89 / 1. عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: لِي خَمْسَةُ أَسْمَاءٍ: أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللهُ بِيَ الْکُفْرَ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی قَدَمِي وَأَنَا الْعَاقِبُ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب ما جاء في أسماء رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم، 3 / 1299، الرقم: 3339، وأيضًا في کتاب التفسير، باب تفسير سورة الصف، 4 / 1858، الرقم: 4614، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب في أسمائه صلی الله عليه وآله وسلم، 4 / 828، الرقم: 2354، والترمذي في السنن، کتاب الأدب، باب ما جاء في أسماء النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 135، الرقم: 2840، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 489، الرقم: 11590، ومالک في الموطأ، کتاب أسماء النبي صلی الله عليه وآله وسلم، باب أسماء النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 2 / 1004، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 80، 84، والدارمي في السنن، 2 / 409، الرقم: 2775، وابن حبان في الصحيح، 14 / 219، الرقم: 6313، وأبو يعلی في المسند، 13 / 388، الرقم: 7395، والطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 44، الرقم: 3570، وأيضًا في المعجم الکبير، 2 / 120، الرقم: 1520. 1529، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 140، الرقم: 1397.
’’حضرت جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے پانچ نام ہیں میں محمد اور اَحمد ہوں اور میں ماحی (یعنی مٹانے والا) ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعے سے کفر کو محو کر دے گا اور میں حاشر ہوں۔ سب لوگ میری پیروی میں ہی (روزِ حشر) جمع کیے جائیں گے اور میں عاقب (یعنی سب سے آخر میں آنے والا نبی) ہوں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
90 / 2. عَنْ أَبِي مُوْسَی الْأَشْعَرِيِّ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يُسَمِّي لَنَا نَفْسَه أَسْمَاءً. فَقَالَ: أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَحْمَدُ، وَالْمُقَفِّي، وَالْحَاشِرُ، وَنَبِيُّ التَّوْبَةِ، وَنَبِيُّ الرَّحْمَةِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
2: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب في أسمائه صلی الله عليه وآله وسلم، 4 / 1828، الرقم: 2355، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 395، 404، 407، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 311، الرقم: 31692. 31693، والحاکم في المستدرک، 2 / 659، الرقم: 4185. 4186، والطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 327، الرقم: 4338، 4417، وابن الجعد في المسند، 1 / 479، الرقم: 3322.
’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے لیے اپنے کئی اسماءِ گرامی بیان فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں محمد ہوں اور میں اَحمد ہوں اور مقفی (یعنی بعد میں آنے والا) اور حاشر (جس کی پیروی میں روزِ حشر سب لوگ جمع کیے جائیں گے) اور نبی التوبہ (اللہ تعالیٰ کی طرف ہمہ وقت رجوع کرنے والا) اور نبی الرحمہ (رحمتیں بانٹنے والا نبی) ہوں۔‘‘
اِس حدیث کو امام مسلم، اَحمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
91 / 3. عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ رضي الله عنهما عَنْ أَبِيْهِ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنَّ لِي أَسْمَاءً: أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا أَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللهُ بِيَ الْکُفْرَ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی قَدَمَيَّ، وَأَنَا الْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَه أَحَدٌ، وَقَدْ سَمَّاهُ اللهُ رَءُوْفًا رَحِيْمًا.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
3: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب في أسمائه صلی الله عليه وآله وسلم، 4 / 1828، الرقم: 2354، وابن حبان في الصحيح، 14 / 219، الرقم: 6313، والطبراني في المعجم الکبير، 2 / 121، الرقم: 1525، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 141، الرقم: 1398، وأيضًا في دلائل النبوة، 1 / 154، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 13.
’’حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے کئی اَسماء ہیں: میں محمد ہوں، میں اَحمد ہوں، میں ماحی ہوں کیوں کہ میری وجہ سے اللہ تعالیٰ کفر کو مٹا دے گا اور میں حاشر ہوں، لوگوں کا حشر میرے قدموں میں ہو گا، اور میں عاقب ہوں، اور عاقب اسے کہتے ہیں کہ جس کے بعد کوئی اور نبی نہ ہو، اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسمِ گرامی رؤف و رحیم رکھا ہے۔‘‘
اِس حدیث کو امام مسلم، ابن حبان، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
92 / 4. عَنْ مُعَاوِيَةَ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: مَن يُرِدِ اللهُ بِه خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّيْنِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللهُ يُعْطِي. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
4: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب العلم، باب من يرد اللہ به خيرا يفقّهه في الدين، 1 / 39، الرقم: 71، وأيضًا فيکتاب فرض الخمس، باب قول اللہ تعالی: فإن ﷲ خمسه وللرسول صلی الله عليه وآله وسلم، 3 / 1134، الرقم: 2948، وأيضًا في کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم: لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين علی الحق وهم أهل العلم، 6 / 2667، الرقم: 6882، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب النهي عن المسألة، 2 / 718، الرقم: 1037، والترمذي عن ابن عباس في السنن، کتاب العلم، باب إذا أراد اللہ بعبد خيرًا فقّهه في الدين، 5 / 28، الرقم: 2645، وابن ماجه عن معاوية وأبي هريرة رضی اللہ عنهما في السنن، المقدمة، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم، 1 / 80، الرقم: 220. 221، والنسائي في السنن الکبری، 3 / 425، الرقم: 5839، ومالک في الموطأ، 2 / 900، الرقم: 1599، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 234، الرقم: 793، والدارمي في السنن، 1 / 85، الرقم: 224. 22.
’’حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، آپ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا فرما دیتا ہے، اور بے شک میں ہی قاسم (یعنی تقسیم کرنے والا) ہوں جبکہ (مجھے) اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
93 / 5. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ: وُلِدَ لِرَجُلٍ مِنَّا غُـلَامٌ. فَسَمَّاهُ مُحَمَّدًا فَقَالَ لَه قَوْمُه: لَا نَدَعُکَ تُسَمِّي بِاسْمِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَانْطَلَقَ بِابْنِه حَامِلَه عَلٰی ظَهْرِه فَأَتٰی بِهِ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، وُلِدَ لِي غُـلَامٌ. فَسَمَّيْتُه مُحَمَّدًا. فَقَالَ لِي قَوْمِي: لَا نَدَعُکَ تُسَمِّي بِاسْمِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: تَسَمَّوْا بِاسْمِي وَلَا تَکْتَنُوْا بِکُنْيَتِي. فَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ أَقْسِمُ بَيْنَکُمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
وفي رواية لهما: فَإِنَّمَا بُعِثْتُ قَاسِمًا أَقْسِمُ بَيْنَکُمْ.
5: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فرض الخمس، باب قول اللہ تعالی: فأن ﷲ خمسه وللرسول صلی الله عليه وآله وسلم، 3 / 1133، الرقم: 2946. 2947، ومسلم في الصحيح، کتاب الآداب، باب النهي عن التکني بأبي القاسم وبيان ما يستحب من الأسماء، 3 / 1682، الرقم: 2133، وأبو داود في السنن، کتاب الآداب، باب في الرجل يتکنی بأبي القاسم، 4 / 291، الرقم: 4965، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 303، الرقم: 14288، وأبو يعلی في المسند، 3 / 424، الرقم: 1915، والحاکم في المستدرک، 4 / 308، الرقم: 7735، وقال: هذا حديث صحيح.
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ ہم میں سے ایک شخص کے ہاں لڑکا پیدا ہوا، اس نے اس کا نام محمد رکھا، اس شخص سے اس کی قوم نے کہا: تم نے اپنے بیٹے کا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر رکھا ہے ہم تمہیں یہ نام نہیں رکھنے دیں گے۔ وہ شخص اپنے بچے کو اپنی پشت پر اٹھا کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا میں نے اس کا نام محمد رکھا۔ میری قوم نے کہا: ہم تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام نہیں رکھنے دیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرا نام رکھو اور میری کنیت (ابو القاسم) نہ رکھو، میں ہی ’’قاسم‘‘ (تقسیم کرنے والا) ہوں اور میں ہی تم میں تقسیم کرتا ہوں۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ مسلم کے ہیں۔
اور بخاری و مسلم کی ہی ایک روایت میں فرمایا: ’’میں ہی ’’قاسم‘‘ (تقسیم کرنے والا) بنا کر بھیجا گیا ہوں اور میں ہی تمہارے درمیان تقسیم کرتا ہوں۔‘‘
94 / 6. عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ رضي الله عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنَّمَا أَنَا مُبَلِّغٌ، وَاللهُ يَهْدِي، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللهُ يُعْطِي.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ وَأَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
6: أخرجه البخاري في التاريخ الکبير، 7 / 10، الرقم: 44، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 101، والطبراني في المعجم الکبير، 19 / 389، الرقم: 914. 915، وأيضًا في مسند الشاميين، 2 / 116، الرقم: 1022، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 42، الرقم: 100، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 263، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2 / 163.
’’حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک میں ہی مبلغ (اللہ تعالیٰ کے اَحکام بندوں تک پہنچانے والا ہوں اور اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرماتا ہے اور بے شک میں ہی قاسم یعنی تقسیم کرنے والا ہوں اور (مجھے) اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے۔‘‘
اِس حدیث کو امام بخاری نے التاریخ الکبير میں اور اَحمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کی اسناد حسن ہے۔
95 / 7. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ الصَّادِقُ الْمُصْدُوْقَ صلی الله عليه وآله وسلم.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
96 / 8. وفي رواية عنه: قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْقَاسِمِ نَبِيَّ التَّوْبَةِ صلی الله عليه وآله وسلم.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ.
97 / 9. وفي رواية عنه: قَالَ: حَفِظْتُ مِنْ حَبِيْبِي أَبِي الْقَاسِمِ صلی الله عليه وآله وسلم الحديث. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالْخَطِيْبُ.
7-9: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الفتن، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم: هلاک أمتي علی يدي أغيلمة سفهاء، 6 / 2589، الرقم: 6649، ومسلم في الصحيح، کتاب الأيمان، باب التغليظ علی من قذف مملوکه بالزنا، 3 / 1282، الرقم: 1660، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلة، باب النهي عن ضرب الخدم وشتمهم، 4 / 335، الرقم: 1947، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب في حق المملوک، 4 / 341، الرقم: 5165، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 431، الرقم: 9563، والنسائي في السنن الکبری، 4 / 325، الرقم: 7352، والبيهقي في السنن الکبری، 8 / 10، وأيضًا في شعب الإيمان، 2 / 145، 3 / 122، الرقم: 3069، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 8 / 67، الرقم: 4140.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے کہ میں نے (اپنے آقا) صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (سچے اور سچا قرار دئیے جانے والے) سے سنا۔‘‘
اِس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
’’ایک اور روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ (یوں) روایت فرماتے ہیں کہ میں نے (اپنے آقا) ابو القاسم (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور نبی التوبہ (یعنی ہمہ وقت بارگاہِ الٰہی میں رجوع کرنے والے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے سنا۔ الحدیث۔‘‘
اِس حدیث کو امام مسلم، ترمذی اور ابو داود نے روایت کیا ہے۔
’’اور ایک روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے محبوب ابو القاسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے (اس حدیث کو) یاد رکھا ہے۔‘‘
اِس حدیث کو امام بیہقی اور خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے۔
98 / 10. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: أَلَا تَعْجَبُوْنَ کَيْفَ يَصْرِفُ اللهُ عَنِّي شَتْمَ قُرَيْشٍ وَلَعْنَهُمْ يَشْتِمُوْنَ مُذَمَّّمًا وَيَلْعَنُوْنَ مُذَمَّمًا وَأَنَا مُحَمَّدٌ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.
10: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب ما جاء في أسماء رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم، 3 / 1299، الرقم: 3340، وأيضًا في التاريخ الصغير، 1 / 11، الرقم: 24، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 369، الرقم: 8811، وابن حبان في الصحيح، 14 / 431، الرقم: 6503، والحميدي في المسند، 2 / 481، الرقم: 1136، والبيهقي في السنن الکبری، 8 / 252، وأيضًا في شعب الإيمان، 2 / 143، الرقم: 1402، وأيضًا في دلائل النبوة، 1 / 152.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں اس بات پر تعجب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے قریش کی گالیوں اور ان کی لعنت سے کس طرح بچایا ہوا ہے؟ وہ مذمم کو گالیاں دیتے اور مذمم پر لعنت بھیجتے ہیں جبکہ میں تو محمد ہوں۔‘‘ اِس حدیث کو امام بخاری، اَحمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
99 / 11. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنَّ مَثَلِي وَمَثَلَ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي، کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰی بَيْتًا فَأَحْسَنَه وَأَجْمَلَه إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوْفُوْنَ بِه وَيَعْجَبُوْنَ لَه وَيَقُوْلُوْنَ: هَلَّا وُضِعَتْ هٰذِهِ اللَّبِنَةُ قَالَ: فَأَنَا اللَّبِنَةُ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
11: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب خاتم النبيّين صلی الله عليه وآله وسلم، 3 / 1300، الرقم: 3341. 3342، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب ذکر کونه صلی الله عليه وآله وسلم خاتم النبيّين، 4 / 1791، الرقم: 2286، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 398، الرقم: 9156، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 436، الرقم: 11422، وابن حبان في الصحيح، 14 / 315، الرقم: 6405.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری مثال اور گزشتہ انبیائے کرام کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی نے ایک بہت خوبصورت مکان بنایا اور اسے خوب آراستہ کیا، لیکن ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ آکر اس مکان کو دیکھنے لگے اور اس پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے: یہاں اینٹ کیوں نہیں رکھی گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سومیں وہی اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں (یعنی میں بابِ نبوت ہمیشہ کے لیے بند کر دینے والا ہوں)۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
100 / 12. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه في رواية طويلة: يَقُوْلُ: قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: أَ لَا تَأْمَنُوْنَنِي وَأَنَا أَمِيْنُ مَنْ فِي السَّمَاءِ يَأْتِيْنِي خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَمَسَاءً. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
12: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المغازي، باب بعث علي بن أبي طالب وخالد بن الوليد رضي الله عنهما إلی اليمن قبل حجة الوداع، 4 / 1581، الرقم: 4094، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 742، الرقم: 1064، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 4، الرقم: 11021، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 71، الرقم: 2373، وابن حبان في الصحيح، 1 / 205، الرقم: 25، وأبو يعلی في المسند، 2 / 390، الرقم: 1163، وأبو نعيم في المسند المستخرج، 3 / 128، الرقم: 2375، وأيضًا في حلية الأولياء، 5 / 71، والعسقلاني في فتح الباري، 8 / 68، الرقم: 4094، وابن القيم في الحاشية، 13 / 16، والسيوطي في الديباج، 3 / 160، الرقم: 1064، وابن تيمية في الصارم المسلول / 188، 192.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم مجھے امانت دار شمار نہیں کرتے؟ حالانکہ آسمان والوں کے نزدیک تو میں امین ہوں۔ اس آسمان کی خبریں تو صبح و شام میرے پاس آتی رہتی ہیں۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
101 / 13. عَنِ الْمُغِيْرَةِ رضي الله عنه يَقُوْلُ: قَامَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم حَتّٰی تَوَرَّمَتْ قَدَمَاه فَقِيْلَ لَه: غَفَرَ اللهُ لَکَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ؟ قَالَ: أَفَـلَا أَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
13: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب ليغفر لک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تأخر ويتم نعمته عليک، 4 / 1830، الرقم: 4556، وأيضًا فيکتاب الرقاق، باب الصبر عن محارم اللہ، 5 / 2375، الرقم: 6106، ومسلم في الصحيح، کتاب صفة القيامة والجنة والنار، باب إکثار الأعمال والاجتهاد في العبادة، 4 / 2171، الرقم: 2819، والترمذي في السنن، کتاب الصلاة، باب ما جاء في الاجتهاد في الصلاة، 2 / 268، الرقم: 412، والنسائي في السنن، کتاب قيام الليل وتطوع النهار، باب الاختلاف علی عائشة في إحياء الليل، 3 / 219، الرقم: 1644، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في طول القيام في الصلاة، 1 / 456، الرقم: 1419. 1420، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 251.
’’حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راتوں کو اس درجہ قیام فرما ہوتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک پر ورم آجاتا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے سبب آپ کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ معاف فرمادیئے۔ (تو اب اتنا قیام کیوں فرمایا جاتا ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا میں اپنے ربّ کا عبدا شکورا (شکر گزار بندہ) نہ بنوں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
102 / 14. عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ: لَقِيْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضي الله عنهما قُلْتُ: أَخْبِرْنِي عَنْ صِفَةِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي التَّوْرَاةِ؟ قَالَ: أَجَلْ، وَاللهِ، إِنَّه لَمَوْصُوْفٌ فِي التَّوْرَاةِ بِبَعْضِ صِفَتِه فِي الْقُرْآنِ: {يَا أَيُهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنٰـکَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا} ]الأحزاب، 33: 45[، وَحِرْزًا لِـلْأُمِّيِّيْنَ أَنْتَ عَبْدِي وَرَسُوْلِي سَمَّيْتُکَ الْمُتَوَکِّلَ لَيْسَ بِفَظٍّ، وَلَا غَلِيْظٍ، وَلَا سَخَّابٍ فِي الْأَسْوَاقِ، وَلَا يَدْفَعُ بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ، وَلٰـکِنْ يَعْفُوْ وَيَغْفِرُ وَلَنْ يَقْبِضَهُ اللهُ حَتّٰی يُقِيْمَ بِهِ الْمِلَّةَ الْعَوْجَاءَ بِأَنْ يَقُوْلُوْا: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَيَفْتَحُ بِهَا أَعْيُنًا عُمْيًا، وَآذَانًا صُمًّا، وَقُلُوْبًا غُلْفًا.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ.
14: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب البيوع، باب کراهية السخب في السوق، 2 / 747، الرقم: 2018، وأيضًا فيکتاب التفسير، باب إنا أرسلناک شاهدا ومبشرا ونذيرا، 4 / 1831، الرقم: 4558، وأيضًا في الأدب المفرد / 95، الرقم: 246، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 174، الرقم: 6622، والدارمي في السنن، 1 / 16، الرقم: 6، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 5 / 387، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 360، 362، والبيهقي في السنن الکبری، 7 / 45، الرقم: 13079، وأيضًا في شعب الإيمان، 2 / 147، الرقم: 1410، وأيضًا في الاعتقاد، 1 / 256، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 9 / 460، الرقم: 435، والطبري في جامع البيان، 9 / 83، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2 / 254.
’’حضرت عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے ملا اور عرض گزار ہوا کہ مجھے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ تعریف بیان فرمائیں جو تورات میں بھی ہو۔ انہوں نے فرمایا: خدا کی قسم، تورات میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعض وہ صفات بیان ہوئی ہیں جو قرآن مجید میں بھی ہیں، یعنی ’’اے نبِیّ (مکرّم!) بے شک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہےo‘‘ اور آپ ان پڑھوں کی جائے پناہ، اور میرے (محبوب) بندے اور رسول ہیں۔ میں نے آپ کا نام متوکل رکھا ہے کیونکہ آپ ترش رو، سنگ دل اور بازاروں میں شور مچانے والے نہیں ہیں اور برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے بلکہ معاف اور درگزر فرماتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ انہیں اپنے پاس نہیں بلائے گا یہاں تک کہ ان کے ذریعے ٹیڑھی ملت کو سیدھی کر دے اور وہ (سب) یہ کہنے لگیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ تعالیٰ اس (ہستی) کے ذریعے اندھی آنکھوں، بہرے کانوں اور قفل لگے ہوئے دلوں کو کھول دے گا۔‘‘
اِس حدیث کو امام بخاری، اَحمد، دارمی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
103 / 15. عَنْ جَابِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَا: قَدِمَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم صُبْحَ رَابِعَةٍ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ فذکر الحديث قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: بَلَغَنِي أَنَّ أَقْوَامًا يَقُوْلُوْنَ کَذَا وَکَذَا وَاللهِ، لَأَنَا أَبَرُّ وَأَتْقٰی ِﷲِ مِنْهُمْ الحديث.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
15: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الشرکة، باب الاشتراک في الهدي والبدن، 2 / 885، الرقم: 2371، والطبراني في المعجم الکبير، 7 / 124، الرقم: 6573، والبيهقي في السنن الکبری، 6 / 78، الرقم: 11202، وابن حزم في المحلی، 7 / 108، وأيضًا في حجة الوداع، 1 / 160، الرقم: 72. 73.
’’حضرت جابر اور حضرت عبد اللہ بن عباس بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 4 ذی الحجہ کی صبح کو (مکہ مکرمہ میں) تشریف آور ہوئے پھر آگے طویل حدیث بیان کی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ بعض لوگ اس اس طرح کہتے ہیں۔ حالانکہ خدا کی قسم! میں اَبر (یعنی سب سے زیادہ نیک) اور اَتقی ﷲ (یعنی سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہوں) الحدیث۔‘‘
اِسے امام بخاری، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
104 / 16. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ دِيْنَارٍ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رضي الله عنهما يَتَمَثَّلُ بِشِعْرِ أَبِي طَالِبٍ:
وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَی الْغَمَامُ بِوَجْهِه
ثِمَالُ الْيَتَامٰی عِصْمَةٌ لِـلْأَرَامِلِ
وَقَالَ عُمَرُ بْنُ حَمْزَةَ: حَدَّثَنَا سَالِمٌ، عَنْ أَبِيْهِ: رُبَّمَا ذَکَرْتُ قَوْلَ الشَّاعِرِ، وَأَنَا أَنْظُرُ إِلٰی وَجْهِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم يَسْتَسْقِي، فَمَا يَنْزِلُ حَتّٰی يَجِيْشَ کُلُّ مِيْزَابٍ.
وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَی الْغَمَامُ بِوَجْهِه
ثِمَالُ الْيَتَامٰی عِصْمَةٌ لِلْأَرَامِلِ
وَهُوَ قَوْلُ أَبِي طَالِبٍ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ.
16: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الاستسقاء، باب سؤال الناس الإمام الاستسقاء إذا قحطوا، 1 / 342، الرقم: 963، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في الدعاء في الاستسقاء، 1 / 405، الرقم: 1272، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 93، الرقم: 5673، 26، والبيهقي في السنن الکبری، 3 / 352، الرقم: 6218. 6219، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 14 / 386، الرقم: 7700، والعسقلاني في تغليق التعليق، 2 / 389، الرقم: 1009، وابن کثير في البداية والنهاية، 4 / 2، 471، والمزي في تحفة الأشراف، 5 / 359، الرقم: 6775.
’’حضرت عبد اللہ بن دینار رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو حضرت ابو طالب کا یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا: ’’وہ اَبْيَض (یعنی گورے مکھڑے والے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جن کے چہرہ انور کے توسّل سے بارش مانگی جاتی ہے، (اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی) ثِمَالُ الْيَتَامٰی (یعنی یتیموں کے والی) اور عِصْمَةٌ لِلْأَرَامِلِ (یعنی بیواؤں کا سہارا) ہیں۔‘‘
حضرت عمر بن حمزہ کہتے ہیں کہ حضرت سالم (بن عبد اللہ بن عمر)نے اپنے والد ماجد سے روایت کی کہ کبھی میں شاعر کی اس بات کو یاد کرتا اور کبھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس کو تکتا کہ اس (رُخ زیبا) کے توسل سے بارش مانگی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (منبر سے) اُترنے بھی نہ پاتے کہ سارے پرنالے بہنے لگتے۔ مذکورہ بالا شعر حضرت ابو طالب کا ہے۔‘‘ اِسے امام بخاری، ابن ماجہ اور اَحمد نے روایت کیا ہے۔
105 / 17. عَنْ مَالِکِ بْنِ الْحُوَيْرَثِ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم رَحِيْمًا رَقِيْقًا الحديث. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالدَّارَ قُطْنِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.
17: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب من أحق بالإمامة، 1 / 465، الرقم: 674، والدار قطني في السنن، 1 / 272، الرقم: 1، والطبراني في المعجم الکبير، 19 / 288، الرقم: 637، والبيهقي في السنن الکبری، 1 / 385، الرقم: 1678، وأيضًا، 2 / 17، الرقم: 2102، وأيضًا، 3 / 120، الرقم: 5076.
’’حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحیم (یعنی نہایت رحمدل) اور رقیق (یعنی نہایت نرم دل) تھے۔ الحدیث۔‘‘
اِسے امام مسلم، دار قطنی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
106 / 18. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، اُدْعُ عَلَی الْمُشْرِکِيْنَ قَالَ: إِنِّي لَمْ أُبْعَثْ لَعَّانًا وَإِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَةً.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ.
107 / 19. وفي رواية: إِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَةً وَلَمْ أُبْعَثْ عَذَابًا.
رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.
18. 19: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب النهي عن لعن الدواب وغيرها، 4 / 2006، الرقم: 2599، والبخاري في الأدب المفرد / 119، الرقم: 321، وأبو يعلی في المسند، 11 / 35، الرقم: 6174، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1 / 40، الرقم: 2، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 144، الرقم: 1403، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 4 / 92، والحسيني في البيان والتعريف، 1 / 283، الرقم: 754، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 202.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا: (یا رسول اللہ!) مشرکین کے خلاف دعا کیجیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے لعنت کرنے والا بنا کر نہیں مبعوث کیا گیا، مجھے تو صرف سراپا رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم اور بخاری نے ’’الادب المفرد‘‘ میں روایت کیا ہے۔
’’اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے (سراپا) رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے نہ کہ عذاب بنا کر۔‘‘
اسے امام ابو نعیم، بیہقی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
108 / 20. عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ رضي الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِذَا کَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ کُنْتُ إِمَامَ النَّبِيِّيْنَ، وَخَطِيْبَهُمْ، وَصَاحِبَ شَفَاعَتِهِمْ غَيْرَ فَخْرٍ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ.
20: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في فضل النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 586، الرقم: 3613، وابن ماجه في السنن، کتاب الزهد، باب ذکر الشفاعة، 2 / 1443، الرقم: 4314، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 137، 138، الرقم: 21283، 21290، والحاکم في المستدرک، 1 / 143، الرقم: 240، 6969، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 90، الرقم: 171، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 3 / 385، الرقم: 1179، والمزي في تهذيب الکمال، 3 / 118.
’’حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن میں ہی اِمام النّبیین (یعنی انبیاءِ کرام علیہم السلام کا اِمام) اور خطیب اور (انبیاء کا بھی) شفیع (یعنی شفاعت کبریٰ کا آغاز کرنے والا) ہوں گا اور اس پر (مجھے) فخر نہیں۔‘‘
اِسے امام ترمذی، ابن ماجہ، اَحمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور امام حاکم نے بھی فرمایا: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
109 / 21. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: أَ لَا وَأَنَا حَبِيْبُ اللهِ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا حَامِلُ لِوَاءِ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ، وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يُحَرِّکُ حِلَقَ الْجَنَّةِ فَيَفْتَحُ اللهُ لِي فَيُدْخِلُنِيْهَا وَمَعِيَ فُقَرَاءُ الْمُؤْمِنِيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَکْرَمُ الْأَوَّلِيْنَ وَالْآخِرِيْنَ وَلَا فَخْرَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ.
21: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في فضل النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 587، الرقم: 3616، والدارمي في السنن، باب ما أعطِيَ النَّبِي صلی الله عليه وآله وسلم مِن الفضل، 1 / 39، الرقم: 47.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سن لو! میں ہی حبیب اللہ (یعنی اللہ تعالیٰ کا حبیب ) ہوں اور میں یہ فخریہ نہیں کہتا۔ میں حَامِلُ لِوَاءِ الْحَمْدِ (یعنی قیامت کے دن حمد کا جھنڈا اٹھانے والا) ہوں اور میں یہ فخریہ نہیں کہتا۔ قیامت کے دن اوّل شافع (یعنی سب سے پہلا شفاعت کرنے والا) بھی میں ہی ہوں اور اوّل مشفع (یعنی سب سے پہلے جس کی شفاعت قبول کی جائے گی) میں ہی ہوں اور میں یہ فخریہ نہیں کہتا۔ سب سے پہلے جنت کا کنڈا کھٹکھٹانے والا بھی میں ہی ہوں۔ اللہ تعالیٰ میرے لیے ہی اسے کھولے گا اور مجھے اس میں داخل فرمائے گا۔ میرے ساتھ فقراء اور غریب مومن ہوں گے اور میں یہ فخریہ نہیں کہتا۔ میں ہی أکرم الأوّلين والآخرين (یعنی اولین و آخرین میں سب سے زیادہ عزت والا) ہوں لیکن میں یہ فخریہ نہیں کہتا۔‘‘ اِسے امام ترمذی اور دارمی نے روایت کیا ہے۔
110 / 22. عَنْ أَبِي مُوْسَی الْأَشْعَرِيِّ رضي الله عنه قَالَ: خَرَجَ أَبُوْ طَالِبٍ إِلَی الشَّامِ، وَخَرَجَ مَعَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي أَشْيَاخٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَلَمَّا أَشْرَفُوْا عَلَی الرَّاهِبِ هَبَطُوْا، فَحَلُّوْا رِحَالَهُمْ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمُ الرَّاهِبُ، وَکَانُوْا قَبْلَ ذَالِکَ يَمُرُّوْنَ بِه فَـلَا يَخْرُجُ إِلَيْهِمْ وَلَا يَلْتَفِتُ، قَالَ: فَهُمْ يَحُلُّوْنَ رِحَالَهُمْ، فَجَعَلَ يَتَخَلَّلُهُمُ الرَّاهِبُ، حَتّٰی جَاءَ فَأَخَذَ بِيَدِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ: هٰذَا سَيِّدُ الْعَالَمِيْنَ، هٰذَا رَسُوْلُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، يَبْعَثُهُ اللهُ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ. الحديث.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
22: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب ما جاء في نبوة النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 590، الرقم: 3620، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 317، الرقم: 31733، 36541، وابن حبان في الثقات، 1 / 42، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1 / 45، الرقم: 19، والطبري في تاريخ الأمم والملوک، 1 / 519.
’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابو طالب روسائے قریش کے ہمراہ شام کے سفر پر روانہ ہوئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ جب راہب کے پاس پہنچ کر وہ سواریوں سے اترے اور انہوں نے اپنی سواریوں کے کجاوے کھول دیئے۔ تو راہب ان کی طرف آنکلا حالانکہ (روسائے قریش) اس سے قبل بھی اس کے پاس سے گزرا کرتے تھے لیکن وہ نہ ان کے پاس آتا تھا اور نہ ہی ان کی طرف کوئی توجہ کرتا تھا۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ ابھی کجاوے کھول ہی رہے تھے کہ وہ راہب اُن کے درمیان سے چلتا گیا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب پہنچا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دستِ اقدس پکڑ کر کہا: یہ سَيِّدُ الْعَالَمِيْن (یعنی تمام جہانوں کے سردار) اور رَسُوْلُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ (یعنی ربّ العالمین کے رسول) ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں رَحْمَةٌ لِّلْعَالَمِيْنَ (یعنی تمام جہانوں کے لیے رحمت) بنا کر مبعوث فرمائے گا الحدیث۔‘‘
اسے امام ترمذی، ابن ابی شیبہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔
111 / 23. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: أَنَا أَوَّلُهُمْ خُرُوْجًا، وَأَنَا قَائِدُهُمْ إِذَا وَفَدُوْا، وَأَنَا خَطِيْبُهُمْ إِذَا أَنْصَتُوْا، وَأَنَا مُشَفِّعُهُمْ إِذَا حُبِسُوْا، وَأَنَا مُبَشِّرُهُمْ إِذَا أَيِسُوْا، اَلْکَرَامَةُ وَالْمَفَاتِيْحُ يَوْمَئِذٍ بِيَدِي، وَأَنَا أَکْرَمُ وَلَدِ آدَمَ عَلٰی رَبِّي، يَطُوْفُ عَلَيَّ أَلْفُ خَادِمٍ کَأَنَّهُمْ بَيْضٌ مَکْنُوْنٌ أَوْ لُؤْلُؤٌ مَنْثُوْرٌ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَاللَّفْظُ لَه وَالْخَـلَّالُ.
23: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في فضل النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 585، الرقم: 3610، والدارمي في السنن، باب ما أعطی النبي صلی الله عليه وآله وسلم من الفضل، 1 / 39، الرقم: 48، والخلال في السنة / 208، الرقم: 235، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 47، الرقم: 117، والقزويني في التدوين في أخبار قزوين، 1 / 235، وابن الجوزي في صفة الصفوة، 1 / 182، والمناوي في فيض القدير، 3 / 40.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سب سے اوّل میں (اپنی قبر انور سے) نکلوں گا اور جب لوگ وفد بن کر جائیں گے تو میں ہی ان کا قائد ہوں گا اور جب وہ خاموش ہوں گے تو میں ہی ان کا خطیب ہوں گا۔ میں ہی ان کی شفاعت کرنے والا ہوں جب وہ روک دیئے جائیں گے، اور میںہی انہیں خوشخبری دینے والا ہوں جب وہ مایوس ہو جائیں گے۔ بزرگی اور جنت کی چابیاں اس روز میرے ہاتھ میں ہوں گی۔ میں اپنے ربّ کے ہاں اولادِ آدم میں سب سے زیادہ مکرّم ہوں میرے اردگرد اس روز ہزار خادم پھریں گے گویا وہ گرد وغبار سے محفوظ سفید انڈے ہیں یا بکھرے ہوئے موتی ہیں۔‘‘
اِسے امام ترمذی، دارمی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور خلال نے روایت کیا ہے۔
112 / 24. عَنْ ثَوْبَانَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
24: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء لا تقوم الساعة حتی يخرج کذابون، 4 / 499، الرقم: 2219، وأبو داود في السنن، کتاب الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن ودلائلها، 4 / 97، الرقم: 4252، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 278، الرقم: 22448، والطبراني في المعجم الکبير، 3 / 169، الرقم: 3062، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 2 / 289، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 454، الرقم: 8724.
’’حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں خاتم النّبیین ہوں۔ (اور اچھی طرح سے جان لو کہ) میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔‘‘
اِسے امام ترمذی، ابو داود اور اَحمد نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
113 / 25. عَنْ سَلْمَانَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: إِنَّمَا بَعَثَنِي رَحْمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ.
114 / 26. وَأَحْمَدُ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضي الله عنه وَلَفْظُه: قَالَ: إِنَّ اللهَ بَعَثَنِي رَحْمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ، وَهُدًی لِّلْعَالَمِيْنَ. وفي رواية: وَهُدًی لِّلْمُتَّقِيْنَ.
رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ.
25. 26: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب السنة، باب النهي عن سبّ أصحاب رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم، 4 / 215، الرقم: 4659، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 257، 268، 437، الرقم: 22272، 22361، 23757، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1 / 4، الرقم: 1، والطبراني في المعجم الکبير، 8 / 196، الرقم: 7803، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 / 181، الرقم: 3583، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 415، والهيثمي في مجمع الزوائد، 5 / 69، والسيوطي في الدر المنثور، 5 / 688.
’’حضرت سلمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے ’’رَحْمَةً لِّلْعَالَمِيْن‘‘ یعنی تمام جہانوں کے لیے سراپا رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ اِسے امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔
اور امام اَحمد نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا: ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے ’’رَحْمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ‘‘ یعنی تمام جہانوں کے لیے سراپا رحمت اور ’’هُدًی لِّلْعَالَمِيْن ‘‘ یعنی تمام جہانوں کے لیے سراپا ہدایت بنا کر مبعوث فرمایا۔‘‘
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’هُدًی لِّلْمُتَّقِيْنَ‘‘ تمام پرہیزگاروں (یعنی انبیاءِ کرام اور اولیاء و صالحین کے لیے بھی ہدایت) بنا کر مبعوث فرمایا۔‘‘ اِسے امام ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
115 / 27. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: مَا أُوْتِيْکُمْ مِنْ شَيئٍ وَمَا أَمْنَعُکُمُوْهُ إِنْ أَنَا إِلَّا خَازِنٌ، أَضَعُ حَيْثُ أُمِرْتُ.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ.
27: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الخراج والإمارة والفي، باب فيما يلزم الإمام من أمر الرعية والحجبة عنه، 3 / 135، الرقم: 2949، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 314، الرقم: 8140، وابن راهويه في المسند، 1 / 425، الرقم: 486.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں (اپنی خواہش نفس سے) تمہیں کوئی شے دیتا ہوں نہ اسے تم سے روکتا ہوں۔ میں ہی تو خازن (یعنی اللہ تعالیٰ کے تمام خزانوں کا خزانچی) ہوں۔ میں (ہر چیز کو وہیں) رکھتا ہوں جہاں مجھے (اسے رکھنے کا) حکم دیا گیا ہے۔‘‘ اِسے امام ابو داود اور اَحمد نے روایت کیا ہے۔
116 / 28. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: يَا أَيُهَا النَّاسُ، إِنَّمَا أَنَا رَحْمَةٌ مُهْدَاةٌ.
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْحَاکِمُ وَاللَّفْظُ لَه.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِهِمَا فَقَدِ احْتَجَّا جَمِيْعًا بِمَالِکِ بْنِ سَعِيْرٍ وَالتَّفَرَّدُ مِنَ الثِّقَاتِ مَقْبُوْلٌ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
28: أخرجه الدارمي في السنن، 1 / 21، الرقم: 15، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 325، الرقم: 31782، والحاکم في المستدرک، 1 / 91، الرقم: 100، والقضاعي في مسند الشهاب، 2 / 189. 190، الرقم: 1160. 1161، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 223، الرقم: 2981، وأيضًا في المعجم الصغير، 1 / 168، الرقم: 264، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 143. 144، الرقم: 1402. 1404، 1445، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 257.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! بے شک میں رَحْمَةٌ مُهْدَاةٌ (یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے) عطا کردہ رحمت ہوں۔‘‘
اسے امام دارمی، ابن ابی شیبہ اور حاکم نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرائط پر صحیح ہے اور ان دونوں نے مالک بن سعیر سے بھی دلیل پکڑی ہے اور ثقہ راویوں کی جانب سے تفرد مقبول ہوتا ہے۔ اور امام ہیثمی نے بھی فرمایا: اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
117 / 29. عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ رضي الله عنه أَنَّ رَجُـلًا ضَرِيْرَ الْبَصَرِ أَتَی النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: اُدْعُ اللهَ لِي أَنْ يُعَافِيَنِي. فَقَالَ: إِنْ شِئْتَ أَخَّرْتُ لَکَ وَهُوَ خَيْرٌ. وَإِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ. فَقَالَ: اُدْعُهْ. فَأَمَرَه أَنْ يَتَوَضَّأَ فَيُحْسِنَ وُضُوْءَ ه، وَيُصَلِّيَ رَکْعَتَيْنِ. وَيَدْعُوَ بِهٰذَا الدُّعَاءِ: {اَللّٰهُمَّ، إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِمُحَمَّدٍ، نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلٰی رَبِّي فِي حَاجَتِي هٰذِه لِتُقْضٰی. اَللّٰهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ}.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَه وَأَحْمَدُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وَقَالَ أَبُوْ إِسْحَاقَ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْأَلْبَانِيُّ: صَحِيْحٌ.
29: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الدعوات، باب في دعاء الضعيف، 5 / 569، الرقم: 3578، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في صلاة الحاجة، 1 / 441، الرقم: 1385، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 138، الرقم: 17240. 17242، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 168، الرقم: 10494، 10495، وأيضًا في عمل اليوم والليلة / 417، الرقم: 658. 660، وابن خزيمة في الصحيح، 2 / 225، الرقم: 1219، والحاکم في المستدرک، 1 / 458، 700، 707، الرقم: 1180، 1909، 1929، والبخاري في التاريخ الکبير، 6 / 209، الرقم: 2192، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 147، الرقم: 379، والطبراني في المعجم الصغير، 1 / 306، الرقم: 508، وأيضًا في المعجم الکبير، 9 / 30، الرقم: 8311، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 272، الرقم: 1018، والهيثمي في مجمع الزوائد، 2 / 279.
’’حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے لیے صحت و عافیت (یعنی بینائی کے لوٹ آنے) کی دعا فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تو چاہے تو تیرے لیے دعا کو مؤخر کر دوں جو تیرے لیے بہتر ہے اور اگر تو چاہے تو تیرے لیے (ابھی) دعا کر دوں۔ اس نے عرض کیا: (آقا! ابھی) دعا فرما دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو اچھی طرح وضو کرنے اور دو رکعت نماز پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا: یہ دعا کرنا {اَللّٰهُمَّ، إِنِّي أَسْأَلُکَ، وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِمُحَمَّدٍ، نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلٰی رَبِّي فِي حَاجَتِي هٰذِه لِتُقْضٰی. اَللّٰهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ} ’’اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں نبي الرّحمۃ (نبی رحمت) محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے، یا محمد! میں آپ کے وسیلہ سے اپنے ربّ کی بارگاہ میں اپنی یہ حاجت پیش کرتا ہوں تاکہ پوری ہو جائے۔ اے اللہ! میرے حق میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت قبول فرما۔‘‘
اسے امام ترمذی، نسائی، ابن ماجہ نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ، اَحمد اور بخاری نے التاریخ الکبير میں روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ امام ابو اسحاق نے بھی فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے۔اور امام حاکم نے بھی فرمایا: یہ حدیث بخاری ومسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔ اور امام ہیثمی نے بھی فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے اور شیخ البانی نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔
118 / 30. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: إِنَّمَا بُعِثْتُ فَاتِحًا، وَخَاتَمًا، وَأُعْطِيْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ وَفَوَاتِحَه. .
رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالْقَاضِي عِيَاضٌ.
119 / 31. وفي رواية: جَعَلَنِي فَاتِحًا خَاتَمًا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
30. 31: أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 6 / 112، الرقم: 10163، والبيهقي في شعب الإيمان، 4 / 307، الرقم: 5202، والقاضي عياض في الشفا / 329، والمناوي في فيض القدير، 2 / 568، والطبري في جامع البيان، 15 / 8، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 21، والمناوي في فيض القدير، 2 / 232.
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے فاتح اور خاتم بنا کر مبعوث کیا گیا ہے اور مجھے جوامع الکلم اور فواتح الکلم عطا کی گئی ہے۔‘‘ اِسے امام عبد الرزاق، بیہقی اور قاضی عیاض نے روایت کیا ہے۔
’’اور ایک روایت میں ہے کہ فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے فاتح اور خاتم بنایا ہے۔‘‘
اسے اِمام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
120 / 32. عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: أَنَا قَائِدُ الْمُرْسَلِيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَمُشّفَّعٍ وَلَا فَخْرَ.
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَفِيْهِ صَالِحُ بْنُ عَطَاءِ بْنِ خَبَّابٍ وَلَمْ أَعْرِفْهُ وَبَقِيَةُ رِجَالِه ثِقَاتٌ.
32: أخرجه الدارمي في السنن، باب ما أعطي النبي صلی الله عليه وآله وسلم من الفضل، 1 / 40، الرقم: 49، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 61، الرقم: 170، والبيهقي في کتاب الاعتقاد / 192، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 10 / 223، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 254، والمناوي في فيض القدير، 3 / 43.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں ہی قائد المرسلین (یعنی تمام رسولوں کا قائد) ہوں اور یہ (کہ مجھے اس پر) فخر نہیں اور میں ہی خاتم النبیین (یعنی سب سے آخری نبی) ہوں اور (مجھے اس پر) کوئی فخر نہیں ہے۔ میں ہی سب پہلا شفاعت کرنے والا ہوں اور میں ہی وہ پہلا (شخص) ہوں جس کی شفاعت قبول کی جائے گی اور (مجھے اس پر) کوئی فخر نہیں ہے۔‘‘
اسے امام دارمی، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اس کی سند میں صالح بن عطاء بن خباب نامی راوی کو میں نہیں جانتا، بقیہ تمام رجال ثقات ہیں۔
121 / 33. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه فِي رِوَايَةِ أُحُدٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: أَنَا شَاهِدٌ عَلَيْکُمُ الْيَوْمَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
33: أخرجه الحاکم في المستدرک، کتاب الجنائز، 1 / 519، الرقم: 1351.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے اُحد کی روایت میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں آج کے دن (بھی) تمہارے اوپر شاھد (یعنی میں اپنے پورے زمانہ نبوت میں تم پر گواہ) ہوں۔‘‘ اِسے امام حاکم نے روایت کیا ہے۔
122 / 34. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: صِفَتِي: أَحْمَدُ الْمُتَوَکِّلُ، لَيْسَ بِفَظٍّ وَلَا غَلِيْظٍ، يَجْزِي بِالْحَسَنَةِ وَلَا يُکَافِيئُ السَّيِّئَةَ. مَوْلِدُه بِمَکَّةَ وَمُهَاجِرُه طَيِّبَةُ، وَأُمَّتُهُ الْحَمَّادُوْنَ، يَأْتَزِرُوْنَ عَلٰی أَنْصَافِهِمْ وَيُوَضِّؤُوْنَ أَطْرَافَهُمْ، أَنَاجِيْلُهُمْ فِي صُدُوْرِهِمْ، يَصِفُّوْنَ لِلصَّلَاةِ کَمَا يَصِفُّوْنَ لِلْقِتَالِ، قُرْبَانُهُمُ الَّذِي يَتَقَرَّبُوْنَ بِه إِلَيَّ دِمَاؤُهُمْ، رُهْبَانٌ بِاللَّيْلِ لَيُوْثٌ بِالنَّهَارِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ.
34: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 10 / 89، الرقم: 10046، والديلمي في مسند الفردوس، 2 / 400، الرقم: 3779، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 271.
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور بنی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرا وصف یہ ہے کہ (میں) اَحمد ہوں اور المتوکِّل (یعنی اللہ پر توکل کرنے والا) ہوں نہ تندخو اور نہ ہی سخت دل ہوں، نیکی کا بدلہ دیتا ہوں اور برائی کا نہیں، (میں وہ ہوں کہ) جس کی جائے ولادت شہر مکہ اور جائے ہجرت مدینہ طیبہ ہے اور (وہ نبی ہوں) جس کے اُمتی (اللہ تعالیٰ کی) بے پناہ حمد کرنے والے ہیں، اور اپنے ٹخنوں کے اوپر تک تہبند باندھتے ہیں اور اپنی اطراف (ہاتھ، منہ، پاؤں) دھوتے ہیں (یعنی وضو کرتے ہیں) اور ان کی اناجیل (انجیل کی جمع ہے مراد یہاں قرآن اور سنت ہے) ان کے سینوں میں ہے (یعنی قرآن حفظ کرتے ہیں) اور نماز کے لیے ایسے ہی صف بندی کرتے ہیں جیسے جہاد کے لیے کرتے ہیں اور ان کے (خون میں) وہ قربانی (رچی بسی ہوتی) ہے جس کے ذریعے وہ قربِ الٰہی حاصل کرتے ہیں۔ اور وہ رات راہبوں کی طرح اور دن شیروں کی طرح بسر کرتے ہیں۔‘‘ اِسے امام طبرانی اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔
123 / 35. عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: إِنَّ لِي عِنْدَ رَبِّي عَشْرَةَ أَسْمَاءٍ: أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَحْمَدُ، وَأَبُو الْقَاسِمِ، وَالْفَاتِحُ، وَالْخَاتِمُ، وَالْعَاقِبُ، وَالْحَاشِرُ، وَالْمَاحِي، وَطهٰ، وَيٰس.
رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَالْقُرْطُبِيُّ.
35: أخرجه أبو نعيم في دلائل النبوة، 1 / 61، الرقم: 20، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 19، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 11 / 166، 15 / 4، والسيوطي في الدر المنثور، 5 / 551، وأيضًا في الخصائص الکبری، 1 / 133، والشوکاني في فتح القدير، 3 / 360، وابن عدي في الکامل، 3 / 436، والزرقاني في شرحه، 4 / 560.
’’حضرت ابو طفیل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ہاں میرے دس نام ہیں: میں محمد، اَحمد، ابو القاسم، فاتح، خاتم، عاقب (یعنی تمام انبیاء کے بعد آنے والا)، حاشر (یعنی جمع کرنے والا)، ماحی (یعنی گناہوں کو مٹانے والا) اور طہ اور یٰس ہوں۔‘‘ اِسے امام ابو نعیم، ابن عساکر اور قرطبی نے بیان کیا ہے۔
124 / 36. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ: رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: أَنَا أَحْمَدُ، وَأَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي أُحْشِرَ النَّاسُ عَلٰی قَدَمِي، وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللهُ بِيَ الْکُفْرَ فَإِذَا کَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ کَانَ لِوَاءُ الْحَمْدِ مَعِي، وَکُنْتُ إِمَامَ الْمُرْسَلِيْنَ، وَصَاحِبَ شَفَاعَتِهِمْ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُه وُثِّقُوْا.
36: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 2 / 184، الرقم: 1750، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 284.
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں اَحمد ہوں، میں محمد ہوں اور میں حاشر ہوں کہ سب لوگوں کو میری پیروی میں ہی (روزِ حشر) جمع کیا جائے گا، اور میں ماحی (یعنی مٹانے والا) ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعے کفر کو مٹائے گا، اور قیامت لواء الحمد (یعنی حمد کا جھنڈا) میرے پاس ہی ہو گا، اور میں اِمام المرسلین (یعنی جملہ رسولوں کا امام ) اور صَاحِبُ شَفَاعَتِهِمْ (یعنی جملہ اَنبیاء اور ان کی جملہ اُمتوںکی) کی شفاعت کرنے والا ہوں گا۔‘‘
اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔
125 / 37. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: أَنَا أَحْمَدُ، وَمُحَمَّدٌ، وَالْحَاشِرُ، وَالْمُقَفِّي، وَالْخَاتِمُ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.
37: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 378، الرقم: 2280، وأيضًا في المعجم الصغير، 1 / 110، الرقم: 156، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 29، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 248.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں اَحمد، محمد، حاشر، مقفی اور خاتم ہوں۔‘‘
اِسے امام طبرانی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
126 / 38. عَنْ عَبْدِ عَمْرِو بْنِ جِبِلَّةَ بْنِ وَائِلِ بْنِ الْجُـلَاحِ الْکَلَبِيِّ رضي الله عنه قَالَ: أَتَيْنَا النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم، فَعَرَضَ عَلَيْنَا الإِسْلَامَ فَأَسْلَمْنَا، وَقَالَ: أَنَا النَّبِيُّ الْأُمِّيُّ، الصَّادِقُ، الزَّکِيُّ، وَالْوَيْلُ کُلُّ الْوَيْلِ لِمَنْ کَذَّبَنِي وَتَوَلّٰی عَنِّي وَقَاتَلَنِي، وَالْخَيْرُ کُلُّ الْخَيْرِ لِمَنْ آوَانِي وَنَصَرَنِي وَآمَنَ بِي وَصَدَّقَ قَوْلِي وَجَاهَدَ مَعِي. قَالَا: فَنَحْنُ نُؤْمِنُ بِکَ وَنُصَدِّقُ قَوْلَکَ، فَأَسْلَمْنَا.
رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ.
38: أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 334، والعسقلاني في الإصابة، 4 / 377.
’’حضرت عبد عمرو بن جبلہ بن وائل بن جلاح کلبی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی، تو ہم نے اسلام قبول کر لیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نبی اُمّی، صادق اور زکی (یعنی پاک کرنے والا) ہوں اور مکمل بربادی ہے اس کے لیے جس نے مجھے جھٹلایا اور مجھ سے منہ پھیرا اور میرے ساتھ جنگ کی، اور بھلائی ہو اس کے لیے جس نے مجھے پناہ دی اور میری مدد کی اور مجھ پر ایمان لایا اور میرے قول کی تصدیق کی اور میرے ساتھ مل کر جہاد کیا۔ ان دونوں نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) ہم آپ پر ایمان لاتے ہیں اور آپ کے قول کی تصدیق کرتے ہیں، پس ہم نے اسلام قبول کر لیا۔‘‘
اسے امام ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
127 / 39. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي قَوْلِه تَعَالٰی: {وَإِذْ أَخْذْنَا مِنَ النَّبِيِّيْنَ مِيْثَاقَهُمْ} ]الأحزاب، 33: 7[، قَالَ: کُنْتُ أَوَّلَ النَّبِيِّيْنَ (وفي رواية: أَوَّلَ النَّاسِ) فِي الْخَلْقِ، وَآخِرَهُمْ فِي الْبَعْثِ فَبَدَأَ بِي قَبْلَهُمْ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ وَالدَّيْلَمِيُّ وَالذَّهَبِيُّ وَالْقُرْطُبِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ.
39: أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 149، والديلمي في مسند الفردوس، 3 / 282، الرقم: 4850، 4 / 411، الرقم: 7195، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 7، وقال: رواه ابن أبي حاتم وأبو نعيم، وأيضًا في الدر المنثور، 6 / 570، والذهبي في ميزان الاعتدال، 3 / 191، والبغوي في معالم التنزيل، 3 / 508، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 10 / 56، والمناوي في فيض القدير، 5 / 53، وابن کثير في البداية والنهاية، 2 / 307، وأيضًا في تفسير القرآن العظيم، 3 / 470، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 7 / 155، 14 / 127.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: ’’(اے حبیب! یاد کیجیے) جب ہم نے انبیاء سے ان (کی تبلیغِ رسالت) کا عہد لیا۔‘‘ کی تفسیر میں روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں تخلیق میں أوّل النبيين یعنی(بطور تخلیق) سب سے پہلا نبی (اور ایک روایت کے مطابق: أوّل النّاس (یعنی سب سے پہلا انسان) اور بعثت کے لحاظ سے آخر النبیین (یعنی سب سے آخری نبی) ہوں۔ سو اُن سب (انبیاء) سے پہلے (نبوت) کی ابتدا مجھ سے کی گئی۔‘‘
اسے امام ابن سعد، دیلمی، ذہبی، قرطبی اور ابن کثیر نے روایت کیا ہے۔
128 / 40. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: اِسْمِي فِي الْقُرْآنِ مُحَمَّدٌ، وَفِي الإِنْجِيْلِ أَحْمَدُ، وَفِي التَّوْرَاةِ أُحِيْدُ، وَإِنَّمَا سُمِّيْتُ أُحِيْدَ لِأَنِّي أُحِيْدُ عَنْ أُمَّتِي نَارَ جَهَنَّمَ، فَأَحِبُّوا الْعَرَبَ بِکُلِّ قُلُوْبِکُمْ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ وَالْقُرْطُبِيُّ وَالذَّهَبِيُّ.
40: أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 32، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 18 / 84، والذهبي في ميزان الاعتدال، 1 / 336، والعسقلاني في لسان الميزان، 1 / 354، الرقم: 1096، والنووي في تهذيب الأسماء، 1 / 49، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 133.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قرآن میں میرا نام محمد انجیل میں میرا نام اَحمد اور تورات میں میرا نام اُحید ہے۔اور بے شک میرا نام اُحید اس لیے رکھا گیاکہ میں اپنی امت سے جہنم کی آگ (کے عذاب کو) ہٹاؤں گا۔ پس تم عربوں سے اپنے دلوں کی گہرائی سے محبت کیا کرو۔‘‘
اِسے امام ابن عساکر، قرطبی اور ذہبی نے روایت کیا ہے۔
129 / 41. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ: لَمَّا جَاءَ جِبْرِيْلُ بِالْبُرَاقِ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: فَکَأَنَّمَا صَرَّتْ أُذُنَيْهَا، فَقَالَ لَهَا جِبْرِيْلُ: مَهْ يَا بُرَاقُ، وَاللهِ، إِنْ رَکِبَکِ مِثْلُه، فَسَارَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم ثُمَّ لَقِيَه خَلْقٌ مِنَ الْخَلْقِ فَقَالَ: اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا أَوَّلُ، اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا آخِرُ، وَالسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا حَاشِرُ. فَقَالَ لَه جِبْرِيْلُ: أُرْدُدْ السَّلَامَ يَا مُحَمَّدُ، قَالَ: فَرَدَّ السَّلَامَ، ثُمَّ لَقِيَهُ الثَّانِي فَقَالَ لَه مِثْلَ مَقَالَةِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ لَقِيَهُ الثَّالِثُ فَقَالَ لَه مِثْلَ مَقَالَةِ الْأُوْلَيَيْنِ حَتَّی انْتَهَی إِلٰی بَيْتِ الْمَقْدِسِ الحديث.
رَوَاهُ الضِّيَاءُ الْمَقْدِسِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَالطَّبَرِيُّ.
41: أخرجه المقدسي في الأحاديث المختارة، 6 / 259، الرقم: 2277، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 502، 1 / 258، والطبري في جامع البيان، 15 / 6، والسيوطي في الدر المنثور، 5 / 189، وأيضًا في الخصائص الکبری، 1 / 258.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب جبرائیل امین علیہ السلام براق لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس (براق) نے اپنے کان بجائے، پس جبرائیل امین علیہ السلام نے اسے فرمایا: خاموش ہو جا اے براق! اللہ کی قسم! ان کی مثل کوئی تجھ پر سوار نہیں ہوا۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر معراج پر چلے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (راستے میں) کچھ لوگ ملے اورعرض کیا: اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا أَوَّلُ (یعنی اے سب سے اوّل پیدا کیے جانے والے نبی آپ پر سلامتی ہو) اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا آخِرُ (یعنی اے سب سے آخر میں مبعوث کیے جانے والے نبی آپ پر سلامتی ہو) اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا حَاشِرُ (یعنی اے روز محشر سب کو جمع کرنے والے نبی آپ پر سلامتی ہو۔) تو جبرائیل امین علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: یا محمد مصطفی! ان کے سلام کا جواب دیجیے، راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سلام کا جواب مرحمت فرمایا پھر کچھ اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملے اور انہوں نے بھی پہلے لوگوں کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کیا۔ پھر کچھ اور لوگ ملے اور انہوں نے بھی پہلے دو گروہوں کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں سلام عرض کیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت المقدس پہنچ گئے الحدیث۔‘‘ اسے امام ضیاء مقدسی، ابن عساکر اور طبری نے روایت کیا ہے۔
130 / 42. عَنْ اُمِّ سَلَمَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم حَيِيًّا کَرِيْمًا يَسْتَحْيِي. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
42: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 313، الرقم: 26711، وأبو يعلی في المسند، 12 / 335 الرقم: 6907، والحاکم في المستدرک، 4 / 18، الرقم: 6758، وابن سعد في الطبقات الکبری، 8 / 90.
’’حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حیّی (صاحبِ حیاء) اور کریم (اور بہت زیادہ معزز تھے) حیاء آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شیوہ تھا۔‘‘
اسے امام اَحمد، حاکم اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
131 / 43. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه قَالَ: إِذَا صَلََّيْتُمْ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأَحْسِنُوا الصَّـلَاةَ عَلَيْهِ فَإِنَّکُمْ لَا تَدْرُوْنَ لَعَلََّ ذَالِکَ يُعْرَضُ عَلَيْهِ. قَالَ: فَقَالُوْا لَه: فَعَلِّمْنَا: قَالَ: قُوْلُوْا: اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ صَلَاتَکَ، وَرَحْمَتَکَ، وَبَرْکَاتِکَ، عَلٰی سَيِّدِ الْمُرْسَلِيْنَ، وَإِمَامِ الْمُتَّقِيْنَ، وَخَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ، مُحَمَّدٍ، عَبْدِکَ وَرَسُوْلِکَ إِمَامِ الْخَيْرِ، وَقَائِدِ الْخَيْرِ، وَرَسُوْلِ الرَّحْمَةِ، اَللّٰهُمَّ، ابْعَثْه مَقَامًا مَحْمُوْدًا يَغْبِطُه بِهِ الْأَوَّلُوْنَ وَالْآخِرُوْنَ الحديث. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَأَبُوْ يَعْلٰی.
43: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 1 / 293، الرقم: 906، وعبد الرزاق في المصنف، 2 / 213، الرقم: 3109، وأبو يعلی في المسند، 9 / 175، الرقم: 5267، والطبراني في المعجم الکبير، 8 / 115، الرقم: 8594، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 208، الرقم: 1550، والشاشي في المسند، 2 / 89، الرقم: 611، والمحاملي في الأمالي، 1 / 287. 288، الرقم: 294، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 329، الرقم: 2588.
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب تم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجو تو نہایت احسن انداز سے بھیجو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ (تمہارا یہ نذرانہ درود) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے، راوی بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا: تو آپ ہی ہمیں دروو بھیجنا سکھائیے۔ انہوں نے فرمایا: (یوں) کہو: اے اللہ! تو اپنے درود، اپنی رحمت اور اپنی برکات کو سید المرسلین، امام المتقین، خاتم النبیین، حضرت محمد مصطفی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جو کہ تیرے کامل بندے اور تیرے برگزیدہ رسول ہیں، جو اور امام الخیر (یعنی بھلائی کے امام) قائد الخیر (یعنی بھلائی کے قائد) اور رسولِ رحمت ہیں کے لیے خاص فرما۔ اے اللہ! تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس مقام محمود پر فائز فرما جس پر اوّلین و آخرین رشک کرتے رہیں گے الحدیث۔‘‘
اِسے امام ابن ماجہ، عبد الرزاق اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
132 / 44. عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ أَبُوْ طَالِبٍ إِذَا رَأَی رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ:
وَشَقَّ لَهُ مِنِ اسْمِه لِيُجِلَّه
فَذُو الْعَرْشِ مَحْمُوْدٌ وَهٰذَا مُحَمَّدٌ
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الصَّغِيْرِ وَابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْبَيْهَقِيُّ.
44: أخرجه البخاري في التاريخ الصغير، 1 / 13، الرقم: 31، وابن حبان في الثقات، 1 / 42، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1 / 41، والبيهقي في دلائل النبوة، 1 / 160، وابن عبد البر في الاستيعاب، 9 / 154، والعسقلاني في الإصابة، 7 / 235، وأيضًا في فتح الباري، 6 / 555، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 32. 33، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 1 / 133، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4 / 526، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 134، والزرقاني في شرحه علی الموطأ، 4 / 557، والعظيم آبادي في عون المعبود، 3 / 189.
’’حضرت علی بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو طالب جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکتے تو یہ شعر گنگناتے: ’’اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکریم کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام اپنے نام سے نکالا ہے، پس عرش والا(اللہ تعالیٰ) محمود اور یہ (حبیب) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘
اسے امام بخاری نے التاریخ الصغیر میں، ابن حبان، ابو نعیم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
133 / 45. عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ رضي الله عنه أَنَّه دَخَلَ عَلٰی عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَرْوَانَ فَقَالَ لَه: أَتُحْصِي أَسْمَاءَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم الَّتِي کَانَ جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ يَعُدُّهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، هِيَ سِتٌّ: مُحَمَّدٌ، وَأَحْمَدُ، وَخَاتِمٌ، وَحَاشِرٌ، وَعَاقِبٌ، وَمَاحٍ، فَأَمَّا حَاشِرٌ فَيُبْعَثُ مَعَ السَّاعَةِ نَذِيْرٌ لَکُمْ بَيْنَ يَدَي عَذَابٍ شَدِيْدٍ، وَأَمَّا عَاقِبٌ فَإِنَّه عَقْبُ الْأَنْبِيَاءِ، وَأَمَّا مَاحٍ فَإِنَّ اللهَ مَاحٍ بِه سَيِّئَاتٍ مَنِ اتَّبَعَه.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ سَعْدٍ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
45: أخرجه الحاکم في المستدرک، کتاب الأدب، 4 / 304، الرقم: 7718، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 141، الرقم: 1398، وأيضًا في دلائل النبوة، 1 / 156، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 105، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 557، والزرقاني في شرحه علی الموطأ، 4 / 560، والمناوي في فيض القدير، 3 / 45.
’’حضرت نافع بن جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ عبد الملک بن مروان کے پاس آئے تو اس نے آپ سے کہا: کیا آپ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان ناموں کا شمار کر سکتے ہیں جنہیں (آپ کے والد) حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ شمار کیا کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں، وہ چھ نام ہیں: محمد، اَحمد، خاتم، حاشر، عاقب اور ماح، رہی بات حاشرکی تو (اس کا مطلب ہے کہ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قیامت کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی اور نبی نہیں آئے گا) اور وہ تمہیں درد ناک عذاب سے ڈرانے والے ہیں اور رہی بات عاقب کی تو وہ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جملہ انبیاءِ کرام کے بعد تشریف لائے اور رہی بات ماح کی تو وہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے آپ کے پیرو کاروں کے گناہوں کو مٹا دے گا۔‘‘
اسے امام حاکم، بیہقی اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے۔
134 / 46. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَةِ رضي الله عنه، قَالَ: {يٰس} ]يس، 36: 1[، قَالَ: مُحَمَّدٌ صلی الله عليه وآله وسلم.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالْقُرْطُبِيُّ وَالرَّازِيُّ وَالْبَغْوِيُّ.
46: أخرجه البيهقي في دلائل النبوة، 1 / 158، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 15 / 3، والرازي في مفاتيح الغيب، 26 / 252، والبغوي في معالم التنزيل، والشوکاني في فتح القدير، وأبو حيان الأندلسي في البحر المحيط، والسيوطي في الدر المنثور، 7 / 41، وابن الجوزي في زاد المسير، وأبو الليث السمرقندي في بحر العلوم، 3 / 115.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما، محمد بن حنیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: یٰس سے مراد محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘
اِسے امام بیہقی، قرطبی، رازی اور بغوی نے روایت کیا ہے۔
135 / 47. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يُسَمَّی فِي الْکُتُبِ الْقَدِيْمَةِ: أَحْمَدُ، وَمُحَمَّدٌ، وَالْمَاحِي، وَالْمُقَفِّي، وَنَبِيُّ الْمَـلَاحِمِ، وَحَمَطَايَا، وَفَارْ قَلِيْطَا وَمَاذِمَاذَ.
رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ کَمَا قَالَ السُّيُوْطِيُّ.
47: أخرجه السيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 133، وقال: أخرجه أبو نعيم.
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سابقہ کتب میں اَحمد، محمد، ماحی، مقفِی، نبی الملاحم، حمطایا، فارقلیط اور ماذماذ کا اسمِ گرامی عطا کیا گیا تھا۔‘‘
امام سیوطی نے اسے بیان کیا اور فرمایا: اسے امام ابو نعیم نے بھی روایت کیا ہے۔
136 / 48. عَنْ کَعْبٍ رضي الله عنه قَالَ: فِي التَّوْرَاةِ مَکْتُوْبٌ: قَالَ اللهُ تَعَالٰی لِمُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم: عَبْدِي (سَمَّيْتُکَ) الْمُتَوَکِّلَ الْمُخْتَارَ.
رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْبَيْهَقِيُّ.
48: أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 5 / 387، والبيهقي في دلائل النبوة، 1 / 160، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4 / 360.
’’حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تورات میں لکھا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا: اے میرے (کامل) بندے میں نے تیرا نام متوکل اور مختار رکھا ہے۔‘‘ اِسے امام ابو نعیم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
137 / 49. عَنْ کَعْبٍ الْأَحْبَارِ رضي الله عنه قَالَ: أَي بُنَيَّ، فَکُلَّمَا ذَکَرْتَ اللهَ فَاذْکُرْ إِلٰی جَنْبِهِ اسْمَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم، فَإِنِّي رَأَيْتُ اسْمَه مَکْتُوْبًا عَلٰی سَاقِ الْعَرْشِ، وَأَنَا بَيْنَ الرُّوْحِ وَالطِّيْنِ، کَمَا أَنِّي طُفْتُ السَّمَاوَاتِ فَلَمْ أَرَ فِي السَّمَاوَاتِ مَوْضِعًا إِلَّا رَأَيْتُ اسْمَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم مَکْتُوْبًا عَلَيْهِ، وَأَنَّ رَبِّي أَسْکَنَنِيَ الْجَنَّةَ، فَلَمْ أَرَ فِي الْجَنَّةِ قَصْرًا وَلَا غُرْفَةً إِلَّا اسْمَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم مَکْتُوْبًا عَلَيْهِ، وَلَقَدْ رَأَيْتُ اسْمَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم مَکْتُوْبًا عَلٰی نُحُوْرِ الْعِيْنِ، وَعَلٰی وَرَقِ قَصَبِ آجَامِ الْجَنَّةِ، وَعَلٰی وَرَقِ شَجَرَةِ طُوْبٰی، وَعَلٰی وَرَقِ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰی، وَعَلٰی أَطْرَافِ الْحُجُبِ، وَبَيْنَ أَعْيُنِ الْمَـلَائِکَةِ، فَأَکْثِرْ ذِکْرَه، فَإِنَّ الْمَـلَائِکَةَ تَذْکُرُه فِي کُلِّ سَاعَاتِهَا.
رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ وَالسُّيُوْطِيُّ.
49: أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 23 / 281، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 12.
’’حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام نے (اپنے بیٹوں سے) فرمایا: اے میرے بیٹے، تو جب کبھی اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے تو اس کے ذکر کے ساتھ (اس کے حبیب) محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کا بھی ذکر کیا کرو، پس بے شک میں نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسمِ گرامی عرش کے پایوں پر لکھا ہوا پایا، درآنحالیکہ میں روح اور مٹی کے درمیانی مرحلہ میں تھا، جیسا کہ میں نے تمام آسمانوں کا طواف کیا اور کوئی جگہ ان آسمانوں میں ایسی نہ پائی جس میں، میں نے اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھا ہوا نہ دیکھا ہو، بے شک میں نے حور عین کے گلوں پر، جنت کے محلات کے بانسوں کے پتوں پر، طوبی درخت کے پتوں پر، سدرۃ المنتھی کے پتوں پر، دربانوں کی آنکھوں پر، اور فرشتوں کی آنکھوں کے درمیان اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھا ہوا دیکھا، پس تم بھی کثرت سے ان کا ذکر کیا کرو، بے شک ملائکہ بھی ہر گھڑی ان کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔‘‘ اِسے امام ابن عساکر اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔
138 / 50. قال الإمام البيهقي: قال أبو زکريا: وَلِنَبِيِّنَا صلی الله عليه وآله وسلم، خَمْسَةُ أَسْمَاءٍ فِي الْقُرْآنِ: مُحَمَّدٌ، وَأَحْمَدُ، وَعَبْدُ اللهِ، وَطهٰ، وَيٰس، قَالَ اللهُ عزوجل فِي ذِکْرِ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم: {مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ} [الفتح، 48: 29] وَقَالَ: {وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ} [الصف، 61: 6] وَقَالَ اللهُ فِي ذِکْرِ عَبْدِ اللهِ: {وَأَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللهِ} يَعْنِي النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم لَيْلَةَ الْجِنِّ: {يَدْعُوْهُ کَادُوْا يَکُوْنُوْنَ عَلَيْهِ لِبَدًا} [الجن، 72: 19]، وَإِنَّمَا کَانُوْا يَقَعُوْنَ بَعْضُهُمْ عَلٰی بَعْضٍ، کَمَا أَنَّ اللِّبَدَ يُتَّخَذُ مِنَ الصُّوْفِ، فَيُوْضَعُ بَعْضَه عَلٰی بَعْضٍ، فَيَصِيْرُ لِبَدًا، وَقَالَ اللهُ: {طهٰ مَا أَنْزَلْنَا عَلَيْکَ الْقُرْآنَ لِتَشْقٰی} [طه، 20: 1. 2] وَالْقُرْآنُ إِنَّمَا نَزَلَ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، دُوْنَ غَيْرِه، وَقَالَ اللهُ: {يٰـس} [يس، 36: 1]، يَعْنِي يَا إِنْسَانُ، وَالإِنْسَانُ هَاهُنَا: الْعَاقِلُ وَهُوَ مُحَمَّدٌ صلی الله عليه وآله وسلم. {إنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ} [يس، 36: 2].
قُلْتُ: وَزَادَ غَيْرُه مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، فَقَالَ: سَمَّاهُ اللهُ تَعَالٰی: فِي الْقُرْآنِ: رَسُوْلًا، نَبِيًّا، أُمِّيًّا، وَسَمَّاهُ: شَاهِدًا، وَمُبَشِّرًا، وَنَذِيْرًا، وَدَاعِيًا إِلَی اللهِ بِإِذْنِهِ، وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا، وَسَمَّاهُ: رَءُوْفًا رَحِيْمًا، وَسَمَّاهُ: نَذِيْرًا مُّبِيْنًا، وَسَمَّاهُ: مُذَکِّرًا، وَجَعَلَه رَحْمَةً، وَنِعْمَةً، وَهَادِيًا، وَسَمَّاه: عَبْدًا صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَعَلٰی آلِه وَسَلَّمَ کَثِيْرًا.
50: أخرجه البيهقي في دلائل النبوة، 1 / 159. 160، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 20.
’’امام بیہقی رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں کہ امام ابو زکریا رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہمارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرآن پاک میں پانچ اَسمائے گرامی ہیں: محمد، اَحمد، عبد اللہ، طٰہ اور یٰس‘‘۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر میں فرمایا: {مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ} ’’محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔‘‘ اور فرمایا: {وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ} ’’ اور اس رسولِ (معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی (آمد آمد) کی بشارت سنانے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں۔‘‘ جن کا نام (آسمان میں اس وقت) اَحمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہے اور اللہ تعالیٰ نے (ان کے) عبد اللہ ہونے کے ذکر میں فرمایا: {وَأَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللهِ يَدْعُوْهُ کَادُوْا يَکُوْنُوْنَ عَلَيْهِ لِبَدًا} یہاں عبد اللہ سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جو جنّات والی رات اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے قیام فرما ہوئے۔ ’’اور یہ کہ جب اللہ کے بندے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اس کی عبادت کرنے کھڑے ہوئے۔ تو وہ جنات ہجوم در ہجوم جمع ہو گئے (تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قرات سن سکیں) اور ان (جنوں) میں سے بعض بعض پر یوں ٹوٹ پڑے جیسے نمدہ اُون سے بنایا جاتا ہے تو اُس اُون کا کچھ حصہ دوسرے کے اوپر رکھا جاتا ہے تو وہ نمدہ بن جاتا ہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {طهٰ مَا أَنْزَلْنَا عَلَيْکَ الْقُرْآنَ لِتَشْقٰی} ’’طہ (حروف مقطعات)، (اے محبوب مکرم!) ہم نے آپ پر قرآن (اس لیے) نازل نہیں فرمایا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں۔‘‘ اور قرآن صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا کسی اور پر نہیں (لہٰذا یہاں طہٰ سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس ہی ہے) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {یٰـس} ’’یعنی اے انسان (کامل)! ‘‘ اور انسان سے یہاں مراد ہے عاقل اور وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں، (پھر فرمایا: ) {إنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ} ’’ بے شک آپ رسولوں میں سے ہیں۔
(امام بیہقی مزید فرماتے ہیں کہ) میں کہتا ہوں کہ اس کے علاوہ اہلِ علم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پانچ ناموں کے علاوہ بھی کئی اَسماء مبارکہ بیان کیے ہیں اور انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مندرجہ ذیل اَسماء عطا فرمائے: رسول، نبی، اُمّی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شاھد، مبشّر، نذیر، داعی الی اللہ، (یعنی اللہ تعالیٰ کے اِذن سے اس کی طرف دعوت دینے والا)، سِرَاج منیر (یعنی روشن کرنے والے چراغ) کا نام بھی دیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رء وف، رحیم، نذیر مبین (یعنی کھلا ڈر سنانے والا) اور مُذَکِّر (یعنی اللہ تعالیٰ کی یاد دلانے والے) کے اَسماء مبارکہ بھی عطا فرمائے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (تمام جہانوں کے لیے) رحمت، نعمت اور ہادی بنایا ہے اور عبدِ کامل کا نام دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پر بہت زیادہ درود و سلام بھیجے۔‘‘
139 / 51. قال المـلا علي القاري في ’’شَرْحِ الْبُرْدَةِ‘‘: أَنَّه إِذَا ذُکِرَ عَلٰی مَيِّتٍ حَقِيْقِيٍّ صَارَ حَيًّا حَاضِرًا، وَإِذَا ذُکِرَ عَلٰی کَافِرٍ وَغَافِلٍ جَعَلَ مُؤْمِنًا وَهَوَّلَ ذَاکِرًا لٰـکِنَ اللهَ تَعَالٰی سَتَرَ جَمَالَ هٰذَا الدُّرِّ الْمَکْنُوْنِ وَکَمَالَ هٰذَا الْجَوْهَرِ الْمَصُوْنِ لِحِکْمَةٍ بَالِغَةٍ وَنُکْتَةٍ سَابِقَةٍ وَلَعَلَّهَا لِيَکُوْنَ الْإِيْمَانُ غَيْبِيًّا وَالْأُمُوْرُ تَکْلِيْفِيًّا لَا لِشُهُوْدٍ عَيْنِيًّا وَالْعِيَانُ بَدِيْهِيًّا أَوْ لِـئَـلَّا يَصِيْرَ مَزْلَقَةً لِأَقْدَامِ الْعَوَامِ وَمَزِلَّةً لِتُضِرَّ الْجَمَالَ بِمَعْرِفَةِ الْمَلِکَ الْعَـلَّامِ.
51: ذکره الملا علي القاري في الزبدة في شرح البردة / 60.
’’ملا علی قاری رحمہ اللہ ’قصیدہ بُردہ شریف‘ کی شرح میں لکھتے ہیں: اگر خدائے رحیم و کریم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسمِ مبارک کی حقیقی برکات کو آج بھی ظاہر کر دے تو اُس کی برکت سے مُردہ زندہ ہو جائے، کافر کے کفر کی تاریکیاں دُور ہو جائیں اور غافل دل ذکرِ الٰہی میں مصروف ہو جائے لیکن ربِّ کائنات نے اپنی حکمتِ کاملہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِس اَنمول جوہر کے جمال پر پردہ ڈال دیا ہے، شاید ربِّ کائنات کی یہ حکمت ہے کہ معاملات کے برعکس اِیمان بالغیب پردہ کی صورت میں ہی ممکن ہے اور مشاہدہ حقیقت اُس کے منافی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کو مکمل طور پر اِس لیے بھی ظاہر نہیں کیا گیا کہ کہیں ناسمجھ لوگ غلُوّ کا شکار ہوکر معرفتِ اِلٰہی سے ہی غافل نہ ہو جائیں۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved