میثاق مدینہ کا آئینی تجزیہ

پیش لفظ

انسانی تہذیب و تمدن کی تاریخ میں اسلام کو مرکزی اور محوری مقام حاصل ہے۔ ھبوط آدم علیہ السلام سے تا ھنوز نسل انسانی نے تہذیب و تمدن کے ارتقاء کی بے شمار منزلوں کو طے کیا۔ اس سفر میں جو پیش رفت اسلام کے واسطے سے ہوئی وہ کسی دوسری مذہبی، علمی، فکری یا اصلاحی کاوش کے نتیجے میں نہیں ہوئی۔ اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے جو فطرت کے عین مطابق ہے۔ اسلام کے فطرت کے عین مطابق ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ نسل انسانی کی بقا اسلام کے اصول و ضوابط کی اتباع میں ہے اور ان اصولوں سے انحراف خودکشی کے مترادف ہے۔ تاریخ انسانی گواہ ہے کہ جس ملک و ملت نے بھی اسلام کا اقرار کرتے ہوئے یا بغیر اعلانیہ اقرار کے، اسلام کے آفاقی قوانین کی پابندی کی ہے ترقی و عروج اس کا مقدر رہا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ حسنہ وہ واحد معیار ہے جو اسلام کے آفاقی اصولوں کی عملی تعبیر و تشریح ہے۔ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر گوشہ نسل انسانی کے لئے اپنے اندر رہنمائی کے ان گنت پہلو رکھتا ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تحریک اسلام کے فروغ کے لئے دعوتی و تبلیغی، عسکری و جہادی، آئینی و دستوری اور سیاسی و معاہداتی مناہج کو اختیار فرمایا اور ان تمام تر اقدامات میں آپ کی جدوجہد کی غایت جو احقاق حق، ابطال باطل اور غلبہ دین حق سے عبارت ہے موجود رہی۔ میثاق مدینہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی و معاہداتی اور آئینی و دستوری جدوجہد میں ایک نمایاں اور اساسی سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ میثاق مدینہ نے جہاں ایک طرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت و تبلیغ کی مساعی کو ایک نئے مرحلے میں داخل کر دیا وہاں ابدالآباد تک عالمی منظرنامے میں بھی اسلام کو ایک نمایاں اور بے مثال مقام دے دیا۔ میثاق مدینہ کو کائنات انسانی کا سب سے پہلا تحریری دستور ہونے کا مقام حاصل ہے۔ صحرائے عرب کے امی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت دنیا کو پہلے جامع تحریری دستور سے متعارف کروایا جب ابھی دنیا کسی آئین یا دستور سے ناآشنا تھی۔ جدید مغربی دنیا کا آئینی و دستوری سفر 1215ء میں شروع ہوا جب شاہ انگلستان King John نے محضر کبیر (Magna Carta) پر دستخط کئے جبکہ اس سے 593 سال قبل 622ء میں ریاست مدینہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ایک جامع تحریری دستور دیا جا چکا تھا۔ مگر یہ امر نہ صرف باعث حیرت بلکہ باعث صد تاسف بھی ہے کہ میثاق مدینہ کی اس تاریخی اہمیت کے اعتراف میں اکثر اہل مغرب نے ہمیشہ تنگ نظری، تعصب اور علمی بخل کا مظاہرہ کیا۔ جب بھی عالمی تہذیب و تمدن کے ارتقاء کا تذکرہ ہوا، اہل مغرب نے اسلام کے درخشاں دور اور اس کے کارناموں کو درخور اعتناء نہیں سمجھا مثلاً برطانیہ سے شائع ہونے والے ’’لائبریری آف ماڈرن نالج،، نے دنیا کے سیاسی وآئینی ارتقاء کو بیان کرتے ہوئے لکھا:

"The world's first unified state of which we know was established in Egypt around 3200 B.C. . . . . . when the two kingdoms of upper and lower Egypt were united. A centralised and bureaucratic empire eventually developed. Other empires followed, notably those of Persia, China and Rome all of which covered vast areas of the world. But the state as it exists today is based on a model that evolved in Western Europe after the fall of the Roman Empire in the 5th Century A.D."

’’دنیا کی پہلی ریاست جسے ہم جانتے ہیں 3200 ق م میں مصر میں قائم ہوئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب مصر کی دونوں مملکتیں متحد ہوئیں۔ اس طرح ایک مرکز اور باقاعدہ نظام کی حامل سلطنت وجود میں آئی۔ اس کے بعد جو سلطنتیں وجود میں آئیں ان میں اہم ایران، چین اور روم ہیں جو دنیا کے بڑے حصے پر محیط تھیں۔ لیکن جو ریاست آج موجود ہے اس کا وجود اس ریاستی معیار پر مبنی ہے جو پانچویں صدی عیسوی میں سلطنت روما کے زوال کے بعد مغربی یورپ میں ارتقاء پذیر ہوئی۔،،

اس کے بعد یورپ کے جاگیرداری نظام اور Dark Ages کا تذکرہ کرنے کے بعد تاریخ اسلام کے صدیوں پر محیط دور کو نظرانداز کرتے ہوئے مصنف لکھتا ہے:

The next stage in the evolution of the state as we know it today was the development of the territorial states a defined area of land with a single ruler ..... By the end of the 17th century, this form of state was common all over the Europe.

(Reader's Digest Library of Modern Knowledge, Vol.2, Ed.1979)

’’ریاست کے ارتقاء کی اگلی منزل، جیسا کہ ہم آج جانتے ہیں، علاقائی ریاستوں کا وجود میں آنا تھا یعنی ایک مقررہ علاقہ پر مشتمل ریاست جس کا ایک حکمران ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سترھویں صدی کے اختتام تک اس طرح کی ریاستوں کا وجود پورے یورپ میں عام تھا۔،،

یعنی دنیا کے سیاسی و آئینی ارتقاء کے سارے سفر میں مغربی مصنفین کو اسلام کا کوئی کردار نظر نہیں آتا۔ حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ یورپ نے اپنا موجودہ آئینی و سیاسی سفر صدیوں میں طے کیا۔ برطانیہ میں 1215ء میں محضر کبیر (Magna Carta) کے بعد 16 دسمبر 1689ء میں Bill of Rights، 01۔ 1700ء میں The Act of Settlement اور 1911ء میں The Parliament Act کو اختیار کیا گیا۔ امریکہ کا Constitutional Convention 1787ء میں ہوا اور فرانس میں قومی اسمبلی نے آئین کی منظوری 1791ء میں دی۔

اگرچہ مغرب نے انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے دستوری سفر 1215ء میں شروع کیا مگر عام آدمی تک اس کے اثرات پہنچنے میں صدیاں بیت گئیں اس کا ثبوت اس امر سے ملتا ہے کہ ریاستی حکام کے خلاف عوامی شکایات کا ازالہ کرنے کے لئے محتسب (Ombudsman) کا تقرر یورپ میں پہلی مرتبہ سویڈن میں 1809ء میں کیا گیا جو ایک عرصہ تک گمنام اور رسمی عہدہ رہا۔ بہت بعد میں دیگر یورپی ممالک نے اسے اختیار کیا جبکہ 1ھ میں میثاق مدینہ سے شروع ہونے والا اسلام کا سیاسی و آئینی سفر 10 سال کے کم عرصے میں اپنے منتہائے کمال کو پہنچ گیا۔ جب 10ھ میں حجۃ الوداع کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا جو آج بھی نسل انسانی کے لئے ایک آفاقی اور ابدی ورلڈ آرڈر کی حیثیت رکھتا ہے۔ پھر اس کے تسلسل اور اثر آفرینی کو خلفائے راشدین کے دور میں آگے بڑھایا گیا۔ جب ایک عام شہری کو بھی اتنی جرات اور اختیار حاصل تھا کہ وہ کسی بھی معاملہ پر خلیفہ وقت کا احتساب کر سکے۔

آج ترقی یافتہ ممالک کے دساتیر میں امریکہ کے دستور کو 7000 الفاظ کا مختصر ترین مثالی دستور قرار دیا جاتا ہے مگر 1400 سال قبل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیا ہوا 730 الفاظ پر مشتمل میثاق مدینہ اس سے کہیں زیادہ جامع، موثر اور مکمل دستور ہے جس میں تمام آئینی طبقات کے حقوق کا تحفظ کیا گیا، مختلف ریاستی وظائف کی ادائیگی کا طریق کار طے کر دیا گیا۔ اقلیتوں سمیت تمام افراد و طبقات معاشرہ کے حقوق کو تحفظ دیا گیا اور ایک اسلامی فلاحی ریاست کی حقیقی بنیادوں کو واضح کر دیا گیا۔

مفکر اسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی زیرنظر تصنیف میثاق مدینہ کی اسی تاریخی، سیاسی اور آئینی و دستوری اہمیت کو بیان کرتی ہے کہ میثاق مدینہ نہ صرف پہلی اسلامی ریاست کا اساسی دستور ہے بلکہ عالمی تہذیب و تمدن کی تاریخ میں بھی ایک نمایاں اور عدیم النظیر پیش رفت ہے اور اس میں طے کردہ بنیادی اصولوں کی روشنی میں ایک مثالی اسلامی مملکت کی تشکیل کے ساتھ ساتھ آج بھی دنیا کو امن، بقائے باہمی اور فلاح کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے۔

طاہر حمید تنولی
سینئر ریسرچ سکالر
ڈاکٹر فرید الدین اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ
لاہور مارچ 2000ء

 

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved