1. الَّذِیْنَ اٰتَیْنَاهُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَهٗ حَقَّ تِلاَوَتِهٖط اُولٰٓـئِکَ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖط وَمَنْ یَّکْفُرْ بِهٖ فَاُولٰٓـئِکَ هُمُ الْخَاسِرُوْنَo
(البقرة، 2: 121)
’’(ایسے لوگ بھی ہیں) جنہیں ہم نے کتاب دی وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسے پڑھنے کا حق ہے، وہی لوگ اس (کتاب) پر ایمان رکھتے ہیں، اور جو اس کا انکار کر رہے ہیں سو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔‘‘
2. وَ قُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لَتَقْرَاَهٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکْثٍ وَّ نَزَّلْنٰهُ تَنْزِیْلاًo قُلْ اٰمِنُواْ بِهٖٓ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْا.
(بنی إسرائیل، 17: 106-107)
’’اور قرآن کو ہم نے جدا جدا کرکے اتارا تاکہ آپ اسے لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھیںo اور ہم نے اسے رفتہ رفتہ (حالات اور مصالح کے مطابق) تدریجاً اتارا ہے۔‘‘
3. وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاo اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْــلًاo
(المزمل، 73: 45)
’’اور (اے حبیب!) قرآن کو (وقوف، اعراب، تمام کیفیات، مفہوم و معنی کے ساتھ) خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کریںo ہم عنقریب آپ پر ایک بھاری فرمان نازل کریں گے۔‘‘
1. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ یَعْرِضُ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم الْقُرْآنَ کُلَّ عَامٍ مَرَّةً فَعَرَضَ عَلَیْهِ مَرَّتَیْنِ فِي الْعَامِ الَّذِي قُبِضَ فِیهِ وَکَانَ یَعْتَکِفُ کُلَّ عَامٍ عَشْرًا فَاعْتَکَفَ عِشْرِیْنَ فِي الْعَامِ الَّذِي قُبِضَ فِیْهِ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ.
أخرجه البخا ري في الصحیح، کتاب فضائل القرآن باب کان جبرئیل یعرض القرآن علی النبي صلی الله علیه وآله وسلم 4/1911، الرقم: 4712، وأبو داود في السنن، کتاب الصوم، باب أین یکون الاعتکاف، 2/332، الرقم: 2466، وابن ماجه في السنن، کتاب الصیام، باب ما جاء في الاعتکاف، 1/562، الرقم: 1769، والنسائي في السنن الکبری، 5/7، الرقم: 7992، والدارمي في السنن، 2/43، الرقم: 1779، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/336، 355، الرقم: 8416، 8647، والبیهقي في السنن الکبری، 4/314، الرقم: 8346.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت جبریل ں سال میں ایک دفعہ قرآن کریم کا دور کیا کرتے تھے، لیکن جس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہوا اس سال دو مرتبہ دور کیا۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر سال دس روز اعتکاف فرمایا کرتے لیکن جس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا اس سال بیس روز اعتکاف فرمایا۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری، ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
2. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم أَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَیْرِ وَأَجْوَدُ مَا یَکُوْنُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ لِأَنَّ جِبْرِیْلَ کَانَ یَلْقَاهُ فِي کُلِّ لَیْلَةٍ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ حَتَّی یَنْسَلِخَ یَعْرِضُ عَلَیْهِ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم الْقُرْآنَ فَإِذَا لَقِیَهُ جِبْرِیْلُ کَانَ أَجْوَدَ بِالْخَیْرِ مِنَ الرِّیْحِ الْمُرْسَلَةِ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الصوم، باب أجود ما کان النبي صلی الله علیه وآله وسلم یکون في رمضان، 2/672، الرقم: 1803، وفي کتاب فضائل القرآن، باب کان جبریل یعرض القرآن علی النبي صلی الله علیه وآله وسلم، 4/1911، الرقم: 4711، ومسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب کان النبي صلی الله علیه وآله وسلم أجود الناس بالخیر من الریح المرسلة، 4/1803، الرقم: 2308، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/363، الرقم: 3425، وابن حبان في الصحیح، 8/225، الرقم: 3440، وابن خزیمة في الصحیح، 3/193، الرقم: 1889.
’’حضرت عبد اللہ ابن عباس رضي اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خیرات کرنے میں تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور رمضان المبارک کے مہینے میں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دریائے سخاوت کے اندر طغیانی آ جاتی، حضرت جبرائیل ں ماهِ رمضان المبارک کی ہر رات آخر ماہ تک حاضر خدمت ہوتے رہتے کیونکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ساتھ قرآن کریم کا دور فرمایا کرتے تھے ۔جب حضرت جبرائیل ں حاضر ہوتے تو آپ صدقہ و خیرات کرنے میں تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
3. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنہما قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم أَجْوَدَ النَّاسِ، وَکَانَ أَجْوَدُ مَا یَکُوْنُ فِي رَمَضَانَ حِیْنَ یَلْقَاهُ جِبْرِیْلُ، وَکَانَ یَلْقَاهُ فِي کُلِّ لَیْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَیُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ، فَلَرَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم أَجْوَدُ بِالْخَیْرِ مِنَ الرِّیْحِ الْمُرْسَلَةِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب بدء الوحي، باب کیف کان بدء الوحي إلی رسول اﷲ صلی الله علیه وآله وسلم، 1/6، الرقم: 6، وفي کتاب المناقب، باب صفة النبي صلی الله علیه وآله وسلم، 3/1304، الرقم: 3361، والنسائي في السنن، کتاب الصیام، باب الفضل والجود في شهر رمضان، 4/125، الرقم: 2095، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/288، الرقم: 2616، وأبو یعلی في المسند، 4/426، الرقم: 2552، وابن حبان في الصحیح، 14/285، الرقم: 6370.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں جب حضرت جبریل ں سے ملاقات ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سخاوت اور بڑھ جاتی۔ وہ رمضان کی ہر رات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ قرآن مجید کا دور کرتے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احسان کرنے میں تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی تھے۔‘‘ اِس حدیث کو امام بخاری اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
4. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنھا قَالَتْ: أَقْبَلَتْ فَاطِمَةُ تَمْشِي کَأَنَّ مِشْیَتَهَا مَشْيُ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم: مَرْحَبًا بِابْنَتِي ثَمَّ أَجْلَسَهَا عَنْ یَمِیْنِهِ أَوْ عَنْ شِمَالِهِ، ثُّمَ أَسَرَّ إِلَیْهَا حَدِیْثًا فَبَکَتْ، فَقُلْتُ لَهَا: لِمَ تَبْکِیْنَ؟ ثُّمَ أَسَرَّ إِلَیْهَا حَدِیْثًا فَضَحِکَتْ، فَقُلْتُ: مَا رَأَیْتُ کَالْیَوْمِ فَرَحًا أَقْرَبُ مِنْ حُزْنٍ، فَسَأَلْتُهَا عَمَّا قَالَ، فَقَالَتْ: مَا کُنْتُ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُوْلِ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم، حَتَّی قُبِضَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم فَسَأَلْتُهَا، فَقَالَتْ: أَسَرَّ إِلَيَّ: إِنَّ جِبْرِیْلَ کَانَ یُعَارِضُنِيَ الْقُرْآنَ کُلَّ سَنَةٍ مَرَّةً، وَإِنَّهُ عَارَضَنِيَ الْعَامَ مَرَّتَیْنِ، وَلَا أُرَاهُ إِلاَّ حَضَرَ أَجَلِي، وَإِنَّکِ أَوَّلُ أَهْلِ بَیْتِي لَحَاقًا بِي. فَبَکَیْتُ، فَقَالَ: أَمَا تَرْضَیْنَ، أَنْ تَکُوْنِي سَیِّدَةَ نِسَائِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، أَوْ نِسَائِ الْمُؤْمِنِیْنَ، فَضَحِکْتُ لِذَلِکَ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 3/1326، 1327، الرقم: 3426، 3427، ومسلم في الصحیح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل فاطمة بنت النبي صلی الله علیه وآله وسلم، 4/1904، الرقم: 2450، والنسائي في السنن الکبری، 5/96، الرقم: 8368، وأحمد بن حنبل في المسند، 6/282، والطبراني في المعجم الکبیر، 22/418، الرقم: 1032.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اﷲ علیہا تشریف لائیں اور ان کا چلنا ہو بہو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چلنے جیسا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی لختِ جگر کو خوش آمدید کہا اور اپنے دائیں یا بائیں جانب بٹھا لیا، پھر چپکے سے ان سے کوئی بات کہی تو وہ رونے لگیں۔ میں نے ان سے پوچھا آپ کیوں رو رہی ہیں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن سے کوئی بات چپکے سے کہی تو وہ ہنس پڑیں۔ پس میں نے کہا کہ آج کی طرح میں نے خوشی کو غم کے اتنے نزدیک کبھی نہیں دیکھا۔ میں نے (حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اﷲ علیہا سے) پوچھا: آپ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا فرمایا تھا؟ انہوں نے جواب دیا: میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راز کو ظاہر نہیں کر سکتی۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وِصال ہو گیا تو میں نے ان سے (اُس بارے میں) پھر پوچھا تو اُنہوں نے جواب دیا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے یہ سرگوشی کی تھی کہ جبرائیلں ہر سال میرے ساتھ قرآن مجید کا ایک بار دَور کیا کرتے تھے لیکن اس سال دو مرتبہ دَور کیا ہے، میرا خیال یہی ہے کہ میرا وقت وصال آپہنچا ہے اور بے شک میرے گھر والوں میں سے تم ہو جو سب سے پہلے مجھ سے ملو گی۔ اس بات نے مجھے رلا دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تم تمام جنتی عورتوں کی سردار ہو یا تمام مسلمان عورتوں کی سردار ہو! تو اس بات پر میں ہنس پڑی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
5. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: خَرَجَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم فَإِذَا أُنَاسٌ فِي رَمَضَانَ یُصَلُّوْنَ فِي نَاحِیَةِ الْمَسْجِدِ فَقَالَ: مَا هَؤُلَائِ؟ فَقِیْلَ: هَؤُلَائِ نَاسٌ لَیْسَ مَعَهُمْ قُرْآنٌ وَأُبِيُّ بْنُ کَعْبٍ یُصَلِّي وَهُمْ یُصَلُّوْنَ بِصَلَاتِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم: أَصَابُوْا وَنِعْمَ مَا صَنَعُوْا.
رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَابْنُ خُزَیْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْبَیْهَقِيُّ.
وفي روایة للبیهقي: قَالَ: قَدْ أَحْسَنُوْا أَوْ قَدْ أَصَابُوْا وَلَمْ یَکْرَهْ ذَلِکَ لَهُمْ.
أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب في قیام شهر رمضان، 2/50، الرقم: 1377، وابن خزیمة في الصحیح، 3/339، الرقم: 2208، وابن حبان في الصحیح، 6/282، الرقم: 2541، والبیهقي في السنن الکبری، 2/495، الرقم: 4386-4388، وابن عبد البر في التمهید، 8/111، وابن قدامة في المغني، 1/455.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (حجرہ مبارک سے) باہر تشریف لائے تو (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ) رمضان المبارک میں لوگ مسجد کے ایک گوشہ میں نماز پڑھ رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: یہ کون ہیں؟ عرض کیا گیا: یہ وہ لوگ ہیں جنہیں قرآن پاک یاد نہیں ۔ حضرت ابی بن کعب نماز پڑھتے ہیں اور یہ لوگ ان کی اقتداء میں نماز پڑھتے ہیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انہوں نے درست کیا اور کتنا ہی اچھا عمل ہے جو انہوں نے کیا۔ ‘‘
اس حدیث کو امام ابو داود، ابن خزیمہ، ابن حبان اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
اور بیہقی کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’انہوں نے کتنا احسن اقدام یا کتنا اچھا عمل کیا اور ان کے اس عمل کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناپسند نہیں فرمایا۔‘‘
6. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَیْنِ رَجُلٌ عَلَّمَهُ ﷲُ الْقُرْآنَ فَهُوَ یَتْلُوْهُ آنَائَ اللَّیْلِ وَآنَائَ النَّهَارِ فَسَمِعَهُ جَارٌ لَهُ فَقَالَ: لَیْتَنِي أُوْتِیْتُ مِثْلَ مَا أُوْتِيَ فُـلَانٌ فَعَمِلْتُ مِثْلَ مَا یَعْمَلُ. وَرَجُلٌ آتَاهُ ﷲُ مَالًا فَهُوَ یُهْلِکُهُ فِي الْحَقِّ، فَقَالَ رَجُلٌ: لَیْتَنِي أُوْتِیْتُ مِثْلَ مَا أُوْتِيَ فُـلَانٌ فَعَمِلْتُ مِثْلَ مَا یَعْمَلُ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب فضائل القرآن، باب اغتباط صاحب القرآن، 4/1919، الرقم: 4738، ومسلم في الصحیح، کتاب صلاة المسافرین وقصرها، باب فضل من یقوم بالقرآن، 1/ 558، الرقم: 815، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/479، الرقم: 10218، والبیهقي في السنن الکبری، 4/189، الرقم: 7616.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حسد (رشک) تو بس دو آدمیوں سے ہی کرنا جائز ہے۔ پہلا وہ شخص جسے اﷲ تعالیٰ نے قرآن (پڑھنا و سمجھنا) سکھایا تو وہ رات اور دن کے اوقات میں (یعنی صبح و شام کثرت سے) اس کی تلاوت کرتا ہے، اس کا پڑوسی اسے قرآن پڑھتے ہوئے سنتا ہے تو کہہ اٹھتا ہے کہ کاش مجھے بھی اس کی مثل قرآن عطا کیا جاتا تو میں بھی اسی طرح عمل کرتا جس طرح یہ کرتا ہے اور دوسرا وہ شخص جسے اﷲ تعالیٰ نے مال بخشا ہے اور وہ اسے اﷲ تعالیٰ کی راہ میں صرف کرتا ہے۔ دوسرا شخص اسے دیکھ کر کہتا ہے کاش مجھے بھی اتنا مال ملتا جتنا اسے ملا ہے تو میں بھی اسی طرح عمل کرتا جس طرح یہ کرتا ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
7. عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضي اﷲ عنہما: أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: اَلصِّیَامُ وَالْقُرْآنُ یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، یَقُوْلُ الصِّیَامُ: أَيْ رَبِّ، مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ فَشَفِّعْنِي فِیْهِ، وَیَقُوْلُ الْقُرْآنُ: مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّیْلِ فَشَفِّعْنِي فِیْهِ. قَالَ: فَیُشَفَّعَانِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْحَاکِمُ، وَقَالَ: صَحِیْحٌ عَلَی شَرْطِ مُسْلِمٍ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2/174، الرقم: 6626، والحاکم في المستدرک، 1/740، الرقم: 2036، والبیهقي في شعب الإیمان، 2/346، الرقم: 1994، وابن المبارک في المسند، 1/59، الرقم: 96، والدیلمي في مسند الفردوس، 2/408، الرقم: 3815، والهیثمي في مجمع الزوائد، 3/181، وقال: ورجاله رجال الصحیح.
’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: روزہ اور قرآن بندے کے لیے قیامت کے دن شفاعت کریں گے۔ روزہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے اسے کھانے پینے اور خواہشِ نفس سے روکے رکھا لہٰذا اس کے لیے میری شفاعت قبول فرما اورقرآن کہے گا: اے میرے رب! میں نے اسے رات کے وقت نیند سے روکے رکھا (اور قیام اللیل میں مجھے پڑھتا یا سنتا رہا) لہٰذا اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دونوں کی شفاعت قبول کر لی جائے گی۔‘‘
اِس حدیث کو امام احمد، طبرانی اور حاکم نے روایت کیا ہے، نیز امام حاکم نے اسے مسلم کی شرط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے۔
8. عَنْ سَعِیْدِ بْنِ عُبَیْدٍ الطَّائِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ سَعِیْدَ بْنَ جُبَیْرٍ وَهُوَ یُصَلِّي بِهِمْ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ یُرَدِّدُ هَذِهِ الْآیَةَ: {فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَo اِذِالْاَغْلٰلُ فِیْٓ اَعْنَاقِهِمْ وَالسَّلٰسِلُط یُسْحَبُوْنَo فِی الْحَمِیْمِلا ثُمَّ فِی النَّارِ یُسْجَرُوْنَo [غافر، 40: 71]}. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَیْبَةَ.
أخرجه ابن أبي شیبة في المصنف، 2/224، الرقم: 8369، والنووي في التبیان، 1/90، وأبو عبید في فضائل القرآن، 1/ 68-69.
’’سعید بن عبید الطائی بیان کرتے ہیں کہ سعید بن جبیر ماہِ رمضان میں نماز میں ان کی امامت کر رہے تھے اور یہ آیت دہرا رہے تھے: ’’تو وہ عنقریب (اپنا انجام) جان لیں گے۔ جب اُن کی گردنوں میں طوق اور زنجیریں ہوں گی، وہ گھسیٹے جا رہے ہوں گے۔ کھولتے ہوئے پانی میں، پھر آگ میں (ایندھن کے طور پر) جھونک دیے جائیں گے۔‘‘ اِس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
9. عَنْ أَبِي عَوَانَةَ، قَالَ: شَهِدْتُ قَتَادَةَ رضی الله عنه یُدَرِّسُ الْقُرْآنَ فِي رَمَضَانَ. رَوَاهُ ابْنُ الْجَعْدِ.
أخرجه ابن الجعد في المسند، 1/160، الرقم: 1024.
’’حضرت ابو عوانہ سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، وہ رمضان المبارک میں (لوگوں کو ) قرآن حکیم کا درس دیتے تھے۔‘‘ اسے امام ابن جعد نے روایت کیا ہے۔
10. عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ: دَعَا الْقُرَّائَ فِي رَمَضَانَ فَأَمَرَ مِنْهُمْ رَجُلًا یُصَلِّي بِالنَّاسِ عِشْرِیْنَ رَکْعَةً، قَالَ: وَکَانَ عَلِيٌّص یُوْتِرُ بِهِمْ. وَرُوِيَ ذَلِکَ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه.
رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ.
أخرجه البیهقي في السنن الکبری، 2/496، الرقم: 4396، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 3/444.
’’حضرت ابو عبدالرحمن سلمی سے مروی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رمضان المبارک میں قاریوں کو بلایا اور ان میں سے ایک شخص کو بیس رکعت تراویح پڑھانے کا حکم دیا اور خود حضرت علی رضی اللہ عنہ انہیں وتر پڑھاتے تھے۔‘‘ یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دیگر سند سے بھی مروی ہے۔ اِسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved