درود و سلام اللہ تعالیٰ کی ان با برکت نعمتوں میں سے ہے جو اپنے دامن میں بے پناہ فیوض و برکات سمیٹے ہوئے ہیں۔ یہ ایسی لازوال دولت ہے کہ جسے مل جائے اس کے دین و دنیا سنور جاتے ہیں۔ درود و سلام محبوبِ خدا ﷺ کی تعریف، اللہ تعالیٰ کی رحمت کا خزانہ، گناہوں کا کفارہ، بلندیِ درجات کا زینہ، قربِ خداوندی کا آئینہ، خیر و برکت کا سفینہ ہے۔ مجلس کی زینت، تنگ دستی کا علاج، جنت میں لے جانے والا عمل، دل کی طہارت، بلاؤں کا تریاق، روح کی مسرت، روحانی پریشانیوں کا علاج، غربت و افلاس کا حل، دوزخ سے نجات کا ذریعہ اور شفاعت کی کنجی ہے۔
احادیث مبارکہ میں درود و سلام کے بے شمار فضائل و برکات کا ذکر ملتا ہے جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی سے والہانہ عقیدت و محبت جزوِ ایمان ہے۔ اس کے بغیر ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی۔ درود و سلام پڑھنا، محبتِ رسول ﷺ کی دلیل ہے۔ کثرت سے درود و سلام پڑھنے والے کو روزِقیامت قربِ رسول ﷺ کی نعمت سے فیض یاب کیا جائے گا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
أوْلَی النَّاسِ بِي يَومَ القَيَامَةَ أَکْثَرُهُمْ عَلَيَّ صَلَاةً.
(ترمذی، الجامع الصّحيح، أبواب الوتر، باب ماجاء في فضل الصّلاة علی النّبي صلی الله عليه وآله وسلم، 1 : 495، رقم : 484)
’’قیامت کے روز لوگوں میں سے میرے سب سے زیادہ قریب وہ ہوگا جو اس دنیا میں کثرت سے مجھ پر درود بھیجتا ہے۔‘‘
درود وسلام وہ پاکیزہ عمل ہے جو انسان کے تن اور من کو ہر قسم کی آلائشوں، کثافتوں اور آلودگیوں سے پاک و صاف کر دیتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
صلّوا عليّ فإنّ الصّلاة عليّ زکاةٌ لّکم.
’’مجھ پر درود پڑھا کرو۔ بلاشبہ مجھ پر (تمہارا) درود پڑھنا تمہارے لئے (روحانی و جسمانی) پاکیزگی کا باعث ہے۔‘‘
(ابن أبي شيبة، المصنف، 2 : 253، رقم : 8704)
درود و سلام کی سب سے بڑی فضیلت اور خصوصیت یہ ہے کہ کثرت سے درود و سلام پڑھنے والے کو خواب یا حالتِ بیداری میں حضور نبی اکرم ﷺ کی زیارت نصیب ہوتی ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی زیارت بہت بڑی سعادت ہے جو ہر ایک کو میسر نہیں آتی بلکہ خال خال ہی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو مومن جمعہ کی رات دو رکعت اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں 25 مرتبہ قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ سورۃ فاتحہ کے بعد پڑھے، پھر ہزار مرتبہ یہ درود پڑھے اللَّهُمَّ صَلِّی عَلَی مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الْاُمِّي تو آنے والے جمعہ سے پہلے خواب میں میری زیارت کرے گا۔ جو میری زیارت کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف فرما دے گا۔‘‘
(طبرانی، المعجم الأوسط، 6 : 173، رقم : 6111)
درود و سلام کا ورد رحمتِ خداوندی کا خزانہ ہے۔ جو شخص خلوص دل سے درود و سلام کا ورد کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنی رحمتوں کی بارش نازل فرماتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ ہم اس کے محبوب کی صرف تھوڑی سی تعریف کرتے ہیں تو وہ ہمیں اپنی رحمتوں کے خزانے سے مالا مال کر دیتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
مَنْ صَلَّی عَلَیَّ وَاحِدَةً، صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ عَشْرًا
( مسلم، الصحيح، کتاب الصلاة، باب الصّلوٰة علی النّبی ﷺ بعد التشھّد، 1 : 306، رقم : 408)
’’جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھا اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ رحمتیں نازل فرمائے گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔ اس کی رحمت بندوں کی بخشش کے بہانے تلاش کرتی رہتی ہے۔ اللہ کے محبوب ﷺ پر درود و سلام بھیجنا بھی انہی بخشش کے بہانوں میں سے ایک ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
’’جب (اللہ تعالیٰ کے لئے) محبت رکھنے والے دو بندے ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور حضور نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجتے ہیں تو ایک دوسرے سے علیحدہ ہونے سے پہلے ان کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔‘‘
(أبو یعلی، المسند، 5 : 304، رقم : 2960)
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں : میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ﷺ میں آپ پر کثرت کے ساتھ درود پڑھتا ہوں۔ میں اپنی دعا کا کتنا حصہ آپ پر درود کے لئے مقررکروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جتنا تم پسند کرو۔ میں نے عرض کیا : ایک چوتھائی؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ٹھیک ہے لیکن اگر کچھ اور بڑھا دو تو بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا : کیا آدھا حصہ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ٹھیک ہے لیکن اگر کچھ اور بڑھا دو تو بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا : دوتہائی ؟ فرمایا : اس میں بھی اضافہ کردو تو بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا : میں اپنی ساری دعا (کا وقت ) آپ پر درود کے لئے وقف کر دوں گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا :
إذا تُکْفی ھَمَّکَ، وَيُغْفَرُ لَکَ ذَنْبُکَ۔
’’تب تو تیرا ہر غم دور ہو گا اور ہر گناہ معاف کر دیا جائے گا۔‘‘
(ترمذی، الجامع الصّحیح، أبواب صفة القیامة، باب مَا جاَئَ فِي صفةِ أواني الحَوْضِ، 4 : 245، رقم : 2457)
حضرت عبد اللہبن مسعود رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے کہ میں نماز پڑھ رہا تھا اور حضور نبی اکرم ﷺ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ وہاں رونق افروز تھے۔ جب میں نماز پڑھ کر بیٹھ گیا تو پہلے میں نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر حضور نبی اکرم ﷺ پر درود پڑھا پھر اپنے لئے دعا مانگی تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
سَلْ تُعْطَهْ، سَلْ تُعْطَهْ۔
’’مانگ تجھے عطا کیا جائے گا، مانگ تجھے عطا کیا جائے گا۔‘‘
(ترمذی، الجامع الصحيح، أبواب السفر، باب ما ذُکِرَ فِي الثَّنَائِ علی اللہ والصلاة علی النبي ﷺ ، 1 : 588، رقم : 593)
درود و سلام پڑھنے کی برکت کا اندازہ اس بات سے ہو رہا ہے کہ اللہ ربّ العزت درود پڑھنے والے پر خود درود بھیجتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عوف رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھے خوشخبری سنائی کہ آپ کا پروردگار فرماتا ہے :
مَنْ صَلَّی عَلَيْکَ صَلَّيْتُ عَلَيْهِ، وَمَنْ سَلَّمَ عَلَيْکَ سَلَّمْتُ عَلَيْهِ۔
( حاکم، المستدرک، 1 : 735، رقم : 2019)
’’جو شخص آپ پر درود پڑھتا ہے میں اس پر درود پڑھتا ہوں اور جو کوئی آپ کو سلام عرض کرتا ہے میں اس پر سلام بھیجتا ہوں۔‘‘
جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات کثرتِ درود و سلام کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ صحابہ کرام ثسے اس دن اور رات میں درود و سلام پڑھنے سے متعلق کثرت کے ساتھ احادیث مروی ہیں۔
حضرت اوس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
’’تمہارے دنوں میں جمعہ کا دن سب سے افضل ہے اس میں حضرت آدمں کو پیدا کیا گیا اور اسی میں ان کی روح قبض کی گئی اور اسی میں صور پھینکا جائے گا اور اسی میں سب بیہوش ہوں گے۔ پس اس روز مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود پڑھنا مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ لوگ عرض گزار ہوئے : یا رسول اللہ! اس وقت بھلا ہمارا درود پڑھنا کس طرح پیش ہوگا جبکہ آپ رحلت فرما چکے ہوں گے؟ یعنی مٹی (میں دفن) ہو چکے ہوں گے۔ آپ نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کے جسموں کو زمین پر حرام فرما دیا ہے۔‘‘
(ابن ماجة، السنن، کتاب الجنائز، باب ذِکْرِ وَفَاتِهِ وَدَفْنِهِ ﷺ ، 2 : 304، رقم : 1636)
درود و سلام پڑھتے وقت تعظیم و تکریم اور تواضع و انکساری کا اظہار علامتِ محبت ہے کیونکہ ہر محب اپنے محبوب کا ذکر نہایت ادب و احترام اور تواضع سے کرتا ہے۔ صحابہ کرام ث آقا علیہ الصلوٰۃ والسّلام کا ذکر نہایت خشوع و خضوع سے کرتے تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضری کے وقت ظاہری اور باطنی ادب و احترام کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے کیونکہ یہ تقاضائے محبت و عقیدت بھی ہے اور علامت ایمان بھی۔ اس لئے بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں درود و سلام پیش کرتے ہوئے مندرجہ ذیل آداب کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
’’جو مسلمان حضور نبی اکرم ﷺ کا ذکر کرے یا جس کے پاس سرکار دوعالم ﷺ کا ذکر کیا جائے اس پر واجب ہے کہ وہ خشوع و خضوع سے، آپ ﷺ کا وقار پیشِ نظر رکھتے ہوئے، بغیر حرکت کئے حضور نبی اکرم ﷺ کی ہیبت و جلالت کو اس طرح ملحوظ خاطر رکھے جس طرح آپ ﷺ کی بارگاہ میں حاضری کے وقت ملحوظ خاطر رکھتا ہے اور اسی طرح آپ ﷺ کا ادب و احترام کرے جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہم کو آپ ﷺ کا ادب سکھایا ہے۔ انہوں نے فرمایا : ہمارے سلفِ صالحین اور ائمہ و محدثین کا یہی دستور تھا۔‘‘
(نبہانی، سعادة الدارین، 1 : 220)
(نبہانی، سعادة الدارین، 1 : 220)
بارگاہِ رسالت ﷺ میں درود نہ بھیجنے والا اللہ کی رحمت اور فضل سے محروم ہو جاتا ہے اور وہ فیوض و برکات جو درود و سلام کی بدولت حاصل ہوتے ہیں نہ پڑھنے والے کو حاصل نہیں ہوتے بلکہ احادیث مبارکہ میں درود و سلام نہ پڑھنے والے کی بڑی مذمت بیان ہوئی ہے۔
1۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
مَنْ نَسِيَ الصَّلَاةَ عَلَیَّ خَطِیَٔ طَرِيْقَ الْجَنَّةِ۔
’’جو مجھ پر درود پڑھنا بھول گیا وہ بہشت کی راہ بھول گیا۔‘‘
(ابن ماجة، السنن، کتاب إقامة الصّلاة و السنّة فیہا، باب الصّلاة علی النّبی ﷺ ، 1 : 491، رقم : 908)
2۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
رَغِمَ أنْفُ رَجُلٍ ذُکِرْتُ عِنْدهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَليَّ۔
’’اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔‘‘
(ترمذی، الجامع الصحيح، أبواب الدعوات، باب في فَضْلِ التَّوْبَةِ وَالاَسْتِغْفَارِ وَمَا ذُکِرَ منْ رَحْمَةِ اللہِ بِعِبَادِهِ، 5 : 513، رقم : 3545)
مَنْ لَمْ يُصَلّ فَلَا دِيْنَ لَہٗ۔
(ہیثمی، مجمع الزوائد، 1 : 295)
’’جو مجھ پر درود نہیں پڑھتا اس کا دین نہیں۔‘‘
قرآنی آیات اور احادیث مقدسہ کی روشنی میں یقینا آپ کو درود وسلام کی اہمیت وفضیلت کا علم ہو چکا ہو گا۔ دنیا بھر میں نہ صرف اہل اسلام صبح وشام حضور ﷺ کے ذکر میں مصروف رہتے ہیں بلکہ خود باری تعالی اپنے حبیب محمد ﷺ کے ذکر کو ہر لمحہ بلند فرما رہا ہے۔ ہرروز اللہ کی بارگاہ سے ایک لاکھ چالیس ہزار ملائکہ حضور ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں اور درود وسلام کے گلدستے پیش کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں سینکڑوں مقامات ایسے ہوں گے جہاں ہر ہفتے، ہر ماہ، ایک دن عشاق مصطفیٰ ﷺ چند گھنٹوں کے لئے مل کر حضور کی بارگاہ میں درود پیش کرتے ہوں گے، ممکن ہے بعض مقامات پر روزانہ چند گھنٹے درود پڑھا جاتا ہو لیکن روئے زمین پر حضور نبی اکرم ﷺ کے روضہ اقدس اور حرم شریف کے علاوہ اگر کوئی مقام ایسا ہے جہاں سال کے بارہ ماہ، 365 دن اور چوبیس گھنٹے، ہر لمحہ فقط حضور نبی اکرم ﷺ پر درود پڑھا جارہا ہے تو تحریک منہاج القرآن کے مرکز پر واقع گوشتہ درود ہے۔
دسمبر 2005 میں اس گوشہ درود کا افتتاح ہوا، دنیا بھر سے عاشقان مصطفیٰ ﷺ دس دس دنوں کے لئے درود و سلام پیش کرنے کے لئے حاضر ہوتے ہیں، ہر عشرے میں (دس دنوں کے لئے) اٹھارہ افراد حاضر ہوتے ہیں، دن بھر روزہ رکھتے ہیں اور رات دن حضور ﷺ پر درود پڑھتے ہیں اور قرآن کی تلاوت جاری رہتی ہے، یوں ہر ماہ 54 افراد دنیا بھر سے گوشہ درود بھر میں حاضری کے لئے آتے ہیں۔ تقریباً دوسال کے عرصہ میں ایک لمحے کے انقطاع کے بغیر درود شریف پڑھا جارہا ہے، یہ منتخب افراد وہ ہوتے ہیں جودنیا بھر سے اس گوشہ درود میں حاضری کے لئے نام لکھواتے ہیں، کثیر خواہش مندوں کی وجہ سے قرعہ اندازی کرنا پڑتی ہے، ان مقررہ منتخب لوگوں کے علاوہ سینکڑوں کی تعداد میں حضور ﷺ سے محبت کرنے والے صبح وشام اپنی سہولت کے مطابق گوشہ درود میں حاضر ہوتے ہیں اور سلام پیش کرتے رہتے ہیں۔ تقریباً بیس ماہ میں اس گوشہ درود سے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں دو ارب سے زائد مرتبہ درود پیش کیا جا چکا ہے۔ اس گوشہ درود کی برکات کا صحیح اندازہ وہی کر سکتے ہیں جو دس دنوں کے لئے گھر بار چھوڑ کر فقط حضور ﷺ کی بارگاہ میں درود پیش کرنے کے لئے حاضر ہوتے ہیں۔
منہاج القرآن مرکزی سیکرٹریٹ کے لان میں مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کے روضہ اقدس کے نمونہ کے مطابق گوشہ درود کی تعمیر جاری ہے۔ انشاء اللہ یہ گوشہ درود نہ صرف عاشقان مصطفیٰ ﷺ کے قلوب کی تسکین کا باعث بنے گا بلکہ حضور ﷺ کی بارگاہ میں سلام پیش کر کے امت کے اجتماعی گناہوں کی معافی کا ذریعہ بھی بنے گا۔ جملہ شرکائے اعتکاف کو دعوت ہے کہ سال میں ایک مرتبہ اعتکاف اللہ کی بارگاہ میں کریں اور ایک مرتبہ اس کے حبیب ﷺ کی بارگاہ میں گوشہ درود میں حاضر ہوں۔ اپنی سہولت کے مطابق ایام کا تعین کر کے فارم جمع کروا کر جائیں، اپنے اپنے علاقوں میں بھی حلقہ ہائے درود قائم کریں، اپنے گھروں میں ایک جگہ مختص کریں جہاں جملہ اہل خانہ مل کر ہفتہ وار یا روزانہ حضور ﷺ کی بارگاہ میں درود پیش کریں۔ اس دور فتن میں کیبل اور میڈیا ہماری نئی نسلوں کو ایمان، حیا اور اخلاق سے محروم کر رہا ہے۔ اگر ہم نے اپنی نئی نسلوں کے ایمان کی حفاظت کا بندوبست نہ کیا تو نہ صرف اپنی آنکھوں سے اپنے گھر میں کفر کو پروان چڑھتا دیکھنا ہو گا بلکہ روز محشر اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کی بارگاہ میں جواب دہ بھی ہوں گے۔
اس گوشہ درود کا ایک اور امتیاز یہ بھی ہے کہ ہر ماہ کی پہلی جمعرات کو جس قدر درود پاک گزشتہ ماہ میں پڑھا جاتا ہے اسے خوبصورت محفل پاک میں اجتماعی طور پر بارگاہ محمدی ﷺ میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس تقریب کو ماہانہ ختم الصلوۃ علی النبی ﷺ کا نام دیا گیا ہے۔ اس موقع پر حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری خصوصی خطاب فرماتے ہیں۔ ملک بھر سے عاشقان مصطفیٰ ﷺ اس اجتماعی تقریب میں شرکت کے لئے خود بھی حاضر ہوتے ہیں اور اپنا پڑھا ہوا درود بھی ختم الصلوۃ علی النبی ﷺ میں پیش کرتے ہیں۔ آپ سے بھی گزارش ہے کہ یہاں پڑھا ہوا اور گھر میں حلقہ ہائے درود میں پڑھے جانے والے درود کو مرکزی گوشہ درود میں نوٹ کروائیں تاکہ جب اجتماعی طور پر درود پیش ہو تو ہمارا پڑھا ہوا بھی قبول ہو جائے۔ اٰمین بجاہ النبی ﷺ آمین۔ تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو : www.gosha-e-durood.com
اس کائنات میں پیار و محبت کے رشتوں میں میاں بیوی سے بڑھ کر کوئی رشتہ نہیں۔ اس رشتے کی مضبوطی اور اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے نیک اور پاکیزہ رفیقہ حیات کو دنیا کی نعمتوں میں سے سب سے قیمتی نعمت قرار دیا ہے اور شوہر کو عورت کے لئے وہ درجہ دیا ہے کہ اگر اللہ کے سوا سجدہ جائز ہوتا تو بیوی کو حکم ہوتا کہ وہ شوہر کو کرے۔ اسلام نے میاں بیوی کے درمیان حقوق وفرائض کا ایسا توازن قائم کیا ہے۔ جس کی مثال کوئی دوسرا مذہب یا معاشرہ پیش نہیں کر سکتا۔
اسلام نے عورت کو بحیثیت بیوی متعدد حقوق عطا کئے ہیں۔ اِسلام نے مرد (شوہر) پر بیوی کی معاشی، معاشرتی اور ازدواجی ضروریات کی کفالت کو لازم قرار دیا ہے۔
نکاح کے بعد مرد عورت کے معاشرتی حقوق کا ضامن ہوتا ہے۔ عورت کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ شوہر اسے عزت کی نگاہ سے دیکھے۔ زندگی کے معاملات میں اس پر یوں اعتماد کرے کہ اسے بھی اپنے وجود کا احساس ہو۔ اسے صرف اپنے دکھ درد کا ساتھی نہ بنائے، کبھی اس کے غموں کا بھی احساس کرے۔
اللہ رب العزت نے مردوں کو حکم دیا ہے کہ
وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ.
(النساء، 4 : 19)
’’اور عورتوں کے ساتھ معاشرت میں نیکی اور انصاف ملحوظ رکھو۔‘‘
اللہ رب العزت نے نہایت خوبصورت الفاظ میں پوری معاشرتی زندگی میں بیویوں سے بہترین سلوک کا حکم دیا ہے۔ شوہروں پر لازم ہے کہ وہ بیویوں کے ساتھ رہن سہن، عزت وقار، نان، نفقہ اور دُکھ سکھ میں نیکی اور انصاف کو ملحوظ رکھیں۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔
اَلدُّنْيَا مَتَاعٌ وَخَيْرُمَتَاعِ الدُّنْيَا اَلْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ.
(مسلم فی الصحيح، 2 : 1090، رقم 1467)
’’دنیا سازوسامان کی جگہ ہے اور اس دنیا کا بہترین سرمایہ نیک عورت ہے۔‘‘
گویا عورت صرف سکون کا ذریعہ نہیں، صرف بچوں کی پرورش کے لئے داعی نہیں، بلکہ دنیا کی قیمتی ترین متاع ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
خَيْرُکُمْ خَيْرٌ لِاَهْلِهِ.
(ترمذی جامع الصحيح، 5 : 907، رقم : 3895)
’’تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنے اہل (بیوی بچوں) کے لئے اچھا ہے۔‘‘
ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا کہ
مَاحَقُّ زَوْجَةِ اَحْدِنَا عَلَيْهِ؟ قَالَ اَنْ تُطْعِمَهَا اِذَا طَعَمْتَ وَتَکْسُوْهَا اِذَا اکْتَسَيْتَ اَوْ اِکْتَسَبْتَ، وَلَا تَضْرِبِ الْوَجْهَ، وَلَا تُقَبِّحْ، وَلَاتَهجُرْ اِلَّا فِی الْبَيْتِ.
(ابوداؤد فی السنن، 2 : رقم : 2142)
’’ہم میں سے کسی پر اس کی بیوی کا کیا حق ہے؟ فرمایا جب تم کھاؤ اُسے بھی کھلاؤ، جب تم پہنو اسے بھی پہناؤ، اس کے منہ پر نہ مارو، اس سے برے لفظ نہ کہو اور اسے خود سے جدا نہ کرو مگر گھر میں ہی۔‘‘
مذکورہ بالا ان احادیث پر عمل مل جائے تو ہمارے تمام ازدواجی مسائل حل ہو جائیں۔ اگر آج کے معاشرے میں مرد عورت کی تذلیل نہ کرے، اس پر تشدد نہ کرے، جیسا خود کھائے اور پہنے ویسا بیوی کو کھلائے اور پہنائے تو یقیناً پاکیزہ عورت شوہر کی عزت وتکریم میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے گی۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
اِتَّقُوْا اللہَ فِی النِسَاءِ فَاِنَّکُمْ اَخَذْتُمُوْهُنَّ بِاَمَانَةِ اللہِ.
(ابوداؤد، السنن، 2 : 185، رقم 1905)
’’عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی طرف بطور امانت لیا ہے۔‘‘
اگر اس حدیث کی روشنی میں ہمارے اندر یہ احساس پیدا ہو جائے، بیوی شوہر کے پاس ایک ایسی امانت ہے، جس کا جواب صرف دنیا میں اپنی ساس یا سسر کو نہیں دینا بلکہ اللہ کے حضور جواب دہ ہونا ہے تو یقیناّ ہماری سوچ فکر اور عمل کے زاویے بدل جائیں۔ معاشرتی حقوق کے ساتھ ساتھ ازدواجی اور معاشی ضروریات کی تکمیل عورت کا حق اور مرد کا فرض ہے۔
اسلام نے عورت کو بحیثیت بیوی جیسے حقوق عطا کئے ہیں ویسے اس پر فرائض ہی عائد کئے ہیں۔ شوہر کے چند اہم حقوق درج ذیل ہیں۔
اسلام شوہر کو حق دیتا ہے کہ اس کی بیوی اس کی اطاعت کرے۔ ا للہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا۔
فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللّهُ.
(النساء، 4 : 34)
’’پس نیک بیویاں اطاعت شعار ہوتی ہیں شوہروں کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت کے ساتھ (اپنی عزت کی) حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں۔‘‘
قرآنی آیات کے علاوہ متعدد احادیث مقدسہ میں حضور نبی اکرم ﷺ نے شوہر کے حقوق اور بیوی کے فرائض کی نشاندہی فرمائی ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔
المَرْأَةُ رَاعِيَّة عَلٰيَبْيِت زَوْجِهَا وَهِی مَسْؤُلَةٌ.
’’عورت اپنے خاوند کے گھر پر نگران ہے اور جواب دہ ہے۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا۔
اَیُّ الِنسَاءِ خَيْرُ؟ قَالَ الَّتِی تَسَرُّه اِذَا نَظَرَ وَتَطِيْعُهُ اِذَاَ اَمَرَ وَلَاتُخَالِفْهِ فَی نَفْسِهَا وَلَاَمَالَهَا بِمَا يَکْرَهُ
(النسائی، سنن)
’’کون سی عورت بہتر ہے؟ فرمایا وہ جب اس کا شوہر اس کی طرف دیکھے تو وہ اسے خوش کرے اور حکم دے تو اطاعت کرے؟، اور اپنی ذات اور شوہر کے مال کے بارے میں ایسی بات نہ کرے جو اسے ناپسند ہو۔‘‘
حضور نبی اکرم ﷺ نے عورت کے لئے مرد کی اطاعت کا صلہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
عَن اُمِّ سَلْمَه قَالَتْ قَال رَسُولِ اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم اّيُّمَا اِمْرَة مَاتَتْ وَزَوْجُهَا عَنْهَا رَاضٍ دَخَلَتْ الجَنَّةِ.
’’ام سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر وہ عورت جو اس حال میں فوت ہو کہ اس کا خاوند اس سے راضی ہوتو وہ جنت میں داخل ہوگی۔‘‘
گویا ایک طرف عورتیں مردوں کے پاس اللہ کی امانت ہیں تو دوسری طرف عورتوں کی جنت مردوں کی رضا اور خوشی میں ہے۔
معلمین آج شرکاء کو نماز جنازہ کی تینوں دعائیں یاد کروائیں۔ جس قدر ممکن ہو سکے دعائیں دُہرا دُہرا کر یاد کروائیں اور اُن سے سنیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved