہ) کے سفر پر روانہ ہوئے یہاں تک کہ ہم ایک کشادہ وادی میں پہنچے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رفع حاجت کے لئے تشریف لے گئے۔ میں پانی وغیرہ لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (اردگرد) دیکھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پردہ کے لئے کوئی چیز نظر نہ آئی، وادی کے کنارے دو درخت تھے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان میں سے ایک درخت کے پاس گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی شاخوںمیں سے ایک شاخ پکڑی اور فرمایا: اللہ تعالیٰ کے حکم سے میری اطاعت کر۔ وہ درخت اس اونٹ کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانبردار ہوگیا جس کی ناک میں نکیل ہو اور وہ اپنے ہانکنے والے کے تابع ہو پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسرے درخت کے پاس گئے اور اس کی شاخوں میں سے ایک شاخ پکڑ کر فرمایا: اللہ کے اذن سے میری اطاعت کر، وہ درخت بھی پہلے درخت کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع ہو گیا یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں درختوں کے درمیان پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں درختوں کو ملا دیا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ کے اذن سے جڑ جاؤ، سو وہ دونوں درخت جڑ گئے، حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس خیال سے نکلا کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے قریب دیکھ کر کہیں مزید دور نہ چلے جائیں، میں وہاں بیٹھا اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا، میں نے اچانک دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس تشریف لا رہے ہیں اور وہ دونوں درخت اپنے اپنے سابقہ اصل مقام پر کھڑے تھے۔ میں نے دیکھا ایک لحظہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں کھڑے رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سر مبارک سے اس طرح اشارہ کیا: (راوی ابو اسماعیل نے اپنے سر سے دائیں بائیں اشارہ کیا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری طرف آنے لگے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے جابر! تم نے وہ مقام دیکھا تھا جہاں میں کھڑا تھا۔ میں نے عرض کیا: جی ہاں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان دونوں درختوں کے پاس جاؤ اور ان میں سے ہر ایک کی ایک ایک شاخ کاٹ کر لاؤ اور جب اس جگہ پہنچو جہاں میں کھڑا تھا تو ایک شاخ اپنی دائیں جانب اور ایک شاخ اپنی بائیں جانب ڈال دینا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کھڑے ہو کر ایک پتھر توڑا اور اسے تیز کیا، پھر میں ان درختوں کے پاس گیا اور ہر ایک سے ایک ایک شاخ توڑی، پھر میں انہیں گھسیٹ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کھڑے ہونے کی جگہ لایا اس جگہ ایک شاخ دائیں جانب اور ایک شاخ بائیں جانب ڈال دی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے آپ کے حکم پر عمل کر دیا ہے۔ مگر (کیا میں جان سکتا ہوں کہ) اس عمل کا سبب کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں اس جگہ دو قبروں کے پاس سے گزرا جن میں قبر والوں کو عذاب ہو رہا تھا، میں نے چاہا کہ میری شفاعت کے سبب جب تک وہ شاخیں سرسبز و تازہ رہیں گی ان کے عذاب میں کمی ہوتی رہے گی۔‘‘ اِسے امام مسلم اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
149 / 10. عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضي الله عنه قَالَ: قَامَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَسَمِعْنَاهُ يَقُوْلُ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنْکَ ثُمَّ قَالَ: أَلْعَنُکَ بِلَعْنَةِ اللهِ ثَـلَاثًا وَبَسَطَ يَدَهُ کَأَنَّه يَتَنَاوَلُ شَيْئًا فَلَمَّا فَرَغَ مِنَ الصَّـلَاةِ قُلْنَا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، قَدْ سَمِعْنَاکَ تَقُوْلُ فِي الصَّـلَاةِ شَيْئًا لَمْ نَسْمَعْکَ تَقُوْلُه قَبْلَ ذَالِکَ وَرَأَيْنَاکَ بَسَطْتَ يَدَکَ، قَالَ: إِنَّ عَدُوَّ اللهِ إِبْلِيْسَ جَاءَ بِشِهَابٍ مِنْ نَارٍ لِيَجْعَلَه فِي وَجْهِي فَقُلْتُ: أَعُوْذُ بِاللهِ مِنْکَ ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ قُلْتُ: أَلْعَنُکَ بِلَعْنَةِ اللهِ التَّامَّةِ فَلَمْ يَسْتَأْخِرْ ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ أَرَدْتُ أَخْذَهُ. وَاللهِ، لَوْلَا دَعْوَةُ أَخِيْنَا سُلَيْمَانَ لَأَصْبَحَ مُوْثَقًا يَلْعَبُ بِه وِلْدَانُ أَهْلِ الْمَدِيْنَةِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ خُزَيْمَةَ.
10: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب جواز لعن الشيطان في أثناء الصلاة والتعوذ منه، 1 / 385، الرقم: 542، والنسائي في السنن، کتاب السهو، باب لعن إبليس التعوذ باللہ منه في الصلاة، 3 / 13، الرقم: 1215، وأيضًا في السنن الکبری، 1 / 196، الرقم: 549، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 105، الرقم: 21044، وابن خزيمة في الصحيح، 2 / 50، الرقم: 891.
’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز شروع کرنے کے بعد یہ کلمات فرما رہے تھے: اعوذ باللہ منک (میں تجھ سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں) پھر فرمایا: میں تین بار تجھ پر اللہ تعالیٰ کی لعنت کرتا ہوں، پھر اپنا داہنا ہاتھ بڑھایا جیسے کوئی چیز پکڑ رہے ہوں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم نے آج آپ سے نماز میں ایسے کلمات سنے جو پہلے کبھی نہ سنے تھے اور آپ کو نماز میں ہاتھ بڑھاتے ہوئے بھی دیکھا۔ آپ نے فرمایا: اللہ کا دشمن ابلیس (العیاذ باللہ) میرے چہرے پر ڈالنے کے لیے آگ کے انگارے لے کر آیا تو میں نے تین بار کہا: اعوذ باللہ منک۔ پھر میں نے تین بار کہا: میں اللہ تعالیٰ کی مکمل لعنت تجھ پر ڈالتا ہوں۔ وہ پیچھے نہیں ہٹا بالآخر میں نے اسے پکڑنے کا ارادہ کیا بخدا! اگر مجھے سلیمان علیہ السلام کی دعا کا خیال نہ ہوتا تو (میں اسے پکڑ کر باندھ دیتا اور) وہ صبح تک بندھا رہتا اور مدینہ منورہ کے بچے اس کے ساتھ کھیلتے رہتے۔‘‘
اِس حدیث کو امام مسلم، نسائی، احمد اور ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔
150 / 11. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: إِنَّ رَجُـلًا کَانَ يَکْتُبُ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم وَقَدْ قَرَأَ الْبَقَرَةَ، وَآلَ عِمْرَانَ، وَکَانَ الرَّجُلُ إِذَا قَرَأَ الْبَقَرَةَ، وَآلَ عِمْرَانَ جَدَّ فِيْنَا يَعْنِي عَظُمَ … فَارْتَدَّ ذَالِکَ الرَّجُلِ عَنِ الإِسْـلَامِ، فَلَحِقَ بِالْمُشْرِکِيْنَ، وَقَالَ: أَنَا أَعْلَمُکُمْ إِنْ کُنْتُ لَأَکْتُبُ مَا شِئْتُ فَمَاتَ ذَالِکَ الرَّجُلُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: إِنَّ الْأَرْضَ لَمْ تَقْبَلْه، وَقَالَ أَنَسٌ رضي الله عنه: فَحَدَّثَنِي أَبُوْ طَلْحَةَ رضي الله عنه أَنَّه أَتَی الْأَرْضَ الَّتِي مَاتَ فِيْهَا ذَالِکَ الرَّجُلُ فَوَجَدَه مَنْبُوْذًا، فَقَالَ أَبُوْ طَلْحَةَ: مَا شَأْنُ هٰذَا الرَّجُلِ؟ فَقَالُوْا: قَدْ دَفَنَّاه مِرَارًا فَلَمْ تَقْبَلْهُ الْأَرْضُ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَمُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَاللَّفْظُ لَه.
11: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1325، الرقم: 3421، ومسلم في الصحيح، کتاب صفات المنافقين وأحکامهم، 4 / 2145، الرقم: 2781، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 120، 245، الرقم: 12236، 13348، وأبويعلی في المسند، 7 / 22، الرقم: 3919، وابن حبان في الصحيح، 3 / 19، الرقم: 744، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 381، الرقم: 1278، والبيهقي في السنن الصغری، 1 / 568، الرقم: 1054، وأيضًا في إثبات عذاب القبر، 1 / 56، الرقم: 54، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 387، الرقم: 5798، وأبو المحاسن في معتصر المختصر، 2 / 188، والعيني في عمدة القاري، 16 / 150، الرقم: 121.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے کتابت کیا کرتا تھا اور اس آدمی نے سورہ بقرہ اور آل عمران پڑھ رکھی تھی، اور جس کسی آدمی نے سورہ بقرہ اور آل عمران پڑھ رکھی ہوتی تھی، تو وہ ہم میں نہایت معزز گردانا جاتا تھا … وہ شخص اسلام سے مرتد ہو گیا اور مشرکوں سے جا ملا اور ان سے کہنے لگا کہ میں تم میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں میں محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے جو چاہتا لکھ دیتا تھا سو جب وہ شخص مر گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کو زمین بھی قبول نہیں کرے گی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہیں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ وہ اس جگہ آئے جہاں وہ شخص مرا تھا تو دیکھا اس کی لاش زمین پر باہر پڑی تھی۔ انہوں نے لوگوں سے پوچھا کہ اس شخص کا کیا معاملہ ہے؟ تو لوگوں نے بتایا کہ ہم نے اسے کئی بار دفن کیا ہے مگر زمین نے اسے قبول نہیں کیا (اور جب بھی اسے دفن کیا گیا تو زمین نے ہر بار اسے باہر نکال پھینکا)۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، مسلم اور اَحمد نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
151 / 12. عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ رضي الله عنها قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يُوْحٰی إِلَيْهِ وَرَأْسُه فِي حِجْرِ عَلِيٍّ رضي الله عنه فَلَمْ يُصَلِّ الْعَصْرَ حَتّٰی غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: اَللّٰهُمَّ إِنَّ عَلِيًّا فِي طَاعَتِکَ وَطَاعَةِ رَسُوْلِکَ فَارْدُدْ عَلَيْهِ الشَّمْسَ قَالَتْ أَسْمَاءُ رضي الله عنها: فَرَأَيْتُهَا غَرَبَتْ وَرَأَيْتُهَا طَلَعَتْ بَعْدَ مَا غَرَبَتْ.
رَوَاهُ الطَّحَاوِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَه وَرِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ. وَقَالَ الشَّيْبَانِيُّ فِي ’’الْحَدَائِقِ‘‘: أَخْرَجَهُ الطَّحَاوِيُّ بِإِسْنَادَيْنِ صَحِيْحَيْنِ.
12: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 24 / 147، الرقم: 390، والهيثمی في مجمع الزوائد، 8 / 297، والذهبی في ميزان الاعتدال، 5 / 205، وابن کثير في البداية والنهاية، 6 / 83، والقاضی عياض في الشفاء، 1 / 400، والسيوطی في الخصائص الکبری، 2 / 137، والحلبي في السيرة الحلبية، 2 / 103، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 15 / 197.
’’حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہو رہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر اقدس حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا وہ عصر کی نماز نہ پڑھ سکے یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی: اے اللہ! علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھا اس پر سورج واپس لوٹا دے۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اسے غروب ہوتے ہوئے بھی دیکھا اور پھر یہ بھی دیکھا کہ وہ غروب ہونے کے بعد دوبارہ طلوع ہوا۔‘‘
اِسے امام طحاوی اور طبرانی نے مذکورہ الفاظ سے روایت کیا ہے۔ اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔ امام شیبانی نے حدائق الانوار میں فرمایا: اس حدیث کو امام طحاوی نے دو صحیح اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے۔
152 / 13. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: بِمَ أَعْرِفُ أَنَّکَ نَبِيٌّ؟ قَالَ: إِنْ دَعَوْتُ هٰذَا الْعِذْقَ مِنْ هٰذِهِ النَّخْلَةِ، أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُوْلُ اللهِ؟ فَدَعَاهُ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَجَعَلَ يَنْزِلُ مِنَ النَّخْلَةِ حَتّٰی سَقَطَ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ثُمَّ قَالَ: ارْجِعْ. فَعَادَ، فَأَسْلَمَ الْأَعْرَابِيُّ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
13: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في آيات إثبات نبوة النبي صلی الله عليه وآله وسلم وما قد خصه اللہ عزوجل، 5 / 594، الرقم: 3628، والحاکم في المستدرک، 2 / 676، الرقم: 4237، والطبراني في المعجم الکبير، 12 / 110، الرقم: 12622، والبخاري في التاريخ الکبير، 3 / 3، الرقم: 6، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 9 / 538، 539، الرقم: 527، والبيهقي في الاعتقاد، 1 / 48، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 394، الرقم: 5924.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: مجھے کیسے علم ہو گا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر میں کھجور کے اس درخت پر لگے ہوئے اس کے گچھے کو بلاؤں تو کیا تو گواہی دے گا کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بلایا تو وہ درخت سے اترنے لگا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں آگرا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا: واپس چلے جاؤ۔ تو وہ واپس چلا گیا۔ اس اعرابی نے (نباتات پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ تصرف) دیکھ کر اسی وقت اسلام قبول کر لیا۔‘‘
اِسے امام ترمذی، حاکم، طبرانی اور بخاری نے التاریخ الکبير میں نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
153 / 14. عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ رضي الله عنهما عَنْ أَبِيْهِ قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا خَطَبَ قَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ فَکَانَ يَشُقُّ عَلَيْهِ قِيَامُهُ فَأُتِيَ بِجِذْعِ نَخْلَةٍ فَحُفِرَ لَه وَأُقِيْمَ إِلٰی جَنْبِه قَائِمًا لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَکَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا خَطَبَ فَطَالَ الْقِيَامُ عَلَيْهِ وَغَلَبَهُ اسْتَنَدَ إِلَيْهِ فَاتَّکَأَ عَلَيْهِ فَبَصُرَ بِه رَجُلٌ کَانَ وَرَدَ الْمَدِيْنَةَ فَرَآهُ قَائِمًا إِلٰی جَنْبِ ذَالِکَ الْجِذْعِ فَقَالَ لِمَنْ يَلِيْهِ مِنَ النَّاسِ: لَوْ أَعْلَمُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَحْمَدُنِي فِي شَيئٍ يَرْفُقُ بِه لَصَنَعْتُ لَه مَجْلِسًا يَقُوْمُ عَلَيْهِ فَإِنْ شَاءَ جَلَسَ مَا شَاءَ وَإِنْ شَاءَ قَامَ. فَبَلَغَ ذَالِکَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ اِئْتُوْنِي بِه. فَأَتَوْهُ بِه فَأُمِرَ أَنْ يَصْنَعَ لَه هٰذِهِ الْمَرَاقِيَ الثَّلاَثَ أَوِ الْأَرْبَعَ هِيَ الآنَ فِي مِنْبَرِ الْمَدِيْنَةِ فَوَجَدَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي ذَالِکَ رَاحَةً فَلَمَّا فَارَقَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم الْجِذْعَ وَعَمَدَ إِلٰی هٰذِهِ الَّتِي صُنِعَتْ لَه جَزِعَ الْجِذْعُ فَحَنَّ کَمَا تَحِنُّ النَّاقَةُ حِيْنَ فَارَقَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَزَعَمَ ابْنُ بُرَيْدَةَ رضي الله عنه عَنْ أَبِيْهِ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم حِيْنَ سَمِعَ حَنِيْنَ الْجِذْعِ رَجَعَ إِلَيْهِ فَوَضَعَ يَدَه عَلَيْهِ وَقَالَ: اِخْتَرْ أَنْ أَغْرِسَکَ فِي الْمَکَانِ الَّذِي کُنْتَ فِيْهِ فَتَکُوْنَ کَمَا کُنْتَ وَإِنْ شِئْتَ أَنْ أَغْرِسَکَ فِي الْجَنَّةِ فَتَشْرَبَ مِنْ أَنْهَارِهَا وَعُيُوْنِهَا فَيَحْسُنَ نَبْتُکَ وَتُثْمِرَ فَيَأْکُلَ أَوْلِيَاءُ اللهِ مِنْ ثَمَرَتِکَ وَنَخْلِکَ فَعَلْتُ. فَزَعَمَ أَنَّه سَمِعَ مِنَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُوَ يَقُوْلُ لَه: نَعَمْ، قَدْ فَعَلْتُ مَرَّتَيْنِ. فَسُئِلَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: اِخْتَارَ أَنْ أَغْرِسَه فِي الْجَنَّةِ. رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.
154 / 15. وفي رواية: عَنْ عَمْرِو بْنِ يَخْلُوا لسِّرَحِيِّ عَنِ الشَّافِعِيِّ رضي الله عنه قَالَ: مَا أَعْطَی اللهُ نَبِيًّا مَا أَعْطَی مُحَمَّدًا صلی الله عليه وآله وسلم ؟ فَقُلْتُ: أَعْطَی عِيْسٰی عليه السلام إِحْيَاءَ الْمَوْتٰی فَقَالَ: أَعْطَی مُحَمَّدًا صلی الله عليه وآله وسلم حَنِيْنَ الْجِذْعِ الَّذِي کَانَ يَخْطُبُ إِلٰی جَنَبِه هُيِّیَ لَهُ الْمِنْبَرُ حَنَّ الْجِذْعُ حَتّٰی سُمِعَ صَوْتُه فَهٰذَا أَکْبَرُ مِنْ ذَالِکَ. رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْبَيْهَقِيُّ.
14-15: أخرجه الدارمي في السنن، المقدمة، باب ما أکرم النبي صلی الله عليه وآله وسلم بحنين المنبر، 1 / 29، الرقم: 32، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 9 / 116، والبيهقي في الاعتقاد، 1 / 271، وأيضًا في دلائل النبوة، 6 / 68، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 4 / 391، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 603، الرقم: 3393، وابن کثير في شمائل الرسول، 1 / 251، والعيني في عمدة القاري، 16 / 129، الرقم: 5853.
’’حضرت ابن بریدہ رضی اللہ عنہما اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب خطاب فرماتے تو کھڑے ہو کر فرماتے اور دوران خطاب کبھی قیام طویل ہو جاتا تو یہ طوالت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت مقدسہ پر گراں گزرتی، تب ایک کھجور کا خشک تنا ایک گڑھا کھود کر گاڑھ دیا گیا، پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب خطاب فرماتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قیام طویل اور تھکا دینے والا ہو جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کھجور کے خشک تنے کا سہارا لے لیتے اور اس کے ساتھ ٹیک لگا لیتے، پس ایک شخص نے جو کہ یہیں سے مدینہ منورہ آیا ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس حالت میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کھجور کے تنے کے پہلو میں کھڑے ہیں، تو اس شخص نے اپنے آس پاس بیٹھے ہوئے لوگوں سے کہا: اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری اس چیز کو پسند فرمائیں گے جو ان کے لئے آرام دہ ہوگی تو میں ان کے لئے ایک ایسی مسند تیار کردوں، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیام فرما ہو سکیں اور اگر جتنی دیر چاہیں اس پر تشریف فرما بھی جائیں۔ یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کو میرے پاس لے کر آؤ۔ تو صحابہ کرام اس شخص کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں آئے۔ پس اس شخص کو حکم دے دیا گیا کہ وہ تین یا چار پائیدان والا منبر تیار کر دے، جسے آج ’’منبر المدینہ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس میں راحت محسوس کی۔ پس جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس خشک کھجور کے تنے سے جدائی اختیار کی اور اس منبر پر جلوہ افروز ہوئے جو ان کے لئے بنایا گیا تھا، تو وہ خشک لکڑی کا تنا غمناک ہوگیا، اور ایسے دھاڑیں مارنے لگا جیسے اونٹنی اپنے (گمشدہ) بچے کے لئے دھاڑیں مارتی ہے۔ حضرت ابن بریدہ رضی اللہ عنہما اپنے والد سے یہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس خشک تنے کی آہ و بکاء سنی تو اس کے پاس تشریف لائے اور اپنا دستِ اقدس اس پر رکھا اور فرمایا: تم چاہے یہ چیز اختیار کر لو کہ میں تمہیں اسی جگہ میں دوبارہ لگا دوں جہاں تم پہلے تھے، اور تم دوبارہ ایسے ہی سرسبز ہو جاؤ جیسا کہ کبھی تھے، اور اگر چاہو تو (اپنی اس خدمت کے صلہ میں جو تم نے میری کچھ عرصہ کی ہے) تمہیں جنت میں لگا دوں، وہاں تم جنت کے نہروں اور چشموں سے سیراب ہوتے رہو، پھر تمہاری پیداوار بہترین ہو جائے اور تم پھل دینے لگو، اور پھر اولیاء اللہ، تیرا پھل کھائیں، اگر تم چاہو تو میں تمہیں ایسا کر دیتا ہوں۔ راوی کا بیان ہے کہ اس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دو مرتبہ فرمایا: ہاں میں نے ایسا کر دیا۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کھجور کے تنے نے یہ اختیار کیا کہ میں اسے جنت میں لگاؤں۔‘‘ اِسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔
’’اور ایک روایت میں حضرت عمرو بن ابی یخلو السرحی، امام شافعی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی مکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو مقام و مرتبہ اور شرف منزلت عطا فرمائی ہے۔ فرمایا ہے وہ کسی اور نبی کو عطا نہیں کیا۔ تو میں نے ان سے عرض کیا: اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مردے زندہ کرنے کا معجزہ عطا ہے۔ کیا تو امام شافعی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کھجور کا وہ (خشک) تنا عطا کیا گیا ہے جس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے منبر تیار کیا گیا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے منبر تیار کیا گیا تو وہ کھجور کا خشک تنا (فراقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں) رونے لگا یہاں تک کہ اس کے رونے کی آواز سنی گئی اور یہ (خشک اور بے جان تنے کا رونا جس میں کبھی جان تھی ہی نہیں) مردے زندہ کرنے سے بھی بڑا معجزہ ہے۔‘‘ اِسے امام ابو نعیم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
155 / 16. عَنْ قَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ رضي الله عنه أَنَّه أُصِيْبَتْ عَيْنُه يَوْمَ بَدْرٍ، فَسَالَتْ حَدَقَتُه عَلٰی وَجْنَتِه، فَأَرَادُوْا أَنْ يَقْطَعُوْهَا، فَسَأَلُوْا رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: لَا، فَدَعَا بِه، فَغَمَزَ حَدَقَتَه بِرَاحَتِه، فَکَانَ لَا يُدْرٰی أَيُّ عَيْنَيْهِ أُصِيْبَتْ. رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلٰی وَأَبُوْ عَوَانَةَ وَابْنُ سَعْدٍ.
16: أخرجه أبو يعلی في المسند، 3 / 120، الرقم: 1549، وأبو عوانة في المسند، 4 / 348، الرقم: 6929، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 187، وابن قانع في معجم الصحابة، 2 / 361، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 333، والعسقلاني في تهذيب التهذيب، 7 / 430، الرقم: 814، وأيضًا في الإصابة، 4 / 208، الرقم: 4888، وابن کثير في البداية والنهاية، 3 / 291، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 297.
’’حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے دن (تیر لگنے سے) ان کی آنکھ ضائع ہو گئی اور ڈھیلا نکل کر چہرے پر بہہ گیا۔ دیگر صحابہ نے اسے کاٹ دینا چاہا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرما دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی اور آنکھ کو دوبارہ اس کے مقام پر رکھ دیا۔ سو حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کی آنکھ اس طرح ٹھیک ہوگئی کہ (اُنہیں دیکھنے والے کو) معلوم بھی نہ ہوتا تھا کہ کون سی آنکھ خراب ہوئی تھی۔‘‘ اِسے امام ابو یعلی، ابو عوانہ اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
156 / 17. عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِي بَکْرٍ الصِّدِّيْقِ رضي الله عنهما قَالَ: کَانَ فُـلَانٌ يَجْلِسُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَإِذَا تَکَلَّمَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِشَيئٍ اخْتَلَجَ وَجْهَه فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: کُنْ کَذَالِکَ، فَلَمْ يَزَلْ يَخْتَلِجُ حَتّٰی مَاتَ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْأَصْبَهَانِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
17: أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 678، الرقم: 4241، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1 / 37، الرقم: 11، والجزري في النهاية في غريب الأثر، 2 / 60.
’’حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ (منافقین میں سے) ایک شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں بیٹھتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کوئی کلام فرماتے تو وہ (بوجہ بغض و عناد اور نقلیں اتارنے کے لئے) اپنا چہرہ ٹیڑھا کرتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے (بار بار یہ حرکت کرتے دیکھ کر) فرمایا: اسی طرح ہو جاؤ، نتیجتاً (اسے یہ بیماری لگ گئی ) کہ وہ مرتے دم تک اسی طرح اپنا چہرہ ٹیڑھا کرتا رہا۔‘‘
اِسے امام حاکم اور اصبہانی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
157 / 18. عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُوْنٍ رضي الله عنه قَالَ: أَحْرَقَ الْمُشْرِکُوْنَ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ رضي الله عنه بِالنَّارِ قَالَ: فَکَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَمُرُّ بِه وَيُمِرُّ يَدَه عَلٰی رَأْسِه فَيَقُوْلُ: يَا نَارُ، کُوْنِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلٰی عَمَّارٍ کَمَا کُنْتِ عَلٰی إِبْرَاهِيْمَ، تَقْتُلُکَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ.
18: أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 3 / 248، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 43 / 372، وابن الجوزي في صفة الصفوة، 1 / 443، والعيني في عمدة القاري، 1 / 197، والسيوطي في الخصائص الکبری، 2 / 134، والحلبي في السيرة، 1 / 483.
’’حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مشرکین مکہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کو آگ میں جلا (کر اذیت) دیتے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس سے گزرتے اور اپنا دستِ اقدس ان کے سر پر پھیرتے اور (حکم) فرماتے: اے آگ، عمار پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا جیسا کہ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام پر (سلامتی والی) ہو گئی تھی (تو وہ آگ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو جلاتی نہیں تھی) اور (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے: اے عمار! کفار کا یہ عذاب تیری زندگی نہ لے سکے گا بلکہ) تجھے ایک باغی گروہ شہید کرے گا۔‘‘ اِسے امام ابن سعد اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved