راہِ سلوک کی منزل کے مسافر کے لئے قیام اللیل کی اہمیت بہت زیادہ ہے خلوت کی ساعتوں میں اپنے مولا سے عبودیت کا رشتہ استوار کرنے کے لئے قیام اللیل سے زیادہ اور کوئی مؤثر ذریعہ نہیں۔
قیام اللّیل راتوں کو جاگنے کا عمل ہے جو رضائے الٰہی کی خاطر رات کے کسی حصہ میں نوافل ادا کرنے، تلاوتِ قرآن اور ذکر واذکارمیں مشغول رہنے، بارگاہِ الٰہی میں مناجات کرنے، اپنے گناہوں پر نادم و شرمندہ ہو کر آنسو بہانے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی میں حصولِ حلاوت کے لئے سر انجام دیا جاتا ہے۔ اسے عرفِ عام میں شب بیداری کہا جاتا ہے۔
رات کی تنہائی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا بڑی اہمیت و فضیلت کا حامل ہے۔ بندہ اس وقت اپنے مالک حقیقی کو پکارتا ہے جب سارا عالم سو رہا ہوتا ہے۔ وہ اپنے مولا کو منانے کے لئے اپنی راحت و آرام قربان کر دیتا ہے۔ وہ کبھی قیام کی حالت میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے تو کبھی رکوع اور سجدے میں جاکر اپنے عجز و انکسار کا اظہار کرتا ہے۔ اپنے بندے کی یہ ادا اللہ رب العزت کو بے حد پسند ہے۔ وہ ایسے شب زندہ دار بندوں پر آسمان سے انوار و تجلیّات کی بارش نازل فرماتا ہے اور انہیں اپنے مقبول بندوں میں شامل فرما کر مستجاب الدّعوات بنا دیتا ہے۔ قیام اللّیل کا نور دن کو بھی چھایا رہتا ہے اور وہ رات میں قیام کرنے والے کو اس طرح اپنی پناہ اور حفاظت میں رکھتا ہے کہ بندہ دن بھرنفس اور شیطان کے شر سے محفوظ رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رات کو اٹھنے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًاO
(المزّمّل 73 : 6)
’’بیشک رات کا اُٹھنا (نفس کو) سخت پامال کرتا ہے اور (دِل و دِماغ کی یکسوئی کے ساتھ) زبان سے سیدھی بات نکالتا ہےo‘‘
اللہ تعالیٰ نے اپنی یاد اور ذکر و عبادت کے حوالے سے جگہ جگہ بغرض عبادت رات اٹھنے کا ذکر بطورِ خاص فرمایا ہے۔
وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِينَ تَقُومُO وَمِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَإِدْبَارَ النُّجُومِO
(الطور، 52 : 48، 49)
’’اور آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجئے جب بھی آپ کھڑے ہوںo اور رات کے اوقات میں بھی اس کی تسبیح کیجئے اور (پچھلی رات بھی) جب ستارے چھپتے ہیں۔‘‘
وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ بُكْرَةً وَأَصِيلًاO وَمِنَ اللَّيْلِ فَاسْجُدْ لَهُ وَسَبِّحْهُ لَيْلًا طَوِيلًاO
(الدهر، 76 : 25، 26)
’’اور صبح و شام اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کریںo اور رات کی کچھ گھڑیاں اس کے حضور سجدہ ریزی کیا کریں اور رات کے (بقیہ) طویل حصہ میں اس کی تسبیح کیا کریںo‘‘
اللہ گ نے اپنے قائم اللّیل (شب زندہ دار) بندوں کا بطورِ خاص ذکر کرتے ہوئے ان پر وارد ہونے والی مختلف کیفیّات کو موضوعِ قرآن بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اُن شب بیدار بندوں کو اُن صاحبانِ علم کے زُمرے میں رکھا ہے، جن پر خوف و رجاء کی حالت طاری رہتی ہے، ان خوش نصیبوں کے لئے اعلیٰ انعامات مخفی رکھے گئے ہیں۔
اللہ ربّ العزت ان محبوب بندوں کا ذکر ان الفاظ میں کرتا ہے :
وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًاO
(الفرقان، 25 : 64)
’’اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے لئے سجدہ ریزی اور قیامِ (نِیاز) میں راتیں بسر کرتے ہیں۔‘‘
كَانُوا قَلِيلًا مِّنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَO وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَO
(الذٰريٰت، 51 : 17 - 18)
’’وہ راتوں کو تھوڑی سی دیر سویا کرتے تھےo اور رات کے پچھلے پہروں میں (اٹھ اٹھ کر) مغفرت طلب کرتے تھے۔‘‘
ان آیاتِ کریمہ میں اللہ جل شانہ نے اپنے قائم اللّیل بندوں کی یہ صفات بیان کی ہیں کہ وہ اپنے مالکِ حقیقی کی رضا و خوشنودی کے لئے ساری ساری رات اس کے حضور قیام وقعود اور رکوع وسجود میں گزارتے ہیں، انہیں ایک پل چین نہیں، کبھی اخروی عذاب کے خوف سے ان کے رونگٹے کھڑے ہوجا تے ہیں تو کبھی اخروی نعمتوں کے خیال سے دل امید کی لہر سے جھومنے لگتے ہیں۔ آخرت میں انہیں نعمتوں سے سرفراز کیا جائے گا کہ یہ تو خشیتِ الٰہی کے باعث راتوں کو سوتے ہی بہت کم تھے۔
ہمارے آقا ومولا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شب بیداری کا یہ عالم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین شریفین متورّم ہو جاتے۔ رحمتِ خداوندی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ مشقت گوارا نہ ہوئی اور یہ آیت نازل فرما دی :
يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُO قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًاO نِّصْفَهُ أَوِ انقُصْ مِنْهُ قَلِيلًاO أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًاO
(المزّمّل، 73 : 1 - 4)
’’اے کملی کی جھرمٹ والے (حبیب!)o آپ رات کو (نماز میں) قیام فرمایا کریں مگر تھوڑی دیر (کیلئے)o آدھی رات یا اِس سے تھوڑا کم کر دیںo یا اس پر کچھ زیادہ کر دیں اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کریںo‘‘
احادیثِ مبارکہ میں قیام الیل کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے۔
چند احادیث درج ذیل ہیں :
حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ’’رات کو ایک ایسی ساعت بھی آتی ہے جس میں کوئی مسلمان اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کی کوئی چیز مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے وہی عنایت فرما دیتا ہے۔ اور یہ ساعت ہر رات آتی ہے۔‘‘
(مسلم، الصحيح، صلاة المسافرين و قصرها، باب فی الليل ساعة مستجاب فيها الدعاء، 1 : 521، رقم : 757)
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’رات کا قیام اپنے اوپر لازم کر لو کہ وہ تم سے پہلے کے نیک لوگوں کا طریقہ ہے اور تمہارے لئے قربِ خداوندی کا باعث ہے، برائیوں کو مٹانے والا اور گناہوں سے روکنے والا ہے۔‘‘
(ترمذی، الجامع الصحيح، أبواب الدعوات، باب فی فضل التوبة والاستغفار، 5 : 516، رقم : 3549)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا :
إِنَّ فُلَانًا يُصَلِّي بِاللَّيْلِ، فَإِذَا أَصْبَحَ سَرَقَ.
’’(یا رسول اللہ!) فلاں آدمی رات کو نماز بھی پڑھتا ہے اور جب صبح ہوتی ہے تو چوری (بھی) کرتا ہے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إِنَّهُ سَيَنْهاهُ مَا تَقُوْلُ.
(أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 448، رقم : 9777)
’’جلد ہی یہ (نماز) اسے اس (چوری) سے روک دے گی جو تو کہہ رہا ہے۔‘‘
حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’لوگ قیامت کے دن ایک میدان میں اکٹھے کئے جائیں گے اور ایک منادی اعلان کرے گا : جن لوگوں کی کروٹیں (اپنے رب کی یاد میں) بستروں پر نہ لگتی تھیں، وہ کہاں ہیں؟ وہ کھڑے ہوجائیں! ان کی تعداد بہت کم ہوگی اور جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوجائیں گے، پھر (باقی بچ جانے والے) لوگوں کے حساب و کتاب کا حکم جاری کر دیا جائے گا۔‘‘ ( بیہقی، شعب الایمان، 3 : 169، رقم : 3244)
اہل اللہ کی محبت صرف اللہ سے ہوتی ہے۔ وہ اس کے لئے گوشہ نشینی کو پسند کرتے ہیں، اس سے مناجات کرنے میں لذت پاتے ہیں۔ یہی لذت انہیں رات بھرجاگتے رہنے اور اپنے محبوب حقیقی سے ملاقات کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ ذیل میں چند ایسے مقرب اہل اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے
رات کے قیام اور نیند کے متوازن ہونے کا امتیاز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہی حاصل ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلب اللہ تعالیٰ کی وحی سے ہمیشہ بیدار رہتا، جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو یہ توفیق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کرم اور چند امور کو ملحوظ خاطر رکھنے سے حاصل ہو سکتی ہے۔ شیخ ابو طالب مکی علیہ الرحمۃ (م 386ھ) ’’قوت القلوب‘‘ میں لکھتے ہیں : قیامِ شب کی توفیق حسب ذیل امور ملحوظ رکھنے سے حاصل ہو سکتی ہے :
ان پابندیوں سے جو کوئی شب بیداری کے عزمِ مصمم کے ساتھ نیند کے غلبہ کے ہونے پر سو جائے تو اس کو قیام اللیل کی توفیق ضرور میسر آئے گی۔
شب خیزی کی توفیق اللہ رب العزت کی طرف سے عطا ہوتی ہے لیکن اگر توفیق ملنے کے بعد اس کو برقرار رکھنے میں غفلت برتی جائے تو قیامِ شب سے محرومی ہمیشہ کا مقدر بن جاتی ہے۔ اس کے لئے شرط یہ ہے کہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔
شیخ شہاب الدین سہروردی علیہ الرحمۃ (م 632ھ) نے اس محرومی کے حوالے سے صوفیاء کرام کے درج ذیل اقوال نقل کیے ہیں :
اللہ جل مجدہ کی بارگاہ سے دوستی اور محبت کا رشتہ قائم کرنے کے لئے، دنیا اور آخرت کے عذاب سے بچنے کے لئے اور کائنات کی ہر نعمت طلب کرنے کے لئے قیام اللیل سے بہتر اور مؤثر کوئی عبادت نہیں ہے۔ ہم اعتکاف کے ان دنوں کو غنیمت جانیں اور ہر رات اس کے حضور قیام کریں اور پھر اس سبق کو سال بھر میں دہرائیں۔
اسلام جو معاشرہ تشکیل دیتا ہے اس معاشرے میں ہر فرد دوسرے فرد سے حقوق و فرائض کی ڈوری سے بندھا ہوا ہے۔ اسلام خونی رشتہ داروں کے بعد سب سے زیادہ عزت واحترام ہمسائے کو دیتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
مَازَالَ جِبْرَائِيلُ يُوْصِيْنِی بِالْجَارِ حَتّٰی ظَنَنْتُ اَنَّه سَيُوْرِثُه
’’جبرئیل ہمیشہ مجھے ہمسائے کے متعلق حکم پہنچاتے رہے یہاں تک کہ میں نے خیال کیا کہ عنقریب اسے وارث بنا دیا جائے گا۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جوکلمات پڑوسی کے حق میں فرمائے ہیں وہ کسی اور تعلق اور رشتے میں نہیں فرمائے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پڑوسی سے حسن سلوک کو ایمان قرار دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
وَاللّٰهِ لَا يُوْمِنُ وَاللّٰهِ لَا يُوْمِنُ وَاللّٰهِ لَا يُوْمِنُ قِيْلَ مَنْ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ؟ قَالَ الَّذِی لاَ يُوْمِنُ جَارُه بَوَائِقُه.
(بخاری فی الصحيح، 5 : 2238، رقم 5665)
’’خدا کی قسم وہ ایمان والا نہیں، خدا کی قسم وہ ایمان والا نہیں، خدا کی قسم وہ ایمان والا نہیں، عرض کیا گیا یا رسول اللہ کون؟ فرمایا : جس کا پڑوسی اس کی ایذا رسانی سے محفوظ نہیں۔‘‘
درج ذیل چند احادیث کی روشنی میں ہم ہمسائے کے چند دیگر حقوق کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
يَانِسَاءَ الْمُسْلِمَاتِ لَاتَحْقِرْنَ جَارَةً لِجَارَتِهَا وَلَو فَرَسَنِ شَاةٍ
(بخاری الصحيح، 5 : 2240، رقم 5671)
’’اے مسلمان عورتو! تم میں سے کوئی عورت اپنی پڑوسی کی تذلیل وتحقیر نہ کرے اگرچہ وہ بکری کے کھر جیسی کیوں نہ ہو۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔
لَايَمْنَعُ جَارُ جَارَه اَنْ يَّغْرُزَ خَشْبَةً فِی جِدَارِهِ.
(بخاری الصحيح، 2 : 869، رقم 2331)
’’کوئی پڑوسی اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں کیل گاڑنے سے منع نہ کرے۔‘‘
پڑوسی کے حقوق کیا ہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تفصیلاً ارشاد فرمایا۔
قَالَ مَنْ اَغْلَقَ بَابَه دُوْنَ جَارِهِ مَخَافَةً عَلَی اَهْلِهِ وَمَالِهِ فَلَيْسَ بِمُؤْمِنٍ وَلَيْسَ بِمُوْمِنٍ مَنْ لَمْ يَامَنْ جَارُه بَوَائِقَه، أَتَدْرِی مَاحَقُّ الْجَارِ؟ اِذَا اسْتَعَانَکَ اَعَنْتَه، وَاِذَا اِسْتَقْرَضَکَ أَقْرَضْتَه، وَاِذَا افْتَقَرَعُدْتَ عَلَيْهِ، وَاِذَا مَرِضَ عُدْتَه، وَاِذَا اَصَابَه خَيْرٌ هنَأتَه وَاِذَا اَصَابَتْهُ مُصِيْبَةٌ عَزَّيْتَه، وَاِذَا مَاتَ اِتَّبَعْتَ جَنَازَتَه، وَلَا تَسْتَطِلْ عَلَيْهِ بِالْبُنْيَانِِ فَتَحْجُبَ عَنْهُ الرِّيْحَ اِلاَّ بِاِذْنِهِ، وَلَاتُؤذِهِ بِقُتَارٍ رِيْحِ قِدْرِکِ اِلَّا اَنْ تَغْرِفَ لَه مِنْهَا وَاِذَا اشْتَرَيْتَ فَاکِهةً فَاَهْدِلَه، فَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَأَدْخِلْها سِراً وَلَا يُخْرِجْ بِهَا وَلَدُکَ لِيَغِيْظَ بِهَا وَلَدُه.
(الترغيب والترهيب، 3 : 242، رقم 3870)
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے پڑوسی کی طرف سے اپنے اہل وعیال پر خوف محسوس کرتے ہوئے اپنا دروازہ بند کر لے وہ پڑوسی مومن نہیں اور جس کی شرارتوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔ وہ مومن نہیں۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کے حقوق کیا ہیں۔ جب وہ تم سے مدد چاہے، اس کی مدد کرو۔ جب قرض طلب کرے، تو ایسے قرض دو۔ جب وہ محتاج ہو، حاجت روائی کرو۔ جب بیمار ہو جائے، اس کی عیادت کرو۔ جب اسے کوئی خیرپہنچے، مبارک باد دو، جب اس پر کوئی مصیبت آئے، اسے تسلی دو، جب اس کا انتقال ہو، اس کے جنازے میں شرکت کرو۔ اس کے سامنے اتنی اونچی عمارت نہ کھڑی کر دو کہ اس کی ہوا رک جائے، مگر یہ کہ وہ اجازت دے دے۔ گھر میں پکنے والے سالن کی خوشبو سے اسے اذیت نہ دو، مگر یہ کہ تھوڑا سالن اس کے ہاں بھی بجھوا دو۔ جب اپنے گھر کے لئے پھل خریدو تو اس میں سے کچھ ہدیہ کرو۔ اگر ایسا کرنا مشکل ہو تو جو راز داری سے اپنے گھر لاؤ اور تمہارے بچے اسے لے کر باہر نہ نکلیں۔ ایسا نہ ہو کہ پڑوسی کے بچوں کے دلوں میں حسرت پیدا ہو۔‘‘
ان احادیث مقدسہ کی تشریح کی بجائے انہیں تین مرتبہ دُہرایا جائے اور یوں ٹھہر ٹھہر کر پڑھا جائے کہ سننے والوں کو یاد ہو جائے۔
نمازی کو چاہئے کہ پاک صاف ہو کر تمام ترتقاضوں کو ملحوظ خاطررکھتے ہوئے اچھی طرح وضو کرکے مصلی پر کھڑا ہو اور پھر نماز کی نیت مثلا ظہر کی نماز پڑھنے لگا ہو تو یوں کہے : ’’چار رکعت نماز فرض ظہر یا سنت، بندگی اللہ تعالی کی، منہ طرف قبلہ شریف‘‘ (اگر جماعت کے ساتھ نماز میں شریک ہو رہا ہو تو پھر یوں کہے پیچھے اس امام کے) اللہ اکبر۔ یوں تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے کانوں کی لوؤں سے لگائے اور پھر ناف کے نیچے دونوں ہاتھ اس طرح باندھے کہ بایاں ہاتھ نیچے اور دایاں اوپر ہو اور اس طرح پکڑے کہ دائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور چھوٹی انگلی کے ساتھ بائیں ہاتھ کی کلائی کے اردگرد حلقہ بنائے۔ دیگر ارکان نماز کو حسب ذیل طریقے سے ادا کرے۔
سُبْحَانَکَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالَی جَدُّکَ وَلَا اِلٰهَ غَيْرُکْ.
پاک ہے تو اے اللہ اور تو ہی حمد کے لائق ہے۔ تیرا نام برکت والا ہے اور تیری شان بہت بلند ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔
جماعت کی صورت میں اس کے بعد مقتدی خاموش کھڑا ہو جائے۔ جبکہ اکیلے نماز پڑھنے کی صورت میں نمازی اور جماعت کرواتے ہوئے امام ثناء کے بعد پہلے تعوذ و تسمیہ اور پھر فاتحہ پڑھے۔
اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ.
’’میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں شیطان مردود سے‘‘
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ.
’’اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَO الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِO مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِO إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُO اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَO صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْO غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَO آمِيْن
’’سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہےo نہایت مہربان بہت رحم فرمانے والا ہےo روزِ جزا کا مالک ہےo (اے اللہ!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیںo ہمیں سیدھا راستہ دکھاo ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایاo ان لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا ہے اور نہ (ہی) گمراہوں کاo‘‘
فاتحہ کے بعد امام اور مقتدی دونوں آہستہ آہستہ آواز سے ’’آمین‘‘ کہیں جس کا معنی ہے ’’الٰہی قبول فرما۔‘‘
کم از کم تین آیات یا تین کے برابر ایک آیت کا تلاوت کرنا واجب ہے۔ سورہ فاتحہ کے بعد قرآن مجید کی کوئی سورت جو آپ کو اچھی طرح یاد ہے تلاوت کریں۔
تلاوت کے بعد رکوع کرے جس میں تسبیح ’’سبحان ربی العظیم ‘‘ (پاک ہے وہ رب بڑی عظمت والا) تین مرتبہ پڑھے۔
رکوع کے بعد کھڑے ہونے کو قومہ کہتے ہیں۔
رکوع میں تسبیح پڑھنے کے بعد سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَه (اللہ نے اس کی سن لی جس نے اس کی تعریف کی) کہتا ہوا کھڑا ہو جائے اور رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ کہنے کے بعد اللّٰهُ اَکْبَرُ کہتے ہوئے سجدہ میں چلا جائے۔
سجدہ کرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ اللہ اکبر کہہ کر پہلے دونوں گھٹنے پھر دونوں ہاتھ زمین پر رکھے پھر ناک اور پھر پیشانی زمین پر رکھے اور خوب جمائے۔ چہرہ دونوں ہاتھوں کے درمیان رکھے اس طرح کہ مرد دونوں بازؤوں کو کروٹوں سے اور پیٹ کو رانوں سے اور رانوں کو پنڈلیوں سے جدا رکھے اور اس کے پاؤں کی انگلیاں قبلہ کے رخ زمین پر لگی ہوئی ہوں اور کہنیاں زمین پر لگی ہوئی نہ ہوں اور کم ازکم تین بار یہ تسبیح پڑھے۔
سُبْحَانَ رَبِّيَ الاَعْلٰی
(پاک ہے میرا پروردگار بہت بلند)
پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے سجدے سے اس طرح اٹھے کہ پہلے پیشانی پھر ناک پھر دونوں ہاتھ زمین پر سے اٹھائے اور دایاں قدم کھڑا کر کے بایاں قدم بچھا کر اس پر بیٹھے یوں کہ دائیں پاؤں کی انگلیاں قبلہ کی طرف ہوں اور دونوں ہاتھ اپنی رانوں پر گھٹنوں کے قریب اس طرح رکھے کہ ان کی انگلیوں کا رخ بھی قبلہ کی طرف ہو اور دونوں سجدوں کے درمیان قدرے وقفہ کرتے ہوئے اللہ اکبر کہے اور دوسرے سجدہ میں چلا جائے۔ (دوسرے سجدے سے اُٹھ کر اُسی طرح دوسری رکعت ادا کرے، دُوسری رکعت مکمل کرنے کے بعد بیٹھ جائے۔)
اگر تین یا چار رکعت والی نماز ہو تو دوسری رکعت کے دونوں سجدوں سے فارغ ہو کر اطمینان سے بیٹھ کر تشہد پڑھے۔
اَلتَّحِيَّاتُ ﷲِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ اَيُّهَا النَّبِیُّ وَرَحْمَةُ اللہِ وَبَرَکَاتُهُ اَلسَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِيْنَO اَشْهَدُ اَنْ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُه.
’’تمام زبانی، بدنی اور مالی عبادتیں اللہ کیلئے ہیں۔ سلام ہو تم پر اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں، سلام ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر گواہی دیتا ہوں میں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے عبد خاص اور رسول ہیں۔‘‘
آخری رکعت میں تشہد کے بعد درود ابراہیمی بھی پڑھا جائے گا۔
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّيْتَ عَلٰی اِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاهِيْمَ اِنَّکَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ. اَللّٰهُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَّعَلَی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی اِبْرَاهِيْمَ وَعَلَی اٰلِ اِبْرَاهِيْمَ اِنَّکَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ.
’’اے اللہ! تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رحمتیں نازل کر جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام اور آل ابراہیم علیہ السلام پر رحمتیں نازل کیں۔ بے شک تو تعریف کیا گیا بزرگی والا ہے۔ اے اللہ! تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر برکتیں نازل فرما اور آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر برکتیں نازل فرما جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام اور آل ابراہیم علیہ السلام پر برکتیں نازل کیں بے شک تو تعریف کیا گیا اور بزرگی والا ہے۔‘‘
درود شریف کے بعد یہ دعا پڑھے۔
رَبِّ اجْعَلْنِی مُقيْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِی رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَا رَبَّنَا اغْفِرْلِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُوْمِنِيْنَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْحِسَابِ.
’’اے اللہ! مجھے نماز کا پابند بنا دے اور میری اولاد کو۔ اے ہمارے رب! ہماری دعا قبول فرما، اے ہمارے رب! مجھ کو بخش دے اور میرے والدین اور تمام اہل ایمان کو بخش دے اس روز جب عملوں کا حساب ہونے لگے۔‘‘
نماز سے نکلنے کے لئے دعائے ماثورہ کے بعد پہلے دائیں جانب چہرہ پھیرتے ہوئے السلام علیکم ورحمۃ اللہ پھر بائیں جانب چہرہ کرتے ہوئے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہے اس طرح نماز مکمل ہو جائے گی۔
نماز عشاء کے فرضوں کے بعد سنن و نوافل ادا کرنے کے بعد تین رکعت وتر واجب ادا کرے۔ نماز وتر کی نیت بھی عام نمازوں کی طرح کی جاتی ہے اور جس طرح دیگر نمازیں ادا کی جاتی ہیں اسی طرح سے وتر بھی ادا کرے گا لیکن وتروں اور دیگر نمازوں میں فرق یہ ہے کہ وتروں کی نماز میں پہلی دو رکعت حسب قاعدہ ادا کرنے کے بعد تشہد پڑھ کر تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو جائے اور قیام میں فاتحہ و سورۃ پڑھنے کے بعد رکوع جانے سے پہلے تکبیر (اللہ اکبر) کہتا ہوا اپنے دونوں ہاتھوں کو کانوں تک اٹھائے اور پھر دعائے قنوت پڑھے۔
اَللّٰهُمَّ اِنَّا نَسْتَعِيْنُکَ وَنَسْتَغْفِرُکَ وَنُومِنُ بِکَ وَنَتَوَکَّلُ عَلَيْکَ وَنُثْنِی عَلَيْکَ الْخَيْرَ وَنَشْکُرُکَ وَلَانَکْفُرُکَ وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ يَّفْجُرُک اَللّٰهُمَّ اِياکَ نَعْبُدُ وَلَکَ نُصَلِّی وَنَسْجُدُ وَاِلَيْکَ نَسْعٰی وَنَحْفِدُ وَنَرْجُوْا رَحْمَتَکَ وَنَخْشٰی عَذَابَکَ اِنَّ عَذَابَکَ بِالْکُفَّارِ مُلْحِقٌ.
’’اے اللہ! ہم تجھ سے دعا مانگتے ہیں اور تجھ سے بخشش چاہتے ہیں اور تجھ پر ایمان لاتے ہیں اور تجھ پر بھروسہ کرتے ہیں اور تیری ناشکری نہیں کرتے اور تیرے نافرمان سے علیحدگی اختیار کرتے ہیں۔ اے اللہ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیرے ہی لئے نماز پڑھتے ہیں اور تجھے سجدے کرتے ہیں اور تیری طرف کوشش کرتے ہیں اور ہم حاضری دیتے ہیں اور تیری رحمت کے امیدوار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں بے شک تیرا عذاب کافروں کو پہنچنے والا ہے۔‘‘
دعائے قنوت پڑھنے کے بعد رکوع کرے اور پھر حسب سابق التحیات اور دعا پڑھ کر سلام پھیرے۔ جسے دعائے قنوت یاد نہ ہو اسے چاہئے کہ وہ دعا کو یاد کرے اور جب تک دعا یاد نہ ہو اس کی جگہ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّفِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ. پڑھ لیا کرے یا پھر تین مرتبہ اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلَنَا ’’اے اللہ مجھے بخش دے پڑھ لیا کرے۔‘‘ (فتاوی عالمگیری)
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved