تذکرے اور صحبتیں

تذکرۂ صالحین امت

سیدنا امام زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہم

آپ کا نام علی، ابو الحسن کنیت اور زین العابدین لقب تھا، آپ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے فرزند اصغر اور ریاض نبوت کے گل تر تھے۔

آپ فرماتے تھے کہ مجھے اس مغرور اور فخر کرنے والے پر تعجب ہوتا یہ جو کل حقیقت میں ایک نطفہ تھا، اور کل مردار ہو جائے گا، آپ فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ خوف سے خدا کی عبادت کرتے ہیں یہ غلاموں کی عبادت ہے، کچھ (جنت میں جانے کی) طمع میں عبادت کرتے ہیں، یہ تاجروں کی عبادت ہے، کچھ خالص رضاء الٰہی میں عبادت کرتے ہیں، یہی آزاد لوگوں کی عبادت ہے۔

آپ کا دل خشیت الٰہی سے لبریز رہتا تھا اور اکثر آپ خوف الٰہی سے بے ہوش ہو جایا کرتے تھے، ابن عیینہ کا بیان ہے کہ حضرت امام علی بن حسین رضی اللہ عنہما حج کے لئے احرام باندھنے کے بعد جب سواری پر بیٹھے تو خوف سے ان کا رنگ زرد پڑ گیا اور ایسا لرزہ طاری ہوا کہ زبان سے لبیک تک نہ نکل سکا، لوگوں نے کہا، آپ لبیک کیوں نہیں کہتے، فرمایا ڈر لگتا ہے ایسا نہ ہو کہ میں لبیک کہوں اور ادھر کہیں سے جواب ملے لالبیک، تیری حاضری قبول نہیں، لوگوں نے کہا مگر لبیک کہنا تو ضروری ہے، لوگوں کے اصرار پر کہا، مگر جیسے ہی زبان سے لبیک نکلا بیہوش ہو کر سواری سے گر پڑے اور حج کے دن تک یہی کیفیت طاری رہی۔

1۔ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، 5 : 336
2۔ عسقلانی، تہذیب التہذیب، 7 : 306

آپ ہر روز ایک ہزار رکعت نوافل ادا کرتے تھے، اور وفات تک اس معمول میں فرق نہ آیا، اس عبادت کی وجہ سے زین العابدین لقب سے ملقب ہوئے، قیام لیل میں سفر و حضر کی کسی بھی حالت میں ناغہ نہ ہوتا تھا۔

اخلاص فی العبادت اور خشیت الٰہی کا یہ حال تھا کہ حضوری کے وقت سارے بدن میں لرزہ طاری ہو جاتا تھا، عبد اللہ بن سلیمان کا بیان ہے کہ جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو سارے بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا لوگوں نے پوچھا آپ کو یہ کیا ہو جاتا ہے، فرمایا تم لوگ کیا جانو؟ میں کس کے حضور میں کھڑا ہوتا ہوں اور کس سے سرگوشی کرتا ہوں۔

محویت کا یہ عالم تھا کہ نماز کی حالت میں کچھ بھی ہو جائے آپ کو خبر نہ ہوتی تھی ایک مرتبہ آپ سجدہ میں تھے کہ کہیں پاس ہی آگ لگ گئی لوگوں نے آپ کو بھی پکارا، اے ابن رسول! آگ لگ گئی اے ابن رسول! آگ لگ گئی لیکن آپ نے سجدہ سے سر نہ اٹھایا، تا آنکہ آگ بجھ گئی، لوگوں نے پوچھا کہ آپ کو آگ کی جانب اس قدر بے پرواہ کس چیز نے کر دیا تھا فرمایا دوسری آگ نے جو آتش دوزخ ہے۔

انفاق فی سبیل اللہ فیاضی اور دریا دلی آپ کا خاص وصف تھا، آپ خدا کی راہ میں بے دریغ دولت لٹاتے تھے، فقراء اور اہل حاجت کی دستگیری کے لئے ہمیشہ آپ کا دست کرم دراز رہتا تھا، مدینہ کے معلوم نہیں کتنے غریب گھرانے آپ کی ذات سے پرورش پاتے تھے اور کسی کو خبر نہ ہونے پائی، آپ کی وفات کے بعد معلوم ہوا کہ خفیہ طور پر مستقل سو گھرانوں کی کفالت کیا کرتے تھے۔

لوگوں سے چھپانے کے لئے بہ نفس نفیس خود راتوں کو جا کر ان کے گھروں پر صدقات پہنچا آتے تھے، مدینہ میں بہت سے لوگ ایسے تھے جن کی معاش کا کوئی ظاہری وسیلہ نہ ہوتا تھا، آپ کی وفات کے بعد معلوم ہوا کہ آپ رات کی تاریکی میں خود جا کر ان کے گھروں پر دے آتے تھے۔

غلہ کے بڑے بڑے بورے اپنی پیٹھ پر لاد کر غریبوں کے گھر پہنچاتے تھے۔ وفات کے بعد جب غسل دیا جانے لگا تو جسم مبارک پر نیل کے داغ نظر آئے، تحقیق سے معلوم ہوا کہ آٹے کی بوریوں کے بوجھ کے داغ ہیں، جنہیں آپ عمر بھر راتوں کو لاد کر غرباء کے گھر پہنچاتے رہے۔ آپ کی وفات کے بعد اہل مدینہ کہتے تھے کہ خفیہ خیرات حضرت زین العابدین کے دم سے تھی، سائلین کا بڑا احترام کرتے تھے، جب کوئی سائل آتا تو فرماتے میرے توشہ کو آخرت کی طرف لے جانے والے مرحبا پھر اس کا استقبال کرتے، سائل کو خود اٹھ کر دیتے تھے اور فرماتے تھے، صدقات سائل کے ہاتھوں میں جانے سے پہلے خدا کے ہاتھ میں جاتے ہیں۔

عمر میں دو مرتبہ اپنا کل مال و متاع آدھا آدھا خدا کی راہ میں دے دیا۔ پچاس پچاس دینار کی قیمت کا لباس صرف ایک موسم میں پہن کر فروخت کرتے اور اس کی قیمت خیرات کر دیتے تھے۔

کسی نے آپ سے دریافت کیا کہ کون شخص دنیا و آخرت میں سب سے زیادہ نیک بخت اور سعید ہے؟ تو آپ نے فرمایا وہ شخص کہ جب راضی ہو تو اس کی رضا اسے باطل پر آمادہ نہ کرے اور جب ناراض ہو تو اس کی ناراضگی اسے حق سے نہ نکالے۔

امام زین العابدین رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ ایک رات حضرت یحییٰ بن زکریا علیہ السلام جو کہ روٹی سے سیر ہو کر سوگئے اور معمول شب قضاء ہوگیا اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی کہ اے یحییٰ! اگر تو جنت الفردوس کی طرف ایک مرتبہ بھی جھانک لے تو تمہارا جسم اس کے شوق میں گھل جائے، اور تو اتنا روئے کہ آنسو ختم ہو جانے کے بعد تیری آنکھوں سے پیپ بہنے لگے اور تو اس کی طلب میں اتنی ریاضت و مشقت کرے کہ ٹاٹ کا لباس بھی چھوڑ کر لوہا پہن لے۔

سیدنا امام ابو محمد جعفر صادق رضی اللہ عنہ

آپ سیدنا محمد باقر رضی اللہ عنہ کے لخت جگر اور حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کے پوتے ہیں۔ ظاہری اور باطنی علوم اور اسرار و معارف میں سب کے امام ہیں۔

حضرت سیدنا امام ابو محمد جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے حضرت داؤد طائی رحمۃ اللہ علیہ کی اس درخواست پر کہ حضرت مجھے کوئی نصیحت کیجئے، ارشاد فرمایا کہ ’’مجھے تو یہی خوف دامن گیر ہے کہ کہیں قیامت کے دن میرے جد امجد حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری گرفت نہ فرما لیں اور مجھ سے یہ نہ پوچھ لیں کہ خود تونے میری اتباع کیوں نہیں کی، یہ معاملہ نسب سے نہیں اللہ کی بندگی سے متعلق ہے، یہ سن کر حضرت داؤد طائی زار و قطار رونے لگے اور کہنے لگے کہ جن کا خمیر ہی نبوت کے پانی سے تیار ہوا ہے جب وہ لوگ اس حیرانی اور پریشانی میں ہیں تو داؤد طائی کس گنتی میں ہے۔

ایک روز آپ نے اپنے غلاموں سے فرمایا : آؤ تم سب مجھ سے عہد کرو کہ تم میں سے جس کی بھی بخشش ہو جائے وہ قیامت کے دن اللہ کے حضور میری بخشش کے لئے شفاعت کرے گا سب عرض کرنے لگے کہ اے ابن رسول آپ کے تو جد امجد خود ساری مخلوق کے شفیع ہیں، اس پر آپ نے فرمایا : میں اپنے اعمال سے شرمندہ ہوں، قیامت کے دن اپنے جد امجد کے روبرو کھڑا ہونے کی طاقت نہیں رکھتا۔

آپ نے فرمایا دل جب تک غیر اللہ کی محبت و رغبت سے کنارہ کش نہ ہو اسے معرفت الٰہی نصیب نہیں ہوسکتی جب دل غیر اللہ سے جدا ہو جاتا ہے تو اللہ سے واصل ہو جاتا ہے۔

ایک روز کسی نے آپ کو قیمتی لباس میں ملبوس دیکھ کر اعتراض کیا اور کہا اتنا قیمتی لباس اہل بیت نبوت کے لئے کیسے زیب دیتا ہے؟ آپ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی آستین کے اندر پھیرا اندر کا لباس ٹاٹ کی طرح کھردرا تھا آپ نے فرمایا وہ مخلوق کے لئے ہے اور یہ خالق کے لئے ہے۔

نصیحت

فرمایا کہ پانچ لوگوں کی صحبت سے تمہیں ہمیشہ بچنا چاہئے۔

ایک جھوٹا، کیونکہ اس کی صحبت تمہیں فریب میں مبتلا کر دے گی۔

دوسرا بیوقوف، وہ جس قدر بھی تمہاری بہتری چاہے گا اسی قدر نقصان پہچائے گا۔

تیسرا کنجوس، اس کی صحبت سے بہترین اور قیمتی وقت رائیاں چلا جائے گا۔

چوتھا بزدل، وہ ایک نوالے کی طمع میں بھی تم سے کنارہ کش ہو کر تمہیں کسی مصیبت میں مبتلا کر دے گا۔

حضرت شقیق بلخی نے آپ سے فتوت کی نسبت سوال کیا آپ نے فرمایا بتائیے آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں، انہوں نے کہا ہمیں اگر کچھ مل جائے تو شکر ادا کرتے ہیں اور نہ ملے تو صبر کرتے ہیں اس پر امام جعفر صادق نے فرمایا : مدینہ میں ہمارے ہاں کتوں کا یہی حال ہے ہماری حالت یہ ہے کہ مل جائے تو اوروں میں بانٹ دیتے ہیں اور نہ ملے تو شکر کرتے ہیں۔

حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ

آپ کو بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غائبانہ ’’خیر التابعین‘‘ کا لقب عطا ہوا تھا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا میری امت کے ایک شخص کی شفاعت سے قبیلہ مفر اور تمیم کے برابر لوگ جنت میں داخل ہوں گے صحابہ اکرام نے پوچھا یا رسول اللہ وہ شخص کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اویس قرنی۔

 ذہبی، میزان الاعتدال، 1 : 281

آپ امت محمدیہ میں عاشقوں کے سردار ہوئے ہیں، جن کے بارے میں منقول ہے کہ انہیں قیامت کے روز ستر ہزار فرشتوں کے جھرمٹ میں جنت میں داخل کیا جائے گا تاکہ حالت عشق میں ان کی خلوت نشینی اور مخلوق سے رو پوشی وہاں بھی برقرار رہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب آپ کا زہد دیکھا تو فرمانے لگے کہ کاش مجھ سے کوئی ایسی رو کھی روٹی کے ٹکڑے کے بدلے خلافت خرید لے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ جب ارشاد نبوت کی تکمیل میں آپ سے ملنے اور امت کے حق میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دعائے مغفرت کا پیغام پہنچانے کے لئے آئے تو اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر گفتگو شروع ہوئی، آپ نے فرمایا : جب مجھے جنگ احد میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دانت مبارک شہید ہونے کی خبر ملی تو میں نے اپنا ایک دانت توڑ ڈالا پھر خیال آیا شائد اس کی بجائے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی دوسرا دانت شہید ہوا ہو تو میں نے دوسرا دانت بھی توڑ ڈالا اس طرح ایک ایک کرکے سارے دانت توڑ چکا تو مجھے سکون نصیب ہوگیا۔ یہ بات سن کر دونوں صحابہ پر عجیب رقت طاری ہوگئی اور یہ اندازہ ہوگیا کہ یہ عاشق ظاہری دیدار اور صحبت سے کیوں محروم رکھا گیا ہے۔

آپ نے فرمایا سب سے بڑی وصیت یہ ہے کہ تم اللہ کے سوا کسی اور کو نہ پہچانو! اور جب تم جانتے ہو کہ اللہ تمہیں پہچانتا ہے تو بس اسی کو کافی سمجھو کہ وہ تمہیں پہچانتا ہے اور یہ آرزو ہرگز دل میں نہ رکھو کہ ’’اس کے سوا کوئی اور بھی تمہیں پہچانے‘‘

آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما سے ملاقات کے بعد کہا :

’’اب آپ واپس تشریف لے جائیں قیامت قریب ہے میں اس کے لئے کچھ تیار کر لوں۔ وہاں ایک ایسا دیدار نصیب ہونے والا ہے جس سے پھر کبھی محرومی نہیں ہوگی۔‘‘

کثرت گریہ اور رقت قلبی کا یہ عالم تھا کہ حضرت ہرم بن حیان رضی اللہ عنہ حاضر خدمت ہوئے اور کچھ نصیحت فرمانے کے لئے بہت اصرار کے بعد آمادہ ہوئے۔ آپ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطن الرجیم پڑھا اور چیخ مار کر گر پڑے اور جب ہوش میں آئے تو فرمانے لگے میرے رب کا ذکر بلند ہے، سب سے زیادہ حق اس کا قول ہے اور سب سے اچھا اسی کا کلام ہے پھر مفید کلمات فکر آخرت کی نسبت تلقین فرمائے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دوران ملاقات آپ کی ظاہری حالت انتہائی خستہ دیکھ کر خواہش کی کہ آپ ذرا اسی جگہ ٹھہریں میں آپ کے لئے کچھ سامان لے آتا ہوں آپ رضی اللہ عنہ نے جیب سے دو درہم نکال کر دکھائے اور کہا یہ اونٹ چرانے کا معاوضہ ہے، اگر آپ یہ ضمانت دے دیں کہ یہ درہم خرچ ہونے سے پہلے میری موت نہیں آئے گی تو پھر جو آپ کا جی چاہے لے آئیے ورنہ یہ دو درہم میرے لئے کافی ہیں۔ آپ نے فرمایا:

’’السلامۃ فی الوحدۃ‘‘ یعنی تنہائی میں سلامتی ہے۔ جس کا دل اللہ کے لئے مخلوق کی آفتوں سے محفوظ رہتا ہے، اور غیر کے اندیشہ وار فکر سے بھی بے نیاز رہتا ہے، جسے حقیقی خلوت گزینی اور تنہائی کی عادت نصیب ہوگئی وہ لوگوں کی مجلس میں بیٹھا ہو تب بھی اس کی تنہائی میں خلل واقع نہیں ہوتا اور جو مخلوق کے خیال اور محبت میں محو ہو وہ خلوت میں بھی فارغ نہیں ہوتا۔ اس لئے آپ نے فرمایا:

’’علیک بالقلب‘‘ اپنے دل کی حفاظت کر۔

جس دل کو محبت الٰہی کی دولت نصیب ہو جائے اسے انسانوں سے ملنا جلنا نقصان نہیں دیتا اور جو مخلوق کی محبت میں گرفتار ہو اس کے دل پر اللہ کی محبت کا گزر نہیں ہوتا۔ لوگو! ارشاد الٰہی ہے:

اَلَیْسَ الله بِکَافٍ عَبْدَہٗ۔

الزمر، 39 : 36

’’کیا اللہ اپنے بندۂ (مقرّب نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو کافی نہیں ہے؟‘‘

آپ عشق و محبت کا وہ پیکر اتم ہیں، جنہیں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قربت اور حضور دور رہ کر بھی میسر تھی، فرط محبت میں جنوں کا غلبہ ہوا تو ان کا یہ حال ہوگیا کہ دیوانوں کی طرح گلیوں میں ننگے پاؤں چلتے تھے، پریشان اور خستہ حال دیکھ کر لڑکے مجنوں سمجھتے اور پتھر مارتے جن سے خون بہنے لگتا ایک روز آپ رک گئے اور بچوں سے فرمانے لگے کہ ’’مجھے بڑے پتھروں سے نہیں بلکہ چھوٹے پتھروں سے مارا کرو‘‘ ان میں سے کسی نے کہا ’’اویس! کیا تیرے دعوی عشق کی یہی حقیقت ہے کہ بڑے پتھروں کی تکلیف سے خوفزدہ ہوگئے ہو؟ ‘‘ آپ یہ سن کر فرمانے لگے’’ میں بڑے پتھروں سے نہیں ڈرتا بلکہ بات یہ ہے کہ ان سے خون بہنے لگتا ہے اور وضو ٹوٹ جاتا ہے اور میں بے وضو یاد الٰہی نہیں کر سکتا۔‘‘

آپ ایک شب قیام میں گزارتے، دوسری شب رکوع میں اور تیسری سجدہ میں اکثر دن کا وقت بھی عبادت میں گزرتا، ہمیشہ روزہ رکھتے، جب افطار کے لئے کچھ میسر نہ ہوتا تو کھجور کی گٹھلیاں چن کر بیچتے اور ان کی قیمت سے چند لقموں کا سامان کر لیتے، کوفہ میں آپ ایک حلقہ ذکر میں شریک ہوتے تھے۔ اسیر بن جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اس حلقہ میں ہمارے دلوں پر سب سے زیادہ حضرت اویس رضی اللہ عنہ کے ذکر کا اثر ہوتا تھا۔

ایک پرانے اور شکستہ مکان میں رہائش رکھتے، اکثر وقت جنگل میں گزارتے اور لوگوں سے بہت کم ملاقات فرماتے تھے۔

حضرت امام حسن بصری رضی اللہ عنہ

آپ کی ولادت 21 ہجری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ یہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ ام المومنین حضرت ام سلمہ کی خادمہ تھیں۔ وفات بصرہ میں 110 ہجری میں ہوئی۔ آپ وہ خوش نصیب ہیں جنہیں ام المومنین حضرت ام سلمہ سے شرف رضاعت میسر آیا۔

تقریبًا تمام سلاسل طریقت آپ ہی کے ذریعے سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے ساتھ ملتے ہیں۔

آپ نے فرمایا صبر دو طرح کا ہے۔ ایک یہ کہ بلا اور مصیبت میں صبر کیا جائے دوسرے یہ کہ جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے ان سے صبر کیا جائے یہ صبر نہ دوزخ کے ڈر سے ہو اور نہ بہشت کی خواہش میں، بلکہ خالصتًا اللہ کے لئے ہو تو اخلاص کی صحت کی علامت یہی ہے۔

آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ہمیشہ بروں کی صحبت سے بچا کرو، وہ نیکوں کے بارے میں بدگمانی پیدا کرتی ہے۔

لوگوں نے آپ سے کثرت گریہ کا سبب دریافت کیا کہا کہ آپ تو خود صاحب تقویٰ ہیں، آپ نے فرمایا کہ اس دن کے خیال سے روتا ہوں جس دن اگر مجھ سے کوئی ایسی خطاء سرزد ہوگئی جس پر اللہ تعالیٰ مجھے فرما دے اے حسن! ہم تیری ساری طاعت و عبادت کو رد کرتے ہیں۔ جا ہماری بارگاہ میں تیری کوئی وقعت نہیں، اس خوف سے میرا دل لرزاں رہتا ہے۔

ایک مرتبہ رات کو اپنے گھر کی چھت پر اتنا روئے کہ آپ کے آنسوؤں کے چند قطرات پرنالے سے بہہ کر نیچے ٹپک پڑے اور باہر ایک گزرتے ہوئے شخص پر پڑے، اس نے پوچھا یہ پانی کیسا ہے؟ آپ نے آواز دی، فرمایا کپڑے دھو لینا ایک بڑے سیاہ کار کے ناپاک آنسو ہیں۔

آپ نے حضرت مالک بن دینار سے فرمایا کہ لوگوں کی تباہی مردہ دلی میں ہے اور مردہ دلی سے مراد دلوں کا دنیا کی طرف راغب ہو جانا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ صحابہ کرام کی عشق الٰہی میں یہ حالت ہو چکی تھی کہ تم انہیں دیکھ لیتے تو دیوانہ سمجھتے مگر تمہاری حالت یہ ہوچکی ہے کہ اگر وہ تمہیں دیکھ لیتے تو تمہیں مسلمان بھی تصوّر نہ کرتے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ وہ تو برق رفتار گھوڑوں پر سوار آئے اور چلے گئے اور ہم ایسے زخم خوردہ خچروں پر پیچھے رہ گئے جو زخمی کمر کی وجہ سے چلنے پر بھی قادر نہیں۔ کسی نے آپ سے سوال کیا کہ کتا بہتر ہے یا آپ؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا اگر عذاب سے چھٹکارا مل گیا تو میں بہتر ہوں ورنہ کتا۔ کسی نے آپ سے حال دریافت کیا تو فرمایا ان کا حال کیا پوچھتے ہو، جو دریا میں ہوں اور شکستہ کشتی کے تختے پر پانی میں تیر رہے ہوں۔ آپ کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے جو ہنسی مذاق میں مشغول تھے آپ فرمانے لگے حیرت ہے کہ تم ہنسی مذاق میں مگن ہو اور تمہیں اپنے حال کی خبر ہی نہیں مطلب یہ تھا کہ اگر ہمیں اپنے حال کی خبر ہو جائے تو رونے سے فرصت ہی نہ ملے۔

خشیت الٰہی اور رقت و گریہ میں ان کا اپنا یہ حال تھا کہ یونس بن عبید بیان کرتے ہیں کہ جب بھی حسن رضی اللہ عنہ آتے تھے تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ اپنے کسی قریبی عزیز کو دفن کرکے آ رہے ہیں۔

جب بیٹھتے تو یوں لگتا کہ ایسے قیدی ہیں جن کی گردن مارے جانے کا حکم ہو چکا ہو اور دوزخ کا ذکر سنتے یا کرتے تو یوں لگتا شائد دوزخ انہی کے لئے بنائی گئی ہے۔

حضرت اشعث بیان کرتے ہیں کہ جب ہم حضرت حسن بصری کی مجلس میں جاتے تو سب کچھ بھول جاتے، نہ کوئی دنیاوی خبر پوچھی جاتی نہ دی جاتی، صرف آخرت ہی کا ذکر رہتا تھا۔

امام شعبی علیہ الرحمہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز ہم نے مکہ معظمہ میں حسن بصری کی تنہائی دیکھی آپ اپنے کمرے میں تنہا قبلہ رخ ایک عجیب عالم میں رو رو کر کہہ رہے تھے ابن آدم! تو نیست تھا ہست کیا گیا تو نے مانگا، تجھ کو دیا گیا لیکن جب تیری باری آئی اور تجھ سے مانگا گیا تو نے انکار کر دیا۔ افسوس تونے کتنا برا کام کیا، یہ کہہ کر روتے روتے بیہوش ہو جاتے پھر ہوش میں آتے اور یہی کلمات دہراتے، امام شعبی فرماتے ہیں یہ رنگ دیکھ کر ہم واپس لوٹ آئے ہم سمجھ گئے کہ اس وقت شیخ کسی اور عالم میں ہیں۔

آپ فرماتے ہیں جو وسوسے دل میں پیدا ہوں اور نکل جائیں وہ شیطان کی طرف سے ہیں ان کے ازالے کے لئے ذکر الٰہی اور تلاوت سے مدد لینی چاہئے اور جو وسوسے دل میں پیدا ہو کر قائم ہو جائیں وہ نفس کی جانب سے ہیں ہمیں انہیں دور کرنے کے لئے کثرت نماز و روزہ اور ریاضت و مجاہدہ سے مدد لینی چاہئے۔

آپ نے فرمایا توبہ کرنے سے اللہ کے ساتھ قربت میں اضافہ ہو جاتا ہے لہٰذا توبہ میں کثرت کرنی چاہئے۔ کسی شخص نے اپنے دل کی سختی کی شکایت کی، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اسے ذکر و فکر کی جگہوں میں لے جایا کرو آپ نے فرمایا کہ میں نے کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جو دنیا کا طالب ہو مگر اس کو آخرت بھی ساتھ مل گئی ہو لیکن اس کے برعکس جو آخرت چاہتا ہے اسے دنیا بھی خود مل جاتی ہے۔

حضرت حسن بصری اکثر اپنے نفس پر عتاب کرتے اور اسے جھڑک کر کہتے کہ تو باتیں تو پرہیز گاروں، طاعت گزاروں اور عابدوں جیسی کرتا ہے مگر تیرے افعال فاسقوں منافقوں اور ریا کاروں جیسے ہیں۔

آپ فرماتے ہیں کہ علماء کی سزا یہ ہے کہ ان کے دل مردہ ہو جاتے ہیں اور دل کی موت عمل آخرت کے ذریعے دنیا طلب کرنے سے ہوتی ہے کہ وہ اس کے ذریعے اہل دنیا کا تقرب چاہتے ہیں۔

آپ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن سب سے بڑھ کر بد نصیب وہ عالم ہوگا جس کے علم پر لوگ تو عمل کریں گے مگر وہ خود اس پر عامل نہ ہوگا۔

آپ فرماتے ہیں کہ اس زمانے میں تو عالم کو حلال سے بھی پیٹ بھر کر کھانا برا ہے۔ پھر جو حرام سے سیر ہو کر کھاتا ہے اس کا کیا حال ہو گا۔

آپ کی مجلس، مجلس ذکر ہوتی اور اپنے احباب اور مریدین کے ساتھ خلوت نشینی فرماتے، آیات قرآنی سن کر شدّت غم سے زار و قطار روتے، لب ہنسی سے ناآشنا رہتے، آپ نے فرمایا محب ہمیشہ مست و بے خود ہوتا ہے اسے دیدار محبوب کے سوا کسی چیز سے افاقہ نہیں ہوتا۔

آپ نے فرمایا جو کوئی اللہ کی اطاعت میں قائم ہو تم اس کی محبت اپنے اوپر لازم کر لیا کرو کیونکہ جو شخص صالحین سے محبت کرتا ہے وہ حقیقت میں اللہ سے محبت کرتا ہے۔

حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ

حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ وہ رات بھر روتے اور گھر میں گھومتے رہتے اور صبح تک آہ و زاری کرتے، بسا اوقات بیہوش ہو کر گر پڑھتے وہ بالاخانے کی چھت پر نماز پڑھتے اور سجدہ میں اتنا روتے کہ کبھی کبھی آنسوؤں کے قطرے بہہ کر پرنالے سے گرنے لگتے اور نیچے سوئے ہوؤں پر پڑتے، یہاں تک کہ ان کو گمان ہوتا کہ کوئی بادل گزرتا گزرتا ٹپک رہا ہے۔

آپ کا لباس عمومًا صرف ایک جوڑا رہتا تھا، اسی کو دھو دھو کر پہنتے تھے، مرض الموت میں ایک قمیض کے علاوہ دوسری قمیض نہ تھی کہ بدلی جاتی، آپ کے برادر نسبتی مسلمہ بن عبد الملک نے اپنی بہن فاطمہ سے کہا کہ قمیض میلی ہوگئی ہے، لوگ عیادت کے لئے آتے ہیں اس لئے دوسری بدلوا دو۔ وہ خاموش رہیں، مسلمہ نے دوبارہ کہا، فاطمہ نے جواب دیا خدا کی قسم! اس کے علاوہ دوسرا کپڑا نہیں ہے ایک جوڑے کی بھی حالت یہ ہوتی کہ اس میں بھی پیوند لگے ہوتے تھے۔

آپ کا معمول تھا کہ عشاء کے بعد تنہائی میں مسجد میں بیٹھ کر رو رو کر دعائیں کرتے تھے، اور اسی حالت میں آنکھ لگ جاتی تھی، آنکھ کھلتی تو پھر یہی مشغلہ جاری ہو جاتا اسی طرح روتے، دعائیں کرتے اور جاگتے سوتے ساری رات گزر جاتی تھی۔

حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کے ہاں مجلس گریہ و زاری ہوتی تھی، رات کو علماء جمع ہو کر موت اور قیامت کا ذکر کرکے اس طرح روتے تھے جیسے ان کے سامنے جنازہ رکھا گیا ہو۔ رات بھر جاگ کر موت پر غور و فکر کیا کرتے تھے، اور قبر کی ہولناکیوں کا ذکر کرکے بیہوش ہو جاتے تھے، ایک مرتبہ اپنے ایک ہم نشین سے فرمایا میں رات بھر غور و فکر میں جاگتا رہتا ہوں اس نے پوجھا کس چیز کے متعلق فرمایا قبر اور اہل قبر کے متعلق اگر تم مردے کو تین دن کے بعد قبر میں دیکھو تو انس و محبت کے باوجود اس کے پاس جاتے ہوئے خوفزدہ ہوگے تم ایسا گھر دیکھو گے جس میں خوش وضعی، خوش لباسی اور خوشبو کے بعد کیڑے رینگ رہے ہوں گے، پیپ بہہ رہی ہوگی، بدبو، پھیلی ہوگی اور کفن بوسیدہ ہو چکا ہوگا۔ یہ کہہ کر ہچکی بندھ گئی اور بیہوش ہو کر گر پڑے، ان کی بیوی پانی چھڑک کر ہوش میں لائیں۔

قرآن کی پر موعظت آیات پڑھ کر بے حال ہو جاتے تھے ایک شب یہ آیت پڑھی :

یَوْمَ یَکُوْنُ النَّاسُ کَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِo وَ تَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِھْنِ الْمَنْفُوْشِo

القارعہ، 101 : 4 ۔ 5

’’(اس سے مراد) وہ یومِ قیامت ہے جس دن (سارے) لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ہو جائیں گےo اور پہاڑ رنگ برنگ دھنکی ہوئی اُون کی طرح ہو جائیں گےo‘‘

تلاوت کرکے زور سے چیخنے اور اچھل کر اس طرح گرے کہ معلوم ہوتا تھا دم نکل گیا ہے، پھر اس طرح ساکن ہوگئے کہ معلوم ہوتا تھا ختم ہوگئے ہیں، پھر ہوش میں آئے دردناک نعرہ لگا کر کودے، کود کر گھر میں دوڑنے لگے اور کہتے جاتے تھے۔

’’افسوس اس دن پر جب لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح اور پہاڑ دھنکی ہوئی روئی کی طرح ہوں گے۔‘‘ یہ حالت صبح تک قائم رہی پھر اس طرح گرے کہ مردہ معلوم ہوتے تھے یہاں تک کہ مؤذن کی آواز نے ہوشیار کیا ایک دن نماز میں یہ آیت پڑھی :

وَ قِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْـُٔوْلُوْنَۙ۝۲۴

الصافات، 37 : 24

’’اور انہیں (صراط کے پاس) روکو، اُن سے پوچھ گچھ ہوگی o‘‘

اتنے متاثر ہوئے کہ اسی کو بار بار دہراتے رہے، اور اس سے آگے نہ بڑھ سکے۔ بعض لوگوں نے عرض کیا آپ مدینہ منتقل ہو جاتے، اور روضہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جو چوتھی جگہ خالی ہے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ دفن ہوتے یہ سن کر فرمایا : خدا کی قسم! آگ کے سوا اگر خدا مجھے ہر قسم کے عذاب دے تو میں انہیں بخوشی منظور کر لوں گا۔ لیکن یہ بے ادبی گوارا نہیں کہ میں خود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو میں دفن ہونے کے قابل سمجھوں۔‘‘

حضرت مالک بن دینار رضی اللہ عنہ

حضرت مالک بن دینار رضی اللہ عنہ کی توبہ کی ابتداء یہ ہے کہ ایک رات ایک جماعت کے ساتھ گانے بجانے کی محفل میں مشغول تھے۔ جب سب سوگئے تو طنبورے سے آواز آئی یا مالک ان لاتتوب؟ (اے مالک تیرا کیا حال ہے؟ کب تک توبہ نہ کرو گے) اس وقت آپ نے گناہوں سے ہاتھ کھینچ لیا اور حضرت امام حسن بصری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں توبہ کرکے حال کو درست کیا۔

حضرت مالک بن دینار دمشق میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی تیار کردہ مسجد میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ خیال آیا کہ کوئی صورت ایسی پیدا ہو جائے کہ مجھے اس مسجد کا متولی بنا دیا جائے۔ چنانچہ آپ نے اعتکاف کیا اور سال بھر اتنی کثرت سے نمازیں پڑھیں کہ ہر شخص آپ کو ہمہ وقت نماز میں مشغول دیکھتا لیکن کسی نے بھی آپ کی طرف توجہ نہیں کی، پھر ایک سال کے بعد جب آپ مسجد سے برآمد ہوئے تو ندائے غیبی آئی کہ مالک تجھے اب خود غرضی سے توبہ کرنی چاہئے، چنانچہ ایک سال تک اپنی خود غرضانہ عبادت پر شدید رنج اور شرمندگی ہوئی، اور آپ نے اپنے قلب کو ریا اور غرض سے خالی کرکے خلوص نیت کے ساتھ ایک شب عبادت کی تو صبح کے وقت دیکھا کہ مسجد کے دروازے پر ایک مجمع ہے جو آپس میں کہہ رہا کہ مسجد کا انتظام ٹھیک نہیں ہے لہٰذا اس شخص کو متولی مسجد بنا دیا جائے، اس فیصلے پر متفق ہو کر جب پورا مجمع آپ کے پاس پہنچا اور باہمی متفقہ فیصلے سے آپ کو آگاہ کیا تو آپ نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ اے اللہ میں ایک سال تک ریا کارانہ عبادت میں اس لئے مشغول رہا کہ مجھے مسجد کی تولیت حاصل ہو جائے مگر ایسا نہ ہوا اب جبکہ میں صدق دل سے تیری عبادت میں مشغول ہوا تو تیرے حکم سے تمام لوگ مجھے متولی بنانے آ پہنچے اور میرے اوپر یہ بار ڈالنا چاہتے ہیں لیکن میں تیری عظمت کی قسم کھاتا ہوں کہ میں نہ تو اب تولیت قبول کروں گا اور نہ ہی مسجد سے باہر نکلوں گا یہ کہہ کر پھر عبادت میں مشغول ہوگئے۔

خوف خدا کا یہ عالم تھا کہ آپ جب سورۃ الفاتحہ کی چوتھی آیت۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ کی قراء ت کرتے تو مضطرب ہو کر رونے لگتے اور فرماتے کہ اگر یہ آیت قرآن کی نہ ہوتی تو میں کبھی نہ پڑھتا کیونکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اے اللہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں حالانکہ ہم تو محض نفس کے پجاری ہیں اور لوگوں سے مدد کے متمنی۔ آپ نے فرمایا جس سے قیامت کے دن کوئی فائدہ حاصل نہ ہو اس کی صحبت سے کیا فائدہ؟ آپ نے کسی کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ تقدیر الٰہی پر راضی رہ تاکہ تجھ کو عذاب حشر سے نجات مل سکے۔

حضرت فضیل بن عیاض رضی اللہ عنہ

آپ کا اسم گرامی ابو علی فضیل بن عیاض رضی اللہ عنہ ہے آپ کی پیدائش سمر قند میں ہوئی۔ ابتدائی دور میں صحرا بصحرا لوٹ مار کیا کرتے تھے مکہ میں 187ھ میں وفات پائی۔ زندگی کے اوائل دور میں ایک شخص یہ آیت تلاوت کر رہا تھا :

اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ.

الحدید، 57 : 16

’’کیا ایمان والوں کے لیے (ابھی) وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل اللہ کی یاد کے لیے رِقّت کے ساتھ جھک جائیں۔‘‘

اس آیت کا آپ کے قلب پر ایسا اثر ہوا جیسے کسی نے تیر مار دیا ہو، آپ نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ یہ غارت گری کا کھیل کب تک جاری رہے گا، اب وہ وقت آچکا ہے کہ ہم اللہ کی راہ میں چل پڑیں، یہ کہہ کر زار و قطار روتے رہے، اس کے بعد سے مشغول ریاضت ہوگئے۔

بعض کہتے ہیں کہ ان کی توبہ کا سبب یہ ہوا کہ ان کو ایک لڑکی سے عشق ہوگیا تھا ایک مرتبہ دیوار پر چڑھ کر اس کے پاس جا رہے تھے کہ کانوں میں تلاوت قرآن کی آواز آئی۔

اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ.

الحدید، 57 : 16

’’کیا ایمان والوں کے لیے (ابھی) وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل اللہ کی یاد کے لیے رِقّت کے ساتھ جھک جائیں۔‘‘

اس پر انہوں نے کہا اے میرے رب ہاں وقت آگیا ہے۔ وہیں سے واپس چلے آئے رات ایک ویرانہ میں گزاری وہاں کچھ مسافر تھے انہوں نے کہا یہاں سے چلے چلو کچھ نے کہا صبح تک یہیں رہو اس لئے کہ راستے میں فضیل بن عیاض ہوگا وہ لوٹ لے گا اس پر آپ نے توبہ کر لی اور انہیں امان دی۔ اطاعت اور زہد و عبادت کا راستہ اختیار کیا اور ریاضت و مجاہدہ میں بڑے کمال پر پہنچے۔

حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے اپنے کانوں سے حضرت فضیل رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا ہے کہ طالب دنیا ذلیل و رسوا ہوتا ہے اور جب میں نے اپنے لئے کچھ نصیحت کرنے کے لئے عرض کیا تو فرمایا خادم بنو، مخدوم نہ بنو، کیونکہ خادم بننا ہی وجہ سعادت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جس نے کما حقہ اللہ کی معرفت پالی، اس نے اپنی طاقت بھر اس کی عبادت کر لی اس لئے کہ معرفت اس کے احسان و انعام کی پہچان کی وجہ سے ہوتی ہے اور جب اس کے رحم و کرم کی پہچان ہو جائے تو اس نے اس کو دوست بنا لیا اورجب دوست بنا لیا تو طاقت بھر اس کی اطاعت و عبادت بجا لایا کیونکہ دوست کا کوئی کام مشکل نہیں ہوتا، اسی بنا پر جتنی دوستی زیادہ ہوگی اتنی ہی طاعت و عبادت پر حرص زیادہ ہوگی، اور دوستی کی زیادتی معرفت کی حقیقت ہے۔

کسی قاری نے بہت خوش الحانی سے آپ کے سامنے تلاوت کی تو آپ نے فرمایا کہ میرے بچے کے نزدیک جا کر تلاوت کرو، لیکن سورۃ القارعہ ہرگز نہ پڑھنا کیونکہ خشیت الٰہی کی وجہ سے وہ ذکر قیامت سننے کی تاب نہیں رکھتا۔ مگر قاری نے وہاں پہنچ کر یہی سورۃ پڑھ دی آپ کے صاحبزادے نے ایک چیخ ماری اور دنیا سے رخصت ہوگئے۔

مشہور ہے کہ آپ کو 30 برس کسی نے کبھی ہنستے ہوئے نہیں دیکھا، لیکن جب آپ کے صاحبزادے کا انتقال ہوا تو مسکرانے لگے اور جب لوگوں نے وجہ پوچھی تو فرمایا میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ اس کے عالم آخرت کی طرف لوٹنے سے خوش ہوا ہے لہٰذا میں بھی اس کی رضا میں خوش ہوں۔

فضیل بن ربیع بیان کرتے ہیں کہ میں ہارون الرشید کے ساتھ مکہ مکرمہ میں حاضر تھا، جب ہم حج سے فارغ ہوئے تو اس نے مجھ سے پوچھا کہ یہاں کوئی مردان خدا میں سے ہے تاکہ میں اس کی زیارت کروں اس زمانے کے لوگ مکہ معظمہ میں بھی اہل اللہ کی تلاش میں رہتے تھے میں نے کہا ہاں، چنانچہ میں اسے حضرت فضیل رضی اللہ عنہ کے پاس لے گیا، وہ غرفہ یعنی گوشہ میں بیٹھے تھے، نیچے آکر دروازہ کھولا چراغ بجھا دیا اور گوشہ میں کھڑے ہوگئے ہارون الرشید اندر آگیا جب حضرت فضیل کا ہاتھ ہارون الرشید کے ہاتھ سے مس ہوا تو فرمایا ’’افسوس ایسا نرم و نازک ہاتھ میں نے نہیں دیکھا ایسا ہاتھ اگر عذاب الٰہی میں مبتلا ہو تو تعجب ہے‘‘ یہ سن کر ہارون الرشید پر گریہ طاری ہوگیا، اور اتنا رویا کہ بیہوش ہوگیا، جب ہوش میں آیا تو کہنے لگا اے فضیل مجھے کوئی نصیحت فرمائیں، فرمایا اے امیر المومنین تیرا باپ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چچا تھا، انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی کہ مجھے اپنی قوم پر امیر بنا دیجئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے چچا میں نے تم کو تمہاری جان پر امیر بنا دیا کیونکہ تمہارا ایک سانس طاعت الٰہی میں اگر گزرے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ لوگ ہزار سال تک تمہاری فرمانبرداری کریں اس لئے کہ قیامت کے دن امیری میں بجز ندامت اور شرمندگی کے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا، پھر اس کے بعد حضرت فضیل رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے امیر المومنین کہیں ایسا نہ ہو کہ تیرا یہ خوبصورت چہرہ آتش دوزخ میں گرفتار ہو، خدا کا خوف رکھو اور اس کا حق بہتر طریق پر ادا کرو، اس کے بعد ہارون الرشید نے عرض کیا، آپ پر کچھ بار قرض ہے فرمایا ہاں خدا کا قرض میری گردن پر ہے اور وہ اس کی اطاعت ہے اگر وہ اس پر میری گرفت فرمائے تو میری بد نصیبی ہے۔

آپ فرماتے ہیں کہ آدمی جب تک لوگوں سے موانست رکھتا ہے ریا سے نہیں بچ سکتا ہم نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو اپنے اعمال میں ریا کرتے تھے، مگر اب ایسے لوگ بھی ہیں جو ان اعمال میں ریا کرتے ہیں جو وہ کرتے ہی نہیں۔ آپ نے فرمایا جب میں دنیا کو کسی کے ساتھ کھیلتے دیکھتا ہوں تو مجھے رونا آتا ہے اگر قرآن اور حدیث والے دنیا کی بے رغبتی پر صابر ہوں تو لوگ انہیں ذلیل نہ جانیں مگر افسوس اس بات پر کہ کوئی کہے کہ فلاں عالم یا عابد فلاں تاجر کے خرچ سے حج پر گیا آپ فرماتے ہیں کہ اگر تم کسی عالم یا عابد کو دیکھو کہ وہ امیروں یا دنیا داروں کے ہاں اپنی تعریف سن کر خوش ہوتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ ریا کار ہے اور ریا کار کی ایک علامت یہ ہے کہ اس کا علم تو پہاڑ کی طرح ہوگا اور عمل ذرّہ کے برابر۔

حضرت رابعہ بصری رضی اللہ عنہا

حضرت رابعہ بصری رضی اللہ عنہا بہت بڑی زاہدہ، عابدہ اور عارفہ تھیں ان کی پیدائش پر خواب میں آپ کے والد گرامی کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تیری یہ بچی بہت ہی مقبولیت حاصل کرے گی اور اس کی شفاعت سے میری اُمت کے کئی افراد بخش دیئے جائیں گے۔

آپ کا معمول تھا کہ دن میں روزہ رکھتیں اور رات عبادت میں صرف کر دیتیں۔ ابتداًء ایک شب جب آپ کے مالک کی آنکھ کھلی تو اس نے حیرت سے چاروں طرف دیکھا، اس نے ایک گوشہ میں آپ کو سربسجود پایا اور ایک معلق نور آپ کے سر پر فروزاں دیکھا آپ اللہ تعالیٰ سے یہ عرض کر رہی تھیں کہ اگر میرے بس میں ہوتا تو سارا وقت تیری عبادت میں گزار دیتی لیکن چونکہ تونے مجھے غیر کا محکوم بنا دیا ہے، اس لئے میں تیری بارگاہ میں دیر سے حاضر ہوتی ہوں، یہ سن کر آپ کا مالک بہت پریشان ہوا، اس نے یہ عہد کر لیا کہ مجھے تو اپنی خدمت لینے کی بجائے الٹا ان کی خدمت کرنا چاہئے تھی، چنانچہ صبح ہوتے ہی آپ کو آزاد کرکے استدعا کی کہ آپ یہیں قیام فرمائیں تو میرے لئے باعث سعادت ہے ویسے آپ اگر کہیں اور جانا چاہیں تو آپ کو اختیار ہے، یہ سن کر آپ باہر نکل گئیں اور ذکر و شکر میں مشغول ہوگئیں۔

آپ شب و روز ایک ہزار رکعت پڑھا کرتی تھیں اور گاہے گاہے حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ کے وعظ میں بھی شریک ہوتی تھیں۔

ایک مرتبہ آپ جب حج پر گئیں تو دیکھا کہ خانہ کعبہ خود آپ کے استقبال کے لئے چلا آرہا ہے آپ نے عرض کیا مولا مجھے مکان کی حاجت نہیں، مکین کی ضرورت ہے مجھے حسن کعبہ سے زیادہ تیرے دیدار کی تمنا ہے۔

ایک مرتبہ حضرت ابراہیم ادھم رحمۃ اللہ علیہ جب سفر حج پر روانہ ہوئے تو ہر گام پر دو رکعت نماز ادا کرتے ہوئے چلے اور مکمل چودہ سال میں مکہ معظمہ میں پہنچے، دوران سفر یہ بھی کہتے گئے کہ دوسرے لوگ تو قدموں سے چل کر پہنچے ہیں لیکن میں آنکھوں کے بل پہنچوں گا اور جب مکہ میں داخل ہوئے تو وہاں خانہ کعبہ دکھائی نہ دیا، چنانچہ اس تصوّر سے آپ آبدیدہ ہوگئے کہ شاید میری بصیرت زائل ہوچکی ہے لیکن غیب سے آواز آئی کہ بصیرت زائل نہیں ہوئی بلکہ کعبہ ایک ضعیفہ کے استقبال کے لئے گیا ہے، یہ سن کر آپ کو احساس ندامت ہوا اور گریہ کناں ہوئے یا اللہ وہ کون سی ہستی ہے ندا آئی کہ بہت ہی عظیم المرتبت ہستی ہے، چنانچہ آپ کی نظر اٹھی تو دیکھا کہ سامنے سے حضرت رابعہ بصری علیہ الرحمہ لاٹھی کے سہارے چلی آرہی ہیں اور کعبہ اپنی جگہ موجود ہے۔ آپ نے رابعہ بصری رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ تم نے نظام کو کیوں درہم برہم کر رکھا ہے، جواب ملا میں نے تو نہیں کیا البتہ تم نے ایک ہنگامہ کھڑا کر رکھا ہے جو چودہ برس میں کعبہ تک پہنچے ہو، ابراہیم ادھم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ میں ہر گام پر دو رکعت نفل پڑھتا ہوا آیا ہوں جس کی وجہ سے اتنی تاخیر سے پہنچا، رابعہ نے فرمایا کہ تم نے تو نماز کے ساتھ فاصلہ طے کیا ہے اور میں عجز و انکساری کے ساتھ یہاں تک پہنچی ہوں۔ پھر ادائیگی حج کے بعد حضرت رابعہ بصری علیہ الرحمہ نے اللہ تعالیٰ سے رو کر عرض کیا تو نے حج پر بھی اجر کا وعدہ فرمایا ہے اور مصیبت پر صبر کرنے کا بھی لہٰذا اگر تو میرا حج قبول نہیں فرماتا تو پھر مصیبت پر صبر کرنے کا ہی اجر عطا کردے کیونکہ حج قبول نہ ہونے سے بڑھ کر او ر کون سی مصیبت ہو سکتی ہے، پھر آپ بصرہ واپس آگئیں اور عبادت میں مشغول ہوگئیں۔ جب اگلے سال حج کا زمانہ آیا تو فرمایا گزشتہ سال کعبہ نے میرا استقبال کیا تھا اس سال میں اس کا استقبال کروں گی، چنانچہ شیخ فارمدی کے قول کے مطابق ایّامِ حج کے موقع پر آپ نے جنگل میں جاکر کروٹ کے بل لڑھکنا شروع کر دیا اور مکمل سات سال کے عرصہ میں عرفات پہنچیں۔ وہاں یہ غیبی آواز سنی کہ اس طلب میں رکھا ہے اگر تو چاہے تو تمہیں اپنی تجلی سے نواز سکتے ہیں۔ آپ نے عرض کیا کہ مجھ میں اتنی قوت و سکت کہاں، البتہ رتبہ فقر کی خواہش مند ہوں ارشاد ہوا کہ فقر ہمارے قہر کے مترادف ہے جس کو ہم نے صرف ان لوگوں کے لئے مخصوص کر دیا جو ہماری بارگاہ سے اس طرح متصل ہو جاتے ہیں کہ سرمو فرق باقی نہیں رہتا، پھر ہم انہیں لذّت وصال سے محروم کر کے آتش فراق میں جھونک دیتے ہیں لیکن اس کے باجود ان پر کسی قسم کا حزن و ملال نہیں ہوتا بلکہ حصول قرب کے لئے از سر نو سرگرم عمل ہوجاتے ہیں، مگر تو ابھی دنیا کے ستر پردوں میں ہے اور جب تک ان پردوں سے باہر آکر ہماری راہ میں گامزن نہ ہوگی اس وقت تک تجھے فقر کا نام بھی نہ لینا چاہئے۔ پھر ارشاد ہوا کہ ادھر دیکھ اور جب حضرت رابعہ بصری علیہ الرحمہ نے نگاہ اٹھا کر دیکھا تو لہو کا ایک بحر بیکراں ہوا میں لٹکا ہوا نظر آیا ندا آئی کہ یہ ہمارے ان عشاق کی چشم خونچکاں کا دریا ہے جو ہماری طلب میں چلے اور منزل عشق میں اس طرح شکستہ پا ہو کر رہ گئے کہ ان کا کہیں سراغ نہ ملا۔ رابعہ بصری نے عرض کیا کہ ان عشاق کی ایک صفت مجھ پر بھی ظاہر ہو، یہ کہتے ہی انہیں پھر نسوانی معذوری ہوگئی اور یہ ندا آئی کہ ان کا مقام یہی ہے کہ سات برس تک پہلو کے بل لڑھکتے ہیں تاکہ خدا تک رسائی ملے اور ایک تجلی کا مشاہدہ کر سکیں اور جب وہ قرب کی منزل تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں تو ایک حقیر سی علت ان کی راہوں کو مسدود کرکے رکھ دیتی ہے اور وہ صبر کرتے ہیں یہی ان عاشقوں کی علامت ہے۔

جب آپ سے نکاح نہ کرنے کی وجہ دریافت کی گئی تو جواب دیا کہ تین چیزیں میرے لئے وجہ غم بنی ہوئی ہیں اگر تم یہ غم دور کر دو تو میں یقینًا نکاح کر لوں گی اول یہ کہ کیا خبر میری موت اسلام پر ہوگی یا نہیں، دوم روز محشر میرا نامہ اعمال نہ جانے سیدھے ہاتھ میں ہوگا یا الٹے ہاتھ میں، سوم روز محشر جب جنت میں ایک جماعت کو دائیں طرف سے اور دوسری کو بائیں طرف سے داخل کیا جائے گا تو نہ جانے میرا شمار کس جماعت میں ہوگا، لوگوں نے عرض کیا کہ ان تینوں سوالوں کا جواب ہمارے پاس نہیں آپ نے فرمایا پھر جس کو اتنے غم ہوں اس کو نکاح کی کیا تمنا ہو سکتی ہے۔

آپ ہمہ وقت گریہ و زاری کرتی رہتی تھیں جب لوگوں نے وجہ دریافت کی تو فرمایا کہ میں اس کے فراق سے خوفزدہ ہوں جس کو محفوظ تصوّر کرتی ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ دم نزع یہ ندا آجائے کہ تو لائق بارگاہ نہیں ہے۔

ہر صبح یہ دعا کیا کرتیں کہ اللہ مجھے اس طرح اپنی جانب متوجہ فرما لے کہ اہل جہان مجھے تیرے سوا کسی کام میں مشغول نہ دیکھ سکیں، اور کبھی یہ دعا کرتیں کہ دنیا میں میرے لئے جو حصہ متعین کیا گیا ہے وہ اپنے معاندین کو دے دے اور جو حصہ عقبی میں مخصوص ہے وہ اپنے دوستوں میں تقسیم فرما دے، میرے لئے صرف تیری ذات ہی کافی ہے اور اگر میں جہنم کے ڈر سے عبادت کرتی ہوں تو مجھے جہنم میں جھونک دے اگر خواہش فردوس وجہ عبادت ہو تو فردوس میرے لئے حرام فرما دے، اور اگر میری پرستش صرف تمنائے دیدار کے لئے ہو تو پھر اپنے جمال دلنواز سے مشرف فرما دے۔

ایک مرتبہ علیل ہوگئیں وجہ مرض دریافت کرنے پر فرمایا کہ جب میرا قلب جنت کی جانب متوجہ ہوا تو باری تعالیٰ نے اظہار ناراضگی فرمایا اسی کا غصہ میرے مرض کا باعث ہے۔ مراد یہ تھی کہ دعویٰ ہمارے عشق اور دیدار کا اور دھیان جنت کی طرف، اگر جنت کی طرف دھیان کا یہ حال ہے تو دنیا کی طرف دھیان کا حال کیا ہوگا۔

حضرت حبیب عجمی رضی اللہ عنہ

ایک مرتبہ حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ مغرب کی نماز کے وقت حضرت حبیب عجمی رضی اللہ عنہ کے ہاں پہنچے لیکن آپ نماز کے لئے کھڑے ہوچکے تھے اور حسن بصری رضی اللہ عنہ نے جب یہ دیکھا کہ آپ الحمد کی بجائے الہمد (چھوٹی ہ) سے قرات کر رہے ہیں تو یہ خیال کر کے کہ آپ چونکہ قرآن کا تلفظ صحیح ادا نہیں کرسکتے، اس لئے آپ کے پیچھے نماز نہ پڑھی، لیکن اسی رات خواب میں اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوا تو آپ نے عرض کی کہ یا اللہ تیری رضا کا ذریعہ کیا ہے؟ ارشاد ہوا کہ تونے ہماری رضا پائی لیکن اس کا مقام نہیں سمجھا۔ آپ نے پوچھا کہ وہ کونسی رضا تھی؟ ارشاد ہوا کہ اگر تو نماز میں حبیب عجمی کی اقتداء کر لیتا تو تیرے لئے تمام عمر کی نمازوں سے بہتر تھا کیونکہ تو نے اس کی ظاہری عبادت کا تصوّر تو کیا لیکن اس کی نیت نہیں دیکھی جبکہ ولی کی نیت سے تلفظ کی صحت کم درجہ رکھتی ہے۔

حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کسی جگہ تشریف فرما تھے کہ حضرت حبیب عجمی بھی اتفاق سے وہاں پہنچ گئے، انہیں دیکھ کر امام احمد بن حنبل نے کہا کہ میں ان سے ایک سوال کروں گا، لیکن امام شافعی نے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ واصل باللہ لوگوں اور عارفوں سے سوال نہ کیا کرو؟ ان کا تو مسلک ہی جداگانہ ہوتا ہے لیکن منع کرنے کے باوجود انہوں نے یہ سوال کر ہی ڈالا کہ جس شخص کی پانچ نمازوں میں سے ایک قضا ہوئی اور یاد نہ رہی کہ کون سی تھی تو اس کو کیا کرنا چاہئے؟ حضرت حبیب عجمی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ سب نمازوں کی قضا کرے اس لئے کہ وہ خدا سے غافل ہو کر اس قدر بے ادبی کا مرتکب ہوا کہ ایک نماز چھوڑ دی، یہ سن کر امام شافعی نے کہا کہ میں نے اسی لئے منع کیا تھا کہ ان لوگوں سے کوئی سوال نہ کرو ان کے احوال مختلف ہوتے ہیں۔

ایک کنیز بیس سال تک آپ کے ہاں رہی لیکن کبھی آپ نے اس کا چہرہ نہیں دیکھا اور ایک دن اسی کنیز سے فرمایا کہ میری کنیز کو آواز دے دو اس نے عرض کیا حضور میں ہی آپ کی کنیز ہوں، فرمایا کہ تیس برس میں میرا خیال سوائے اللہ کے کسی اور طرف نہیں گیا، یہی وجہ ہے کہ میں تم کو شناخت نہ کر سکا۔

آپ سے لوگوں نے دریافت کیا کہ رضائے الٰہی کس چیز میں ہے؟ فرمایا فی قلب لیس فیہ غبار النفاق (اس دل میں جس میں نفاق کا غبار نہ ہو۔)

حضرت ابراہیم بن ادھم رضی اللہ عنہ

حضرت ابراہیم بن ادھم رضی اللہ عنہ شروع میں بلخ کے سلطان اور عظیم المرتبت حکمران تھے، ایک مرتبہ آپ محو خواب تھے کہ چھت پر کسی کے چلنے کی آواز آئی، تو آواز دے کر پوچھا کہ چھت پر کون ہے؟ تو جواب ملا کہ میں آپ کا ایک شناسا ہوں، اُونٹ کی تلاش میں چھت پر آیا ہوں، آپ نے فرمایا : یہاں چھت پر اُونٹ کس طرح مل سکتا ہے؟ ادھر سے جواب آیا آپ کو تاج و تخت میں خدا کس طرح مل جائے گا؟ یہ سن کر آپ ہیبت زدہ ہوگئے اور دوسرے دن جس وقت دربار لگا ہوا تھا، ایک بہت ہی ذی حشم شخص دربار میں آ پہنچا، حاضرین پر کچھ ایسا رعب طاری ہوا کہ کسی میں کچھ پوچھنے کی سکت باقی نہ رہی اور وہ شخص تیزی کے ساتھ تخت شاہی کے نزدیک پہنچ کر چاروں طرف دیکھنے لگا اور جب ابراہیم بن ادھم نے سوال کیا کہ تم کون ہو اور کس کی تلاش میں آئے ہو؟ تو اس نے کہا میں قیام کرنے کی نیت سے آیا تھا لیکن یہ سرائے معلوم ہوتی ہے اس لئے یہاں قیام ممکن نہیں آپ نے فرمایا کہ یہ سرائے نہیں بلکہ شاہی محل ہے اس نے سوال کیا آپ سے قبل یہاں کون آباد تھا؟ فرمایا کہ میرے باپ دادا، غرضیکہ اس طرح کئی پشتوں کے پوچھنے کے بعد اس نے کہا کہ آپ کے بعد یہاں کون رہے گا؟ فرمایا کہ میری اولاد اس نے کہا ذرا تصوّر فرمائیے کہ جس جگہ اتنے لوگ آکر چلے گئے اور کسی کو ثبات حاصل نہ ہو سکا وہ جگہ اگر سرائے نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ کہہ کر وہ اچانک غائب ہوگیا اور ابراہیم بن ادھم رضی اللہ عنہ چونکہ رات کے واقعہ سے بھی مضطرب تھے اس واقعہ نے اور بھی بے چین کر دیا آپ اس کی جستجو میں نکل کھڑے ہوئے، اور ایک جگہ جب ملاقات کے بعد آپ نے ان کا نام دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے خضر کہتے ہیں اسی اضطراب میں آپ لشکر سمیت شکار کے لئے روانہ ہوئے لیکن لشکر سے بچھڑ کر جب تنہا رہ گے تو غیب سے آواز آئی کہ اے ابراہیم! موت سے قبل بیدار ہو جاؤ، اور یہ آواز مسلسل آتی رہی، آپ کی قلبی کیفیت اور دگرگوں ہوتی چلی گئی، پھر اچانک سامنے ایک ہرن نظر آگیا اور جب آپ نے شکار کرنا چاہا تو وہ بول پڑا کہ آپ میرا کیا شکار کریں گے آپ تو خود شکار ہونے والے ہیں، کیا آپ کی تخلیق کا یہی مقصد ہے کہ آپ سیر اور شکار کرتے پھریں۔

پھر آپ کی سواری کے زین سے بھی یہی آواز آنے لگی، سو اس طرح آپ متوجہ اِلی اللہ ہوگئے کہ قلب نور باطنی سے منور ہوگیا اس کے بعد آپ تخت و تاج کو خیر باد کہہ کر صحرا بصحرا گریہ و زاری کرتے ہوئے نیشاپور کے قرب و جوار میں پہنچ کر ایک تاریک اور بھیانک غار میں مکمل نو سال تک عبادت میں مصروف رہے اس دوران ہر جمعہ کو لکڑیاں جمع کرکے فروخت کر دیتے اور جو کچھ ملتا، آدھا راہ مولا میں دے دیتے اور باقی ماندہ رقم سے روٹی خرید کر نماز جمعہ ادا کرتے۔

جب عوام کو آپ کے مراتب کا صحیح اندازہ ہوگیا تو آپ نے اس غار کو خیر باد کہہ کر مکہ معظمہ کا رخ کیا اس کے بعد ایک مرتبہ شیخ ابو سعید رحمۃ اللہ علیہ نے اس غار کی زیارت کرکے فرمایا کہ اگر یہ غار مشک سے لبریز کر دیا جاتا تب بھی اتنی خوشبو نہ ہوتی جتنی ایک بزرگ کے چند روزہ قیام سے موجود ہے۔

جب آپ نے بلخ کی سلطنت کو خیر باد کہا تو اس وقت آپ کا ایک چھوٹا بچہ تھا اس نے جوانی میں پوچھا کہ میرے والد کہاں ہیں تو والدہ نے پورا واقعہ بیان کرنے کے بعد بتایا کہ وہ اس وقت مکہ معظمہ میں مقیم ہیں، اس کے بعد اس لڑکے نے پورے شہر میں منادی کرادی کہ جو لوگ میرے ہمراہ سفر حج پر چلنا چاہیں میں ان کے پورے اخراجات برداشت کروں گا۔ یہ منادی سن کر تقریباً 4 ہزار افراد چلنے پر تیار ہوگئے جن کو وہ لڑکا اپنے ہمراہ لیکر والد کے دیدار کی تمنا میں کعبۃ اللہ پہنچ گیا اور جب اس نے مشائخ حرم سے اپنے والد کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا وہ ہمارے مرشد ہیں اور اس وقت وہ جنگل سے لکڑیاں لینے گئے ہیں کہ فروخت کرکے اپنے اور ہمارے کھانے کا انتظام کریں۔ یہ سنتے ہی لڑکا جنگل کی جانب چل پڑا اور ایک بوڑھے کو سر پر لکڑیوں کا بوجھ لادے دیکھا فرط محبت سے وہ بے تاب ہوگیا لیکن بطور سعادت مندی اور ناواقفیت احوال خاموشی کے ساتھ آپ کے پیچھے بازار تک پہنچ گیا اور جب وہاں جاکر حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ نے آواز لگائی کہ کون ہے جو پاکیزہ مال کے عوض پاکیزہ مال خریدے، یہ سن کر ایک شخص نے روٹیوں کے عوض میں لکڑیاں خرید لیں، جن کو آپ نے اپنے ارادت مندوں کے سامنے رکھ دیا اور خود نماز میں مشغول ہوگئے۔ آپ اپنے ارادت مندوں کو ہمیشہ یہ ہدایت فرماتے کہ کبھی کسی عورت یا بے ریش لڑکے کو نظر بھر کر نہ دیکھنا اور خصوصًا اس وقت بہت محتاط رہنا جب ایام حج کے دوران کثیر عورتیں اور بے ریش لڑکے جمع ہو جاتے ہیں، اور تمام افراد اس ہدایت کے پابند رہتے ہوئے آپ کے ہمراہ شریک رہتے حالت طواف میں آپ کا وہی لڑکا سامنے آگیا اور محبت پدری نے جوش مارا اور بے ساختہ آپ کی نگاہیں اس پر جم گئیں فراغت طواف کے بعد آپ کے ارادتمندوں نے عرض کیا کہ اللہ آپ کے اوپر رحم فرمائے آپ نے جس بات سے ہمیں باز رہنے کی ہدایت کی تھی اس میں آپ خود ہی ملوث ہو گئے کیا آپ اس کی وجہ بیان کر سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ یہ بات تو تمہارے علم میں ہی ہے کہ جب میں نے بلخ کو چھوڑا تو اس وقت میرا چھوٹا سا بیٹا تھا اور مجھے یقین ہے کہ وہی بچہ ہے پھر اگلے دن آپ کا ایک مرید جب بلخ کے قافلہ کی تلاش کرتا ہوا وہاں پہنچا تو دیکھا کہ وہی لڑکا حریر اور دیباج کے خیمہ میں ایک کرسی پر بیٹھا تلاوت قرآن کر رہا ہے اور جب اس نے آپ کے مرید سے آمد کا مقصد دریافت کیا تو مرید نے سوال کیا کہ آپ کس کے صاحبزادے ہیں؟ یہ سنتے ہی اس لڑکے نے روتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنے والد کو نہیں دیکھا لیکن کل ایک بوڑھے لکڑہارے کو دیکھ کر یہ محسوس ہوا کہ شاید یہی میرے والد ہیں اور اگر میں ان سے کچھ پوچھ گچھ کرتا تو اندیشہ تھا کہ کہ وہ فرار ہو جاتے کیونکہ وہ گھر سے فرار ہوگئے تھے اور ان کا اسم گرامی ابراہیم بن ادھم ہے یہ سن کر مرید نے کہا کہ چلئے میں ان سے آپ کی ملاقات کروا دوں وہ اپنے ہمراہ آپ کی بیوی اور بیٹے کو لے کر بیت اللہ میں داخل ہوگیا جس وقت بیٹے کی نظر آپ پر پڑی تو فرط محبت سے بیتابانہ دونوں لپٹ گئے اور روتے روتے بیہوش ہوگئے اور ہوش میں آنے کے بعد جب حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تمہارا دین کیا ہے؟ تو لڑکے نے جواب دیا اسلام پھر سوال کیا کہ کیا تم نے قرآن کریم پڑھا ہے؟ لڑکے نے اثبات میں جواب دیا پھر پوچھا کہ اس کے علاوہ اور بھی کچھ تعلیم حاصل کی ہے لڑکے نے کہا جی ہاں، یہ سن کر فرمایا کہ الحمدللہ اس کے بعد جب آپ جانے کے لئے اٹھے تو بیوی اور بچے نے اصرار کرکے آپ کو روک لیا جس کے بعد آپ نے آسمان کی طرف چہرہ اٹھا کر کہا یا الٰہی ’’اغثنی‘‘ یہ کہتے ہی آپ کے صاحبزادے زمین پر گر پڑے اور فوت ہوگئے اور جب ارادتمندوں نے سبب دریافت کیا تو فرمایا کہ جب میں بچے سے ہم آغوش ہوا تو وفور جذبات اور فرط محبت سے بے تاب ہوگیا اور اسی وقت یہ ندا آئی کہ ہم سے دوستی کا دعویٰ اور دوسرے سے محبت رکھتا ہے یہ ندا سن کر میں نے عرض کیا کہ ہم دونوں میں سے کسی ایک کو لے لے چنانچہ لڑکے کے حق میں دعا قبول ہوگئی۔

آپ اکثر یہ فرمایا کرتے کہ پونے پندرہ برس کی مکمل اذیتوں کے بعد مجھے یہ ندا سنائی دی کہ ’’عیش و راحت کو ترک کر، اس کی بندگی اور احکام کی تعمیل کرکے مستعد ہو جا‘‘ ایک مرتبہ لوگوں نے سوال کیا کہ آپ نے سلطنت کو کیوں خیر باد کہا؟ فرمایا کہ ایک دن آئینہ لئے ہوئے میں تخت شاہی پر متمکن تھا تو اس وقت مجھے خیال آیا کہ نہ تو میرے پاس طویل سفر کے لئے زاد راہ ہے اور نہ کوئی حجت و دلیل، جبکہ میری آخری منزل قبر ہے اور حاکم بھی عادل و منصف ہے، پس یہ خیال آتے ہی میرا دل بجھ سا گیا اور مجھے سلطنت سے نفرت ہوگئی، پھر فرمایا کہ جس کو 3 حالتوں میں دل جمعی حاصل نہ ہو تو سمجھ کہ اس کے اوپر باب رحمت بند ہو چکا ہے، اول، تلاوت کلام مجید کے وقت، دوم حالت نماز میں، سوم ذکر و فکر اور شغل عبادت کے وقت اور عارف کی شناخت یہی ہے کہ وہ ہر شے میں حصول عبرت کے لئے غور و فکر کرتے ہوئے خود کو حمد و ثناء میں مشغول رکھے اور اطاعت الٰہی میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارے۔

آپ اکثر یہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ایک غلام خرید کر جب اس کا نام دریافت کیا تو اس نے جواب دیا کہ آپ چاہے جس نام سے پکاریں، پھر میں نے یہ سوال کیا کہ تم کیا کھاتے ہو؟ تو اس نے کہا کہ جو آپ کھلا دیں، میں نے پھر پوچھا کہ تمہاری خواہش کیا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ جو آپ کی خواہش ہو غلام کو ان چیزوں سے بحث نہیں ہوا کرتی، یہ سن کر میں نے سوچا کہ کاش میں بھی اللہ تعالیٰ کا یوں ہی اطاعت گزار ہوتا تو کتنا بہتر تھا۔

کسی نے پوچھا کہ آپ کے اوقات کن مشاغل میں گزرتے ہیں تو فرمایا کہ میرے پاس چار سواریاں ہیں، جب نعمت حاصل ہوتی ہے تو شکر کی سواری پر اس کے سامنے جاتا ہوں، اور جب فرمانبرداری کرتا ہوں تو خلوص کی سواری پر سامنے آجاتا ہوں اور جب معصیت کا مرتکب ہوتا ہوں تو ندامت اور توبہ کی سواری پر حاضر ہوتا ہوں، اور مصائب میں مبتلا ہوتا ہوں تو صبر کی سواری سے کام لیتا ہوں۔

حضرت ابراہیم بن ادھم رضی اللہ عنہ تخت شاہی چھوڑنے کے بعد کچھ عرصہ انگوروں کے باغ میں مالی کا کام بھی کرتے تھے۔ ایک مرتبہ وہاں سے ایک فوجی کا گزر ہوا اس نے انگور مانگے تو آپ نے فرمایا کہ مالک نے مجھے اجازت نہیں دی۔ سپاہی نے کوڑے سے مارنا شروع کر دیا۔ آپ نے اپنا سر جھکا دیا اور کہا اس سر کو خوب مارو اس نے کافی عرصہ تک اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ہے۔ فوجی تھک کر چلا گیا۔

پرہیز گاری میں حضرت ابراہیم بن ادھم رضی اللہ عنہ کی بہت بڑی منزلت تھی۔ انہوں نے فرمایا : روزی پاک رکھو۔ اگر تم دن کو نہ روزہ رکھو اور رات کو قیام بھی نہ کر سکو تو اس میں اتنا نقصان نہیں جتنا نقصان ناپاک روزی کھانے میں ہے حضرت ابراہیم بن ادھم رضی اللہ عنہ اکثر دعا مانگا کرتے تھے۔ خدایا مجھے اپنی نافرمانی کی ذلت سے نکال کر اپنی تابعداری کی عزت کی طرف منتقل کر دے۔

حضرت عبد اللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ

حضرت عبد اللہ بن مبارک المروزی رحمۃ اللہ علیہ کی توبہ کا واقعہ یوں ہے کہ آپ ایک باندی پر عاشق ہو گئے، اور ایک رات آپ مستوں کے درمیان سے اٹھ کر ایک ساتھی کو لے کر معشوقہ کے مکان کی دیوار کے نیچے کھڑے ہوگئے، وہ معشوقہ چھت پر آگئی صبح تک دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہے اور جب حضرت عبد اللہ نے فجر کی اذان سنی تو گمان کیا کہ یہ عشاء کی اذان ہے لیکن جب دن چڑھا تب سمجھے کہ تمام رات اس کے حسن کے مشاہدہ میں مستغرق رہے، یہی بات آپ کی تنبیہہ کا موجب بنی، دل میں کہنے لگے، اے مبارک کے بیٹے! تجھے شرم کرنی چاہئے، آج کی پوری رات پاؤں پر کھڑے کھڑے محض اپنے نفس کی خواہش میں گزار دی، اگر امام نماز میں سورۃ کو دراز کردے تو گھبرا جاتا ہے، پھر مومن ہونے کا دعویٰ بھی کرتا ہے۔ اسی وقت آپ نے توبہ کی اور تحصیل علم و عمل اور اللہ کی جستجو میں مشغول ہوگئے۔

آپ نے فرمایا :

السکون حرام علی قلوب أولیاؤہ۔

’’(خدا کے دوستوں کا دل ہرگز ساکن نہیں ہوتا کیونکہ) اس گروہ پر سکون اور آرام حرام ہے۔‘‘

یہ دنیا میں تو طلب کی حالت میں بیقرار ہوتے ہیں اور آخرت میں خوشی کے باعث، کیونکہ دنیا میں حق تعالیٰ سے غائب ہونے کی وجہ سے ان پر سکون و آرام جائز نہیں ہوتا اور عقبیٰ میں حق تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کی تجلی اور رؤیت کی وجہ سے ان پر قرار نہیں ہوتا۔ لہٰذا ان کے دنیا، عقبیٰ کی مانند اور عقبیٰ، دنیا کی مانند ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ سکون قلب دو چیزوں کا مقتضی ہے یا تو مقصود و مراد کو پالے یا اس سے غافل ہو جائے، اور اس کا حصول دنیا و آخرت میں جائز نہیں۔ تو محبت کی وارفتگی سے دل کو قرار کیسے ہو؟ اور اس کے محبوبوں اور دوستوں پر غفلت حرام ہے، یوں بھی حصول طلب میں دل کو کیسے آرام و سکون میسر ہو؟

ابتدائی زمانے میں آپ کے پاس ایک ایسا غلام تھا جس سے آپ نے یہ شرط کر رکھی تھی کہ اگر تم محنت مزدوری کرکے اتنی رقم مجھے دے دو تو میں تم کو آزاد کر دوں گا، ایک دن کسی نے آپ سے کہہ دیا کہ آپ کا غلام تو ہر رات کفن چرا کر فروخت کرنے کے بعد آپ کی رقم ادا کرتا ہے، یہ سن کر آپ کو بے حد ملال ہوا اور رات کو چھپ کر اس کے پیچھے پیچھے قبرستان میں پہنچ گئے۔ قبرستان میں جاکر غلام نے ایک قبر کھولی اور نماز میں مشغول ہوگیا اور جب آپ نے قریب سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ ٹاٹ کے کپڑے پہنے اپنے گلے میں طوق پہنے ہوئے گریہ و زاری کر رہا ہے۔ یہ دیکھ کر آپ رو پڑے اور پوری رات آپ نے باہر اور غلام نے قبر میں عبادت کرنے میں گزار دی، پھر صبح کو غلام نے قبر کو بند کیا اور فجر کی نماز مسجد میں جاکر ادا کی اور یہ دعا کرتا رہا کہ اے اللہ اب رات گزر چکی ہے اب میرا مالک مجھ سے رقم طلب کرے گا لہٰذا اپنے کرم سے تو ہی کچھ انتظام فرما دے اس دعا کے بعد ایک نور نمودار ہوا اور اس نے درہم کی شکل اختیار کر لی۔ چنانچہ آپ یہ واقعہ دیکھ کر غلام کے قدموں میں گر پڑے اور فرمایا کہ کاش تو آقا اور میں غلام ہوتا یہ جملہ سن کر غلام نے پھر دعا کی کہ اے اللہ اب میرا راز فاش ہوگیا اس لئے مجھے دنیا سے اٹھا لے اور آپ ہی کی آغوش میں دم توڑ دیا پھر آپ نے غسل دے کر ٹاٹ ہی کے لباس میں دفن کر دیا لیکن رات خواب میں دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابراہیم علیہ السلام دو براقوں پر تشریف لائے اور فرمایا کہ اے عبد اللہ تونے ہمارے دوست کو ٹاٹ کے لباس میں کیوں دفن کیا؟

حضرت سفیان ثوری رضی اللہ عنہ

حضرت سفیان ثوری کے تائب ہونے کا واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلے الٹا پاؤں مسجد میں رکھ دیا جس کے بعد یہ ندا آئی کہ اے ثور! تجھے اللہ کے گھر حاضر ہونے کا ادب بھی معلوم نہیں۔‘‘ بس اسی دن سے آپ کا نام ثوری پڑ گیا۔ بہر حال یہ ندا سن کر خوف کا ایسا غلبہ ہوا کہ غش کھا کر گر پڑے اور ہوش آنے کے بعد اپنے منہ پر طمانچے لگاتے ہوئے کہنے لگے کہ بے ادبی کی ایسی سزا ملی ہے کہ میرا نام ہی دفتر انسانیت سے خارج کر دیا گیا، لہٰذا

’’اے نفس اب ایسی بے ادبی کی جرأت کبھی نہ کرنا۔‘‘

آپ نے فرمایا کہ گریہ و زاری کی دس قسمیں ہیں، جن میں نو حصے ریا سے بھرپور ہوتے ہیں اور ایک حصہ خشیت سے لبریز ہوتا ہے، پھر فرمایا کہ نیک اعمال کرنے والوں کے اعمال کو ملائکہ عمل نیک کے دفتر میں درج کر لیتے ہیں اور جب کوئی ان اعمال پر فخر کرنے لگتا ہے تو پھر انہی اعمال کو ریا کے دفتر میں منتقل کر دیتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ سلاطین و امراء سے منسلک رہنے والا عابد بھی ریا کار ہوتا ہے۔

موت کا ذکر سن کر خوف کے مارے بیہوش ہو جایا کرتے تھے اور لوگوں کو نصیحت فرماتے کہ موت سے پہلے اس کا سامان مہیا کر لو۔ جب موت کے وقت لوگوں نے عرض کیا کہ آپ کو جنت مبارک ہو تو فرمایا کہ اہل جنت تو دوسرے لوگ ہیں ہماری وہاں تک رسائی کہاں ہو سکتی ہے؟

آپ فرماتے ہیں ہم نے ایسے مشائخ دیکھے ہیں جو موت کی تمنا کرتے تھے اور میں ان کی آرزو کو تعجب سے دیکھتا تھا اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ میں ان لوگوں پر تعجب کرتا ہوں جو موت کو پسند نہیں کرتے، آپ خود بھی ساری رات قیام کرتے تھے اور دوسروں کو نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ کم کھایا کرو تاکہ رات کو قیام کر سکو۔

آپ فرماتے ہیں کہ گریہ و زاری کے دس حصے ہیں، ان میں سے ایک اللہ کے لئے اور باقی ریا ہے پس اگر ایک سال میں ایک دفعہ بھی اخلاص کا گریہ نصیب ہو جائے جو اللہ تعالیٰ کے لئے ہے تو امید ہے کہ آدمی دوزخ سے بچ جائے گا۔

آپ یوم الحساب کے خوف سے فرماتے ہیں کہ بخدا مجھے ڈر ہے کہ جب قیامت کے دن آواز دی جائے گی کہ فاسق علماء کہاں ہیں؟ تو کہیں میری نسبت نہ کہہ دیا جائے کہ یہ بھی ان میں سے ہے اس کو بھی پکڑ لو۔

آپ فرماتے ہیں کہ عام لوگوں کا اللہ تعالیٰ سے اتنا ہی ڈرنا کافی ہے کہ وہ ان باتوں سے بچتے رہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے، پھر فرماتے ہیں کاش میں بھی ان لوگوں میں سے ہوتا۔

حضرت داؤد طائی رضی اللہ عنہ

ان ہی میں سے ابو سلیمان داؤد بن نصیر طائی رضی اللہ عنہ ہیں یہ بڑی شان والے بزرگ ہیں۔ حضرت داؤد طائی کو وراثت میں بیس دینار ملے جنہیں انہوں نے بیس سال میں خرچ کیا۔

حضرت داؤد طائی کو حضرت فضیل بن عیاض اور حضرت ابراہیم بن ادھم جیسی برگزیدہ ہستیوں سے شرف نیاز حاصل رہا۔

آپ کے تائب ہونے کا واقعہ اس طرح ہے کہ کسی گوئیے نے آپ کے سامنے یہ شعر پڑھا۔

بأی خدیک تبدی البلاء
وبای عینک ماذا سال

(کون سا چہرہ خاک میں نہیں ملا، اور کونسی آنکھ زمین پر نہیں بہی۔)

یہ شعر سن کر عالم بے خودی میں حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پہنچ گئے اور اپنا پورا واقعہ بیان کرکے کہا کہ میری طبیعت دنیا سے اُچاٹ ہو چکی ہے اور ایک نامعلوم سی شے قلب کو مضطرب کئے ہوئے ہے، یہ سن کر امام صاحب نے فرمایا کہ گوشہ نشینی اختیار کر لو چنانچہ اسی وقت سے آپ گوشہ نشین ہوگئے۔ بعض کہتے ہیں کہ ان کے زہد کا سبب یہ تھا حضرت ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بیٹھا کرتے تھے۔ ایک دن حضرت ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں کہا :

اے ابو سلیمان! ہم نے ساز و سامان کو مضبوط کر لیا ہے۔

حضرت داؤد طائی رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا : اب کون سی چیز باقی رہ گئی ہے؟

حضرت ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اب اس پر عمل کرنا باقی رہ گیا ہے۔

حضرت داؤد طائی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ سن کر میرے نفس نے مجھے گوشہ نشینی کی طرف کھینچا۔

حضرت داؤد طائی رحمۃ اللہ علیہ رات کو یوں فرمایا کرتے تھے، اے خدا تیرے غم نے تمام دنیاوی غموں کو معطل کر دیا ہے اور یہ غم میرے اور میری نیند کے درمیان حائل ہے حضرت داؤد طائی علیہ الرحمہ کی دایہ نے ان سے کہا کہ آپ کو روٹی کی خواہش نہیں ہوتی؟ تو آپ نے جواب دیا روٹی چبانے اور نان کے ٹکڑوں کو نگلنے میں پچاس آیات پڑھی جا سکتی ہیں۔

ایک آدمی نے عرض کیا مجھے وصیت فرمائیں۔ تو آپ نے فرمایا کہ موت کا لشکر تمہارا انتظار کر رہا ہے ایک مرتبہ ایک آدمی آپ کے پاس آیا اس نے دیکھا کہ پانی کے مٹکے پر دھوپ پڑ رہی ہے اس نے آپ سے کہا کہ اس کو سایہ میں کیوں نہیں کر دیتے؟ آپ نے فرمایا جب میں نے اسے یہاں رکھا تھا تو اس وقت دھوپ نہیں تھی اور مجھے شرم آتی ہے کہ میں ایسے کام کے لئے قدم اٹھاؤں جس میں حظ نفس پایا جائے ابو الربیع واسطی علیہ الرحمہ نے حضرت داؤد طائی علیہ الرحمہ سے نصیحت کے لئے عرض کیا تو انہوں نے فرمایا :

’’دنیا سے روزہ رکھو اور موت سے روزہ کھولو اور لوگوں سے اس طرح بھاگو جس طرح درندے سے بھاگتے ہو۔‘‘

پھر کچھ عرصہ بعد امام صاحب نے فرمایا کہ اب یہ بہتر ہے کہ لوگوں سے رابطہ قائم کرکے ان کی باتوں پر صبر و ضبط سے کام لوں چنانچہ ایک برس تک تعمیل حکم میں بزرگوں کی صحبت میں رہ کر ان کے اقوال سے بہرہ ور ہوئے لیکن خود ہمیشہ خاموش رہتے تھے، اس کے بعد حضرت حبیب راعی علیہ الرحمہ سے بیعت ہو کر فیوض باطنی سے سیراب ہوتے رہے اور ذکر الٰہی میں مشغول رہ کر عظیم مراتب سے ہمکنار ہوئے۔

آپ سدا غمزدہ رہتے تھے اور فرمایا کرتے کہ جس کو ہر لمحہ مصائب کا سامنا ہو، اس کو مسرت کیسے حاصل ہو سکتی ہے، لیکن ایک مرتبہ کسی درویش نے آپ کو مسکراتے دیکھ کر وجہ پوچھی تو فرمایا کہ

’’آج خدا نے مجھے شراب محبت پلائی ہے اس کے خمار سے مسرور ہوں۔‘‘

جب حضرت ابو ربیع نے آپ سے وصیت و نصیحت کی درخواست کی تو فرمایا کہ ’’دنیا سے روزہ رکھو اور آخرت سے افطار کرو‘‘ پھر کسی اور نے وصیت کی درخواست کی تو فرمایا کہ ’’بد گوئی سے احتراز کرو‘‘ جب امام ابو یوسف اور امام محمد میں کوئی علمی اختلاف رونما ہوتا تو وہ دونوں آپ کے فیصلے کو قبول کر لیتے تھے۔

آپ نے فرمایا کہ مردے تمہارے انتظار میں ہیں یعنی تمہیں بھی مرنا ہے اس لئے وہاں کا سامان کر لو پھر فرمایا کہ ترک حب دنیا سے بندہ خدا تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔

حضرت بشر حافی رضی اللہ عنہ

انہیں میں سے ابو نصر بن الحارث الحافی رحمۃ اللہ علیہ ہیں بغداد میں رہائش اختیار کر لی تھی اور در اصل مرو کے تھے اور ان کی وفات 227 ھ کو بغداد میں ہوئی بڑی شان کے مالک تھے۔

حضرت بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ کی توبہ کا واقعہ یوں ہے کہ ایک دن آپ نشہ کی حالت میں گھر سے نکلے، راستے میں انہیں ایک کاغذ کا ٹکڑا ملا، تعظیم کے ساتھ اٹھایا، اس پر بسم اللہ الرحمن الرحیم تحریر تھا، انہوں نے اس کاغذ کے پرزے کو عطر سے خوشبو دار کرکے پاک جگہ میں رکھ دیا۔ اسی رات آپ نے خواب میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

’’اے بشر تونے میرے نام کو خوشبو دار کیا اور میرے نام کی عزت کی، یقینًا میں تیرے نام کو دنیا و آخرت میں خوشبو دار کروں گا، یہاں تک کہ جو بھی تیرا نام سنے گا اس کے دل میں راحت ہوگی‘‘ اس پر آپ نے فورًا توبہ کر لی۔

حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ بیشتر آپ ہی کی صحبت میں رہتے اور آپ کے عقیدت مندوں میں سے تھے، چنانچہ جب آپ کے شاگردوں نے پوچھا کہ اتنے بڑے محدث اور فقیہہ ہونے کے باجود آپ ایک دیوانے کے ہمراہ کیوں رہتے ہیں؟ تو فرمایا کہ ’’بیشک شریعت میں زیادہ جانتا ہوں لیکن شریعت والے کو وہ دیوانہ زیادہ جانتا ہے‘‘ اسی وجہ سے امام صاحب اکثر آپ سے استدعا کرتے کہ ’’مجھے اللہ کی باتیں سنائیں۔‘‘

آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں ایک مرتبہ خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کہ اے بشر کیا تجھے علم ہے کہ تیرے دور کے بزرگوں سے تیرا درجہ کیوں بلند کیا گیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ مجھے تو معلوم نہیں، فرمایا تونے میری سنت کی اتباع کی صالحین کی خدمت اور تعظیم کی، اپنے بھائیوں سے خیر خواہی کی، اور میرے صحابہ اور اہل بیت کو تونے ہمیشہ محبوب رکھا۔‘‘ ان امور کے باعث اللہ تعالیٰ نے تجھے یہ مرتبہ عطا فرمایا ہے۔ پھر دوبارہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ امراء حصول ثواب کے لئے فقراء کی جو خدمت کرتے ہیں وہ تو پسندیدہ ہے لیکن اس سے زیادہ افضل یہ ہے کہ فقراء کبھی امراء کے آگے دست طلب دراز نہ کریں بلکہ خدا تعالیٰ پر مکمل بھروسہ رکھیں۔

کسی عورت نے امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ سے یہ مسٔلہ دریافت کیا کہ میں اپنی چھت پر سوت کات رہی تھی کہ راستہ میں شاہی روشنی کا گزر ہوا اور میں نے اسی روشنی میں تھوڑا سا سوت کات لیا، اب بتائیے وہ سوت جائز ہے یا ناجائز؟ یہ سن کر امام صاحب نے فرمایا کہ بی بی پہلے یہ بتاؤ کہ تم کون ہو؟ اس عورت نے جواب دیا کہ میں بشر حافی کی ہمشیرہ ہوں امام صاحب رو پڑے اور فرمایا کہ وہ سوت تمہارے لئے جائز نہیں، تم حضرت بشر حافی کی بہن ہو جو اہل تقوی ہیں اور تمہیں اپنے بھائی کے نقش قدم پر چلنا چاہئے جو مشتبہ کھانے پر اگر ہاتھ بڑھاتے تو ہاتھ بھی ان کی پیروی نہیں کرتا تھا۔

آپ فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ ارادہ کرے کہ وہ دنیا میں عزیز اور آخرت میں شریف ہو اسے تین باتوں سے بچنا چاہئے ایک یہ کہ وہ کسی سے سوال نہ کرے، دوسرے یہ کہ کسی کا ذکر برائی سے نہ کرے، تیسرے یہ کہ وہ کسی کا مہمان نہ ہو۔ کیونکہ جسے اللہ کی معرفت ہوگی اسے مخلوق کی احتیاج نہ ہوگی، اس لئے کہ خلق کی احتیاج عدم معرفت الٰہی کی دلیل ہے۔

آپ فرماتے ہیں کہ ہم نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جن کے نیک اعمال پہاڑ جیسے تھے، مگر پھر بھی وہ لوگ مغرور نہ تھے، اور تم ایسے ہو کہ تمہارے پاس اعمال بھی نہیں اور اس کے باوجود تم مغرور ہو۔

حضرت بشر بن الحارث علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : چالیس سال سے مجھے بھنا ہوا گوشت کھانے کی خواہش ہے مگر ابھی اس کی قیمت صاف نہیں ہوئی۔

کسی نے حضرت بشر علیہ الرحمہ سے پوچھا کہ روٹی کس سے کھاتے ہیں؟

جواب دیا کہ عافیت یاد کرکے اسی کو سالن بنا لیتا ہوں۔

ایک شخص نے حضرت بشر حافی سے مذکورہ بالا قصہ بیان کیا تو حضرت بشر علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ حلال روزی اسراف کی متحمل نہیں ہوتی، کسی نے حضرت بشر کو خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے کیا برتاؤ کیا؟ جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے معاف کر دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اے بشر تمہاری جو قدر و منزلت اپنے بندوں کے دلوں میں ڈال رکھی ہے اس کا شکر تو انگاروں پر سجدہ کرکے بھی ادا نہیں کر سکتا۔

حضرت ابو علی شقیق بلخی رضی اللہ عنہ

ان ہی میں سے ابو علی شقیق بن ابراہیم بلخی علیہ الرحمہ ہیں خراسان کے مشائخ میں سے تھے ان کا سارا کلام توکل کے بارے میں ہے اور حاتم اصم کے استاد تھے۔

آپ کا اسم گرامی شقیق اور کنیت ابو علی ہے، آپ نے طریقت کی منزلیں حضرت ابراہیم ادھم رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں طے کیں۔

آپ کی توبہ کا واقعہ یوں ہے کہ ایک مرتبہ بلخ میں قحط سالی ہوگئی، اور آپ نے بازار میں ایک غلام کو بہت خوش دیکھ کر پوچھا کہ لوگ تو قحط سے برباد ہوگئے ہیں اور تو اس قدر خوش نظر آتا ہے اس نے جواب دیا کہ میرے آقا کے یہاں بہت غلہ موجود ہے اور وہ مجھے کبھی بھوکا نہ رکھے گا۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ اے اللہ! جب ایک غلام کو اپنے آقا پر اس قدر اعتماد ہے تو تیری ذات پر میں کیوں نہ اعتماد کروں جب کہ تو مالک الملک ہے اور کہا کہ اس کے آقا کے پاس صرف ایک گاؤں ہے اور وہ بھی مخلوق و محتاج ہے اس کے باوجود اسے روزی کی فکر نہیں، لہٰذا یہ کیونکر مناسب ہو سکتا ہے کہ مسلمان اپنی روزی کے لئے پریشان ہو حالانکہ اس کا مولا ساری کائنات کا مالک ہے۔

پس اس کے بعد آپ نے سختی کے ساتھ زہد اور ریاضت اختیار کر لی حتی کہ آپ کا توکل معراج کمال تک پہنچا آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میرا استاد ایک غلام ہے۔ کسی نے آپ سے اپنے عزم حج کا تذکرہ کیا تو آپ نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ زاد سفر کے طور پر کیا چیز ہے؟ اس نے عرض کیا کہ میرے ہمراہ چار چیزیں ہیں، اول یہ کہ میں اپنی روزی کو دوسروں کی نسبت سے زیادہ قریب پاتا ہوں، دوم اس کا یقین رکھتا ہوں کہ میرے رزق میں کوئی حصہ دار نہیں بن سکتا، سوم یہ کہ خدا ہر جگہ موجود ہے، چہارم یہ کہ اللہ تعالیٰ میری نیک و بد حالت سے بخوبی واقف ہے، یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ اس سے زیادہ اور بہتر کوئی زاد سفر نہیں ہوسکتا اور اللہ تعالیٰ تیرا حج قبول فرمائے۔

آپ نے فرمایا کہ عبادت کی بنیاد بیم و رجاء اور حبّ الٰہی پر قائم ہے، اور خوف کی نشانی محرمات کو ترک کر دینا ہے اور امید کی نشانی عبادت پر ندامت اختیار کرنا ہے، زور محبت کی نشانی شوق و توبہ اور رجوع الی اللہ کا پیدا ہو جانا ہے، اور جس کے اندر خوف و اضطرار نہ ہو وہ جہنمی ہے، پھر فرمایا کہ تین چیزیں انسان کے لئے مہلک ہیں اول توبہ کی امید پر معصیت کا ارتکاب، دوم زندگی کی امید پر توبہ نہ کرنا، سوم رحمت سے مایوس ہونا۔

حضرت حاتم اصم علیہ الرحمہ اور حضرت شقیق بلخی علیہ الرحمہ ترکوں کے خلاف ایک جہاد میں شریک تھے۔ سر کٹ رہے تھے اور تلواریں ٹوٹ کر گر رہی تھیں۔ اس دوران حضرت شقیق بلخی علیہ الرحمہ نے پوچھا آپ کیا محسوس کر رہے ہیں کیا وہ خوشی محسوس کر رہے ہو جو شب زفاف میں ہوئی تھی یا نہیں؟ فرمایا نہیں حضرت شقیق بلخی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم میں تو وہی لذت اور خوشی محسوس کر رہا ہوں کیونکہ اپنے مولا کے لئے جہاد میں شریک ہوں۔ اپنی ڈھال سر کے نیچے رکھی۔ صفوں کے درمیان میں سوگئے۔ جس سے یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ موت کا کوئی ڈر نہیں۔ بلکہ اسی کے شوق میں آیا ہوں۔

حضرت شقیق بلخی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اگر تو کسی کی حقیقت جاننا چاہے تو یہ دیکھ کہ اس سے اللہ تعالیٰ نے کیا وعدہ کیا ہے اور دنیا نے کیا وعدہ کیا ہے اور پھر اس کے دل کا اعتماد دونوں میں کس وعدہ پر زیادہ ہے یہی اس کی حقیقت ہو گی۔

حضرت شقیق بلخی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ انسان کا تقویٰ تین باتوں سے معلوم ہوتا ہے :

  1. وہ کیا لیتا ہے؟
  2. کن چیزوں سے اپنے آپ کو روکتا ہے؟
  3. کیا باتیں کرتا ہے؟

حضرت ذوالنّون مصری رضی اللہ عنہ

ان میں سے ابو الفیض ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ ہیں بعض ان کا نام ثوبان بن ابراہیم بتاتے ہیں اور بعض فیض بن ابراہیم ان کے والد نوبہ کے رہنے والے تھے انہوں نے 245 ہجری میں وفات پائی۔ تصوف میں فوقیت رکھنے والے اور علم و ورع، حال اور ادب کے لحاظ سے یکتائے روزگار تھے۔

حضرت ذوالنون مصری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میری تیس برس کی محنت سے ایک شہزادہ صحیح معنوں میں ہدایت یافتہ ہو سکا اور وہ بھی اس طرح کہ ایک دفعہ میری مسجد کے سامنے سے گزر رہا تھا تو میں اس وقت یہ جملہ کہہ رہا تھا کہ

’’کمزور کا طاقتور سے جنگ کرنا نہایت احمقانہ فعل ہے۔‘‘ یہ سن کر شہزادے نے کہا کہ میں آپ کے جملے کا مفہوم نہیں سمجھا، فرمایا کہ اس سے زیادہ احمق کون ہو سکتا ہے جو خدا سے جنگ کرے یہ سن کر وہ چلا گیا اور دوسرے دن آکر مجھ سے پوچھنے لگا کہ وصال خداوندی کے لئے کون سی راہ اختیار کی جائے، میں نے کہا کہ دو راہیں ہیں، ایک آسان اور دوسری مشکل، آسان تو یہ ہے کہ خواہشات دنیا اور معصیت کو چھوڑ دے اور مشکل راہ یہ ہے کہ خدا کے سوا سب سے کنارہ کش ہو جائے، اس نے عرض کیا کہ میں یہی مشکل راہ اختیار کرنا چاہتا ہوں اور اس کے بعد اپنی عبادت و ریاضت سے ابدالوں کے مقام تک پہنچ گیا۔

جب آپ بلند مراتب پر فائز ہوگئے تو لوگوں نے مراتب کی ناواقفیت کی بنا پر آپ کو زندیق کا خطاب دے کر خلیفہ وقت سے آپ کی شکایت کر دی، چنانچہ آپ کو بیڑیاں پہنا کر لے جایا جا رہا تھا تو ایک ضعیفہ نے کہا کہ خوفزدہ نہ ہونا کیونکہ وہ بھی تمہاری ہی طرح خدا کا ایک بندہ ہے، اسی وقت راہ میں ایک بہشتی نے آپ کو ٹھنڈے پانی سے سیراب کیا اور اس کے صلہ میں جب آپ نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ اس کو ایک دینار دے دو تو بہشتی نے عرض کیا کہ قیدیوں سے کچھ لینا بزدلی کی علامت ہے، اس کے بعد آپ کو دربار خلافت سے چالیس یوم کی قید ہوگئی اس عرصہ میں آپ کی ہمشیرہ روٹی کی ایک ٹکیا روزانہ آپ کے پاس لے کر جاتیں۔ لیکن رہائی کے بعد ہر یوم کے حساب سے چالیس روٹیاں آپ کے پاس محفوظ تھیں۔

کسی کمزور بدوی کو جو اہل اللہ میں سے تھا، طواف کعبہ کرتے دیکھ کر آپ نے فرمایا کہ کیا تو خدا کا محبوب ہے؟ اس نے اثبات میں جواب دیا پھر پوچھا کہ وہ محبوب تجھ سے قریب ہے یا دور؟ اس نے جواب دیا کہ قریب ہے پھرپوچھا کیا وہ تجھ سے موافقت کرتا ہے یا ناموافقت۔ اس نے عرض کیا کہ موافقت کرتا ہے تو آپ نے فرمایا کہ جب تو خدا کا محبوب بھی ہے اور وہ تیرے قریب و موافق بھی ہے پھر تو اس قدر کمزور کیوں ہے؟ اس نے جواب دیا کہ دور رہنے والوں کی نسبت وہ لوگ زیادہ حیران اور سرگرداں رہتے ہیں جنہیں قرب نصیب ہوتا ہے۔

آپ نے فرمایا کہ انسان پر چھ چیزوں کی وجہ سے تباہی آتی ہے۔

  1. اعمال صالحہ سے کوتاہی کرنا
  2. ابلیس کا فرمانبردار ہونا
  3. موت کو قریب نہ سمجھنا
  4. رضائے الٰہی کو چھوڑ کر مخلوق کی رضا مندی حاصل کرنا
  5. تقاضائے نفس پر سنت کو ترک کر دینا
  6. اکابرین کی غلطی کو سند بنا کر ان کے فضائل پر نظر نہ کرنا اور اپنی غلطی کو ان کے سر تھوپنا۔

پھر فرمایا کہ جس طرح ہر جرم کی ایک سزا ہوا کرتی ہے اسی طرح ذکر الٰہی سے غفلت کی سزا دنیاوی محبت ہے۔

پھر فرمایا کہ عارفین اس لئے زیادہ خائف رہتے ہیں کہ لمحہ بہ لمحہ قربِ الٰہی میں زیادتی ہوتی رہتی ہے اور عارف کی شناخت یہ ہے کہ مخلوق میں رہ کر بھی بیگانہ خلائق رہے۔ پھر فرمایا کہ محبت الٰہی کا مفہوم یہ ہے کہ جو چیزیں اس سے دور کر دینے والی ہوں ان سے کنارہ کش رہے، پھر فرمایا کہ مریض قلب کی چار علامتیں ہیں۔

  1. عبادت میں لذت کا نہ ہونا۔
  2. خدا سے خوفزدہ نہ ہونا
  3. دنیاوی امور سے عبرت حاصل نہ کرنا
  4. علم کی باتیں سننے کے بعد بھی ان پر عمل نہ کرنا

آپ نے فرمایا کہ قلب و روح سے خدا کا فرمانبردار بن جانے کو عبودیت کہا جاتا ہے پھر فرمایا کہ عوام معصیت سے اور خواص غفلت سے توبہ کرتے ہیں لیکن توبہ کی بھی دو قسمیں ہیں۔

  1. توبہ انابت، یعنی انسان کا خدا سے ڈر کر توبہ کرنا
  2. توبہ استجابت، بندے کا ندامت کی وجہ سے تائب ہونا یعنی اس پر نادم ہو کہ میری ریاضت، عظمت خداوندی کے سامنے کچھ بھی نہیں۔

آپ نے فرمایا کہ اخلاص میں جب تک صدق و صبر شامل نہ ہو اس وقت تک اخلاص مکمل نہیں ہوتا اور خود کو ابلیس سے محفوظ رکھنے کا نام بھی اخلاص ہے اور اہل اخلاص وہ ہوتے ہیں جو اپنی تعریف سے خوش اور اپنی برائی سے ناخوش نہ ہوں اور اپنے اعمال صالحہ کو اس طرح فراموش کر دیں کہ روزِ محشر اللہ تعالیٰ سے ان کا معاوضہ بھی طلب نہ کریں۔

کسی نے آپ سے عرض کیا کہ مجھے کوئی نصیحت فرمائیں تو آپ نے فرمایا کہ اپنے ظاہر کو خلق کے اور باطن خالق کے حوالے کر دو اور خدا سے ایسا تعلق قائم کرو جس کی وجہ سے وہ تمہیں مخلوق سے بے نیاز کردے، اور یقین پر کبھی شک کو ترجیح نہ دو اور جس وقت تک نفس اطاعت پر آمادہ نہ ہو مسلسل اس کی مخالفت کرتے رہو اور مصائب میں صبر کرتے ہوئے زندگی خدا کی یاد میں گزار دو، پھر دوسرے شخص کو یہ وصیت فرمائی کہ قلب کو ماضی و مستقبل کے چکر میں نہ ڈالو یعنی گزرے ہوئے اور آنے والے وقت کا تصور قلب سے نکال کر صرف حال کو غنیمت جانو۔

حضرت ذوالنون مصری علیہ الرحمۃ سے پوچھا گیا کہ کمینہ کون ہے؟ فرمایا جسے اللہ تک پہنچنے کا طریقہ معلوم نہ ہو اور کسی سے دریافت بھی نہ کرتا ہو۔

حضرت بایزید بسطامی رضی اللہ عنہ

انہیں میں سے ابو یزید طیفور بن عیسیٰ بسطامی علیہ الرحمۃ ہیں ان کے دادا پہلے مجوسی تھے پھر اسلام قبول کر لیا یہ تین بھائی تھے۔ آدم، طیفور اور علی، تینوں عابد و زاہد تھے۔ ان میں سے بایزید سب سے زیادہ جلیل القدر تھے۔ بعض کہتے ہیں ان کی وفات 261 ہجری میں ہوئی اور بعض کہتے ہیں کہ ان کی وفات 234 ہجری میں ہوئی۔

حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمۃ مکتب میں داخل ہوئے اور آپ نے سورہ لقمان کی یہ آیت پڑھی کہ

’’اَنِ اشْکُرْلِيْ وَلِوَالِدَیْک‘‘

(لقمان، 31 : 14)

(کہ تو میرا (بھی) شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی۔)

اس وقت اپنی والدہ سے آکر فرمایا کہ ’’مجھ سے دو ہستیوں کا شکر بیک وقت ادا نہیں ہوسکتا، لہٰذا آپ مجھے خدا سے طلب کر لیں تاکہ میں آپ کا شکر ادا کرتا رہوں، یا پھر خدا کے سپرد کر دیں تاکہ اس کے شکر میں مشغول ہو جاؤں‘‘ والدہ نے فرمایا کہ میں اپنے حقوق سے دستبردار ہو کر تجھے خدا کے سپرد کرتی ہوں۔ چنانچہ اس کے بعد آپ شام کی جانب نکل گئے اور وہیں ذکر و شغل کو جزوِ حیات بنا لیا اور مکمل تین سال شام کے میدانوں اور صحراؤں میں زندگی گزار دی، اور اس عرصہ میں یادِ الٰہی کی وجہ سے کھانا پینا سب ترک کر دیا، بلکہ ایک سو سترہ مشائخ سے نیاز حاصل کرکے ان کے فیوض سے سیراب ہوئے، انہی مشائخ میں حضرت امام جعفر الصادق علیہ الرحمۃ بھی شامل ہیں ایک مرتبہ آپ حضرت امام جعفر صادق علیہ الرحمۃ کی خدمت میں تھے تو انہوں نے فرمایا کہ اے بایزید فلاں طاق میں جو کتاب رکھی ہے وہ اٹھا لاؤ، آپ نے دریافت کیا وہ طاق کس جگہ ہے؟ امام جعفر الصادق نے فرمایا کہ اتنا عرصہ رہنے کے بعد بھی تم نے طاق نہیں دیکھا آپ نے عرض کیا کہ طاق تو کجا، میں نے تو آپ کے روبرو کبھی سر بھی نہیں اٹھایا، اس وقت امام جعفر صادق نے فرمایا کہ اب تم مکمل ہوچکے ہو لہٰذا بسطام واپس چلے جاؤ۔

ایک مقام پر آپ کسی بزرگ سے نیاز حاصل کرنے پہنچے تو جس وقت آپ ان کے نزدیک ہوگئے تو دیکھا کہ انہوں نے قبلہ کی جانب تھوک دیا، یہ دیکھ کر آپ ملاقات کئے بغیر واپس آگئے اور فرمایا کہ اگر وہ بزرگ طریقت کے درجوں کو جانتا تو شریعت کے منافی کام نہ کرتا۔ آپ کے ادب کا یہ عالم تھا کہ مسجد جاتے وقت راستے میں بھی نہ تھوکتے سفر حج میں چند قدموں کے بعد آپ نماز ادا کرتے ہوئے فرماتے کہ بیت اللہ دنیاوی بادشاہوں کا دربار نہیں جہاں ایک دم پہنچ جائے اس طرح آپ پورے بارہ سال میں مکہ معظمہ پہنچے۔

ایک مرتبہ راہ میں کتا ملا تو آپ نے دامن سمیٹ لیا جس پر کتے نے عرض کیا کہ آپ نے دامن کیوں بچایا؟ اس لئے کہ اگر میں بھیگا ہوا نہیں ہوں تو مجھ سے ناپاکی کا خطرہ نہیں اور اگر بھیگا ہوا ہوتا تو آپ اپنے کپڑے پاک کر سکتے تھے۔ لیکن یہ تکبر جس کا آپ نے مظاہرہ فرمایا یہ تو سات سمندروں کے پانی سے بھی پاک نہیں ہو سکتا، آپ نے فرمایا تو سچ کہتا ہے اس لئے کہ تیرا تو ظاہر نجس ہے اور میرا باطن، لہٰذا ہم دونوں کو ایک ساتھ رہنا چاہئے تاکہ کچھ پاکیزگی میرے باطن کو بھی حاصل ہو جائے، لیکن کتے نے کہا کہ ہم دونوں کا ساتھ رہنا ممکن نہیں کیونکہ میں مردود ہوں اور آپ مقبول بارگاہ، دوسرا یہ کہ میں دوسرے دن کے لئے ایک ہڈی بھی جمع نہیں کرتا اور آپ سال بھر کا غلہ جمع کرکے رکھتے ہیں، آپ نے فرمایا کہ صد حیف! جب میں کتے کے ہمراہ رہنے کے قابل بھی نہیں تو پھر خدا کا قرب کیسے حاصل ہو سکتا ہے؟ اور پاک ہے وہ اللہ جو بدترین مخلوق کی باتوں سے بہترین مخلوق کو درس عبرت دیتا ہے۔

حضرت احمد حضرویہ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ خواب میں جمال خداوندی سے میں مشرف ہوا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’تم سب تو مجھ سے اپنی ضروریات کی چیزیں طلب کرتے ہو لیکن بایزید ہم سے صرف ہمیں مانگتا ہے آپ فرمایا کرتے تھے کہ مجھ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عبادت و خدمت تو بہت ہے لیکن اگر تو ہماری ملاقات کا متمنی ہے تو بارگاہ میں وہ شے شفاعت کے لئے بھیج، جو ہمارے خزانے میں نہ ہو آپ نے سوال کیا کہ وہ کون سی شے ہے؟ فرمایا گیا کہ عجز و انکساری اور ذلت و غم حاصل کر کیونکہ ہمارا خزانہ ان چیزوں سے خالی ہے اور ان کو حاصل کرنے والے ہمارا قرب حاصل کر لیتے ہیں۔‘‘ آپ نے فرمایا کہ ایک دانہ معرفت میں جو لذت ہے وہ جنت کی نعمتوں میں کہاں اور پھر فرمایا کہ خدا کی یاد میں فنا ہو جانا زندہ جاوید ہو جانا ہے۔

آپ نے فرمایا کہ خدا کا طالب آخرت کی جانب بھی متوجہ نہیں ہوتا اور خدا سے محبت کرنے والا اپنی محبت کی بنا پر خدا ہی کی طرح یکتا ہو جاتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر پوری زندگی میں مجھ سے ایک نیک کام بھی ہو جاتا تو میں خوفزدہ نہ رہتا، پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سوال کیا کہ کیا خواہش رکھتے ہو؟ تو میں نے عرض کیا کہ جو میرے لائق ہو، فرمایا گیا کہ خود کو چھوڑ کر چلے آؤ۔

حضرت بایزید سے ان کی ابتداء اور زُہد کے متعلق سوال کیا گیا تو فرمایا زُہد کی کوئی منزل نہیں میں نے عرض کیا کیوں؟ تو فرمایا اس لئے کہ میں صرف تین دن تک زُہد میں رہا جب چوتھا دن ہوا تو میں اس سے نکل آیا۔ پہلے دن میں نے دنیا ومافیہا سے زُہد کیا دوسرے دن آخرت و مافیھا سے زہد کیا تیسرے دن اللہ کے ماسویٰ سے زُہد کیا۔ اور جب چوتھا دن ہوا تو اللہ کے سوا کچھ باقی نہ رہا اور میں دیوانہ وار پھرنے لگا۔ اچانک ہاتف کی آواز سنائی دی اے بایزید! تو ہمارے ساتھ رہنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ میں نے کہا میں یہی تو چاہتا ہوں۔ پھر ایک کہنے والے کو سنا کہہ رہا ہے کہ تونے اپنا مقصد پالیا ہے۔

عمی البسطامی علیہ الرحمۃ نے اپنے والد سے حکایت کی فرماتے ہیں کہ ایک رات بایزید ایک سرائے کی دیوار پر اللہ تعالیٰ کی یاد کے لئے گئے مگر صبح تک کوئی ذکر نہ کر سکے۔ میں نے سبب دریافت کیا تو فرمایا کہ بچپن میں ایک لفظ زبان پر جاری ہوگیا تھا۔ وہ یاد آگیا تھا اس لئے شرم آئی کہ اسی زبان سے اللہ تعالیٰ کی یاد کروں۔

ائمہ اربعہ رضی اللہ عنہم

1۔ حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ

آپ کا اسم گرامی نعمان، والد کا نام ثابت اور کنیت ابو حنیفہ ہے، آپ کو بڑے جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے شرف نیاز حاصل رہا اور حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ، حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ، اور حضرت بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ جیسی ہستیاں آپ کے تلامذہ میں شامل رہیں۔

آپ تین سو نفل ہر رات میں پڑھا کرتے تھے، ایک دن راستے میں آپ کے گزرتے ہوئے کسی عورت نے دوسری عورت کو اشارہ کرکے بتایا کہ یہ شخص رات میں پانچ سو نفل پڑھتا ہے، آپ نے ان کی گفتگو سن لی، پھر اسی رات سے پانچ سو نفل پڑھنا شروع کر دیئے پھر ایک دن راستہ میں کسی نے کہہ دیا کہ یہ ہر رات ایک ہزار نفل پڑھتے ہیں اور ساری رات بیدار رہتے ہیں۔ چنانچہ اسی رات سے آپ نے ایک ہزار نفل کا معمول بنا لیا اور فرمایا کہ آج سے عمر بھر پوری رات بیدار رہا کروں گا، جب آپ کے شاگرد نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ

’’بعض بندے اپنی اس تعریف کو پسند کرتے ہیں جو ان میں نہیں ہے اور میں ایسے گروہ میں شامل نہیں ہونا چاہتا‘‘ چنانچہ آپ مکمل چالیس سال تک عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا فرماتے رہے اور طویل سجدوں کی وجہ سے آپ کے گھٹنوں میں اونٹ کے گھٹنوں جیسے نشان پڑ گئے تھے۔

حضرت داؤد طائی علیہ الرحمۃ کہتے ہیں کہ میں نے بیس سال تک کبھی آپ کو تنہائی یا مجمع میں ننگے سر اور ٹانگیں پھیلائے نہیں دیکھا اور جب میں نے عرض کیا کہ تنہائی میں کبھی تو ٹانگیں سیدھی کر لیا کریں تو فرمایا کہ مجمع میں تو بندوں کا احترام کروں اور تنہائی میں خدا کا احترام نہ کروں؟ یہ میرے لئے ممکن نہیں۔

آپ اپنے ایک مقروض سے مطالبہ کے لئے گئے۔ اس آدمی کے گھر کے دروازے پر ایک درخت تھا۔ امام نے دھوپ میں کھڑے ہو کر مطالبہ کیا۔ کسی نے کہا آپ درخت کے سایہ میں کیوں نہیں کھڑے ہوتے؟ آپ نے فرمایا نہیں میرا اس کے مالک پر قرض ہے سائے میں کھڑا ہونا فائدہ اٹھانا ہے اور جو فائدہ بھی قرض سے حاصل کیا جائے وہ سود ہے۔ میں سود سے بہر صورت بچنا چاہتا ہوں۔

آپ رات بھر عبادت کرتے اور بار بار حضورِ الٰہی میں یہ عرض کرتے ’’اگر روز قیامت ابو حنیفہ کی بخشش ہوگئی تو بڑے تعجب کی بات ہوگی‘‘ یہ جملہ کہہ کر غش کھا کر گر جاتے، جب ہوش میں آتے پھر یہی جملہ دہراتے اور زار و قطار روتے تھے کبھی رات گھنٹوں اپنی داڑھی مبارک ہاتھ میں پکڑ کر زار و قطار روتے اور عرض کرتے مولا اپنے مجرم کو معاف فرما دے۔ آپ عشق حقیقی کی لذت و حلاوت کے لئے دیگر اکابرین کے علاوہ حضرت بہلول مجذوب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں بھی حاضر رہتے تھے۔

2۔ حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ

آپ دیگر مشائخ کی صحبت اختیار کرنے کے علاوہ بالخصوص حضرت محمد بن منکدر التابعی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں رہے اور آپ سے استفادہ روحانی کرتے رہے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ خود فرماتے ہیں :

’’میں جب بھی اپنے قلب میں شقاوت محسوس کرتا تو محمد بن منکدر رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کر لیتا۔ اس کا یہ اثر ہوتا کہ میرا نفس میری نظروں میں مبغوض ہو جاتا تھا۔‘‘

امام مالک علیہ الرحمۃ نے اپنے احباب کو یہ تاکید فرمائی تھی:

من تفقہ و لم یتصوف فقد تفسق ومن تصوف ولم یتفقہ فقد تزندق ومن جمع بینھما فقد تحقق۔

 ملا علی قاری، شرح مشکوٰۃ المصابیح، 1 : 313

’’جس نے فقہ کا علم سیکھا اور تصوف نہ پڑھا وہ فاسق ہو گیا اور جس نے تصوف کا علم پڑھا اور فقہ نہ پڑھی وہ زندیق بن گیا اور جس نے دونوں کو جمع کیا (حاصل کیا) وہ کامل بن گیا۔‘‘

امام مالک علیہ الرحمۃ کے اس فرمان سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ محدث وفقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ صرف تصوف کے مداح و مبلغ نہ تھے بلکہ بذات خود کامل صوفی تھے کیونکہ آپ کی ذات مقدسہ پر ’’اَنْ تَقُوْلُوْا مَالَا تَفْعَلُوْن‘‘ (الصف، 61 : 3) (تم وہ بات کہو جو خود نہیں کرتے) کا اطلاق درست نہیں۔

ابو جعفر منصور مسجد نبوی میں حضرت امام مالک علیہ الرحمۃ سے بلند آواز میں گفتگو کرنے لگا۔ حضرت امام مالک علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ اپنی آواز کو بلند نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اپنی آوازوں کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سے بلند نہ کرو اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آوازوں کو پست کرنے والوں سے فرمایا:

’’وہ لوگ جو اپنی آوازوں کو بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پست رکھتے ہیں۔ اسی طرح ایسے لوگوں کی مذمت فرمائی جو آداب بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لحاظ نہیں رکھتے تھے۔ قرآن پاک میں ہے وہ لوگ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دروازے کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر شعور نہیں رکھتے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا احترام آج بھی اسی طرح واجب ہے جس طرح ظاہری حیات مبارک میں تھا حضرت امام مالک کی یہ باتیں سن کر منصور خاموش ہوگیا۔

حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ محمد بن المنکدر رحمۃ اللہ علیہ اپنے دور کے شیخ القراء تھے۔ جب ان سے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں سوال کیا جاتا تو اتنا روتے کہ ان پر ترس آنے لگتا۔ حضرت عبد الرحمن بن قاسم جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ کرتے تو ان کی حالت یہ ہوتی جیسے ان کے چہرے کا سارا خون نچوڑ لیا گیا ہو۔ چہرے کی رنگت زرد ہو جاتی اور رعب و جلال حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کا منہ خشک ہو جاتا اور زبان تالو سے چپک جاتی تھی۔

حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے پاس لوگ کثرت سے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سننے کے لئے آنے لگے تو لوگوں نے مشورہ دیا کہ ایسے آدمی کو مقرر فرمائیں جو آپ سے سن کر لوگوں میں بآواز بلند بیان کرے۔ حضرت امام مالک نے ان سے فرمایا :

’’لوگو کلام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ ’’مسجد نبوی‘‘ اور ’’بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘کے تقدس میں فرق نہ آنے دو۔

حضرت عامر بن عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے سامنے جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ہوتا تو ان پر گریہ طاری ہو جاتا اور اتنا روتے کہ آنکھوں سے آنسو خشک ہو جاتے۔

حضرت امام مالک علیہ الرحمۃ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرنے سے پہلے وضو کرتے، عمدہ لباس پہن کر مؤدب بیٹھ کر حدیث بیان کرتے تھے۔ جب ان سے اس اہتمام کے بارے میں پوچھا گیا آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام کی تعظیم و توقیر ضروری ہے۔

حضرت امام مالک علیہ الرحمۃ درس حدیث دے رہے تھے اس دوران بچھونے سولہ مرتبہ کاٹا، ڈنگ کی تکلیف سے آپ کا رنگ بدل جاتا تھا لیکن آپ کے طرزِ بیان میں ذرا بھی تبدیلی نہ آتی۔ درس سے فارغ ہونے کے بعد حضرت عبد اللہ ابن مبارک رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ آج دورانِ درس آپ کی وہ حالت دیکھی جو اس سے پہلے نہ دیکھی تھی۔ اس پر آپ نے بچھو کے کاٹنے کا واقعہ بیان فرماتے ہوئے کہا کہ عظمت و جلال نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اس بات پر مجبور کئے رکھا کہ برابر حدیث پڑھتا رہوں اور اس اذّیت پر صبر کروں۔

3۔ حضرت امام شافعی رضی اللہ عنہ

آپ کو علوم و معارف میں وہ کمال نصیب ہوا کہ آپ نے تیرہ سال کی عمر میں فرما دیا تھا کہ

’’جو کچھ پوچھنا چاہو مجھ سے پوچھ لو‘‘ اور پندرہ سال کی عمر میں فتویٰ دینا شروع کر دیا تھا۔

ابتدائی دور میں آپ کسی کی شادی یا دعوت میں شریک نہیں ہوتے تھے اور مخلوق سے کنارہ کش ہو کر ذکرِ الٰہی میں مشغول رہتے، آپ کے روحانی احوال کی تبدیلی کا باعث حضرت شیبان راعی علیہ الرحمۃ کی صحبت اور زیارت بنی ان کی خدمت میں حاضر ہو کر فیوضِ باطنی سے فیض یاب ہوئے اور آہستہ آہستہ اَوج کمال تک رسائی حاصل کرلی کہ اپنے دور کے تمام مشائخ کو پیچھے چھوڑ دیا، حضرت عبد اللہ انصاری رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ گو میں شافعی المذھب نہیں لیکن امام صاحب کے بلند مراتب کی وجہ سے ان کے بڑے عقیدت مندوں میں سے ہوں۔ آپ سادات کی بہت تعظیم کرتے تھے چنانچہ ایک مرتبہ دورانِ سبق سادات کے کم سن بچے کھیل رہے تھے جب بھی وہ نزدیک آتے آپ فورًا تعظیمًا کھڑے ہو جاتے دس بارہ مرتبہ یہی صورت پیش آئی اور آپ ہر بار دورانِ تدریس کھڑے ہوتے رہے آپ فرماتے ہیں کہ عالم کے لئے کچھ نیک اعمال ایسے بھی ہونے چاہیں جو اس کے اور اللہ کے درمیان پردہ راز میں ہوں کیونکہ جو علم یا عمل لوگوں کے سامنے ظاہر ہو جاتا ہے وہ آخرت میں بہت کم فائدہ دیتا ہے۔

4۔ حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ

آپ نے علومِ شریعت کے اَئمہ و اساتذہ سے اِکتسابِ فیض کے علاوہ عمر بھر اپنے دور کے اکابر صوفیا کی صحبت و مجلس کا معمول بھی اپنائے رکھا، حضرت ذوالنون مصری علیہ الرحمۃ، داؤد طائی علیہ الرحمۃ، سری سقطی علیہ الرحمۃ، معروف کرخی علیہ الرحمۃ اور بشر حافی علیہ الرحمۃ جیسے عشاق اور عرفاء کی صحبت میں بیٹھتے تھے۔

حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمۃ سے جب لوگوں نے محبت کا مفہوم پوچھا تو فرمایا کہ جب تک حضرت بشر حافی علیہ الرحمۃ حیات ہیں ان سے دریافت کرو، پھر سوال کیا گیا کہ زُہد کس کو کہتے ہیں فرمایا کہ عوام کا زُہد حرام کو ترک کر دینا ہے، اور خواص کا زُہد حلال میں زیادتی کی طمع نہ کرنا ہے اور عارفین کے زہد کو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

امام احمد بن حنبل علیہ الرحمۃ جب کسی طالب علم کو شب بیداری کرتے ہوئے نہ پاتے تو اس کو پڑھانا چھوڑ دیتے۔ ایک رات ابو عصمہ علیہ الرحمۃ ان کے یہاں شب باش ہوا تو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے رات کو وضو کے لئے اس کے پاس پانی رکھ دیا۔

پھر قبل از فجر اس کے پاس آئے اور دیکھا کہ وہ سویا ہوا ہے اور پانی اسی طرح پڑا ہے۔ انہوں نے اسے جگایا اور اس سے دریافت کیا کہ اے ابو عصمہ رحمۃ اللہ علیہ تو یہاں کیوں آیا ہے؟ اس نے جواب دیا اے امام آپ سے علم حدیث حاصل کرنے کے لئے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تو علم حدیث کیا حاصل کرے گا؟ جب کہ تو رات کو تہجد تک نہیں پڑھتا۔ پس جدھر سے آیا ہے ادھر کا راستہ لے۔

حضرت معروف کرخی رضی اللہ عنہ

آپ کا اسم گرامی ابو محفوظ معروف بن فیروز کرخی ہے بڑے مستجاب الدعوات تھے لوگ ان کی قبر مبارک کے توسل سے شفا پاتے تھے۔ حضرت امام علی بن موسیٰ رضا رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ آپ کی وفات بعض کے نزدیک 200 تا 201 ہجری میں ہوئی، آپ حضرت سری السقطی علیہ الرحمۃ کے شیخ تھے۔

آپ طریقت و حقیقت کے مقتدا اور پیشوا تھے، لیکن آپ کے والد نصرانی تھے اور جب آپ کو داخل مکتب کیا گیا تو معلم نے یہ درس دینا چاہا کہ ’’ثالث ثلاثۃ‘‘ (اللہ تین میں سے ایک ہے) آپ نے کہا ’’ھو اللہ احد‘‘ (الاخلاص، 112 : 1) (وہ اللہ ایک ہی ہے) زد و کوب کرنے کے باوجود آپ اللہ کو ایک ہی کہتے رہے پھر وہاں سے فرار ہو کر حضرت امام علی بن موسیٰ رضا رضی اللہ عنہ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہوئے اور انہی سے بیعت حاصل کی۔ فرار ہونے کے بعد والدین اور استاد کو خیال آیا کہ معروف خواہ کسی مذہب پر بھی رہتا مگر کاش ہمارے پاس ہی رہتا کچھ عرصہ کے بعد آپ گھر لوٹے تو آپ کے احوال سے متاثر ہو کر والدین بھی مسلمان ہوگئے۔

آپ اکثر نفس سے فرمایا کرتے تھے کہ مجھے چھوڑ تاکہ تجھے بھی چھٹکارا مل جائے، فرمایا کہ اس بات سے ڈرتے رہو کہ خدا کی نظریں تم پر ہیں۔

حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ کو خواب میں دیکھا ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے آپ عرش کے نیچے ہیں اور اللہ تعالیٰ ملائکہ سے پوچھ رہے ہیں کہ یہ کون ہیں؟ تو وہ عرض کرتے ہیں یا اللہ تو بہتر جانتا ہے پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں معروف کرخی ہیں اور یہ میری محبت کے نشہ میں چور ہے اب میرے ساتھ ملاقات کے بغیر ہوش میں نہیں آئے گا۔

حضرت معروف کرخی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں مجھے داؤد طائی علیہ الرحمۃ کے کسی مرید نے کہا خبردار عمل نہ چھوڑنا کیونکہ یہی عمل تجھے اللہ تعالیٰ کی رضا کے قریب کر دے گا میں نے پوچھا یہ کون سا عمل ہے فرمایا ہر وقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں رہنا۔ مسلمانوں کی خدمت کرنا اور ان کے لئے خلوص دل سے بھلائی چاہنا۔

حضرت محمد بن الحسین علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ میرے والد محترم نے حضرت معروف کرخی علیہ الرحمۃ کو بعد از وصال خواب میں دیکھا تو پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا ہے؟ جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے معاف فرما دیا ہے۔ پھر پوچھا کیا آپ کے زُہد اور پرہیزگاری کی وجہ سے معاف فرمایا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں بلکہ اس لئے کہ میں نے حضرت ابن سماک کی نصیحت کو قبول کیا تھا فقر کو اختیار کیا اور فقیروں سے محبت کی تھی۔

حضرت معروف کرخی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ میں کوفہ سے گزر رہا تھا ابن سماک علیہ الرحمۃ لوگوں کو نصیحت فرما رہے تھے میں بھی ان کے پاس کھڑا ہوگیا۔ انہوں نے دورانِ وعظ فرمایا :

’’جس نے اللہ تعالیٰ سے پوری طرح منہ پھیر لیا اللہ تعالیٰ اس سے تھوڑا سا منہ پھیر لیتے ہیں اور جو دل سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے ساتھ اس کی طرف پورے متوجہ ہوتے ہیں اور تمام دنیا کی توجہ اس کی طرف پھیر دیتے ہیں۔ اور جو کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف اور کبھی دنیا کی طرف متوجہ ہو تو ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی وقت اس پر رحم فرما دیں۔‘‘ اس کلام کا مجھ پر بہت اثر ہوا لہٰذا میں اللہ کی طرف متوجہ ہوا اور بعد میں انپے آقا علی بن موسیٰ الرضا کی خدمت کے سوا سب کچھ ترک کر دیا۔ میں نے اس کا ذکر آقا سے کیا تو انہوں نے فرمایا اگر تو اس نصیحت پر عمل کرے تو یہی تیرے لئے کافی ہے۔

حضرت معروف کرخی علیہ الرحمۃ کا گزر ایک سقا پر ہوا۔ وہ کہہ رہا تھا جو میرا پانی پیئے گا اس پر اللہ کی رحمت ہوگی۔ حضرت معروف کرخی علیہ الرحمۃ اس دن روزے سے تھے۔ آپ نے آگے بڑھ کر پانی پی لیا۔ کسی نے کہا آپ کا تو روزہ تھا۔ فرمایا ہاں روزہ تھا مگر اس کی دعا کی امید میں میں نے ایسا کیا ہے روزہ پھر رکھ لوں گا۔

حضرت معروف کرخی علیہ الرحمۃ جب قریب الموت تھے تو کہا گیا کچھ وصیت کریں تو فرمایا۔ جب مر جاؤں تو میری قمیض کو خیرات کر دینا کیونکہ جس طرح دنیا میں ننگا آیا تھا اسی طرح ننگا جانا چاہتا ہوں۔

حضرت سری سقطی رضی اللہ عنہ

آپ حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمۃ کے خالو اور شیخ تھے اور حضرت معروف کرخی علیہ الرحمۃ کے مرید تھے۔ ورع، احوال سنت اور علوم توحید میں یکتائے روزگار تھے۔ آپ کی وفات 257ھ میں ہوئی۔

آپ نے حضرت یعقوب علیہ السلام سے خواب میں پوچھا کہ جب آپ خدا سے محبت کرتے تھے تو حضرت یوسف علیہ السلام سے محبت کیوں تھی؟ اسی وقت ندائے غیبی آئی کہ اے سری! پاس ادب ملحوظ رہے، پھر اس کے بعد جب آپ کو خواب میں حسن یوسف کا دیدار کرایا گیا تو چیخ مار کر 13 یوم غشی کی حالت میں پڑے رہے۔

حضرت سری سقطی علیہ الرحمۃ بازار میں تجارت کیا کرتے تھے۔ ایک دن حضرت معروف کرخی علیہ الرحمۃ اپنے ساتھ ایک یتیم بچہ لے کر حضرت سری سقطی علیہ الرحمۃ کے پاس آئے اور فرمایا اس کے پہننے کے لئے کپڑا دو حضرت سری سقطی علیہ الرحمۃ نے کپڑا دیا اور حضرت معروف کرخی علیہ الرحمۃ نے خوش ہو کر فرمایا خدا تجھے دنیا سے متنفر کرے اور جس مصیبت میں مبتلا ہے اللہ تعالیٰ راحت دے۔ جب حضرت سری سقطی علیہ الرحمۃ دکان سے اٹھے تو دنیا سے بڑھ کر کسی چیز کا بغض ان کے دل میں نہ تھا یہ تمام کیفیت اور حالت حضرت معروف کرخی علیہ الرحمۃ کی دعا کا نتیجہ تھی۔

حضرت جنید علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سری سقطی علیہ الرحمۃ سے زیادہ عبادت گزار کسی کو نہیں دیکھا آپ کی عمر کے اٹھانوے سال بیت گئے سوائے مرض موت کے انہیں کبھی لیٹا ہوا نہیں دیکھا گیا۔ حضرت سری سقطی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ تصوف تین باتوں میں پایا جاتا ہے۔

  1. صوفی کا نورِ معرفت اس کی پرہیزگاری کے نور کو نہ بجھا دے۔
  2. اپنے باطن سے کوئی بات نہ کہے جو نص قرآنی یا نص سنت کے خلاف ہو۔
  3. کرامات دکھانے کی خاطر کوئی غیر محتاط بات نہ کر جائے۔

حضرت سری سقطی علیہ الرحمۃ سے پوچھا گیا : محبت کیا چیز ہے؟ بعض نے موافقت بعض نے ایثار کہا اور کسی نے کچھ کہا۔ حضرت سری سقطی علیہ الرحمۃ نے بازو کی کھال پکڑ کر کھینچی مگر وہ نہ کھینچی گئی اور پھر فرمایا اللہ تعالیٰ کی عزت و جلال کی قسم! اگر میں یہ کہوں کہ اللہ کی محبت کی وجہ سے کھال اس ہڈی پر خشک ہو گئی ہے تو یہ سچ ہوگا۔ اس کے بعد آپ بے ہوش ہوگئے اور ان کا گول چہرہ چاند کی طرح چمکنے لگا حالانکہ آپ کا رنگ سانولا تھا۔

حضرت سری سقطی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ تیس سال سے ایک بار الحمدللہ کہنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے معافی چاہ رہا ہوں۔ کسی نے پوچھا کیوں؟ تو فرمایا بغداد میں آگ لگ گئی تھی تو ایک آدمی نے بتایا کہ آپ کی دکان بچ گئی ہے اس پر میں نے الحمدللہ کہا تھا اور میں نادم ہوں کہ جس مصیبت میں مسلمان مبتلا ہیں اس سے اپنے نفس کے لئے بھلائی چاہی تھی۔ حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دن میں کئی بار اپنی ناک کو دیکھتا ہوں کہ کہیں سیاہ تو نہیں ہوگئی مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ میرے اعمال کی وجہ سے میرا چہرہ سیاہ نہ فرما دیں۔

حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ میں بغداد کے علاوہ کسی اور شہر میں مرنا چاہتا ہوں کسی نے پوچھا کیوں؟ آپ نے فرمایا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں میری قبر مجھے قبول نہ کرے تو اپنے شہر میں رسوا نہ ہو جاؤں۔ حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : خدایا تو جو چاہے مجھے عذاب دے مگر اپنے سے محجوب رہنے کی ذلت کا عذاب نہ دے۔

ایک روز حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ رو رہے تھے۔ حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ نے وجہ پوچھی تو فرمایا کل رات بچی نے آکر کہا تھا کہ ابا جان بہت گرمی ہے اور وہ ٹھنڈے پانی کا کوزہ لٹکا کر چلی گئی۔ میری آنکھ لگ گئی۔ خواب میں ایک خوبصورت لڑکی آسمان سے اتری۔ اس سے پوچھا تم کس کی لڑکی ہو؟ اس نے جواب دیا جو کوزوں میں ٹھنڈا پانی نہ پیتا ہو۔ اس پر میں نے کوزہ زمین پر دے مارا اور اس کو توڑ ڈالا۔

حضرت جنید بغدادی رضی اللہ عنہ

ابو القاسم جنید بن محمد بغدادی صوفیاء کے سردار اور امام تھے۔ نہاوند کے رہنے والے تھے مگر پیدائش عراق میں ہوئی آپ کے والد کانچ بیچا کرتے تھے اس لئے انہیں قوریری کہا جانے لگا۔ بیس سال کی عمر میں اپنے خالو حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ، حارث محاسبی اور دیگر اکابر کی صحبت میں رہے۔ 297 ہجری میں وفات پائی۔

آپ نے بغداد میں آئینہ سازی کی دکان قائم کی ہوئی تھی، ایک پردہ ڈال کر 400 رکعت نماز یومیہ ادا کرتے تھے، اور کچھ عرصہ بعد دکان کو خیر باد کہہ کر حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ کے مکان کے ایک حجرے میں گوشہ نشین ہوگئے اور تیس سال تک عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا کرتے رہے۔ رات بھر عبادت میں مشغول رہتے تھے چالیس سال کے بعد یہ خیال ہوا کہ اب میں معراج کمال تک پہنچ گیا ہوں چنانچہ غیب سے ندا آئی کہ

’’اے جنید اب وہ وقت آپہنچا ہے کہ تیرے گلے میں زنار ڈال دی جائے‘‘ آپ نے عرض کیا اے باری تعالیٰ مجھ سے کیا قصور سرزد ہوا ہے؟ جواب ملا

’’کہ تیرا وجود ابھی تک باقی ہے‘‘ یہ سن کر آپ نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا کہ جو بندہ وصال کا اہل ثابت نہ ہو سکا اس کی تمام نیکیاں داخل معصیت ہوگئیں۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے تمام مدارج صرف فاقہ کشی، ترک حب دنیا اور شب بیداری سے حاصل ہوئے۔

کسی سائل نے آپ سے سوال کیا تو آپ کو یہ خیال پیدا ہوا کہ جب یہ شخص مزدوری کر سکتا ہے تو اس کو سوال کرنا جائز نہیں لیکن اس شب خواب دیکھا کہ سرپوش سے ڈھکا ہوا ایک برتن آپ کے سامنے رکھا ہوا ہے اور حکم دیا جا رہا ہے کہ اس کو کھولو چنانچہ جس وقت آپ نے کھول کر دیکھا تو وہی سائل مردہ پڑا ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میں تو مردار خور نہیں ہوں۔ حکم ہوا کہ پھر دن میں اس کو کیوں کھایا تھا؟ آپ کو خیال آیا کہ میں نے غیبت کی تھی اور یہ اس جرم کی سزا ہے۔ ایک مرید بصرہ میں گوشہ نشینی اختیار کئے ہوئے تھے اور اسی دوران اس کو اپنے کسی گناہ کا خیال آگیا، جس کی وجہ سے تین یوم تک اس کا چہرہ سیاہ رہا اور تین روز کے بعد جب وہی سیاہی دور ہوگئی تو حضرت جنید کا مکتوب پہنچا کہ بارگاہ الٰہی میں مودبانہ قدم رکھنا چاہئے، تیرے چہرے کی سیاہی دھونے میں مجھے تین یوم تک دھوبی کا کام کرنا پڑا ہے۔ کسی مرید سے گستاخی سرزد ہوگئی اور شرمندگی کی وجہ سے شونیزہ کی مسجد میں جا چھپا جب ایک مرتبہ اس کے پاس پہنچے تو وہ خوفزدہ ہو کر ایسا گرا کہ سر سے خون بہنے لگا اور ہر قطرہ خون سے اللہ اللہ کی آواز آنے لگی۔ آپ نے فرمایا چھوٹے چھوٹے لڑکے بھی تیرے ایسے ذکر میں مساوی ہیں، یہ سن کر وہ مرید اسی وقت تڑپ کر مرگیا اور آپ نے فرمایا کہ اگر محبت کا تعلق کسی شئے سے قائم ہو تو اس شئے کی فنائیت سے محبت بھی فنا ہو جاتی ہے اور محبت کا حصول اس وقت تک ممکن نہیں جب تک خود کو فنا نہ کرلے۔

آپ نے فرمایا کہ اشغال دنیاوی ترک کر دینے کا نام عبودیت ہے اور زہد کی انتہا افلاس ہے۔

حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے تمام مخلوق کے اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے راستے بند ہیں ماسوائے ان لوگوں کے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقش قدم پر چلیں۔

حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر کوئی سچی طلب والا دس لاکھ سال تک بھی اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہے اور پھر صرف ایک لحظہ کے لئے منہ موڑ لے تو اس لمحہ کے دوران وہ جو کچھ کھو بیٹھتا ہے وہ بمقابلہ اس کے جو اس نے حاصل کیا کہیں زیادہ ہے۔ حضرت جنید بغدادی فرماتے تھے کہ ہمارا مذہب کتاب و سنت کے اصولوں کا پابند ہے اور فرمایا ہمارا یہ علم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کی وجہ سے مضبوط ہوتا ہے۔

آپ سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے یہ حکم کہاں سے حاصل کیا ہے، اپنے گھر کی سیڑھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا اس سیڑھی کے نیچے تیس سال بیٹھے رہنے سے حاصل کیا ہے۔ حضرت جنید بغدادی کے ہاتھ میں تسبیح دیکھی گئی تو کسی نے عرض کیا اس قدر شرف کے باوجود آپ ہاتھ میں تسبیح رکھتے ہیں۔

آپ نے جواب دیا میں اس راستے کو جس پر چلنے سے اللہ تعالیٰ تک پہنچا ہوں کیسے چھوڑ دوں۔ جب حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات ہوئی انہوں نے قرآن مجید کو ختم کرکے پھر سے سورہ بقرہ شروع فرمائی اور ستر آیات پڑھ کر خالق حقیقی سے جا ملے۔

حضرت غوثِ اعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ

آپ کا اسم گرامی ’’عبدالقادر‘‘ کنیت ابو محمد اور لقب محی الدین تھا والد گرامی کا نام ابو صالح موسیٰ جنگی دوست اور والدہ ماجدہ کا نام نامی امتہ الجبار الخیر فاطمہ تھا۔

حضرت قطب ربانی، محبوب سبحانی سیدنا ابو محمد محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے خرقہ خلافت حضرت ابو سعید المبارک المخزومی رحمۃ اللہ علیہ سے پہنا اور ان کا سلسلہ خلافت مشائخ کبار کے واسطوں سے سیدنا علی المرتضی شیر خداص سے جا ملتا ہے۔

حضور قدس سرہ العزیز کی ولادت باسعادت کے متعلق تمام تذکرہ نویسوں اور سوانح نگاروں بلکہ جملہ محققین نے متفقہ طور پر بیان کیا ہے کہ آپ کی ولادت ملک ایران کے صوبہ طبرستان کے علاقہ گیلان (جیلان) کے نیف نامی قصبہ میں گیارہ ربیع الثانی 470 ہجری کو سادات حسنی و حسینی کے ایک خاندان میں ہوئی۔ اس وجہ سے آپ گیلانی یا جیلانی کے لقب سے معروف ہوئے اور بغداد شریف میں گیارہ ربیع الثانی 561 ہجری 91 سال کی عمر پا کر واصل بحق ہوئے۔

حضور غوث اعظم قدس سرہ العزیز والد محترم کی طرف سے حسنی اور والدہ ماجدہ کی طرف سے حسینی سید تھے۔

تذکرہ الصوفیہ مؤلفہ حضرت محمد نعیم الجولانی رحمۃ اللہ علیہ میں درج ہے کہ ایک روز حضرت ابو القاسم جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ مسجد میں برسر منبر وعظ فرما رہے تھے کہ دفعتًا آپ کو یہ خیال گزرا کہ اولیاء کرام میں سے آج تک میرے ہم مرتبہ یا ہم پلہ یا برتر و بالا صاحب کشف و کرامت بزرگ کامل نہ ہی کوئی ہوا ہے، نہ قیامت تک ہوگا۔ چنانچہ مجلس وعظ میں اس خیال کے اظہار کا ارادہ کیا ہی تھا۔ تاحال کوئی کلمہ زبان مبارک سے نہ نکالا تھا کہ حضرت سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی روح مقدس نے آپ کے باطن پر تجلی فرمائی۔ جس کی وجہ سے بیہوش ہو کر منبر سے نیچے گر پڑے، دیر کے بعد جب ہوش میں آئے فورًا فرمانے لگے کہ مجھ سے افضل و اعلی، بلند و برتر مراتب و منازل کا حامل ایک فرد حضرت غوث الاعظم عبدالقادر جیلانی الحسنی الحسینی قدس سرہ العزیز بغداد (عراق) میں ظہور پذیر ہوں گے جن کا سورج ابدالاباد و فلک الافلاک پر جلوہ ریز ہوگا اور کبھی بھی غروب نہ ہوگا۔ تمام مقربین درگاہ الٰہی سے ان کی شان اور ان کا مرتبہ بلند ترین ہوگا۔

شیخ ابو سلیمان المنجی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک وقت شیخ عقیل کی خدمت میں حاضر تھا آپ سے اس وقت بیان کیا گیا کہ بغداد میں ایک شریف نوجوان کی جس کا نام سید عبدالقادر ہے بڑی شہرت ہو رہی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس کی شہرت آسمان میں اس سے بھی زیادہ ہے ملاء الاعلی میں یہ نوجوان باز اشہب کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔ عنقریب زمانہ آئے گا کہ امر ولایت انہی کی طرف منتہی ہو جائے گا اور انہی سے صادر ہوا کرے گا۔

ابن نجار نے اپنی تاریخ میں بیان کیا ہے کہ میں نے ابو شجاع کی تاریخ میں دیکھا ہے وہ لکھتے ہیں کہ شیخ عبدالقادر جیلانی شیخ حماد کی خدمت میں تشریف لا کر مؤدب ہو کر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد تشریف لے گئے تو آپ کے شیخ حضرت حماد فرمانے لگے کہ اس عجمی کا مرتبہ بہت عالی ہوگا حتی کہ اس کا قدم اولیائے زمانہ کی گردن پر رکھا جائے گا۔

ایک وقت آپ کے شیخ، شیخ حماد سے آپ کا ذکر کیا گیا آپ اس وقت عالم شباب میں تھے تو آنحضرت نے آپ قدس سرہ العزیز کی نسبت فرمایا کہ میں نے اس کے سر پر دو جھنڈے دیکھے ہیں جو زمین سے لے کر ملکوت اعلی تک پہنچتے ہیں اور افق اعلی میں ان کے نام کی بہت شہرت ہے۔

شیخ عبدالرحمن طفسونجی نے فرمایا کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز ہمارے شیخ ابو الوفا علیہ الرحمہ کی خدمت بابرکت میں تشریف لایا کرتے تھے آپ قدس سرہ العزیز اس وقت عالم شباب میں تھے۔ جب کبھی بھی ہمارے شیخ کی خدمت میں تشریف لاتے تو شیخ موصوف ان کی تعظیم کے لئے اٹھتے اور حاضرین سے بھی فرماتے کہ ولی اللہ کی تعظیم کے لئے اٹھو بعض اوقات آپ پانچ قدم آپ کے استقبال کے لئے بھی آگے بڑھتے۔

ایک دفعہ لوگوں نے آپ کی اس درجہ تعظیم کرنے کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا یہ نوجوان ایک عظیم الشان شخص ہوگا۔ جب اس کا وقت آئے گا تو ہر خاص و عام اس کی طرف رجوع کرے گا۔

اس وقت ہمارے شیخ نے یہ بھی فرمایا کہ بغداد میں میں انہیں دیکھ رہا ہوں ایک مجمع کثیر میں قَدَمِیْ ہٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِّی اللہ (قلائد الجواہر : 78) کہہ رہے ہیں۔ وہ اپنے اس قول میں حق بجانب ہوں گے اور تمام اولیاء وقت کی گردنیں ان کے سامنے نیچی ہوں گی۔ یہ سب اولیاء کے قطب ہوں گے۔ تم میں سے جو کوئی ان کا وقت پائے تو اسے چاہئے کہ ان کی خدمت کو اپنے اوپر لازم کرلے۔

قدوۃ العارفین شیخ ابو سعید قیلوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کا مقام مع اللہ وفی اللہ و باللہ (قلائد الجواہر : 78) تھا جس کے سامنے بڑی بڑی قوتیں بیکار تھیں، آپ بہت سے متقدمین میں سے سبقت لے کر ایسے مقام پر پہنچے تھے کہ جہاں تنزل ممکن نہیں، خدائے تعالیٰ نے آپ کی تحقیق و تدقیق کی وجہ سے آپ کو بہت بڑے مقام پر پہنچایا تھا۔

موصوف الصدر رحمۃ اللہ علیہ نے پھر فرمایا ہے

’’مروی ہے کہ جب شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز نے قَدَمِیْ ہٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِّی اللہ (قلائد الجواہر : 78) فرمایا تو اس وقت آپ کے دل پر تجلیات الٰہی ہو رہی تھیں اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے آپ کو ایک خلعت بھیجا گیا تھا یہ خلعت ملائکہ مقربین نے لا کر اولیائے کرام کے مجمع عام میں آپ کو پہنایا۔ اس وقت ملائکہ اور رجال غیب آپ کی مجلس کے گردا گرد صف بصف ہوا میں اس طرح کھڑے ہوئے تھے کہ آسمان کے کنارے نظر نہیں آسکتے تھے۔ اس وقت روئے زمین پر کوئی ولی ایسا نہیں تھا کہ جس نے اپنی گردن نہ جھکائی ہو۔

شیخ بقا بن بطو النہر مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ابراہیم الاغرب ابن شیخ ابی الرفاعی رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں کہ میرے والد نے میرے ماموں حضرت شیخ احمد الرفاعی رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز نے جو قَدَمِیْ ہٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِّی اللہ (قلائد الجواہر : 78) فرمایا ہے تو کیا آپ فی الواقع اس کے کہنے پر مامور تھے بھی کہ نہیں؟ آپ نے فرمایا : بے شک وہ اس کے کہنے پر مامور تھے۔

شیخ الاصفیاء حضرت شہاب الدین عمر السہروردی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ 506 ہجری میں میرے عم بزرگوار حضرت شیخ ابو نجیب عبد القاہر السہروردی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی خدمت میں تشریف لائے۔ میں بھی اس وقت آپ کے ساتھ تھا۔ میرے عم بزرگ جب تک آپ کی خدمت میں بیٹھے رہے اس وقت تک آپ نہایت خاموش و مودب رہ کر آپ کا کلام سنتے رہے پھر ہم وہاں سے رخصت ہو کر مدرسہ نظامیہ کو جانے لگے تو میں نے راستہ میں آپ سے اس کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا کہ میں آپ کا کیوں ادب نہ کروں، حالانکہ آپ کو وجود تام اور تصرف کامل عطا کیا گیا ہے اور عالم ملکوت میں آپ پر فخر کیا جاتا ہے۔ عالم کون میں آپ اس وقت منفرد ہیں میں ایسے شخص کا کیونکر ادب نہ کروں کہ جس کو خدا تعالیٰ نے میرے اور تمام اولیاء کے دل اور ان کے حال و احوال پر قابو دیا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو انہیں روک لیں اور چاہیں تو انہیں چھوڑ دیں۔

شیخ عبد الرحمن بن ابو الحسن علی بطانحی الرفاعی رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں کہ جب میں بغداد گیا تو حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی خدمت اقدس میں بھی حاضر ہوا اور جب آپ کے حال اور آپ کی فراغت قلبی وغیرہ کے علاوہ آپ کے اور دیگر حالات کو میں نے دیکھا تو میں حیران رہ گیا جب واپس آیا اور اپنے ماموں بزرگوار کو اس کی اطلاع دی تو وہ فرمانے لگے کہ میرے فرزند حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز جیسی لیاقت کس کو نصیب ہے اور جس حال پر وہ ہیں کون رہ سکتا ہے اور جہاں تک وہ پہنچے ہیں کون پہنچ سکتا ہے؟ حضرت شیخ عدی بن البرکات مسافر رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے یں کہ میں نے اپنے عم بزرگ شیخ عدی بن مسافر رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ اس سے پہلے بجز حضرت شیخ عبدالقادر قدس سرہ العزیز کے اور بھی کسی شیخ نے ’’قَدَمِیْ ہٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِّی اللہ‘‘ (قلائد الجواہر : 78) کہا ہے آپ نے فرمایا نہیں۔ میں نے پوچھا اس کے معنی کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا اس سے مقام فردیت مراد ہے۔ میں نے کہا کیا ہر زمانہ میں فرد ہوتا ہے، آپ نے فرمایا ہاں مگر بجز حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کے اور کسی فرد کو اس کے کہنے کا حکم نہیں ہوا۔ پھر میں نے عرض کیا کیا آپ اس کے کہنے پر مامور ہوئے تھے؟ آپ نے فرمایا ہاں، وہ اس کے کہنے پر مامور ہوئے تھے اور تمام اولیاء نے اپنے سر جھکائے۔ دیکھو فرشتوں نے بھی حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ تب ہی کیا جبکہ خداوند تعالیٰ نے انہیں حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا۔

حضرت شیخ علی بن ہیتی رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں اور شیخ بقا بن بطو رحمۃ اللہ علیہ آپ قدس سرہ العزیز کے ساتھ حضرت امام احمد بن حنبل کے مزار اقدس پر زیارت قبر کے لئے گئے۔ اس وقت میں نے مشاہدہ کیا کہ امام موصوف رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی قبر سے نکل کر آپ کو اپنے سینے سے لگایا اور کہا کہ شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز میں علم شریعت و علم حال میں تمہارا محتاج ہوں۔

شیخ عمر کیمیا رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا کہ آپ قدس سرہ العزیز کی کوئی مجلس ایسی نہ ہوتی تھی کہ جس میں یہود و نصاری اسلام قبول نہ کرتے ہوں۔ یا قطاع الطریق، قاتل اور بد اعتقاد لوگ آکر توبہ نہ کرتے ہوں۔ ایک دفعہ آپ کی مجلس میں ایک راہب جس کا نام سنان تھا آیا اور آکر اس نے اسلام قبول کیا۔ مجمع عام میں کھڑے ہو کر اس نے بیان کیا کہ میں یمن کا رہنے والا ہوں میرے دل میں یہ بات پیدا ہوئی کہ میں اسلام قبول کر لوں پھر اس بات کا میں نے مستحکم ارادہ کر لیا کہ یمن میں جو شخص سب سے زیادہ افضل ہوگا۔ میں اس کے ہاتھ پر اسلام قبول کروں گا میں اس بات کی فکر میں تھا کہ مجھے نیند آگئی میں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خواب میں دیکھا آپ نے فرمایا سنان تم بغداد جاؤ اور حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لو، کیونکہ وہ اس وقت روئے زمین کے تمام لوگوں سے افضل ہیں۔

ایک سائل نے آپ رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ آپ کا امر کس پر مبنی ہے؟ فرمایا صدق پر میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا آپ نے فرمایا کہ جب میں اپنے شہر میں بچہ تھا یوم عرفہ کو اپنے گھر کی چھت پر چڑھ گیا۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ لوگ عرفات کے میدان میں کھڑے ہیں۔ میں اپنی والدہ کے پاس آیا۔ اس سے کہا کہ مجھ کو اللہ کے لئے بخش دو اور حکم دو کہ میں بغداد جاؤں۔ وہاں علم حاصل کروں اور صالحین کی زیارت اور صحبت اختیار کروں اس نے مجھ سے اس کا سبب پوچھا تو میں نے اپنا حال سنایا وہ یہ سن کر رو پڑیں اور میرے پاس اسی (80) دینار لائیں جو میرے والد چھوڑ کر فوت ہوئے تھے۔

والدہ نے چالیس دینار تو میرے بھائی کے لئے رکھے اور چالیس دینار میری گودڑی میں بغل کے نیچے سی دیئے اور مجھ کو جانے کی اجازت دی مجھ سے اس بات کا عہد لیا کہ ہر حال میں سچ بولوں اور رخصت کرنے کے لئے باہر تک نکلیں اور کہنے لگیں

’’اے فرزند اب تم جاؤ میں اللہ عزوجل کے لئے تم سے علیحدہ ہوتی ہوں۔ اب یہ چہرہ قیامت کے دن دیکھوں گی‘‘ تب میں چھوٹے سے قافلے کے ساتھ جو بغداد کو جانے والا تھا روانہ ہوا۔ جب ہم ہمدان سے نکلے تو جنگل میں ہم پر ساٹھ ڈاکو حملہ آور ہوگئے انہوں نے قافلہ کو پکڑا اور لوٹ لیا لیکن مجھ سے کسی نے تعرض نہ کیا۔ ان میں سے ایک شخص میرے پاس آیا اور مجھ سے کہا اے فقیر تمہارے پاس کیا ہے؟ میں نے کہا چالیس دینار اس نے کہا کہاں ہیں؟ میں نے کہا میرے گدڑی میں بغل کے نیچے سلے ہوئے ہیں اس نے سمجھا یہ مجھ سے ہنسی کرتا ہے وہ مجھے چھوڑ کر چل دیا۔ ایک اور شخص میرے پاس آیا اس نے بھی مجھ سے پہلے کی طرح پوچھا میں نے پھر وہی جواب دیا وہ بھی مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔ وہ دونوں اپنے سردار کے پاس گئے اور جو مجھ سے سنا تھا وہ اس کو جا کر کہہ دیا اس نے کہا کہ اس کو میرے پاس لاؤ تو وہ مجھے اس کے پاس لے گئے۔ دیکھا کہ وہ لوگ ٹیلے پر بیٹھے قافلہ کا لوٹا ہوا مال تقسیم کر رہے ہیں۔ اس نے مجھ سے کہا کہ تمہارے پاس کیا ہے؟ میں نے کہا کہ چالیس دینار۔ کہا کہاں ہیں؟ میں نے کہا میری گدڑی میں میری بغل کے نیچے سلے ہوئے ہیں۔ تب اس نے میری گدڑی کو پھاڑنے کا کہا۔ تو اس میں چالیس دینار پائے پھر اس نے کہا تم کو اقرار کرنے پر کس چیز نے آمادہ کیا؟ میں نے کہا میری ماں نے مجھ سے عہد لیا تھا کہ سچ بولنا۔ اس لئے اس عہد کی خیانت نہیں کر سکتا۔

اس وقت وہ سردار رونے لگا۔ اور کہنے لگا کہ تم اپنی ماں کے عہد میں خیانت نہیں کرتے اور مجھ کو اتنے سال ہوئے کہ اپنے رب کے عہد میں خیانت کر رہا ہوں اس نے وہیں میرے ہاتھ پر توبہ کر لی۔ اس کے ساتھیوں نے کہا تم ڈاکہ زنی اور لوٹ مار میں ہمارے سردار تھے اب توبہ میں بھی ہمارے سردار ہو۔ ان سب نے بھی میرے ہاتھ پر توبہ کی اور قافلہ کا سارا مال جو لیا تھا ان کو واپس کر دیا۔ سب سے پہلے میرے ہاتھ پر وہ جماعت تائب ہوئی۔

حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں نے بغداد میں شروع میں بیس دن تک کوئی چیز کھانے کی نہ پائی اور نہ مجھے کوئی مباح چیز ملی۔ تب میں کسریٰ کے محل کے کھنڈر کی طرف گیا کہ کوئی چیز مباح مل جائے میں نے وہاں پر ستر اولیاء کو پایا۔ میں نے کہا کہ یہ مروت کی بات نہیں کہ میں ان کا مزاحم بنوں، پھر میں بغداد میں واپس آگیا مجھے ایک شخص ملا اس کو میں پہچانتا تھا کہ یہ ہمارے اہل میں سے ہے۔ اس نے مجھے کچھ سونے کا (یا چاندی کا) ریزہ دیا۔ اور کہا کہ یہ مجھ کو تمہاری والدہ نے دے کر تمہارے لئے بھیجا ہے۔

اس میں سے میں نے کچھ تو اپنے لئے رکھا اور باقی لے کر جلدی ایوان کسریٰ کے کھنڈر کی طرف گیا اور وہ تمام ریزہ ان ستر اولیاء اللہ پر تقسیم کر دیا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ یہ کیا ہے؟ میں نے کہا یہ میری ماں نے بھیجا ہے۔ پھر میں بغداد کی طرف لوٹا اور جو ریزے میرے پاس تھے اس سے کھانا خریدا اور فقراء کو میں نے آواز دی تو ہم سب نے مل کر کھایا۔ رات کو میرے پاس اس ریزہ میں سے کچھ باقی نہ رہا۔

شیخ عارف ہروی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی چالیس سال تک خدمت کی سو میں نے دیکھا کہ وہ ہمیشہ عشاء کے وضو سے نماز فجر ادا فرماتے تھے اور جب آپ بے وضو ہوتے اسی وقت وضو کر لیتے۔ آپ طویل قیام کرتے اور اس میں قرآن شریف کی تلاوت کرتے یہاں تک کہ رات کا دوسرا حصہ گزر جاتا پھر مراقبہ اور مشاہدہ میں طلوع فجر کے قریب تک متوجہ ہو کر بیٹھے رہتے۔ پھر دعا مانگتے عاجزی اور نیاز میں لگے رہتے اور آپ کو ایسا نور ڈھانپ لیتا تھا کہ آپ اس میں نظر سے غائب ہو جاتے تھے اور میں ان کے پاس یہ آواز سنتا تھا السلام علیکم اور آپ اس کا جواب دیتے یہاں تک کہ صبح کی نماز کی طرف نکلتے شیخ ابی بکر حریمی سے روایت ہے فرماتے ہیں میں نے حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے سنا آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں عراق کے جنگلوں میں پچیس سال تک تنہا پھرتا رہا نہ میں مخلوق کو پہچانتا تھا اور نہ وہ مجھے پہچانتی تھی۔ میرے پاس رجال الغیب اور جن آیا کرتے تھے میں ان کو اللہ کا طریق پڑھایا کرتا تھا۔ دنیا اور اس کی خوبصورتیاں میرے پاس عجیب شکلوں میں آتیں لیکن مجھ کو میرا پروردگار اس کی طرف توجہ کرنے سے بچاتا شیطان میرے پاس مختلف شکلوں میں آتے لیکن خدا تعالیٰ مجھے ان پر قوت دیتا میرا نفس میرے سامنے کبھی ایک صورت میں ظاہر ہوتا اور میرے سامنے عاجزی کرتا کہ جو آپ کی مرضی ہو وہی کروں گا اور کبھی مجھ پر غلبہ کی کوشش کرتا مگر خدا تعالیٰ مجھے اس پر فتح دیتا۔ میں شروع حال میں مجاہدہ نفس کا کوئی طریقہ اختیار کرتا تو اس کو لازم کر لیتا اور اس کو گلے سے لگاتا پھر اس کو جذب کر لیتا اسی طرح میں مدتوں مدائن کے ویرانوں میں رہا اور اپنے نفس کو مجاہدات کے طریق پر لگائے رکھا۔

میں کرخ کے میدان میں برسوں رہا ہوں اس میں سبز بوٹیوں کے سوا میری اور کوئی غذا نہ ہوتی تھی اور مجھے کوئی پہچانتا نہ تھا۔ مگر یہ کہ لوگ مجھ کو بہرا، بیوقوف اور دیوانہ سمجھتے تھے۔ میں کانٹوں میں ننگے پاؤں پھرا کرتا تھا۔ نفس مجھ پر اپنے ارادہ میں کبھی غالب نہیں ہوا نہ کبھی دنیا کی زینت نے مجھ کو عجب میں ڈالا۔ آپ فرماتے تھے کہ میں رات دن جنگ میں رہا کرتا تھا اور بغداد کی طرف نہیں آتا تھا۔ شیطان میرے پاس صفیں باندھ کر پیدل اور سوار آیا کرتے ان کے پاس طرح طرح کے ہتھیار ہوتے۔ مجھ سے لڑتے اور مجھ کو آگ کا شہاب مارا کرتے تھے سو میں اپنے دل میں اللہ کے فضل سے ایسی ثابت قدمی پایا کرتا تھا جس کی تعبیر نہیں ہو سکتی اور اپنے باطن سے یہ آواز سنتا تھا۔ جو مجھے یہ کہتی تھی کہ

’’اے عبدالقادر تو ان کے مقابلے میں کھڑا ہو جا کیونکہ ہم نے تم کو ثابت قدم بنایا ہے اور تم کو مدد دی ہے‘‘ پھر میں ان کے پیچھے دوڑتا تو وہ سب میرے دائیں بائیں بھاگ جاتے اور جہاں سے آتے تھے وہیں چلے جاتے۔

مجاہدہ میں ترقی

ایک مرتبہ شیطان اکیلا میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں ابلیس ہوں تمہارے پاس اس لئے آیا ہوں کہ تمہاری خدمت کروں کیونکہ تم نے مجھے اور میرے پیروکاروں کو تھکا دیا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ چلا جا۔ اس نے انکار کیا پھر اس نے میرے گردا گرد بہت سے جال، پھندے اور حیلے ظاہر کئے، میں نے کہا یہ کیا ہے اس نے کہا یہ سب دنیا کے جال ہیں۔ جن سے ہم تم جیسوں کو شکار کیا کرتے ہیں۔ تب میں نے ایک سال تک ان کے بارے میں توجہ کی یہاں تک کہ وہ سب کے سب ٹوٹ گئے، پھر مجھ پر بہت سے اسباب اور فریب ہر طرف سے ظاہر ہوئے میں نے کہا یہ کیا ہے؟ تو مجھ سے کہا گیا یہ مخلوق کے اسباب ہیں جو کہ آپ سے متعلق ہیں۔ پھر میں ان کے معاملہ میں ایک سال تک متوجہ رہا یہاں تک کہ وہ سب کے سب بکھر گئے اور میں ان سے علیحدہ ہوگیا۔

پھر میرے باطن کا حال مجھ پر ظاہر کیا گیا تو میں نے اپنے قلب کو بہت سے تعلقات سے وابستہ پایا میں نے کہا یہ کیا ہے؟ تو مجھے کہا گیا کہ یہ تمہارے ارادے اور اختیارات ہیں۔ تب میں ان کے معاملہ میں مزید ایک سال تک متوجہ رہا یہاں تک کہ وہ سب منقطع ہوگئے اور میرا دل ان سے خلاصی پاگیا۔ پھر میرے نفس کا حال مجھ پر ظاہر کیا گیا۔ میں نے دیکھا کہ اس کی بیماریاں باقی ہیں اور اس کی خواہش زندہ ہے۔ اس کا شیطان سرکش ہے پھر میں اس کے معاملہ میں ایک سال تک متوجہ رہا تب نفس کی بیماریاں اچھی ہوگئیں اور خواہش مرگئی اور میرا نفس مسلمان ہوگیا۔ تمام امر اللہ کے لئے ہوگئے۔ میں اکیلا باقی رہ گیا اور تمام وجود میرے پیچھے رہ گیا حالانکہ میں ابھی مطلوب تک نہیں پہنچا تھا۔ پھر میں باب توکل تک کھینچا گیا تاکہ اس سے اپنے مطلوب تک جاؤں اچانک دیکھا کہ اس کے پاس رکاوٹ ہے۔ میں اس سے گزر گیا میں باب تسلیم تک کھینچا گیا تا کہ اس سے اپنے مطلوب تک پہنچوں۔ دیکھا تو اس کے پاس بھی رکاوٹ ہے۔ وہاں سے بھی گزر گیا۔ پھر میں باب قرب تک کھینچا گیا تا کہ اس سے مطلوب تک پہنچوں تو اس کے پاس بھی رکاوٹ تھی۔ وہاں سے بھی گزر گیا پھر میں باب فقر تک کھینچا گیا۔ دیکھا تو وہ خالی تھا میں اس میں داخل ہوا۔ تو دیکھا کہ جوں جوں میں اس میں آگے بڑھتا ہوں میرے لئے اس سے بڑا خزانہ کھلتا چلا جاتا ہے۔ اس میں مجھے بڑی عزت، دائمی غنا اور خالص حریت عطا کی گئی۔ بقایا مٹ گئے، سابقہ صفات منسوخ ہوگئیں اور وجود ثانی مل گیا۔

شیخ ابو القاسم عمر بن مسعود بزار سے روایت ہے کہ میں نے حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے سنا وہ فرماتے تھے کہ ابتدائی سیاحت کے دنوں میں مجھ پر حالات آتے رہتے تھے ان سے مقابلہ کرتا تھا اور ان پر غالب آتا تھا پھر میں اپنے وجود سے غائب ہو جاتا تھا اور صبح ہوتی تھی تو مجھے معلوم نہ ہوتا کہ میں کہاں ہوں۔ مجھے اس سے ہوش آتا تھا تو میں اپنے آپ کو اس مکان سے دور پاتا تھا جس میں میں پہلے تھا۔

ایک دفعہ بغداد کے جنگل میں مجھ پر حالت طاری ہوگئی اور ایک گھنٹہ تک یہ حالت رہی مجھے کچھ معلوم نہ تھا۔ پھر مجھے ہوش آگیا تو میں شہر شستر میں تھا۔ اس میں اور بغداد میں بارہ دن کا راستہ تھا تب میں اپنے امر میں متفکر ہوا اتنے میں ایک عورت مجھ سے کہنے لگی کہ تم شیخ عبدالقادر ہو کر اس سے تعجب کرتے ہو۔ شیخ ابو عبد اللہ بن حسین موصلی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت سیدی محی الدین عبدالقادر کی تیرہ سال خدمت کی آپ نہ کبھی کسی حاکم اور امیر کے لئے کھڑے ہوئے اور نہ کسی بادشاہ کے دروازہ پر گئے، نہ اس کے فرش پر بیٹھے، نہ اس کا کبھی کھانا کھایا آپ بادشاہوں اور ان جیسوں کے فرش پر بیٹھنے کو عذابوں میں سے عذاب سمجھتے تھے بلکہ جب آپ کی خدمت میں خلیفہ، وزیر یا کوئی امیر آدمی آتا تو آپ اپنے گھر میں داخل ہو جاتے جب وہ آکر بیٹھ جاتا تب آپ گھر سے نکلتے تاکہ ان کے لئے کھڑا نہ ہونا پڑے۔ ان کو بہت سی نصیحت کرتے۔ وہ آپ کے ہاتھ چومتے آپ کے سامنے نہایت تواضع اور انکساری سے بیٹھتے اور جب آپ خلیفہ کے نام کچھ لکھتے تو یہ لکھتے کہ ’’تم کو عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ یہ لکھتا ہے اور یہ حکم دیتا اس کا حکم تم پر جاری ہے۔ اس کی اطاعت تم پر واجب ہے۔ تمہارے لئے وہ پیشوا ہے اور تم پر حجت ہے‘‘ جب خلیفہ آپ کی تحریر پر مطلع ہوتا تو اس کو چومتا اور کہتا کہ شیخ عبدالقادر نے سچ فرمایا۔

شیخ فقیہ ابو الفضل جیلی رحمۃ اللہ علیہ سے سنا ہے وہ کہتے تھے کہ میں شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ مدرسہ نظامیہ میں تھا ان کے پاس فقہاء اور فقراء جمع تھے آپ قضاء و قدر میں ان سے کلام کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک بڑا سانپ چھت پر سے آپ کی گود میں آپڑا تب سب حاضرین بھاگ گئے، آپ کے کپڑوں میں داخل ہوا اور آپ کے جسم پر گزرا اور گردن پر لپٹ گیا۔ باجود اس کے آپ نے اپنا کلام قطع نہ کیا اور نہ اپنے جلسہ سے اٹھے پھر وہ زمین کی طرف اترا اور آپ کے سامنے دم پر کھڑا ہوگیا اور آپ سے کلام کیا۔ آپ نے بھی اس سے کلام کیا۔ جس کو ہم میں سے کوئی نہ سمجھا پھر وہ چل دیا۔ لوگ آپ کی خدمت میں آئے۔ انہوں نے آپ سے پوچھا کہ اس نے کیا کہا اور آپ نے اس کو کیا کہا؟ آپ نے فرمایا کہ اس نے مجھ سے کہا کہ میں نے بہت سے اولیاء اللہ کو آزمایا ہے مگر آپ جیسا ثابت قدم کسی کو نہیں دیکھا، میں نے کہا تم ایسے وقت مجھ پر گرے کہ میں قضاء و قدر میں کلام کر رہا تھا اور تو ایک کیڑا ہی تو ہے جس کو قضاء حرکت دیتی ہے اور قدر ساکن کرتی ہے سو میں نے ارادہ کیا کہ میرا فعل میرے قول کے مخالف نہ ہو۔

ابو عبد الرزاق کہتے تھے میں نے اپنے والد شیخ محی الدین عبدالقادر سے سنا کہ ایک رات میں جامع منصور میں نماز پڑھ رہا تھا۔ ستونوں پر میں نے کسی شے کی حرکت کی آواز سنی پھر ایک سانپ آیا اور اس نے اپنا منہ مقام سجدہ میں کھولا جب میں نے سجدہ کا ارادہ کیا تو اپنے ہاتھ سے اسے ہٹا دیا اور سجدہ کیا اور جب میں التحیات کے لئے بیٹھا وہ میری ران پر چلا۔ میری گردن پر چڑھ گیا اس کو لپٹ گیا جب میں نے سلام پھیرا تو اس کو نہ دیکھا۔ اگلے دن میں جامع مسجد سے باہر میدان میں گیا تو ایک شخص کو دیکھا جس کی آنکھیں لمبی ہیں اور دراز قامت ہے تب میں نے جان لیا کہ یہ جن ہے اس نے مجھ سے کہا وہی جن ہوں کہ جس کو آپ نے کل رات کو دیکھا تھا۔ میں نے بہت سے اولیاء اللہ کو اس طرح آزمایا ہے جس طرح آپ کو آزمایا ہے۔ مگر آپ کی طرح ان میں سے کوئی ثابت قدم نہیں رہا۔ بعض ان میں سے وہ تھے کہ ظاہر و باطن سے گھبرا گئے۔ بعض وہ تھے کہ ان کے دل میں اضطراب ہوا اور ظاہر میں ثابت رہے اور بعض وہ تھے کہ ظاہر میں مضطرب ہوئے اور باطن میں ثابت رہے۔ لیکن میں نے آپ کو دیکھا آپ ظاہر و باطن دونوں میں نہیں گھبرائے۔ مجھ سے اس نے سوال کیا آپ مجھے اپنے ہاتھ پر توبہ کرائیں۔ میں نے اسے توبہ کرائی۔

آپ کی اولاد سے کسی کی وفات مجلس کے دوران ہو جاتی تب بھی آپ مجلس کو قطع نہ کرتے تھے۔ کرسی پر بیٹھے وعظ جاری رکھتے۔ غسال میت کو غسل دیتا اور جب غسل سے فارغ ہوتے تو اس کو مجلس میں لاتے پھر شیخ اس کے جنازہ کی نماز پڑھاتے۔

امام ابو العباس بغدادی رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ میں اور امام جوزی ایک دن حضرت محی الدین عبدالقادر کی مجلس میں حاضر ہوئے تو قاری نے ایک آیت پڑھی اور حضرت شیخ نے اس کی تفسیر میں ایک معنی بیان کیا۔ میں نے امام جوزی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کیا تم اس معنی کو جانتے ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہاں پھر حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے اسی طرح گیارہ معنی بیان کئے اور میں امام جوزی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھتا رہا کیا یہ معنی جانتے ہو تو وہ یہی کہتے رہے کہ ہاں جانتا ہوں پھر حضرت شیخ نے ایک اور معنی بیان کیا تو اب میں نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ معنی بھی جانتے ہو انہوں نے کہا نہیں۔ یہاں تک کہ آپ نے پھر چالیس معانی بیان کئے جو نہایت عمدہ اور اسرار و معارف سے بھرپور تھے اور اس ہر ایک معنی کو اس کے قائل کی طرف منسوب فرماتے تھے اور امام جوزی رحمۃ اللہ علیہ ہر بار کہتے تھے کہ میں یہ معنی نہیں جانتا۔ حتی کہ حضرت شیخ نے فرمایا اب ہم قال کو چھوڑتے ہیں اور بیان میں حال کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ آپ نے کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھا تب لوگوں میں سخت بے قراری اور ہیجان پیدا ہوگیا اور امام جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے حالت وجد میں اپنے کپڑے تک پھاڑ ڈالے۔

آپ کے ارشادات عالیہ میں سے بعض قلبی مکشوفات اور روحانی الہامات ہیں جن میں اہل صفا اور طالبان راہ حق کے لئے بڑی اہم تعلیمات اور ہدایات ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے آپ کے قلب انور میں القاء ہوئیں ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : باری تعالیٰ نے مجھے فرمایا اے عبدالقادر جب تو کسی شخص کو فقر کی آگ سے جلا ہوا اور فاقوں کی کثرت سے شکستہ دیکھے تو اس کی نزدیکی اختیار کر، کیونکہ میرے اور اس کے درمیان کوئی پردہ نہیں۔

پھر فرمایا : میں نے فقر و فاقہ انسان کے لئے سواری بنائی ہے پس جو کوئی اس پر سوار ہوا وہ میدان اور وادی قطع کرنے سے بھی پہلے منزل مقصود پر پہنچ گیا۔

پھر فرمایا : اگر انسان جانے کہ موت کے بعد کیا کچھ ہوگا؟ تو وہ اس دنیا میں ہرگز زندگی کی خواہش نہ کرے اور میرے حضور ہر لحظہ یہی التجا کرے اے رب، مجھے موت دے (اور اپنے پاس بلالے) پھر فرمایا میرے نزدیک فقیر وہ نہیں جس کے لئے کوئی چیز نہ ہو بلکہ فقیر وہ ہے جس کا حکم تمام چیزوں میں نافذ العمل ہو جب کسی چیز کو کہے ہو جا تو ہو جائے۔

پھر فرمایا : اپنے دوستوں اور ہم مجلسوں کو کہہ دے کہ جو میری حضوری کا ارادہ کرے پس اس پر فقر اختیار کرنا لازم ہے، اس کے بعد فقر الفقر ہے پس جب فقر تمام ہو جائے تو وہاں کوئی نہیں ہوتا سوائے میرے۔

پھر فرمایا : اپنے دوستوں اور ہم مجلسوں سے کہہ دے کہ فقراء کی دعوت کو غنیمت جانیں کیونکہ وہ میرے پاس رہتے ہیں اور میں ان کے پاس ہوں۔

پھر فرمایا : انبیاء اور مرسلین کے علاوہ میرے ایسے محبوب بندے بھی ہیں کہ ان کے حالات سے کوئی اہل دنیا واقف ہے نہ اہل آخرت، نہ اہل جنت نہ اہل دوزخ اور نہ ملک و رضوان ہی واقف ہیں۔ میں نے ان کو نہ ہی جنت کے لئے بنایا ہے نہ دوزخ کے لئے نہ ثواب و عذاب کے لئے نہ حور و قصور کے لئے اور نہ ہی غلمان کے لئے بنایا ہے (بلکہ صرف اپنے لئے بنایا ہے) پس اس کو خوشی اور مبارک ہو جو ان پر یقین لایا، اگرچہ ان کو پہچانتا بھی نہ ہو۔

پھر فرمایا : اے عبدالقادر (تمہیں مبارک ہو) تو ان ہی میں سے ہے اور ان کی علامات دنیا میں یہ ہیں کہ ان کے جسم کھانے پینے کی کمی سے اور ان کے نفس خواہشات نفسانی سے اور ان کے دل وساوس قلبی سے اور ان کی ارواح لذات سے جل چکی ہیں۔ پس وہ حیات ابدی میں ہیں اور وہ میرے دیدار کے نور سے کشتہ ہوچکے ہیں۔

پھر فرمایا : اگر سخت گرمی کے روز کوئی پیاسا تیرے پاس آئے اور تیرے پاس ٹھنڈا پانی موجود ہو اور تجھے ضرورت بھی اس کی نہ ہو پھر اگر تو اس سے پانی روک رکھے تو تو کنجوسوں میں سے سب سے زیادہ کنجوس شمار ہوگا۔ پس میں کیسے اپنی رحمت سے ان گناہ گاروں کو روک رکھوں جو توبہ کرتے ہوئے میری رحمت کی امید لے کر میرے پاس آئیں۔ جبکہ میں نے اپنے بارے میں لکھ دیا ہے کہ میں زیادہ رحیم ہوں۔

پھر فرمایا : میرے گناہگاروں کو میرے فضل و کرم کی اور متکبروں کو عدل و انتقام کی خبر سنا دو۔

پھر فرمایا : میں گناہ گار کے نزدیک ہو جاتا ہوں جب وہ گناہوں کو چھوڑ دیتا ہے اور اس تابعدار سے دور ہو جاتا ہوں جب وہ تابعداری کو چھوڑ دیتا ہے۔

پھر فرمایا : دنیا کی گھاٹی سے نکل اور آخرت سے پیوند ہو جا اور اور پھر آخرت کی گھاٹی سے نکل کر میری طرف واصل ہو جا۔

پھر فرمایا : جسموں اور نفسوں سے پھر، دل اور روحوں سے پھر، حکم اور امر سے نکل کر مجھ سے واصل ہو جاؤ پس میں نے عرض کیا اے رب العالمین! کون سی نماز تیرے نزدیک لاتی ہے؟ فرمایا جس میں میرے سوا اور کچھ نہ ہو اور نماز ادا کرنے والا اس میں اپنے آپ سے بھی غائب ہو۔ پھر میں نے عرض کیا کون سا روزہ تیرے نزدیک افضل ہے؟ فرمایا : وہ روزہ جس میں میرے سوا کچھ نہ ہو اور روزہ دار اس میں اپنے آپ سے بھی غائب ہو تو میں نے عرض کیا کونسا عمل تیرے نزدیک افضل ہے؟ فرمایا وہ عمل جس میں میرے سوا بہشت اور دوزخ سے بھی کچھ واسطہ نہ ہو اور صاحب عمل خود بھی اس میں غائب ہو۔ پھر میں نے عرض کیا کون سا ہنسنا تیرے نزدیک افضل ہے؟ فرمایا رونے والوں کا ہنسنا پھر میں نے عرض کیا کون سی توبہ تیرے نزدیک افضل ہے؟ فرمایا پاکوں کی توبہ۔ پھر میں نے عرض کیا کون سی پاکیزگی تیرے نزدیک افضل ہے؟ فرمایا توبہ کرنے والوں کی پاکیزگی۔

پھر مجھ سے فرمایا گیا مجاہدہ مشاہدے کا ایک سمندر ہے اور واقف کار اس کی مچھلیاں ہیں۔ پس جو کوئی مشاہدہ کے سمندر میں داخل ہونے کا ارادہ کرے، اس پر لازم ہے کہ مجاہدہ اختیار کرے۔

پھر ارشاد ہوا اس کو بشارت ہو جس کا دل مجاہدہ کی طرف مائل ہوا۔ اس شخص پر افسوس ہے جس کا دل خواہشات نفسانیہ کی طرف مائل ہوا۔

آپ کی خدمت میں اکابر صوفیاء و مشائخ اور عرفاء و فقراء حاضر ہو کر اسرار و معارف کی نسبت سوال کرتے تو آپ جواب مرحمت فرماتے تھے۔

محبت

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے محبت کی نسبت پوچھا گیا تو فرمایا کہ محبت ایک نشہ ہے جس کے ساتھ ہوش نہیں ذکر ہے جس کے ساتھ محو نہیں اضطراب ہے، جس کے ساتھ سکون نہیں۔ محبت یہ ہے کہ بندہ غیر محبوب سے اندھا ہو جائے اور محبوب کی ہیبت سے بھی اندھا ہو جائے پس محب پوری طرح اندھا ہے۔ عاشق لوگ ایسے مست ہیں کہ اپنے محبوب کے مشاہدے کے سوا ہوش میں نہیں ہوتے۔ وہ ایسے بیمار ہیں کہ اپنے مطلوب کے ملاحظہ کے سوا تندرست نہیں ہوتے وہ ایسے حیران ہیں کہ اپنے مولا کے بغیر کسی کے شیفتہ نہیں۔ اس کے پکارنے کے سوا کسی کو جواب نہیں دیتے۔

ہمت

آپ نے فرمایا اپنے نفس کو دنیا سے، روح کو تعلقات آخرت سے، اپنے قلب کو ارادوں سے اور اپنے سر کو موجودات سے علیحدہ کر لینا ہمت ہے۔

ذکر

آپ نے فرمایا دلوں میں حق کے اشارہ سے ایک ایسا اثر ہو جس کو غفلت مکدر نہ کرے۔ اس وصف کے ساتھ چپ رہنا، سانس لینا، قدم چلنا، پھرنا سب ذکر ہی ہوگا۔

شوق

آپ نے فرمایا عمدہ شوق یہ ہے کہ مشاہدہ سے وہ ملاقات سے سست نہ پڑ جائے، دیکھنے سے ساکن نہ ہو، قرب سے ختم نہ ہو اور محبت سے زائل نہ ہو بلکہ جوں جوں ملاقات بڑھتی جائے شوق بھی بڑھتا جائے۔

توکل

حضرت شیخ سے توکل کی نسبت پوچھا گیا فرمایا کہ دل کا خدا کی طرف مشغول ہونا اور غیر خدا سے الگ ہونا توکل ہے۔ جس پر پہلے بھروسہ کرتا تھا اس کی وجہ سے اب اس کو بھول جائے اور اس کے سبب ہر غیر سے مستغنی ہو جائے۔

توبہ

آپ نے فرمایا توبہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندے کی طرف اپنی عنایت سے دیکھے اور اس عنایت سے اپنے بندے کے دل کی طرف اشارہ کرے، اس کو خاص اپنی شفقت سے اپنی طرف قبضہ کرتے ہوئے کھینچ لے۔ پھر جب وہ ایسا ہو جائے تو اس کی طرف ہر ہمت فاسدہ سے (الگ ہو کر) کھنچ آتا ہے اور تمام امر اللہ کے لئے ہو جاتا ہے۔

صبر

آپ نے فرمایا صبر یہ ہے کہ بلا کے ہوتے ہوئے اللہ عزوجل کے ساتھ حسن ادب و ثبات پر قائم رہے۔ اور اس کے کڑوے فیصلوں کو فراخ دلی کے ساتھ احکام کتاب و سنت کے مطابق مانے۔ اس کی بہت سے قسمیں ہیں اللہ کے لئے صبر کرنا یہ ہے کہ اس کے امر کو ادا کرے اور اس کی نہی سے باز رہے اور اللہ کے ساتھ صبر کرنا یہ ہے کہ اس کی قضا کے جاری ہونے کے وقت بھی سکون میں رہے اور ایک صبر اللہ پر ہے۔ جو یہ ہے کہ ہر شئے میں اس کے وعدے کی طرف میلان ہو۔ دنیا سے آخرت کی طرف مومن کا چلنا سہل ہے۔ مگر نفس کا اللہ کی طرف چلنا زیادہ مشکل ہے۔ یہ اصل صبر ہے۔

صدق

آپ نے فرمایا صدق کی تین اقسام ہیں۔

  1. صدق، اقوال میں یہ ہے کہ ان کا قیام دل کی موافقت ہو۔
  2. اعمال میں یہ کہ ان کا قیام حق کی رؤیت پر ہو۔
  3. احوال میں یہ ہے کہ ان کا قیام خود حق پر مبنی ہو، انہیں نہ رقیب کا مطالبہ مکدر کرے اور نہ فقیہ کا جھگڑا۔

رضا

حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ سے رضا کی بابت پوچھا گیا تو فرمایا کہ وہ یہ ہے کہ تردد کو اٹھا دیا جائے اور جو کچھ اللہ کی طرف سے ہو اسی پر کفایت کرے اور جب کوئی قضا نازل ہو تو دل اس کے زوال کی طرف نہ جھانکے۔

خوف

حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ سے خوف کی بابت پوچھا گیا تو فرمایا کہ خوف کی بہت سی اقسام ہیں۔ خوف تو گناہ گاروں کو ہوتا ہے، رہبت عابدوں کو، خشیت عالموں کو، وجد دوستوں کو اور ہیبت عارفوں کو ہوتی ہے۔ گناہ گاروں کو خوف عذاب سے ہے، عابد کا خوف ثواب عبادت کے فوت ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔عالموں کا خوف طاعت میں شرک خفی سے ہوتا ہے۔ عاشقوں کا خوف ملاقات کے فوت ہونے سے ہے اور عارفوں کا خوف ہیبت و تعظیم ہے اور یہ خوف سب سے بڑھ کر ہے۔ کیونکہ یہ کبھی دور نہیں ہوتا اور یہ تمام اقسام جب رحمت و لطف کے مقابل ہو جائیں تو تسکین پا جاتے ہیں۔

رجاء

حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ سے رجاء کی نسبت پوچھا گیا تو فرمایا کہ ’’رجاء یہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے فقط حسن ظن ہو۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ظن یہ ہے کہ آنکھ کی نظر عنایت کی طرف ہو اور دل کی نظر رب کی طرف ہو۔‘‘

دعا

حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ سے دعا کی بابت پوچھا گیا تو فرمایا کہ اس کے تین درجے ہیں۔

  1. تصریح
  2. اشارہ
  3. تعریض

1۔ تصریح

یہ ہے کہ اس کا تلفظ ہو۔ تصریح موسی علیہ السلام کے اس قول میں ہے کہ

’’اے میرے رب مجھے اپنا آپ دکھا دے کہ میں تجھ کو دیکھ لوں‘‘ یہ رؤیت کی تصریح ہے۔

2۔ اشارہ

یہ وہ قول ہے جو قول میں چھپا ہوا ہو یعنی اشارہ قول مخفی ہے۔ اشارے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ قول ہے کہ اے میرے رب! مجھے دکھا کہ تو مُردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے؟ یہ رویت کی طرف اشارہ ہے۔

3۔ تعریض

تعریض وہ التجا ہے جو دعا میں چھپی ہوئی ہو۔ تعریض میں سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ قول ہے کہ

’’خداوند ہم کو ایک لحظہ کے لئے بھی ہمارے نفسوں کے سپرد نہ کر۔‘‘

حیا

حضرت شیخ سے حیا کی بابت پوچھا گیا تو فرمایا کہ بندہ اس قول سے حیا کرے کہ اللہ کہے کہ بندے تو میرے حق پر قائم نہ ہوا۔ اور گناہوں کو شرم کی وجہ سے چھوڑ دے اور تقصیر کے خیال سے عبادات بجا لائے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے دل سے خبردار جانے پھر اس سے حیا کرے۔

زہد

آپ نے فرمایا زہد یہ ہے کہ دل اس خیال سے خالی ہو جس سے ہاتھ خالی ہے، دنیا کو ذلیل سمجھے اور دل سے اس کے آثار کو مٹا دے۔

خشوع

آپ نے فرمایا خشوع یہ ہے کہ علام الغیوب کے لئے دل احساس ذلت کے ساتھ جھکے رہیں۔

صحبت (اللہ تعالیٰ سے)

آپ نے فرمایا کہ ہمیشہ اس کا ادب، ہیبت اور مراقبہ کا لزوم ہو اور اس کے غیر سے باطن کی علیحدگی ہو۔

صحبت (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے)

یہ ہے کہ ہمیشہ آپ کی سنت کا کامل اتباع ہو اور اس کے علم سے ظاہر و باطن کا معانقہ رہے۔

فقر

آپ نے فرمایا فقیر صادق کی تعریف وہی ہے جو اللہ سبحانہ نے فرمائی ہے کہ

لِّكَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَكُمْ وَ لَا تَفْرَحُوْا بِمَاۤ اٰتٰىكُمْ ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرِۙ۝۲۳

 الحدید، 57 : 23

’’تاکہ تم اس چیز پر غم نہ کرو جو تمہارے ہاتھ سے جاتی رہی اور اس چیز پر نہ اِتراؤ جو اس نے تمہیں عطا کی، اور اللہ کسی تکبّر کرنے والے، فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَ اسْمَعُوْا وَ اَطِیْعُوْا وَ اَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِكُمْ ؕ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۱۶

 التغابن، 64 : 16

’’پس تم اللہ سے ڈرتے رہو جس قدر تم سے ہوسکے اور (اُس کے احکام) سنو اور اطاعت کرو اور (اس کی راہ میں) خرچ کرو یہ تمہارے لیے بہتر ہوگا، اور جو اپنے نفس کے بخل سے بچالیا جائے سو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیںo‘‘

اخلاص

آپ نے فرمایا کہ اخلاص میں نقصان یہ ہے کہ بندہ اعمال میں اپنے اخلاص پر نظر رکھے اور جب اللہ تعالیٰ ارادہ کرتا ہے کہ کسی بندہ کو مخلص بنائے تو اس کے اخلاص سے اس کا اپنے اخلاص کو دیکھنا دور کر دیتا ہے۔ پس وہ سچا مخلص ہو جاتا ہے۔

ولی کی علامت

آپ نے فرمایا ولی کی علامت یہ ہے کہ جب اس کی عمر بڑھے تو اس کے عمل بڑھ جائیں اور جب اس کا فقر بڑھے تو اس کی سخاوت بڑھ جائے اور اس کا علم بڑھے تو اس کی تواضع بڑھ جائے۔

آپ نے فرمایا تصوف آٹھ خصائل پر مشتمل ہے:

  1. سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سخاوت
  2. حضرت ایوب علیہ السلام کا صبر
  3. حضرت یحییٰ علیہ السلام کی غربت
  4. حضرت عیسی علیہ السلام کی سیاحت
  5. حضرت اسحاق علیہ السلام کی رض
  6. حضرت زکریا علیہ السلام کا اشارہ
  7. حضرت موسیٰ علیہ السلام کا لباس، اور
  8. حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فقر

حضور غوث پاک قدس سرہ العزیز نے فرمایا : مجھے باطنی طور پر کہا گیا کہ عبدالقادر بغداد جاؤ اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کرو۔ پس میں بغداد کے اندر گیا تو لوگوں کو میں نے ایسی حالت میں دیکھا کہ وہاں رہنا مجھے ناپسند معلوم ہوا۔ اس لئے میں یہاں سے چلا گیا۔ پھر مجھے دوبارہ کہا گیا کہ عبدالقادر بغداد میں جاؤ اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کرو تم سے انہیں نفع پہنچے گا۔ میں نے کہا مجھے لوگوں سے کیا واسطہ مجھے تو اپنی حفاظت کرنی ہے تو مجھ سے کہا گیا کہ نہیں تم جاؤ تمہارا دین سلامت رہے گا اس وقت میں نے اپنے پروردگار سے ستر دفعہ عہد لیا کہ میرا کوئی مرید بے توبہ نہ مرے۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا جب خدا تعالیٰ سے دعا کرو تو مجھے وسیلہ بنا کر دعا مانگا کرو۔ اور اے کل روئے زمین کے باشندو! آؤ میرے پاس آکر علم طریقت حاصل کرو اور اے اہل عراق میرے نزدیک احوال اس طرح سے ہیں کہ جس طرح لباس گھر میں لٹکے رہتے ہیں جسے چاہو اتار کر پہن لو، تمہیں چاہیے کہ سلامتی اختیار کرو ورنہ میں تم پر ایک ایسے لشکر کے ساتھ حملہ کروں گا کہ جس کو تم کسی طرح سے بھی دفع نہ کر سکو گے۔ اے فرزند تم سفر کرو۔ گو ہزار سال کا کیوں نہ ہو مگر وہاں بھی تم میری آواز سنو گے۔ اے فرزند! ولایت کے مدارج یہاں سے یہاں تک نہیں۔ مجھے کئی دفعہ خلعتیں عطا کی گئی ہیں۔ فرمایا تمام اولیاء میری مجلس میں رونق افروز ہوتے ہیں۔ زندہ اپنے جسموں سے اور مردہ اپنی روحوں سے اے فرزند! تم قبر میں میرا حال منکر نکیر سے پوچھنا وہ میری خبر دیں گے۔

فرمایا ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ میری طرف کو انوار چلے آتے ہیں میں نے پوچھا یہ انوار کیا ہیں؟ تو مجھے کہا گیا خدا تعالیٰ کی طرف سے جو فتوحات ہوئی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں اس کی مبارک باد دینے تشریف لا رہے ہیں۔ پھر یہ انوار زیادہ ہوگئے اور مجھے ایک حالت طاری ہوگئی کہ جس میں میں خوشی سے پھولا نہ سماتا تھا۔ پھر میں نے ہوا میں ممبر کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا اور میں بھی ہوا میں فرط خوشی سے سات قدم آگے بڑھا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے منہ میں سات دفعہ لعاب دہن ٹپکایا۔ اس کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم تشریف لائے اور آپ نے میرے منہ میں چھ دفعہ لعاب دہن ٹپکایا میں نے عرض کیا آپ بھی تعداد کو پورا نہیں کرتے۔ آپ نے فرمایا آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی نہ ہو پھر مجھے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خلعت عطا فرمایا میں نے عرض کیا یہ کیسی خلعت ہے۔

آپ نے فرمایا یہ اس ولایت کی خلعت ہے جو قطب الاولیاء سے مخصوص ہے۔ فتوحات کے بعد میری زبان میں گویائی پیدا ہوگئی، اور میں لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنے لگا۔ معارف میں آپ کا کلام بڑا وسیع ہے۔

شیخ علی بن ہیتی فرماتے ہیں کہ میں نے شیخ ابو سعید قیلوی رحمۃ اللہ علیہ سے سنا کہ وہ کہا کرتے تھے کہ ہمارے شیخ، شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز نہیں لوٹے مگر اس شرط پر کہ جو کوئی آپ کا دامن پکڑ لے نجات پائے۔

شیخ بقاء بن بطو بیان کرتے ہیں کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کے اصحاب و مریدین کو میں نے صلحاء کے بہت بڑے گروہ کے ساتھ دیکھا ان میں سے کسی نے آپ سے پوچھا کہ حضرت آپ کے مریدین میں پرہیز گار اور گناہ گار دونوں ہی ہوں گے؟ تو آپ نے فرمایا پرہیزگار میرے لئے ہیں اور گناہ گاروں کے لئے میں ہوں۔

آپ قدس سرہ العزیز سے کسی نے پوچھا کہ ایسے شخص کی نسبت کیا فرماتے ہیں جو آپ کا نام لے، مگر درحقیقت نہ تو اس نے آپ سے بیعت کی ہو اور نہ آپ سے خرقہ پہنا ہو تو کیا ایسا شخص آپ کے مریدوں میں شمار کیا جائے گا؟ آپ نے فرمایا جو شخص میرا نام لے اور اپنے تئیں میری طرف منسوب کرے گو ایک ناپسندیدہ طریقہ سے ہی سہی تو بھی اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے گا اور وہ شخص میرے مریدوں میں شمار ہوگا۔

نیز آپ نے فرمایا کہ جو شخص میرے مدرسے کے دروازے پر سے گزرے گا تو قیامت کے دن اس کے عذاب میں تخفیف ہوگی۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ

آپ کا اسم گرامی معین الدین اور لقب غریب نواز تھا۔ ولادت باسعادت سجستان میں بمقام سنجر 537 ھ میں ہوئی وصال 96 سال کی عمر میں 6 رجب بروز پیر 633ھ کو ہوا۔ وصال کے وقت لوگوں نے دیکھا کہ پیشانی پر لکھا تھا۔

’’حبیب اللہ مات فی حب اللہ‘‘ اللہ کا دوست اللہ کی محبت میں فوت ہوا۔

آپ نے سیکڑوں مشائخ کبار سے ملاقات کی ستاون روز تک حضرت غوث اعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ایک ہی حجرہ میں مقیم رہے۔ سلسلہ سہروردیہ کے بانی شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ اور ابو النجیب رحمۃ اللہ علیہ سے بھی دوستانہ مراسم تھے آپ کی نظر کیمیا اثر سے لاکھوں ہندوؤں کو توحید کی حلاوت اور چاشنی ملی اور حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔

جب حج بیت اللہ کے لئے حاضر ہوئے تو روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضری کی سعادت بھی نصیب ہوئی آپ کو تائب الرسول کے لقب سے سرفراز کیا گیا اور ہندوستان کی سر زمین کو تبلیغی مرکز بنانے کا حکم ملا براستہ لاہور اجمیر کی طرف روانہ ہوئے قیام لاہور کے دوران چھ ماہ تک حضور قدوۃ الاولیاء زبدۃ الاصفیاء حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار اقدس پر قدموں کی جانب چلہ کشی کی اور فیوضات و برکات حاصل کرنے کے بعد فرمایا :

گنج بخش فیض عالم مظہر نور خد
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنم

سلطان اولیاء حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کی آٹھ سال تک مسلسل خدمت کرتے رہے۔ فرماتے ہیں اس دوران نہ دن کو دن اور نہ رات کو رات سمجھا، نفس کو ایک لمحہ تک آسودگی اور راحت نہ پہنچائی جہاں بھی مرشد کامل تشریف لے جاتے آپ کا جامہ خواب اور توشہ سفر سر پر رکھ کر ساتھ ہو جاتا تھا۔ میری یہ خدمت شرف قبولیت کو پہنچی اور اس کے نتیجے میں مجھے نعمت عظمی مل گئی۔

حضرت خواجہ کو اللہ رب العزت نے نہایت سوز و گداز والا دل عطا فرمایا تھا جب کبھی کوئی عبرت کی بات ہوتی یا عذاب قبر کا ذکر ہوتا تو آپ بے اختیار گریہ کناں ہو جاتے، اپنی مجالس مبارک میں بعض اوقات اللہ جل شانہ کی عظمتوں کا حال بیان کرتے ہوئے یا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر مبارک کرتے ہوئے بے اختیار رو پڑتے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ کو بے پناہ عشق تھا جہاں کہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم گرامی آتا بے ساختہ آپ کی آنکھیں پرنم ہو جاتیں۔

ایک مجلس میں آپ نے فرمایا جو شخص رات کو باوضو سوتا ہے تو فرشتوں کو حکم ہوتا جب تک وہ بیدار نہ ہو اس کے سرہانے کھڑے رہیں فرشتے اس شخص کے سرہانے کھڑے ہو کر اس کے حق میں دعا کرتے ہیں اے پروردگار اپنے اس بندے پر رحمت نازل فرما یہ نیکی اور طہارت کے ساتھ سویا ہے۔

آپ کی مجلس میں عارفوں کا تذکرہ شروع ہوا تو فرمایا عارف اسے کہتے ہیں جس پر روزانہ انوار الٰہیہ کا نزول ہوتا ہو اور جو اپنی عقل سے ہزار ہا رموزو اسرار کا انکشاف کرے ہر وقت عشق الٰہی میں مست و بے خود اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے ہر لمحہ یاد الٰہی میں مصروف رہے ایک پل بھی اس کی یاد سے غافل نہ ہو۔

آپ نے فرمایا ایک دفعہ خواجہ ذوالنون مصری سے ایک صوفی نے پوچھا عارف کسے کہتے ہیں انہوں نے جواب دیا عارف وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے دل سے بشریت کی کدورت دور ہو جاتی ہے اور ان کے دل حرص و ہوا سے پاک ہو جاتے ہیں اور ان میں عشق الٰہی موجزن ہو جاتا ہے غیر کی طرف وہ آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے اور محض عالم تصوف ہو کر صوفی بن جانا مناسب نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ خود کو ہمہ تن مجسمہ اخلاق بنانا ہوگا عارف دنیا سے بچتا ہے کیونکہ اس میں حسد و بغض کے سوا اور ہے ہی کیا؟ جو شخص دنیا میں مشغول ہوگیا وہ حق سے دور ہوگیا۔

فرمایا اسی طرح ایک دفعہ حضرت خواجہ حسن بصری سے کسی نے عارف کی تعریف پوچھی آپ نے جواب دیا عارف وہ ہے جو دنیا سے غرض نہ رکھے اور جو کچھ اس کے پاس ہو راہ حق میں لٹا دے۔

ایک مجلس میں آپ نے فرمایا عارف کے لئے تین چیزیں ضروری ہیں ہیبت، تعظیم اور جہاد۔ گناہوں سے شرمندہ ہونا ہیبت ہے طاعت کرنا تعظیم ہے اور خدا کے سوا کسی پر نظر نہ ڈالنا جہاد ہے۔

مزید فرمایا ایک مرتبہ حضرت شیخ داؤد طائی رحمۃ اللہ علیہ اپنے حجرے سے باہر تشریف لائے تو آنکھیں بند تھیں ایک شخص نے حضرت سے آنکھیں بند کرنے کا سبب پوچھا تو فرمایا میں نے پنتالیس سال سے آنکھیں کھولنا ترک کیا ہوا ہے تاکہ سوائے دوست کے کسی غیر پر میری نظر نہ پڑے کیونکہ دوست کے سوا کسی دوسرے کو دیکھنا شرط محبت نہیں ہے۔ پھر فرمایا قیامت کے دن اللہ جل شانہ فرمائے گا کہ ان لوگوں کے اعمال جانچو جو میری محبت کا دعوی کرتے تھے لیکن غیر کی محبت میں راحت پاتے تھے۔

ایک موقع پر آپ نے فرمایا صحبت کا اثر ضرور ہوتا ہے اگر بد بھی نیک صحبت میں بیٹھے تو نیک ہو جاتا ہے اور اگر نیک بری صحبت میں بیٹھے تو بد ہو جاتا ہے۔ پس جس نے بھی اچھا پھل پایا نیکوں کی صحبت سے پایا۔ اہل سلوک کے نزدیک نیکوں کی صحبت نیک کام کرنے سے بھی بہتر ہے کیونکہ نیک کا م کرنے کی ترغیب نیکوں کی صحبت سے ہی میسر آتی ہے اور بروں کی صحبت برے کام کرنے سے بدتر ہے۔

ایک مجلس میں فرمایا قیامت کے دن عاشقان الٰہی کو باری تعالیٰ ارشاد فرمائے گا تم سب جنت میں داخل ہو جاؤ وہ عرض کریں گے الٰہی ہمارا مطلوب حقیقی تو تیری ذات احدیت ہے تجھے پا لیا تو سب کچھ مل گیا بہشت تو انہیں عطا ہو جنہوں نے اس کی خاطر تجھے خدا جانا اور تیری عبادت کی۔

پھر خواجہ غریب نواز نے اس کی مزید تشریح یوں کی جو لوگ اپنی مرضی اللہ جل شانہ کے سپرد کر چکے ہیں انہیں بہشت اور اس کی نعمتوں سے کچھ سروکار نہیں ہوتا ان کا مطلوب حقیقی تو رب کریم ہی ہوتا ہے۔

ایک بار فرمایا عاشق رسول کا دل محبت کی آگ میں جلتا رہتا ہے لہٰذا جو کچھ بھی اس دل میں آئے گا، جل جائے گا کیونکہ آتش محبت سے زیادہ تیزی کسی آگ میں نہیں۔

ایک مجلس میں آپ نے فرمایا جس شخص میں تین باتیں ہوں سمجھ لو وہ اللہ کا دوست ہے۔ اول سمندر جیسی سخاوت دوم آفتاب جیسی شفقت سوم زمین جیسی تواضع۔

ایک مرتبہ فرمایا محبت کی علامت یہ ہے کہ فرمانبردار بن کر رہو اس بات سے ڈرتے رہو کہ محبوب تمہیں دوستی سے جدا نہ کردے، اور فرمایا لوگ اللہ تعالیٰ کا قرب اس وقت حاصل کر سکتے ہیں جب نماز کو اس کے جملہ حقوق و آداب کے ساتھ ادا کریں کیونکہ مومن کی معراج نماز ہی ہے۔

ایک مجلس میں آپ نے فرمایا اہل طریقت و سلوک پر درج ذیل چیزوں کی پابندی ازحد ضروری ہے۔

  1. معرفت میں حصول کمال
  2. طلب مرشد
  3. محبت و ادب
  4. رضا و خوشنودی
  5. فضول و لغو چیزوں سے اجتناب
  6. تقوی و پرہیز گاری
  7. استقامت شریعت
  8. فاقہ و کم خوری
  9. صلوۃ و صوم کی پابندی
  10. خلق سے عزلت و دوری

فرمایا دونوں جہانوں کو خیر باد کہنے سے اگر حق تعالیٰ کی رضا و خوشنودی حاصل ہو جائے تو یہ مہنگا سودا نہیں ہے۔

ایک دفعہ فرمایا : حجاج کرام کعبۃ اللہ کے ارد گرد جسمانی طواف کرتے ہیں لیکن عارفین الٰہی دل سے عرش کے گرد طواف کرتے ہیں اور دیدار الٰہی کے شوق میں ہمہ تن مستغرق رہتے ہیں۔

حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ

آپ کا اسم گرامی محمد بن محمد البخاری رحمۃ اللہ علیہ ہے۔ اپنے والد گرامی کے ساتھ کپڑا بننے اور اس پر نقش بنانے کی وجہ سے نقشبند کے لقب سے مشہور ہوئے۔ آپ کی ولادت 728 ہجری میں قصر عارفاں، بخارا سے تین میل دور ہوئی جبکہ وصال 3 ربیع الاول 791ھ بروز پیر ہوا، وصال کے وقت وصیت فرمائی کہ میرے جنازے کے سامنے یہ شعر پڑھا جائے۔

مفلسانیم آمدہ در کوئے تو
شیئا ﷲ از جمال روئے تو

آپ نے فرمایا امت تین طرح کی ہے ایک امت دعوت یعنی تمام لوگ مسلم و غیر مسلم دوسری امت اجابت یعنی مسلمان تیسری قسم امت متابعت ہے جنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل پیروی کی۔

ایک مرتبہ کسی نے آپ سے کرامت طلب کی تو فرمایا میری یہی کرامت ہے کہ گناہگار ہونے کے باوجود نہ تو زمین مجھے نگلتی ہے اور نہ آسمان سے عذاب نازل ہوتا ہے۔

کسی نے آپ سے خلوت در انجمن کا مطلب پوچھا تو فرمایا ’’ظاہر میں خلق کے ساتھ اور باطن میں حق کے ساتھ ہونا‘‘ اس نے کہا یہ کیسے ممکن ہے۔ فرمایا باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:

رِجَالٌ ۙ لَّا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوةِ وَ اِیْتَآءِ الزَّكٰوةِ ۪ۙ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْهِ الْقُلُوْبُ وَ الْاَبْصَارُۗۙ۝۳۷

 النور، 24 : 37

’’(اللہ کے اس نور کے حامل) وہی مردانِ (خدا) ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے اور نہ نماز قائم کرنے سے اور نہ زکوٰۃ ادا کرنے سے (بلکہ دنیوی فرائض کی ادائیگی کے دوران بھی) وہ (ہمہ وقت) اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں (خوف کے باعث) دل اور آنکھیں (سب) الٹ پلٹ ہو جائیں گیo‘‘

بخارا میں ایک عالم نے آپ سے سوال کیا کہ نماز میں حضوری کس طرح حاصل ہوتی ہے، فرمایا طعام حلال سے جو وقوف و آگاہی سے کھایا جائے اور یوں تمام اوقات اور بالخصوص نماز میں حضوری حاصل ہوتی ہے۔

آپ نے انسانی وجود کے اللہ کی معرفت کے راستے میں بذات خود حجاب اکبر ہونے کے بارے میں فرمایا کہ تیرا حجاب تیرا وجود ہے

’’دع نفسک و تعال‘‘ (اپنے نفس کو دروازے پر چھوڑ اور اللہ کی معرفت میں غوطہ زن ہو۔)

بری صحبت سے اجتناب و احتراز کرنے کے حوالے سے ارشاد فرمایا جس شخص کی قابلیت کا جوہر بری صحبتوں سے خراب ہوگیا تو اس کے احوال کی درستگی دشوار ہے سوائے اہل تدبیر کی صحبت کے، جو کہ بہت زیادہ حد تک نایاب ہے۔

ایک مرتبہ فرمایا استقامت کا طالب بن کر امت کا طالب نہ بن کیونکہ تیرا رب تجھ سے استقامت طلب کرتا ہے اور تیرا نفس تجھ سے کرامت مانگتا ہے۔

آپ سے سماع کی نسبت سوال کیا گیا تو فرمایا نہ میں اس سے انکار کرتا ہوں اور نہ اس کام کو کرتا ہوں۔

آپ نے فرمایا ہمارا طریقہ ادب ہی ادب ہے راہ طلب کی شرط اولین ادب ہے ادب تین طرح کا ہے ایک ادب اللہ تبارک و تعالیٰ کی نسبت ہے دوسرا ادب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت اور تیسرا ادب مشائخ طریقت کا ہے۔

اللہ تبارک و تعالی کا ادب یہ ہے کہ ظاہر و باطن بندہ بشرط کمال بندگی اس کے احکام کو بجا لائے اور ما سوا سے بالکل منہ پھیر لے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب یہ ہے کہ آپ کی کامل اطاعت و پیروی کی جائے اور ہر حالت میں آپ کے حقوق کو پیش نظر رکھے اور آپ کی تمام موجودات اور حق سبحانہ کے درمیان واسطہ سمجھے جو کوئی جو کچھ ہے اس کا سر آپ کے آستان عزت پر جھکا ہوا ہے۔

تیسرا ادب مشائخ کا ہے طالبین پر لازم ہے کہ وہ مشائخ جو اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گم ہوگئے ہوں ان کے ادب کو ہر حال میں لازم جانیں۔

ایک مرتبہ فرمایا مقصود ذکر یہ ہے کہ ذاکر کلمہ التوحید کی حقیقت کو پا لے اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ اس کلمہ کے کہنے سے ما سوا کی بالکل نفی ہو جائے۔

ایک مرتبہ آپ نے مکہ معظمہ میں دو آدمیوں کو دیکھا ایک نہایت بلند ہمت اور دوسرا نہایت پست ہمت تھا۔ فرمایا پست ہمت وہ تھا جسے میں نے طواف کعبہ کرتے دیکھا کہ وہ خانہ کعبہ پر ہاتھ رکھے اللہ کے سوا کو مانگ رہا تھا۔

بلند ہمت وہ جوان تھا جسے منی کے بازار میں کم و بیش پچاس ہزار دینار کی خرید و فروخت کرتے دیکھا لیکن اس دوران ایک لمحہ کے لئے بھی اس کا دل یاد الٰہی سے غافل نہ ہوا۔

عرفاء کو کامیابی کے ساتھ منزل تک پہنچنے والے راستے کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا وہ راہ جس کے ذریعے عرفاء مقصود حقیقی کو پا لیتے ہیں اور دوسرے محروم رہتے ہیں تین ہیں۔ مراقبہ، مشاہدہ اور محاسبہ۔

خالق کی طرف ہمہ وقت نظر کرنا اور مخلوق کی طرف عدم توجہ، مراقبہ کہلاتا ہے یعنی سالک کو چاہیے کہ ہر لمحہ اللہ کی ذات کی طرف متوجہ رہے، اور مخلوق سے قطع تعلق کر لے، جبکہ مشاہدہ سے مراد ان واردات غیبیہ کا معائنہ ہے جو دل پر نازل ہوتی ہیں وارد ہونے والی چیز جلد گزر جاتی ہے قرار نہیں پکڑتی سو ہم اس کا ادراک نہیں کر سکتے مگر صفت بسط و قبض سے اس کا اندازہ ہو جاتا ہے قبض میں صفت جلال کا مشاہدہ کرایا جاتا ہے اوور بسط میں صفت جمال کا۔

محاسبہ یہ ہے کہ ہر ساعت میں جو کچھ ہم پر گزرے اسے پرکھیں کہ اس میں غفلت کیا ہے اور حضوری کیا ہے اگر سرا سر نقصان ہے تو فکر کریں اور عمل کو از سر نو کریں کامیابی کا انحصار اسی راستے پر چلتے رہنے میں ہے۔

حضرت شہاب الدین ابو حفص عمر بن محمد سہروردی رحمۃ اللہ علیہ

آپ سلسلہ سہروردیہ کے بانی ہیں آپ کا سلسلہ نسب خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق رحمۃ اللہ علیہ سے جا ملتا ہے آپ 536 ھ میں عراق کے قصبہ سہرورد میں پیدا ہوئے آپ کی ولادت کے باعث اس قصبے کو چار دانگ عالم میں شہرت و عظمت حاصل ہوئی۔

آپ نے سلوک کی منازل اپنے چچا شیخ ابو نجیب سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کے زیر سایہ طے کیں آپ کے چچا حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں بیٹھنے والے تھے ایک دن آپ کو لے کر بارگاہ غوثیت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ شہاب الدین علم الکلام سے بہت شغف رکھتا ہے۔ مدعا یہ تھا کہ بھتیجا کلامی بحثوں میں الجھنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی معرفت میں مقام حاصل کرے۔ سیدنا غوث اعظم نے آپ سے کتابوں کے نام دریافت کئے پھر اپنا دست اقدس سینے پر رکھا تو علم الکلام کے سارے مسائل بھول گئے اور قلب باطنی علوم سے منور ہوگیا۔

آپ نے خلیج فارس کے جزیرہ عبادان میں گوشہ نشینی اختیار کی، عرصہ دراز تک عبادت و ریاضت میں مشغول رہے بیس ابدال کی صحبت سے بہرہ یاب ہوئے۔ حج کی سعادت کئی بار نصیب ہوئی بیت اللہ شریف میں کئی سال گزارنے کے بعد بغداد واپس آئے اور وہیں 632 ھ میں وصال فرمایا۔

آپ نے اپنے عم محترم کی وفات کے بعد مسند ارشاد سنبھالی مخلوق خدا کا ایک ہجوم آپ کی طرف متوجہ ہوا آپ کی صحبت نے بے شمار انسانوں کو نہ صرف راہ راست کی طرف متوجہ کیا بلکہ کئی گمراہ اپنی سابقہ زندگی سے تائب ہو کر راہ ہدایت پر گامزن ہوئے۔

آپ علم لدنی سے فیض یا ب تھے فرماتے ہیں اسلام کے علم القلوب کی دو قسمیں ہیں ایک قسم عوام کے لئے دوسری خواص کے لئے ہے۔ عوام کے لئے علم الیقین ہے جو غور و فکر اور استدلال سے حاصل ہوتا ہے اس میں دنیا دار علماء اور صلحاء آخرت برابر کا حصہ رکھتے ہیں۔

دوسرا علم خواص کے لئے ہے جو علمائے آخرت کا نصیب ہے اس علم کو قرآن نے سکینہ سے تعبیر کیا ہے جو مومنوں کے قلب پر نازل ہو کر انہیں سکون و اطمینان عطا کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا جب کسی کا حال بگڑ جائے تو وہ مجاہدہ کرے، سچے دل سے کئے جانے والے مجاہدے کی شرط یہ ہے کہ اس میں صبر پایا جائے۔

ایک مرتبہ فرمایا مبتدی سالک کو دنیا داروں کی صحبت سے بچنا چاہئے ان سے تعلق رکھنا اس کے لئے زہر قاتل ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ دنیا اللہ کو ناپسند ہے جو کوئی اس کی ایک رسی کو بھی پکڑ لیتا ہے وہ اسے دوزخ کی طرف لے جاتی ہے۔ مزید فرمایا مبتدی کو نام نہاد درویشوں کی صحبت سے بھی بچنا چاہئے جو شب بیداری اور روزے نہیں رکھتے۔ مبتدی سالک کے لئے ضروری ہے کہ وہ روزانہ قرآن حکیم کی تلاوت کرے اور کچھ قرآن حفظ بھی کرے۔ جس شخص نے تلاوت کو اپنی خلوت میں لازم کر لیا اور اس کی پابندی کی تو یہ اسے نماز کی طرح یکساں فائدہ دے گی بشرطیکہ جب زبان سے تلاوت کرے تو زبان کو کسی دوسرے کلام میں مشغول نہ کرے، اسی طرح جب قرآن کا معنی قلب میں کرے اور اسے حدیث نفس سے نہ ملائے، استقامت و مداومت سے یہ عمل بجا لاتا رہے تو ارباب مشاہدہ میں سے ہو جائے گی۔

تبلیغ و ترویج دین کے حوالے سے ارشاد فرمایا اشاعت اسلام کے سلسلے میں پا پیادہ ہزار کوس سے زیادہ چلا ہوں، بعض اوقات خرچ کی اس قدر تنگی ہوئی کہ تین دن تک کھانے پینے کو کچھ بھی نہ ملا کبھی کبھار ایسا بھی اتفاق ہوتا کہ رات دن مسلسل سفر کرنا پڑتا چوبیس چوبیس گھنٹے تک پانی کا ایک قطرہ بھی میسر نہ آتا لیکن الحمدللہ عزم و استقلال ہر حال میں قائم رہا اور خدمت دین جاری رہی۔

صبر کے بارے میں شیخ ابو الحسن بن سالم رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کرتے ہیں۔ صبر کرنے والوں کے تین درجات ہیں۔

1۔ معتبر

2۔ صابر

3۔ صبار

متعبر وہ ہے جو ’’فی اللہ‘‘ اللہ میں صبر کرتا ہے مگر اس کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ کبھی صبر کرتا ہے کبھی گھبرانے لگتا ہے۔

صابر وہ ہے جو ’’فی اللہ‘‘ اللہ میں اور ’’ﷲ‘‘ اللہ کے لئے صبر کرتا ہے کبھی بے صبری نہیں کرتا مگر شکوہ کی توقع ہوتی ہے۔

صبار وہ ہے جو ’’فی اللہ‘‘ ’’ﷲ‘‘ اور ’’باللہ‘‘ صبر کرتا ہے اس کا صبر کامل ہے یہ وہ شخص ہے جس پر جتنے بھی مصائب نازل ہوں پھر بھی نہیں گھبراتا۔ امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تمام پیغمبروں کو صبر کا حکم ملا مگر اس کا اعلیٰ درجہ و حصہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا ہوا۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved