امام بیہقی (المتوفی 458 ھ) نے اپنی سند کے ساتھ ’’مناقبِ شافعی‘‘ میں روایت کیا ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بدعت کی تقسیم ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :
1. المحدثات من الأمور ضربان : أحدهما ما أحدث مما يخالف کتاباً أوسنة أو اثرًا أو إجماعاً فهذه البدعة ضلالة، و الثانية ما أحدث من الخير لا خلاف فيه لواحد من هذا فهذه محدثة غير مذمومة، قد قال عمر رضي الله عنه في قيام رمضان نعمت البدعة هذه(1) يعني إِنَّها محدثة لم تکن و إِذا کانت ليس فيها ردُّ لما مضي. (2)
’’محدثات میں دو قسم کے امور شامل ہیں : پہلی قسم میں تو وہ نئے امور ہیں جو قرآن و سنت یا اثر صحابہ یا اجماع امت کے خلاف ہوں وہ بدعت ضلالہ ہے، اور دوسری قسم میں وہ نئے امور ہیں جن کو بھلائی کے لیے انجام دیا جائے اور کوئی ان میں سے کسی (امرِ شریعت) کی مخالفت نہ کرتا ہو پس یہ امور یعنی نئے کام محدثہ غیر مذمومۃ ہیں۔ اسی لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رمضان میں تراویح کے قیام کے موقع پر فرمایا تھا کہ ’’یہ کتنی اچھی بدعت ہے یعنی یہ ایک ایسا محدثہ ہے جو پہلے نہ تھا اور اگر یہ پہلے ہوتا تو پھر مردود نہ ہوتا۔‘‘
1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250
4. ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم، 1 / 266
5. زرقاني، شرح الزرقاني علي موطا الامام مالک، 1 / 340
1. بيهقي، المدخل الي السنن الکبريٰ، 1 : 206
2. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 8 : 408
3. نووي، تهذيب الاسماء واللغات، 3 : 21
علامہ ابن رجب حنبلی (795ھ) اپنی کتاب ’’جامع العلوم والحکم‘‘ میں تقسیمِ بدعت کے تناظر میں اِمام شافعی کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں :
2. وقد روي الحافظ أبو نعيم بإسناد عن إبراهيم ابن الجنيد قال : سمعت الشافعي يقول : البدعة بدعتان : بدعة محمودة و بدعة مذمومة، فما وافق السنة فهو محمود، وما خالف السنة فهو مذموم. واحتجّ بقول عمر رضي الله عنه : نعمت البدعة هي. (1) و مراد الشافعي رضي الله عنه ما ذکرناه من قبل أن أصل البدعة المذمومة ما ليس لها أصل في الشريعة ترجع إليه و هي البدعة في إطلاق الشرع. وأما البدعة المحمودة فما وافق السنة : يعني ما کان لها أصل من السنة ترجع إليه، و إنما هي بدعة لغة لا شرعا لموافقتها السنة. وقد روي عن الشافعي کلام آخر يفسر هذا و أنه قال : المحدثات ضربان : ما أحدث مما يخالف کتابا أو سنة أو أثرا أو إجماعا فهذه البدعة الضلالة، وما أحدث فيه من الخير لا خلاف فيه لواحد من هذا و هذه محدثة غير مذمومة، و کثير من الأمور التي أحدثت ولم يکن قد اختلف العلماء في أنها بدعة حسنة حتي ترجع إلي السنة أم لا. فمنها کتابة الحديث نهي عنه عمر وطائفة من الصحابة و رخص فيها الأکثرون واستدلوا له بأحاديث من السنة. ومنها کتابة تفسير الحديث والقرآن کرهه قوم من العلماء و رخص فيه کثير منهم. وکذلک اختلافهم في کتابة الرأي في الحلال والحرام و نحوه. و في توسعة الکلام في المعاملات و أعمال القلوب التي لم تنقل عن الصحابة والتابعين. (2)
1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح موطا مالک، 1 / 105، رقم : 250
4. ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم، 1 / 266
5. زرقاني، شرح الزرقاني علي موطا الامام مالک، 1 / 340
ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم : 4 - 253
’’حافظ ابو نعیم نے ابراہیم بن جنید کی سند سے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں۔
1۔ بدعت محمودہ
2۔ بدعت مذمومۃ
جو بدعت سنت کے مطابق و موافق ہو وہ محمودہ ہے اور جو سنت کے مخالف و متناقض ہو وہ مذموم ہے اور انہوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول (نعمت البدعۃ ھذہ) کو دلیل بنایا ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی مراد بھی یہی ہے جو ہم نے اس سے پہلے بیان کی ہے بے شک بدعت مذمومہ وہ ہے جس کی کوئی اصل اور دلیل شریعت میں نہ ہو جس کی طرف یہ لوٹتی ہے اور اسی پر بدعت شرعی کا اطلاق ہوتا ہے اور بدعت محمودہ وہ بدعت ہے جو سنت کے موافق ہے یعنی اس کی شریعت میں اصل ہو جس کی طرف یہ لوٹتی ہو اور یہی بدعت لغوی ہے شرعی نہیں ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے دوسری دلیل اس کی وضاحت پر یہ ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ محدثات کی دو اقسام ہیں پہلی وہ بدعت جو کتاب و سنت، اثر صحابہ اور اجماع اُمت کے خلاف ہو یہ بدعت ضلالہ ہے اور ایسی ایجاد جس میں خیر ہو اور وہ ان چیزوں (یعنی قرآن و سنت، اثر اور اجماع) میں سے کسی کے خلاف نہ ہو تو یہ بدعتِ غیر مذمومہ ہے اور بہت سارے امور ایسے ہیں جو ایجاد ہوئے جو کہ پہلے نہ تھے جن میں علماء نے اختلاف کیا کہ کیا یہ بدعت حسنہ ہے۔ یہاں تک کہ وہ سنت کی طرف لوٹے یا نہ لوٹے اور ان میں سے کتابت حدیث ہے جس سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور صحابہ کے ایک گروہ نے منع کیا ہے اور اکثر نے اس کی اجازت دی اور استدلال کے لیے انہوں نے کچھ احادیث سنت سے پیش کی ہیں اور اسی میں سے قرآن اور حدیث کی تفسیر کرنا جس کو قوم کے کچھ علماء نے ناپسند کیا ہے اور ان میں سے کثیر علماء نے اس کی اجازت دی ہے۔ اور اسی طرح حلال و حرام اور اس جیسے معاملات میں اپنی رائے سے لکھنے میں علماء کا اختلاف ہے اور اسی طرح معاملات اور دل کی باتیں جو کہ صحابہ اور تابعین سے صادر نہ ہوئی ہوں ان کے بارے میں گفتگو کرنے میں بھی علماء کا اختلاف ہے۔‘‘
معروف مفسرِ قرآن اِمام ابو عبداﷲ محمدبن احمد قرطبی بدعت کی مختلف اقسام بیان کرتے ہوئے اپنی معروف تفسیر ’’الجامع لاحکام القرآن‘‘ میں فرماتے ہیں :
3. کل بِدعة صدرت من مخلوق فلا يخلو أن يکون لها أصل في الشرع أولا؛ فإن کان لها أصل کانت واقعة تحت عموم ما ندب اﷲ إليه و حضّ رسوله عليه؛ فهي في حيز المدح. وإن لم يکن مثاله موجودا کنوع من الجود والسخاء و فعل المعروف؛ فهذا فعله من الأفعال المحمودة، وإن لم يکن الفاعل قد سبق إليه. و يعْضُدْ هذا قول عمر رضی الله عنه : نعمت البدعة هذه؛ لما کانت من أفعال الخير و داخلة في حيز المدح، وهي وإن کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم قد صلاها إلا أنه ترکها ولم يحافظ عليها، ولا جمع الناس عليها؛ فمحافظة عمر رضی الله عنه، عليها وجمع الناس لها، وندبهم إليها، بدعة لکنها بدعة محمودة ممدوحة. وإن کانت في خلاف ما أمرﷲ به ورسوله فهي في حيّز الذم والإنکار؛ قال معناه الخطابي و غيره
قلت : وهو معني قوله صلي الله عليه وآله وسلم في خطبته : ’’وشَرُّ الأمور محدثاتها وکل بدعة ضلالة‘‘(1) يريد مالم يوافق کتابا أو سنة، أو عمل الصحابة رضي اﷲ عنهم، وقد بين هذا بقوله : ’’مَنْ سَنّ فِي الإسلام سُنَّة حسنة کان له أجرها و أجر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أجورهم شيء ومَن سنّ في الإسلام سُنَّة سيئة کان عليه وزرُها ووزر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أوزارهم شيئ‘‘. (2) وهذا إشارة إلي ما ابتدع من قبيح و حسن.(3)
’’ہر بدعت جو مخلوق سے صادر ہوتی ہے دوحالتوں سے خالی نہیں ہوتی وہ یہ کہ اس کی اصل شریعت میں ہوتی ہے یا نہیں اگر اس کی اصل شریعت میں ہو تو پھر وہ لازمی طور پر عموم کے تحت واقع ہوگی جس کو اﷲ تعاليٰ نے مستحب قرار دیا ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم پر برانگیختہ کیا ہو پس یہ بدعت مقامِ مدح میں ہوگی اور اگر ان کی مثال پہلے سے موجود نہ ہو جیسے جود و سخاء وغیرہ کی اقسام اور معروف کام تو ایسے امور کا سر انجام دینا افعال محمودہ میں سے ہے چاہے کسی نے یہ کام پہلے نہ کئے ہوں اور یہ عمل حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول، ’’ نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ کو تقویت دیتا ہے جو کہ اچھے کاموں میں سے تھی اور وہ محمود کاموں میں داخل ہیں اور وہ یہ ہے کہ بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز تراویح کو پڑھا تھا مگر آپ نے اسے (باجماعت) ترک کر دیا اور اس کی محافظت نہیں فرمائی اور نہ ہی لوگوں کو اس کے لئے جمع کیا پس (بعد میں مصلحت وقت کے تحت) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس (نمازِ تراویح) کی محافظت کی اور لوگوں کو اس کے لئے جمع کیا اور انہوں نے لوگوں کو اس کی ترغیب دی تو وہ بدعت ہوئی لیکن بدعت محمودہ اور ممدوحہ ہے اور اگر وہ بدعت اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے خلاف ہو تو وہ مقام ذم میں ہوگی اور یہ معنی خطابی اور دیگر نے بھی کیا ہے تو امام قرطبی کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ وہی معنی آقا علیہ السلام کے خطبہ سے بھی ثابت ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’وشرالامور محدثاتہا و کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ اور اس سے مراد وہ کام ہے جو کتاب و سنت اور عمل صحابہ کے موافق نہ ہو اور یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول سے بھی واضح ہوتی ہے کہ ’’جس نے اسلام میں کسی اچھی چیز کی ابتداء کی اس کو اپنا اجر بھی ملے گا اور اس کے بعد جو لوگ اس کام کو کریں گے ان کے عمل کا اجر بھی اسے ملے گا اور ان کے اجر میں ذرّہ برابر بھی کمی نہیں ہوگی اور جس کسی نے اسلام میں کسی بری چیز کی ابتداء کی تو اس پر اپنی برائی کا وبال بھی ہوگا اور اس کے بعد اس پر عمل کرنے والوں کی برائی کا وبال بھی اس پر ہوگا اور ان کے وبال میں سے کوئی کمی نہ کی جائے گی‘‘ اور یہ اشارہ اس کی طرف ہے جس نے کسی اچھے یا برے کام کی ابتداء کی۔
1. ابن ماجه، السنن، باب اجتناب البدع الجدل، 1 / 18، رقم : 46
2. ابن حبان، الصحيح، 1 / 186، رقم : 10
3. طبراني، المعجم الکبير، 9 / 96، رقم : 8518
4. ابويعلي، المسند، 4 / 85، رقم : 2111
5. ديلمي، المسند الفردوس، 1 / 380، رقم : 1529
1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017
2. نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقه، رقم : 2554
3. ابن ماجه، السنن، 1 : 74، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، رقم : 203
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357 - 359
5. ابن حبان، الصحيح، 8 : 101، 102، رقم : 3308
قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 2 : 87
اِمام ابن حزم اندلسی اپنی کتاب ’’الاحکام فی اُصول الاحکام‘‘ میں بدعت کی تعریف اور تقسیم بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :
4. والبدعة کل ما قيل أو فعل مما ليس له أصل فيما نسب إليه صلي الله عليه وآله وسلم و هو في الدين کل مالم يأت في القرآن ولا عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إلا أن منها ما يؤجر عليه صاحبه و يعذر بما قصد إليه من الخير و منها ما يؤجر عليه صاحبه و يکون حسنا و هو ماکان أصله الإباحة کما روي عن عمر رضي الله عنه نعمت البدعة هذه(1) و هو ما کان فعل خير جاء النص بعموم استحبابه و إن لم يقرر عمله في النص و منها ما يکون مذموما ولا يعذر صاحبه و هو ما قامت به الحجة علي فساده فتمادي عليه القائل به. (2)
’’بدعت ہر اس قول اور فعل کو کہتے ہیں جس کی دین میں کوئی اصل یا دلیل نہ ہو اور اس کی نسبت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کی جائے لہٰذا دین میں ہر وہ بات بدعت ہے جس کی بنیاد کتاب و سنت پر نہ ہو مگر جس نئے کام کی بنیاد خیر پر ہو تو اس کے کرنے والے کو اس کے اِرادئہ خیر کی وجہ سے اَجر دیا جاتا ہے اور یہ بدعتِ حسنہ ہوتی ہے اور یہ ایسی بدعت ہے جس کی اصل اباحت ہے۔ جس طرح کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا نعمت البدعۃ ہذہ قول ہے۔ اور یہ وہی اچھا عمل تھا جس کے مستحب ہونے پر نص وارد ہوئی اگرچہ پہلے اس فعل پر صراحتاً نص نہیں تھی اور ان (بدعات) میں سے بعض افعال مذموم ہوتے ہیں لہٰذا اس کے عامل کو معذور نہیں سمجھا جاتا اور یہ ایسا فعل ہوتا ہے جس کے ناجائز ہونے پر دلیل قائم ہوتی ہے اور اس کا قائل اس پر سختی سے عامل ہوتا ہے۔‘‘
1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250
4. ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم، 1 / 266
ابن حزم الاندلسي، الاحکام في اُصول الاحکام، 1 : 47
امام ابوبکر احمد بن حسین البیہقی اپنی کتاب ’’المدخل الی السنن الکبريٰ‘‘ میں ربیع بن سلیمان سے روایت کرتے ہیں کہ :
5. قال الشافعي رضي الله عنه المحدثات من الأمور ضربان : أحدهما ما أحدث مما يخالف کتاباً أوسنة أو اثرًا أو إجماعاً فهذه البدعة ضلالة، و الثانية ما أحدث من الخير لا خلاف فيه لواحد من هذا فهذه محدثة غير مذمومة، قد قال عمر رضي الله عنه في قيام رمضان نعمت البدعة هذه(1) يعني إِنَّها محدثة لم تکن و إِذا کانت ليس فيها ردُّ لما مضي. (2)
’’محدثات میں دو قسم کے امور شامل ہیں : پہلی قسم میں تو وہ نئے امور ہیں جو قرآن و سنت یا اثر صحابہ یا اجماع امت کے خلاف ہوں وہ بدعت ضلالہ ہے، اور دوسری قسم میں وہ نئے امور ہیں جن کو بھلائی کے لیے انجام دیا جائے اور کوئی ان میں سے کسی (امرِ شریعت) کی مخالفت نہ کرتا ہو پس یہ امور محدثہ غیر مذمومۃ ہیں۔ اسی لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رمضان میں تراویح کے قیام کے موقع پر فرمایا تھا کہ ’’یہ کتنی اچھی بدعت ہے۔ یعنی یہ ایک ایسا محدثہ یعنی نیا عمل ہے جو پہلے نہ تھا اور اگر یہ پہلے ہوتا تو پھر مردود نہ ہوتا۔‘‘
1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250
4. ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم، 1 / 266
5. زرقاني، شرح الزرقاني علي مؤطا الامام مالک، 1 / 340
1. بيهقي، المدخل الي السنن الکبري، 1 : 206
2. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 8 : 408
3. نووي، تهذيب الاسماء واللغات، 3 : 21
امام ابوحامد محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب’’احیاء علوم الدین‘‘ میں بدعت کے حوالے سے رقمطراز ہیں :
6. فليس کل ما أبدع منهيا بل المنهي بدعة تضاد سُنة ثابتة و ترفع أمرا من الشرع مع بقاء علته بل الابداع قد يجب في بعض الاحوال إذا تغيرت الأسباب وليس في المائدة إلا رفع الطعام عن الأرض لتيسير الأکل و أمثال ذلک مما لا کراهة فيه. والأربع التي جمعت في أنها مبدعة ليست متساوية بل الأشنان حسن لما فيه من النظافة فإن الغسل مستحب للنظافة والأشنان أتم في التنظيف، وکانوا لا يستعملونه لأنه ربما کان لا يعتاد عندهم أو لا يتيسر، أو کانوا مشغولين بأمور أهم من المبالغة في النظافة فقد کانوا لا يغسلون اليد أيضا، وکانت مناديلهم أخمص أقدامهم وذلک لا يمنع کون الغسل مستحبا. و أما المنخل فالمقصود منه تطييب الطعام وذلک مباح مالم ينته إلي التنعم المفرط. و أما المائدة فتيسير للأکل و هو أيضا مباح مالم ينته إلي الکبر والتعاظم. و أما الشبع فهو أشد هذه الأربعة فإنه يدعو إلي تهييج الشهوات و تحريک الأدواء في البدن فلتدرک التفرقة بين هذه البدعات.
’’ہر بدعت ممنوع نہیں ہوتی بلکہ ممنوع صرف بدعت وہ ہوتی ہے جو سنتِ ثابتہ سے متضاد ہو اور اس سنت کی علت کے ہوتے ہوئے اَمرِ شریعت کو اٹھادے (مزید برآں) بعض احوال میں جب اسباب متغیر ہوجائیں تو بدعت واجب ہوجاتی ہے اور بلند دسترخوان میں یہی بات تو ہے کہ کھانے کی آسانی کے لیے کھانے کو زمین سے بلند کیا جاتا ہے اور اس قسم کے کاموں میں کراہت نہیں ہوتی۔ جن چار باتوں کو جمع کیا گیا کہ یہ بدعت ہیں تو یہ سب برابر بھی نہیں ہیں بلکہ اُشنان (ایک بوٹی جو صفائی کے کام آتی ہے) اچھی چیز ہے کیونکہ اس میں نظافت ہے کیونکہ پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے غسل مستحب ہے اور اُشنان اس نظافت کو مکمل کرتی ہے اور وہ لوگ اس لیے استعمال نہیں کرتے تھے کہ ان کی عادت نہیں تھی یا انہیں حاصل نہیں ہوتی تھی۔ یا وہ نظافت سے زیادہ اہمیت کے کاموں میں مشغول ہوتے تھے بعض اوقات وہ ہاتھ بھی نہیں دھوتے تھے اور ان کے رومال پاؤں کے تلوے ہوتے تھے (یعنی پاؤں کے تلوؤں سے ہاتھ صاف کرلیتے تھے) اور یہ عمل، دھونے کے استحباب کے خلاف نہیں، چھلنی سے مقصود کھانے کو صاف کرنا ہوتا ہے اور یہ جائز ہے جب تک حد سے متجاوز عیاشی کی طرف نہ لے جائے۔ اونچے دسترخوان سے چونکہ کھانا کھانے میں آسانی ہوتی ہے لہٰذا یہ بھی جائز ہے جب تک تکبر اور بڑائی پیدا نہ کرے شکم سیری ان چاروں میں سے زیادہ سخت ہے کیونکہ اس سے خواہشات ابھرتی ہیں اور بدن میں بیماریاں پیدا ہوتی ہیں تو ان چاروں بدعات میں فرق معلوم ہونا چاہے۔‘‘
غزالي، إحياء علوم الدين، 2 : 3
علامہ ابن اثیر جزری حدیثِ عمر ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ (بخاری، رقم : 1906) کے تحت بدعت کی اقسام اور ان کا شرعی مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
7. البدعة بدعتان : بدعة هدًي، و بدعة ضلال، فما کان في خلاف ما أمر اﷲ به و رسوله صلي الله عليه وآله وسلم فهو في حيز الذّم والإنکار، وما کان واقعا تحت عموم ما ندب اﷲ إليه و حضَّ عليه اﷲ أو رسوله فهو في حيز المدح، وما لم يکن له مثال موجود کنوع من الجود والسخاء و فعل المعروف فهو من الأفعال المحمودة، ولا يجوز أن يکون ذلک في خلاف ما ورد الشرع به؛ لأن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قد جعل له في ذلک ثوابا فقال من سنّ سُنة حسنة کان له أجرها و أجر من عمل بها وقال في ضِدّه ومن سنّ سنة سيّئة کان عليه وزرُها ووِزرُ من عمل بها(1) وذلک إذا کان في خلاف ما أمر اﷲ به ورسوله صلي الله عليه وآله وسلم ومن هذا النوع قول عمر رضی الله عنه : نِعمت البدعة هذه(2). لمَّا کانت من أفعال الخير وداخلة في حيز المدح سماها بدعة ومدحها؛ لأن النبي صلي الله عليه وآله وسلم لم يسُنَّها لهم، و إنما صلّاها ليالي ثم ترکها ولم يحافظ عليها، ولا جمع الناس لها، ولا کانت في زمن أبي بکر، وإنما عمر رضی الله عنه جمع الناس عليها و ندبهم إليها، فبهذا سمّاها بدعة، وهي علي الحقيقة سُنَّة، لقوله صلي الله عليه وآله وسلم (عليکم بِسُنَّتي و سنَّة الخلفاء الراشدين من بعدي)(3) وقوله (اقتدوا باللذين من بعدي أبي بکر و عمر)(4) و علي هذا التأويل يحمل الحديث الآخر (کل مُحْدَثة بدعة) إنما يريد ما خالف أصول الشريعة ولم يوافق السُّنَّة(5).
’’بدعت کی دو قسمیں ہیں، بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ. جو کام اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے خلاف ہو وہ مذموم اور ممنوع ہے، اور جو کام کسی ایسے عام حکم کا فرد ہو جس کو اللہ تعاليٰ نے مستحب قرار دیا ہو یا اللہ تعاليٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم پر برانگیختہ کیا ہو اس کام کا کرنا محمود ہے اور جن کاموں کی مثال پہلے موجود نہ ہو جیسے سخاوت کی اقسام اور دوسرے نیک کام، وہ اچھے کام ہیں بشرطیکہ وہ خلاف شرع نہ ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے کاموں پر ثواب کی بشارت دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس شخص نے اچھے کام کی ابتداء کی اس کو اپنا اجر بھی ملے گا اور جو لوگ اس کام کو کریں گے ان کے عمل کا اجر بھی ملے گا اور اس کے برعکس جو برے کام کی ابتداء کرے گا اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے برے کام کی ابتداء کی اس پر اپنی برائی کا وبال بھی ہو گا اور جو اس برائی کو کریں گے ان کا وبال بھی اس پر ہو گا اور یہ اس صورت میں ہے جب وہ کام اللہ تعاليٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے خلاف ہو اور اِسی قسم یعنی بدعتِ حسنہ کے بارے میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ قول ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ ہے پس جب کوئی کام افعالِ خیر میں سے ہو اور مقام مدح میں داخل ہو تو اسے لغوی اعتبار سے بدعت کہا جائے گا مگر اس کی تحسین کی جائے گی کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باجماعت نماز تراویح کو ان کے لئے مسنون قرار نہیں دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند راتیں اس کو پڑھا پھر باجماعت پڑھنا ترک کر دیا اور اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ محافظت فرمائی اور نہ ہی لوگوں کو اس کے لئے جمع کیا، بعد میں نہ ہی یہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور میں باجماعت پڑھی گئی پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اس پر جمع کیا اور ان کو اس کی طرف متوجہ کیا پس اس وجہ سے اس کو بدعت کہا گیا درآں حالیکہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول ’’علیکم بسنّتی و سنۃ الخلفاء الراشدین من بعدی‘‘ اور اس قول’’اقتدوا باللذین من بعدی ابی بکر و عمر‘‘ کی وجہ سے حقیقت میں سنت ہے پس اس تاویل کی وجہ سے حدیث ’’کل محدثۃ بدعۃ‘‘ کو اصول شریعت کی مخالفت اور سنت کی عدم موافقت پر محمول کیا جائے گا۔
1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017
2. نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقه، رقم : 2554
3. ابن ماجه، السنن، 1 : 74، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، رقم : 203
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359
5. دارمي، السنن، 1 : 141، رقم : 514
1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250
1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة،
رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم
: 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب عن الرسول صلي
الله عليه وآله وسلم ، باب مناقب ابي بکر و
عمر، 5 / 609، رقم : 3662
2. ابن ماجه، السنن، باب في فضل اصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 / 37، رقم : 97
3. حاکم، المستدرک، 3 / 79، رقم : 4451
ابن أثير جزري، النهاية في غريب الحديث والأثر1 : 106
سلطان العلماء امام عز الدین عبدالعزیز بن عبد السلام السلمی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ ’’قواعد الاحکام فی اصلاح الانام‘‘ میں بدعت کی پانچ اقسام اور ان کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
8. البدعة فعل مالم يعهد في عصر رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وهي منقسمة إلي بدعة واجبة و بدعة محرمة و بدعة مندوبة و بدعة مکروهة و بدعة مباحة قال والطريق في معرفة ذلک أن تعرض البدعة علي قواعد الشريعة، فان دخلت في قواعد الايجاب فهي واجبة، و إن دخلت في قواعد التحريم فهي محرمة، و إن دخلت في قواعد المندوب فهي مندوبة، و ان دخلت في قواعد المکروه فهي مکروهة، و ان دخلت في قواعد المباح فهي مباحة، و للبدع الواجبة أمثلة منها الاشتغال بعلم النحو الذي يفهم به کلام اﷲ تعالٰي و کلام رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، و ذٰلک واجب لان حفظ الشريعة واجب، ولايتأتيٰ حفظها الا بمعرفة ذٰلک، وما لايتمُّ الواجبُ الابه فهو واجبٌ، الثاني : حِفْظُ غريبِ الکتاب والسنة من اللغة، الثالث : تدوين اصول الدين و اصول الفقه، الرابع : الکلام في الجرح والتعديل، لتمييز الصحيح من السقيم، وقد دَلَّت قواعدُ الشريعة علي أنَّ حِفْظَ الشريعة فرض کفاية فيما زاد علي القَدْرِ المُتَعَيّن ولا يتأتٰي حفظ الشريعة الا بما ذکرناه و للبدع المحرمة امثلة منها مذاهب القدرية والجبرية والمُرجِئَة و المُجَسِّمَة والرد علي هؤلاء من البدع الواجبة وللبدع المندوبة أمثلة منها إحداثَ الرُّبُطِ والمدارسِ و بنائُ القناطر و کل احسانٍ لم يعْهدْ في العصر الاول ومنها صلاة التراويح والکلام في دقائق التصوف و الکلام في الجَدَل ومنها جمع المحافل للاستدلال في المسائل اِنْ قُصِدَ بذلک وجه اﷲ تعالٰي : وللبدع المکروهة أمثلة کزخرفة المساجد و تَزْويقُ المصاحف و أما تلحين القرآن بحيث تتغيّرُ ألفاظُه عن الوضع العربي فالأصحُّ أنه من البدع المُحَرَّمَة وللبدع المباحة امثلةء منها المصافحة عقيب الصبح والعصر ومنها التوسع في اللذيذ من المآکل والمشارب والملابس والمساکن و لبس الطيالسة و توسيع الاکمام وقد يخْتَلَفُ في بعض ذٰلک فيجعله بعض العلماء من البدع المکروهة و يجعله اٰخرون من السنن المفعولة في عهد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فما بعده و ذلک کالاستعاذة في الصلاة والبسملة فيها.
’’بدعت سے مراد وہ فعل ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ کیا گیا ہو، بدعت کی حسبِ ذیل اقسام ہیں۔ واجب، حرام، مستحب، مکروہ اور مباح۔ اس کے جاننے کا طریقہ یہ ہے کہ بدعت کا قواعد شرعیہ سے موازنہ کیا جائے، اگر وہ بدعت قواعد ایجاب کے تحت داخل ہے تو واجب ہے اور اگر قواعدِ تحریم کے تحت داخل ہے تو حرام ہے اور اگر قواعدِ استحباب کے تحت داخل ہے تو مستحب ہے اور اگر کراھت کے قاعدہ کے تحت داخل ہے تومکروہ اور اگر اباحت کے قاعدہ میں داخل ہے تومباح ہے۔ بدعات واجبہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : علم نحو کا پڑھنا جس پر قرآن و حدیث کا سمجھنا موقوف ہے، یہ اس لیے واجب ہے کہ علم شریعت کا حصول واجب ہے اور قرآن و حدیث کے بغیر علم شریعت حاصل نہیں ہو سکتا اور جس چیز پر کوئی واجب موقوف ہو وہ بھی واجب ہوتی ہے۔ دوسری مثال ہے قرآن اور حدیث کے معانی جاننے کیلئے علم لغت کا حاصل کرنا، تیسری مثال ہے دین کے قواعد اور اصول فقہ کو مرتب کرنا چوتھی مثال سندِ حدیث میں جرح اور تعدیل کا علم حاصل کرنا تاکہ صحیح اور ضعیف حدیث میں امتیاز ہو سکے اور قواعدِ شرعیہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اپنی ضروریات سے زیادہ علم شریعت حاصل کرنا فرض کفایہ ہے اور یہ علم مذکور الصدر علوم کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ بدعات محرمہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : قدریہ، جبریہ، مرجیۂ اور مجسمہ کے نظریات اور ان لوگوں پر رد کرنا بدعات واجبہ کی قسم میں داخل ہے۔ بدعاتِ مستحبہ کی بعض مثالیں یہ ہیں سرائے، مدارس اور بلند عمارتیں بنانا اور ہر ایسا اصلاحی اور فلاحی کام جو عہد رسالت میں نہیں تھا (تمام رمضان میں باجماعت) نمازِ تراویح، تصوف کی دقیق ابحاث، بد عقیدہ فرقوں سے مناظرہ اور اس مقصد کیلئے جلسے منعقد کرنا بشرطیکہ اس سے مقصود رضائے الٰہی ہو۔ بدعات مکروھہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : مساجد کی زیب و زینت، (متاخرین فقہاء نے اس کو جائز قرار دیا) مصحف (قرآن) کو مزین کرنا (یہ بھی متاخرین کے نزدیک جائز ہے) اور قرآن کو ایسی سُر سے پڑھنا کہ اس کے الفاظ عربی وضع سے پھر جائیں اور زیادہ درست یہ ہے کہ یہ بدعتِ محرمہ ہے۔ بدعات مباحہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : صبح اور عصر (کی نماز) کے بعد مصافحہ کرنا، کھانے پینے، پہننے اور رہائش کے معاملات میں وسعت اختیار کرنا، سبز چادریں اوڑھنا، کھلی آستینوں کی قمیص پہننا، ان امور میں اختلاف ہے۔ بعض علماء نے ان امور کو بدعاتِ مکروھۃ میں داخل کیا ہے اور بعض علماء نے ان کو عہدِ رسالت اور عہد صحابہ کی سنتوں میں داخل کیا ہے جیسے نماز میں تعوُّذ و تسمیہ جھراً پڑھنے میں سنت ہونے نہ ہونے کا اختلاف ہے۔‘‘
1. عزالدين، قواعد الأحکام في إصلاح الأنام، 2 : 337
2. نووي، تهذيب الأسماء واللغات، 3 : 21
3. سيوطي، شرح سنن ابن ماجه، 1 : 6
4. ابن حجر مکي، الفتاوي الحديثيه : 130
امام ابو زکریا محی الدین بن شرف نووی رحمۃ اللہ علیہ بدعت کی تعریف اور اس کی اقسام بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’تہذیب الاسماء واللغات‘‘ میں فرماتے ہیں :
9. البدعة في الشرع هي احداث مالم يکن في عهد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وهي منقسمة الي حسنة و قبيحة وقال الشيخ الامام المجمع علي امامته و جلالته و تمکنه في انواع العلوم و براعته ابو محمد عبدالعزيز بن عبدالسلام في آخر ’’کتاب القواعد‘‘ البدعة منقسمة إلي واجبة و محرمة و مندوبة و مکروهة و مباحة قال والطريق في ذلک أن تعرض البدعة علي قواعد الشريعة فان دخلت في قواعد الايجاب فهي واجبة و إن دخلت في قواعد التحريم فهي محرمة و إن دخلت في قواعد المندوب فهي مندوبه و ان دخلت في قواعد المکروه فهي مکروهة و ان دخلت في قواعد المباح فهي مباحة و للبدع الواجبة أمثلة منها الإشتغال بعلم النحو الذي يفهم به کلام اﷲ تعالٰي و کلام رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و ذٰلک واجب لان حفظ الشريعة واجب ولايتاتي حفظها اِلَّا بمعرفة بذٰلک وما لايتم الواجب الا به فهو واجب، الثاني حفظ غريب الکتاب والسنة من اللغة، الثالث تدوين اصول الدين و اصول الفقه، الرابع الکلام في الجرح والتعديل لتمييز الصحيح من السقيم وقد دلت قواعد الشريعة علي أن حفظ الشريعة فرض کفاية فيما زاد علي المتعين ولا يتأتي ذٰلک الا بما ذکرناه و للبدع المحرمة أمثلة منها مذاهب القدرية والجبرية والمُرجئة و المُجَسِّمَة والرد علي هؤلاء من البدع الواجبة وللبدع المندوبة أمثلة منها احداث الرُبطِ والمدارس و بنائُ القناطر و کل احسان لم يعْهدْ في العصر الاول ومنها صلاة التراويح والکلام في دقائق التصوف و الکلام في الجَدَل ومنها جمع المحافل للاستدلال في المسائل اِنْ قُصِدَ بذلک وجه اﷲ تعالٰي : وللبدع المکروهة امثلة کزخرفة المساجد و تَزْويقُ المصاحف و أما تلحين القرآن بحيث تتغيّرُ ألفاظُه عن الوضع العربي فالأصحّ أنه من البدع المحرّمة وللبدع المباحة أمثلة منها المصافحة عقيب الصبح والعصر ومنها التوسع في اللذيذ من المآکل والمشارب والملابس والمساکن و لبس الطيالسة و توسيع الاکمام وقد يختلف في بعض ذٰلک فيجعله بعض العلماء من البدع المکروهة و يجعله اٰخرون من السنن المفعولة في عهد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فما بعده و ذلک کالاستعاذة في الصلاة والبسملة فيها.
’’شریعت میں بدعت سے مراد وہ امور ہیں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ تھے، بدعت کو بدعت حسنہ اور بدعت قبیحہ میں تقسیم کیا گیا ہے اور شیخ عبدالعزیز بن عبدالسلام ’’کتاب القواعد‘‘ میں فرماتے ہیں۔ بدعت کو بدعت واجبۃ، محرمۃ، مندوبۃ، مکروھۃ اور مباحۃ میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اس کے جاننے کا طریقہ یہ ہے کہ بدعت کا قواعدِ شرعیہ سے موازنہ کیا جائے، اگر وہ بدعت قواعد ایجاب کے تحت داخل ہے تو واجب ہے اور اگر قواعدِ تحریم کے تحت داخل ہے تو حرام ہے اور اگر قواعدِ استحباب کے تحت داخل ہے تو مستحب ہے اور اگر کراھت کے قاعدہ کے تحت داخل ہے تو مکروہ اور اگر اباحت کے قاعدہ میں داخل ہے تومباح ہے۔ بدعات واجبہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : علم نحو کا پڑھنا جس پر قرآن اور حدیث کا سمجھنا موقوف ہے، یہ اس لیے واجب ہے کہ علم شریعت کا حصول واجب ہے اور قرآن اور حدیث کے بغیر علم شریعت حاصل نہیں ہو سکتا اور جس چیز پر کوئی واجب موقوف ہو وہ بھی واجب ہوتی ہے۔ دوسری مثال قرآن و حدیث کے معانی جاننے کیلئے علم لغت کا حاصل کرنا ہے، تیسری مثال دین کے قواعد اور اصول فقہ کو مرتب کرنا ہے جبکہ چوتھی مثال سندِ حدیث میں جرح اور تعدیل کا علم حاصل کرنا تاکہ صحیح اور ضعیف حدیث میں امتیا زہو سکے اور قواعدِ شرعیہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اپنی ضروریات سے زیادہ علم شریعت حاصل کرنا فرض کفایہ ہے اور یہ علم مذکور الصدر علوم کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ بدعات محرمہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : قدریہ، جبریہ، مرجیۂ اور مجسمہ کے نظریات اور ان لوگوں پر رد کرنا بدعات واجبہ کی قسم میں داخل ہے۔ بدعاتِ مستحبہ کی بعض مثالیں یہ ہیں سرائے، مدارس اور بلند عمارتیں بنانا اور ہر ایسا اصلاحی اور فلاحی کام جو عہد رسالت میں نہیں تھا (تمام رمضان میں) باجماعت تراویح، تصوف کی دقیق ابحاث، بد عقیدہ فرقوں سے مناظرہ اور اس مقصد کیلئے جلسے منعقد کرنا بشرطیکہ اس سے مقصود رضائے الٰہی ہو۔ بدعات مکروھہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : مساجد کی زیب و زینت، (متاخرین فقہاء نے اس کو جائز قرار دیا) مصحف (قرآن) کو مزین کرنا (یہ بھی متاخرین کے نزدیک جائز ہے) اور قرآن کو ایسی سر سے پڑھنا کہ اس کے الفاظ عربی وضع سے پھر جائیں اور زیادہ اصح یہ ہے کہ یہ بدعت محرمہ ہے۔ بدعات مباحہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : صبح اور عصر کی نماز کے بعد مصافحہ کرنا، کھانے پینے، پہننے اور رہائش کے معاملات میں وسعت اختیار کرنا، سبز چادریں اوڑھنا، کھلی آستینوں کی قمیض پہننا، ان امور میں اختلاف ہے۔ بعض علماء نے ان امور کو بدعاتِ مکروھۃ میں داخل کیا ہے اور بعض علماء نے ان کو عہدِ رسالت اور عہد صحابہ کی سنتوں میں داخل کیا ہے جیسے نماز میں تعوُّذ و تسمیہ جھراً پڑھنے میں سنت ہونے نہ ہونے کا اختلاف ہے۔‘‘
1. نووي، تهذيب الأسماء واللغات، 3 : 22
2. نووي، شرح صحيح مسلم، 1 : 286
3. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 51
4. صالحي، سبل الهدي والرشاد، 1 : 370
اِمام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح صحیح مسلم میں بدعت کی اقسام اور پھر ان میں سے ہر قسم کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
10. قوله صلي الله عليه وآله وسلم و ’’کل بدعة ضلالة‘‘(1) هذا عام مخصوص والمراد غالب البدع قال أهل اللغة هي کل شيء عمل مثال سابق قال العلماء البدعة خمسة أقسام واجبة و مندوبة و محرمة و مکروهة و مباحة فمن الواجبة نظم أدلة المتکلمين للرد علي الملاحدة والمبتدعين و شبه ذلک ومن المندوبة تصنيف کتب العلم و بناء المدارس والربط و غير ذلک و من المباح التبسط في ألوان الأطعمة و غير ذلک والحرام والمکروه ظاهران وقد أوضحت المسألة بأدلتها المبسوطة في تهذيب الأسماء واللغات فإذا عرف ما ذکرته علم أن الحديث من العام المخصوص و کذا ما أشبهه من الأحاديث الواردة و يؤيد ما قلناه قول عمر ابن الخطاب رضي الله عنه في التراويح نعمت البدعة ولا يمنع من کون الحديث عاما مخصوصا قوله کل بدعة مؤکدا بکل بل يدخله التخصيص مع ذلک کقوله تعالي تدمر کل شيء (الاحقاف، 42 : 52) (2)
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان کہ ’’ہر بدعت ضلالت ہے‘‘ عام مخصوص ہے عام طور پر اس سے مراد بدعتِ سيّئہ لیا جاتا ہے اہل لغت نے کہا ہے کہ ہر وہ چیز جس پر مثال سابق کے بغیر عمل کیا جائے وہ بدعت ہے۔ علماء نے بدعت کی پانچ اقسام بدعت واجبہ، مندوبہ، محرمہ، مکروہۃ اور مباحہ بیان کی ہیں بدعت واجبہ کی مثال متکلمین کے دلائل کو ملحدین، مبتدعین اور اس جیسے دیگر امور کے رد کے لئے استعمال کرنا ہے اور بدعت مستحبہ کی مثال جیسے کتب تصنیف کرنا، مدارس، سرائے اور اس جیسی دیگر چیزیں تعمیر کرنا۔ بدعت مباح کی مثال یہ ہے کہ مختلف انواع کے کھانے اور اس جیسی چیزوں کو اپنانا ہے جبکہ بدعت حرام اور مکروہ واضح ہیں اور اس مسئلہ کو تفصیلی دلائل کے ساتھ میں نے ’’تہذیب الاسماء واللغات‘‘ میں واضح کردیا ہے۔ جو کچھ میں نے بیان کیا ہے اگر اس کی پہچان ہوجائے گی تو پھر یہ سمجھنا آسان ہے کہ یہ حدیث اور دیگر ایسی احادیث جو ان سے مشابہت رکھتی ہیں عام مخصوص میں سے تھیں اور جو ہم نے کہا اس کی تائید حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قول ’’نعمت البدعۃ‘‘ کرتا ہے اور یہ بات حدیث کو عام مخصوص کے قاعدے سے خارج نہیں کرتی۔ قول ’’کل بدعۃ‘‘ لفظ ’’کل ‘‘ کے ساتھ مؤکد ہے لیکن اس کے باوجود اس میں تخصیص شامل ہے جیسا کہ اللہ تعاليٰ کے ارشاد تدمر کل شئ (الاحقاف، 42 : 52) کہ (وہ ہر چیز کو اُکھاڑ پھینکے گی) میں تخصیص شامل ہے۔
1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة،
رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم
: 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126
5. ابن حبان، الصحيح، 1 : 178، رقم : 5
6. دارمي، السنن، 1 : 57، رقم : 95
نووي، شرح صحيح مسلم، 6 : 154
معروف مالکی فقیہ اِمام شہاب الدین احمد بن ادریس القرافی تفصیل کے ساتھ بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب الفروق میں رقمطراز ہیں :
11. البدعة خمسة اقسام (القسم الأول) واجب و هو ما تتناوله قواعد الوجوب وادلته من الشرع کتدوين القرآن والشرائع اذا خيف عليها الضياع فان التبليغ لمن بعدنا من القرون واجب اجماعا و أهمال ذلک حرام اجماعا فمثل هذا النوع لا ينبغي ان يختلف في وجوبه (القسم الثاني) محرم و هو بدعة تناولتها قواعد التحريم و ادلته من الشريعة کالمکوس والمحدثات من المظالم المنافية لقواعد الشريعة کتقديم الجهال علي العلماء و تولية المناصب الشرعية من لا يصلح لها بطريق التوارث و جعل المستند لذلک کون المنصب کان لابيه و هو في نفسه ليس باهل (القسم الثالث) من البدع مندوب اليه و هو ما تناولته قواعد الندب وادلته من الشريعة کصلاة التراويح و اقامة صور الائمة والقضاء وولاة الامور علي خلاف ما کان عليه أمر الصحابة بسبب ان المصالح والمقاصد الشرعية لا تحصل الا بعظمة الولاة في نفوس الناس و کان الناس في زمن الصحابة معظم تعظيمهم انما هو بالدين و سابق الهجرة ثم اختل النظام و ذهب ذلک القرن وحدث قرن آخر لا يعظمون الا بالصور فيتعين تفخيم الصور حتي تحصل المصالح و قد کان عمر يا کل خبز الشعير والملح و يفرض لعامله نصف شاة کل يوم لعلمه بان الحالة التي هو عليها لوعملها غيره لهان في نفوس الناس ولم يحترموه و تجاسروا عليه بالمخالفة فاحتاج الي ان يضع غيره في صورة اخري لحفظ النظام ولذلک لما قدم الشام ووجد معاوية بن أبي سفيان قد اتخذ الحجاب و أرخي الحجاب واتخذ المراکب النفيسة والثياب الهائلة العلية و سلک ما يسلکه الملوک فسأله عن ذلک فقال انا بأرض نحن فيها محتاجون لهذا فقال له لا أمرک ولا انهاک و معناه أنت اعلم بحالک هل انت محتاج الي هذا فيکون حسنا أو غير محتاج اليه فدل ذلک من عمر وغيره علي ان احوال الائمة و ولاة الامور تختلف باختلاف الاعصار والامصار والقرون والاحوال فلذلک يحتاجون الي تجديد زخارف و سياسات لم تکن قديما و ربما وجبت في بعض الاحوال (القسم الرابع) بدع مکروهة و هي ما تناولته ادلة الکراهة من الشريعة وقواعدها کتخصيص الايام الفاضلة او غيرها بنوع من العبادات و من ذلک في الصحيح ما خرجه مسلم وغيره ان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم نهي عن تخصيص يوم الجمعة بصيام أوليلته بقيام ومن هذا الباب الزيادة في المندوبات المحدودات کما ورد في التسبيح عقيب الصلوات ثلاثة وثلاثين فيفعل مائة وورد صاع في زکاة الفطر فيجعل عشرة آصع بسبب ان الزيادة فيها اظهار الاستظهار علي الشارع وقلة ادب معه بل شان العظماء اذا حددوا شيئا وقف عنده والخروج عنه قلة ادب والزيادة في الواجب أو عليه أشد في المنع لانه يؤدي الا ان يعتقد ان الواجب هو الاصل والمزيد عليه ولذلک نهي مالک عن ايصال ست من شوال لئلا يعتقد انها من رمضان و خرج ابو داود في سننه ان رجلا دخل الي مسجد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فصلي الفرض وقام ليصلي رکعتين فقال له عمر بن الخطاب اجلس حتي تفصل بين فرضک و نفلک فبهذا هلک من کان قبلنا فقال له عليه السلام أصاب اﷲ بک يا ابن الخطاب يريد عمر ان من قبلنا و صلوا النوافل بالفرائض فاعتقدوا الجميع واجبا و ذلک تغيير للشرائع و هو حرام اجماعا (القسم الخامس) البدع المباحة و هي ما تناولته ادلة الاباحة وقواعدها من الشريعة کاتخاذ المناخل للدقيق ففي الاثار اول شيء احدثه الناس بعد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم اتخاذ المناخل للدقيق لان تليين العيش و اصلاحه من المباحات فوسائله مباحة.
’’بدعت کی پانچ اقسام ہیں۔ ان میں سے پہلی قسم واجب ہے اور یہ وہ بدعت ہے جو قواعد وجوب پر مشتمل ہو اور اس کی دلیل شریعت میں موجود ہو جیسے ضائع ہونے کے ڈر سے قرآن مجید اور شریعت کی تدوین۔ بے شک ہمارے بعد آنے والوں کے لیے تبلیغ کرنا اجماعاً واجب ہے اور اسے چھوڑ دینا اجماعا حرام ہے۔ اس طرح کی چیزوں کے وجوب میں اختلاف کرنا درست نہیں ہے۔ دوسری قسم بدعت محرومہ ہے۔ یہ وہ بدعت ہے جس کی دلیل شریعت میں حرام کے قواعد کے مطابق ہو۔ جیسے ٹیکس اور ایسے نئے ظالمانہ امور جو کہ قواعد شریعت کے منافی ہوں۔ جیسے جھلاء کو علماء پر فوقیت دینا اور شریعت کے کسی ایسے عہدے پر فائز کرنا جو وراثتی طریقے سے اس کے لیے درست نہ ہو اور اس منصب کو اس شخص کے لیے درست قرار دیا جائے جو کہ اس کے باب کے لیے تھا اور وہ بذات خود اس منصب کا اہل نہ ہو اور تیسری قسم بدعت مستحبہ ہے اور یہ وہ بدعت ہے جو قواعد استحباب پر مشتمل ہو اور شریعت میں اس کی حمایت میں دلائل موجود ہوں جیسا کہ نماز تراویح اور امر صحابہ کے خلاف (مصلحت و خیر کے پیش نظر) حکمرانان وقت، قاضیوں اور اہم منصب داروں کی تصویروں کو آویزاں کرنا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بے شمار مصالح اور شرعی مقاصد لوگوں کے دلوں میں حکمرانوں کی عظمت ڈالے بغیر حاصل نہیں ہوسکتے صحابہ کے زمانے میں صحابہ کے دین اور سابق الھجرہ ہونے کی وجہ سے لوگ ان کی تعظیم کرتے تھے پھر نظام درہم برہم ہوگیا اور وہ زمانہ گزرگیا اور نیا زمانہ آگیا اس زمانہ میں لوگ تصویروں کے بغیر کسی کی عظمت نہیں کرتے تھے لہٰذا تصویروں کی حیثیت کو تسلیم کرلیا گیا۔ یہاں تک کہ متعلقہ مصلحتیں حاصل ہوگئیں اور اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود تو جو کی روٹی اور نمک کھایا کرتے تھے جبکہ اپنے عاملین کے لئے آدھی بکری روزانہ مقرر کر رکھی تھی کیونکہ اگر دوسرے عاملین بھی اسی طریقہ پر عمل کرتے جس پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ خود تھے تو وہ عوام الناس کی نظروں میں گرجاتے اور لوگ ان کا احترام نہ کرتے اور ان کی مخالفت پر اتر آتے لہٰذا یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ کسی دوسرے کو کسی اور شکل میں نظام کی حفاظت کے لیے تیار کیا جائے اور اسی طرح جب آپ شام گئے تو آپ نے معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابی سفیان کو اس حالت میں دیکھا کہ وہ پردہ کئے ہوئے اور پردہ لٹکائے ہوئے تھے اور ان کے پاس خوبصورت سواری اور اعليٰ رعب دار کپڑے تھے اور آپ اس طرح پیش آتے جس طرح بادشاہ پیش آتے تھے پھر اس کے بارے میں ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ہم ایسے علاقے میں ہیں جہاں ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ لہٰذا سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ نہ میں تمہیں اس کا حکم دیتا ہوں اور نہ منع کرتا ہوں اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنے احوال کو بہتر جانتے ہو کہ تمہیں اس کی ضرورت ہے کہ نہیں اور اگر ضرورت ہے تو یہ بہتر ہے۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دوسروں کے نظائر (Precedents) سے یہ دلیل ملتی ہے کہ ائمہ کے احوال اور امور سلطنت، زمانے، شہروں، صدیوں کے اختلاف سے مختلف ہوتے ہیں۔ اس طرح انہیں حسن معاملات اور حسن سیاسیات میں تنوع کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ یہ احوال پرانے نہ ہوجائیں اور بعض اوقات یہ مصلحتیں واجب ہوجاتی ہیں اور چوتھی قسم بدعت مکروہ کی ہے اور یہ وہ ہے جو شریعت اور اس کے قواعد میں سے دلائل کراہت پر مشتمل ہو جیسے بعض فضیلت والے اور بابرکت ایام کو عبادات کے لئے مخصوص کرنا۔ اس کی مثال وہ روایت ہے جسے امام مسلم اور دیگر نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمعہ کے دن روزہ رکھنے اور اسی رات کو قیام کے لئے مختص کرنے کو منع کیا ہے۔ اور اسی طرح اس باب میں محدود مندوبات کو زیادہ کرنا جیسے نمازوں کے بعد تینتیس بار تسبیح کرنا آیا ہے پھر ان کو سو بار کیا جائے، اور اسی طرح زکوٰۃ فطر کے لیے ایک صاع دینا آیا ہے پھر اسے دس صاعات بنا دیا جائے یہ اس وجہ سے ہے کہ ان امور میں زیادتی شارع پر جرات اور اس کی بے ادبی ہے۔ پس عظیم لوگوں کی شان یہ ہے کہ اگر انہیں کسی امر سے روکا جائے تو وہ رک جائیں کیونکہ اس حکم سے سرتابی سوئے ادب ہے۔ لہٰذا واجب میں زیادتی یا واجب پر زیادتی سخت منع ہے۔ کیونکہ اس طرح یہ اعتقاد پنپتا ہے کہ واجب اور اس پر زیادتی دونوں واجب ہیں۔ جیسا کہ امام مالک نے شوال کے چھ (روزوں کو) ملانے سے منع کیا ہے۔ کہیں ایسا نہ سمجھا جائے کہ یہ بھی رمضان میں سے ہیں اسی طرح امام ابوداؤد نے اپنی سنن میں ذکر کیا ہے کہ ایک آدمی مسجد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں داخل ہوا پھر اس نے فرض نماز ادا کی اور ساتھ ہی کھڑا ہو گیا تاکہ دو رکعتیں (نفل) پڑھے۔ تو اسے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بیٹھ جاؤ۔ یہاں تک کہ تو اپنے فرض اور نفل میں فرق کرے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اسی وجہ سے ہم سے پہلے لوگ ہلاک ہو گئے تو پھر اسے آقا علیہ السلام نے فرمایا اے ابن خطاب اللہ تعاليٰ نے تجھے درست پایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مراد یہ تھی کہ ہم سے پہلے لوگوں نے نوافل کو فرائض کے ساتھ ملا دیا انہوں نے یہ یقین کر لیا کہ یہ تمام واجبات میں سے ہیں اور یہ شریعت میں تغیر ہے جو کہ اجماعاً حرام ہے اور پانچویں قسم بدعت مباح ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی چیز کی دلیل شریعت کے قواعد و ضوابط میں اباحت کے اصولوں کے مطابق ہو جیسا کہ آٹا چھاننے کے لیے چھلنی کا استعمال کرنا اور آثار میں پہلی چیز جو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ایجاد کی وہ تھی ’’اتخاذ المناخل للدقیق‘‘ یعنی آٹا چھاننے کے لئے چھلنی کا استعمال کیونکہ زندگی میں لوگوں کی طبیعت میں نرمی ہونا اور اس کی اصلاح کرنا مباحات میں سے ہے اور اس کے تمام وسائل بھی مباح میں سے ہیں۔‘‘
القرافي، انوار البروق في انوار الفروق، 4 : 202 - 205
علامہ جمال الدین ابن منظور افریقی اپنی معروف کتاب ’’لسان العرب‘‘ میں علامہ ابن اثیر جزری کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ حدیث پاک ’’کل محدثۃ بدعۃ‘‘ سے مراد صرف وہ کام ہے جو شریعت مطہرہ کے خلاف ہو اور وہ بدعت جو شریعت سے متعارض نہ ہو وہ جائز ہے۔ لکھتے ہیں :
12. البدعة : الحدث وما ابتدع من الدين بعد الإکمال. ابن السّکيت : البدعة کل محدثة و في حديث عمر رضي الله عنه في قيام رمضان ’’نعمتِ البدعة هذه‘‘(1) ابن الأثير : البدعة بدعتان : بدعة هدًي، و بدعة ضلال، فما کان في خلاف ما أمر اﷲ به و رسوله صلي الله عليه وآله وسلم فهو في حيز الذّم والإنکار، وما کان واقعا تحت عموم ما ندب اﷲ إليه و حضَّ عليه اﷲ أو رسوله فهو في حيّز المدح، وما لم يکن له مثال موجود کنوع من الجود والسّخاء و فعل المعروف فهو من الأفعال المحمودة، ولا يجوز أن يکون ذلک في خلاف ما ورد الشرع به؛ لأن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قد جعل له في ذلک ثوابا فقال : (من سنّ سُنة حسنة کان له أجرها و أجر من عمل بها) وقال في ضِدّه : (من سنّ سنة سيّئة کان عليه وزرُها ووِزرُ من عمل بها)(2) وذلک إذا کان في خلاف ما أمر اﷲ به ورسوله صلي الله عليه وآله وسلم ، قَالَ : ومن هذا النوع قول عمر رضی الله عنه : نِعمت البدعة هذه، لمَّا کانت من أفعال الخير وداخلة في حيز المدح سماها بدعة ومدحها لأن النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، لم يسُنَّها لهم، و إنما صلَّاها ليالي ثم ترکها ولم يحافظ عليها ولا جمع الناس لها ولا کانت في زمن أبي بکر رضی الله عنه، وإنما عمر رضی الله عنه جمع الناس عليها و ندبهم إليها، فبهذا سمّاها بدعة، وهي علي الحقيقة سنَّة، لقوله صلي الله عليه وآله وسلم (عليکم بسنَّتي و سنَّة الخلفاء الراشدين من بعدي)(3) وقوله صلي الله عليه وآله وسلم : (اقتدوا باللذين من بعدي أبي بکر و عمر)(4) و علي هذا التأويل يحمل الحديث الآخر (کل محدثة بدعة) إنما يريد ما خالف أصول الشريعة ولم يوافق السُّنَّة. (5)
’’بدعت سے مراد احداث ہے یا ہر وہ کام جو اکمالِ دین کے بعد کسی دینی مصلحت کے پیش نظر شروع کیا گیا ہو۔ ابن سکیت کہتے ہیں کہ ہر نئی چیز بدعت ہے جیسا کہ قیام رمضان کے حوالے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے نعمت البدعۃ ہذہ. ابن اثیر کہتے ہیں بدعت کی دو قسمیں ہیں، بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ. جو کام اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے خلاف ہو وہ مذموم اور ممنوع ہے، اور جو کام کسی ایسے عام حکم کا فرد ہو جس کو اللہ تعاليٰ نے مستحب قرار دیا ہو یا اللہ تعاليٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم پر برانگیختہ کیا ہو تو یہ اَمرِمحمود ہے اور جن کاموں کی مثال پہلے موجود نہ ہو جیسے سخاوت کی اقسام اور دوسرے نیک کام، وہ اچھے کام ہیں بشرطیکہ وہ خلاف شرع نہ ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے کاموں پر ثواب کی بشارت دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس شخص نے اچھے کام کی ابتداء کی اس کو اپنا اجر بھی ملے گا اور جو لوگ اس کام کو کریں گے ان کے عمل کا اجر بھی ملے گا اور اس کے برعکس یہ بھی فرمایا : جس شخص نے برے کام کی ابتداء کی اس پر اپنی برائی کا وبال بھی ہو گا اور جو اس برائی کو کریں گے ان کا وبال بھی اس پر ہو گا اور یہ اس وقت ہے جب وہ کام اللہ تعاليٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے خلاف ہو۔ اور اِسی قسم یعنی بدعتِ حسنہ میں سے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ قول ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ ہے پس جب کوئی کام افعالِ خیر میں سے ہو اور مقام مدح میں داخل ہو تو اسے لغوی اعتبار سے تو بدعت کہاجائے گا مگر اس کی تحسین کی جائے گی کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس (باجماعت نماز تراویح کے) عمل کو ان کے لئے مسنون قرار نہیں دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند راتیں اس کو پڑھا پھر (باجماعت پڑھنا) ترک کردیا اور (بعد میں) اس پر محافظت نہ فرمائی اور نہ ہی لوگوں کو اس کے لئے جمع کیا بعد ازاں نہ ہی یہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور میں (باجماعت) پڑھی گئی پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اس پر جمع کیا اور ان کو اس کی طرف متوجہ کیا پس اس وجہ سے اس کو بدعت کہا گیا درآں حالیکہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول ’’علیکم بسنّتی و سنۃ الخلفاء الراشدین من بعدی‘‘ اور اس قول’’اقتدوا باللذین من بعدی ابی بکر و عمر‘‘ کی وجہ سے حقیقت میں سنت ہے پس اس تاویل کی وجہ سے حدیث ’’کل محدثۃ بدعۃ‘‘ کو اصول شریعت کی مخالفت اور سنت کی عدم موافقت پر محمول کیا جائے گا۔‘‘
1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250
1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017
2. نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقه، رقم : 2554
3. ابن ماجه، السنن، 1 : 74، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، رقم : 203
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359
1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة،
رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم
: 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب عن الرسول صلي
الله عليه وآله وسلم ، باب مناقب ابي بکر و
عمر، 5 / 609، رقم : 3662
2. ابن ماجه، السنن، باب في فضل اصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 / 37، رقم : 97
3. حاکم، المستدرک، 3 / 79، رقم : 4451
4. بيهقي، السنن الکبريٰ، 5 / 212، رقم : 9836
ابن منظور افريقي، لسان العرب، 8 : 6
امام ابن تیمیہ اپنی کتاب ’’منہاج السنۃ‘‘ میں لغوی بدعت اور شرعی بدعت کو واضح کرتے ہوئے ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ کے ذیل میں بیان کرتے ہیں۔
13. إنما سماها بدعة لأن ما فعل ابتداء، بدعة لغة، وليس ذلک بدعة شرعية، فإن البدعة الشرعية التي هي ضلالة ما فعل بغير دليل شرعي
’’اِسے بدعت اِس لیے کہا گیا کہ یہ عمل اس سے پہلے اِس انداز میں نہیں ہوا تھا لہٰذا یہ بدعتِ لغوی ہے بدعتِ شرعی نہیں ہے کیونکہ بدعتِ شرعی وہ گمراہی ہوتی ہے جو دلیل شرعی کے بغیر سر انجام دی جائے۔‘‘
ابن تيميه، منهاج السنة، 4 : 224
علامہ ابن تیمیہ ’’بدعت حسنہ‘‘ اور ’’بدعت ضلالۃ‘‘ کے مفہوم کو مزید واضح کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں :
14. ومن هنا يعرف ضلال من ابتدع طريقاً أو اعتقاداً زعم أن الإيمان لا يتم إلا به مع العلم بأن الرسول صلي الله عليه وآله وسلم لم يذکره وما خالف النصوص فهو بدعة باتفاق المسلمين وما لم يعلم أنه خالفها فقد لا يسمي بدعة قال الشافعي رحمه اﷲ البدعة بدعتان بدعة خالفت کتابا و سنة و إجماعا و أثرا عن بعض أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فهذه بدعه ضلاله و بدعه لم تخالف شيئا من ذلک فهذه قد تکون حسنة لقول عمر نعمت البدعة هذه (1) هذا الکلام أو نحوه رواه البيهقي بإسناده الصحيح في المدخل(2)
’’اور اس کلام سے لفظ ’’ضلال‘‘ کا مفہوم سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کسی شخص نے یہ جانتے ہوئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بیان نہیں کیا کسی طریقے یا عقیدے کی ابتداء اس گمان سے کی کہ بے شک ایمان اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتا تو یہ ’’ضلالۃ‘‘ ہے اور جو چیز نصوص کے مخالف ہو وہ مسلمانوں کے اتفاق رائے کے ساتھ بدعت ہے۔ اور جس چیز کے بارے یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے کتاب و سنت کی مخالفت کی ہے ایسی چیز کو بدعت کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ اور امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ نے بدعت کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ ایک وہ بدعت جو قرآن و سنت، اجماع اور بعض اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال کے خلاف ہو تو وہ بدعت ضلالہ ہے۔ اور جو بدعت ان تمام چیزوں (یعنی قرآن و سنت، اجماع اور اثر صحابہ) میں سے کسی کے مخالف نہ ہو تو وہی بدعت حسنہ ہے۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ یہ یا اس جیسا دوسرا بیان اسے امام بیہقی نے اپنی صحیح اسناد کے ساتھ ’’المدخل‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250
1. ابن تيمية، کتب ورسائل و فتاوي ابن تيمية في الفقه، 20 : 16
حافظ عماد الدین ابوالفداء اسماعیل بن کثیر اپنی تفسیر ’’تفسیر القرآن العظیم‘‘ میں بدعت کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں
15. والبدعة علي قسمين تارة تکون بدعة شرعية کقوله (فإن کل محدثة بدعة و کل بدعة ضلالة) و تارة تکون بدعة لغوية کقول أمير المؤمنين عمر بن الخطاب عن جمعه إيّاهم علي صلاة التراويح واستمرارهم : نعمت البدعة هذه
’’بدعت کی دو قسمیں ہیں بعض اوقات یہ بدعت شرعیۃ ہوتی ہے جیسا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’فان کل محدثۃ بدعۃ و کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ اور بعض اوقات یہ بدعت لغویہ ہوتی ہے جیسا کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق کا لوگوں کو نماز تراویح پر جمع کرتے اور دوام کی ترغیب دیتے وقت فرمان ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ ہے۔‘‘
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 161
علامہ ابو اسحاق شاطبی اپنی معروف کتاب ’’الاعتصام‘‘ میں بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
16. هذا الباب يُضْطَرُّ إِلي الکلام فيه عند النظر فيما هو بدعة وما ليس ببدعة فإن کثيرًا من الناس عدوا اکثر المصالح المرسلة بدعاً و نسبوها إلي الصحابة و التابعين و جعلوها حجة فيما ذهبوا إليه من اختراع العبادات وقوم جعلوا البدع تنقسم بأقسام أحکام الشرعية، فقالوا : إن منها ما هو واجب و مندوب، وعدوا من الواجب کتب المصحف وغيره، ومن المندوب الإجتماع في قيام رمضان علي قارئ واحد. و أيضا فإن المصالح المرسلة يرجع معناها إلي إعتبار المناسب الذي لا يشهد له أصل معين فليس له علي هذا شاهد شرعيّ علي الخصوص، ولا کونه قياساً بحيث إذا عرض علي العقول تلقته بالقبول. وهذا بعينه موجود في البدع المستحسنة، فإنها راجعة إلي أمور في الدين مصلحية. في زعم واضعيها. في الشرع علي الخصوص. وإذا ثبت هذا فإن کان إعتبار المصالح المرسلة حقا فإعتبار البدع المستحسنه حق لأنهما يجريان من واد واحد. وإن لم يکن إعتبار البدع حقا، لم يصح إعتبار المصالح المرسلة.
’’اس باب ميں یہ بحث کرنا ضروری ہے کہ کیا چیز بدعت ہے اور کیا چیز بدعت نہیں ہے کیونکہ زیادہ تر لوگوں نے بہت سی مصالح مرسلہ کو بدعت قرار دیا ہے اور ان بدعات کو صحابہ کرام اور تابعین عظام کی طرف منسوب کیا ہے اور ان سے اپنی من گھڑت عبادات پر استدلال کیا ہے۔ اور ایک قوم نے بدعات کی احکام شرعیہ کے مطابق تقسیم کی ہے اور انہوں نے کہا کہ بعض بدعات واجب ہیں اور بعض مستحب ہیں، انہوں نے بدعات واجبہ میں قرآن کریم کی کتابت کو شمار کیا ہے اور بدعات مستحبہ میں ایک امام کے ساتھ تراویح کے اجتماع کو شامل کیا ہے۔ مصالح مرسلہ کا رجوع اس اعتبار مناسب کی طرف ہوتا ہے جس پر کوئی اصل معین شاہد نہیں ہوتی اس لحاظ سے اس پر کوئی دلیل شرعی بالخصوص نہیں ہوتی اور نہ وہ کسی ایسے قیاس سے ثابت ہے کہ جب اسے عقل پر پیش کیا جائے تو وہ اسے قبول کرے اور یہ چیز بعینہ بدعات حسنہ میں بھی پائی جاتی ہے کیونکہ بدعات حسنہ کے ایجاد کرنے والوں کے نزدیک ان کی بنیاد دین اور بالخصوص شریعت کی کسی مصلحت پر ہوتی ہے اور جب یہ بات ثابت ہو گئی تو مصالح مرسلہ اور بدعات حسنہ دونوں کا مآل ایک ہے اور دونوں برحق ہیں اور اگر بدعات حسنہ کا اعتبار صحیح نہ ہو تو مصالح مرسلہ کا اعتبار بھی صحیح نہیں ہو گا۔‘‘
شاطبی، الإعتصام، 2 : 111
علامہ شاطبی ’’بدعت حسنہ‘‘ کے جواز پر دلائل دیتے ہوئے مزید فرماتے ہیں :
17. أن أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم اتفقوا علي جمع المصحف وليس تَمَّ نص علي جمعه وکتبه أيضا. . بل قد قال بعضهم : کيف نفعل شيئاً لم يفعله رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم؟ فروي عن زيد بن ثابت رضي الله عنه قال : أرسل إِليّ أبوبکر رضي الله عنه مقتلَ (أهل) اليمامة، و إِذا عنده عمر رضي الله عنه، قال أبوبکر : (إن عمر أتاني فقال) : إِن القتل قد استحرّ بقراءِ القرآن يوم اليمامة، و إِني أخشي أن يستحرّ القتل بالقراءِ في المواطن کلها فيذهب قرآن کثير، و إِني أري أن تأمر بجمع القرآن. (قال) : فقلت له : کيف أفعل شيئًا لم يفعله رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ فقال لي : هو واﷲ خير. فلم يزل عمر يراجعني في ذلک حتي شرح اﷲ صدري له، ورأيت فيه الذي رأي عمر. قال زيد : فقال أبوبکر : إنک رجل شاب عاقل لا نتهمک، قد کنت تکتب الوحي لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، فتتبع القرآن فاجمعه. قال زيد : فواﷲ لو کلفوني نقل جبل من الجبال ما کان أثقل عليّ من ذلک. فقلت : کيف تفعلون شيئًا لم يفعله رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ فقال أبوبکر : هو واﷲ خير، فلم يزل يراجعني في ذلک أبوبکر حتي شرح اﷲ صدي للذي شرح له صدورهما فتتبعت القرآن أجمعه من الرقاع والعسب واللخاف، ومن صدور الرجال، فهذا عمل لم ينقل فيه خلاف عن أحد من الصحابة. (1). . . . حتي اذا نسخوا الصحف في المصاحف، بعث عثمان في کل افق بمصحف من تلک المصاحف التي نسخوها، ثم امر بما سوي ذٰلک من القراء ة في کل صحيفة أو مصحف أن يحرق. . . . ولم يرد نص عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم بما صنعوا من ذلک، ولکنهم رأوه مصلحة تناسب تصرفات الشرع قطعا فإن ذلک راجع إلي حفظ الشريعة، والأمر بحفظها معلوم، وإلي منع الذريعة للاختلاف في أصلها الذي هوالقرآن، وقد علم النهي عن الإختلاف في ذلک بما لا مزيد عليه. واذا استقام هذا الأصل فاحمل عليه کتب العلم من السنن و غيرها إذا خيف عليها الإندراس، زيادة علي ما جاء في الأحاديث من الأمر بکتب العلم. (2)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ قرآن کریم کو ایک مصحف میں جمع کرنے پر متفق ہو گئے حالانکہ قرآن کریم کو جمع کرنے اور لکھنے کے بارے میں ان کے پاس کوئی صریح حکم نہیں تھا۔ ۔ ۔ لیکن بعض نے کہا کہ ہم اس کام کو کس طرح کریں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلایا جبکہ یمامہ والوں سے لڑائی ہو رہی تھی اور اس و قت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی ان کے پاس تھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہا کہ جنگ یمامہ میں قرآن کے کتنے ہی قاری شہید ہوگئے ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ قراء کے مختلف جگہوں پر شہید ہونے کی وجہ سے قرآن مجید کا اکثر حصہ جاتا رہے گا۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ قرآن مجید کے جمع کرنے کا حکم دیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں وہ کام کس طرح کرسکتا ہوں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا تو انہوں نے مجھے کہا خدا کی قسم یہ اچھا ہے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس بارے میں مجھ سے بحث کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعاليٰ نے اس معاملے میں میرا سینہ کھول دیا۔ میں نے بھی وہ کچھ دیکھ لیا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا تھا حضرت زید کا بیان ہے کہ حضرت ابوبکر نے مجھے فرمایا آپ نوجوان آدمی اور صاحب عقل و دانش ہو اور آپ کی قرآن فہمی پر کسی کو اعتراض بھی نہیں اور آپ آقا علیہ السلام کو وحی بھی لکھ کر دیا کرتے تھے۔ آپ قرآن مجید کو تلاش کرکے جمع کردیں تو حضرت زید رضی اللہ عنہ نے کہا خدا کی قسم اگر آپ مجھے پہاڑوں میں کسی پہاڑ کو منتقل کرنے کا حکم دیں تو وہ میرے لیے اس کام سے زیادہ مشکل نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ آپ رضی اللہ عنہ اس کام کو کیوں کر رہے ہو جسے آقا علیہ السلام نے نہیں کیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا خدا کی قسم اس میں بہتری ہے۔ تو میں برابر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بحث کرتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعاليٰ نے میرا سینہ کھول دیا جس طرح اللہ تعاليٰ نے حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما کا سینہ کھولا تھا۔ پھر میں نے قرآن مجید کو کھجور کے پتوں، کپڑے کے ٹکڑوں، پتھر کے ٹکڑوں اور لوگوں کے سینوں سے تلاش کرکے جمع کردیا۔ یہ وہ عمل ہے جس پر صحابہ رضی اللہ عنہ میں سے کسی کا اختلاف نقل نہیں کیا گیا۔ ۔ ۔ حتی کہ جب انہوں نے (لغت قریش پر) صحائف لکھ لیے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تمام شہروں میں ان مصاحف کو بھیجا اور یہ حکم دیا کہ اس لغت کے سوا باقی تمام لغات پر لکھے ہوئے مصاحف کو جلا دیا جائے۔ ۔ ۔ حالانکہ اس معاملہ میں ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی حکم نہیں تھا لیکن انہوں نے اس اقدام میں ایسی مصلحت دیکھی جو تصرفات شرعیہ کے بالکل مناسب تھی کیونکہ قرآن کریم کو مصحف واحد میں جمع کرنا شریعت کے تحفظ کی خاطر تھا اور یہ بات مسلّم اور طے شدہ ہے کہ ہمیں شریعت کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے اور ایک لغت پر قرآن کریم کو جمع کرنا اس لیے تھا کہ مسلمان ایک دوسرے کی قرات کی تکذیب نہ کریں اور ان میں اختلاف نہ پیدا ہو اور یہ بات بھی مسلّم ہے کہ ہمیں اختلاف سے منع کیا گیا ہے اور جب یہ قاعدہ معلوم ہو گیا تو جان لو کہ احادیث اور کتب فقہ کو مدون کرنا بھی اسی وجہ سے ہے کہ شریعت محفوظ رہے، علاوہ ازیں احادیث میں علم کی باتوں کو لکھنے کا بھی حکم ثابت ہے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، 4 : 1720، کتاب التفسير، باب قوله لقد جاء کم رسول، رقم : 4402
2. بخاري، الصحيح، 6 : 2629، کتاب الاًحکام، باب يستحب للکاتب أن يکون اميناً
عاقلاً، رقم : 6768
3. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 283، کتاب التفسير، باب من سورة التوبة رقم : 3103
4. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 7، رقم : 2202
5. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 13، رقم : 76
6. ابن حبان، الصحيح، 10 : 360، رقم : 4506
شاطبي، الاعتصام، 2 : 115
علامہ بدر الدین محمد بن عبداللہ زرکشی اپنی کتاب ’’المنثور فی القواعد‘‘ میں بدعت لغویۃ اور بدعت شرعیہ کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
18. فأما في الشرع فموضوعة للحادث المذموم، و إذا أريد الممدوح قُيّدَتْ و يکون ذالک مجازًا شرعياً حقيقة لغوية
’’شرع میں عام طور پر لفظ بدعت، محدثہ مذمومہ کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن جب بدعت ممدوحہ مراد ہو تو اسے مقید کیا جائے گا لہٰذا یہ بدعت ممدوحہ مجازاً شرعی ہوگی اور حقیقتاً لغوی ہوگی۔‘‘
زرکشي، المنثور في القواعد، 1 : 217
علامہ ابن رجب حنبلی بغدادی اپنی کتاب ’’جامع العلوم والحکم‘‘ میں بدعت کی اقسام اور اس کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
19. المراد بالبدعة ما أحدث مما لا أصل له في الشريعة يدلّ عليه، وأما ما کان له أصل من الشرع يدلّ عليه فليس ببدعة شرعاً وإن کان بدعة لغة.
’’بدعت سے مراد ہر وہ نیا کام ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو جو اس پر دلالت کرے لیکن ہر وہ معاملہ جس کی اصل شریعت میں موجود ہو وہ شرعاً بدعت نہیں اگرچہ وہ لغوی اعتبار سے بدعت ہو گا۔‘‘
1. ابن رجب حنبلي رحمة الله عليه ، جامع العلوم والحکم، 1 : 252
2. محمد شمس الحق، عون المعبود شرح سنن أبي داؤد، 12 : 235
3. عبد الرحمن مبارکپوري، تحفت الأخوذي، 7 : 366
حديث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مَنْ أحْدَثَ فِی أمْرِنَا هذا مَا لَيْسَ مِنْهَ فَهُوَ رَدٌّ کی تشریح کرتے ہوئے علامہ موصوف رقمطراز ہیں :
20. من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد (1) فکلّ من أحدث شيئا و نسبه إلي الدين ولم يکن له أصل من الدين يرجع إليه فهو ضلالة والدين بريء منه، و سواء في ذلک مسائل الاعتقادات أو الأعمال أو الأقوال الظاهرة والباطنة. و أما ما وقع في کلام السلف من استحسان بعض البدع فإنما ذلک في البدع اللغوية لا الشرعية. (2)
’’حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہ ہو تو وہ (چیز) مردود ہے۔ پس جس کسی نے بھی کوئی نئی چیز ایجاد کی اور پھر اس کی نسبت دین کی طرف کر دی اور وہ چیز دین کی اصل میں سے نہ ہو تو وہ چیز اس کی طرف لوٹائی جائے گی اور وہی گمراہی ہو گی اور دین اس چیز سے بری ہو گا اور اس میں اعتقادی، عملی، قولی، ظاہری و باطنی تمام مسائل برابر ہیں۔ اور بعض اچھی چیزوں میں سے جو کچھ اسلاف کے کلام میں گزر چکا ہے پس وہ بدعت لغویہ میں سے ہے، بدعت شرعیہ میں سے نہیں ہے۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، 3 : 1343، کتاب الاقضية، باب نقض الاحکام الباطلة، رقم : 1718
2. ابن ماجه، السنن، المقدمه الکتاب، 1 : 7، باب تعظيم حديث رسول الله، رقم
: 14
3. احمد بن حنبل، المسند : 6 : 270، رقم : 26372
4. ابن حبان، الصحيح، 1 : 207، رقم :
26
5. دار قطني، السنن، 4 : 224، رقم : 78
ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم : 252
علامہ ابن رجب بدعات حسنہ کی مثالیں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
21. فمن ذلک قول عمر رضي الله عنه لما جمع الناس في قيام رمضان علي إمام واحد في المسجد و خرج ورآهم يصلون کذلک فقال : نعمت البدعة هذه. (1) وروي عنه أنه قال : إن کانت هذه بدعة فنعمت البدعة. وروي عن أبيّ بن کعب قال له : إن هذا لم يکن، فقال عمر : قد علمت ولکنه حسن، ومراده أن هذا الفعل لم يکن علي هذا الوجه قبل هذا الوقت، ولکن له أصل في الشريعة يرجع إليها. فمنها أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم کان يحثّ علي قيام رمضان و يرغب فيه، وکان الناس في زمنه يقومون في المسجد جماعات متفرقة ووحدانا، وهو صلي الله عليه وآله وسلم صلي بأصحابه في رمضان غير ليلة ثم امتنع من ذلک معللا بأنه خشي أن يکتب عليهم فيعجزوا عن القيام به و هذا قد أمن بعده صلي الله عليه وآله وسلم . وروي عنه صلي الله عليه وآله وسلم أنه کان يقوم بأصحابه ليالي الإفراد في العشر الأواخر. ومنها أنه صلي الله عليه وآله وسلم أمر باتباع سنة خلفائه الراشدين، و هذا قد صار من سنة خلفائه الراشدين، فإن الناس اجتمعوا عليه في زمن عمر و عثمان و علي رضي اﷲ عنهم. ومن ذلک أذان الجمعة الأوّل زاده عثمان لحاجة الناس إليه، و أقرّه عليّ واستمرّ عمل المسلمين عليه. وروي عن ابن عمر أنه قال : هو بدعة، ولعله أراد ما أراد أبوه في قيام شهر رمضان. ومن ذلک جمع الصحف في کتاب واحد توقف فيه زيد بن ثابت وقال لأبي بکر و عمر رضي اﷲ عنهما : کيف تفعلان مالم يفعله النبي صلي الله عليه وآله وسلم ؟ ثم علم أنه مصلحة فوافق علي جمعه، وقد کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم يأمر بکتابة الوحي، ولا فرق بين أن يکتب مفرقا أو مجموعا بل جمعه صار أصلح. وکذلک جمع عثمان الأمة علي مصحف و إعلامه لما خالفه خشية تفرّق الأمة، وقد استحسنه عليّ و أکثر الصحابة رضي اﷲ عنهم و کان ذلک عين المصلحة. وکذلک قال من منع الزکاة توقف فيه عمر و غيره حتي بينه له أبوبکر أصله الذي يرجع إليه من الشريعة فوافقه الناس علي ذلک. (2)
’’اور بدعتِ حسنہ کے اثبات میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ جب آپ رضی اللہ عنہ نے قیام رمضان کے لیے تمام لوگوں کو مسجد میں ایک امام کی اقتداء میں جمع کیا اور پھر جب انہیں اس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ یہ کتنی اچھی بدعت ہے اور آپ رضی اللہ عنہ سے کچھ اس طرح بھی مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’ان کانت ھذہ بدعۃ فنعمت البدعۃ‘‘ اگر یہ بدعت ہے تو پھر یہ اچھی بدعت ہے۔ اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کہا کہ اگرچہ یہ اس طرح نہ بھی ہو، تو اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں بھی جانتا ہوں لیکن یہ اچھی بدعت ہے اور اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ یہ عمل اس سے پہلے اس صورت میں نہیں تھا۔ لیکن اس کی اصل شریعت میں موجود تھی جو کہ اس فعل کی طرف لوٹتی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ آقا علیہ السلام قیام رمضان پر ابھارتے اور اس کی ترغیب دیتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بھی لوگ متفرق جماعات کی صورت میں قیام کیا کرتے تھے اور اکیلے اکیلے بھی قیام کیا کرتے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کے ساتھ ایک رات سے زیادہ راتوں میں رمضان میں نماز پڑھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی علت کے باعث اس سے منع فرما دیا اور وہ اس وجہ سے تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوف ہونے لگا کہ یہ ان پر فرض کردی جائے گی اور وہ لوگ اس قیام سے عاجز آجائیں گے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تصدیق بھی کردی، اور آقا علیہ السلام سے روایت کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری عشرہ کی طاق راتوں میں اپنے بعض صحابہ کرام کے ساتھ قیام کیا کرتے تھے۔ اور اسی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنھم کی سنت پر عمل کرنے کا حکم دیا۔ اور یہ کام (یعنی قیام رمضان تراویح کی صورت) خلفاء راشدین کی سنت میں سے ہوگیا۔ اور اسی طرح لوگ حضرت عمر فاروق، عثمان غنی اور علی المرتضيٰ رضی اﷲ عنہم کے زمانے میں ہی اس چیز پر مجتمع ہوگئے تھے اور اسی طرح جمعہ کی پہلی اذان ہے جس کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی ضرورت کے پیش نظر زیادہ کیا اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ اس پر قائم رہے اور اس پر لوگوں نے عمل کرنا شروع کردیا۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے جمعہ کی دوسری اذان کے بارے میں فرمایا کہ وہ بدعت ہے۔ شاید ان کی مراد بھی وہی ہو جو ان کے والد کی قیام رمضان کے بارے میں تھی۔ اور اسی میں سے صحائف کو ایک کتاب میں جمع کرنا ہے۔ اس پر زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے توقف کیا اور آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہما سے کہا کہ آپ اس کام کو کیسے کر رہے ہو جسے خود آقا علیہ السلام نے نہیں کیا؟ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے جان لیا کہ اس میں مصلحت ہے۔ تو پھر آپ اس کو جمع کرنے پر راضی ہوگئے۔ اور حضور علیہ السلام نے وحی کو لکھنے کا حکم دیا تھا اور اس میں کوئی فرق نہیں کہ اسے متفرق یا مجموعہ کی صورت میں لکھا جائے۔ لیکن اس کو جمع کرنا زیادہ مبنی بر مصلحت ہے۔ اور اسی طرح حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے امت مسلمہ کو ایک مصحف پر جمع کیا۔ اور آپ رضی اللہ عنہ نے اس حقیقت کو پالیا جس کے لوگ مخالف تھے اور جو امت میں تفرقہ ڈالنے والی تھی۔ اور اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اکثر صحابہ رضی اللہ عنھم نے درست جانا ہے اور یہ مصلحت کے عین مطابق تھا۔ اور اسی طرح زکوٰۃ نہ دینے والوں کے بارے میں (حضرت ابوبکر کا) فیصلہ اس میں عمر اور دیگر صحابہ نے توقف اختیار کیا۔ یہاں تک کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس اصل کا بتا دیا جو کہ شریعت میں سے اس کی طرف لوٹتی ہے پھر اس پر لوگ آپ سے متفق ہوگئے۔‘‘
1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250
ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم : 3 - 252
علامہ شمس الدین محمد بن یوسف بن علی الکرمانی تصور بدعت کی تفہیم اور اس کی تقسیم بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’الکواکب الدراری فی شرح صحیح البخاری‘‘ میں لکھتے ہیں :
22. البدعة کل شئ عمل علي غير مثال سابق و هي خمسة أقسام واجبة و مندوبة و محرمة و مکروهة و مباحة و حديث کل بدعة ضلالة(1) من العام المخصوص. . . . لأن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم لم يسنها ولا کانت في زمن أبي بکر ورغب فيها بقوله نعم ليدل علي فضلها ولئلا يمنع هذا اللقب من فعلها و يقال نعم کلمة تجمع المحاسن کلها و بئس کلمة تجمع المساويء کلها و قيام رمضان في حق التسمية سنة غير بدعة لقوله عليه الصلاة والسلام (اقتدوا باللذين من بعدي أبي بکر و عمر رضي اﷲ عنهما)(2) قوله (ينامون عنها) أي فارغين عنها أي الصلاة أول الليل أفضل من الصلاة في آخر الليل و بعضهم عکسوا و بعضهم فصلوا بين من يستوثق بالانتباه من النوم و غيره. فان قلت هذه الصلاة ليست بدعة لما ثبت من فعله صلي الله عليه وآله وسلم لها. قلت لم يثبت کونها أول الليل أو کل ليلة أو بهذه الصفة. (3)
’’ہر وہ چیز جس پر مثال سابق کے بغیر عمل کیا جائے وہ ’’بدعت‘‘ کہلاتی ہے۔ اور اس کی پانچ اقسام بدعت واجبہ، بدعت مندوبۃ، بدعت محرمہ، بدعت مکروھہ اور بدعت مباحہ ہیں۔ اور ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ والی حدیث عام مخصوص کے قاعدے کے تحت ہے۔ . . کیونکہ حضور علیہ السلام نے اس چیز کو مسنون نہیں کیا اور نہ ہی یہ کام حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہوا اسی وجہ سے اس کو ’’بدعت‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور لفظ ’’نعم‘‘ کے ذریعے ایسے (احسن) اُمور کی ترغیب دی گئی تاکہ یہ لفظ ان امور کی فضیلت پر دلالت کرے تاکہ محض لفظ بدعت کی وجہ سے ایسے احسن امور کے کرنے سے منع نہ کیا جائے اور جب کسی امر کے ساتھ کلمہ ’’نعم‘‘ لگا دیا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ امر تمام محاسن کا جامع ہے اور اگر لفظ ’’بئس‘‘ لگا دیا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ امر تمام برائیوں کا جامع ہے۔‘‘ اور قیام رمضان حقیقت میں سنت کا ہی نام ہے نہ کہ بدعت کا جس طرح آقا علیہ السلام نے اپنے ایک قول میں ارشاد فرمایا (اقتدوا بالذین من بعدی ابی بکر و عمر) میرے بعد میں آنے والے یعنی ابو بکر اور عمر رضی اﷲ عنہما کی پیروی کرنا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول ’’ینا مون عنھا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس نماز سے محروم رہتے ہیں یعنی وہ اس نماز سے خالی ہیں یعنی اول وقت میں نماز پڑھنا اخر وقت میں نماز پڑھنے سے زیادہ افضل ہے اور بعض نے اس کے برعکس کہا اور بعض نے فرق کیا ہے۔ اور اگر تو یہ کہے کہ یہ نماز بدعت نہیں ہے کیونکہ اس کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فعل ثابت ہے تو میں کہتا ہوں کہ اول رات میں ہر رات میں یا اس صفت کے ساتھ اس کام کا ہونا ثابت نہیں ہے۔‘‘
1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة،
رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم
: 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126
5. ابن حبان، الصحيح، 1 : 178، رقم : 5
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب عن الرسول صلي الله عليه وآله وسلم ، باب مناقب ابي بکر و عمر،
5 / 609، رقم : 3662
2. ابن ماجه، السنن، باب في فضل اصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 / 37، رقم : 97
3. حاکم، المستدرک، 3 / 79، رقم : 4451
4. احمد بن حنبل، المسند، 5 / 382، رقم : 23293
الکرماني، الکواکب الدراري في شرح صحيح البخاري، 9 : 5 - 154
علامہ ابوعبداللہ محمد بن خلفہ وشتانی مالکی صحیح مسلم کی شرح ’’اکمال اکمال المعلم‘‘ میں حدیث شریف ’’من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ‘‘ کی شرح کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :
23. التعبير بلفظ السنة في الشر مجاز من مجاز المقابلة کقوله تعالي و مکروا و مکر اﷲ واﷲ خير الماکرين (آل عمران، 3 : 54) و يدخل في السنة الحسنة البدع المستحسنة کقيام رمضان والتحضير في المنار أثر فراغ الأذان و عند أبواب الجامع و عند دخول الإمام وکالتصبيح عند طلوع الفجر کل ذلک من الإعانة علي العبادة التي يشهد الشرع باعتبارها وقد کان عليّ و عمر رضي اﷲ عنهما يوقظان الناس لصلاة الصبح بعد طلوع الفجر واتفق أن إمام الجامع الأعظم بتونس وأظنه البرجيني حين أتي ليدخل الجامع سألته إمرأة أن يدعو لابنها الأسير و کان المؤذنون حينئذ يحضرون في المنار فقال لها ما أصاب الناس في هذا يعني التحضير أشد من أمرابنک فکان الشيخ ينکر ذلک عليه و يقول ليس انکاره بصحيح بل التحضير من البدع المستحسنة التي شهد الشرع باعتبارها و مصلحتها ظاهرة قال وهو اجماع من الشيوخ اذ لم ينکروه کقيام رمضان والاجماع علي التلاوة ولاشک أنه لا وجه لإنکاره اِلَّا کونه بدعة ولکنها مستحسنة و يشهد لاعتبارها الأذان والإقامة فإن الأذان للأعلام بدخول الوقت والإقامة بحضور الصلاة و کذلک التحضير هو اعلام بقرب حضور الصلاة (قوله ومن سن في الإسلام سنة سيئه)(1) (قلت) هذه لا يشترط فيها أن ينوي الاقتداء به بدليل حديث ابن آدم القاتل لأخيه ان عليه کفلا من کل نفس قتلت لأنه أول من سن القتل. (2)
’’لفظ سنت کی تعبیر کچھ اس طرح ہے کہ سنت کا لفظ جو ’’شرُّ‘‘ کے ساتھ استعمال ہوا ہے وہ مجازی طور پر استعمال ہوا ہے جو کہ مجاز کے مقابلہ میں ہے۔ جیسے اللہ تعاليٰ کا ارشاد ہے ’’ومکروا و مکر اﷲ واﷲ خیر الما کرین‘‘ (آل عمران، 3 : 54) اور اسی طرح بدعت حسنہ سنت مستحسنہ میں داخل ہے جیسے رمضان المبارک میں قیام کرنا آذان کے لئے منار اور مساجد کے دروازوں پر جانا اور امام کے آنے پر کھڑا ہونا اور اسی طرح صبح کے وقت ایک دوسرے کو سلام کرنا یہ اور اس جیسے دوسرے امور عبادت پر مددگار ہیں اور شرع ان کی تائید کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ، وعلی رضی اللہ عنہ طلوع فجر کے بعد لوگوں کو نماز کے لئے اٹھاتے تھے اور اس امر پر اتفاق ہے کہ تیونس کے عظیم امام (شارع کہتا ہے کہ) میرے گمان میں وہ شیخ البرجینی تھے جب وہ جامع مسجد کی طرف آئے تو ایک عورت نے ان سے استدعا کی کہ وہ اس کے قیدی بیٹے کے لئے دعا کریں اس زمانے میں مؤذن مینار میں حاضر ہوکر اذان دیتے تھے۔ تو انہوں نے کہا کہ اس مسئلہ میں لوگ کتنا عجیب معاملہ کرتے ہیں یعنی مینار پر حاضر ہونا تیرے بیٹے کے معاملے سے بھی زیادہ عجیب تر ہے شیخ نے اس چیز کا انکار کر دیا انہوں نے کہا کہ اُن کا انکار کرنا درست نہیں ہے کیونکہ تحضیر بدعت مستحسنۃ میں سے ہے شرع نے اس کے اعتبار اور ظاہری مصلحت کی وجہ سے اسے جائز قرار دیا ہے مزید کہا کہ جب انہیں انکار نہیں ہے تو پھر اس پر شیوخ کا اجماع ہے۔ جیسے قیام رمضان اور تلاوت کے لئے مجتمع ہونا اور بلاشبہ اس کے انکار کی کوئی وجہ نہیں سوائے اس کے کہ یہ بدعت ہے لیکن یہ بدعت مستحسنۃ ہے اور اذان و اقامت کا اعتبار اس کے بدعت حسنہ ہونے کی گواہی ہے کیونکہ اذان دخول وقت کا اعلان ہے اور اقامت نماز میں حاضر ہونے کا اعلان ہے۔ اسی طرح تحضیر نماز کے قریب آنے کا اعلان ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان ’’ومن سن فی الاسلام سنۃ سیئۃ‘‘ میں ’’بدعت سیئہ‘‘ کی اِقتداء شرط نہیں ہے جیسے حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے کا اپنے بھائی کو قتل کرنا تو اس قاتل پر ہر اس قتل کا بوجھ بھی ہوگا جو بعد میں ہوگا کیونکہ یہ وہ شخص ہے جس نے قتل کا آغاز کیا۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017
2. نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقه، رقم : 2554
3. ابن ماجه، السنن، 1 : 74، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، رقم : 203
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359
5. ابن حبان، الصحيح، 8 : 101، 102، رقم : 3308
وشتاني، إکمال إکمال المعلم، 7 : 109
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور و معروف تصنیف ’’فتح الباری شرح صحیح البخاری‘‘ میں بدعت کی تعریف اور تقسیم پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے :
24. والبدعة أصلها ما أحدث علي غير مثال سابق، و تطلق في الشرع في مقابل السنة فتکون مذمومة، والتحقيق أنها إن کانت مما تندرج تحت مستحسن في الشرع فهي حسنة، و إن کانت مما تندرج مستقبح في الشرع فهي مستقبحة، و إلَّا فهي من قسم المباح وقد تنقسم إلي الأحکام الخمسة.
’’بدعت سے مراد ایسے نئے امور کا پیدا کیا جانا ہے جن کی مثال سابقہ دور میں نہ ملے اور ان امور کا اطلاق شریعت میں سنت کے خلاف ہو پس یہ ناپسندیدہ عمل ہے، اور بالتحقیق اگر وہ بدعت شریعت میں مستحسن ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے اور اگر وہ بدعت شریعت میں ناپسندیدہ ہو تو وہ بدعت مستقبحہ یعنی بری بدعت کہلائے گی اور اگر ایسی نہ ہو تو اس کا شمار بدعت مباحہ میں ہوگا۔ بدعت کو شریعت میں پانچ اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے (واجبہ، مندوبہ، محرمہ، مکروہہ اور مباحہ)۔‘‘
1. عسقلاني، فتح الباري شرح صحيح البخاري، 4 : 253
2. شوکاني، نيل الأوطار، 3 : 63
اِمام بدر الدین عینی بدعت کی تعریف اور اس کی تقسیم بیان کرتے ہوئے ’’عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری‘‘ میں رقمطراز ہیں :
25. البدعة في الأصل احداث أمرلم يکن في زمن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم . ثم البدعة علي نوعين اِن کانت مما يندرج تحت مستحسن في الشرع فهي بدعة حسنة و اِن کانت مما يندرج تحت مستقبح في الشرع فهي بدعة مستقبحة.
’’بدعت اصل میں اُس نئے کام کا بجا لانا ہے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ ہوا ہو پھر بدعت کی دو قسمیں ہیں اگر یہ بدعت شریعت کے مستحسنات کے تحت آجائے تو یہ ’’بدعتِ حسنہ‘‘ ہے اور اگر یہ شریعت کے مستقبحات کے تحت آجائے تو یہ ’’بدعتِ مستقبحۃ‘‘ ہے۔‘‘
عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 11 : 126
علامہ شمس الدین سخاوی اذان کے بعد صلوۃ و سلام پڑھنے کو بدعت حسنہ قرار دیتے ہوئے اپنی کتاب ’’القول البدیع فی الصلاۃ علی الحبیب الشفیع‘‘ کے صفحہ 193 پر رقمطراز ہیں :
26. وقد اختلف في ذٰلک هل هو مستحب أو مکروه أو بدعة أو مشروع واستدل للأول بقوله تعالٰي و افعلوا الخير، و معلوم ان الصلٰوة و السلام من أجل القرب لا سيما وقد تواردت الاخبار علي الحث علي ذلک مع ماجاء في فصل الدعا عقب الأذان والثلث الاخير من الليل و قرب الفجر والصواب انه بدعة حسنة يؤجر فاعله بحسن نية.
’’اذان کے بعد صلوٰۃ و سلام پڑھنے میں اختلاف ہے کیا وہ مستحب ہے، مکروہ ہے، بدعت ہے یا جائز ہے؟ اس کے اِستحباب پر اللہ تعاليٰ کے اس قول (وافعلوا الخیر) سے استدلال کیا گیا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ صلوٰۃ و سلام قُرب کے قصد سے پڑھا جاتا ہے خصوصاً جب کہ اس کی ترغیب میں کثیر احادیث وارد ہیں، علاوہ ازیں اذان کے بعد دعا میں جدائی کرنے اور تہائی رات کے اخیر میں دعا کرنے کی فضیلت میں بھی احادیث ہیں اور صحیح یہ ہے کہ یہ بدعت حسنہ ہے اور اس کے فاعل کو حسن نیت کی وجہ سے اجر ملے گا۔‘‘
1. سخاوي، القول البديع في الصلاة علي الحبيب الشفيع : 193
2. سخاوي، فتح المغيث شرح الفية الحديث، 2 : 327
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved