معجزۂ معراج تاریخِ ارتقائے نسلِ انسانی کا وہ سنگِ میل ہے جسے قصر ایمان کا بنیادی پتھر بنائے بغیر تاریخِ بندگی مکمل نہیں ہوتی اور روح کی تشنگی کا مداوا نہیں ہوتا۔ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تاریخِ انسانی کا ایک ایسا حیرت انگیز، انوکھا اور نادر الوقوع واقعہ ہے جس کی تفصیلات پر عقلِ ناقص آج بھی حیران و ششدر ہے۔ اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ سفرِ معراج کیونکہ طے ہوا؟ عقل حیرت کی تصویر بن جاتی ہے، مادی فلسفہ کی خوگر، اربعہ عناصر کی بے دام باندی عقلِ ناقص یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ انسانِ کامل حدودِ سماوِی کو عبور کر کے آسمان کی بلندیاں طے کرتا ہوا لامکاں کی وسعتوں تک کیسے پرواز کر سکتا ہے اور وہ کچھ دیکھ لیتا ہے جسے دیکھنے کی عام انسانی نظر میں تاب نہیں۔ اس لئے حدود و قیود کے پابند لوگ اس بے مثال سفرِ معراج کے عروج و ارتقاء پر انگشت بدنداں ہیں اور اسے مِن و عن اور مستند انداز سے مذکورہ تفصیلات کے ساتھ بھی ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور ایسے ایسے شبہات وارد کرتے ہیں اور تشکیک کا ایسا غبار اُڑاتے ہیں کہ دلائل سے غیر مسلح ذہن اور عام آدمی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور دیوارِ ایمان متزلزل سی ہونے لگتی ہے۔
نبئ آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات میں معجزۂ معراج خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ تاریخِ انبیاء کی ورق گردانی کی جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اپنے برگزیدہ رسولوں اور نبیوں کو اللہ رب العزت نے اپنے خصوصی معجزات سے نوازا۔ ہر نبی کو اپنے عہد، اپنے زمانے اور اپنے علاقے کے حوالے سے معجزات سے نوازا تاکہ ان کی حقانیت ہر فردِ بشر پر آشکار ہو اور وہ ایمان کی دولت سے سرفراز کیا جائے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت چونکہ جادو میں کمال رکھتی تھی، ہزاروں جادوگر دربارِ شاہی سے وابستہ ہوتے، اس لئے خالقِ کائنات نے بھی اپنے نبی کو جادو کے ان کمالات کا توڑ کرنے کے لئے معجزات عطا کئے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں طب کا بڑا چرچا تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مردوں کو بھی زندہ کر دینے کی قدرت سے فیض یاب تھے۔ کوڑھیوں کو تندرست کر دیتے کہ اس زمانے میں طب کا دور دورہ تھا اور انسانی نفسیات کو یہی بات زیادہ Apeal کرتی ہے۔ ہر نبی اپنے وقت کے ہر کمال سے آگے ہوتا ہے۔ امت جس کمال پر فائز ہوتی ہے نبی اس کمال پر بھی حاوی ہوتا ہے۔
اب نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تشریف لانا تھا۔ بابِ نبوت و رسالت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بند ہو رہا تھا۔ ختمِ نبوت کا تاج سرِ اقدس پر سجایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم المرسلین قرار پائے چنانچہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسے معجزات سے نوازا گیا جن کا مقابلہ تمام زمانوں کی قومیں مل کر بھی نہ کر سکتی تھیں۔ اللہ رب العزت کو معلوم تھا کہ امتِ محمدی چاند پر قدم رکھے گی اور ستاروں پر کمندیں ڈالے گی لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکان و لامکاں کی وسعتوں میں سے نکال کر اپنے قرب کی حقیقت عطا فرمائی جس کا گمان بھی عقل انسانی میں نہیں آ سکتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باقی تمام معجزات اور دیگر انبیاء و رسل کے تمام معجزات ایک طرف اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزۂ معراج ایک طرف، تمام معجزات مل کر بھی معجزۂ معراج کی ہمہ گیریت اور عالمگیریت کو نہیں پہنچ سکتے۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دائمی معجزہ ہے جس کی عظمت میں وقت کا سفر طے ہونے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا جائے گا اور نئے نئے کائناتی انکشافات سامنے آ کر معجزۂ معراج کی حقانیت کی گواہی دیتے رہیں گے۔ اِرتقاء کے سفر میں اٹھنے والا ہر قدم سفرِ معراج میں نقوشِ کفِ پا کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں مکہ سے اٹھا اور براق پر سوار ہو کر بیت المقدس پہنچا، وہاں سے آسمانوں اور پھر وہاں سے عرشِ معلی تک گیا حتیٰ کہ مکان و لامکاں کی وسعتیں طے کرتا ہوا مقامِ قاب و قوسین پر پہنچا اور پھر حسنِ مطلق کا بے نقاب جلوہ کیا۔ انبیائے کرام سے ملاقاتیں کیں، جب لوٹا تو گھر کے دروازے کی کنڈی ہل رہی تھی اور غسل و وضو کا پانی حرکت میں تھا۔ ابولہب اور ابوجہل کی عقل آڑے آ گئی۔ غبارِتشکیک نے حقائق کو چھپا لیا جبکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ عشق کی بازی جیت گئے اور صدیق کے لقب سے ملقّب ہوئے۔ انسان کا سفرِ ارتقاء نقوشِ کفِ پائے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش کا نام ہے۔
آج کے سائنسی دور کے اِرتقاء اور کائناتی انکشافات کے اس دور میں بھی اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ میں نے خواب میں زمینوں اور آسمانوں کی سیر کی اور جب میں واپس آیا تو میرا بستر گرم تھا تو اسے مِن و عن تسلیم کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ خواب کی بات ہے اور خواب میں ایسا ہونا ممکن ہے۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی یہ دعویٰ خواب کے حوالے سے کرتے تو ابولہب کو اس کی حقانیت سے انکار ہوتا اور نہ ابوجہل کو۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دعویٰ عالمِ بیداری میں کیا گیا کہ آسمانوں اور زمینوں کی سیر میں نے عالمِ بیداری میں کی، اس لئے عقلِ عیار اسے تسلیم کرنے پر تیار نہ ہوئی۔ اب چونکہ جاگتے ہوئے یہ سب کچھ ہونا انسانی فہم و اِدراک سے بالاتر تھا لہٰذا اس معجزہ کو اہلِ ایمان کے لئے ان کے ایمانوں کی آزمائش قرار دیا گیا۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِّلنَّاسِ.
(بنی اسرائيل، 17 : 60)
اور ہم نے تو (شبِ معراج کے) اس نظارہ کو جو ہم نے آپ کو دکھایا لوگوں کے لئے صرف ایک آزمائش بنایا ہے (ایمان والے مان گئے اور ظاہر بین اُلجھ گئے۔)
بعض لوگ یہ سمجھتے کہ رویا چونکہ عام طور پر خواب کے معنیٰ میں استعمال کیا جاتا ہے لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سفرِ معراج خواب میں عطا ہوا۔ درحقیقت یہ مفہوم غلط ہے۔ عربی زبان میں رؤیاء رات کے وقت کھلی آنکھوں سے دیکھنے کو بھی کہتے ہیں اور دورِ جاہلیت کے کئی عرب شعراء کا کلام بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے۔ یہاں رویاء سے مراد مطلق مشاہدہ ہے۔ اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن نے کہا :
لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا.
(بنی اسرائيل، 17 : 1)
تاکہ ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں۔
چونکہ یہ چیز کسی بھی شخص کے لئے عملاً ناممکن تھی لہٰذا اللہ رب العزت نے اسے اپنی قدرتوں کی طرف منسوب کیا اور فرمایا :
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً.
(بنی اسرائيل، 17 : 1)
(کہ ہر نقص، عیب اور ناممکن کے لفظ سے) پاک ہے وہ قادرِ مطلق جو لے گیا اپنے بندے کو رات کے وقت سیر کرانے۔
کفار و مشرکینِ مکہ کا ردِّ عمل ہی ظاہر کرتا ہے کہ معجزۂ معراج کوئی معمولی واقعہ تھا اور نہ یہ کوئی خواب ہی بیان ہو رہا تھا۔ اگر یہ خواب ہوتا تو کفار و مشرکین کا ایسا منکرانہ ردِّ شعمل سامنے آتا اور نہ قرآن میں اس کا ذکر اس اہتمام سے ہوتا۔ الشفاء بتعریف حقوقِ المصطفیٰ میں قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تحقیق کے مطابق ان صحابہ رضی اللہ عنہ و ائمہ کرام رحمۃ اللہ علیہ کو جسمانی معراج پر ایمان رکھنے والا کہا ہے :
و ذهب معظم السلف و المسلمين إلی أنه إسراء بالجسد و فی اليقظة و هذا هو الحق وهو قول إبن عباس و جابر و أنس و حذيفة و عمر و أبی هريرة و مالک بن صعصعة و أبی حبة البدری و ابن مسعود و الضحاک و سعيد بن جبير و قتاده و ابن المسيب و ابن شهاب و ابن زيد و الحسن و إبراهيم و مسروق و مجاهد و عکرمة و ابن جريج و هو دليل قول عائشة وهو قول الطبری و ابن حنبل و جماعة عظيمة من المسلمين وهو قول أکثر المتأخرين من الفقهاء و المحدثين و المتکلمين و المفسرين.
(الشفاء، 1 : 188)
اسلاف اور مسلمانوں کی اکثریت اسراء کو جسم کے ساتھ بیداری میں ہونے پر ایمان رکھتی ہے اور یہی سچا قول ہے۔ اس قول میں ابن عباس رضی اللہ عنہ، جابر رضی اللہ عنہ، انس رضی اللہ عنہ، حذیفہ رضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ، ابوحبہ البدری رضی اللہ عنہ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ، ضحاک رضی اللہ عنہ، سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ، قتادہ ابن المسیب رضی اللہ عنہ، ابن شہاب رضی اللہ عنہ، ابن زید رضی اللہ عنہ، حسن رضی اللہ عنہ، ابراہیم رضی اللہ عنہ، مسروق، مجاہد رضی اللہ عنہ، عکرمہ رضی اللہ عنہ، ابن جریح رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ شریک ہیں اور یہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے قول پر دلیل ہے اور یہ قول طبری رحمۃ اللہ علیہ ، ابن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ مسلمانوں کی غالب اکثریت کا بھی ہے اور متاخرین فقھاء محدثین اور متکلمین و مفسرین کا بھی یہی قول ہے۔
انسان ظاہر و باطن کا پیکرِ دلنشیں ہے۔ داخل سے خارج تک اور خارج سے داخل تک کا سفر اَن گِنَت مراحل کا امین ہوتا ہے۔ باطن ایک شفاف آئینہ ہے جس میں ظاہر کی دنیا کا ہر عکس جلوہ گر ہوتا ہے۔ اس طرح ظاہر بھی من کی دنیا کا عکاس ہے۔ باطن کے پانچ لطائف ہوتے ہیں۔ قلب، روح، سرّ، خفی اور اخفی۔ سفرِ معراج عالمِ بیداری میں طے ہوا۔ اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ یہ معراج یک جہتی نہ تھی بلکہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا ہونے والی معراج تمام لطائف کی بھی معراج تھی۔ وہ ایسے کہ ہر لطیفے کا مقام اپنی جگہ سے اٹھ کر اوپر کے مقام پر چلا گیا یعنی جسمِ اطہر جو نفس کا مظہر تھا جب مقامِ قاب قوسین پر پہنچا تو وہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسمِ اطہر تھا لیکن جسم کے مقام سے اٹھ مرتبۂ قلب پر پہنچ گیا تھا۔ یہ بات اگر سمجھ میں آ جائے تو یہ خود بخود واضح ہو جاتا ہے کہ شبِ معراج حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ پاک کا دیدار سر کی آنکھوں سے کیسے کیا۔ اصل بات یوں ہے کہ اس سلسلے میں دو روایات ملتی ہیں :
1۔ اُمُ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ جس شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت اللہ جل شانہ کو سر کی آنکھوں سے دیکھنے کا دعویٰ کیا، اس نے کفر کیا۔ اسکو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کے ساتھ بیان کیا ہے۔
عن مسروق، قال : سالت عائشة رضی الله عنه عن هذه الآية التي فيها الروية فقالت : انا اعلم هذه الامة بهذه، وانا سالت رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم عن ذالک قال : رأيت جبرئيل ثم قالت : من زعم ان محمداً رای ربه فقد اعظم الکذب علی الله.
مسروق بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے آیت رؤیت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا میں اس کے بارے میں اس امت سے بہتر جانتی ہوں۔ میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا میں نے جبرئیل کو دیکھا ہے۔ پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا جس نے یہ دعویٰ کیا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا ہے۔
1. صحيح لمسلم، کتاب الايمان، رقم : 287
2. صحيح البخاری، کتاب بدأ الخلق، رقم : 3062
3. جامع الترمذی، کتاب التفسير، رقم : 3068، 3278
4. مسند احمد بن حنبل، 6 : 49، 50
5. مسند ابی يعلی، 8 : 304، رقم : 4900
امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ المعجم الکبیر والاوسط میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول نقل کرتے ہیں :
عن ابن عباس رضي الله عنه قال : راي محمد صلي الله عليه وآله وسلم ربه عزوجل مرتين مرة ببصره و مرة بفواده.
1. المعجم الکبير، 12 : 71، رقم : 12564
2. المعجم الاوسط، 6 : 356، رقم : 5757
3. المواهب اللدنيه، 2 : 37
4. نشر الطيب، 55
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا ایک مرتبہ سرکی آنکھوں سے اور دوسری مرتبہ دل کی آنکھوں سے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے موقف کی تائید اور اسکی تفصیل باب رؤیت باری تعالی میں بیان کی جائے گی۔
حقیقتِ حال یہ ہے کہ دونوں باتیں ایسی ہیں کہ انہیں مان لیا جائے کیونکہ سر کی آنکھیں جب تک مرتبۂ جسم پر رہیں، اللہ تعالیٰ کے حسن اور اس کے نورِ ذات کو نہیں دیکھا جا سکتا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب دیکھا تو سر کی آنکھیں مرتبۂ قلب پر فائز ہو چکی تھیں اور جسم رتبے میں دل سے بدل چکا تھا یعنی کھلی ہوئی تو سر کی آنکھیں تھیں مگر ان کا دیکھنا ایسا تھا کہ دل دیکھ رہا ہو۔ اس لئے قرآن مجید نے کہا :
مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىO
(النجم، 53 : 11)
دل نے جھوٹ نہ کہا جو دیکھا۔
یہ دل وہی تو دیکھ رہا تھا جو آنکھیں دیکھ رہی تھیں۔ اسی طرح قلبِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج حاصل ہوئی تو وہ مرتبۂ روح پر پہنچ گیا یعنی دل تو پہلے ہی اللہ رب العزت کی محویت میں غرق تھا جب وہ روح کے مرتبے تک پہنچا تو فنا ہو گیا۔ پھر روح کو سرّ کا درجہ ملا تو وہ فنائے تام کے درجے تک پہنچی۔ پھر سر ّخفی اور اَخفیٰ کے مرتبے تک پہنچا تو کبھی ’’دَنٰی‘‘ کے ذریعے مولا کو دیکھا تو کبھی ’’فَتَدَلّٰی‘‘ کے ذریعے قرب کی انتہائیں نصیب ہوئیں، آخرکار مشاہدہ اپنے کمال کو پہنچ گیا، جسے قرآن مجید میں یوں بیان کیا گیا ہے :
وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىO
(النجم، 53 : 13)
اور (اب) انہوں نے وہ جلوہ دوسری بار دیکھا۔
سفرِ معراج میں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر لطیفے کو قربِ الٰہی نصیب ہوا اور وہ دیدارِ الٰہی کی لذتِ دوام سے ہمکنار ہوا۔ جب سب مراحل طے پا گئے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حال میں کرۂ ارضی کی طرف لوٹے کہ ہر ہر لطیفے میں مولا کے قرب اور اس کے دیدار کی لذتیں سما چکی تھیں۔
سفرِ معراج کا پہلا مرحلہ مسجدُ الحرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کا ہے۔ یہ زمینی سفر ہے۔ یہ چونکہ انسانی دنیا کا حصہ ہے اور ذہنِ انسانی میں اس کی تفہیم نسبتاً آسانی سے ممکن ہے اس لئے اسے تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، حتیٰ کہ سفر کے اَحوال، واقعات اور اس کی حقانیت پر دلائل بھی بیان کئے گئے ہیں۔
سفرِ معراج کا دوسرا مرحلہ مسجدِ اقصیٰ سے لے کر سدرۃ ُالمنتہیٰ تک ہے۔ یہ کرۂ ارضی سے کہکشاؤں کے اس پار واقع نورانی دنیا تک سفر ہے۔ یہ چونکہ مخلوق کی حدود کے اندر تھا لہٰذا اسے بھی بیان کیا مگر تفصیل سے بیان نہیں کیا کیونکہ یہ پوری طرح ذہنِ انسانی میں آنے والا نہ تھا۔
سفرِ معراج کا تیسرا مرحلہ سدرۃ ُالمنتہیٰ سے آگے قاب قوسین اور اس سے بھی آگے تک کا ہے۔ چونکہ یہ سفر محبت اور عظمت کا سفر تھا اور یہ ملاقات محب اور محبوب کی خاص ملاقات تھی لہٰذا اس رودادِ محبت کو راز میں رکھا گیا۔ سورۃ ُالنجم میں فقط اتنا فرمایا کہ وہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو راز اور پیار کی باتیں کرنا چاہیں وہ کر لیں۔ (اب کسی کو اس سے کیا غرض کہ کیا باتیں کیں) جبکہ اس مقام پر فرمایا : إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ۔ اب غور طلب بات یہ ہے کہ یہ نہیں بتایا کہ دیکھنے اور سننے والا کون ہے؟ اس سے مراد اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات بابرکات بھی ہو سکتی ہے اور آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بھی ( یہ معنی علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی تفسیر روح المعانی میں بیان کیا ہے) گویا اس کے دو معانی ہو گئے :
1۔ بے شک اس مقام پر فقط اللہ ہی تھا جو پیار بھرے انداز میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکھڑا تکنے والا تھا اور جو اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میٹھی میٹھی زبان سے اس کی عرضداشت سننے والا تھا۔
2۔ بے شک اس مقام پر فقط حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی تھے جو اپنے رب تعالیٰ کے حسن بے نقاب کے جلوے میں مشغول تھے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشادات اور پیار بھری باتیں سننے والے تھے۔
یہ وہ مقام تھا جہاں سفرِ محبت و عظمت اپنے مقصود کو پانے والا تھا جس کا مخلوق سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا لہٰذا ان کے بتانے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ کبھی وہ سننے والا اور یہ سنانے والا تھا اور کبھی یہ دیکھنے والا اور وہ دیکھا جانے والا تھا۔
یہ معنیٰ امام صاوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی لیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس کی حکمت یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی زبانِ حکمت سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف بیان کرنا چاہتے ہیں تاکہ واضح ہو کہ آپ کا مقام کتنا بلند ہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمتوں کا حال معلوم ہو سکے۔
عارف الراعی فرماتے ہیں :
و إن قابلتْ لفظة لَنْ تَرَانِيْ
بما کَذَبَ الْفُؤَادُ فهمّت معنی
فموسٰی خرّ مغشياً عليه
و أحمد لم يکن ليزيغ ذهناً
ترجمہ :۔ ’’اگر تو لَن تَرَانِي اور مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى کا آپس میں مقابلہ کرے تو تیری سمجھ میں آ جائے گا کہ حقیقت کیا ہے۔ موسیٰ بے ہوش گئے جبکہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمِ اقدس بھی دنگ نہ ہوئی‘‘ ۔
(الصاوی علی الجلالين، 4 : 137)
محبت اپنی زبان خود تخلیق کرتی ہے۔ اظہارِ محبت کسی لفظ کا بھی مرہونِ منّت نہیں ہوتا۔ چشمِ بے تاب سارا حال کہہ دیتی ہے۔ محبت کے تقاضوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ تعلق اتنا گہرا ہو کہ دو کا ذکر کرنا ہو تو اس طرح کیا جائے جیسے ایک ہی کا ذکر ہے حتیٰ کہ غیریت کا تصور تک مٹ جائے۔ مثلاً قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے : ثُمَّ دَنٰی فَتَدَلّٰی، اب اس آیت میں دو افعال ہیں مگر کسی ایک کے فاعل کا بھی ذکر نہیں کیا گیا۔ اب اس میں مختلف صورتیں ممکن ہیں :
یہ معنی زیادہ قرین قیاس ہے۔ ظاہر ہے کہ پہلا قرب تو آنے والا خود ہی چاہتا ہے مگر مخلوق کو محدود ہونے کے سبب سے کسی نہ کسی حد پر رک ہی جانا تھا۔ سو باقی رہنے والے فاصلے کو مٹانے کے لئے اور قرب کی حدوں کو توڑ دینے کے لئے اللہ آگے بڑھا کہ جو غیر محدود ہے۔
اس کی تائید امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگے پہنچے تو ربِ کائنات نے ارشاد فرمایا :
قف يا محمد! إن ربک يصلی.
(اليواقيت و الجواهر، 2 : 35)
ٹھہر جاؤ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! بیشک تمہارا رب قریب ہوتا ہے۔
صَلّٰی، یُصَلِّيْ کا معنی قریب ہونا صاحبِ ’’الصَّلٰوۃ و البُشر‘‘ نے بھی لیا ہے۔
اب رہی بات یہ کہ اللہ کس قدر قریب ہوا تو اس کا جواب اس آیت کریمہ سے بخوبی ملتا ہے۔ فرمایا :
فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىO
(النجم، 53 : 9)
پھر دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا یا اس سے بھی کم رہ گیا (جس کی کوئی حد معلوم نہیں)۔
دوئی کے مٹانے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ توحید و رسالت کا تعلق ایسا ہے کہ دو کو مانا جائے مگر دونوں میں ایسی دُوئی جو غیریت کا مفہوم رکھتی ہو اُسے تسلیم نہ کیا جائے۔ گویا جس طرح دو ہونے کا انکار کرنا کفر ہے اس کی طرح دُوئی کو بدرجۂ غیریت ماننا بھی کفر ہے۔
جزیرہ نمائے عرب میں ظہورِ اسلام کے وقت اگرچہ کوئی مرکزی حکومت نہ تھی۔ سیاسی اور جغرافیائی وحدت کا تصور عملاً مفقود تھا، تاہم قبائلی رسم و رواج کی پابندی کی جاتی۔ عربوں کا ایک اپنا مزاج تھا جس نے ان کی ثقافتی اِکائی کو بڑی حد تک زمانے کی دستبرد سے محفوظ رکھا۔
عربوں کا ایک طریقہ تھا کہ جب دو قبیلے آپس میں ملتے اور معاہدہ کر کے یک جان دو قالب ہونا چاہتے تو فریقین اپنی کمانوں کو آپس میں بدلتے اور پھر ملا کر تیر پھینکتے تو یہ تصور کیا جاتا کہ ایک کا پھینکا ہوا تیر دوسرے کا ہے اور دوسرے کا پھینکا ہوا تیر پہلے کا ہے۔ ایک فریق کی دوستی دوسرے فریق کی دوستی ہے اور ایک کی دشمنی دوسرے کی دشمنی ہے۔ گویا قاب قوسین کی مثال دے کر اللہ رب العزت یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں جس نے اللہ سے تعلق جوڑنے کا ارادہ رکھا اسے چاہئے کہ اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامنِ رحمت سے لپٹ جائے اور جس کسی نے اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے (معاذاللہ) بغض رکھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں (نعوذ باللہ) تنقیص کی جسارت کی، اللہ نے اس کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔
معراج بلاشبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زندہ معجزہ ہے۔ یہ معجزہ براہِ راست اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت، رفعت اور حقیقت کسی بھی فردِ بشر کی سمجھ بوجھ، عقل و خرد اور فہم و فراست کی پرواز سے بلند اور بہت ہی بلند ہے حتیٰ کہ کسی کے لئے اس کا تصور بھی ممکن نہیں۔
حقیقتِ معراج کے چند گوشے بیان کرنے کے بعد اب ہم مختلف احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں واقعہ معراج کی جملہ تفصیلات بیان کرتے ہیں۔
سفرِ معراج، سفرِ محبت بھی ہے اور سفرِ عظمت بھی۔ بیت ُاللہ سے بیت المقدس اس سفرِ مقدس کا پہلا مرحلہ تھا۔ یہ واقعہ متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور متعدد طرق، اسناد اور تفصیلات کے ساتھ منقول ہے۔ نیز تابعین نے بھی اسے صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔
حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حطیمِ کعبہ میں آرام فرما رہے تھے کہ حضرت جبرئیل امین علیہ السلام نے آ کر تاجدارِ کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جگایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیند سے بیدار ہوئے، اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر لیٹ گئے۔ جبرئیل امین علیہ السلام نے دوبارہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیدار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اِدھر اُدھر دیکھا اور لیٹ گئے۔ پھر جبرئیل امین علیہ السلام نے تیسری مرتبہ درِ اقدس پر آواز دی۔ اس مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھے تو جبرئیل علیہ السلام نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اللہ رب العزت نے آپ کو اپنی ملاقات کے لئے بلایا ہے۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینۂ اقدس حلق سے لے کر ناف تک چاک کیا گیا اور قلبِ اطہر کو نکالا گیا۔ اللہ رب العزت نے ملاءِ اعلیٰ سے ایک طشت کے اندر اپنے خصوصی اَنوار و تجلیاتِ حکمت بھیجے تھے۔ ان اَنوار و تجلیات سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ اقدس کو دھویا گیا تاکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلبِ اطہر سفرِ معراج شروع کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ذاتی انوار و تجلیات کے فیض کو کماحقہ اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت پیدا کر لے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک سواری پیش کی گئی جو قد کے اعتبار سے گوش دراز سے اونچی اور خچر سے نیچی تھی۔ اس کا رنگ چمکدار اور سفید تھا۔ اس کا نام ’’براق‘‘ تھا۔
عن مالک بن صعصعة، قال : قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم ’’بينا أنا في الحجر. . . و فی رواية فی الحطيم. . . بين النائم و اليقظان، إذ أتانی آت، فشقّ ما بين هذه إلی هذه، فاستخرج قلبی، فغسله ثم أعيده، ثم أتيت بدابة دون البغل فوق الحمار أبيض، يقال له ’’البُرَّاق، ، فحملت عليه، ، .
(روح المعانی، 15 : 5)
حضرت مالک بن صعصعہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں حجر۔ ۔ ۔ دوسری روایت میں حطیم کا ذکر ہے۔ ۔ ۔ میں نیند اور بیداری کی درمیانی کیفیت میں تھا جب میرے پاس آنے والا (فرشتہ) آیا۔ اس نے (میرا سینہ) یہاں سے یہاں تک چیرا۔ پھر میرے دل کو نکال کر غسل دیا۔ پھر دوبارہ اندر رکھ دیا۔ پھر ایک سواری لائی گئی جو خچر سے چھوٹی اور گوش دراز سے بڑی تھی۔ اس کا رنگ سفید تھا۔ اسے ’’براق‘‘ کہا جاتا ہے پس مجھے اس پر سوار کرایا گیا۔
جب تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو براق پر سوار کیا گیا تو وہ فخر و اِنبساط سے ناچنے لگی کہ آج اسے سیاحِ لامکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری ہونے کا لازوال اعزاز حاصل ہو رہا ہے۔ براق اس سعادتِ عظمیٰ پر وجد میں آ گیا۔ اس پر جبرئیلِ امین علیہ السلام نے اس سواری سے فرمایا :
’’رک جا! اللہ کی عزت کی قسم تجھ پر جو سوار بیٹھا ہے آج تک تجھ پر ایسا سوار نہیں بیٹھا‘‘۔
حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو براق پر سوار کرا کے انہیں بیت المقدس کی طرف لے جایا گیا۔ براق کی رفتار کا یہ عالم تھا کہ جہاں سوار کی نظر پڑتی تھی وہاں اس کا قدم پڑتا تھا۔
سفرِمعراج کے پہلے مرحلے پر سفر جاری تھا کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبرِ انور کے قریب سے ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ وہ اپنی قبرِ انور میں کھڑے صلوٰۃ پڑھ رہے تھے۔
انبیاء صف بہ صف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کیلئے کھڑے تھے۔
جب یہ مقدس قافلہ بیت المقدس پہنچا تو بابِ محمد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کے لئے کھلا تھا۔ جبرئیل امین علیہ السلام نے اپنی انگلی سے دروازے کے قریب موجود ایک پتھر میں سوراخ کیا اور براق کو اس سے باندھ دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت المقدس میں داخل ہوئے تو تمام انبیائے کرام علیھم السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم، اِکرام اور اِحترام میں منتظر تھے۔ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت میں نماز پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔
انبیاء حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کر کے ادب و احترامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشرف ہو چکے تو آسمانی سفر کا آغاز ہوا، اس لئے کہ ہر زمینی عظمت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کا بوسہ لے چکی تھی۔ پہلے آسمان پر پہنچ کر آسمان کے دروازے پر دستک دی گئی۔ بوّاب پہلے سے منتظر تھا۔ آواز آئی : کون ہے؟۔ ۔ ۔ جبرئیل امین نے جواب دیا : میں جبرئیل ہوں۔ ۔ ۔ ۔ آواز آئی : آپ کے ساتھ کون ہے؟۔ ۔ ۔ جواب دیا : یہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ آج کی رات انہیں آسمانوں پر پذیرائی بخشی جائے گی۔ آسمان کا دروازہ کھل گیا اور پوچھنے والے نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بیکس پناہ میں سلام عرض کرنے کی سعادت حاصل کی۔ مرحبا یا سیدی یا مرشدی مرحبا
فانطلق بی، حتی أتی السماء الدنيا فاستفتح، قيل : من هذا؟ قال : جبرئيل، و من معک؟ قال : محمد، قيل : قد أرسل إليه؟ قال : نعم، قيل : مرحبا به فنعم المجيئ جاء.
(تفسير البغوی، 3 : 93)
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آسمانوں کی طرف بڑھے اور جب آسمانِ دنیا پر آئے تو دروازہ کھٹکھٹایا۔ آواز آئی : کون؟ جبرئیل امین نے کہا : جبرئیل۔ پھر کہا گیا : آپ کے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا : محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ پھر پوچھا گیا : کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ جبرئیل نے کہا : ہاں۔ آواز آئی : خوش آمدید، کتنا اچھا آنے والا آیا ہے۔
تاجدارِ کائنات حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ آپ کے جلیل القدر فرزند ہیں۔ ختم المرسلین ہیں۔ یہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ یہی کل انبیاء کے سرتاج ہیں۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دادا جان کہہ کر آدم علیہ السلام کی بارگاہ میں سلام ارشاد فرمایا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے سلام کا جواب بھی عرض کیا اور اپنے عظیم فرزند کو دعاؤں سے بھی نوازا۔ اس کے بعد مہمانِ عرش حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دوسرے آسمان کی طرف اٹھایا گیا۔ پہلے آسمان کی طرح بوّاب نے دوسرے آسمان کا بھی دروازہ کھولا۔ یہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور یحییٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ اس یادگار ملاقات اور آسمان کے ملکوتی مشاہدات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تیسرے آسمان کی طرف اٹھایا گیا۔ تیسرے آسمان پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات سیدنا یوسف علیہ السلام سے کرائی گئی۔ تیسرے آسمان کے مشاہداتِ نورانی کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چوتھے آسمان پر پہنچایا گیا۔ چوتھے آسمان پر تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات حضرت ہارون علیہ السلام سے کرائی گئی۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفرِ معراج طے کرتے ہوئے چھٹے آسمان پر پہنچے اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی چشمانِ مقدس اشکبار ہو گئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و رفعت کو دیکھ کر رشک کے آنسو چھلک پڑے۔ آپ کی زبانِ اقدس سے بے اختیار نکلا کہ خدائے بزرگ و برتر کے یہ وہ برگزیدہ رسول ہیں جن کی امت کو میری امت پر شرف عطا کیا گیا۔ میری امت پر جسے بزرگی عطا ہوئی یہ وہی رسولِ برحق ہیں جن کی امت کو میری امت کے مقابلے میں کثرت کے ساتھ جنت میں داخل کیا گیا۔ مہمانِ ذی حشم حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی۔
مشاہداتِ آسمانی کے نورانی جلوؤں کے بعد تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سدرۃ المنتہیٰ کے مقام تک لے جایا گیا۔ یہ وہ مقامِ عظیم ہے جہاں آ کر ملائکہ، حتیٰ کہ انبیاء و رُسل کی بھی پرواز ختم ہو جاتی ہے۔ جہاں مقرب فرشتوں کے بھی پرجلتے ہیں۔ گویا ملاقات کا سارا نظام اور عالمِ امکان کی ساری بلندیاں سدرۃ ُالمنتہیٰ پر ختم ہو جاتی ہیں۔ سدرۃ ُالمنتہیٰ کا مقامِ اولیٰ عالمِ مکان کی آخری حد اور لامکاں کا ابتدائی کنارہ ہے۔ اس مقام پر تفسیر نیشاپوری اور تفسیر دُرِ منثور میں ایک حدیث نقل کی گئی ہے۔ فرشتے اللہ رب العزت کی بارگاہِ اقدس میں دعا مانگتے تھے کہ اے کائنات کے مالک! جس محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر تو نے یہ کائنات تخلیق فرمائی جس پر تو اپنی زبانِ قدرت سے ہمہ وقت درود پڑھتا ہے اور ہم بھی تیرے حکم کی تعمیل میں اس ہستی پر درود و سلام کا نذرانہ بھیجتے ہیں آج وہی مہمانِ ذی وقار تشریف لا رہے ہیں۔ اے باری تعالیٰ! ہمیں اپنے اس رسولِ محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بے نقاب جلوہ عطا فرما۔ اللہ پاک نے ان مقرب ملائکہ کی دعا کو شرفِ قبولیت بخشا اور فرمایا کہ تم ساری کائناتِ آسمانی سے سمٹ کر اس درخت ’’سدرۃ ُالمنتہیٰ‘‘ پر بیٹھ جاؤ۔ فرشتے ہجوم در ہجوم اُمڈ پڑے۔ فرشتوں کی اتنی کثرت ہوئی کہ وہ درخت ان کے نور کے سائے میں آ گیا :
إستأذنتِ الملائکةُ الربَّ تبارک و تعالٰی أن ينظروا إلی النبی صلی الله عليه وآله وسلم، فأذن لهم، فغشيت الملائکةُ السِّدرةَ لينظروا إلٰی النبی صلی الله عليه وآله وسلم.
(الدر المنثور، 6 : 116)
فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی خواہش کا اظہار کیا تو انہیں اجازت دے دی گئی۔ پس فرشتوں نے سدرہ (بیری کے درخت) کو اپنی کثرت سے چھپا لیا تاکہ نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کر سکیں۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔
إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَىO
(النجم، 53 : 16)
جب سائے میں لے کر چھپا لیا سدرہ کو جس نے کہ چھپا لیا (ملائکہ کی کثرت نے)o
سدرۃ ُالمنتہیٰ کے مقامِ عظیم پر قدسیانِ فلک کو مہمانِ ذی وقار کے دیدارِ فرحت آثار کا لازوال شرف حاصل ہوا۔
رخِ مصطفیٰ ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسرا آئینہ
نہ ہماری بزمِ خیال میں نہ دکانِ آئینہ ساز میں
جب مہمانِ عرش آگے بڑھنے لگے تو جبرئیلِ امین رک گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جبرئیل چلو! تو عرض کیا :
لو دنوتُ أنملةً لاحترقتُ.
(اليواقيت و الجواهر، 3 : 34)
اگر میں ایک چیونٹی برابر بھی آگے بڑھا تو (تجلیاتِ الٰہی کے پرتو سے) جل جاؤں گا۔
اس مقام پر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنت کی سیر کرائی گئی۔ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کے احوال کا مشاہدہ فرمایا اور وہاں کی نعمتوں کی زیارت فرمائی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سفرِ معراج کی اگلی منزل کی طرف روانہ ہوئے تو جبرئیل اور براق ساتھ نہ تھے۔ آپ یکتا و تنہا ہی اپنے خالقِ کائنات کے اِذن سے روانہ ہوئے۔ اللہ رب العزت نے اپنے مہمانِ عرش کی سواری کے لئے ایک سبز رنگ کا ملکوتی اور نورانی تخت بھیج دیا۔ اس تخت کا نام ’’زخرف‘‘ تھا۔ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عرشِ معلی تک پہنچایا گیا۔ جب سدرۃ ُ المنتہیٰ کی منزل گزر چکی، جب فرشتوں کا استقبال پیچھے رہ گیا تو آگے ایک نور تھا اور دیکھنے والے کو اس نور کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس نور میں غائب کر دیا گیا تو دیکھنے والی آنکھ آپ کو دیکھنے سے قاصر تھی۔ اب کسی کو معلوم نہ تھا کہ یہ نور کیا ہے؟ کیسا ہے؟ کہاں سے ہے؟ کہاں تک ہے؟ کہاں جانے والا ہے؟ اس حصارِ نور میں داخل ہونے کے بعد مہمانِ ذی حشم حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرشِ معلی کی سیر کی۔ اس کے بعد مہمانِ مکرم کو بڑی عزت، وقار اور تمکنت کے ساتھ آگے لے جایا گیا۔
سدرۃ ُ المنتہیٰ سے وصالِ اِلٰہی تک سفرِ معراج کا نقطۂ عروج ہے۔ یہاں سے سفر کا ایک نیا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ آگے ایک عالم نور تھا۔ اَنوار و تجلیاتِ الٰہی پُرفِشاں تھے۔ اللہ رب العزت کی ذاتی اور صفاتی تجلیات سے بھرپور عالمِ لامکاں کے جلوے ہر سو جلوہ ریز تھے۔ مہمانِ عرش حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تن تنہا ان جلوؤں میں داخل کر دیا گیا۔ سب سے پہلے اللہ پاک کے اسماء کے پردے ایک ایک کر کے گزرتے رہے اور ہر اسم مبارک کے رنگ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گزارا گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالمِ بیداری میں تھے لہٰذا اس عجیب سی کیفیت کو دیکھ کر بتقاضائے بشریت کچھ معمولی سی وحشت بھی محسوس فرمانے لگے جیسا کہ انسان اکثر لمحاتِ تنہائی میں محسوس کرتا ہے۔ جونہی حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ اقدس پر یہ کیفیت وارد ہوئی اللہ رب العزت کی طرف سے آواز آئی:
قف يا محمد صلی الله عليه وآله وسلم ! إن ربک يصلی.
(اليواقيت و الجواهر، 2 : 35)
پیارے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رک جاؤ! بے شک تمہارا رب (استقبال کے لئے) قریب آ رہا ہے۔
معجزۂ معراج میں یہاں تک کا سفر، سفرِ محبت و عظمت تھا۔ اب یہاں سے آگے سفرِ وصال شروع ہوتا ہے۔ سفرِ معراج کے اس مرحلہ پر مہمانِ عرش حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقامِ ’’قاب قوسین‘‘ پر پہنچ گئے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىO فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىO
(النجم، 53 : 8، 9)
پھر (اس محبوبِ حقیقی سے) آپ قریب ہوئے اور آگے بڑھےo پھر (یہاں تک بڑھے کہ) صرف دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔
یہاں توجہ طلب بات یہ ہے کہ دو قوسوں پر بات ختم نہیں کی بلکہ قُرب اور بُعد کے تمام جھگڑے ختم کرنے کے لئے تمام حدوں کو توڑ دیا، تمام فاصلے مٹا دیئے، تمام فاصلے یکسر ختم کر دیئے، سوائے ایک فرق کے کہ وہ خدا تھا۔ ۔ ۔ خدائے لاشریک اور یہ اس کے محبوب بندے اور رسول تھے۔ وہ خالق تھا اور یہ مخلوق۔
چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :
فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَىO
(النجم، 53 : 10)
پس وحی کی اپنے بندے کی طرف جو کہ اس نے وحی کیo
یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ محب اور محبوب کے درمیان تنہائی کی ملاقات میں جو باتیں ہوئیں ان کا بیان بھی نہیں فرمایا لہٰذا محب اور محبوب میں کیا کیا باتیں ہوئیں، اس کلام کی حقیقتوں کی کسی کو کچھ خبر نہیں۔ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فقط اتنا بیان فرمایا کہ جب ملاقات ہوئی تو خالقِ کائنات نے فرمایا :
اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيها النَّبِیُّ وَ رَحْمَةُ اللهِ وَ بَرَکَاتُه.
(معارج النبوة، 3 : 149)
اے نبی! تمہارے اوپر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت ہو اور اس کی برکتیں ہوں۔
حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رحمت کے اس پیغام کے جواب میں عرض کیا :
اَلسَّلَامُ عَلَيْنَا وَ عَلٰی عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِيْنَ.
(معارج النبوة، 3 : 149)
سلام ہم پر اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں پر۔
اور پھر واپسی پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُمت کے لئے پچاس نمازوں کا تحفہ عطا کیا گیا جسے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی ذاتی و صفاتی تجلیات اور تمام فیوض و برکات سمیت واپس کرۂ ارضی کی طرف پلٹے۔
سفرِ معراج محبت و عظمت کا سفر تھا۔ اس سفر سے اہلِ ارض کی طرف واپسی بھی محبت اور عظمت کی مظہر تھی۔ بعض کتبِ تفاسیر میں اس امر کی تصریح کی گئی ہے کہ واپسی پر بھی حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں برّاق پیش کیا گیا۔ اس کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس مکہ مکرمہ تشریف لائے۔ جیسے جاتے ہوئے ہر آسمان پر ایک برگزیدہ نبی اور ملائکہ کے ساتھ ملاقات کا مفصل ذکر ہے ایسے ہی واپسی پر تفصیلی ملاقاتوں کا ذکر موجود نہیں لہٰذا واپسی کی تفصیلات اور جزئیات اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہی معلوم ہیں۔
صحیح بخاری، صحیح مسلم اور دیگر کتبِ حدیث میں معجزۂ معراج کا تفصیل سے ذکر ملتا ہے۔ واپسی کے دوران چھٹے آسمان پر جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات ہوئی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دریافت کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اللہ رب العزت کی بارگاہ سے اپنی امت کے لئے کیا تحفہ لائے ہیں۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اللہ نے میری امت کے لئے پچاس نمازیں یومیہ عطا کی ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ میں نے اپنی امت پر بہت محنت و مشقت کی تھی جس سے حاصل ہونے والے تجربے کے نتیجے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس تشریف لے جائیے اور اللہ کی بارگاہ میں نمازوں میں تخفیف کی درخواست کیجئے۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ کی امت پچاس نمازوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گی۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مشورے پر عمل کیا اور وہاں سے پلٹے اور ربِ کائنات کے دربارِگہر بار میں حاضر ہوئے اور امت کے لئے پچاس نمازوں میں کمی کی اِستدعا کی۔ اس طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیثِ مبارکہ کے مطابق اس مرتبہ پانچ نمازیں کم ہوئیں۔ پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! یہ بوجھ بھی زیادہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر بارگاہِ ایزدی میں ملتجی ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے مزید پانچ نمازوں کی کمی فرما دی۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نو بار اللہ رب العزت کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور صرف پانچ نمازیں باقی رہ گئیں۔ صحیح بخاری میں مروی حدیثِ مبارکہ کے مطابق چار مرتبہ دس دس نمازوں کی اور پانچویں مرتبہ پانچ نمازوں کی کمی ہوئی۔ غرض جب پانچ نمازیں رہ گئیں تو موسیٰ علیہ السلام نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پھر گزارش کی کہ آپ کی امت یہ پانچ نمازیں بھی پوری طرح ادا نہیں کر سکے گی لہٰذا ایک بار پھر بارگاہِ خداوندی میں التماس گزاریں۔ اس پر تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اب کی بار مجھے جاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ (حدیث کے اَلفاظ اشارہ کر رہے ہیں کہ اللہ کی طرف سے اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات ٹالنے کا تصور ہی نہیں یعنی اگر ایک مرتبہ پھر حاضری ہو جاتی تو مزید کمی بھی ہو سکتی تھی مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود ہی حاضر نہ ہوئے) پھر جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں سے چلے تو اوپر سے آواز آئی کہ اے محبوب! نمازیں تو میں نے پانچ کر دی ہیں لیکن ان پانچ نمازوں کے ادا کرنے پر ثواب تیری امت کو پچاس نمازوں کے برابر ہی ہو گا۔
روشنی کے سفر کی اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو گی کہ حروفِ حق کے اجلے پن پر گروہی اور مسلکی مفادات کی سیاہی اس حد تک مل دی جائے کہ خورشیدِ جہاں تاب کی کرنوں پر جہالت کے اندھیرے مسلط ہو جائیں اور صبحِ نو کے اُجالے پس منظر میں چلے جائیں۔ دین کو مختلف خانوں میں بانٹ کر ہم نے خود ساختہ عقائد کی مَن مانی تاویلات کا ’’ کارنامہ‘‘ تو سرانجام دے لیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اتحادِ امت کو پارا پارا کرکے عالمِ کفر کے مقابلے میں دین کی قوتوں کو سرِ تسلیم خم کرنے پر مجبور بھی کر دیا ہے۔ یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ اکثر دینی معاملات کو مناظرانہ اور مجادلانہ نزاع کے ساتھ دیکھا گیا ہے۔ اعتقادی اور مسلکی اختلافات اتنے شدید ہو چکے ہیں کہ تنقید، اختلاف اور نزاع کے سوا دین کے کسی مسئلہ کو دیکھنا اور سمجھنا گوارا ہی نہیں کیا جاتا اور پھر اس سے بڑھ کر بدقسمتی اور کیا ہو گی کہ اکثر اختلافات کا مرکز و محور (نعوذ باللہ من ذالک) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس کوبنا لیا گیا ہے۔
انگریز نے نوآبادیاتی دور کی سب سے کاری ضرب کے طور پر برصغیر میں مسلمانوں کی متاعِ حیات چھیننے کی جو سازش کی تھی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو مباحث کا موضوع بنا کر عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آگ کو سینے میں راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کرنے کا جو فتنہ برپا کیا تھا وہ آج امربیل کی طرح ایمان کی شاخوں پر براجمان ہے۔ نت نئے فتنوں کے ساتھ کبھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اختیارات و تصرفات موضوعِ مناظرہ ہیں تو کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیتِ مبارکہ یا علمِ مبارک، کبھی آپ کی روحانیت اور اس کے فیض کا کائنات میں ہمہ وقت جاری و ساری رہنا موضوع بحث ہے تو کبھی بشریت اور نورانیت۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و کمالات کے باب میں جب بھی کوئی آیت، حدیث یا کوئی واقعہ ہمارے سامنے آتا ہے تو اسی زاویئے سے اس امر کا جائزہ لیا جاتا ہے اور اپنے خود ساختہ موقف کی تائید میں الٹی سیدھی تاویلیں گھڑی جاتی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اپنے مذمومہ تصورات کو مسلک اور عقیدے کا نام دے کر ذہنوں میں جما لیا جاتا ہے اور پھر جو کوئی آیت یا حدیث سامنے آتی ہے اسے خاص مسلکی تعصبات سے رنگے شیشوں والی عینک سے دیکھتے ہیں۔ اب جو شخص سرخ شیشے والی عینک لگا کر سفید شئے کو دیکھے گا تو ظاہر ہے کہ اسے سفید چیز سرخ ہی نظر آئے گی۔ ان جھگڑوں کو ختم کرنے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ اپنی ان آنکھوں پر ایک ہی رنگ کی عینک لگا لی جائے اور وہ رنگ صرف قرآن و سنت کا رنگ ہو۔ اگر ایسا ہو جائے تو اختلافات نہ ہونے کے برابر رہ جائیں گے۔
اسلام اور پیغمبرِاسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف عہدِ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یہود و نصاریٰ کی طرف سے فتنہ و شر کی آگ بھڑکائی گئی تھی۔ آج اکیسویں صدی عیسوی کے آغاز پر بھی اس کی شدت میں کمی نہیں آ سکی۔ کیا ہم ان اسلام دشمن طاقتوں کا آلۂ کار بن کر اسلام کے نادان دوستوں کا کردار نہیں ادا کر رہے! واقعۂ معراج میں بھی بہت سے معاملات کو اسی طرح لیا گیا ہے۔ اپنا مخصوص نقطۂ نظر حق ثابت کرنے کے لئے خدا جانے کیا کیا تاویلات پیش کی گئی ہیں۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی واقعہ کا اصل مدعا کچھ اور ہوتا ہے جبکہ دین کا پرچار کرنے والے اپنے مطلب کی بات نکال کر اصل روح کو مسخ کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو امتِ محمدیہ کے لئے پچاس نمازیں عطا کیں۔ پھر تقریباً 9 مرتبہ آنے جانے سے صرف پانچ رہ گئیں، پہلے پچاس کیوں دیں؟ اور راستے میں موسیٰ علیہ السلام کو کھڑا کر کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بار بار کیوں بلوایا؟ اور آخر میں پانچ نمازیں کیوں رہ گئیں؟ اس کی حکمت تو نمازیں دینے والا جانتا ہے یا پھر نمازیں لینے والا؟ اللہ اور رسول نے اس کی وجہ بیان نہیں فرمائی۔ بہتر ہے اس پر خاموشی اختیار کی جائے لیکن ہم وجہ تلاش کرنے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ اپنے اپنے مطلب کے دلائل ثابت کرنے کے لئے استدلال کے انبار لگا رہے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بار بار لوٹ کر جانا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا کمال تھا اور ہے لیکن افسوسناک بلکہ شرمناک بات یہ ہے کہ اس میں بھی تنقیص کا پہلو نکالا گیا اور یہاں تک کہنے کی جسارت کی گئی کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم ہوتا کہ بالآخر پانچ نمازیں ہی رہ جانی ہیں تو شروع سے ہی پانچ لے آتے، پچاس کیوں لیں؟ اور 9 چکر کیوں لگائے؟ یہ ایک متعصبانہ رنگ کی عینک ہے۔ جب اس رنگ کی عینک سے اس حدیث پاک کو دیکھا جائے تو یہی کچھ نظر آتا ہے۔ کاش! اس واقعہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمال ہی کے رخ کو دیکھا جاتا۔ چونکہ یہ سوال اپنی جگہ ہرگز ہرگز علمی نہیں لہٰذا اس کا سادہ سا جواب یوں ہے کہ چلو بفرضِ محال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تو علم نہ تھا، اللہ کو تو معلوم تھا لہٰذا خود ہی پہلی دفعہ پانچ دے دیتا۔ گویا ہوش و خرد سے خالی سوال کرنے والے اور علمِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اعتراض کی جسارت کرنے والے نے فقط شانِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی میں تنقیص کا پہلو تلاش کرنے کی جسارت نہ کی بلکہ شانِ الوہیت پر بھی اعتراض کے دروازے کھول دیئے۔ (یاد رہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعلق ایسا ہے کہ جو اعتراض رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کیا جائے گا وہی اعتراض کسی نہ کسی صورت میں اللہ پر بھی وارد ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب اللہ تبارک و تعالیٰ کے ادب سے جدا نہیں) اصل بات یہ ہے کہ پہلے پچاس نمازیں دیں تو وہ بھی اللہ رب العزت کا امر تھا پھر کم ہوئیں، حتیٰ کہ پانچ تک آ گئیں تو یہ بھی اللہ رب العزت کا امر تھا۔ رہا بار بار کا آنا جانا۔ ۔ ۔ تو یقینی بات ہے کہ اس میں اللہ رب العزت کی طرف کوئی حکمت ہو گی۔
حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باربار آنے جانے کو اگر محبت اور اپنائیت کے پیمانے پر رکھا جائے تو اور ہی حکمتیں ذہن میں آتی ہیں۔ ان حکمتوں سے محبتِ رسول کی خوشبو کے جھونکے آتے ہیں۔ عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چراغ جلتے دکھائی دیتے ہیں۔ عرفاء نے اس کی بہت سی حکمتیں بیان کی ہیں۔
قرآنِ مجید میں ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی جب مصر گئے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے حضرت بنیامین علیہ السلام کو پہچان لیا۔ بھائی کی محبت غالب آئی تو انہوں نے چاہا کہ بنیامین کو کسی طرح روک لیا جائے اور دوسرے بھائیوں پر ظاہر بھی نہ ہو کہ میں وہی یوسف ہوں جسے وہ خود کنویں میں پھینک آئے تھے۔ چنانچہ انہوں نے بنیامین کے سامان میں اپنی کوئی چیز چھپا دی اور جب وہ سب روانہ ہونے لگے تو فرمایا کہ ہمارا کچھ سامان کھو گیا ہے، جس کے پاس سے برآمد ہو گا اسے ہم گرفتار کر لیں گے۔ ذرا ان مسافروں کی تلاشی تو لو۔ جب بنیامین کے تھیلے سے سامان نکلا تو فرمانے لگے ہم اسے نہیں جانے دیں گے۔ چونکہ یوسف علیہ السلام کو اپنے بھائی سے بچھڑے ہوئے کئی سال ہو گئے تھے لہٰذا ان کی محبت کا تقاضا تھا کہ بھائی کو کسی طرح روک لیا جائے۔ بلاتشبیہہ و بلامثال کچھ ایسا ہی معاملہ ادھر بھی ہے کہ کسی ایسے بہانے کی ضرورت تھی جس کے پیشِ نظر محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بار بار پلٹ کر بارگاہِ الوہیت میں حاضری دیتا رہے اور محب کی نگاہیں اس کے چہرے کو بار بار تکتی رہیں۔ سو جب دیکھا کہ میرے محبوب کو اپنی امت سے شدید محبت ہے تو امت کے بوجھ کو بہانا بنایا اور نمازیں از خود زیادہ دے کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو راستے میں کھڑا کر دیا۔
اہلِ محبت نے اس کی تعبیر ایک اور طرح سے بھی کی ہے یعنی اس بار بار آنے جانے کا مقصد حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ایک دعا ہے جو انہوں نے طور پر مانگی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہ رب العزت میں عرض کیا تھا۔
رَبِّ أَرِنِي.
(الاعراف، 7 : 143)
مولا! مجھے اپنے جلوۂ حسن عطا کر۔
بارگاہِ صمدیت سے جواب ملا تھا :
لَن تَرَانِي.
(الاعراف، 7 : 143)
(اے موسیٰ!) تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتا۔
بعض عرفاء نے بیان کیا ہے کہ عشق و محبت میں مچل کر موسیٰ علیہ السلام نے بار بار سوال کیا تھا۔ کسی نے کہا پانچ مرتبہ سوال کیا تھا، کسی کے مطابق 9 مرتبہ بارگاہِ خداوندی میں التماس گزاری تھی اور قاعدہ ہے کہ نبی کی درخواست رد نہیں کی جاتی۔ ہاں ایسا ممکن ہے کہ کسی حکمت کے تحت اسے موخر کر دیا جائے یا کسی اور وقت کیلئے محفوظ کر لیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا معراج کی شب تک موخر کر دی گئی تھی اور آج اس کی قبولیت کا وقت تھا لہٰذا انہیں چھٹے آسمان پر کھڑا کر دیا گیا اور حکم فرمایا گیا کہ آج میرا محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری تجلیات کا مظہرِ اتم بن کر آ رہا ہے۔ تو اس کو دیکھتا جا اور اس آئینے میں میرے حسن کے پرتو سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک دیتا جا۔ لہٰذا میں اسے پچاس نمازیں دے کر بھیجتا ہوں، تو کمی کے بہانے لوٹاتے جانا، ہر بار محبوب مجھے مل کر آئے گا تو اسے دیکھتے جانا، اس طرح محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے اندر میرا جلوہ کرتے جانا۔
صدیوں پر محیط سفرِ معراج چشمِ زدن میں طے ہو گیا۔ براق پر مکہ معظمہ میں واپسی ہوئی، صحنِ حرم میں تشریف لائے، پھر تہجد کے وقت اٹھے۔
حدیث پاک میں آتا ہے :
فاستيقضتُ و أنا بالمسجد الحرام.
(الشفاء، 1 : 246)
(ملاء اعلیٰ اور ملکوتی مشاہدہ سے وارِد شدہ اِستغراق کی کیفیت سے) واپس پلٹا تو مسجدِحرام میں تھا۔
معجزۂ معراج کے ظہور سے ایوانِ کفر و شرک کا لرز اٹھنا ایک فطری امر تھا۔ چنانچہ ہر طرف شور مچ گیا۔ فتنہ و شر کے طوفان اٹھ کھڑے ہوئے۔ اسلام اور پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کردار کشی کا اس سے ’’زرّیں موقعہ‘‘ کفار و مشرکین کے ہاتھ کہاں سے آتا! دعویٰ معراج کو بنیاد بنا کر مخالفینِ اسلام نے ایک منظم سازش کا منصوبہ بنایا۔ یہ لوگ ہر وقت اس تلاش میں رہتے تھے کہ کسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی دعوے کو معاذاللہ جھوٹا ثابت کر سکیں۔ سو ابوجہل اور دیگر بدبختوں نے معراج کے واقعہ کو اپنے لئے بہت بڑی دلیل سمجھا اور وادئ مکہ میں شور برپا کر دیا۔ ہر طرف اپنے نمائندے بھیجے۔ شہرِ مکہ کے گلی کوچوں میں ایک غلغلہ پیدا ہو گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کیا دعویٰ کر دیا! ابوجہل بھاگا بھاگا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا کہ آج میں پوچھتا ہوں کہ تو اس نبی کے دعوے کی صداقت پر ایمان لاتا ہے۔ اب بتا تو کیا کہتا ہے کہ آج تیرے دوست نے ایک ایسا دعویٰ کیا ہے کہ تو کبھی اسے تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہو گا۔ جب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی زبانی دعوئ معراج سنا تو مسکرا کر ارشاد فرمایا کہ میں تو محض حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانِ اقدس سے سن کر خالقِ کائنات کو مان چکا ہوں۔ یہ سب باتیں تو اس سے بہت ہی کم درجہ کی ہیں۔ حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ سے تصدیق کئے بغیر سفرِ معراج کی تصدیق کر دی۔ اس صبح آپ ’’صدیقِ اکبر‘‘ کے لقب سے سرفراز ہوئے یعنی ’’سب سے بڑا تصدیق کرنے والا‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر، 3 : 10۔ 11)
کفار و مشرکین ابوجہل کی قیادت میں آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بیکس پناہ میں حاضر ہوئے اور سفرِ معراج خصوصاً بیت المقدس کے بارے میں الٹے سیدھے سوالات کرنے لگے۔ مقصد یہ تھا کہ اللہ کے نبی کی کسی بات کو معاذاللہ جھوٹ ثابت کیا جائے اور پھر اس مفروضے کو بنیاد بنا کر اسلام اور پیغمبرِاسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف زبردست منفی پروپیگنڈہ مہم کا آغاز کیا جائے۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ بیت المقدس کے در و دیوار، چھتوں، دروازوں اور کھڑکیوں کی کیفیات بیان کریں۔ یہ سوال انہوں نے اس بنا پر کیا تھا کیونکہ وہ اپنے طور پر یہ فرض کئے بیٹھے تھے کہ اس سے قبل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی بیت المقدس نہیں گئے۔ وہ ان سوالات کے جوابات کیسے دے سکیں گے! اب ظاہر ہے کہ جب کوئی شخص کسی عمارت کی سیر کرتا ہے تو وہ اسکے شہتیر اور کھڑکیاں وغیرہ تو نہیں گنا کرتا، لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لمحہ بھر تو اِنقباض کی کیفیت طاری ہوئی۔ اس پر اللہ رب العزت نے بیت المقدس کا ہر عکس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش فرما دیا۔ چنانچہ بیت المقدس کے بارے میں جو بات مشرکینِ مکہ پوچھتے جاتے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیکھ دیکھ کر بتاتے جاتے کہ در و دیوار بیت المقدس میں کیا کچھ نصب ہے۔
عن جابر بن عبدالله، قال سمعتُ رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم يقول : لما کذّبنی قريش قمتُ فی الحجر فجلّی الله لی بيت المقدس، فطفقت أخبرهم عن آياته و أنا أنظر إليه.
1. صحيح البخاری، 2 : 684، کتاب التفسير، رقم : 4433
2. جامع الترمذی، 2 : 141، کتاب تفسير القرآن، رقم : 3133
3. صحيح لمسلم، 1 : 96، کتاب الايمان، رقم : 276
4. مسند احمد بن حنبل، 3 : 377
5. مسند ابی عوانة، 1 : 125، 131
6. شرح المواهب للزقانی، 6 : 127
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب قریش نے میری (معراج کی) تکذیب کی اس وقت میں حجرِ اسود کے پاس تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس میری نظروں میں عیاں کر دیا اور میں اسے دیکھ دیکھ کر اس کی تمام نشانیاں قریش کو بتانے لگا۔
مخبرِ صادق حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیتِ المقدس کے بارے میں کفار و مشرکینِ مکہ کے ہر سوال کا درست جواب دے رہے تھے۔ جب انہیں اپنی اس سازش میں ناکامی کی صورت دکھائی دینے لگی تو کہنے لگے کہ ہمارے بعض قافلے اس راہ پر گئے ہیں۔ کچھ ان کے بارے میں بتلائیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ میں نے تمہارا پہلا قافلہ ’’روحا‘‘ کے مقام پر دیکھا تھا۔ اس قافلے کی قیادت فلاں قبیلے کا فلاں شخص کر رہا تھا۔ پھر ایسا ہوا کہ اس قافلے کا ایک اونٹ گم ہو گیا۔ وہ لوگ وہاں رک کر اپنے اونٹ کی تلاش میں گئے ہوئے تھے۔ جب میں وہاں پہنچا تو مجھے پیاس لگی۔ میں نے دیکھا کہ ان کے ایک اونٹ کے پالان کے ایک پیالے میں پانی پڑا ہے۔ میں نے اُتر کر اس پانی کو پی لیا۔ جب میں روانہ ہونے لگا تو مذکورہ شخص اونٹ کو تلاش کر کے واپس پہنچا تو میں نے جاتے ہوئے اسے سلام کیا تو قافلے والوں میں سے بعض نے کہا یہ تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز ہے۔ جب قافلے والے واپس آئیں تو ان سے دریافت کر لینا۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ خواب میں پیا ہوا پانی اس لائق نہیں ہوتا کہ پوچھا جائے کہ پیالے میں پانی تھا یا نہیں تھا اور پھر یہ کہ آوازِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہچان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سفر حالتِ خواب میں نہیں عالمِ بیداری میں تھا۔
تاجدارِ کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب میں مقام ’’ذِی فجا‘‘ پر پہنچا تو وہاں مجھے دوسرا قافلہ ملا۔ اس قافلے میں ایک اونٹ پر فلاں فلاں نامی دو دوست سوار تھے۔ جب میرا برّاق ان کے قریب سے گزرا تو وہ اونٹ بدک کر بھاگا اور وہ دونوں اس سے گر پڑے۔ چنانچہ اس حادثے میں ایک کا ہاتھ ٹوٹ گیا۔ جب قافلے والے آئیں تو ان سے تمام اَحوال پوچھ لینا۔
حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے ’’تِلوین‘‘ کے مقام پر ایک تیسرا قافلہ دیکھا۔ کفار و مشرکین نے اس قافلے کے بارے میں کوئی علامت پوچھی تو تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے آگے بھورے رنگ کا ایک اونٹ ہے جس پر دو بوریاں لدی ہوئی ہیں۔ ایک سیاہ دھاری دار اور دوسری سفید دھاری دار، جب وہ قافلہ واپس آئے تو خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا۔
کفار مکہ نے سوچا کہ تینوں دلیلیں قوی ہیں۔ لہٰذا جاتے ہوئے کہنے لگے کہ اتنا اور بتا دیجئے کہ وہ قافلے اندازاً کب تک مکہ پہنچ جائیں گے۔ اس پر آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ پہلا قافلہ کل سورج طلوع ہونے سے پہلے مکہ پہنچ جائے گا۔ دوسرا قافلہ اس وقت مکہ پہنچے گا جب سورج عین نصف النہار پر ہو گا جبکہ تیسرے قافلے کی آمدکا وقت سورج غروب ہونے سے ذرا پہلے ہے۔ (المواھب اللدنیہ، 2 : 40)
قافلوں کی آمد کے وقت کا سن کر کافروں کا ایک گروہ مکہ معظمہ کی سب سے اونچی پہاڑی پر جا کر بیٹھ گیا اور سورج کے طلوع ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ دوسری طرف مسلمان بھی اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات کو حرف بحرف سچ ثابت ہوتا دیکھنے کے لئے گردِ کارواں کی تلاش میں تھے۔ عشاق قافلے کی طرف جبکہ کفار افق پر سورج کی تلاش میں تھے۔ جب سورج طلوع ہونے کا وقت قریب آیا تو ایک کافر بآواز بلند بولا : خدا کی قسم! سورج طلوع ہو گیا۔ ابھی یہ جملہ مکمل نہ ہوپایا تھا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ پکار اٹھے وہ دیکھئے قافلہ بھی پہنچ گیا۔ یہ دیکھ کر کفار کہنے لگے کہ ہم کچھ نہیں مانتے یہ تو جادو ہے۔ ایسا ہی معاملہ دوسرے قافلے کے ساتھ بھی ہوا جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق نصف النھار پر پہنچا۔
تیسرے قافلے کو راستے میں کوئی حاجت پیش آ گئی لہٰذا اسے تاخیر ہو گئی۔ سورج غروب ہونے کے قریب تھالیکن قافلے کی آمد کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔ اس پر کفار و مشرکین چہ مگوئیاں کرنے لگے۔ غیرتِ حق جوش میں آئی، سورج کو حکم ہوا کہ یہیں رک جا۔ جب تک وہ قافلہ نہ پہنچے تجھے غروب ہونے کی اجازت نہیں۔ چنانچہ سورج افق کے کناروں پر رکا رہا، وقت گزرتا رہا حتیٰ کہ قافلہ نمودار ہو گیا۔ اس پر کفار سے جب کوئی بن نہ پڑا تو کہنے لگے : ہم نہیں مانتے یہ تو کھلا جادو ہے۔
(الشفاء، 1 : 284) (حجة الله علی العالمين : 298)
سفرِمعراج کی قدم قدم پر اغیار کے حوالے سے تصدیق بھی ہو رہی تھی اور توثیق بھی، لیکن جن دلوں پر کفر کے تالے پڑے تھے انہیں سورج کی روشنی کیا نظر آتی! وہ معجزاتِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جادو کا لیبل لگا کر اپنے کفر کو تسکین دے لیتے۔ آج صدیاں گزر جانے کے بعد جب سائنسی ارتقاء اپنی معراج کو چھو رہا ہے، کائنات کی بیکراں وسعتیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقوشِ کفِ پا کی تصدیق کر رہی ہیں۔
کتبِ حدیث اور کتبِ تفسیر میں ایک یہودی عالم کا واقعہ بھی درج ہے۔ خاص طور پر امام ابنِ کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر اور امام ابو نعیم اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ نے دلائل النبوۃ میں بیان کیا ہے کہ محمد بن کعب الکربی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابی دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو قیصرِ روم کی طرف اسلام کا پیغام دے کر بھیجا۔ آپ نے اس عیسائی بادشاہ کو دعوتِ اسلام پہنچائی اور آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل اور مناقب بیان کئے تو اس نے کہا کہ میں عرب کے کچھ تاجروں سے چند سوالات کرنا چاہتا ہوں۔ ان سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات بیان کرنے کو کہا گیا۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ کسی طرح بادشاہ کی نظروں میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا درجہ گر جائے اور وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ماننے سے انکار کر دے لیکن محتاط بھی رہا کہ کسی جھوٹ پر پکڑا نہ جاؤں۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے قیصرِ روم! میں تمہیں اس نبی کی ایک ایسی بات بتاتا ہوں جسے سن کر تجھے (معاذاللہ) اس کے جھوٹے ہونے کا یقین آ جائے گا۔ یہ کہہ کر واقعۂ معراج بیان کیا۔ جب وہ اس مقام پر پہنچا کہ اس نبی نے کہا کہ میں برّاق پر سوار ہو کر بیت المقدس پہنچا جہاں بابِ محمد میرے لئے کھلا تھا۔ وہاں پتھر سے برّاق کو باندھا گیا تھا تو قیصرِروم کے دربار میں موجود دنیائے عیسائیت کے سب سے بڑے پادری نے کہا کہ ہاں اس رات کا مجھے علم ہے۔ قیصرِ روم نے کہا تجھے اس رات کی کیا خبر ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ میرا معمول تھا کہ میں ہر رات مسجدِاَقصیٰ کے دروازے اپنے ہاتھوں سے بند کر کے اور تالے لگا کر سویا کرتا تھا۔ اس رات جب میں اس دروازے پر پہنچا تو وہ بند نہ ہوا۔ میں نے اپنے کئی ساتھیوں کو بلایا جنہوں نے مل کر زور لگایا مگر پھر بھی دروازہ بندہ نہ ہوا حتیٰ کہ مستریوں کی سب کوششیں بھی بے کار گئیں لہٰذا فیصلہ یہ ہوا کہ اب تو اسے کھلا چھوڑ کر سو جائیں۔ صبح اٹھ کر اسے بند کر دیں گے۔ پادری کہتا ہے کہ خدا کی قسم! اس رات میں دروازہ کھلا چھوڑ کر سو گیا لیکن ساری رات سوچتا رہا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ جب علی الصبح میں نے دروازہ بند کرنا چاہا تو وہی دروازہ جو رات کو بند نہ ہوا تھا اس وقت آرام سے بند ہو گیا۔ میں بھی حیران ہو رہا تھا کہ میری نظر دروازے کے باہر پتھر پر پڑی تو اس پر سواری کے باندھنے کا نشان تھا۔ اس پتھر کے بارے میں تاجدارِ کائنات حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا :
لما انتهينا إلی بيت المقدس قال جبرئيل بإصبعه، فخرق به الحجر و شدّ بها البُرّاق.
جب ہم بیت المقدس پہنچے تو جبرئیل نے اپنی انگلی سے اشارہ کیا تو اس پتھر میں سوراخ ہو گیا۔ پھر جبرئیل نے اس کے ساتھ براق باندھا۔
1. جامع الترمذی، 2 : 141، کتاب التفسير، رقم : 3132
2. المستدرک للحاکم، 2 : 360، رقم : 3370
3. مشکوة المصابيح، 3 : 306، رقم : 5921
وہ یہودی عالم کہتا ہے کہ میں نے اس کیفیت کو دیکھا تو مجھے پرانی الہامی کتابوں میں پڑھا ہوا یہ واقعہ یاد آ گیا جو ہم انبیاء کی زبانی سنتے آئے ہیں کہ جب نبئ آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ آئے گا تو انہیں سفرِمعراج پر بلایا جائے گا اور وہ اس رات بیت المقدس آ کر انبیاء کی امامت کرائیں گے اور اس پتھر پر ان کی سواری باندھی جائے گی۔ میں سمجھ گیا کہ آج نبئ آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معراج کی رات ہے اور ابوسفیان رضی اللہ عنہ اپنے بیان میں سچا ہے۔
ابوسفیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں نے یہ سنا تو میرے قدموں کے نیچے سے زمین نکل گئی کہ یہ تو ایسی حقیقت ہے کہ عالمِ عیسائیت کا بڑا پادری بھی اپنی مخالفت کے باوجود جسے تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔ امام ابو نعیم اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ تو یہاں تک بیان کرتے ہیں کہ وہ پتھر ان کے زمانے تک موجود رہا۔ وہ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم! لوگ آج بھی سواری باندھے جانے والی جگہ پر ہاتھ لگا کر برکتیں حاصل کرتے ہیں۔
(دلائل النبوة : 288)
ادھر سے کون گزرا تھا کہ اب تک
دیارِ کہکشاں میں روشنی ہے
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved