قرآنِ حکیم وہ کتابِ روشن ہے جس کے اندر معانی و معارف کے سمندر پنہاں ہیں۔ اس کا حرف حرف لازوال حکمتوں سے معمور ہے۔ یہ کلام الٰہی ہے اور جس طرح ذات باری تعالیٰ ہر نقص و عیب سے پاک ہے اسی طرح اس کا کلام بھی ہر نقص و عیب سے مبرّا اور شک و شبہ سے بالا تر ہے۔
قرآنِ حکیم کے ساتھ تعلق استوار کرنے کا بہترین ذریعہ اس کی تلاوت ہے۔ اس سے کماحقہ استفادہ کے لئے ضروری ہے کہ اسے غور وفکر کے ساتھ پڑھا جائے اور اس میں تدبر کیا جائے۔ تلاوت قرآنِ حکیم کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہر حرف کو صحیح مخرج سے ادا کیا جائے جو قواعدِ تجوید جانے بغیر ممکن نہیں لہٰذا علم التجوید کا سیکھنا ہرمسلمان کا دینی فریضہ بھی ہے۔
ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں تلاوت قرآن کی فضیلت واہمیت کے چند پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔
قرآن حکیم حضور رحمت عالم ﷺ پرتمام بنی نوع انسان کی طرف الوہی پیغامِ ہدایت کے طور پر اتارا گیا۔ آپ ﷺ کے فرائضِ نبوت میں یہ شامل کر دیا گیا کہ آپ ﷺ عالم انسانی کو تلاوتِ آیات کے ذریعے اس پیغامِ خداوندی سے آگاہ کریں۔
لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍO
(آل عمران، 3 : 164)
’’بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول ( ﷺ ) بھیجا جو ان پر اس (قرآن) کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘
قرآن حکیم نے تلاوت قرآن سے مستفیض ہونے والے لوگوں پر جو کیفیات طاری ہوتی ہیں ان کو بیان کرتے ہوئے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:
وَإِذَا سَمِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ.
(المائدة، 5 : 83)
’’اور (یہی وجہ ہے کہ ان میں سے بعض سچے عیسائی) جب اس (قرآن) کو سنتے ہیں جو رسول ( ﷺ ) کی طرف اتارا گیا ہے تو آپ ان کی آنکھوں کو اشک ریز دیکھتے ہیں۔‘‘
حضرت وہیب بن ورد علیہ الرحمۃ نے فرمایا : ’’ہم نے ان آیات، احادیث اور مواعظ میں غور کیا تو قرآن حکیم کی قرات اس کی سمجھ اور تدبر سے بڑھ کر کسی چیز کو دلوں کو نرم کرنے والا اور غم کو لانے والا نہیں پایا۔ اس طرح قرآن حکیم سے متاثر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اس کی صفت سے موصوف ہو جائے۔‘‘
انسان کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے، عبادت کی مختلف صورتیں ہیں۔ ہر صورت کا اپنا رنگ اور ذوق ہے۔ ہر ایک کی اپنی فضیلت ہے۔ تلاوتِ قرآن افضل ترین عبادات میں سے ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
اَفْضَلُ عِبَادَةِ أمَّتِيْ قرائةُ الْقُرْآنِ.
(بيهقی، شعب الإيمان، 2 : 354، رقم : 2022)
’’میری امت کی سب سے افضل عبادت تلاوتِ قرآن ہے۔‘‘
روزِ قیامت قرآنِ حکیم کی کثرت سے تلاوت کرنے اور اس کے معانی سمجھنے والوں کو عزت و شرف کے تاج اور لباس سے آراستہ کیا جائے گا اور حکم دیا جائے گا کہ جنت کے بلند درجوں میں چڑھتے چلے جائیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
يُقَالُ يَعْنِي لِصَاحِبِ القُرْآنِ : اِقْرَأ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ کَمَا کُنْتَ تُرَتِّلُ فِي الدُّنْيَا، فَإِنَّ مَنْزِلَتَکَ عِنْدَ آخِرِ آيَةٍ تَقْرَأُ بِهَا.
(ترمذی، الجامع الصحيح، أبواب فضائل القرآن، 5 : 36، رقم : 2914)
’’قرآن پڑھنے والے سے (جنت میں) کہا جائے گا : قرآن پڑھتا جا اور جنت میں منزل بہ منزل اوپر چڑھتا جا اور یوں ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جیسے دنیا میں پڑھتا تھا، تیرا ٹھکانہ جنت میں وہاں پر ہو گا جہاں تو آخری آیت کی تلاوت ختم کرے گا۔‘‘
روزِ قیامت تلاوتِ قرآن کا اہتمام کرنے والوں اور اس کے معانی سمجھنے والوں کی شفاعت قرآن حکیم خود فرمائے گا۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’قیامت کے دن صیامِ رمضان اور قرآن دونوں بندہ کے لیے شفاعت کریں گے۔ صیامِ رمضان کہیں گے : اے میرے رب! ہم نے اس شخص کو دن کے وقت کھانے (پینے) اور (دوسری) نفسانی خواہشات سے روکے رکھا پس تو اس شخص کے متعلق ہماری شفاعت قبول فرما۔ اور قرآن فرمائے گا : اے میرے رب! میں نے اس شخص کو رات کے وقت جگائے رکھا پس اس کے متعلق میری شفاعت کو قبول فرما۔ آپ ﷺ نے فرمایا : پس ان دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی۔‘‘ (احمد بن حنبل، المسند، 2 : 174، رقم : 6626)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
اقْرَءُ وْا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ نِعْمَ الشَّفِيعُ يَومَ الْقِيَامَةِ.
(دارمي، السنن، 2 : 309، رقم : 3314)
’’ (اے لوگو!) قرآن پڑھو۔ بیشک قرآن قیامت کے روز نہایت ہی اچھا شفاعت کرنے والا ہے۔‘‘
شب و روز قرآن سیکھنے اور سکھانے میں مشغول رہنے والوں کو اللہ رب العزت بن مانگے عطا فرماتا ہے۔ حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
’’اللہ رب العزت فرماتا ہے جس شخص کو قرآن اور میرا ذکر اتنا مشغول کر دے کہ وہ مجھ سے کچھ مانگ بھی نہ سکے تو میں اسے مانگنے والوں سے بھی زیادہ عطا فرما دیتا ہوں اور تمام کلاموں پر اللہ تعالیٰ کے کلام (قرآن حکیم) کی فضیلت اسی طرح ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق پر (فضیلت ہے)۔‘‘ (دارمی، السنن، 2 : 317، رقم : 3359)
تلاوت قرآن سے انسان کا سینہ نور سے معمور ہو جاتا ہے اور وہ اپنی اخروی فلاح کے لئے نیکیوں کا ذخیرہ جمع کر لیتا ہے۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا : ’’یا رسول اللہ! مجھے کوئی وصیت فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : میں تمہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں کہ یہی سارے معاملے کی اصل ہے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے کچھ مزید وصیت فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا :
عَلَيْکَ بِتِلَاوَةِ الْقُرْآنِ، وَذِکْرِ اللہِ، فَإِنَّهُ نُورٌ لَکَ فِي الْأَرْضِ، وَذُخْرٌ لَکَ فِي السَّمَاءِ.
(ابن حبان، الصحيح، 2 : 78، رقم : 361)
’’(اے ابوذر!) تلاوتِ قرآن ضرور کیا کرو کہ یہ زمین میں تمہارے لئے نور اور آسمانوں میں تمہارے لئے (نیکیوں کا) ذخیرہ ہوگا۔‘‘
حضرت سفیان ثوری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :
’’جب انسان قرآن حکیم پڑھتا ہے تو فرشتہ اس کی دونوں آنکھوں کے سامنے بوسہ دیتا ہے۔‘‘
ہمیں چاہئے کہ ہم اس اجتماعی اعتکاف کے ایک ایک لمحے کو غنیمت جانیں، ظاہر کو تلاوت قرآن سے اور باطن کو صاحب قرآن کے کردار کے نور سے منور کرنے کا اہتمام کریں، کثرت سے تلاوت قرآن کریں اور بقیہ اوقات میں وظائف اور درود پاک مکمل فرمائیں۔
معاشرتی زندگی کی اکائی خاندان ہے اور خاندان کا قیام واستحکام والدین کے احترام کے بغیر ممکن نہیں، دین اسلام کی تعلیمات کا جائزہ لیا جائے تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بعد سب سے افضل واعلیٰ مقام والدین کا ہے۔ ایک مسلمان کے لئے والدین کی خدمت بلند درجہ مقبول عبادتوں سے بھی افضل واعلیٰ ہے۔ والدین صالح ہوں یا گنہگار نیک ہوں یا بداعمال حتی کہ مومن ہوں یا مشرک ہر حال میں اولاد پر والدین کی (شرک کے سواہر عمل کی) اطاعت اور خدمت فرض ہے۔ قرآن مجید میں بیسیوں مقامات پر اور سینکڑوں احادیث مقدسہ میں والدین کے حقوق کا تذکرہ موجود ہے اس مضمون پر کئی مفصل کتب بھی موجود ہیں یہاں اس عنوان پر چند آیات واحادیث پیش کی جا رہی ہیں۔
نیکی کے بدلے میں برائی کرنا ظلم ہے، نیکی کا بدلہ نیکی سے دینا عدل ہے اور برائی کا بدلہ نیکی سے دینا احسان ہے، عمل کی نہایت عمدہ اور اعلیٰ ترین شکل کا نام احسان ہے۔ اللہ رب العزت نے والدین کے حقوق کا تعین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا.
(النساء، 4 : 36)
’’اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔‘‘
قرآن مجید کے یہ دوکلمات والدین کے حقوق کے سلسلہ میں اولاد کے لئے مشعل راہ ہیں۔ والدین اپنے فرائض پورے کریں تو اولاد ان کا احترام کرے، والدین اولاد کو تعلیم و تربیت، ذریعہ روزگار اور نکاح کا اہتمام کریں تو اولاد والدین کے حقوق پورے کرے۔ سوچ کا یہ زاویہ درست نہیں ہے۔ اللہ رب العزت نے والدین کی خدمت اور ان سے حسن سلوک کو عدل اور برابری سے مشروط نہیں کیا بلکہ حکم دیا ہے کہ والدین سے حسن سلوک میں احسان کرو، تمہیں اپنے حقوق مکمل میسر آئیں یا نہ آئیں تمہارا فرض ہے کہ والدین کے حقوق کو صرف ادا نہ کرو بلکہ نہایت عمدہ اور اعلیٰ ترین صورت میں ان کے حقوق پورے کرو۔ یاد رہے کہ احسان کی کوئی حد نہیں ہوتی لہٰذا خدمت والدین کے لئے کوئی حد مقرر نہیں، حتی کہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ ماں کی خدمت کی وجہ سے دیدار مصطفیٰ ﷺ سے محروم رہے۔ والدین کی اس درجہ خدمت کا صلہ یہ ملا کہ خاتم النبیین ﷺ خود اپنے غلام کی شان بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اویس کی دعا سے میرے لاکھوں امتیوں کی بخشش ہو گی۔ والدین کی تعظیم وتکریم کے لئے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ متقی، پارسا، پرہیزگار اور عابد و زاہد ہوں بلکہ اس کے برعکس اگر وہ معاذ اللہ جھوٹے، بدکار، نافرمان وخطا کار، راشی، بدعنوان، تارک نماز اور تارک روزہ ہی کیوں نہ ہوں اور ان کی زندگی کفرو شرک کی نجاست سے کتنی ہی آلودہ کیوں نہ ہو، اولاد کے لئے حکم ہے کہ ان کی بداعمالیوں کو نظر انداز کرے ان کی خدمت بجالاتی رہے۔
زندگی کے جملہ معاملات میں والدین کے آرام وسکون کا خیال رکھنا اور جملہ ضروریات پوری کرنا اولاد پر فرض ہے حضور نبی اکرم ﷺ کی یہ حدیث اس بات کی وضاحت کیلئے کافی ہے کہ صرف والدین کی زندگی میں ہی نہیں بلکہ ان کی موت کے بعد بھی ان کے حقوق قائم رہتے ہیں۔
اِذَا جَاءَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی سَلْمَةَ فَقَالَ يَارَسُوْلَ اللہِ هَلْ بَقِيَ مِنْ بِرِّ اَبَوَیَّ شَيْئٌ اَبَرَّهُمَا بِهِ بَعْدَ مَوْتِهِمَا قَالَ نَعَمْ اَلصَّلٰوةُ عَلَيْهِمَا وَالْاِسْتِغْفَارُ لَهُمَا وَاِنْفَاذُ عَهَدِهِمَا مِنْ بَعْدِهِمَا وَصِلَةُ الرَّحْمِ الَّتِی لَا تُوْصَلُ اِلَّا بِهِمَا وَاِکْرَامُ صِدِيْقِهِمَا.
(ابی داؤد سنن، 4 : 336، رقم 5142)
’’بنی سلمہ سے ایک شخص حضور کی بارگاہ میں حاضر ہوا اس نے عرض کی یارسول اللہ کیا والدین سے کی جانے والی نیکیوں میں سے کوئی نیکی ایسی ہے جو ہم ان کی موت کے بعد ان کے ساتھ کریں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ہاں! ان پر جنازہ پڑھنا (باعزت کفن و دفن اور جنازہ کا اِہتمام کرنا) ان کی بخشش کی دعا کرنا، والدین کے مرنے کے بعد ان کے وعدوں کو پورا کرنا۔ والدین کے خونی رشتہ داروں کا اِحترام کرنا اور والدین کے دوستوں کا اِحترام کرنا۔‘‘
اس حدیث مبارکہ میں حضور نبی اکرم ﷺ نے والدین کے مرنے کے بعد ان کے حقوق گنواتے ہوئے فرمایا۔
جو دین والدین کو مرنے کے بعد اس قدر حقوق عطا کر رہا ہے وہ زندگی میں کس قدر حسن سلوک کا درس دیتا ہو گا۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔
ثَلٰثٌ مَنْ کُنَّ فِيْهِ سَتَرَ اللّٰهُ عَلَيْهِ کَفْنَه وَاَدْخَلَه جَنَّتَه، رَفَقَ بِالضَّعِيْفِ وَشَفَقَةُ عَلَی الْوَالِدَيْنِ وَاِحْسَانِ اِلٰی الْمَمْلُوْکِ
(ترمذی السنن، 4 : 656، رقم 2494)
’’جس میں تین خصلتیں ہوں گی، اللہ اس کی موت آسان کر دے گا اور اسے اپنی جنت میں داخل کر دے گا، کمزور سے نرمی، ماں، باپ سے شفقت اور غلام سے اچھا سلوک‘‘
اگر کوئی چاہے کہ اس کی موت آسان ہو جائے، وقت نزاع اس پر اپنا کرم فرمائے اور حشر کے بعد اسے جنتوں میں داخل فرمائے تو اسے چاہیے کہ والدین کی خدمت و اِطاعت کرے۔
اسی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے ایک اور مقام پر حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا :
عَنْ اَبِی اَمَامَةَ اَنَّ رَجُلًا قَالَ : يَا رَسُولَ اللّٰهِ مَاحَقُّ الْوَالِدَيْنِ عَلَی وَلَدِهمَا؟ قَالَ هُمَا جَنَّتُکَ وَنَارُکَ.
(ابن ماجه، 2 : 1208، رقم : 3626)
’’حضرت ابوامامہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کی یارسول اللہ! والدین کا اپنی اولاد پر کتنا حق ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا وہ دونوں تیری جنت (بھی) ہیں اور دوزخ (بھی) (یعنی ان کی خدمت کر کے جنت حاصل کرلو یا نافرمانی کر کے جہنم کے مستحق ہو جاؤ۔ )‘‘
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کبیرہ گناہوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آدمی اپنے والدین پر لعنت کرے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کوئی اپنے والدین پر بھی لعنت کر سکتا ہے؟
آپ ﷺ نے فرمایا :
يَسُبُّ الرَّجُلُ اَبَا الرَّجُلَ فَيَسُبُّ اَبَاهُ وَيَسُبُّ اُمَّه فَيَسُبُّ اُمَّه.
(بخاری الصحيح، 5 : 2228، 5628)
’’آدمی دوسرے کے والد کو گالی دیتا ہے تو وہ اپنے باپ کو گالی دیتا ہے اور اس کی ماں کو گالی دیتا ہے تو اپنی ماں کو گالی دیتا ہے۔‘‘
وہ صحابہ تھے جنہیں اس عمل پر تعجب ہوا کہ بیٹا باپ کو بھی گالی دے سکتا ہے جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم دوسروں کے والدین کو قابل احترام کیا سمجھیں گے، ہم تو اپنے والدین کو گالی دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ جیسے زبان سے گالی دینا گناہ کبیرہ ہے ویسے ہی اگر اولاد کا کردار وعمل والدین کے لئے تہمت اور گالی کا سبب بنے تو یہ بھی گناہ کبیرہ ہے۔
آج نماز کی عملی مشق کروائی جائے گی۔
معلمین سے گزراش ہے کہ وہ جملہ شرکاء سے نماز سنیں اور انہیں کھڑا کر کے ادائیگی نماز بھی درست کروائیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved