52 / 1. عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم خَرَجَ يَوْمًا فَصَلّٰی عَلٰی أَهْلِ أُحُدٍ صَـلَاتَه عَلَی الْمَيِّتِ تُمَّ انْصَرَفَ إِلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: إِنِّي فَرَطٌ لَکُمْ وَأَنَا شَهِيْدٌ عَلَيْکُمْ وَإِنِّي وَاللهِ، لَأَنْظُرُ إِلٰی حَوْضِي الآنَ، وَإِنِّي أُعْطِيْتُ مَفَاتِيْحَ خَزَآئِنِ الْأَرْضِ، أَوْ مَفَاتِيْحَ الْأَرْضِ، وَإِنِّي وَاللهِ، مَا أَخَافُ عَلَيْکُمْ أَنْ تُشْرِکُوْا بَعْدِي وَلٰـکِنْ أَخَافُ عَلَيْکُمْ أَنْ تَتَنَافَسُوْا فِيْهَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجنائز، باب الصلاة علی الشهيد، 1 / 451، الرقم: 1279، وأيضًا في کتاب المغازي، باب أُحد يحبنا ونحبه، 4 / 1498، الرقم: 3857، وأيضًا في کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1317، الرقم: 3401، وأيضًا في کتاب الرقاق، باب ما يحذر من زهرة الدنيا والتنافس فيها، 5 / 2361، الرقم: 6062، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب إثبات حوض نبينا صلی الله عليه وآله وسلم وصفاته، 4 / 1795، الرقم: 2296، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 153، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1 / 191، الرقم: 248.
’’حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک روز شہدائے اُحد (کے مزارات پر) نماز پڑھنے کے لئے تشریف لے گئے جیسے میت پر نماز پڑھی جاتی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا: بے شک میں تمہارا پیش رو اور تم پر گواہ ہوں۔ بیشک خدا کی قسم! میں اپنے حوض کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور بیشک مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں (یا فرمایا: روئے زمین کی کنجیاں) عطا کر دی گئی ہیں اور خدا کی قسم! مجھے یہ ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ تم دنیا کی محبت میں مبتلا ہو جاؤ گے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
53 / 2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الْکَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَبَيْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُنِي أُتِيْتُ بِمَفَاتِيْحِ خَزَائِنِ الْأَرْضِ فَوُضِعَتْ فِي يَدِي. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
2: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم: بعثت بجوامع الکلم، 6 / 2654، الرقم: 6845، وأيضًا في کتاب الجهاد، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم: نصرت بالرعب مسيرة شهر، 3 / 1087، الرقم: 2815، وأيضًا في کتاب التعبير، باب المفاتيح في اليد، 6 / 2573، الرقم: 6611، ومسلم في الصحيح، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، 1 / 371، الرقم: 523، والنسائي في السنن، کتاب الجهاد، باب وجوب الجهاد، 6 / 3. 4، الرقم: 3087. 3089، وأيضًا في السنن الکبری، 3 / 3، الرقم: 4295، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 264، 455، الرقم: 7575، 9867، وابن حبان في الصحيح، 14 / 277، الرقم: 6363.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں جامع کلمات کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہوں اور رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے اور جب میں سویا ہوا تھا اس وقت میں نے خود کو دیکھا کہ زمین کے خزانوں کی کنجیاں میرے لیے لائی گئیں اور میرے ہاتھ میں تھما دی گئیں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
54 / 3. عَنْ ثَوْبَانَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: إِنَّ اللهَ زَوَی لِيَ الْأَرْضَ. فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا. وَإِنَّ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مُلْکُهَا مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا وَأُعْطِيْتُ الْکَنْزَيْنِ الْأَحْمَرَ وَالْأَبْيَضَ. وَإِنِّي سَأَلْتُ رَبِّي لِأُمَّتِي أَنْ لَا يُهْلِکَهَا بِسَنَةٍ عَامَّةٍ، وَأَنْ لَا يُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَی أَنْفُسِهِمْ، فَيَسْتَبِيْحَ بَيْضَتَهُمْ وَإِنَّ رَبِّي قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي إِذَا قَضَيْتُ فَإِنَّهُ لَا يُرَدُّ وَإِنِّي أَعْطَيْتُکَ لِأُمَّتِکَ أَنْ لَا أَهْلِکَهُمْ بِسَنَةٍ عَامَّةٍ وَأَنْ لَا أُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَی أَنْفُسِهِمْ يَسْتَبِيْحُ بَيْضَتَهُمْ وَلَوِ اجْتَمَعَ عَلَيْهِمْ مَنْ بِأَقْطَارِهَا أَوْ قَالَ: مَنْ بَيْنَ أَقْطَارِهَا حَتّٰی يَکُوْنَ بَعْضُهُمْ يُهْلِکُ بَعْضًا وَيَسْبِي بَعْضُهُمْ بَعْضًا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
3: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب هلاک هذه الأمة بعضهم ببعض، 4 / 2215، الرقم: 2889، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في سؤال النبي صلی الله عليه وآله وسلم ثلاثًا في أمته، 4 / 472، الرقم: 2176، وأبو داود في السنن، کتاب الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن ودلائلها، 4 / 97، الرقم: 4252، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 278، الرقم: 22448، 22505، والبزار في المسند، 8 / 413، الرقم: 3487، والحاکم في المستدرک، 4 / 496، الرقم: 8390، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 311، الرقم: 31694، وابن حبان في الصحيح، 15 / 109، الرقم: 6714، والبيهقي في السنن الکبری، 9 / 181، والديلمي في مسند الفردوس، 2 / 296، الرقم: 3347.
’’حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے زمین کو میرے لئے لپیٹ دیا اور میں نے اس کے مشارق و مغارب کو دیکھا۔ عنقریب میری حکومت وہاں تک پہنچے گی جہاں تک میرے لئے زمین لپیٹی گئی۔ مجھے (قیصر و کسریٰ کے) سرخ اور سفید خزانے عطا کئے گئے۔ میں نے اپنے رب سے اپنی اُمت کے بارے میں سوال کیا کہ اُنہیں قحط سالی سے ہلاک نہ کرے اور نہ ہی ان پر ان کے غیر سے دشمن مسلط کرے جو انہیں مکمل طور پر نیست و نابود کر دے اور بے شک میرے رب نے مجھے فرمایا: اے محمد! میں جب ایک فیصلہ کر لیتا ہوں تو اُسے واپس نہیں لوٹایا جاسکتا اور بیشک میں نے آپ کو آپ کی امت کے لئے یہ چیز عطا فرما دی ہے کہ میں انہیں قحط سالی سے نہیں ماروں گا اور نہ ہی ان کے علاوہ کسی اور کو ان پر دشمن مسلط کروں گا جو انہیں مکمل طور پر نیست و نابود کر دے اگرچہ تمام ملکوں کے لوگ، یا فرمایا: جو اِن ملکوں میں موجود ہیں، جمع ہو جائیں یہاں تک کہ اُن میں سے بعض بعض کو ہلاک کریں اور بعض بعض کو قیدی بنائیں۔‘‘
اِسے امام مسلم، ترمذی اور ابو داود نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے اور امام حاکم نے بھی فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے۔
55 / 4. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنه يَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: أُعْطِيْتُ مَا لَمْ يُعْطَ أَحَدٌ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ. فَقُلْنَا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا هُوَ؟ قَالَ: نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَأُعْطِيْتُ مَفَاتِيْحَ الْأَرْضِ وَسُمِّيْتُ أَحْمَدَ وَجُعِلَ التُّرَابُ لِي طَهُوْرًا وَجُعِلَتْ أُمَّتِي خَيْرَ الْأُمَمِ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَحْمَدُ بِإِسْنَادٍ جَيِّدٍ.
4: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 304، الرقم: 31647، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 98، الرقم: 763، 1361، والبيهقي في السنن الکبری، 1 / 213، الرقم: 965، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4 / 783، الرقم: 1443، 1447، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 2 / 348، الرقم: 728. 729، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 260، 8 / 269.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے وہ کچھ عطا کیا گیا جو انبیاء کرام علیھم السلام میں سے کسی کو بھی عطا نہیں کیا گیا۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری رعب و دبدبہ سے مدد کی گئی اور مجھے زمین (کے خزانوں) کی کنجیاں عطا کی گئیں اور میرا نام احمد رکھا گیا اور مٹی کو بھی میرے لئے پاکیزہ قرار دیا گیا اور میری اُمت کو بہترین اُمت بنایا گیا۔‘‘
اِسے امام ابن ابی شیبہ اور احمد نے اسناد جید کے ساتھ روایت کیا ہے۔
56 / 5. عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: أُوْتِيْتُ بِمَقَالِيْدِ الدُّنْيَا عَلٰی فَرَسٍ أَبْلَقَ عَلَيْهِ قَطِيْفَةٌ مِنْ سُنْدُسٍ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.
وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
5: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 327، الرقم: 14553، وابن حبان في الصحيح، 14 / 279، الرقم: 6364، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1 / 191، الرقم: 249، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 400، الرقم: 1619، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 20، وأيضًا في موارد الظمآن، 1 / 525، الرقم: 2138، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 7 / 104.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے ریشمی کپڑے کی جھالر والے چتکبرے گھوڑے پر دنیا کی کنجیاں عطا کی گئیں۔‘‘
اِسے امام احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
57 / 6. عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رضي الله عنه قَالَ: أَمَرَنَا رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم بِحَفْرِ الْخَنْدَقِ قَالَ: وَعَرَضَ لَنَا صَخْرَةٌ فِي مَکَانٍ مِنَ الْخَنْدَقِ لَا تَأْخُذُ فِيْهَا الْمَعَاوِلُ قَالَ: فَشَکَوْهَا إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَجَاءَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ عَوْفٌ: وَأَحْسِبُه قَالَ: وَضَعَ ثَوْبَه ثُمَّ هَبَطَ إِلَی الصَّخْرَةِ فَأَخَذَ الْمِعْوَلَ فَقَالَ: بِسْمِ اللهِ فَضَرَبَ ضَرْبَةً فَکَسَرَ ثُلُثَ الْحَجَرِ وَقَالَ: اَللهُ أَکْبَرُ أُعْطِيْتُ مَفَاتِيْحَ الشَّامِ وَاللهِ، إِنِّي لَأُبْصِرُ قُصُوْرَهَا الْحُمْرَ مِنْ مِکَانِي هٰذَا ثُمَّ قَالَ: بِسْمِ اللهِ وَضَرَبَ أُخْرَی فَکَسَرَ ثُلُثَ الْحَجَرِ فَقَالَ: اَللهُ أَکْبَرُ أُعْطِيْتُ مَفَاتِيْحَ فَارِسَ، وَاللهِ، إِنِّي لَأُبْصِرُ الْمَدَائِنَ وَأُبْصِرُ قَصْرَهَا الْأَبْيَضَ مِنْ مَکَانِي هٰذَا ثُمَّ قَالَ: بِسْمِ اللهِ وَضَرَبَ ضَرْبَةً أُخْرَی فَقَلَعَ بَقِيَةَ الْحَجَرِ فَقَالَ: اَللهُ أَکْبَرُ أُعْطِيْتُ مَفَاتِيْحَ الْيَمَنِ وَاللهِ، إِنِّي لَأُبْصِرُ أَبْوَابَ صَنْعَاءَ مِنْ مَکَانِي هٰذَا.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُوْ يَعْلٰی. وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ: إِسْنَادُه حَسَنٌ.
6: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 303، الرقم: 18716، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 269، الرقم: 8858، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 378، الرقم: 36820، وأبو يعلی في المسند، 3 / 244، الرقم: 1685، والروياني في المسند، 1 / 276، الرقم: 410، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 1 / 391، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 1 / 131، والزيلعي في تخريج الأحاديث والآثار، 1 / 181، والعسقلاني في فتح الباري، 7 / 397، وقال: إسناده حسن، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 130. 131، والسيوطي في الدر المنثور، 6 / 575. 576.
’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (غزوہ خندق کے موقع پر) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں خندق کھودنے کا حکم دیا۔ آپ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ خندق کی جگہ ہمیں ایک ایسی (سخت) چٹان سے واسطہ پڑا جس پر (ہماری) کدالوں نے جواب دے دیا۔ آپ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ تب صحابہ کرام نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس معاملہ کی شکایت کی، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اُس جگہ) تشریف لائے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ میرے خیال میں اُنہوں نے یہ کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی قمیص مبارک اُتاری پھر چٹان کی طرف اُترے، کدال تھامی اور فرمایا: بسم اللہ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ضرب لگائی اور پتھر کا ایک تہائی حصہ توڑ دیا اور فرمایا: اللہ اکبر! مجھے شام کی کنجیاں عطا کر دی گئیں، اللہ کی عزت کی قسم! بے شک میں اپنی اس جگہ سے شام کے سرخ محلات دیکھ رہا ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بسم اللہ، اور ایک اور ضرب لگائی، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید ایک تہائی پتھر توڑ دیا اور فرمایا: اللہ اکبر، مجھے فارس کی کنجیاں بھی عطا کر دی گئیں، اللہ تعالیٰ کی قسم! بے شک میں اپنی اس جگہ سے مدائن اور اس کے سفید محل کو دیکھ رہا ہوں۔ پھر فرمایا: بسم اللہ، اور ایک اور ضرب لگائی اور باقی ماندہ پتھر کو وہاں سے ہٹا دیا، اور فرمایا: اللہ اکبر، مجھے یمن کی کنجیاں عطا فرما دی گئیں، اللہ تعالیٰ کی قسم! بے شک میں اپنی اس جگہ سے (یمن کے شہر) صنعاء کے دروازے دیکھ رہا ہوں۔‘‘
اِسے امام احمد، نسائی، ابن ابی شیبہ اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔ امام عسقلانی نے فرمایا: اِس کی اسناد حسن ہے۔
58 / 7. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم ذَاتَ غَدَاةٍ بَعْدَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ فَقَالَ: رَأَيْتُ قُبَيْلَ الْفَجْرِ کَأَنِّي أُعْطِيْتُ الْمَقَالِيْدَ وَالْمَوَازِيْنَ. فَأَمَّا الْمَقَالِيْدُ، فَهٰذِهِ الْمَفَاتِيْحُ، وَأَمَّا الْمَوَازِيْنُ، فَهِيَ الَّتِي تَزِنُوْنَ بِهَا، فَوُضِعْتُ فِي کِفَّةٍ وَوُضِعَتْ أُمَّتِي فِي کِفَّةٍ فَوُزِنْتُ بِهِمْ، فَرَجَحْتُ. ثُمَّ جِيئَ بِأَبِي بَکْرٍ، فَوُزِنَ بِهِمْ، فَوَزَنَ. ثُمَّ جِيئَ بِعُمَرَ، فَوُزِنَ بِهِمْ، فَوَزَنَ. ثُمَّ جِيئَ بِعُثْمَانَ فَوُزِنَ بِهِمْ، ثُمَّ رُفِعَتْ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
7: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 76، الرقم: 5469، وابن أبی شيبة في المصنف، 6 / 352، الرقم: 31960، وأيضًا، 6 / 176، الرقم: 30484، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 58.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک دن سورج طلوع ہونے کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرف تشریف لائے اور فرمایا: میں نے فجرسے تھوڑا پہلے خواب میں دیکھا گویا مجھے (زمین و آسمان کی) چابیاں اور ترازو عطاء کیے گئے(نبی کا خواب بھی مبنی بر وحی ہوتا ہے)۔ مقالید تو چابیاں ہیں اور ترازو وہ ہیں جن کے ساتھ تم وزن کرتے ہو۔ پھر مجھے ایک پلڑے میں رکھا گیا اور میری اُمت کو دوسرے پلڑے میں پھر وزن کیا گیا تو میرا پلڑا بھاری تھا۔ پھر ابو بکر صدیق کو لایا گیا پس ان کا وزن میری اُمت کے ساتھ کیا گیا تو ان کا پلڑا بھاری تھا۔ پھر عمر کو لایا گیا اور ان کا وزن میری امت کے ساتھ کیا گیا تو ان کا پلڑا بھاری تھا۔ پھر عثمان کو لایا گیا اور ان کا وزن میری امت کے ساتھ کیا گیا پھر وہ پلڑا اُٹھا لیا گیا۔‘‘
اِسے امام اَحمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
59 / 8. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ أَنَّه سَمِعَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنه يَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: أُعْطِيْتُ مَا لَمْ يُعْطَ أَحَدٌ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ فَقُلْنَا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا هُوَ؟ قَالَ: نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَأُعْطِيْتُ مَفَاتِيْحَ الْأَرْضِ وَسُمِّيْتُ أَحْمَدَ وَجُعِلَ التُّرَابُ لِي طَهُوْرًا وَجُعِلَتْ أُمَّتِي خَيْرَ الْأُمَمِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ. وَقَالَ ابْنُ کَثِيْرٍ: إِسْنَادُه حَسَنٌ.
8: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 98، 158، الرقم: 763، 1361، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 304، الرقم: 31647، وابن عبد البر في الاستذکار، 1 / 310، وأيضًا في التمهيد، 19 / 291، والفاکهي في أخبار مکة، 3 / 117، الرقم: 1872، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 2 / 348، الرقم: 728. 729، وقال: إسناده حسن، وابن تمام الرازي في الفوائد، 2 / 109، الرقم: 1276، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 392، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 260.
’’حضرت محمد بن علی بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے وہ کچھ عطا کیا گیا ہے جو گزشتہ انبیاء کرام میں سے کسی کو عطا نہیں کیا گیا، ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ کون سی چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے، اور مجھے روئے زمین (کے خزانوں) کی کنجیاں عطا کی گئیں ہیں، میرا نام احمد رکھا گیا ہے، اورساری زمین میرے لئے پاک کر دی گئی ہے، اور میری اُمت تمام اُمتوں سے بہترین بنائی گئی ہے۔‘‘
اِسے امام احمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے، اور علامہ ابن کثیر نے فرمایا: اِس کی سند حسن ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved