1. وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًاo
(الفرقان، 25: 63)
’’اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے لئے سجدہ ریزی اور قیامِ (نِیاز) میں راتیں بسر کرتے ہیں۔‘‘
2. تَتَجَافٰی جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا.
(السجدة، 32: 16)
’’ان کے پہلو اُن کی خوابگاہوں سے جدا رہتے ہیں اور اپنے رب کو خوف اور امید (کی مِلی جُلی کیفیت) سے پکارتے ہیں۔‘‘
3. وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ بُکْرَةً وَّاَصِیْلًاo وَمِنَ الَّیْلِ فَاسْجُدْ لَهٗ وَسَبِّحْهُ لَیْلًا طَوِیْلًاo
(الإنسان، 76: 25، 26)
’’اور صبح و شام اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کریں۔ اور رات کی کچھ گھڑیاں اس کے حضور سجدہ ریزی کیا کریں اور رات کے (بقیہ) طویل حصہ میں اس کی تسبیح کیا کریں۔‘‘
1. عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ رضي ﷲ عنها أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم صَلَّی ذَاتَ لَیْلَةٍ فِي الْمَسْجِدِ، فَصَلَّی بِصَلَاتِهِ نَاسٌ، ثُمَّ صَلَّی مِنَ الْقَابِلَةِ فَکَثُرَ النَّاسُ، ثُمَّ اجْتَمَعُوْا مِنَ اللَّیْلَةِ الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ فَلَمْ یَخْرُجْ إِلَیْهِمْ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم ، فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ: قَدْ رَأَیْتُ الَّذِي صَنَعْتُمْ وَلَمْ یَمْنَعْنِي مِنَ الْخُرُوْجِ إِلَیْکُمْ إِلَّا أَنِّي خَشِیْتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَیْکُمْ، وَذَلِکَ فِي رَمَضَانَ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
وأخرج العسقـلاني في ’’التلخیص‘‘: أَنَّهُ صلی الله علیه وآله وسلم صَلَّی بِالنَّاسِ عِشْرِیْنَ رَکْعَةً لَیْلَتَیْنِ فَلَمَّا کَانَ فِي اللَّیْلَةِ الثَّالِثَةِ اجْتَمَعَ النَّاسُ فَلَمْ یَخْرُجْ إِلَیْهِمْ ثُمَّ قَالَ مِنَ الْغَدِ: خَشِیْتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَیْکُمْ فَـلَا تُطِیْقُوْهَا.
أخرجه البخاری في الصحیح، کتاب صلاة التراویح، باب فضل من قام رمضان، 1/380، الرقم: 1077، ومسلم في الصحیح، کتاب صلاة المسافرین وقصرها، باب الترغیب في قیام رمضان وہو التراویح، 1/524، الرقم: 761، وأبو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب في قیام شهر رمضان، 2/49، الرقم: 1373، والنسائي في السنن، کتاب قیام اللیل وتطوع النهار، باب قیام شهر رمضان، 3/202، الرقم: 1604، وأحمد بن حنبل في المسند، 6/177، الرقم: 25485، وابن حبان في الصحیح، 6/283، الرقم: 2542، والبیهقی في السنن الکبری، 2/ 492، الرقم: 4377، والعسقلاني في تلخیص الحبیر، 2/21، الرقم: 540.
’’عُروہ بن زُبیر نے اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں نماز پڑھی تو لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اگلی رات نماز پڑھی تو لوگ اور زیادہ ہو گئے۔ پھر تیسری یا چوتھی رات بھی لوگ اکٹھے ہوئے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو فرمایا: جو تم نے کیا میں نے دیکھا لیکن مجھے تمہارے پاس آنے سے صرف یہ خوف مانع تھا کہ کہیں تم پر یہ نمازِ تراویح فرض نہ ہو جائے۔ یہ رمضان المبارک کا واقعہ ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
امام عسقلانی نے ’’التلخیص‘‘ میں بیان کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو دو راتیں 20 رکعت نماز تراویح پڑھائی جب تیسری رات لوگ پھر جمع ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف (حجرہ مبارک سے باہر) تشریف نہیں لائے۔ پھر صبح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں (نمازِ تراویح) تم پر فرض کردی جائے لیکن تم اس کی طاقت نہ رکھو۔‘‘
2. عَنْ عُرْوَةَ أَنَّ عَائِشَةَ رضي ﷲ عنها أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم خَرَجَ لَیْلَةً مِنْ جَوْفِ اللَّیْلِ فَصَلَّی فِي الْمَسْجِدِ، وَصَلَّی رِجَالٌ بِصَلَاتِهِ فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوْا، فَاجْتَمَعَ أَکْثَرُ مِنْهُمْ، فَصَلَّی فَصَلَّوْا مَعَهُ، فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوْا، فَکَثُرَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ مِنَ اللَّیْلَةِ الثَّالِثَةِ، فَخَرَجَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم فَصَلَّی فَصَلَّوْا بِصَلَاتِهِ، فَلَمَّا کَانَتْ اللَّیْلَةُ الرَّابِعَةُ عَجَزَ الْمَسْجِدُ عَنْ أَهْلِهِ حَتَّی خَرَجَ لِصَلَاةِ الصُّبْحِ، فَلَمَّا قَضَی الْفَجْرَ أَقْبَلَ عَلَی النَّاسِ فَتَشَهَدَ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّهُ لَمْ یَخْفَ عَلَيَّ مَکَانُکُمْ وَلَکِنِّي خَشِیْتُ أَنْ تُفْتَرَضَ عَلَیْکُمْ فَتَعْجِزُوْا عَنْهَا فَتُوُفِّيَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم وَالْأَمْرُ عَلَی ذَلِکَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ خُزَیْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ.
أخرجه البخاری في الصحیح، کتاب صلاة التراویح، باب فضل من قام رمضان، 2/708، الرقم: 1908، وأیضاً في کتاب الجمعة، باب من قال في الخطبة بعد الثناء أما بعد، 1/ 313، الرقم: 882، وابن خزیمة في الصحیح، 2/172، الرقم: 1128، وابن حبان في الصحیح، 1/353، الرقم: 141.
’’حضرت عروہ سے روایت ہے کہ اُنہیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا نے بتایا کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آدھی رات کے وقت باہر تشریف لے گئے اور مسجد میں نماز پڑھنے لگے اور کتنے ہی لوگوں نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی۔ صبح کے وقت لوگوں نے اس کا چرچا کیا تو دوسرے روز اور زیادہ لوگوں نے آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی۔ صبح ہوئی تو لوگوں نے چرچا کیا۔ پس مسجد میں حاضرین کی تعداد تیسری رات میں اور بڑھ گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز پڑھی تو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ جب چوتھی رات آئی تو نمازی مسجد میں سما نہیں رہے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کی نماز کے لیے تشریف لائے۔ جب نمازِ فجر پڑھ چکے تو لوگوں کی جانب متوجہ ہو کر شہادتِ توحید و رسالت کے بعد فرمایا: اما بعد! تمہاری موجودگی مجھ سے پوشیدہ نہیں تھی لیکن میں تم پر نمازِ تراویح فرض ہو جانے اور تمہارے اس سے عاجز آ جانے سے ڈرا۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال تک معاملہ اسی طرح رہا۔‘‘
اِس حدیث کو امام بخاری، ابن خزیمہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
3. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم ، یُرَغِّبُ فِي قِیَامِ رَمَضَانَ، مِنْ غَیْرِ أَنْ یَأْمُرَ بِعَزِیْمَةٍ، فَیَقُوْلُ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِیْمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ. فَتُوُفِّيَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم ، وَالْأَمْرُ عَلَی ذَلِکَ، ثُمَّ کَانَ الْأَمْرُ عَلَی ذَلِکَ فِي خِـلَافَةِ أَبِي بَکْرٍ وَصَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ عَلَی ذَلِکَ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب صلاة التروایح، باب فضل من قام رمضان، 2/707، الرقم: 1905، ومسلم في الصحیح، کتاب صلاة المسافرین وقصرها، باب الترغیب في قیام رمضان وہو التراویح، 1/523، الرقم: 759، والترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب الترغیب في قیام رمضان وما جاء فیہ من الفضل، 3/171، الرقم: 808، وقال: هذا حدیث حسن صحیح، وأبوداود في السنن، کتاب الصلاة، باب في قیام شهر رمضان، 2/49، الرقم: 1371، والنسائي في السنن، کتاب الصیام، باب ثواب من قام رمضان وصامہ إیمانا واحتسابا، 4/154، الرقم: 2192، ومالک في الموطأ، کتاب الصلاة في رمضان، باب الترغیب في الصلاة في رمضان، 1/113، الرقم: 249، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/281، الرقم: 7774.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز تراویح پڑھنے کی رغبت دلایا کرتے تھے لیکن حکماً نہیں فرماتے تھے چنانچہ فرماتے کہ جس نے رمضان المبارک میں حصولِ ثواب کی نیت سے اور حالتِ ایمان کے ساتھ قیام کیا تو اس کے سابقہ (تمام) گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک تک نمازِ تراویح کی یہی صورت برقرار رہی اور خلافت ابوبکر رضی اللہ عنہ میں اور پھر خلافت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے شروع تک یہی صورت برقرار رہی۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ اور مذکورہ الفاظ امام مسلم کے ہیں۔
4. وزاد مسلم وغیرہ أیضًا: عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَیْرِ أَنَّ عَائِشَةَ رضي ﷲ عنها أَخْبَرَتْهُ أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم خَرَجَ مِنْ جَوْفِ اللَّیْلِ فَصَلَّی فِي الْمَسْجِدِ فَصَلَّی رِجَالٌ بِصَلَاتِهِ، فَأَصْبَحَ النَّاسُ یَتَحَدَّثُوْنَ بِذَلِکَ فَاجْتَمَعَ أَکْثَرُ مِنْهُمْ، فَخَرَجَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم فِي اللَّیْلَةِ الثَّانِیَةِ فَصَلَّوْا بِصَلَاتِهِ، فَأَصْبَحَ النَّاسُ یَذْکُرُوْنَ ذَلِکَ فَکَثُرَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ مِنَ اللَّیْلَةِ الثَّالِثَةِ فَخَرَجَ فَصَلَّوْا بِصَلَاتِهِ، فَلَمَّا کَانَتْ اللَّیْلَةُ الرَّابِعَةُ عَجَزَ الْمَسْجِدُ عَنْ أَهْلِهِ فَلَمْ یَخْرُجْ إِلَیْهِمْ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم ، فَطَفِقَ رِجَالٌ مِنْهُمْ یَقُوْلُوْنَ: الصَّلَاةَ، فَلَمْ یَخْرُجْ إِلَیْهِمْ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم حَتَّی خَرَجَ لِصَلَاةِ الْفَجْرِ، فَلَمَّا قَضَی الْفَجْرَ أَقْبَلَ عَلَی النَّاسِ ثُمَّ تَشَهَدَ فَقَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّهُ لَمْ یَخْفَ عَلَيَّ شَأْنُکُمْ اللَّیْلَةَ وَلَکِنِّي خَشِیْتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَیْکُمْ صَلَاةُ اللَّیْلِ فَتَعْجِزُوْا عَنْهَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ رَاهَوَیْهِ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْبَیْهَقِيُّ.
أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب صلاة المسافرین وقصرها، باب الترغیب في قیام رمضان وہو التراویح، 1/524، الرقم: 761، وأحمد بن حنبل في المسند، 6/169، الرقم: 25401، وابن راهویه في المسند، 2/304، الرقم: 827، وابن حبان في الصحیح، 6/284، الرقم: 2543، والبیهقي في السنن الکبری، 2/493، الرقم: 4378.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا بیان کرتی ہیں: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آدھی رات کو تشریف لے گئے اور مسجد میں نماز پڑھی، لوگوں نے بھی آپ کی اقتداء میں نماز پڑھنی شروع کر دی۔ صبح لوگوں نے آپس میں اس واقعہ کا ذکر کیا تو پہلی بار سے زیادہ لوگ جمع ہو گئے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسری رات تشریف لے گئے تو لوگوں نے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء میں نماز پڑھی، صبح لوگوں نے پھر اس واقعہ کا تذکرہ کیا تو تیسری رات مسجد میں بہت زیادہ لوگ جمع ہو گئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء میں نماز پڑھی، چوتھی رات اس کثرت سے صحابہ جمع ہو گئے کہ مسجد تنگ پڑ گئی لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس تشریف نہ لائے، لوگوں نے ’’نماز! نماز‘‘ پکارنا شروع کر دیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں آئے حتیٰ کہ نمازِ فجر کے وقت تشریف لائے، جب نماز ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر کلمہ شہادت پڑھنے کے بعد فرمایا: گزشتہ رات تمہارا حال مجھ سے مخفی نہ تھا لیکن مجھے یہ خوف تھا کہ تم پر رات کی نماز (تراویح) فرض کر دی جائے گی اور تم اس کی ادائیگی سے عاجز ہو جائو گے۔‘‘
اِس حدیث کو امام مسلم، احمد، ابن راہویہ، ابن حبان اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
5. عَنْ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ ص، قَالَ: صُمْنَا مَعَ رَسُوْلِ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم فَلَمْ یُصَلِّ بِنَا، حَتَّی بَقِيَ سَبْعٌ مِنَ الشَّهْرِ فَقَامَ بِنَا حَتَّی ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّیْلِ، ثُمَّ لَمْ یَقُمْ بِنَا فِي السَّادِسَةِ، وَقَامَ بِنَا فِي الْخَامِسَةِ حَتَّی ذَهَبَ شَطْرُ اللَّیْلِ، فَقُلْنَا لَهُ: یَا رَسُوْلَ ﷲِ، لَوْ نَفَّلْتَنَا بَقِیَّةَ لَیْلَتِنَا هَذِهِ؟ فَقَالَ: إِنَّهُ مَنْ قَامَ مَعَ الْإِمَامِ حَتَّی یَنْصَرِفَ کُتِبَ لَهُ قِیَامُ لَیْلَةٍ، ثُمَّ لَمْ یُصَلِّ بِنَا حَتَّی بَقِيَ ثَـلَاثٌ مِنَ الشَّهْرِ وَصَلَّی بِنَا فِي الثَّالِثَةِ وَدَعَا أَهْلَهُ وَنِسَائَهُ، فَقَامَ بِنَا حَتَّی تَخَوَّفْنَا الْفَـلَاحَ، قُلْتُ لَهُ: وَمَا الْفَـلَاحُ؟ قَالَ: السُّحُوْرُ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء في قیام شهر رمضان، 3/ 169-170، الرقم: 806، وأبو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب في قیام شهر رمضان، 2/50، الرقم: 1375، والنسائي في السنن، کتاب السهو، باب ثواب من صلی مع الإمام حتی ینصرف، 3/ 83، الرقم: 1364، وأیضاً في کتاب قیام اللیل وتطوع النهار، باب قیام شهر رمضان، 3/ 202، الرقم: 1605، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فیها، باب ما جاء في قیام شهر رمضان، 1/420، الرقم: 1327، وابن أبي شیبة في المصنف، 2/164، الرقم: 7695، وابن خزیمة في الصحیح، 3/337، الرقم: 2206، وجعفر بن محمد الفریابي في کتاب الصیام: 117، الرقم: 153.
’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ روزے رکھے لیکن آپ نے ہمیں نماز (تراویح) نہ پڑھائی، جب رمضان کے سات دن باقی رہ گئے (یعنی 23 ویں رات آئی) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے ساتھ (نماز پڑھانے کے لیے) کھڑے ہوئے یہاں تک کہ تہائی رات گزر گئی، پھر چوبیسویں رات قیام نہ فرمایا اور پچیسویں رات کو نماز پڑھائی یہاں تک کہ نصف رات گزر گئی۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کاش آپ باقی راتیں بھی ہمیں نماز پڑھاتے (ہمارے لئے باعثِ سعادت ہوتا)، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص امام کے ہمراہ (نماز کے لیے) سلام پھیرنے تک کھڑا ہو اس کے لیے پوری رات قیام (کا ثواب) لکھا جاتا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز تراویح نہ پڑھائی یہاں تک کہ تین دن باقی رہ گئے تو آپ نے ستائیسویں شب کو نماز پڑھائی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اہلِ بیت و ازواجِ مطہرات کو بھی بلایا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اتنی لمبی نماز پڑھائی کہ ہمیں فلاح (کے چھوٹ جانے) کا خوف ہوا۔ (جبیر بن نفیر کہتے ہیں)میں نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: فلاح کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سحری۔‘‘
اِس حدیث کو اِمام ترمذی ، ابو داود، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ اِمام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
6. عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَائِشَةَ رضي ﷲ عنها قَالَتْ: کَانَ النَّاسُ یُصَلُّوْنَ فِي الْمَسْجِدِ فِي رَمَضَانَ أَوْزَاعًا، فَأَمَرَنِي رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم فَضَرَبْتُ لَهُ حَصِیْرًا، فَصَلَّی عَلَیْهِ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ.
أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب في قیام شهر رمضان، 2/50، الرقم: 1374.
’’ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا نے فرمایا کہ رمضان المبارک کے مہینے میں لوگ مسجد کے اندر علیحدہ علیحدہ نماز پڑھا کرتے تھے۔ پس حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ایک چٹائی بچھا دی، سو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر نماز ادا فرمائی۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔
7. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: خَرَجَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم فَإِذَا أُنَاسٌ فِي رَمَضَانَ یُصَلُّوْنَ فِي نَاحِیَةِ الْمَسْجِدِ فَقَالَ: مَا هَؤُلَائِ؟ فَقِیْلَ: هَؤُلَائِ نَاسٌ لَیْسَ مَعَهُمْ قُرْآنٌ وَأُبِيُّ بْنُ کَعْبٍ یُصَلِّي وَهُمْ یُصَلُّوْنَ بِصَلَاتِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم: أَصَابُوْا وَنِعْمَ مَا صَنَعُوْا.
رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَابْنُ خَزَیْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْبَیْهَقِيُّ.
وفي روایة للبیهقي: قَالَ: قَدْ أَحْسَنُوْا أَوْ قَدْ أَصَابُوْا وَلَمْ یَکْرَهْ ذَلِکَ لَهُمْ.
أخرجه أبوداود في السنن، کتاب الصلاة، باب في قیام شهر رمضان، 2/50، الرقم: 1377، وابن خزیمة في الصحیح، 3/339، الرقم: 2208، وابن حبان في الصحیح، 6/282، الرقم: 2541، والبیهقي في السنن الکبری، 2/495، الرقم: 4386-4388، وابن عبد البر في التمهید، 8/111، وابن قدامة في المغني، 1/455.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (حجرہ مبارک سے) باہر تشریف لائے تو (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ) رمضان المبارک میں لوگ مسجد کے ایک گوشہ میں نماز پڑھ رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: یہ کون ہیں؟ عرض کیا گیا: یہ وہ لوگ ہیں جنہیں قرآن پاک یاد نہیں اور حضرت ابی بن کعب نماز پڑھتے ہیں اور یہ لوگ ان کی اقتداء میں نماز پڑھتے ہیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انہوں نے درست کیا اور کتنا ہی اچھا عمل ہے جو انہوں نے کیا۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابو داود، ابن خزیمہ، ابن حبان اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
امام بیہقی کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انہوں نے کتنا اَحسن اقدام یا کتنا اچھا عمل کیا اور ان کے اس عمل کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناپسند نہیں جانا۔‘‘
8. عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ الْقَارِيِّ أَنَّهُ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه لَیْلَةً فِي رَمَضَانَ إِلَی الْمَسْجِدِ، فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُوْنَ یُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ،وَ یُصَلِّي الرَّجُلُ فَیُصَلِّي بِصَلَا تِهِ الرَّهْطُ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنِّي أَرَی لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلَائِ عَلَی قَارِیئٍ وَاحِدٍ لَکَانَ أَمْثَلَ، ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَهُمْ عَلَی أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ، ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُ لَیْلَةً أُخْرَی وَالنَّاسُ یُصَلُّوْنَ بِصَـلَاةِ قَارِئِهِمْ، قَالَ عُمَرُص: نِعْمَ الْبِدْعَةُ هَذِهِ، وَالَّتِي یَنَامُوْنَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِي یَقُوْمُوْنَ، یُرِیْدُ آخِرَ اللَّیْلِ، وَکَانَ النَّاسُ یَقُوْمُوْنَ أَوَّلَهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَمَالِکٌ وَابْنُ خُزَیْمَةَ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالْبَیْهَقِيُّ.
أخرجه البخاری في الصحیح، کتاب صلاة التراویح، باب فضل من قام رمضان، 2/707، الرقم: 1906، ومالک في الموطأ، کتاب الصلاة في رمضان، باب الترغیب في الصلاة في رمضان، 1/114، الرقم: 650، وابن خزیمة في الصحیح، 2/155، الرقم: 155، وعبد الرزاق في المصنف، 4/258، الرقم: 7723، والبیهقی في السنن الکبری، 12، 493، الرقم: 4378، وفي شعب الإیمان، 3/177، الرقم: 3269.
’’حضرت عبدالرحمن بن عبد القاری روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات مسجد کی طرف نکلا تو لوگ متفرق تھے، کوئی تنہا نماز پڑھ رہا تھا اور کسی کی اقتداء میں ایک گروہ نماز پڑھ رہا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے خیال میں انہیں ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو اچھا ہو گا، انہوں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پیچھے سب کو جمع کر دیا، پھر میں ایک اور رات ان کے ساتھ نکلا اور لوگ ایک امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (انہیں دیکھ کر) فرمایا: یہ کتنی اچھی بدعت ہے، اور وہ نماز جس سے لوگ سوئے رہتے ہیں وہ اس سے بہتر ہے جسے لوگ ادا کر رہے ہیں۔ اس بہتر نماز سے آپ کی مراد رات کے آخری پہر کی نماز یعنی نماز تہجد تھی، کیونکہ لوگ اول شب میں قیام (یعنی نمازِ تراویح ادا) کرتے تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، مالک، ابن خزیمہ، عبدالرزاق اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
9. عَنْ یَزِیْدَ بْنِ رُوْمَانَ أَنَّهُ قَالَ: کَانَ النَّاسُ یَقُوْمُوْنَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه فِي رَمَضَانَ، بِثَـلَاثٍ وَعِشْرِیْنَ رَکْعَةً.
رَوَاهُ مَالِکٌ وَالْفَرْیَابِيُّ وَالْبَیْهَقِيُّ. وَقَالَ الْفَرْیَابِيُّ: رِجَالُهُ مُوَثَّقُوْنَ
وَقَالَ ابْنُ قُدَامَةَ فِي الْمُغْنِي: وَهَذَا کَالإِجْمَاعِ.
أخرجه مالک في الموطأ، کتاب الصلاة في رمضان، باب الترغیب في الصلاة في رمضان، 1/115، الرقم: 252، والبیهقي في السنن الکبری، 2/496، الرقم: 4394، وفي شعب الإیمان، 3/177، الرقم: 3270، والفریابي في کتاب الصیام، 1/132، الرقم: 179، وابن عبد البر في التمهید، 8/115، وابن قدامة في المغني، 1/456، والشوکاني في نیل الأوطار، 3/63.
’’حضرت یزید بن رومان نے بیان کیا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں لوگ (بشمول وتر) 23 رکعت پڑھتے تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام مالک، فریابی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام فریابی نے کہا کہ اس کی سند کے رجال ثقہ ہیں اور ابن قدامہ نے ’’المغني‘‘ میں کہا کہ یہ عمل بصورت اِجماع ہے۔
10. عَنْ مَالِکٍ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَیْنِ، أَنَّهُ سَمِعَ الْأَعْرَجَ یَقُوْلُ: مَا أَدْرَکْتُ النَّاسَ إِلَّا وَهُمْ یَلْعَنُوْنَ الْکَفَرَةَ فِي رَمَضَانَ، قَالَ: وَکَانَ الْقَارِیئُ یَقْرَأُ سُوْرَةَ الْبَقَرَةِ فِي ثَمَانِ رَکَعَاتٍ، فَإِذَا قَامَ بِهَا فِي اثْنَتَي عَشْرَةَ رَکْعَةً، رَأَی النَّاسُ أَنَّهُ قَدْ خَفَّفَ.
رَوَاهُ مَالِکٌ وَالْبَیْهَقِيُّ وَالْفَرْیَابِيُّ وَقَالَ: إِسْنَادُهُ قَوِيٌّ.
وَقَالَ الإِمَامُ وَلِيُّ ﷲِ الدِّهْلَوِيُّ: هُوَ مَذْهَبُ الشَّافِعِیَّةِ وَالْحَنْفِیَّةِ، وَعَشْرُوْنَ رَکَعَةً تَرَاوِیْحُ وَثَـلَاثٌ وِتْرٌ عِنْدَ الْفِرِیْقَیْنِ هَکَذَا قَالَ الْمُحَلِّيُّ عَنِ الْبَیْهَقِيِّ.
أخرجه مالک في الموطأ، کتاب الصلاة في رمضان، باب ما جاء في قیام رمضان، 1/115، الرقم: 753، والبیهقي في السنن الکبری، 2/497، الرقم: 4401، وفي شعب الإیمان، 3/177، الرقم: 3271، والفریابي في کتاب الصیام، 1/133، الرقم: 181، وابن عبد البر في التمھید، 17/405، والسیوطي في تنویر الحوالک شرح موطأ مالک، 1/105، والزرقاني في شرحه علی الموطأ، 1/342، وولي ﷲ الدھلوي في المسوی من أحادیث الموطأ، 1/175.
’’حضرت مالک نے داود بن حصین سے روایت کیا، انہوں نے حضرت اعرج کو فرماتے ہوئے سنا: میں نے لوگوں کو اس حال میں پایا کہ وہ رمضان میں کافروں پر لعنت کیا کرتے تھے انہوں نے فرمایا (نمازِ تراویح میں) قاری سورہ بقرہ کو آٹھ رکعتوں میں پڑھتا اور جب باقی بارہ رکعتیں پڑھی جاتیں تو لوگ دیکھتے کہ امام انہیں ہلکی (مختصر) کر دیتا۔‘‘
’’حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے (اس حدیث کی شرح میں) بیان کیا کہ بیس رکعت تراویح اور تین وتر شوافع اور احناف کا مذہب ہے۔ اسی طرح محلّی نے امام بیہقی سے بیان کیا۔‘‘
11. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي ﷲ عنہما قَالَ: أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم کَانَ یُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِیْنَ رَکْعَةً سِوَی الْوِتْرِ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَیْبَةَ وَابْنُ حُمَیْدٍ وَالْبَیْهَقِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.
أخرجه ابن أبي شیبة في المصنف، 2/164، الرقم: 7692، والطبراني في المعجم الأوسط، 1/243، الرقم: 798، 5/324، الرقم: 5440، وفي المعجم الکبیر، 11/393، الرقم: 12102، والبیهقي في السنن الکبری، 2/496، الرقم: 4391، وعبد بن حمید في المسند، 1/218، الرقم: 653، والخطیب البغدادي في تاریخ بغداد، 6/113، والهیثمي في مجمع الزوائد، 3/172، وابن عبد البر في التمهید، 8/115، والعسقلاني في فتح الباري، 4/254، الرقم: 1908، وفي الدرایة، 1/203، الرقم: 257، والسیوطي في تنویر الحوالک، 1/108، الرقم: 263، والذہبي في میزان الاعتدال، 1/170، والصنعاني في سبل السلام، 2/10، والمزي في تہذیب الکمال، 2/149، والخطیب البغدادی في موضع أوهام الجمع والتفریق، 1/387، والزیلعي في نصب الرایة، 2/153، والزرقاني في شرحه علی الموطأ، 1/342، 351، والعظیم آبادي في عون المعبود، 4/153، والمبارکفوي في تحفة الأحوذي، 3/445.
’’حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک میں وتر کے علاوہ بیس رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ، ابن حمید، بیہقی اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ طبرانی کے ہیں۔
12. عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضی الله عنه أَمَرَ رَجُـلًا یُصَلِّي بِهِمْ عِشْرِیْنَ رَکْعَةً. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَیْبَةَ. إِسْنَادُهُ مُرْسَلٌ قَوِيٌّ.
أخرجه ابن أبي شیبة في المصنف، 2/163، الرقم: 7682، وابن عبد البر في الاستذکار، 2/68، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 3/445.
’’حضرت یحییٰ بن سعید بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھائے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ اس کی سند مرسل قوی ہے۔
13. عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیْدَ رضی الله عنه قَالَ: کُنَّا نَنْصَرِفُ مِنَ الْقِیَامِ عَلَی عَهْدِ عُمَرَ رضی الله عنه وَقَدْ دَنَا فُرُوْعُ الْفَجْرِ، وَکَانَ الْقِیَامُ عَلَی عَهْدِ عُمَرَ رضی الله عنه ثَـلَاثَةً وَعِشْرِیْنَ رَکْعَةً. رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ.
أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 4/261، الرقم: 7733، وابن عبد البر في التمہید، 8/114، وأیضا في الاستذکار، 2/69، وابن حزم في الإحکام، 2/230.
’’حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں فجر کے قریب تراویح سے فارغ ہوتے تھے اور عہدِ عمر رضی اللہ عنہ میں (بشمول وتر) تئیس رکعات تراویح پڑھنے کا معمول تھا۔‘‘ اس حدیث کو امام عبدالرزاق نے روایت کیا ہے۔
14. عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیْدَ رضی الله عنه قَالَ: کَانُوْا یَقُوْمُوْنَ عَلَی عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِیْنَ رَکْعَةً، قَالَ: وَکَانُوْا یَقْرَؤُوْنَ بِالْمِئَیْنِ وَکَانُوا یَتَوَکَّؤُنَ عَلَی عَصِیِّهِمْ فِي عَهْدِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضی الله عنه مِنْ شِدَّةِ الْقِیَامِ. رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ وَالْفَرْیَابِيُّ وَابْنُ الْجَعْدِ.
إِسْنَادُهُ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ کَمَا قَالَ الْفَرْیَابِيُّ.
أخرجه البیهقي في السنن الکبری، 2/496، الرقم: 4393، وابن الحسن الفریابي في کتاب الصیام، 1/131، الرقم: 176، وابن الجعد في المسند، 1/413، الرقم: 2825، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 3/447.
’’حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہد میں صحابہ کرام ث ماہ رمضان میں بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے اور ان میں سو آیات والی سورتیں پڑھتے تھے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں شدتِ قیام کی وجہ سے وہ اپنی لاٹھیوں سے ٹیک لگاتے تھے۔‘‘
اِس حدیث کو امام بیہقی، فریابی اور ابن جعد نے روایت کیا۔ اور بقول امام فریابی اس کی سند اور رجال ثقہ ہیں۔
15. عَنِ ابْنِ أَبِي الْحَسَنَائِ أَنَّ عَلِیّاً رضی الله عنه أَمَرَ رَجُلًا یُصَلِّي بِهِمْ فِي رَمَضَانَ عِشْرِیْنَ رَکْعَةً. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَیْبَةَ وَالْبَیْهَقِيُّ.
أخرجه ابن أبي شیبة في المصنف، 2/163، الرقم: 7681، والبیهقي في السنن الکبری، 2/497، الرقم: 4397، وابن عبد البر في التمهید، 8/115، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 3/444، وابن قدامة في المغني، 1/456.
’’ابنِ ابو الحسناء بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو رمضان میں لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھانے کا حکم دیا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
16. عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ: دَعَا الْقُرَّائَ فِي رَمَضَانَ فَأَمَرَ مِنْهُمْ رَجُلًا یُصَلِّي بِالنَّاسِ عِشْرِیْنَ رَکْعَةً، قَالَ: وَکَانَ عَلِيٌّ رضی الله عنه یُوْتِرُ بِهِمْ. وَرُوِیَ ذَلِکَ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه.
رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ.
أخرجه البیهقي في السنن الکبری، 2/496، الرقم: 4396، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 3/444.
’’ابو عبد الرحمن سلمی سے مروی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رمضان المبارک میں قاریوں کو بلایا اور ان میں سے ایک شخص کو بیس رکعت تراویح پڑھانے کا حکم دیا اور خود حضرت علی رضی اللہ عنہ انہیں وتر پڑھاتے تھے۔ یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دوسری سند سے بھی مروی ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
17. وفي روایة: أَنَّ عَلِیًّا رضی الله عنه کَانَ یَؤُمُّهُمْ بِعِشْرِیْنَ رَکْعَةً وَیُوْتِرُ بِثَـلَاثٍ. رَوَاهُ ابْنُ الإِسْمَاعِیْلِ الصَّنْعَانِيُّ وَقَالَ: فِیْهِ قُوَّةٌ.
أخرجه الصنعاني في سبل السلام، 2/10.
’’ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ انہیں بیس رکعت تراویح اور تین وتر پڑھایا کرتے تھے۔‘‘ اس کو ابن اسماعیل صنعانی نے روایت کیا اور کہا کہ اس کی سند قوی ہے۔
18. عَنْ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بْنِ رَفِیْعٍ قَالَ: کَانَ أُبَيُّ بْنُ کَعْبٍ یُصَلِّي بِالنَّاسِ فِي رَمَضَانَ بِالْمَدِیْنَةِ عِشْرِیْنَ رَکْعَةً وَ یُوْتِرُ بِثَـلَاثٍ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَیْبَةَ. إِسْنَادُهُ مُرْسَلٌ قَوِيٌّ.
أخرجه ابن أبي شیبة في المصنف، 2/163، الرقم: 7684، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 3/445.
’’عبد العزیز بن رفیع نے بیان کیا کہ حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں لوگوں کو رمضان المبارک میں بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھاتے تھے۔‘‘
اِسے ابن ابی شیبہ نے روایت کیا، اس کی سند مرسل قوی ہے۔
19. عَنْ شُتَیْرِ بْنِ شَکَلٍ وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ عَلِيٍّ ص: أَنَّهُ کَانَ یَؤُمُّهُمْ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِیْنَ رَکْعَةً وَیُوْتِرُ بِثَـلَاثٍ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَیْبَةَ وَالْبَیْهَقِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ، وَقَالَ: وَفِي ذَلِکَ قُوَّةٌ.
أخرجه ابن أبي شیبة في المصنف، 2/163، الرقم: 7680، والبیهقي في السنن الکبری، 2/496، الرقم: 4395.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے حضرت شُتیر بن شکل سے روایت ہے کہ وہ لوگوں کو رمضان میں بیس رکعت تراویح اور تین وتر پڑھاتے تھے۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے، مذکورہ الفاظ بیہقی کے ہیں، اور آپ نے کہا کہ اس حدیث کی سند میں قوت ہے۔
20. عَنْ أَبِي الْخَصِیْبِ، قَالَ: کَانَ یَؤُمُّنَا سُوَیْدُ بْنُ غَفْلَةَ فِي رَمَضَانَ فَیُصَلِّي خَمْسَ تَرْوِیْحَاتٍ عِشْرِیْنَ رَکْعَةً.
رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ وَإسْنَادُهُ حَسَنٌ، وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکُنَی.
أخرجه البیهقي في السنن الکبری، 2/446، الرقم: 4395، والبخاري في الکنی، 1/28، الرقم: 234.
’’ابو خصیب نے بیان کیا کہ ہمیں حضرت سوید بن غفلہ ماهِ رمضان میں نمازِ تراویح پانچ ترویحوں یعنی بیس رکعات میں پڑھاتے تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے، اور اس کی سند حسن ہے، اور امام بخاری نے ’’الکنی‘‘ میں روایت کیا ہے۔
21. عَنْ نَافِعِ بْنِ عُمَرَ رضي ﷲ عنہما قَالَ: کَانَ ابْنُ أَبِي مُلَیْکَةَ یُصَلِّي بِنَا فِي رَمَضَانَ عِشْرِیْنَ رَکْعَةً. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَیْبَةَ، وَإِسْنَادُهُ صَحِیْحٌ.
أخرجه ابن أبي شیبة في المصنف، 2/163، الرقم: 7683.
’’حضرت نافع بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت ابنِ ابی ملیکہ ہمیں رمضان المبارک میں بیس رکعت تراویح پڑھایا کرتے تھے۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے، اور اس کی سند صحیح ہے۔
22. عَنِ الْحَارِثِ أَنَّهُ کَانَ یَؤُمُّ النَّاسَ فِي رَمَضَانَ بِاللَّیْلِ بِعِشْرِیْنَ رَکْعَةً وَیُوْتِرُ بِثَـلَاثٍ وَیَقْنُتُ قَبْلَ الرُّکُوْعِ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَیْبَةَ.
أخرجه ابن أًبي شیبة في المصنف، 2/163، الرقم: 7685.
’’حضرت حارث سے مروی ہے کہ وہ لوگوں کو رمضان المبارک کی راتوں میں (نماز تراویح) میں بیس رکعتیں اور تین وتر پڑھایا کرتے تھے اور رکوع سے پہلے دعا قنوت پڑھتے تھے۔‘‘ اِسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے، اور اس کی سند صحیح ہے۔
23. عَنْ أَبِي الْبُخْتَرِيِّ أَنَّهُ کَانَ یُصَلِّي خَمْسَ تَرْوِیْحَاتٍ فِي رَمَضَانَ وَیُوْتِرُ بِثَـلَاثٍ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَیْبَةَ، إِسْنَادُهُ صَحِیْحٌ.
أؤخرجه ابن أبي شیبة في المصنف، 2/163، الرقم: 7686.
’’حضرت ابو البُخْتَری سے روایت ہے کہ وہ رمضان المبارک میں پانچ ترویحات (یعنی بیس رکعتیں) اور تین وتر پڑھا کرتے تھے۔‘‘
اِسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے، اور اس کی سند حسن ہے۔
24. عَنْ عَطَاءٍ قَالَ: أَدْرَکْتُ النَّاسَ وَهُمْ یُصَلُّوْنَ ثَـلَاثًا وَعِشْرِیْنَ رَکْعَةً بِالْوِتْرِ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَیْبَةَ، وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
أخرجه ابن أبي شیبة في المصنف، 2/163، الرقم: 7688.
’’حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ بشمول وتر 23 رکعت تراویح پڑھتے تھے۔‘‘
اسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے، اور اس کی سند حسن ہے۔
25. عَنْ سَعِیْدِ بْنِ عُبَیْدٍ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ رَبِیْعَةَ کَانَ یُصَلِّي بِهِمْ فِي رَمَضَانَ خَمْسَ تَرْوِیْحَاتٍ وَ یُوْتِرُ بِثَـلَاثٍ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَیْبَةَ، وَإِسْنَادُهُ صَحِیْحٌ.
أخرجه ابن أبي شیبة في المصنف، 2/163، الرقم: 7690.
’’حضرت سعید بن عبید سے مروی ہے کہ حضرت علی بن ربیعہ انہیں رمضان المبارک میں پانچ ترویحات (یعنی بیس رکعت) نماز تراویح اور تین وتر پڑھاتے تھے۔‘‘
اِس کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے، اور اس کی سند صحیح ہے۔
26. عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضی الله عنه جَمَعَ النَّاسَ عَلَی أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ فِي قِیَامِ رَمَضَانَ فَکَانَ یُصَلِّي بِهِمْ عِشْرِیْنَ رَکْعَةً.
رَوَاهُ الذَّهَبِيُّ وَالْعَسْقَـلَانِيُّ وَابْنُ قُدَامَةَ.
أخرجه الذهبي في سیر أعلام النبلائ، 1/400، والعسقلاني في تلخیص الحبیر، 2/21، الرقم: 540، وابن قدامة في المغني، 1/456، ومالک في المدونة الکبری، 1/222، والسیوطي في تنویر الحوالک، 1/104، والزرقاني في شرحه علی الموطأ، 1/338، وابن تیمیة في ممجموع فتاوی، 2/401.
’’حضرت حسن (بصری) رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو حضرت أبی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں قیام رمضان کے لئے اکٹھا کیا تو وہ انہیں بیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے۔‘‘
اس کو امام ذہبی، عسقلانی اور ابن قدامہ نے روایت کیا ہے۔
27. وقال ابن رشد القرطبي: فَاخْتَارَ مَالِکٌ فِي أَحَدِ قَوْلَیْهِ وَأَبُوحَنِیْفَةَ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَدَاوُدُ الْقِیَامَ بِعِشْرِیْنَ رَکْعَةً سِوَی الْوِتْرِ … أَنَّ مَالِکًا رَوَی عَنْ یَزِیْدَ بْنِ رُوْمَانَ قَالَ: کَانَ النَّاسُ یَقُوْمُوْنَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه بِثَـلَاثٍ وَعِشْرِیْنَ رَکْعَةً.
أخرجه ابن رشد في بدایة المجتهد، 1/152.
’’ابن رشد قرطبی نے فرمایا کہ امام مالک رضی اللہ عنہ نے اپنے دو اقوال میں سے ایک میں اور امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام احمد اور امام داود ظاہری ث نے بیس ترایح کا قیام پسند کیا ہے اور تین وتر اس کے علاوہ ہیں.... اسی طرح امام مالک رضی اللہ عنہ نے یزید بن رومان سے روایت بیان کی فرمایا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ تئیس (23) رکعت (تراویح بشمول تین وتر) کا قیام کیا کرتے تھے۔‘‘
28. وقال ابن تیمیة في ’’الفتاوی‘‘: ثَبَتَ أَنَّ أُبَيَّ بْنَ کَعْبٍ کَانَ یَقُوْمُ بِالنَّاسِ عِشْرِیْنَ رَکْعَةً فِي رَمَضَانَ وَیُوتِرُ بِثَـلَاثٍ فَرَأَی کَثِیْرًا مِنَ الْعُلَمَائِ أَنَّ ذَلِکَ هُوَ السُّنَّةُ ِلأَنَّهُ قَامَ بَیْنَ الْمُهَاجِرِیْنَ وَالْأَنْصَارِ وَلَمْ یُنْکِرْهُ مُنْکِرٌ.
أخرجه ابن تیمیة في مجموع الفتاوی، 1/191، وإسماعیل بن محمد الأنصاري في تصحیح حدیث صلاة التراویح عشرین رکعة، 1/35.
’’علامہ ابنِ تیمیہ نے ’’اپنے فتاویٰ‘‘ (مجموعہ فتاویٰ) میں کہا کہ ثابت ہوا کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رمضان المبارک میں لوگوں کو بیس رکعت تراویح اور تین وتر پڑھاتے تھے تو اکثر اہلِ علم نے اسے سنت مانا ہے۔ اس لئے کہ وہ مہاجرین اور انصار (تمام) صحابہ کرام کی موجودگی میں قیام کرتے (بیس رکعت پڑھاتے) اور ان صحابہ میں سے کسی نے بھی انہیں نہیں روکا۔‘‘
29. وَفِي مَجْمُوْعَةِ الْفَتَاوَی النَّجْدِیَّةِ: أَنَّ عَبْدَ ﷲِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْوَهَابِ ذَکَرَ فِي جَوَابِهِ عَنْ عَدَدِ التَّرَاوِیْحِ أَنَّ عُمَرَ رضی الله عنه لَمَّا جَمَعَ النَّاسَ عَلَی أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ، کَانَتْ صَلَاتُهُمْ عِشْرِیْنَ رَکْعَةً.
أخرجه إسماعیل بن محمد الأنصاري في تصحیح حدیث صلاة التراویح عشرین رکعة، 1/35.
’’مجموعہ الفتاوی النجدیہ میں ہے کہ عبد ﷲ بن محمد بن عبدالوہاب نے تعدادِ رکعات تراویح سے متعلق سوال کے جواب میں بیان کیا کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز تراویح کے لئے جمع کیا تو وہ انہیں بیس رکعت پڑھاتے تھے۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved