ذاتِ باری تعالیٰ کی بارگاہِ صمدیّت میں اس کے بے پایاں جود و کرم اور فضل و رحمت کی خیرات طلب کرنے کے لئے کمالِ خشوع و خضوع کے ساتھ سراپا التجا بنے رہنے اور اس کے حقِ بندگی بجا لانے کو صلوٰۃ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ بنظرِ غائر دیکھا جائے تو کائناتِ ارضی و سماوی کی ہر مخلوق اپنے اپنے حسبِ حال بارگاہِ خداوندی میں صلوٰۃ اور تسبیح و تحمید میں مصروف نظر آتی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُسَبِّحُ لَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِيحَهُ.
(النور، 24 : 41)
’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کوئی بھی آسمانوں اور زمین میں ہے وہ (سب) اللہ ہی کی تسبیح کرتے ہیں اور پرندے (بھی فضاؤں میں) پر پھیلائے ہوئے (اسی کی تسبیح کرتے ہیں)، ہر ایک (اللہ کے حضور) اپنی نماز اور اپنی تسبیح کو جانتا ہے۔‘‘
نماز دینِ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان کے بعد اہم ترین رکن ہے۔ اس کی فرضیت قرآن و سنت اور اجماعِ امت سے ثابت ہے۔ یہ شبِ معراج کے موقع پر فرض کی گئی۔ قرآن و سنت اور اجماع کی رو سے اس کی ادائیگی کے پانچ اوقات ہیں۔
اسلامی نظامِ عبادات میں نماز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ قرآنِ حکیم میں 92 مقامات پر نماز کا ذکر آیا ہے۔ اور متعدد مقامات پر صیغہ امر کے ساتھ (صریحاً) نماز کا حکم وارد ہوا ہے۔ چندآیات ملاحظہ ہوں :
1. وَأَقِيمُواْ الصَّلاَةَ وَآتُواْ الزَّكَاةَ وَارْكَعُواْ مَعَ الرَّاكِعِينَO
(البقره، 2 : 43)
اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ۔
2۔ سورہ طٰہٰ میں ارشاد خداوندی ہے :
وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِيO
(طه، 20 : 14)
’’اور میری یاد کی خاطر نماز قائم کیا کرو۔‘‘
3۔ اللہ عزوجل نے اپنے نہایت برگزیدہ پیغمبر سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرمایا :
وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلاَةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِندَ رَبِّهِ مَرْضِيًّاO
(مريم، 19 : 55)
’’اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے رب کے حضور مقامِ مرضیّہ پر (فائز) تھے (یعنی ان کا رب ان سے راضی تھا)‘‘
اسلام کے ارکانِ خمسہ میں سے شہادت توحید و رسالت کے بعد جس فریضہ کی بجا آوری کا حکم قرآن و سنت میں تاکید کے ساتھ آیا ہے وہ نماز ہی ہے۔ درج ذیل احادیث مقدسہ کے مطالعہ سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اسلام میں نماز کو کیا مقام حاصل ہے؟
1۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
بُنِيَ الإِسْلَامُ عَلَی خَمْسٍ. عَلَی أَنْ يُعْبَدَ اللہُ وَ يُکْفَرَ بِمَا دُوْنَهُ. وَإِقَامِ الصَّلَاةِ. وَإِيْتَاءِ الزَّکَاةِ. وَحَجِّ الْبَيْتِ. وَصَوْمِ رَمَضَانَ.
(مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب : بيان أرکان الإسلام ودعائمه العظام، 1 : 45، رقم : 16)
’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اور اس کے سوا سب کی عبادت کا انکار کرنا، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘
2۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا :
خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَهُنَّ اللہُ عزوجل، مَنْ أَحْسَنَ وُضُوئَهُنَّ وَصَلَّاهُنَّ لِوَقْتِهِنَّ وَأَتَمَّ رُکُوْعَهُنَّ وَخُشُوْعَهُنَّ، کَانَ لَهُ عَلَی اللہِ عَهْد أَنْ يَغْفِرَ لَهُ، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَيْسَ لَهُ عَلَی اللہِ عَهْدٌ، إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ، وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ.
(أبو داود، السنن، کتاب الصلوٰة، باب فی المحافظة فی وقت الصلوات، 1 : 175، رقم : 425)
’’اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں، جس نے ان نمازوں کے لئے بہترین وضو کیا اور ان کے وقت پر ان کو ادا کیا، کاملاً ان کے رکوع کئے اور ان کے اندر خشوع سے کام لیا تو اللہ عزوجل نے اس کی بخشش کا عہد فرمایا ہے، اور جس نے یہ سب کچھ نہ کیا اس کے لئے اللہ تعالیٰ کا کوئی ذمہ نہیں، چاہے تو اسے بخش دے، چاہے تو اسے عذاب دے۔‘‘
3۔ نماز کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے وصال کے وقت امت کو جن چیزوں کی وصیت فرمائی ان میں سے سب سے زیادہ تاکید نماز کی فرمائی، بلکہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی حد یثِ صحیح کے مطابق آخری الفاظ جو آپ ﷺ کی زبان مبارک پر بار بار آتے تھے وہ یہی تھے :
الصَّلَاةَ الصَّلَاةَ، اتَّقُوا اللہَ فِيْمَا مَلَکَتْ أَيْمَانُکُمْ.
(أبوداود، السنن، کتاب الأدب، باب في حق المملوک، 4 : 378، رقم : 5156)
’’نماز کو لازم پکڑو اور اپنے غلام، لونڈی کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا۔‘‘
نمازِ پنجگانہ مسلمانوں کے لئے ایک اہم ترین فریضہ ہے۔ اسلامی عبادات میں سب سے افضل عبادت نماز ہے۔ قرآن و حدیث میں نماز کے بے شمار فضائل اور فوائد بیان ہوئے ہیں۔ ان میںسے چیدہ چیدہ درج ذیل ہیں :
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
الصَّلَاةُ لِوَقْتِهَا.
’’نماز کو اس کے مقررہ وقت پر پڑھنا۔‘‘
(مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، 1 : 89، رقم : 85)
حضرت جندب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
مَنْ صَلَّی الصُّبْحَ فَهُوَ فِی ذِمَّةِ اللہِ. فَلَا يَطْلُبَنَّکُمُ اللہُ مِنْ ذِمَّتِهِ بِشَيْئٍ فَيُدْرِکَهُ فَيَکُبَّهُ فِی نَارِ جَهَنَّمَ.
(مسلم، الصحيح، کتاب المساجد و مواضع الصلاة، باب فضل صلاتی الصبح، 1 : 454، رقم : 657)
’’جس شخص نے صبح کی نماز پڑھی وہ اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری میں ہے اور جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری میں خلل ڈالا، اللہ تعالیٰ اس کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے گا۔‘‘
حضرت عمارہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فرما رہے تھے :
لَنْ يَلِجَ النَّارَ أَحَدٌ صَلَّیٰ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا يَعْنِی الْفَجْرَ وَالْعَصَرَ.
(مسلم، الصحيح، کتاب المساجد و مواضع الصلاة، باب فضل صلاتی الصبح و العصر، 1 : 440، رقم : 634)
’’جس شخص نے طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب سے پہلے نماز پڑھی یعنی فجر اور عصر، وہ ہرگز دوزخ میں نہیں جائے گا۔‘‘
ابوبکر رضی اللہ عنہ کے والد بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
مَنْ صَلَّی البَرْدَيْنِ دَخَلَ الجَنَّةَ.
’’جس نے دو ٹھنڈی نمازیں (عصر اور فجر) پڑھیں وہ جنت میں جائے گا۔‘‘
(مسلم، الصحيح، کتاب المساجد و مواضع الصلاة، باب فضل صلاتی الصبح و العصر، 1 : 440، رقم : 635)
حضرت ابو بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے مقام محض میں ہمارے ساتھ عصر کی نماز پڑھی اور فرمایا : ’’تم سے پہلی امتوں پر بھی یہ نماز پیش کی گئی تھی لیکن انہوں نے اسے ضائع کر دیا لہٰذا جو اس کی حفاظت کرے گا اس کو دو گنا اجر ملے گا۔‘‘
(مسلم، الصحيح، کتاب صلاة المسافرين و قصرها، باب مايتعلق بالقراء ات، 1 : 568، رقم : 830)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
إِنَّ أَفْضَلَ الصَّلوٰةِ عِنْدَ اللہِ صَلوٰةُ الْمَغْرَبِ، وَ مَنْ صَلَّی بَعْدَهَا رَکْعَتَيْنِ بَنَی اللہُ لَه بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ، يَغْدُو فِيْهِ وَ يَروح.
(طبرانی، المعجم الأوسط، 7 : 230، رقم : 6445)
’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے افضل نماز، نماز مغرب ہے اور جو اسکے بعد دو رکعت پڑھے تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ جنت میں ایک گھر بنا دے گا (جس میں) وہ صبح کرے گا اور راحت پائے گا۔‘‘
حضرت عبدالرحمن بن ابی عمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
مَنْ صَلَّی الْعِشَاءَ فِی جَمَاعَةٍ فَکَأَنَّمَا قَامَ نِصْفَ اللَّيْلِ.
’’جس شخص نے عشاء کی نماز باجماعت پڑھی تو گویا اس نے نصف رات قیام کیا۔‘‘
(مسلم، الصحيح، کتاب المساجد و مواضع الصلاة، باب فضل صلاة العشاء و الصبح فی جماعة، 1 : 454، رقم : 656)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ’’حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک شخص نے آ کر کہا یا رسول اللہ! مجھ سے ایک ایسا جرم ہوگیا ہے جس پر حد ہے۔ آپ ﷺ مجھ پر حد جاری فرما دیں، اتنے میں نماز کا وقت آگیا۔ اس نے حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب اس نے نماز پڑھ لی تو عرض کی : یا رسول اللہ! میں نے حد لگنے والا کام کیا ہے۔ آپ کتاب اللہ کے مطابق حد قائم کیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی ہے؟ اس نے عرض کی : جی ہاں! آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تمہارے گناہوں کو (اس نماز کے صدقے) معاف کر دیا ہے۔‘‘
(مسلم، الصحيح، کتاب التوبة، باب قوله تعالٰی : إِن الحسنات يذهبن السيئات، 4 : 2117، رقم : 2764)
کسی نے حضرت شیخ ذوالنون مصری علیہ الرحمۃ سے نماز کی امامت کے لئے کہا انہوں نے بہت پس و پیش کیا لیکن جب لوگوں کا اصرار بڑھ گیا تو مصلّے پر کھڑے ہوگئے۔ ابھی تکبیر تحریمہ کے لئے اللہ اکبر کہا ہی تھا کہ غش کھا کر گر پڑے اور کافی دیر تک اس حال میں پڑے رہے گویا اللہ کی کبریائی کا زبان سے اقرار کرنے کی دیر تھی کہ شیخ نے الوہی عظمت و جبروت کا نظارہ بچشم سر کر لیا اور خرمن ہوش جل کر رہ گیا۔
(سہروردی، عوارف المعارف : 474)
صد افسوس کہ ہماری قلبی و ایمانی حالت اس قدر بگاڑ کا شکار ہو چکی ہے کہ ہماری نمازیں نتیجہ خیزی کے اعتبار سے احوال حیات میں کوئی انقلاب بپا نہیں کرتیں، فی الحقیقت ایک سجدہ بھی اگر صحیح ادا ہو جائے تو وہ پوری زندگی کے احوال کو بدل سکتا ہے۔
ہر شے کی ایک ظاہری صورت ہوتی ہے اور ایک باطنی حقیقت، نماز بھی ایک ظاہری صورت رکھتی ہے اور ایک باطنی حقیقت۔ نماز کی اس باطنی حقیقت کا نام قرآن و سنت کی زبان میں ’’خشوع و خضوع‘‘ ہے۔
لفظ خشوع کے معانی اطاعت کرنا، جھکنا اور عجز و انکسار کا اظہار کرنا ہیں۔ اس کیفیت کا تعلق دل اور جسم دونوں سے ہوتا ہے۔ دل کا خشوع یہ ہے کہ بندے کا دل رب ذوالجلال کی عظمت و کبریائی اور اس کی ہیبت و جلال سے مغلوب ہو اور اپنے منعمِ حقیقی کی بے پایاں بخششوں اور احسانات کے شکریہ میں مصروف ہونے کے ساتھ عجز و انکساری اور بے چارگی کا اعتراف بھی کرے۔ جسم کا خشوع یہ ہے کہ اس مقدس بارگاہ میں کھڑے ہوتے ہی سر جھک جائے، نگاہ نیچی ہو جائے، آواز پست ہو، جسم پر کپکپی اور لرزہ طاری ہو اور ان تمام آثارِ بندگی کو اپنے جسم پر طاری کرنے کے بعد اپنی حرکات و سکنات میں ادب و احترام کا پیکر بن جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ.
(الزمر، 39 : 23)
’’جس سے اُن لوگوں کے جسموں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔‘‘
نماز میں خشوع سے مراد وہ کیفیت ہے کہ دل خوف اور شوق الٰہی میں تڑپ رہا ہو اس میں ماسوا اللہ کی یاد کے کچھ باقی نہ رہے، اعضا و جوارح پر سکون ہوں، پوری نماز میں جسم کعبہ کی طرف اور دل رب کعبہ کی طرف متوجہ ہو۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : ’’درمیانے انداز کی دو رکعتیں جن میں غور و فکر کا غلبہ ہو پوری رات یوں ہی کھڑا رہنے سے بہتر ہیں کہ دل سیاہ ہو۔‘‘
(غزالی، احیاء علوم الدین، 1 : 151)
مومن کا شعار صرف نمازی ہونا ہی نہیں بلکہ نماز میں خشوع اختیار کرنا ضروری ہے کیونکہ خشوع نماز کا مغز ہے اور اس کے بغیر اقامتِ صلوٰۃ کا تصور بھی ممکن نہیں۔ اور اگر نماز میں آداب کی رعایت اور لحاظ نہ ہو تو پھر مثال یوں ہوگی جیسے کسی کی آنکھیں تو ہوں لیکن بصارت نہ ہو، کان تو ہوں مگر سماعت نہ ہو لہٰذا نماز کی روح یہ ہے کہ ابتدا سے آخر تک خشوع کا غلبہ ہو اور حضورِ قلب قائم رہے کیونکہ دل کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رکھنا اور اللہ تعالیٰ کی تعظیم و ہیبت کی کیفیات کو اپنے اوپر طاری رکھنا ہی نماز کا اصل مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا :
وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِيO
(طه، 20 : 14)
’’اور میری یاد کی خاطر نماز قائم کیا کروہ۔‘‘
اس آیۂ کریمہ کی رو سے جو شخص پوری نماز میں یاد الٰہی سے غافل رہا وہ کیسے ذکرِ خداوندی کے لئے نماز کو قائم کرنے والا ہوگا۔ ارشاد خداوندی ہے :
وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعاً وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلاَ تَكُن مِّنَ الْغَافِلِينَO
(الأعراف، 7 : 205)
’’اور اپنے رب کا اپنے دل میں ذکر کیا کرو عاجزی و زاری اور خوف و خستگی سے اور میانہ آواز سے پکار کر بھی، صبح و شام (یادِ حق جاری رکھو) اور غافلوں میں سے نہ ہوجاؤ۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ کی کیفیتِ نماز کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
أَتيتُ رَسُوْلَ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم وَهو يُصَلِّي وَلِجَوْفهِ أَزيرٌ کَأزيزِ الْمِرْجَلِ مِنَ البُکاءِ.
(ترمذی، الشمائل المحمدية : 527، رقم : 322)
’’آپ ﷺ کے سینۂ انور سے رونے کی آوازیں اس طرح آرہی تھیں جیسے ہنڈیا کے ابلنے کی آواز آتی ہے۔‘‘
امام غزالی علیہ الرحمۃ ’’احیاء علوم الدّین‘‘ میں چند صلحائے امت کے نماز میں خشوع و خضوع کے بارے درج ذیل اقوال نقل کرتے ہیں :
1۔ حضرت علی بن حسین علیہ الرحمۃ کے بارے میں مذکور ہے کہ جب آپ وضو کرتے تو آپ کا رنگ زرد ہوجاتا۔ گھر والے پوچھتے آپ کو وضو کے وقت یہ کیا ہوجاتا ہے؟ وہ فرماتے : ’’کیا تمہیں معلوم ہے میں کس کے سامنے کھڑے ہونے کا ارادہ کر رہا ہوں؟‘‘
2۔ حضرت حاتم علیہ الرحمۃ کے بارے میں منقول ہے کہ جب ان کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : ’’جب نماز کا وقت ہو جاتا ہے تو میں مکمل وضو کرتا ہوں، پھر اس جگہ آجاتا ہوں، جہاں نماز پڑھنے کا ارادہ ہوتا ہے وہاں بیٹھ جاتا ہوں یہاں تک کہ میرے اعضاء مطمئن ہوجاتے ہیں، پھر نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہوں کعبہ کو ابرو کے سامنے، پل صراط کو قدموں کے نیچے، جنت کو دائیں اور جہنم کو بائیں طرف، موت کے فرشتے کو پیچھے خیال کرتا ہوں اور اس نماز کو اپنی آخری نماز سمجھتا ہوں، پھر امید و خوف کے ملے جلے جذبات کے ساتھ کھڑا ہو کر حقیقتًا اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا اعلان کرتا ہوں، قرآن حکیم ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا ہوں، رکوع تواضع کے ساتھ اور سجدہ خشوع کے ساتھ کرتا ہوں، بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھتا ہوں، دائیں پاؤں کو انگوٹھے پر کھڑا کرتا ہوں، اس کے بعد اخلاص سے کام لیتا ہوں پھر بھی مجھے معلوم نہیں کہ میری نماز قبول ہوئی یا نہیں۔‘‘
3۔ حضرت مسلم بن یسار علیہ الرحمۃ کے بارے میں منقول ہے کہ ’’جب وہ نماز کا ارادہ فرماتے تو اپنے گھر والوں سے فرماتے، گفتگو کرو میں تمہاری باتیں نہیں سنتا انہی کے بارے میں مروی ہے کہ ایک دن بصرہ کی مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے کہ مسجد کا ایک کونہ گر گیا لوگ وہاں جمع ہوگئے لیکن آپ کو نماز سے فارغ ہونے تک پتا نہ چل سکا۔‘‘
(غزالی، احیاء علوم الدین، 1 : 151)
مذکورہ بالا اقوال سے معلوم ہوا کہ حقیقت میں درست نماز وہی ہے جس میں از آغاز تا اختتام تک دل بارگاہِ الٰہی میں حاضر رہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ نماز میں اللہ عزوجل کی جس جس صفت کا بیان زبان پر آئے اس کی معنویت کا نقش دل پر بیٹھتا چلا جائے۔ اگر نماز کو اس کے معانی کے ساتھ اور ان کیفیات و لذّات کے ساتھ پڑھا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ بندہ خیالات کی پراگندگی، ذہنی انتشار اور شیطانی وساوس سے نجات نہ پاسکے۔
نماز میں داخل ہوتے ہی ایسے وسوسے اور خیالات آنے لگتے ہیں جن سے توجہ منتشر ہوجاتی ہے اور نماز میں یکسوئی نصیب نہیں ہوتی۔ لوگ اکثر پوچھتے ہیں کہ اس صورت حال کا ازالہ کیسے کیا جائے؟
امام غزالی علیہ الرحمۃ (450۔ 505) نے نماز میں شیطانی خیالات، وسوسوں سے بچنے، خشوع و خضوع اور حضور قلبی برقرار رکھنے کے لئے درج ذیل تدابیر بیان فرمائی ہیں :
1۔ جیسے ہی انسان اذان کی آواز سنے تو دِل میں تصور کرے کہ مجھے میرے خالق و مالک اور غفور رحیم کی بارگاہ میں حاضری کا بلاوا آگیا ہے اب میں ہر کام پر اس حاضری کو ترجیح دیتا ہوں لہٰذا جس کام میں بھی مشغول ہو اسے چھوڑ کر نماز کی تیاری کرے۔ اس بات کو قرآن حکیم نے یوں بیان کیا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ.
(الجمعة، 62 : 9)
’’اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کیلئے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔‘‘
دوسرے مقام پر فرمایا :
رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ.
(النور، 24 : 37)
’’(اللہ کے اس نور کے حامل) وہی مردانِ (خدا) ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے اور نہ نماز قائم کرنے سے۔‘‘
خشوع و خضوع کے لئے ضروری ہے کہ مؤذن کی صدا سننے کے بعد نماز کے علاوہ کوئی کام اسے بھلا نہ لگے۔ دل بار بار اپنے مالک کی حاضری کی طرف متوجہ ہو اور خوش ہو کہ مالک نے یاد فرمایا ہے اور میں حاضر ہو کر اپنی تمام روداد عرض کروں گا۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگوں گا، شوق و محبت سے قیام، رکوع اور سجود کے ذریعے دلی راحت و سکون حاصل کرکے اپنے تمام غموں اور صدماتِ ہجرو فراق کا ازالہ کروں گا۔ میں محبوبِ حقیقی کی حاضری کے لئے طہارت کرتا، اچھے کپڑے پہنتا اور خوشبو لگا کر حاضر ہوتا ہوں کیونکہ میرے مالک کا حکم ہے :
يَا بَنِي آدَمَ خُذُواْ زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ.
(الاعراف، 7 : 31)
’’اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو۔‘‘
بندے کو چاہئے کہ بارگاہِ خداوندی کی عظمت کا بار بار تصور کرتے ہوئے سوچے کہ اتنی بڑی بارگاہ میں کیسے حاضری دوں گا؟
نماز اسلام کا بنیادی ستون اور وہ امتیازی عمل ہے جو ایک مومن کو کافر سے ممتاز کرتا ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات میں جہاں فریضہ نماز کی بجا آوری کو دین کی تعمیر قرار دیا گیا ہے۔ وہاں اسکا ترک کردینا دین کی بربادی اور انہدام کا موجب سمجھا گیا ہے لہٰذا جس نے اسے قائم کرلیا وہ کامیاب ہوا اور جس نے اسے گرا دیا وہ ناکام و نامراد ہوگیا۔
سورۃ مدثر میں اللہ تعالیٰ نے اہل دوزخ کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ جب ان سے پوچھا جائے گا تمہیں دوزخ میں لے جانے کا باعث کون سی چیز بنی تو وہ جواباً کہیں گے :
قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَO وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَO وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَO
(المدثر، 74 : 43 - 45)
’’وہ کہیں گے ہم نماز پڑھنے والوں میں نہ تھےo اور ہم محتاجوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھےo اور بے ہودہ مشاغل والوں کے ساتھ (مل کر) ہم بھی بے ہودہ مشغلوں میں پڑے رہتے تھے۔‘‘
سورۃ الماعون میں ارشاد فرمایا :
فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَO الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَO
(الماعون، 107 : 4، 5)
’’پس افسوس (اور خرابی) ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نماز (کی روح) سے بے خبر ہیں (یعنی انہیں محض حقوق اللہ یاد ہیں حقوق العباد بھلا بیٹھے ہیں)‘‘
یومِ حشر ہر شخص اپنے کئے کی سزا بھگت رہا ہوگا صرف وہ لوگ باعزت اور جنت میں ہوں گے، جن کے اعمال اچھے ہوں گے ان کی علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ ان کے اعمال نامے دائیں ہاتھ میں ہوں گے۔ یہ اچھے لوگ مجرموں سے سوال کریں گے کہ کونسے عمل نے تمہیں رسوا کیا؟ ان کا جواب ہوگا کہ وہ دنیا میں نماز نہیں پڑھتے تھے اس لئے آج وہ اس ہولناک انجام کو پہنچے ہیں لہٰذا جان لینا چاہئے کہ نماز نہ پڑھنے کا انجام اچھا نہ ہوگا ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ جو لوگ نماز نہیں پڑھتے میدانِ حشر میں ان کو زبردست رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
احادیثِ مبارکہ میں متعدد مقامات پر نماز چھوڑ نے پر وعید سنائی گئی ہے۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
بَيْنَ الرَّجُلِ وَبيْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلَاةِ.
’’انسان اور اس کے کفر و شرک کے درمیان نماز نہ پڑھنے کا فرق ہے۔‘‘
(مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان إطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلاة، 1 : 88، رقم : 82)
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے محبوب نبی اکرم ﷺ نے مجھے وصیت فرمائی :
وَ لَا تَتْرُکْ صَلَاةً مَکْتُوبَةً مُتَعَمِّدًا فَمَنْ تَرَکَهَا مُتَعَمِّدًا فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُ الذِّمَّةُ.
(ابن ماجة، السنن، کتاب الفتن، باب الصبر علی البلاء، 4 : 417، رقم : 4034)
’’کوئی فرض نماز جان بوجھ کر ترک نہ کرنا پس جس نے ارادۃً نماز چھوڑی اس نے کفر کیا اور اس سے (اللہ) بری الذمہ ہوگیا۔‘‘
دین اسلام اعتدال اور توازن کا درس دیتا ہے۔ اسلام جہاں والدین کو بے شمار حقوق عطا کرتا ہے وہاں پر اولاد کے سلسلہ میں بہت سے فرائض بھی عائد کرتا ہے۔ والدین کے یہی فرائض اولاد کے حقوق کہلاتے ہیں۔
اللہ رب العزت کی بارگاہ میں صالح اولاد طلب کرنا انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے۔ قرآن مجید میں حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا مذکور ہے جس میں آپ اللہ کے حضور دست بدعا ہیں۔
فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّاO يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّاO
(مريم، 19 : 5، 6)
’’تو مجھے اپنی (خاص) بارگاہ سے ایک وارث (فرزند) عطا فرماo جو (آسمانی نعمت میں) میرا بھی وارث بنے اور یعقوب علیہ السلام کی اولاد (کے سلسلہ نبوت) کا (بھی) وارث ہوo‘‘
زکریا علیہ السلام کی یہ دعائیں پیغام دے رہی ہے۔ اللہ جل مجدہ کی بارگاہ سے اولاد طلب کی جائے، لیکن مقصد جائیداد کا وارث پیدا کرنا نہ ہو بلکہ نسل درنسل منتقل ہونے والی ایمان، حیاء اور اخلاق کی اقدار کا وارث مانگا جائے اور اس کے نیک اور صالح ہونے کی دعا کی جائے۔ موجودہ دورفتن میں والدین معاشی خوشحالی کی دوڑ میں اولاد کی تربیت سے غافل ہو چکے ہیں۔ جس دن اولاد قرآن مجید ناظرہ ختم کرلے اس دن والدین بچوں کی دینی تعلیم سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ رب العزت کے انبیاء بھی پوری زندگی اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت میں نہ صرف عملًا مشغول رہتے بلکہ ہر لمحہ ان کے لئے اللہ کے حضور دعاگو بھی رہتے۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا ہمارے ضمیروں کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہے جب اللہ رب العزت نے آپ کے سر پر تاج امامت رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا.
(البقره،2 : 124)
’’اللہ نے فرمایا میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بناؤں گا۔‘‘
اس کے بعد سب سے پہلی دعا جو ابراہیم علیہ السلام نے مانگی عرض کی۔
قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَتِی
’’(کیا) میری اولاد میں سے بھی‘‘
یہ وہ عظیم درس ہے جو ابراہیم علیہ السلام والدین کو عطا فرما رہے ہیں۔ اولادوں کے مقدر بڑی مشکل سے سنورا کرتے ہیں، انبیاء بھی ہر لمحہ اپنی اولاد کے بہتر مقدر کے لئے اللہ کے حضور دعاگو رہے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا پر اللہ جل مجدہ کا جواب والدین کی اولاد کی سلسلہ میں غفلتیں دور کرنے کے لئے کافی ہے۔ اللہ جل مجدہ نے ارشاد فرمایا۔
قَالَ لاَ يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَO
(البقره، 2 : 124)
’’ارشاد ہوا (ہاں مگر) میرا وعدہ ظالموں کو نہیں پہنچتا۔‘‘
اللہ رب العزت نے اپنے خلیل سے فرمادیا کہ جو کوئی اہل ہو گا یہ امانت اسے ہی منتقل ہو گی حد سے بڑھنے والوں کو اس میں سے حصہ نہ ملے گا۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اولاد کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ والدین ساری عمر اولاد کے بہتر مقدر کے لئے اللہ سے دعا کریں اور کسی بھی لمحے اولاد کی عملی تربیت سے غافل نہ رہیں۔
اولاد کا حق اور والدین کا فرض ہے کہ وہ اولاد کی ابتدائی عمر میں عملی تربیت کا آغاز کریں۔ خود سچ بولیں اور انہیں سچ بولنے کی ترغیب دیں۔ خود نماز ادا کریں اور انہیں ہمراہ لے کر جائیں۔ معاشرہ انہیں ہر لمحہبرائی کا ماحول فراہم کر رہا ہے۔ آپ انہیں نیکی اور خیر کا ماحول بھی فراہم کریں۔ ہم ایک حافظ قرآن کی تلاوت سن کر جوش میں آتے ہیں اور اپنے بچے کو شعبہ حفظ میں داخل کر دیتے ہیں جو ایک ماہ میں واپس آجاتا ہے کیوں؟ اس لئے کہ ہم نے اسے قرآن کی عظمت حفاظ کا مقام اور حفظ کا مقصد کچھ بھی سمجھایا نہیں ہوتا۔ ابتدائی عمر میں تربیت کی سب سے خوبصورت مثال خود تاجدار کائنات ﷺ کی ہے۔ حضور ﷺ نے جب پہلی مرتبہ کوہ صفاء پر چڑھ کر اعلانیہ دعوت دی حضور ﷺ کو علم تھا کہ مخالفت ہو گی، کفار ومشرکین گالیاں دیں گے اور مخالفت ودشمنی کا ایک طوفان امڈ آئے گا لیکن اس لمحے پہلی اعلانیہ دعوت کے وقت کوہ صفاء پر کھڑے اپنے بائیں بازو پر ننھی فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کو اٹھا رکھا تھا۔ اتنی تکلیف اور پریشانی میں ننھی فاطمہ سلام اللہ علیھا کو اپنے ساتھ رکھنے کا کیا مقصد تھا؟ حضور نبی اکرم ﷺ دیکھ رہے تھے کہ اسی گود نے حسنین کریمین کی پرورش کرنی ہے۔
والدین پر فرض ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت پر خرچ کریں۔
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا۔
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی الله عليه وآله وسلم اَفْضَلُ دِيْنَارٍ يُنْفِقُهُ الرَّجُلُ دِيْنَارٌ يُنْفِقُهُ عَلَی عَيَالِهِ.
(مسلم الصحيح، 2 : 691، الرقم، 994)
’’حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا۔ بہترین دینار وہ ہے جسے کوئی شخص اپنے اہل وعیال پر خرچ کرتا ہے۔‘‘
والدین پر فرض ہے کہ وہ اولاد سے حسن سلوک میں برابری رکھیں۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔
سَوُّوْا بَيْنَ اَوْلَادِکُمْ فِی الْعِطِيَةِ فَلَوْکُنْتُ مُفَضِّلاً اَحَدًا لَفَضَّلْتُ النِسَاءَ.
(طبرانی فی المعجم الکبير، 11 : 354، رقم 11997)
’’تحائف کی تقسیم میں اپنی اولاد میں برابر رکھو اور اگر میں کسی کو کسی پر فضیلت دیتا تو عورتوں کو (بیٹیوں کو بیٹوں پر) فضیلت دیتا۔‘‘
اولاد پر رحم کرنے اور ان سے کئے ہوئے وعدوں کو پورا کرنے کے سلسلے میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔
اَحِبُّوا الصِّبْيَانَ وَارْحَمُوْهُمْ، وَاِذَا وَعَدْتُمُوْهُمْ فَفُوْالَهُمْ فَاِنَّهُمْ لَا يَرَوْنَ اِلاَّ اَنَّکُمْ تَرْزُقُوْنَهُمْ.
’’بچوں سے محبت کرو اور ان پر رحم کرو جب ان سے وعدہ کرو تو پورا کرو کیونکہ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ تم ہی انہیں رزق دیتے ہو۔‘‘
حضور نبی اکرم ﷺ نے بیٹیوں کے سلسلہ میں زیادہ تاکید فرمائی ہے۔
قَالَ رَسُولُ اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم مَنْ عَالَ ثَلَاثَ بِنَاتٍ فَاَدَّبَهُنَّ وَزَوَّجَهُنَّ وَاَحْسَنَ اِلَيْهِنَّ فَلَه الْجَنَّةَ.
(ابوداؤد فی السنن، 4 : 338، رقم 5147)
’’حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے تین بیٹیوں کی پرورش کی، انہیں ادب سکھایا۔ ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتا رہا تو اس کے لئے جنت ہے۔‘‘
الغرض ایک طرف والدین اولاد کے لئے جنت کا ذریعہ ہیں تو دوسری طرف اولاد کی تربیت والدین کے لیے جنت کا راستہ ہے۔ جیسے والدین کے حقوق بے شمار ہیں ایسے والدین کے فرائض بھی متعدد ہیں اولاد کی تربیت، پرورش، نگرانی، تعلیم، رشتہ ازدواج وغیرہ یہ سب اولاد کے حقوق ہیں۔ والدین اولاد کے لئے بقا کا ذریعہ ہیں تو اولاد والدین کی زندگی اور خوشی کا سبب حقوق و فرائض میں صرف عدل نہیں بلکہ احسان کا جذبہ کارفرما ہو تو گھر جنت کا نمونہ بن سکتا ہے۔
مسلمان میت کی نماز جنازہ فرض کفایہ ہے۔ (اگر علاقے میں سے چند افراد ادا کر لیں تو سب کا فرض ادا ہو جائے گا) اس نماز میں رکوع اور سجدہ نہیں ہوتا بلکہ چار تکبیریں ہوتی ہیں۔
چار تکبیر نماز جنازہ، فرض کفایہ، ثناء واسطے اللہ تعالی کے، درود واسطے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے، دُعا واسطے اس حاضر میت کے، پیچھے اس امام کے، منہ طرف کعبہ شریف، یہ نیت کر کے (امام کے اللہ اکبر کہنے کے بعد) اللہ اکبرکہے۔
سُبْحَانَکَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالَی جَدُّکَ وَجَلَّ ثَنَاءُ کَ وَلَا اِلٰهَ غَيْرُکْ.
’’اے اللہ تو پاک ہے اور تمام تعریفیں تیرے لئے ہیں، تیرا نام بزرگی والا ہے، تیری شان بلند ہے، تیری تعریف(خوبی) بہت بڑی ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘
اس کے بعد امام اللہ اکبر کہے گا اور مقتدی بغیر ہاتھ اٹھائے اللہ اکبر کہے گا اس کے بعد درود پاک پڑھے گا۔
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَّعَلَی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّيْتَ وَسَلَّمْتَ وَبَارَکْتَ وَرَحِمْتَ وَتَرَحَّمْتَ عَلَی اِبْرَاهيْمَ وَعَلَی اٰلِ اِبْرَاهيْمَ اِنَّکَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ.
’’اے اللہ رحمت نازل فرما محمد ﷺ پر اور ان کی آل پر جس طرح تو نے رحمت بھیجی اور مہربانی اور رحم کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر بیشک تو خوبیوں اور بزرگی والا ہے۔‘‘
اس کے بعد تیسری تکبیر پڑھی جائے گی اور امام ومقتدی اللہ اکبر کہیں گے۔ امام بلند آواز سے اور مقتدی آہستہ آواز میں، اس کے بعد یہ دعا پڑھی جائے گی :
اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِحَينَا وَمَيِّتِنَا وَشَاهِدِنَا وَغَآئِبِنَا وَصَغِيْرِنَا وَکَبِيْرِنَا وَذَکَرِنَا وَاُنْثٰنَا اَللّٰهُمَّ مَنْ اَحْيَيْتَه مِنَّا فَاَحْيِهِ عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّيْتَه مِنَّا فَتَوَفَّه عَلَی الْاِيْمَانِ.
’’اے اللہ تو ہمارے زندوں کو اور مردوں کو، ہمارے حاضروں کو اور غائبوں کو، ہمارے چھوٹوں کو اور بڑوں کو اور مردوں اور عورتوں کو بخش دے۔ اے اللہ! تو ہم میں سے جسے زندہ رکھے اُسے دینِ اسلام پر زندہ رکھ اور ہم میں سے جسے موت دے اُسے ایمان پر موت عطا فرما۔‘‘
اس کے بعد امام بلند آواز میں جبکہ مقتدی آہستہ آواز میں چوتھی تکبیر (اللہ اکبر) پڑھے گا اور امام کے پیچھے سلام پھیر دے گا۔
اگر میت لڑکے (نابالغ) کی ہو تو یہ دعا پڑھیں گے۔
اَللّٰهُمَّ اجْعَلْهُ لَنَا فَرَطًا وَّاجْعَلْهُ لَنَا اَجْراً وَّذُخْراً وَّاجْعَلْهُ لَنَا شَافِعًا وَمُشَفَّعًا.
’’اے اللہ اس کو ہمارے لئے آخرت کا سامان کرنے والا بنا، اسے ہمارے لئے اجر کا ذخیرہ بنا اور اسے ہمارا سفارش کرنے والا بنا اور اس کی سفارش کو ہمارے حق میں قبول فرما۔‘‘
اگر نابالغ لڑکی ہو تو یہ دعا پڑھیں گے۔
اَللّٰهُمَّ اجْعَلْهَا لَنَا فَرَطًا وَّاجْعَلْهَا لَنَا اَجْراً وَّذُخْراً وَّاجْعَلْهَا لَنَا شَافِعَةً وَمُشَفَّعَةً.
’’اے اللہ اس بچی کو ہماری نجات کا سامان بنا، اسے ہمارے لئے اجر اور ذخیرہ بنا اور اسے ہمارے لئے شفارش کرنے والا بنا اور اس کی سفارش ہمارے حق میں قبول فرما۔‘‘
نماز جنارہ مکمل ادا کرکے میت کی بخشش ومغفرت کے لئے پھر دعا کی جائے گی جیسا کہ حضور ﷺ نے فرمایا :
اَذَا صَلَّيْتُمْ عَلَی الْمَيِّتِ فَاخْلصُوْا لَه بِالدُعَاء.
’’جب تم میت پر نماز (جنازہ) ادا کرلو تو اس کے لئے پورے خلوص سے دعا کرو۔‘‘
تحریکِ منہاجُ القرآن کا ہر تعارف درحقیقت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری مدظلہ العالی کا تعارف ہے۔ گزشتہ صفحات میں دُنیا بھر میں ان کی علمی و فکری اور اَخلاقی و روحانی اَقدار کے اِحیاء، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی دعوت کا دنیا بھر میں منظم فروغ، تبلیغِ دین کے لئے جدید ذرائع کا اِستعمال اور اِسلامی عقائد کے تحفظ اور عالمِ کفر کی طرف سے اِسلام پر ہونے والے حملوں کے دفاع کے سلسلہ میں اُن کی خدمات کا ذکر گزر چکا ہے۔ یہاں اُن کی مجددانہ جدوجہد کے چند اور پہلوؤں کا ذکر کرنا مقصود ہے۔
حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی کے مجددانہ کردار کا اندازہ ان کے اُس علمی و تحقیقی اور تجدیدی کام سے لگایا جا سکتا ہے، جس نے اِن شاء اللہ صدیوں تک اُمتِ مسلمہ کی رہنمائی کرنی ہے۔ آپ کی 300 سے زائد کتب اور 5,000 سے زائد خطابات کے عظیم و تحقیقی کام کے علاوہ مجددانہ بصیرت کا حامل شاہکار علمی و تحقیقی کام درج ذیل ہے :
دینِ اسلام کی ہدایت و رہنمائی کا سب سے بڑا ذریعہ قرآنِ مجید ہے۔ اِسلام جب غیر عرب قوموں میں پھیلا تو قرآنِ مجید کا مفہوم سمجھنے کے لیے اس کے ترجمہ کی ضرورت پیش آئی۔ اِسی ضرورت کے پیشِ نظر گزشتہ کئی صدیوں سے اُردو زبان میں بہت سے تراجم کئے گئے۔ اُن میں سے بہت سے تراجم ایسے ہیں جو محض لفظی ترجمہ ہونے کے باعث اِشکال پیدا کرتے ہیں، جس سے اللہ ربُّ العزت کے کلام کے معنی و مفہوم تک صحیح رسائی نہیں ہو پاتی اور متعدد مقامات پر عقائد میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ آج تک تراجم تحریر و زبان کی روانی اور سلاست سے محروم ہیں۔ دورِ حاضر میں قرآنِ مجید کا ایسا کوئی ترجمہ موجود نہیں جو سائنسی اِعتبار سے سو فیصد درست ہو، چنانچہ غیر سائنسی تراجم کی بناء پر غیر مسلم مغربی طبقہ قرآنِ مجید کی حقانیت سے آگاہ نہیں ہو پاتا۔
ایسے میں مجددِ دین و ملت ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ نے عرفان القرآن کے نام سے قرآنِ مجید کے علمی، ادبی، تفسیری، اِعتقادی اور سائنسی پہلوؤں پر مشتمل شاہکار ترجمہ لکھا نہ صرف سلیس اور سادہ ہے بلکہ عام قاری کو تفسیر کی حاجت سے آزاد کر دیتا ہے۔ عرفان القرآن قرآنِ مجید کے تراجم کی تاریخ میں پہلا سائنسی ترجمہ ہے۔ عرفان القرآن کے آن لائن مطالعہ کے لئے ملاحظہ فرمائیں www.irfan-ul-quran.com
ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ کی ایک اہم تجدیدی کاوِش چودہ جلدوں پر مشتمل اُردو زبان میں دُنیا کی سب سے بڑی کتاب ’سیرت الرسول‘ ہے۔ اِس کتاب میں علمی نظم کے جدید تقاضوں کے مطابق پہلی مرتبہ حضور ﷺ کی حیاتِ اقدس کے ہر ایک پہلو پر نہایت خوبصورت انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ دس جلدوں کی اِشاعت ہو چکی ہے، جبکہ بقیہ جلدیں زیرطباعت ہیں۔ اس کا مقدمہ سیرت نگاری کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اِضافہ ہے، جس میں پہلی مرتبہ مطالعۂ سیرت کی عصری و بین الاقوامی ضرور ت و اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔ آپ نے سیرت و فضائل النبی ﷺ پر 60 سے زائد کتب مزید بھی لکھی ہیں۔
قرآن اور سیرت پر تجدیدی کام کے ساتھ ساتھ علم الحدیث میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری وہ تحقیقی و تجدیدی کارنامہ سرانجام دے رہے ہیں، جو کئی صدیوں تک اُمتِ مسلمہ کی علمی، فکری اور اِعتقادی رہنمائی کرتا رہے گا۔ علمِ حدیث میں اِس قدر وسیع بنیادوں پر تحقیقی و تجدیدی کام اُمتِ مسلمہ میں چھ سات سو سال بعد ہو رہا ہے۔ بارہ جلدوں پر مشتمل احادیث کے فقید المثال مجموعہ ’عرفان السنہ‘ پر تیزی سے کام جاری ہے۔ اِس عظیم علمی اور تحقیقی کام کی وُسعت کا اندازہ اِس اَمر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’المنہاج السوی من الحدیث النبوی‘ کے عنوان سے 1100 احادیث پر مشتمل ایک کتاب چھپ چکی ہے۔ ’المنہاج السوی‘ علم حدیث پر اپنے نظم، ابواب کی ترتیب، احادیث کی تخریج، مضامین اور خوبصورت ترجمے کے لحاظ سے بے مثال کتاب ہے، جس کی مثال گزشتہ پانچ چھ صدیوں میں نہیں ملتی۔
ترجمہ قرآنِ مجید، سیرت الرسول ﷺ اور علم حدیث کے علاوہ عصر حاضر میں اُمتِ مسلمہ کی صدیوں تک فکری و اِعتقادی اور علمی و سائنسی رہنمائی کے لئے بارہ جلدوں پر مشتمل تفسیر کا کام بھی جاری ہے۔ یہ تفسیر قرآنی علوم کا ایسا اِنسائیکلوپیڈیا ہو گی جو نسلوں تک اِنسانیت کی رہنمائی کا فریضہ سر انجام دے گی۔ تفسیر کے باب میں یہ امر باعثِ مسرت ہے کہ صرف سورۂ فاتحہ کی تفسیر پر پانچ جلدیں الگ مرتب ہو رہی ہیں۔ حضور شیخ الاسلام کی سینکڑوں کتب کے آن لائن مطالعہ کے لئے ملاحظہ ہو : www.minhajbooks.com
تحریکِ منہاجُ القرآن کی تجدید و اِحیاء دین کے سلسلہ میں سب بڑی جدوجہد عقائدِ اِسلامی کا حقیقی دِفاع اور اُن کا فروغ ہے۔ جس دور میں تصورِ توحید بدل چکا تھا، عقیدۂ رسالت کی ہر ہر جہت پر کفر و شرک کے فتوؤں کا بازار گرم تھا، بدعت کے تصور کے سہارے شعائرِ اسلام کی نفی کی جا رہی تھی، ایصالِ ثواب کے عقیدے سے اِنکار کے ساتھ ساتھ بندگانِ خدا کی مغفرت کے لئے دعا کو ناجائز کہا جا رہا تھا، حضور ﷺ سے تعلق کو کمزور کرنے کے لیے میلادُ النبی ﷺ کو شرک قرار دیا گیا تھا، کئی بدبخت آمدِ سیدنا امام مہدی علیہ السلام کے عقیدے کا سہارا لے کر اِعلانِ مہدیت کر چکے تھے اور بعض ختم نبوت کے معنی کی من مانی تشریح کر کے دعویء نبوت کو بھی جا پہنچے تھے، ایسے دورِ فتن میں شیخ الاسلام نے عقائد کی اِصلاح کے لئے علمِ حق بلند کیا۔
دعوت و تبلیغ کے علمبردار توحید اور شرک کے نام پر عقائدِ اِسلامی اور خصوصاً عقیدۂ رسالت کی جڑیں کاٹنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ معمولی سے معمولی عمل کو شرک قرار دے کر پوری قوم اور ملتِ اِسلامیہ کو کافر و مشرک قرار دینا اپنے تئیں عقیدۂ توحید کی بہت بڑی خدمت تھی۔ ایسے دور میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ایک طرف عوامی سطح پر ہزاروں اِجتماعات میں علماء اور طلباء سے دراساتِ قرآن میں عقیدۂ توحید اور تصورِ شرک کی حقیقی وضاحت کی اور دُوسری طرف کتابُ التوحید، شہادتِ توحید اور عقیدۂ توحید اور حقیقتِ شرک کے عنوان سے ضخیم کتب لکھ کر عقیدۂ توحید کو اِلتباسات سے نکالا۔
شیخ الاسلام نے عقیدۂ ختمِ نبوت کی پاسبانی کا فریضہ سر انجام دیتے ہوئے حضور ﷺ کی سنت کے مطابق نہ صرف قادیانیوں کے مباہلے کا چیلنج قبول کیا بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی کی دِماغی کیفیات اور جھوٹے دعویٰ ہائے نبوت پر کتب تحریر کر کے اور پوری دُنیا میں اِجتماعات اور کانفرنسوں کے ذریعے اُنہیں اپنے دِفاع پر مجبور کر دیا۔
سیدنا اِمام محمد مہدی علیہ السلام کی آمد کے عقیدے پر اُمتِ مسلمہ کے طبقات میں صدیوں سے غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ ایک طبقہ طوِیل مدت سے اِمام مہدی علیہ السلام کے اِستقبال کی تیاری میں ہے جبکہ دُوسرے کئی اَفراد نے خود مہدی ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے سالہا سال کی تحقیق کے بعد قرآن و سنت کی روشنی میں سیدنا امام محمد مہدی علیہ السلام کی شخصی صفات، اُن کی آمد کے زمانہ کے حالات و واقعات اور متوقع آمد کے سال تک کی وضاحت کر کے جملہ شکوک و شبہات رفع کر دیئے۔
جب ہم اِسلامی تاریخ میں مجدّدین کی خدمات پر گہری نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ہر مجدّد نے اپنے دور میں جب تجدیدِ دین کا فریضہ سرانجام دیا تو اُس نے عصری تقاضوں کو ضرور سامنے رکھا۔ ہر دور میں اسلام کے جس شعبۂ زندگی میں زوال آیا مجدّدِ دین نے اُسی کی اَقدار بحال کیں۔ کسی نے علمی سطح پر تجدیدی خدمات سرانجام دیں تو کسی نے مٹتی ہوئی روحانی اقدار کو پھر سے بحال کیا۔ کسی نے سیاسی نظامِ سلطنت میں اِسلامی اَقدار کے دفاع کا کام کیا تو کسی نے عقائدِ اِسلامیہ کا دفاع کیا۔ بے شک وہ مجدّدین علم و عمل، تقویٰ و طہارت اور خَيْرُ الْقُرُون (بہترین زمانہ) کی نسبت کے باعث اَعلیٰ و افضل اور بلند رتبہ رکھتے ہیں۔ لیکن دورِ حاضر میں دینِ اِسلام پر طاری ہونے والا ہمہ جہت زوال اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ دورِ حاضر کا مجدّد ہر ہر جہت سے اِسلام کا دفاع کرے۔ اللہ رب العزت نے حضور شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی کو اپنے دور میں طاری ہمہ جہت زوال سے مقابلہ کے لیے ہمہ جہت صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں۔ جن کے ذریعے دینِ اسلام کے علمی، فکری، اَخلاقی، روحانی، معاشی، معاشرتی الغرض ہر پہلو پر تجدید و اِحیاء کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔
تحریکِ منہاج القرآن کتاب و سنت کے اِنقلابی فکر پر مبنی ایک عالم گیر تجدیدی تحریک ہے، جسے صدیوں تک اُمتِ مسلمہ کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دینا ہے۔ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اُمتِ مسلمہ کو علمی و فکری اور تحقیقی میدان میں درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے دسمبر 1987ء میں فریدِ ملت ریسرچ اِنسٹیٹیوٹ کی بنیاد رکھی۔ یہ اِنسٹیٹیوٹ محض 19 سال سے بھی کم عرصہ میں 300 سے زائد کتب کی اِشاعت کرتے ہوئے اُمتِ مسلمہ میں غیر معمولی مقام حاصل کر چکا ہے۔ اِس اِنسٹیٹیوٹ کی لائبریری، نقل نویسی، تحقیق و تدوین، تصنیف و تالیف، ترجمہ، ادبیات، کمپوزنگ، ڈیزائننگ، خطاطی اور اِنفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ جات میں بیسیوں ریسرچ اسکالرز و دیگر سٹاف صبح و شام مصروفِ عمل ہیں۔ اِس ریسرچ اِنسٹیٹیوٹ میں دُنیا کے جدید ترین ریسرچ کے ذرائع اِستعمال کئے جا رہے ہیں۔ ملاحظہ ہو www.research.com.pk
دورِ حاضر میں اُمتِ مسلمہ کی اکثریت جس فقہ پر عمل پیرا ہے دشمنانِ دین نے اُس کی حیثیت مشکوک بنا دی تھی۔ علم حدیث کے دعوے داروں نے فقہ حنفی کو رائے یا خیال کا علم قرار دے دیا تھا۔ ایسے میں شیخ الاسلام نے اپنی سالہا سال کی تحقیق سے مجدّدِ دین و ملت، بانی فقہ حنفی اِمام اَعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی اِمام الائمہ فی الحدیث کی حیثیت کو تسلیم کروایا۔ یوں سب سے بڑے فقہی مکتبِ فکر کا دورِ حاضر میں حقیقی دِفاع کا فریضہ ادا کیا۔
اِسلامی حدُود کے دفاع میں عدالتِ عظمیٰ میں رجم کی سزا کو حد قرار دینے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اِس کے علاوہ فقہی اور اِجتہادی فکر پر کتب بھی تحریر فرمائیں۔
اِسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسا وقت بھی آیا کہ جب اَربابِ اِقتدار نے اِسلام کی معاشی اَقدار کو کچلتے ہوئے یہاں تک کہا کہ اِسلام کے پاس سود سے پاک معاشی نظام نہیں ہے۔ سر زمینِ پاکستان سے اسلام کے معاشی نظام کا دفاع کرتے ہوئے ایک ہی آواز اُبھری، جس نے حکمرانوں کے سامنے بلاسود معاشی نظام پیش کر کے اُنہیں مناظرے کا چیلنج دیا۔ یہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مد ظلہ العالی کی مجدّدانہ تحقیق و بصیرت تھی کہ اس کے بعد کسی کو اسلام کے معاشی نظام کے خلاف آواز اٹھانے کی جرات نہ ہوئی۔ علاوہ ازیں آپ نے اِسلامی نظامِ معیشت کو باقاعدہ خطابات اور دروس کا موضوع بنایا اور تمام معاصر اِعتراضات کا شافی جواب دینے کے لیے اسلام کے معاشی نظام پر مستقل کتاب لکھی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بارے مزید معلومات کے لئے ملاحظہ ہو : www.tahir-ul-qadri.com
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved