پہلی حکمت کا ذکر شروع میں درج کردہ آیہ کریمہ میں کیا گیا ہے کہ اہل ایمان پر اممِ سابقہ کی طرح روزے اس لئے فرض کئے گئے کہ وہ متقی اور پرہیزگار بن جائیں۔ گویا روزے کا مقصدِعظمیٰ انسانی سیرت کے اندر تقویٰ کا جوہر پیدا کر کے اس کے قلب و باطن کو روحانیت و نورانیت سے جلا دینا ہے۔ روزے سے حاصل کردہ تقویٰ کو بطریق احسن بروئے کار لایا جائے تو انسان کی باطنی کائنات میں ایسا ہمہ گیر انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے‘ جس سے اس کی زندگی کے شب و روز یکسر بدل کررہ جائیں۔
تقویٰ بادی النظر میں انسان کو حرام چیزوں سے اجتناب کی تعلیم دیتا ہے، لیکن اگر بنظر غائر قرآن و سنت کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ روزے کی بدولت حاصل شدہ تقویٰ حرام چیزوں سے تو درکنار ان حلال و طیب چیزوں کے قریب بھی بحالتِ روزہ پھٹکنے نہیں دیتا‘ جن سے متمتع ہونا عام زندگی میں بالکل جائز ہے۔ ہر سال ایک ماہ کے اس ضبط نفس کی لازمی تربیتی مشق (Refresher Course) کا اہتمام، اس مقصد کے حصول کے لئے ہے کہ انسان کے قلب و باطن میں سال کے باقی گیارہ مہینوں میں حرام وحلال کا فرق و امتیاز روا رکھنے کا جذبہ اس درجہ فروغ پا جائے کہ اس کی باقی زندگی ان خطوط پر استوار ہو جائے کہ ہر معاملے میں حکمِ خداوندی کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہوئے وہ حرام چیزوں کے شائبے سے بھی بچ جائے۔
اگر تقویٰ کا مفہوم اچھی طرح سمجھ میں آجائے تو انسان کی زندگی سراسر خوف و خشیت الٰہی سے عبارت ہو جائے گی‘ لیکن مقام افسوس ہے کہ ہم میں سے اکثر و بیشتر روزے کے ثمرات سے محض اس لئے محروم رہتے ہیں کہ ہمارا شعار روزے کے تقاضوں کو پس پشت ڈال دینا بن گیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ہمارے ہاتھ سوائے بھوک و پیاس کی مشقت کے کچھ نہیں آتا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
کم من صائم لیس له من صیامه الا الظماء وکم من قائم لیس له من قیامه الا السهر.
کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں کہ جن کو روزوں سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا، اور کتنے ہی قیام کرنے والے ایسے ہیں جن کو اپنے قیام سے سوائے جاگنے کے کچھ نہیں ملتا۔
تقویٰ کی ایک کیفیت صبر کی آئینہ دار ہے، جس کا تقاضا ہے کہ انسان کسی نعمت سے محرومی پر اپنی زبان کو شکوہ اور آہ و بکا سے آلودہ کئے بغیر خاموشی سے برداشت کرے۔ روزہ انسان کو تقویٰ کے اس مقامِ صبر سے بھی بلند تر مقامِ شکر پر فائز دیکھنے کا متمنی ہے۔ وہ اس کے اندر یہ جوہر پیدا کرنا چاہتا ہے کہ نعمت کے چھن جانے پر اور ہر قسم کی مصیبت‘ ابتلا اور آزمائش کا سامنا کرتے وقت اس کی طبیعت میں ملال اور پیشانی پر شکن کے آثار پیدا نہ ہونے پائیں‘ بلکہ وہ ہر تنگی و ترشی کا بہرحال خندہ پیشانی سے مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتا رہے۔
اس ضمن میں دو صاحب حال بزرگوں کے واقعہ کا تذکرہ خالی از فائدہ نہ ہو گا۔ طویل جدائی کے بعد جب وہ ملے اور ایک دوسرے کا حال پوچھا تو ایک نے کہا کہ اپنا حال تو یہ ہے کہ جب خدا تعالی کسی نعمت سے نوازتا ہے تو اس کا شکر ادا کرتے ہیں، وگرنہ صبر سے کام لیتے ہیں۔ دوسرے بزرگ نے کہا‘ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ ہمارے شہر کے کتوں کا بھی یہی حال ہے۔ وہ مالک کے در پر پڑے رہتے ہیں، اگر کچھ مل جائے تو دُم ہلا کر اس کے آگے پیچھے جاتے ہیں اور اگر کچھ نہ بھی ملے تو اسے چھوڑ کر کسی اور در پر نہیں جاتے۔ پھر فرمایا کہ اپنا حال یہ ہے کہ جب مولا سے کچھ ملتا ہے تو اس کے بندوں میں بانٹ دیتے ہیں اور کچھ نہ ملے تو ہر حال میں اس کا شکر ادا کرتے رہتے ہیں۔
روزہ چونکہ کھانے پینے اور نفسانی شہوات سے اپنے آپ کو روکنے کا نام ہے۔ روزہ کی حالت میں انسان اللہ تعالی کی نعمتوں کو اپنے اوپر روک لیتا ہے۔ جب آدمی ایک خاص مدت تک نعمتوں سے دور رہے تو پھر اس کی قدر کا پتا چلتا ہے۔ بالعموم نعمت کی اہمیت اور قدر کا احساس نہیں ہوتا۔ اس کی قدر تب ہوتی ہے، جب وہ مفقود ہو جائے۔ پس یہ نعمت کی پہچان اور اس کی قدر کا جاننا اس کے حق کی ادائیگی کو واجب کر دیتا ہے۔ اور حق کی ادائیگی شکر سے ہوتی ہے۔ جو عقلاً اور شرعاً فرض ہے۔ اسی ئے اللہ تعالی نے آیاتِ صوم میں لعلکم تشکروں کے ذریعے تشکر کی ضرورت و اہمیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
بحالتِ روزہ انسان بھوک اور پیاس کے کرب سے گزرتا ہے تو لامحالہ اس کے دل میں ایثار‘ بے نفسی اور قربانی کا جذبہ تقویت پکڑتا ہے اور وہ عملاً اس کیفیت سے گزر کر جس کا سامنا انسانی معاشرہ کے مفلوک الحال اور نانِ شبینہ سے محروم لوگ کرتے ہیں‘ کرب و تکلیف کے احساس سے آگاہ ہو جاتا ہے۔ فی الحقیقت روزے کے ذریعے اللہ رب العزت اپنے آسودہ حال بندوں کو ان شکستہ اور بے سروسامان لوگوں کی زبوں حالی سے کماحقہ آگاہ کرنا چاہتے ہیں، جو اپنے تن و جان کا رشتہ بمشکل برقرار رکھے ہوئے ہیں، تاکہ ان کے دل میں دکھی اور مضطرب انسانیت کی خدمت کا جذبہ فروغ پائے اور ایک ایسا اسلامی معاشرہ وجود میں آ سکے، جس کی اساس باہمی محبت و مروت‘ انسان دوستی اور دردمندی و غمخواری کی لافانی قدروں پر ہو۔ اس احساس کا بیدار ہو جانا روزے کی روح کا لازمی تقاضا ہے اور اس کا فقدان اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ روزے میں روح نام کی کوئی چیز باقی نہیں بقول علامہ اقبال:
روح چوں رفت از صلوٰۃ و از صیام
فرد ناہموار‘ ملت بے امام
روزہ انسان کے نفس اور قلب و باطن کو ہر قسم کی آلودگی اور کثافت سے پاک و صاف کر دیتا ہے۔ انسانی جسم مادے سے مرکب ہے، جسے اپنی بقا کے لئے غذا اور دیگر مادی لوازمات فراہم کرنا پڑتے ہیں‘ جبکہ روح ایک لطیف چیز ہے، جس کی بالیدگی اور نشوونما مادی ضروریات اور دنیاوی لذات ترک کر دینے میں مضمر ہے۔ جسم اور روح کے تقاضے ایک دوسرے کے متضاد اور نقیض ہیں۔ روزہ جسم کو اپنا پابند اور منقاد بنا کر مادی قوتوں کو لگام دیتا ہے‘ جس سے روح لطیف تر اور قوی تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ جوں جوں روزے کی بدولت بندہ خواہشاتِ نفسانی کے چنگل سے رستگاری حاصل کرتا ہے، اس کی روح غالب و توانا اور جسم مغلوب و نحیف ہو جاتا ہے۔ روح اور جسم کا تعلق پرندے اور قفس کا سا ہے، جیسے ہی قفسِ جسم کا کوئی گوشہ وا ہوتا ہے، روح کا پرندہ مائل بہ پرواز ہو کر، موقع پاتے ہی جسم کی بندشوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔
مسلسل روزے کے عمل اور مجاہدے سے تزکیہء نفس کا عمل تیز تر ہونے لگتا ہے‘ جس کی وجہ سے روح کثافتوں سے پاک ہو کر پہلے سے کہیں لطیف تر اور قوی تر ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ بعض کاملین و عرفاء کی روحانی طاقت کائنات کی بیکرانیوں اور پہنائیوں پر حاوی ہو جاتی ہے۔
روح کی جولانیوں کے ذیل میں حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دفعہ انہیں فرداً فرداً چالیس کے لگ بھگ مریدوں نے اپنے ہاں افطاری کی دعوت دی‘ جو حضرت نے ازراہِ بندہ نوازی قبول فرما لی۔ اگلے دن ہر مرید نے حضرت رضی اللہ عنہ کی تشریف آوری کا ماجرا کمالِ اشتیاق سے بیان کیا تو ان کے درمیان باہمی تکرار ہونے لگا۔ ہر ایک یہ کہتا تھا کہ کل شیخ رضی اللہ عنہ نے ہمارے ہاں افطاری کی ہے۔ ان میں یہ جھگڑا ہو رہا تھا کہ حضرت کے صاحب زادے کا وہاں سے گزر ہوا۔ وہ انہیں دیکھ کر کہنے لگے کہ کس لئے تکرار کرتے ہو۔ حضرت نے تو کل اپنے گھر میں روزہ افطار کیا تھا۔
یہ سب کچھ روحانی تصرفات کا اعجاز تھا‘ جو اللہ کے بندوں کو تزکیہ نفس کے ذریعے نصیب ہوتے ہیں۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روحانی تربیت یافتگان میں زہد و ورع اور تقویٰ کی بنا پر اصحابِ صفہ کو امتیازی مقام حاصل ہے۔ ان کی زندگیوں پر فقر مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نمایاں چھاپ تھی، جو فقر اضطراری نہیں بلکہ فقر اختیاری تھا۔ روزے سے فقر و فاقہ کی جو شان استغناء جنم لیتی ہے، وہ تونگری سے کہیں اعلیٰ مقام و رفعت کی حامل ہے۔ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے :
اندروں از طعام خالی دار
تا درآں نور معرفت بینی
اپنے آپ کو خالی رکھ تاکہ تیرے اندر معرفت کا نور آئے۔
الغرض نفس امارہ انسان کو برائی پر اکساتا ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌ بِالسُّوْءِ.
(یوسف‘ 12: 53)
بے شک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے۔
نفس امارہ کو قابو میں رکھنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ بعض اوقات اپنے نفس کو جائز اور حلال خواہشوں سے بھی روکیں، تاکہ ناجائز اور حرام کی طرف میلان کی جرأت و ہمت ہی نہ کرسکے۔ اس کا اثر یہ ہوگا کہ اس تربیت سے اس کی عادت بھی بدل جائے گی اور بری باتوں کی طرف اس کا دھیان ہی نہیں جائے گا۔
پس جب اس تربیت کے لئے اللہ تعالی نے ہمیں رمضان المبارک کا مہینہ عطا کیا ہے، جس میں انسان دن کے وقت حلال چیزیں کھاتے‘ پیتے اور جماع سے باز رہتا ہے۔ تو پھر وہ حرام جو کہ ہر حالت میںحرام ہے تو اس دوران پھر اسکی طرف رغبت اور میلان کس طرح ممکن ہے۔
اگر انسان ایک طرف زہر کے اثر کو مٹانے کے لئے دعا بھی کرے تو دوسری طرف زہر کا استعمال بھی کرے تو ایسی صورت میں دوا کا اثر کس طرح ممکن ہے؟ اس لئے روزہ کا مقصود تبھی حاصل ہوتا ہے، جب انسان اپنے نفس کو پاک اور منزہ کرے۔
روزے کا منتہائے مقصود یہی ہے کہ وہ بندے کو وہ تمام روحانی مدارج طے کرانے کے بعد مقام رضا پر فائز دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ مقام رضا کیا ہے؟ جو روزے کے توسط سے انسان کو نصیب ہو جاتا ہے اس پر غور کریں تو اس کی اہمیت کا احساس اجاگر ہوتا ہے رب کا اپنے بندے سے راضی ہو جانا اتنی بڑی بات ہے کہ اس کے مقابلے میں باقی سب نعمتیں ہیچ دکھائی دیتی ہیں۔ روزہ وہ منفرد عمل ہے جس کے اجر و جزا کا معاملہ رب اور بندے کے درمیان چھوڑ دیا گیا کہ اس کی رضا حد و حساب کے تعین سے ماوراء ہے۔
رب تعالی اپنے بندے سے کب اور کیسے راضی ہوتا ہے اور اس بات کی کیا علامت ہے کہ رب اپنے بندے سے فی الواقعہ راضی ہو گیا ہے۔ اس بارے میںایک بزرگ نے اپنے مرید سے پوچھا تمہیں کس طرح پتا چلے گا کہ رب تم سے راضی ہوگیا ہے۔ اس نے نہایت ادب سے جواب دیا :
إذا وجدتُ قلبی راضیاً عن ﷲ تعالیٰ علمتُ أنه راضٍ عنی.
(الرسالة القشیریة : 194)
جب میں نے اپنے دل کو اپنے رب کے ساتھ راضی پایا تو میں سمجھ گیا کہ اللہ مجھ سے راضی ہے۔
گویا خدا کی رضا کی کسوٹی اور پہچان یہ ہوئی کہ بندہ اپنے معاملات کی طرف نگاہ ڈالے اور اپنے دل سے سوال کرے کہ کیا وہ اپنے رب سے راضی ہے۔ اس طرح خدا اور بندے کی رضا باہم مربوط اور لازم و ملزوم ہے۔ اس دوگونہ تعلق میں تاہم یہ بات مسلمات میں سے ہے کہ رب کی رضا اپنے بندے کے معاملے میں بہرحال مقدم ہے اور جب تک وہ راضی نہ ہو گا، بندے کا رب کی رضا کے بارے میں مطمئن ہونا ممکن نہیں ہے اور بندے کی رضا اپنے رب سے لامحالہ موخر ہو گی۔ قرآن حکیم نے اس تصور کو راضیۃ مرضیہ کے بلیغ الفاظ سے اجاگر کیا ہے۔
یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ جب تک خدا کی ذات بندے کی تلاش و جستجو اور طلب کا محور تھی‘ اس بندے کی حیثیت محب اور طالب کی تھی‘ لیکن جب وہ خود ذاتِ خداوندی کا محبوب و مطلوب بن گیا تو اسے خدا کے مرتضیٰ (پسندیدہ) ہونے کا مقام نصیب ہو گیا‘ جس کی بنا پر وہ نہ صرف خدا بلکہ کائنات کا مدعا اور مقصود بن گیا۔ اس مقام پر خدا کی رضا قدم بہ قدم بندے کے شاملِ حال ہو گئی اور اسے زبان سے کچھ کہنے کی حاجت نہ رہی۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved