ذکر الٰہی کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ ہر وقت اور ہر حالت میں، اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے اپنے محبوبِ حقیقی کو یاد رکھے اور اس کی یاد سے کبھی غافل نہ ہو۔
حضور غوث الاعظم سیدنا عبد القادر جیلانی علیہ الرحمۃ (470۔ 561ھ) لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے ذکر کا مفہوم بیان فرماتے ہیں :
’’اے سامعین! تم اپنے اور خدا کے درمیان ذکر سے دروازہ کھول لو، مردانِ خدا ہمیشہ اللہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ ذکر الٰہی ان سے ان کے بوجھ کو دور کر دیتا ہے۔‘‘
(عبدالقادر جیلانی، الفتح الربانی والفیض الرحمانی : 41)
اس دورِ مادیت میں ہمارے احوالِ زندگی مجموعی طور پر بگاڑ کا شکار ہیں۔ ہماری روحیں بیمار اور دل زنگ آلود ہو چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے ہمارا تعلق بندگی حقیقتاً معدوم ہوچکا ہے۔ ہمارے باطن کی دنیا کو حرص و ہوس، بغض و عناد، کینہ و حسد، فخرو مباہات، عیش و عشرت و سہل پسندی، خود غرضی و مفاد پرستی اور انا پرستی و دنیا پرستی کی آلائشوں نے آلودہ کر رکھا ہے۔ لہٰذا ان بگڑے ہوئے احوال کو درست کرنے، بیمار روحوں کو صحت یاب کرنے، آئینہ دل کو شفاف کرنے، قلب و باطن کو نور ایمان سے منور کرنے، احوالِ حیات کو روحانی انقلاب کی مہک سے معمور کرنے اور محبوب حقیقی سے ٹوٹے ہوئے تعلق کو دوبارہ بحال کرنے کی ضرورت ناگزیر ہے اور اس کا واحد ذریعہ ذکر الٰہی ہے۔
تمام جنوں اور انسانوں کی تخلیق کا مقصد عبادتِ الٰہی ہے اور تمام عبادات کا مقصودِ اصلی یادِ الٰہی ہے۔ کوئی عبادت اور کوئی نیکی اللہ تعالیٰ کے ذکر اور یاد سے خالی نہیں۔ سب سے پہلی فرض عبادت نماز کا بھی یہی مقصد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کو دوام حاصل ہو اور وہ ہمہ وقت جاری رہے۔ نفسانی خواہشات کو مقررہ وقت کے لئے روکے رکھنے کا نام روزہ ہے جس کا مقصد دل کو ذکر الٰہی کی طرف راغب کرنا ہے۔ روزہ نفس انسانی میں پاکیزگی پیدا کرتا ہے اور دل کی زمین کو ہموار کرتا ہے تاکہ اس میں یاد الٰہی کا پودا جڑ پکڑ سکے کیونکہ دل جب لذات نفسانیہ میں گھرا ہو تو اس میں ذکرِ الٰہی قرار نہیں پکڑ سکتا۔ اسی طرح حج میں خانہ کعبہ اور مقاماتِ مقدسہ پر حاضر ہونا یادِ الٰہی کا ہی مظہر ہے۔ قرآن حکیم پڑھنا افضل ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور سارے کا سارا اسی کے ذکر سے بھرا ہوا ہے، اس کی تلاوت اللہ تعالیٰ کے ذکر کو تر و تازہ رکھتی ہے۔ معلوم ہوا کہ تمام عبادات کی اصل ذکرِ الٰہی ہے اور ہر عبادت کسی نہ کسی صورت میں یادِ الٰہی کا ذریعہ ہے۔
اہلِ محبت کے ہاں یہ عام قاعدہ ہے کہ جس شے سے محبت ہو اسے اٹھتے بیٹھتے یاد کیا جاتا ہے۔ محبوب جس قدر صاحبِ عظمت و شان اور حسن و جمال کا پیکر ہو گا محب کی زبان پر اسی قدر اس کا ذکر کثرت سے آئے گا۔ جس بندے کو محبتِ الٰہی کی کیفیت نصیب ہو جائے اس کی دیوانگی اور اس کے جوشِ محبت کا عالم کیا ہو گا؟ اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ اپنے محبین کی بنیادی شرط بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :
وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبًّا لِّلّهِ.
(البقره، 2 : 165)
’’اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) اللہ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں۔‘‘
جب بندے کی یہ کیفیت ہو جائے کہ اس کی زبان ہر وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر سے تر رہے، وہ تمام دنیوی محبتوں سے کنارا کش ہو کر صرف اللہ تعالیٰ کی محبت میں ڈوب جائے، اُسی کو پکارے، فرمانِ الٰہی۔ (وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلً) (المزمل، 73 : 8) کے مصداق ہر شے سے کٹ کر اسی کا ہوجائے اور اس کے رگ ریشے میں اسی محبوبِ حقیقی کی یاد سما جائے تو اسے ذکرِ الٰہی کی ساری حلاوتیں اور برکتیں یوں نصیب ہوں گی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اسے اپنے قرب خاص سے نوازے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ.
(البقره، 2 : 186)
’’اور (اے حبیب!) جب میرے بندے آپ سے میری نسبت سوال کریں تو (بتا دیا کریں کہ) میں نزدیک ہوں، میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے۔‘‘
بندہ جب اللہ تعالیٰ کی یاد کو حرزِ جاں بنالے اور اس کی تلاش میں نکل کھڑا ہو تو اسے قربِ الٰہی کی دولت نصیب ہوتی ہے۔ پھر وہ اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے تو وہ اس کی پکار کو سنتا ہے اور اس کے دامن کو رحمت کی خیرات سے بھر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت کے قربان جائیں کہ اس کا جب ادنی سے ادنی بندہ بھی اسے یا د کرتا ہے تو وہ اپنی شانِ کریمی اور رحیمی کے ساتھ اسے یاد فرماتا ہے۔
اس کرم اور عطا کا اعلان باری تعالیٰ نے خود فرما دیا ہے۔
فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُواْ لِي وَلاَ تَكْفُرُونِO
( البقره، 2 : 152)
’’سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کرو۔‘‘
اولیاء اللہ جو عمر بھر اللہ تعالیٰ کے ذکر و فکر میں مشغول رہے اور ایک پل بھی اس کی یاد سے غافل نہیں رہے اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر اہلِ زمین میں یوں پھیلا دیا کہ ان کے وصال کے سینکڑوں سال بعد آج بھی کوبہ کو ان کا چرچا ہے۔ جیسے حضرت سلطان باہو علیہ الرحمۃ (م 1040ھ) کے وصال کو تقریباً 4 سو سال بیت گئے مگر چار صدیاں گزرنے کے بعد بھی ان کا ذکر یا باہو، حق باہو آج تک ہو رہا ہے۔ حضرت بابا فرید گنج شکر علیہ الرحمۃ (م 579ھ) تقریباً آٹھ سو سال قبل اس دنیا میں زمین پر تھے اور اللہ کا ذکر کرتے تھے مگر آٹھ صدیاں گزرنے کے بعد آج بھی ان کے دربار پر دنیا لاکھوں کی تعداد میں آ کر یا فرید، حق فرید کہتی ہے۔ حضرت غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی علیہ الرحمۃ (470۔ 561ھ) کے وصال کو تقریباً ایک ہزار سال بیت گئے مگر ان کا جو ذکر اللہ تعالیٰ نے مخلوق میں جاری فرمایا آج بھی یا غوث الاعظم کی صورت میں پورے عالم میں اس کی دھوم ہے۔ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری علیہ الرحمۃ (م 470ھ) کے وصال کو تقریباً گیارہ سو سال گزر گئے مگر آج تک لاکھوں کی تعداد میں لوگ صبح و شام ان کے دربار پر آتے ہیں اور یا داتا گنج بخش کا ذکر کرتے ہیں۔ گویا ان اولیاء وصلحاء اور اتقیاء و اصفیاء کے ذکر کی مقبولیت عام سے اللہ تعالیٰ ذَکَرْتُه فِی مَلَاءِ خَيْرٌ مِنْهُمْ کا نظارہ زمین پر دکھا رہا ہے۔
ذاکرین اللہ تعالیٰ کے وہ محبوب اور مقرب بندے ہیں جو ہمہ وقت ذکرِ الٰہی میں مگن رہتے اور ہر لحظہ اپنے محبوب حقیقی کا نام جپتے رہتے ہیں۔ انہیں کارخانہ قدرت کی ہرچیز میں اسی محبوب کا جلوۂ حسن نظر آتا ہے۔ وہ صبح وشام اسی جلوے کی ایک تجلی کے منتظر رہتے ہیں۔ کثرتِ ذکر انہیں مقامِ تبتیل تک پہنچا دیتی ہے جہاں وہ ہر چیز کو چھوڑ کر اپنے مولا کی یاد میں کھو جاتے ہیں، پھر انہیں مقامِ مشاہدہ نصیب ہوتا ہے اور لذتِ دید کی نعمت سے شاد کام ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو مغفرت و بخشش اوراجرِ عظیم کی بشارت دی جاتی ہے۔
وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًاO
(الاحزاب، 33 : 35)
’’اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، اللہ نے اِن سب کے لئے بخشِش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہےo‘‘
اللہ کی یاد ذاکر کو محبوب ترین بندہ بنا دیتی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : (جب) موسیٰ علیہ السلام طور سینا پر تشریف لے گئے تو بارگاہِ الٰہی میں عرض کی : اے پروردگار! تجھے اپنے بندوں میں سب سے زیادہ محبت کس سے ہے؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
الَّذِي يذْکُرُنِي وَ لَا يَنْسَانِي
(بيهقی، شعب الإيمان، 1 : 451، رقم : 681)
’’وہ جو ہر وقت میرا ذکر کرتا رہتا ہے اور مجھے بھولتا نہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ ان بندوں کو اتنا محبوب جانتاہے کہ ان کی دعا ؤں کو ہمیشہ شرفِ قبول عطا کرتاہے اور کبھی رد نہیں فرماتا : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
ثَلَاثَة لَا يَرُدُّ اللہُ دُعَاءَ هُمْ : الذَّاکِرُ اللہَ کَثِيْرًا، وَ دَعْوَةُ الْمَظْلُوْمِ، وَالإِمَامُ الْمُقْسِطٌ.
(بيهقی، شعب الإيمان، 1 : 419، رقم : 588)
’’تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن کی دعا اللہ (تعالیٰ) رد نہیں فرماتا : کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرنے والا، مظلوم کی پکار، عادل حکمران۔‘‘
خشیتِ الٰہی سے آنسو بہانے والے ذاکرین وہ خوش نصیب ہیں جنہیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سایہ عاطفت میں جگہ عطا ہوگی۔ چنانچہ قیامت کی سختیوں کا ان کے قریب سے گزر تک نہیں ہو گا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللہُ فِي ظِلِّهِ، يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ وَرَجُلٌ ذَکَرَ اللہَ خَالِيًا، فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ.
(بخاری، الصحيح، کتاب الجماعة و الإمامة، باب : من جلس فی المسجد ینتطر الصلاة و فضل المساجد، 1 : 234، رقم : 629)
’’سات شخص ایسے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اپنے سایہ میں جگہ عطا فرمائے گا، اس روز کہ جب سوائے اس کے سائے کے اور کوئی سایہ نہ ہوگا اور ان میں سے ایک شخص وہ ہے جس نے اللہ تعالیٰ کو تنہائی میں یاد کیا اور اس کے خوف سے اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔‘‘
ذکر دیگر عبادات سے افضل ہے اور ذاکرین قیامت کے دن درجہ میں دیگر بندوں سے افضل ہوں گے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا :
أَيُّ الْعِبَادِ أفْضَلُ دَرَجَةً عِنْدَ اللہِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟
’’کون لوگ قیامت کے دن اللہ (تعالیٰ) کے ہاں درجہ میں افضل ہونگے؟
آپ ﷺ نے فرمایا :
الذَّاکِرُوْنَ اللہَ کَثِيْرًا وَالذَّاکِرَاتُ.
’’جو کثرت سے اللہ (تعالیٰ) کا ذکر کرنے والے اور کرنے والیاں ہیں۔‘‘
مجالسِ ذکر کے شرکاء پر اللہ رب العزت کی رحمت نازل ہوتی ہے۔ ایک دفعہ حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہما دونوں حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا :
لَا يَقْعُدُ قَوْمٌ يَذْکُرُوْنَ اللہَ إِلَّا خَفَّتْهُمُ الْمَلَائِکَةُ، وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ، وَنَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّکِيْنَةُ، وَ ذَکَرَهُمُ اللہُ فِيْمَنْ عِنْدَهُ.
(مسلم، الصحيح، کتاب الذکر و الدعاء و التوبة و الاستغفار، باب : فضل الاجتماع علی تلاوة القرآن، وعلی الذکر، 4 : 2074، رقم : 2700)
’’جب بھی لوگ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے بیٹھتے ہیں انہیں فرشتے ڈھانپ لیتے ہیں اور رحمت انہیں اپنی آغوش میں لے لیتی ہے اور ان پر سکینہ نازل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ انکا تذکرہ اپنی جماعت میں کرتا ہے۔‘‘
کچھ ایسے سعادت مند بندے ہوتے ہیں جو صرف اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے ذکر کی محافل سجاتے ہیں، ایسے خوش نصیب بندوں کی برائیاں نیکیوں میں بدل دی جاتی ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب کچھ لوگ محض اللہ کی رضا جوئی کی خاطر اجتماعی طور پر اس کا ذکر کرتے ہیں تو آسمان سے ایک منادی آواز دیتا ہے :
قُوْمُوْا مَغْفُوْرًا لَکُمْ، فَقَدْ بُدِّلَتْ سَيِّئَاتُکُمْ حَسَنَاتُ.
(أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 142، رقم : 12480)
’’کھڑے ہو جاؤ! تمہیں بخش دیا گیا ہے۔ تمہارے گناہ نیکیوں میں بدل دیئے گئے ہیں۔‘‘
اسلام میں ہر شے کے کچھ نہ کچھ آداب ہوتے ہیں۔ جس طرح ہر کام کی نوعیت مختلف ہوتی ہے اس طرح اس کے آداب بھی مختلف ہوتے ہیں۔ ذکرِ الٰہی کا تعلق چونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہے۔ اس لئے یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ ذکرِ الٰہی کے وہ کون سے آداب ہیں جنہیں اپنا کر ذکر سے فیوض و برکات اور انوار و تجلیات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ کتبِ تصوف میں صوفیاء کرام علیہم الرحمۃ کے نزدیک آدابِ ذکر کی تین اقسام بیان ہوئی ہیں :
جملہ تنظیمی عہدیداران اور خصوصاً ناظمین تربیت اس حصے کو غور سے سمجھیں اور اپنے اپنے علاقوں میں محفل ذکر کے دوران ان آداب پر عمل کریں۔
ذکر کرنے سے پہلے درج ذیل آداب کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہیں :
طہارت اِیمان کا حصّہ ہے، اس کے معانی بدن، روح اور قلب کو ظاہری نجاستوں اور باطنی آلائشوں سے پاک و صاف کرنے کے ہیں۔
اسی لیے طہارت و پاکیزگی پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے :
وَاللّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَO
(التوبه، 9 : 108)
’’اللہ طہارت شعار لوگوں سے محبت فرماتا ہےo
کتبِ تصوف میں طہارت کی درج ذیل چار اقسام بیان کی گئی ہیں :
جسمانی طہارت دراصل باطنی طہارت کا ایک ذریعہ ہے۔ جب انسان اپنے بدن اور اعضاء کو ظاہری طہارت کا پابند بناتا ہے۔ تو یہی طہارت آہستہ آہستہ اس کے قلب و روح پر اثر ڈال کر انہیں بھی پاکیزہ بنا دیتی ہے۔ ظاہری طہارت کے لئے جس طرح پانی کی ضرورت ہے اس طرح ندامت اور توبہ کے آنسوؤں سے قلبی اور باطنی طہارت حاصل ہو جاتی ہے۔ انسان جب ظاہری و باطنی آلائشوں سے پاک ہو کر عبادت اور ذکرِ الٰہی میں مشغول ہوتاہے تو اس کے دل میں عبادت کے نور سے اللہ تعالیٰ کی محبت اور یاد جاگزیں ہو جاتی ہے۔ پھر اسے اللہ تعالیٰ کے سوا کچھ یاد نہیں رہتا، اس کا ہر کام اسی کی رضا کے لئے ہوتا ہے اور اس کا عکس اس کے قول و فعل میں نظر آتا ہے۔ جبکہ نجاست اور ناپاکی میں لتھڑا شخص شیطان کا ساتھی ہوتا ہے۔ اور ظلمت و تاریکی کی غاروں میں گم ہو جاتا ہے۔
خوشبو لگانا سنت نبوی ﷺ ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ خوشبو لگانا بہت پسند فرماتے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ خوشبو میرے لئے محبوب بنا دی گئی ہے۔
(أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 285، رقم : 14083)
لفظ’’ توبہ ‘‘ کا لغوی معنی ’’نافرمانی سے لوٹ آنا ہے۔‘‘
مگر شریعت میں توبہ سے مراد یہ ہے کہ انسان گناہ کو گناہ سمجھ کر ترک کردے، اس کے ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ گناہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ بھی کرے۔ اگر توبہ کے بعد ندامت وشرمندگی کا احساس باقی نہیں اور آئندہ کے لئے بھی گناہ سے باز نہیں رہتا تو وہ توبہ نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا.
(التحريم، 66 : 8)
’’اے ایمان والو! تم اللہ کے حضور رجوع کامل سے خالص توبہ کرلو۔‘‘
حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
اَلتَّوْبَةُ مِنَ الذّنْبِ : أنْ يَتُوْبَ مِنْهُ، ثُمَّ لَا يَعُوْدَ فِيْهِ
(أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 446، رقم : 4264)
’’گناہ سے توبہ یہ ہے کہ (تائب) اس (گناہ) سے ایسی توبہ کرے کہ دوبارہ اس کی طرف نہ لوٹے۔‘‘
لہٰذا بندے پر لازم ہے کہ اپنے سابقہ گناہوں سے خلوصِ دل سے تائب ہو اور اپنے اعمال و افعال بھی ایسے کر لے کہ دوبارہ گناہوں کی طرف رجوع نہ کرے۔
ذکرِ الٰہی سے قبل اس چیز کا خیال رکھنا چاہئے کہ جہاں ذکر کیا جائے وہاں خاموشی اور سکون ہو تاکہ دورانِ ذکر کسی قسم کا خلل پیدا نہ ہو اور مکمل یکسوئی سے اللہ تعالیٰ کو یاد کیا جاسکے۔
ذاکر کے لئے کم بولنا بہت ضروری ہے کیونکہ زیادہ گفتگو دل کو یادِ الٰہی سے غافل کر دیتی ہے۔ حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ قوت گویائی جتنی بڑی نعمت ہے اتنی بڑی خرابی کا سر چشمہ بھی ہے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَی اُمَّتِي کُلُّ مُنَافِقٍ عَلِيْمِ اللِّسَانِ
(أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 22، رقم : 143)
’’میں اپنی اُمت پر سب سے زیادہ خوف زدہ ہر اس منافق سے ہوں جس کی زبان عالم ہو۔‘‘
ذاکر کے لئے کم کھانا بہت ضروری ہے، کیونکہ سیر ہو کر کھانے سے نیند کا غلبہ اور غنودگی چھاجاتی ہے۔ اس لئے ذکرِ الٰہی سے قبل پیٹ بھر کر کھانے سے اِجتناب کیا جائے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی غذا بہت سادہ تھی۔ آپ ﷺ بہت کم مقدار میں کھانا تناول فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
إِنْ کُنَّا آلَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم لَنَمْکُتُ شَهْرًا مَا نُوْقِدُ فِيْهِ بِنَارٍ مَا هُوَ إِلّا التَّمْرُ وَ الْمَاءُ.
(ابن ماجة، السنن، کتاب الزهد، باب معيشة آل محمد صلی الله عليه وآله وسلم، 4 : 485، رقم : 4144)
’’ہم آلِ محمد ﷺ ایک ایک مہینہ اس طرح سے گزارتے کہ گھر میں آگ نہ سلگائی جاتی (کیونکہ کھانا پکانے کے لئے کچھ نہ ہوتا) اور ہمارا کھانا یہی ہوتا کھجور اور پانی۔‘‘
علاوہ ازیں ذکر سے قبل آدابِ ذکر کے لئے جو شرائط ضروری شمار ہوتی ہیں ان میں سے فراغت، خلوت، (بند حجرہ اور نیم تاریک کمرہ) پاکیزہ مقام، اجلا لباس، قبلہ رخ، دو زانو یا چار زانو (دو زانو زیادہ بہتر ہے) بیٹھنا اور اپنے شیخ کا تصور کرنا وغیرہ۔
بحالتِ ذکر درج ذیل آداب بجا لانا ضروری ہیں :
چونکہ ذکر اللہتعالیٰ اور بندے کے درمیان تعلق استوار کرتا ہے۔ اس لیے بندے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس تعلق میں خشوع و خضوع کا اظہار کرے تاکہ اللہتعالیٰ کی رحمت اور لطف و کرم سے فیض یا ب ہوسکے۔ اللہتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
ادْعُواْ رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً.
(الاعراف، 7 : 55)
’’تم اپنے رب سے گڑ گڑا کر اور آہستہ (دونوں طریقوں سے) دُعا کیا کرو۔‘‘
اس آیتِ مبارکہ میں بھی خشوع و خضوع کی تلقین کی گئی ہے۔ کیونکہ جب ذاکر اللہتعالیٰ کے حکم کے مطابق خشوع و خضوع اور عجز و نیاز مندی کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ تو اس کی کیفیت ایسی ہوجاتی ہے جیسے ایک غلام اپنے آقا کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے۔ یا ایک دہقان بادشاہ کے روبرو حاضر ہوتا ہے یا جس طرح ایک محتاج سائل ایک فیاض آدمی کے در پر کھڑا ہو۔ ایسی کیفیت میں اس شخص کے نفس اور ملاء اعلیٰ کے درمیان ایک دروازہ کھل جاتا ہے، اس پر اللہرب العزت کی طرف سے جلیل القدر علوم و معارف کا نزول شروع ہو جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ انوار و تجلیات سے فیض یاب ہونے لگتا ہے۔
ذکر کے بعد تین چیزوں کا خیال رکھنا ضروری ہے :
ہم دین اسلام کو حدیث جبرائیل کی روشنی میں تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
اللہ، فرشتوں، آسمانی کتابوں، انبیاء و رُسل، یوم آخرت اور خیر و شر کی تقدیر کا زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کرنا ایمان کہلاتا ہے۔ لیکن اگر ہم روح ایمان کو دیکھیں تو وہ ذات محمد مصطفیٰ ﷺ ہے کیونکہ انبیاء ورسل ہوں یا آسمانی کتابیں، یوم آخرت ہو یا خیر و شر کی تقدیر حتی کہ اللہ کی ذات کا اقرار اور تصدیق اس دنیا میں اگر ممکن ہے تو فقط وسیلہ محمد مصطفیٰ ﷺ سے، ساری کائنات میں تنہا حضور ﷺ کی ذات ہے جنہوں نے ان تمام حقیقتوں کا مشاہدہ فرمایا ہے، ہمارا ایمان تو محض يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ (البقرہ، 2 : 3) جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے قول کو سچا تسلیم کرنے کا نام ہے۔
دین کا دوسرا حصہ اسلام یعنی اعمال حسنہ ہیں مثلاً نماز، روزہ، حج، زکواۃ، جہاد اور حقوق وفرائض وغیرہ یہ وہ سارے اعمال ہیں جو کسی بھی شخص کے دائرہ اسلام میں آنے کے بعد اس پر لازم ہوتے ہیں۔ ایمان کی طرح جب ہم ان اعمال کی روح اور حقیقت کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو قرآن ہم پر واضح کرتا ہے کہ
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ.
(الاحزاب، 33 : 21)
’’فی الحقیقت تمہارے لئے رسول اللہ ( ﷺ کی ذات) نہایت ہی حسین نمونہ (حیات) ہے۔‘‘
اللہ رب العزت نے عمل کا نمونہ ذات محمد مصطفیٰ ﷺ کو بنایا ہے۔ گویا ایمان حضور کی ذات سے تعلق کا نام ہے تو اعمال حضور ﷺ کے کردار کا نام۔
احسان جسے تصوف بھی کہا جاتاہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ بندہ اللہ کی بندگی یوں کرے جیسے وہ اسے دیکھ رہا ہے اگر یہ تصور، گمان یا توجہ نہ کر سکے تو یہ یقین رکھے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔ احسان یعنی تصوف کی تعریف کرتے ہوئے حضور سیدنا علی بن عثمان المعروف داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کشف المحجوب میں فرماتے ہیں کہ تصوف اخلاق حسنہ کا نام ہے جب ہم تصوف کی حقیقت اور اصل کو پہچاننا چاہیں تو قرآن یوں ہماری تربیت فرماتا ہے۔
وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍO
(القلم، 68 : 4)
’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں۔‘‘
گویا تصوف اخلاق حسنہ کا نام ہے اور اخلاق حسنہ کا کمال اخلاق محمدی ﷺ ہے۔ ان تمام تعریفات سے واضح ہو گیا کہ ایمان، ذات مصطفیٰ ﷺ اعمال کردار مصطفیٰ ﷺ اور تصوف (احسان) اخلاق محمدی ﷺ میں ہے۔ مختصر یہ کہ ہمارا دین فقط حضور کی ذات کا نام ہے۔
تصوف اخلاق حسنہ کو کہتے ہیں اور یہی ایمان اور اعمال کی کامل ترین شکل کا نام ہے۔ قرآن وحدیث کی جملہ تعلیمات کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ دین اسلام کا مقصد بندے میں اخلاق حسنہ پیدا کرنا ہے۔ قرآن مجید میں جا بجا اللہ تعالی نے اپنے مقرب بندوں کے اخلاق کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًاO
(الفرقان، 25 : 63)
’’اور (خدائے) رحمن کے (مقبول) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل (اکھڑ) لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے) ہیں۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ جل مجدہ نے فرمایا کہ رحمن کے بندے وہ ہیں جو رحمت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ دوسروں کو تکلیف نہیں دیتے اور برائی کا بدلہ نیکی سے دیتے ہیں۔
حضور نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان اخلاق حسنہ کی اہمیت سمجھنے کے لئے کافی ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔
اِنَّ مِنْ اَحَبِّکُمْ اِلَيَ وَاَقْرَبِکُمْ مِنِّی مَجْلِسًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ اَحَاسِنَکُمْ اَخْلَاقاً
(ترمذی فی السنن، 4 : 370، رقم 2018)
تم میں سب سے زیادہ پیارے اور قیامت کے دن میرے نزدیک ترین بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو تم میں سے اخلاق میں اچھے ہیں۔
گویا اللہ کی رضا اور حضور نبی اکرم ﷺ کا قرب اخلاق حسنہ میں پوشیدہ ہے۔ تحریک منہاج القرآن دور حاضر میں اصلاح احوال امت کی تحریک ہے اور ہمارا مقصد افراد معاشرہ میں اخلاق حسنہ کی قدروں کا احیاء اور فروغ ہے۔
موجودہ دور فتن میں ہم اخلاقی قدروں سے محروم ہو چکے ہیں، لڑائی جھگڑا، انتقام، لوٹ مار اور ہر سطح پر بداخلاقی ہمارا معمول بن چکا ہے۔ ہم ایسے عاشق رسول ﷺ ہیں جن کی زبانوں سے حضور کا ذکر تو سنائی دیتا ہے مگر کرداروں سے اسوہ محمدی ﷺ کی خوشبو نہیں آتی۔ طیب وطاہر آقا ﷺ کا ذکر کرنے کے باوجود ہماری گندی زبانیں پاک نہیں ہوتیں کیوں؟ اگر ذات سے محبت رہے اور کردار کو نہ اپنایا جائے تو ادھوری غلامی ہے، دین پر کامل عمل یہ ہے کہ حضور کی ذات سے محبت کی جائے اور اخلاق محمدی ﷺ کو اپنایا جائے۔ یہ اجتماعی اعتکاف کردار وعمل کو اسوہ محمدی میں ڈھالنے کا ذریعہ ہے۔ زبانیں پاکیزہ رکھی جائیں، عبادت و ریاضت میں دل لگایا جائے اور حضور ﷺ پر درود میں کثرت کی جائے۔ یاد رکھیں اسلام اسوہ محمدی میں ڈھلنے کا نام ہے، اسلام کردار مصطفیٰ کو اپنانے کا نام ہے۔ جو سچی غلامی اختیارکر لیتے ہیں اللہ ان کی شان بیان کرتا ہے۔
مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَالَّذِيْنَ مَعَه اَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُکَّعاً سُجَّدًا يَبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا.
’’محمد ( ﷺ ) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ ( ﷺ ) کی معیت اور سنگت میں ہیں (وہ) کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں۔ آپس میں بہت نرم دل اور شفیق ہیں۔ آپ انہیں کثرت سے رکوع کرتے ہوئے سجود کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، وہ (صرف) اللہ کے فضل اور اس کی رضا کے طلب گار ہیں۔‘‘
ہم بھی غلامی کا دعویٰ کرتے ہیں آئیں دیکھیں کہ ہمارے اندر یہ علامات ہیں یا نہیں، اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا۔ میرے حبیب کے غلاموں کا عالم یہ ہے کہ
بندہ مومن جب اللہ کے حضور نماز میں حاضر ہو کر اس سے صراط مستقیم طلب کرتا ہے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا‘‘ تو اللہ رب العزت صراط مستقیم کے حصول کو دو شرائط صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اور غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ ’’ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا، ان لوگوں کا نہیں جن پرغضب کیا گیا ہے اور اور نہ (ہی) گمراہوں کا‘‘ سے مشروط فرماتا ہے۔ گویا نیک بندوں کی صحبت میں آنا اور گمراہوں کی صحبت سے بچنا صراط مستقیم کے حصول اور اس پر قائم رہنے کے لیے ضروری ہے۔
عام مومنیں ہوں یا اللہ کے مقرب بندے اور اس کے انبیا ء جس نے جس قدر ان شرائط کو پورا کیا اس پر اللہ کے انعامات کی اسی قدر بارشیں ہو تی رہیں۔ قرآن مجید میں متعدد مقاما ت پر اللہ کے انہی مقرب بندوں کا ذکر موجود ہی۔ جب اصحاب کہف نے دیکھا کہ اب معاشرے میں رہ کر اپنے دین کا تحفظ ممکن نہیں تو انہوں نے گھر بار چھوڑا اور غار کے سامنے آکر اللہ کے حضور وہی دعا کی جیسی ہم نماز میں کرتے ہیں رَبَّنَا آتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا ’’اے ہمارے رب ہمیں اپنی بارگاہ سے رحمت عطا فرما اور ہمارے کا م میں راہ یابی (کے اسباب ) مہیا فرما ‘‘اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَزِدْنَاهُمْ هُدًى اور ہم نے ان کے لیے (نور) ہدایت میں اضافہ فرمادیا‘‘ اللہ نے نہ صرف ان کی ہدایت میں اضافہ فرمایا بلکہ انہیں تین سو نو سال کی عمرعطا فرمائی۔ ان کے تذکرے کو قرآن کا حصہ بنا کر مستقل حیات عطا فرما دی۔ سیدنا زکریا علیہ السلام کی صحبت میں رہنے والی اللہ کی نیک بندی مریم علیہا السلام نے اپنی صحبت کو مکمل پاکیزہ کر لیا اور دنیا سے کٹ کر اللہ سے تعلق قائم کر لیا تو اللہ تعالی نے بند دروازوں کے اندر انہیں اپنی نعمتوں سے سرفراز فرمایا۔ سیدنا یوسف علیہ السلام نے جب نیکی اور پاکیزگی پر استقامت دکھائی تو اللہ رب العزت نے بند دروازے کھول دیئے۔ یوسف علیہ السلام نے بھی اللہ کے حضور دعا کی۔ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي۔ اللہ نے اپنے بندے کی دعا سن لی اور اسے بری صحبت سے نکال کر، قیدخانے میں ڈال کر نبوت اور خوابوں کی تعبیریں عطا فرمائیں۔ الغرض موسیٰ علیہ السلام کو طور پر بلا کر چالیس دن اپنی بارگاہ میں عبادت و بندگی کے بعد انعامات کے دروازے کھولے اور کتاب عطا فرمائی۔ ہمارے آقا و مولی محمد مصطفیٰ ﷺ کو حرا کی خلوتوں میں بلایا، دنیا و مافیہا سے بے نیاز کر کے اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ کے ذریعے تاج ختم نبوت آپ کے سرپر رکھا۔
معزز شرکائے اعتکاف یہ رب العزت اور اس کے حبیب ﷺ کا احسان ہے کہ ہمیں صحبت الٰہی کے حصول کے لئے غاروں اور جنگلوں میں چھپ کر عبادتیں کرنے کی ضرورت نہیں۔ ماہ رمضان المبارک میں اللہ رب العزت ہمیں یہ نعمتیں بن مانگے عطا فرما دیتا ہے۔ پورا ماہ شیاطین کو جکڑ کر اپنی رحمتوں اور جنتوں کے دروازوں کو کھول کر بری صحبت سے بچاتا ہے اورخیر کی صحبت کا ماحول عطا فرماتا ہے۔ تیسرے عشرے میں اعتکاف کر کے اللہ کے حبیب ﷺ نے ہمارے لئے صراط مستقیم اور صحبت الٰہی کے حصول کو اور آسان کر دیا ہے۔ ان دس دنوں میں اگر کوئی حقیقی طور پر دنیا سے تعلق توڑ کر اللہ سے تعلق جوڑے تو اللہ رب العزت دنیا اور آخرت میں اپنی رضا اور اپنے حبیب ﷺ کا دیدار بھی عطا فرما دیتا ہے۔
اس سے مراد یہ ہے کہ بندہ بھیڑ اور رش میں تنہا (اکیلا) رہے۔ یعنی انسان انسانوں میں رہے لیکن اس کا دل اللہ کی یاد میں رہے۔ اللہ تعالی اپنے ایسے بندوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
رِجَالٌ لَا تُلْهيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَابَيْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰهِ.
تحریک منہاج القرآن کے مرکز پر یہ اعتکاف اسی کی عملی مشق ہے۔ ہزارہا معتکفین کے درمیان رہیں اور ان کے ساتھ سحری اور افطاری کریں لیکن ہزاروں میں یوں تنہا رہیں جیسے اربوں انسانوں میں ہر شخص تنہا زندگی گزارتا ہے۔ یہ اجتماعی اعتکاف حضور نبی اکرم ﷺ کی امت کے لئے توبہ، اِصلاحِ اَحوال اور قربتِ خداوندی کا ذریعہ ہے۔ یہ حرمین شریفین کے بعد دنیا کا سب سے بڑا اِعتکاف ہے۔ آپ اس اِعتکاف میں یوں دس دن گزاریں جیسے آپ کسی کو پہچانتے ہی نہیں اگر ہمیں لوگوں کی پہچان نہ رہی تو شاید مولیٰ کی پہچان میسر آ سکے۔ جیسے صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ جب سیدنا بلال اذان دیتے تو حضور ﷺ کے چہرے کا رنگ بدل جاتا، گفتگو وہیں ترک فرما دیتے اور ایسے اظہار فرماتے جیسے ہمیں پہچانتے ہی نہ ہوں۔ ہم بھی اگر سنت مصطفوی ﷺ پر عمل کرتے ہوئے دس دن صرف ایک پہچان ہی رکھیں، سب سے کٹ کر اُسی کے ہو کر رہیں تو یقیناً اس کی رحمتوں کے دروازے ہم پر بھی کھلیں گے اور ہمیں اپنے کرم سے نوازے گا۔
اعتکاف کے لغوی معنی اپنے آپ کو کسی شئے پر روکے رکھنے یا پابند کر لینے کے ہیں اور اصطلاحِ شریعت میں کسی کا مسجد کے اندر عبادت کی نیت سے مخصوص مدت کے لئے ٹھہرنا اعتکاف کہلاتا ہے۔
اعتکاف کی مسنون نیت یہ ہے۔ نَوَيتُ سْنَّتَ الِاعتِکَافِ لِلّٰهِ تعالیٰ. ’’میں اللہ کے لئے سنت اعتکاف کی نیت کرتا ہوں‘‘
اعتکاف کی تین اقسام ہیں۔
اگر کوئی شخص اعتکا ف کی نذر مان لے مثلاً اگر کوئی کہے کہ اگر میرا یہ کام ہو گیا تو میں اللہ کی رضا کے لیے اتنے دن اعتکاف بیٹھوں گا۔ اب اعتکاف بیٹھنا اس پر واجب ہے، اس کی مدت جتنے دونوں کی نظر مانی ہے اتنے دن ہے۔ اگر مدت کا تعین نہیں تو ایک دن کا اعتکاف واجب ہو گا۔
رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف سنت مؤکدہ ہے۔ اس کی ابتداء بیس رمضان کی شام غروب آفتاب کے وقت سے ہوتی ہے اور عید کا چاند دیکھتے ہی ختم ہو جاتا ہے۔ چاند چاہے انتیس تاریخ کا ہو یا تیس کا دونوں صورتوں میں سنت ادا ہو جائے گی۔ یہ اعتکاف سنت موکدہ علی الکفایہ ہے۔ بستی کے کچھ لوگ ادا کر لیں تو سب کا فریضہ ادا ہو جاتا ہے۔
واجب اور سنت کے علاوہ کسی بھی وقت مسجد میں اعتکاف کرنا نفلی اعتکاف کہلاتا ہے۔ اس کے لیے کوئی وقت، دن اور دورانیہ مخصوص نہیں۔
اِنسانی زندگی خیر و شر کی کشمکش سے عبارت ہے۔ نیکی و بدی کی یہ جنگ اُسی دن سے شروع ہو گئی تھی، جب اِبلیس نے اللہ تعالی کے برگزیدہ نبی حضرت آدم علیہ السلام کی تکریم سے اِنکار کرکے حکم اِلٰہی کی نافرمانی کی تھی۔ یہ سب سے پہلی حکم عدولی تھی، جسے قرآن حکیم نے فسق سے تعبیرکیا۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ.
(الکهف، 18 : 50)
’’وہ (اِبلیس) جنات میں سے تھا تو وہ اپنے رب کی اِطاعت سے باہر نکل گیا۔‘‘
یہیں سے اِطاعت اور نافرمانی کی کشمکش شروع ہوگئی۔ حضرت آدم علیہ السلام کے زمین پر وُرود کے ساتھ ہی حیاتِ بنی آدم کو آزمائش اور زمین کو اِمتحان گاہ بنا دیا گیا، جس کے نتیجے میں زمین پر خیر و شر کے تصادُم کا آغاز ہوا۔ نیکی اور بدی میں اُس کشمکش کے باعث دو راستے وُجود میں آئے۔ اُنہی راستوں کی نشاندہی قرآنِ مجید یوں کرتا ہے :
وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِO
(البلد، 90 : 10)
’’اور ہم نے اُسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیئےo‘‘
اللہ ربُّ العزت نے اُن دونوں راستوں کی پہچان کو اِنسانی فطرت کا حصہ بنا کر اِنسان کو اُن راستوں کی علامات سے آگاہ کر دیا، مگر خیر و شر میں سے کسی ایک راستے کا اِنتخاب اُس کی صوابدید پر چھوڑ دیا۔ قرآنِ حکیم فرماتا ہے :
فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَاO
(الشمس، 91 : 8)
’’پھر اُس نے اُسے اُس کی بدکاری اور پرہیزگاری (کی تمیز) سمجھا دیo‘‘
گویا اللہ رب العزت نے انسان کو دونوں میں سے کوئی ایک راستہ اختیار کرنے پر مجبور نہیں کیا، بلکہ ہدایت و گمراہی کے راستوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کو انسان کی مرضی پر موقوف کر دیا، جیساکہ اِرشاد باری تعالی ہے :
فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ.
(الکهف، 18 : 29)
’’پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے اِنکار کر دے۔‘‘
خیر و شر کی کشمکش اور تصادم میں شیطان فسق و نافرمانی، گمراہی و بے دینی، بداِعتقادی و بے عملی، ظلم و اِستحصال، فحاشی و عریانی اور جبر و اِستبداد کا علم بردار بن گیا۔ اُس نے اپنی گمراہی کا اِلزام اللہ ربُّ العزت پر عائد کیا اور آدم علیہ السلام اور بنی آدم سے اِنتقام لینے کے لیے اِنسانیت کو گمراہ کرنے اور پھر گمراہ اِنسانوں پر مشتمل اپنی جماعت تیار کرنے کا اِعلان کر دیا۔ اُس نے کہا :
فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَO
(الاعراف، 7 : 16)
’’پس اِس وجہ سے کہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے (مجھے قسم ہے کہ) میں (بھی) اُن (اَفرادِ بنی آدم کو گمراہ کرنے) کے لیے تیری سیدھی راہ پر ضرور بیٹھوں گا (تا آں کہ اُنہیں راہِ حق سے ہٹا دوں)o‘‘
شیطان نے ساری اِنسانیت کو گمراہ کرنے کے لیے اللہ تعالی سے مہلت طلب کی، اُسے مہلت تو مل گئی لیکن گمراہی کے فروغ کی منصوبہ بندی کرتے وقت اُسے معلوم تھا کہ تمام اِنسان میرے جال میں پھنسنے والے نہیں ہیں۔ یقیناً اللہ ربُّ العزت کے مخلص بندے میرے مکر و فریب سے بچ جائیں گے۔ اِس کا اقرار اُس نے اِن اَلفاظ میں کیا :
قَالَ رَبِّ بِمَآ أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَO إِلاَّ عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَO
(الحجر، 15 : 39، 40)
’’اِبلیس نے کہا : اے پروردگار! اس سبب سے جو تونے مجھے گمراہ کیا، میں (بھی) یقیناً ان کے لیے زمین میں (گناہوں اور نافرمانیوں کو) خوب آراستہ و خوش نما بنا دوں گا اور ان سب کو ضرور گمراہ کر کے رہوں گاo سوائے تیرے ان برگزیدہ بندوں کے جو (میرے اور نفس کے فریبوں سے) خلاصی پا چکے ہیںo‘‘
اللہ ربُّ العزت نے اپنے مخلص بندوں پر شیطان کا داؤ نہ چلنے پر مہرِ تصدیق ثبت فرماتے ہوئے اُس سے کہا :
هَذَا صِرَاطٌ عَلَيَّ مُسْتَقِيمٌO إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ.
(الحجر، 15 : 41، 42)
’’یہ (اِخلاص ہی) راستہ ہے جو سیدھا میرے دَر پر آتاہےo بے شک میرے (اِخلاص یافتہ) بندوں پر تیرا کوئی زور نہیں چلے گا۔‘‘
ابلیس کے اِعلانِ بغاوت اور اللہ رب العزت کے اپنے مخلصین کی حفاظت کی ضمانت کے نتیجہ میں انسانوں کے دو گروہ بن گئے : ایک رحمن کا فرماں بردار، تو دُوسرا شیطان کا پیروکار؛ ایک حق و ہدایت کا علم بردار، تو دُوسرا باطل و گمراہی کا پیام بر؛ ایک وِلایتِ رحمن کے زُمرے میں آیا، تو دُوسرا ولایتِ شیطان کے شمارمیں؛ اِعلانِ حق نظامِ ہدایت بن کر زمین پر اُترا جب کہ شیطان کا اِعلانِ بغاوت نظامِ دجل و فریب کی شکل میں زمین پر پھیل گیا۔ خیر کے پیام بروں کی طاقت کا سرچشمہ رحمن ہے، جب کہ شر کے پیروکاروں کی پشت پناہی شیطان کرتا ہے۔ ہدایت کے حاملین نے اللہ تعالی کی دی ہوئی ہدایت سے روئے زمین پر نیکی و بھلائی اور خیرکا نظام بپا کرنے کا عہد کیا، جب کہ شیطانی کارندوں نے شیطان کی رہنمائی میں باطل کے فروغ کا جھنڈا تھام لیا۔
اللہ تعالی نے نہ صرف پیغامِ ہدایت کو فروغ دینے والوں کے سروں پر ولایتِ رحمانی کا تاج سجا کر انہیں اہلِ حق کے گروہ میں شامل کرنے کا اعلان فرما دیا بلکہ اس ولایت کا دروازہ انبیاء و رُسل کے ساتھ ساتھ مومنین کے لیے بھی کھول دیا۔ اعلان ہوتا ہے :
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ.
(المائده، 5 : 55)
’’بے شک تمہارا (مددگار) دوست تو اللہ اور اس کا رسول ( ﷺ ) ہی ہے اور (ساتھ) وہ ایمان والے ہیں۔‘‘
جب کہ اللہ تعالی نے شر کے پیروکاروں اور ان کے سرغنہ شیطان کے سر پر ظلمت و گمراہی کا تاج رکھ کر اُن سب کے لیے جہنم میں ٹھکانہ مقدر کرتے ہوئے فرمایا :
اِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الغٰوِيْنَo وَاِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ اَجْمَعِيْنَo
(الحجر، 15 : 42، 43)
’’سوائے ان بھٹکے ہوؤں کے جنہوں نے تیری راہ اختیار کیo اور بے شک ان سب کے لیے وعدہ کی جگہ جہنم ہےo
حق و باطل کی اس کشمکش کے نتیجہ میں جب دو گروہ وُجود میں آئے تو اللہ تعالی نے اپنی ولایت کی راہ اِختیار کرنے والوں کو اپنی جماعت ’’حزبُ اللہ‘‘ قرار دیا، اور شیطانی راہ اپنانے اور شیطانی ولایت کا لباس پہننے والوں کو ’’حزبُ الشیطان‘‘ قرار دے دیا۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ان دونوںگروہوں کی اس کشمکش کے نتیجہ سے متعلق ارشاد فرمایا :
فَإِنَّ حِزْبَ اللّهِ هُمُ الْغَالِبُونَO
(المائده، 5 : 56)
’’ (اور) اللہ کی جماعت (کے لوگ) ہی غالب ہونے والے ہیںo‘‘
ایک اور مقام پر اللہ ربُّ العزت نے اپنے مقرب رسولوں یعنی اُلوہی ہدایت کے علم برداروں کے فتح و غلبہ کا اِعلان یوں فرمایا :
كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي.
(المجادلة، 58 : 21)
’’اللہ نے لکھ دیا ہے کہ یقیناً میں اور میرے رسول ضرور غالب ہو کر رہیں گے۔‘‘
مذکورہ آیاتِ مبارکہ سے واضح ہوگیا کہ نیکی و بدی کی اِس کشمکش میں فتح و غلبہ ہمیشہ حق اور اہلِ حق کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ رحمانی قوتیں ہمیشہ شیطانی قوتوں پر غالب آتی رہیں گی، شیطان اور اس کا گروہ تمام تر حملوں کے باوجود مخلص بندوں پر غلبہ پانے سے عاجز رہے گا اور یوں شر کا نظام ہمیشہ خیر کے سامنے نادِم و شرم سار ہوتا رہے گا۔
حق و باطل کی اس کشمکش میں شیطان کا گروہ اِبلیس سے مدد طلب کرتا ہے، جب کہ حزبُ الرحمن باطل کے مقابلہ کے لیے اپنی ممکنہ صلاحیتوں اور تمام وسائل کو بروئے کار لانے کے ساتھ ساتھ ولایتِ رحمن پر اِنحصار کرتا ہے۔ قرآنِ مجید ایک خوبصورت مثال سے اِس اَمر کی یوں وضاحت کرتا ہے :
إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ.
(الاعراف، 7 : 27)
’’بے شک وہ (خود) اور اس کا قبیلہ تمہیں (ایسی ایسی جگہوں سے) دیکھتا ہے‘‘
آیتِ مذکورہ کی رُو سے شیطان اوراس کے قبیلہ (جن اور انسان) کو ساری کائنات میں بہ یک وقت دیکھنے اور خبردار رہنے کی قوت حاصل ہے۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالی کی طرف سے حزبُ الشیطان کے مقابلے میں حزبُ الرحمن کو عطا کی گئی قوتوں کا ذکر قرآنِ مجید نے یوں کیا ہے :
فَسَيَرَى اللّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ.
(التوبه، 9 : 105)
’’سو عنقریب تمہارے عمل کو اللہ (بھی) دیکھ لے گا اور اس کا رسول ( ﷺ بھی) اور اہلِ ایمان (بھی)‘‘
لہٰذا خیر و شر کے اس تصادم میں جیسے دیکھنے کی قوت کار فرما ہے اسی طرح علم اور خبردار رہنے کی قوت، حالات کا رُخ بدلنے کی قوت اور گمراہی یا ہدایت کے اثرات مرتب کرنے کی قوت بھی کار فرما ہوتی ہے۔ الغرض حق و باطل کے تصادم میں کار فرما تمام عوامل کے اِعتبارسے اہلِ حق کا قیامت تک ان تمام تقاضوں سے متصف ہونا ضروری ہے، جو حق تعالی کے اُس اِعلانِ غلبہ و فتح کا راستہ ہموار کر سکیں اور اُس ساری تیاری کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی نے اہلِ حق کو تلقین کی کہ
إِن يَنصُرْكُمُ اللّهُ فَلاَ غَالِبَ لَكُمْ وَإِن يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا الَّذِي يَنصُرُكُم مِّن بَعْدِهِ وَعَلَى اللّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَO
(آل عمرآن، 3 : 160)
’’اگر اللہ تمہاری مدد فرمائے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا، اور اگر وہ تمہیں بے سہارا چھوڑ دے تو پھر کون ایسا ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کر سکے، اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیےo‘‘
گویا حق کی کامیابی کا دار و مدار وِلایتِ رحمٰن پر ہے۔
خیر و شر کی یہ کشمکش قیامت تک یوں ہی جاری رہے گی۔ شیطان اور حزبُ الشیطان قیامت تک کفر و ظلمت کے غلبہ کی کوشش کرتے رہیں گے، جب کہ نبوت و رِسالت کے سلسلہ کے خاتمہ یعنی حضور ختمی مرتبت ﷺ کی تشریف آوری کے بعد اُمت کے ائمہ و مجتہدین حق کی فتح اور ہدایت کے فروغ کا فریضہ ادا کرتے رہیں گے اور ولایتِ رحمان کے سبب ہدایت کا لباس زیبِ تن فرما کر قیامت تک شیطان اور اس کے کارندوں پر ہر لحاظ سے فتح و برتری حاصل کرتے رہیں گے۔ یہ ائمہ و مجتہدین، اَولیاء و صلحاء اور علماء حق کا گروہ ہے جو اپنے اپنے منصب اور استطاعت کے مطابق قیامت تک حق اور اہلِ حق کو سربلند کرنے کے لیے برسرپیکار رہیں گے، اور ہدایت اور نیکی کی صورت میں نبوی فیض انسانوں میں تقسیم کرتے رہیں گے۔
دورِ حاضر میں حق و باطل کی اِسی اَزلی و اَبدی کشمکش پر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں یہ تصادم اپنے عروج پر دکھائی دیتاہے، برائی بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے، شر اپنے پر پھیلاتا نظر آتا ہے، امانت و دیانت اور عدل و اِنصاف رختِ سفر باندھ چکے ہیں، شرافت و صداقت کی جگہ جھوٹ اور ریاکاری نے لے لی ہے، نمائش و دکھلاوے نے طاعت و تقویٰ کو رخصت کر دیا ہے، امن و سکون فتنہ و فساد کی نظر ہو چکا ہے، عصمت و حیا پر فحاشی و عریانی غالب آگئی ہے، برائی کی رغبت نے عبادت کا ذوق سلب کر لیا ہے، سجدہ ریزیوں کی جگہ تکبر نے لے لی ہے، تواضع و اِنکساری آج خودپسندی میں بدل گئی ہے، جہالت ہدایت کا بھیس بدل کر گمراہی کو عام کر رہی ہے، عقیدہ و سوچ میں لادینیت نمایاں ہونے لگی ہے، عمل میں صالحیت کی جگہ فسق و فجور بڑھ رہا ہے، برائی کے عوامل کثیر ہو گئے ہیں، باطل کئی شکلوں میں امت کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے، مادیت و عقل پرستی عقیدت پر حملہ آور ہے، اَخلاقی قدریں مٹتی جا رہی ہیں، معیشت پر قارونیت اور سیاست پر فرعونیت کا غلبہ ہو چکا ہے، تہذیب و ثقافت کو لچرپن اور جنسی بے راہ روی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، سوچ کے دھارے بدل گئے ہیں، الغرض دینی سطح ہو یا دُنیوی، سارا ماحول شیطان کے تابع نظر آتا ہے۔
یہ تمام حالات و واقعات دورِ فتن کی علامات ہیں، جن کی نشاندہی پیغمبر آخر الزماں ﷺ نے پہلے ہی فرما دی تھی۔ ذیل میں چند احادیثِ مبارکہ بطور نمونہ پیش کی جارہی ہیں تاکہ زبانِ نبوی ﷺ سے دورِ فتن کے اثرات کی تصدیق ہو سکے :
1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
قَالَ النَّبِيُ صلی الله عليه وآله وسلم : يَتَقَارَبُ الزَّمَانُ وَيَنْقُصُ الْعِلْمُ وَيُلْقَی الشُّحُّ وَتَظْهَرُ الْفِتَنُ وَيَکْثُرُ الْهَرَجُ. قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اللہِ! اَيُمَا هُوَ؟ قَالَ : الْقَتْلُ، الْقَتْلُ.
(بخاری، الصحيح، کتاب الفتن، باب ظهور الفتن، 6 : 6590، رقم : 6652)
’’حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : زمانہ قیامت قریب ہو جائے گا اور عمل کم ہو جائیں گے، دلوںمیںبخل ڈال دیاجائے گا، فتنے زیادہ ہونے لگیں گے اور ہرج بکثرت ہونے لگیں گے۔ صحابہ کرام ث نے پوچھا : یا رسول اللہ! ہرج کیاہے؟ فرمایا : قتل ہے، قتل ہے (یعنی بہ کثرت قتل ہوں گے)۔‘‘
2۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
سَتَکُوْنُ فِتَنٌ، الْقَاعِدُ فِيْهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ، وَالْقَائِمُ فِيْهَا خَيْرٌ مِنَ الْمَاشِی، وَالْمَاشِی فِيْهَا خَيْرٌ مِنَ السَّاعِی، مَنْ تَشَرَّفَ لَهَا، تَسْتَشْرِفْهُ، فَمَنْ وَجَدَ فِيْهَا مَلْجَأً اَوْمَعَاذًا، فَلْيَعُذْ بِهِ.
(بخاری، الصحيح، کتاب الفتن، باب تکون الفتنة القائد فيها خير من القائم، 6 : 2594، رقم : 6670)
’’عنقریب فتنے ہوں گے، ان میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا، اُن میں کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا اور ان میں چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا۔ جو شخص فتنوں کی طرف نظر اُٹھائے گا وہ اُسے اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ جو کوئی اُن سے بچنے یا پناہ لینے کے لیے جگہ پائے تو وہ پناہ لے لے۔‘‘
3۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدارِ کائنات ﷺ نے فرمایا :
اِنَّ مِنْ اَشْرَاطِ السَّاعَةِ اَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ، وَيُظْهَرَ الْجَهْلُ، وَيَفْشُوا الزِّنَی وَيُشْرَبَ الْخَمْرُ، وَيَذْهَبَ الرِّجَالُ وَتَبْقَی النِّسَاءُ حَتَّی يَکُوْنَ لِخَمْسِيْنَ اِمْرَأَةً قَيِّمٌ وَاحِدٌ.
(مسلم، الصحيح، کتاب العلم، 4 : 2056، رقمَ 2671)
’’علمِ (نافع) کا اٹھ جانا، جہالت کا غالب ہو جانا، بدکاری اور شراب نوشی کا عام ہو جانا، مردوں کا کم ہونا اور عورتوں کا (تعداد میں زیادہ) باقی رہنا۔ یہاں تک کہ پچاس عورتوں کا نگران ایک مرد ہوگا۔ یہ سب (قربِ) قیامت کی علامات میں سے ہیں۔‘‘
جب ہر سمت قتل و غارت گری کا بازار گرم ہو، بداَمنی، فحاشی و عریانی کا سیلاب رواں ہو، اکثر مساجد اللہ کی عبادت و بندگی کی بجائے بداَمنی، فتنہ و فساد اور قتل و غارت کا نشانہ بن جائیں، زندگی کا ہر شعبہ فتنہ و فساد کی لپیٹ میں آجائے تو ایسے دور میں دنیا کے مال و متاع کے ساتھ ساتھ ایمان بھی لٹ جاتا ہے، اَخلاق، حیا اور ایمان کی قدریں مٹتی چلی جاتی ہیں، روحانی اَقدار ختم ہو جاتی ہیں اور رسومات تصوف کے نام پر ایک کاروبار بن جاتی ہیں۔ گویا ایسے دور میں حق و باطل کی کشمکش اس عروج پر ہوتی ہے کہ مذہب میں بھی فتنے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ اِ ن حالات میں اہلِ حق اپنا ایمان کیسے بچائیں؟
کیا ایسے دور میں کسی ایسے گروہ میں شمولیت سے ایمان بچ سکتا ہے جو اپنی تبلیغ و اِشاعت کے ذریعے مسلمانوں کی اَکثریت کو کافر و مشرک قرار دے کر ان کے خلاف جہاد کرنے کا درس دے؟ یقیناً نہیں۔ کیا ایسے دور میں کسی ایسے فرقے میں شامل ہونے سے ایمان محفوظ رہے گا جو جہاد کے نام پر مسلمانوں کے خلاف ہی بندوق اٹھانے کا درس دے؟ یقیناً نہیں۔ کیا فتنہ و فساد سے بھرپور اِس معاشرے میں خود کو معاشرے سے کاٹ کر تنہا اللہ اللہ کرنے سے ایمان بچایا جا سکتا ہے؟ یقیناً مشکل ہے۔ کیا کسی ایسی تحریک، جماعت، گروہ یا فرقے میں شامل ہونے سے آخرت کی ضمانت میسر آسکتی ہے جو دین کے ایک حصے پر تو عمل کر رہا ہو اور دوسرے حصے کی نفی کر رہا ہو؟ یقیناً دین کے بعض پہلوؤں سے اِنکار ہمیں صراطِ مستقیم کی ضمانت نہیں دے سکتا۔
معزز قارئین! ہر وہ جماعت، گروہ، طبقہ، یا فرقہ جو اَمن، پیار اور محبت کی بجائے فتنہ و فساد کا درس دے، جو حضور ﷺ کی امت کو ایک کرنے کی بجائے ٹکروں میں تقسیم کرے، جس کی تبلیغ کے بعد پیغمبرِ اِسلام حضرت محمد ﷺ سے تعلق کمزور ہو، مسلمان رحمت و شفقت کا پیکر بننے کی بجائے آپس میں دست و گریبان ہو جائیں تو یقیناً ایسے گروہ خوبصورت تبلیغ اور عبادت کے باوجود۔ حزبُ الرحمن نہیں حزبُ الشیطان ہیں۔ حضور ﷺ نے مذہب میں داخل فتنوں کا تذکرہ کرتے ہوئے نام نہاد دعوت و اِرشاد کے علم برداروں کے بارے میں اِرشاد فرمایا کہ عبادت و بندگی کی کثرت اُنہیں فتنہ و فساد سے بچنے کے لیے کافی نہیں ہوگی۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
وَالَّذِيْ نَفْسِی بِيَدِهِ! لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتَّی يَمُرَّ الرَّجُلُ عَلَی الْقَبْرِ، فَيَتَمَرَّغُ عَلَيْهِ، وَيَقُوْلُ : يَالَيْتَنِی! کُنْتُ مَکَانَ صَاحِبِ هَذَا الْقَبْرِ، وَلَيْسَ بِهِ الدِّيْنُ اِلَّا الْبَلَاءُ.
(مسلم، الصحيح، کتاب الفتن، باب لا تقوم الساعة حتیٰ يمر الرجل بقبر الرجل، 4 : 2230، رقم : 30355)
’’قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! دُنیا ختم ہونے سے پہلے ایک شخص قبر پر سے گزرے گا اور اُس پر رُک کر کہے گا : کاش! میں اس (قبر میں) قبر والے کی جگہ پر ہوتا۔ اور اُس وقت دین صرف آزمائشوں اور مصیبتوں کا نام ہو گا۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں :
يَأْتِی عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ، يَجْتَمِعُوْنَ وَيُصَلُّوْنَ فِی الْمَسَاجِدِ، وَلَيْسَ فِيْهِمْ مُؤْمِنٌ.
(ابن ابی شيبه، المصنف، 6 : 163، رقم : 30355)
’’لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ وہ مساجد میں جمع ہوں گے اور نمازیں ادا کریں گے لیکن ان میں کوئی مومن نہیں ہوگا۔‘‘
سیدنا علی کرم اللہ وجھہ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے رسول اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :
يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ اُمَّتِي يَقْرَءُوْنَ القُرْآنَ لَيْسَ قِراءَ تُکُمْ إِلَی قِرَاءَ تِهِمْ بِشَيئٍ، وَلاَ صَلَاتُکُمْ إِلَی صَلاَتِهِمْ بِشَيئٍ، وَلاَ صِيَامُکُمْ إِلَی صِيَامِهِمْ بِشَيئٍ، يَقْرَءُوْنَ القُرآنَ يَحْسِبُونَ اَنَّهُ لَهُمْ، وَهُوَ عَلَيْهِمْ لاَ تُجَاوِزُ صَلَاتُهُمْ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلاَمِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَةِ.
(مسلم، الصحيح، کتاب الزکوة، باب التحريض علی قتل الخوارض، 2 : 748، رقم : 1066)
’’میری اُمت میں سے ایک قوم ظاہر ہو گی، وہ ایسا قرآن پڑھیں گے کہ اُن کے پڑھنے کے سامنے تمہارے قرآن پڑھنے کی کوئی حیثیت نہ ہوگی، نہ اُن کی نمازوں کے سامنے تمہاری نمازوں کی کچھ حیثیت ہوگی، نہ اُن کے روزوں کے سامنے تمہارے روزوں کی کوئی حیثیت ہوگی۔ وہ یہ سمجھ کر قرآن پڑھیں گے کہ وہ ان کے لیے مفید ہے لیکن درحقیقت وہ ان کے لیے مضر ہوگا، نماز ان کے گلے کے نیچے سے نہیں اتر سکے گی اور وہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved