یہاں لامحالہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ باذنہ تعالیٰ جب سبز اِنقلاب آئے گا تو ہم عوام کو کیسا نظام دیں گے، اس نئے نظام سے عوام کو کیا ملے گا؟ اب میں اس نئے نظام کے خدوخال واضح کرکے اُس کا مختصر نقشہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
اِنقلاب کے بعد اِس ملک کا موجودہ حکومتی و انتظامی ڈھانچہ تبدیل کرکے نیا حکومتی و اِنتظامی نظام نافذ کیا جائے گا جو بین الاقوامی معیارات کے مطابق ہوگا۔ وہ نظام جو ترکی اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں رائج ہے۔ حکمران طبقہ مال کمانے کے لیے ان ملکوں کی طرف دوڑتا ہے مگر ان سے نظام نہیں سیکھتا؟ اِنقلاب کے بعد وہ حکومتی و انتظامی ڈھانچہ نافذ کیا جائے گا جو جنوبی کوریا، جاپان اور چین میں رائج ہے، اور جو نظام ان کے آقا و مولا امریکہ میں رائج ہے۔ مگر ہم ان ممالک کا نظام من و عن لاگو نہیں کریں گے۔ بلکہ میں یہ سب بطور نمونہ بیان کررہا ہوں کہ دنیا کی حقیقی جمہوریتیں جدید انتظامی و حکومتی ڈھانچے کے تحت چل رہی ہیں جب کہ پاکستان ایک سو سال پیچھے کھڑا ہے۔ لہٰذا ہم اپنے حالات کے مطابق پاکستانی ماڈل بنائیں گے۔ وہ پاکستانی ماڈل کیا ہوگا، آئیے! اُس کا جائزہ لیتے ہیں:
٭ وفاقی حکومت کا سربراہ قائدِ عوام ہوگا
وفاقی حکومت کا مرکزی سربراہ قائدِ ایوان (leader of the house) نہیں بلکہ قائدِ عوام (leader of the nation) ہوگا۔ اُسے عوام براہِ راست ووٹ سے منتخب کریں گے تاکہ سیاسی ساز باز ختم ہو۔
٭ اِختیارات گراس روٹ لیول تک منتقل کرکے دس لاکھ لوگوں کو شریکِ اِقتدار کیا جائے گا
آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 140 کی کلاز a یہ لازم ٹھہراتی ہے کہ مقامی حکومتوں کا نظام وضع کیا جائے اور اِختیارات نچلی سطح پر منتقل کیے جائیں۔
اس کے لیے بطور نمونہ چند مثالیں پیش کرتا ہوں تاکہ concept واضح ہوکہ نظام اور جمہوریت درحقیقت کیا ہیں۔
٭ اِس وقت ہماری آبادی بیس کروڑہے جب کہ ترکی کی آبادی سات کروڑ ساٹھ لاکھ ہے، یعنی ہم سے لگ بھگ تیسرے حصے سے کچھ زیادہ ہے۔ ترکی نے اپنا پورا نظام اور حکومتی و انتظامی ڈھانچہ decentralize کر دیا ہے اور تمام services کو مقامی حکومتوں کی جانب منتقل کردیا ہے۔ گویا اپنا پورا نظام حقیقی جمہوری اُصولوں پر استوار کرچکے ہیں۔ سات کروڑ ساٹھ لاکھ کی آبادی والے اِسلامی ملک ترکی کے 81 صوبے ہیں۔ ہم کیوں چار صوبوں پر چل رہے ہیں؟ وہاں 957 ضلعی حکومتیں اور 3,216 میونسپل حکومتیں قائم ہیں۔ اس سے نیچے Village Govt. System رائج کیا گیا ہے، جس کے تحت 34,395 دیہی حکومتیں قائم ہیں۔ اس میں ذیلی یونٹ کے طور پر Village Cooperation Neighbourhood System رائج کیا گیا ہے۔ اِس طرح تمام تر اِختیارات نیچے منتقل کرکے ’عوامی شرکتِ اِقتدار‘ کا نظام عملاً وضع کردیا گیا ہے۔ مالیاتی اِختیارات، عوام کی خوش حالی کے وسائل اور قانون سازی اور ترقیاتی اِختیارات بھی نیچے منتقل کردیے ہیں۔
٭ ساؤتھ کوریا میں Special Act for Balanced National Development کے تحت 157 حکومتی وزارتیں، محکمے اور سرکاری ادارے مقامی حکومتوں (local governments) کو منتقل کیے جارہے ہیں۔ اختیارات کی منتقلی کے عمل میں National Territorial Development Plans کے تحت 2007ء سے 2031ء کا مرحلہ وار منصوبہ چل رہا ہے جس میں تمام اِختیارات مرکزی حکومت سے لے کر مقامی حکومتوں کو منتقل کردیے جائیں گے۔
٭ اِسی طرح چین میں مختلف درجات (levels) پر مشتمل حکومتی ڈھانچہ تشکیل دیا گیا ہے۔ چین میں 333 صوبے ہیں، 2,862 ضلعی حکومتیں ہیں جن کے تحت 41,636 ٹاؤن شپ حکومتیں یعنی union councils ہیں۔ اس سے نیچے دیہی سطح پر سات لاکھ چار ہزار تین سو چھیاسی (7,04,386) Village Level Regions ہیں جنہیں محض وسائل اور ترقیاتی اُمور میں شراکت دی جاتی ہے۔
٭ جاپان میں بھی جدید نظام نافذ ہے۔ جاپان کی بارہ کروڑ ستر لاکھ آبادی میں 1719 میونسپلٹیز ہیں جن کے تحت city and town governments بنا کر اختیارات نیچے منتقل کر دیے گئے ہیں یعنی عوام کو شریکِ اِقتدار کیا گیا ہے۔
٭ یہی صورت حال انڈونیشا، ملائیشیا اور ایران کی ہے۔ گویا ہر جگہ یہی نظام ہے۔
٭ اِسی طرح کا نظام امریکہ میں بھی ہے۔ امریکہ کی بتیس کروڑ کی آبادی کے لیے پچاس ریاستیں، 3,034 کاؤنٹی حکومتیں، 16,405 ٹاؤن شپ حکومتیں، 19,429 میونسپل حکومتیں اور 35 ہزار سے زائد Special Purposed Governments ہیں۔ ساری حکومت اور انتظام نچلی سطح پر عوام کو منتقل کر دیا گیا ہے اور مرکزی سطح پر صرف سکیورٹی اور بین الاقوامی معاملات طے ہوتے ہیں۔
جدید نظام اور حقیقی جمہوریت کا ایک نقشہ میں نے آپ کے سامنے بیان کر دیا ہے۔ ہم کیوں ان سے متضاد ہیں؟ کیا ہم کسی الگ سیارے کی مخلوق ہیں؟ پاکستان میں آمریت کیوں ہے؟ سارے اِختیارات مرکز اور چار صوبوں میں وُزراے اَعلیٰ اور ان کے خاندانوں کے ہاتھوں میں کیوں مرکوز ہیں؟ یہی وہ سبب ہے جس کے باعث ہم اس نظام کو مسترد کرتے ہیں۔ یہاں MNAs اور MPAs ترقیاتی فنڈز اپنی جیب میں ڈال کر حرام خوری کرتے ہیں۔ اِس ملک کے کرپٹ سیاست دان اپنے سیاسی مفادات کو فائدہ پہچانے والے ہر کام پر عمل کرتے ہیں، خواہ اس کے لئے انہیں آئین میں اٹھارہ سے بیس ترامیم بھی کرنی پڑیں۔ ہر ترمیم خود کو طاقت ور بنانے اور کرپشن کے لیے سیاسی مک مکا کے طور پر کی جاتی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ عوام کی بھلائی میں آج تک کوئی ترمیم نہیں کی گئی۔
آئینِ پاکستا ن کے آرٹیکل 140 کی کلاز a کے تحت ہر صوبے کی ذِمہ داری ہے کہ وہ مقامی حکومتوں کا نظام وضع کرے اور سیاسی و اِنتظامی اور مالیاتی اِختیارات و وسائل نیچے ضلعی، تحصیلی اور یونین کونسل کی سطح پر منتقل کر دے تاکہ وہ نظام کی باگ ڈور سنبھالیں۔ آج تک اِس پر عمل نہیں ہوا۔ یہ آئین کے خلاف بغاوت نہیں تو اور کیا ہے؟ میں اِن سے پوچھتا ہوں اور عوام کو بتاناچاہتا ہوں کہ اب کہاں ہے آئین؟ یہاں اُن تمام اِقدامات سے گریز کیا جاتا ہے جس سے حکمرانوں کی طاقت کم ہو اور عوام طاقت ور ہوں اور جس کے ذریعے وسائل اور اِقتدار و اِختیار اِن کے ہاتھ سے نکلے اور عوام کو منتقل ہو۔ اِس کے برعکس وہ آرٹیکل جس سے یہ مزید طاقت ور ہوں، اس میں ترمیم پہ ترمیم کرتے چلے جاتے ہیں۔ آج کے ملک گیر اِحتجاجی مظاہروں کے ذریعے عوامِ پاکستان بتا دینا چاہتی ہے کہ دو پارٹیوں اور ہمیشہ کرپشن میں شریک رہنے والی مذہبی جماعتوں کا مک مکا نہیں چلے گا۔
٭ وفاق کے پاس صرف محدود وزارتیں ہوں گی
مرکز کے تمام اِختیارات اور اتھارٹیز نچلی سطح پر منتقل کر دی جائیں گی۔ مرکز کے پاس صرف کرنسی، دفاع، خارجہ پالیسی، ہائر ایجوکیشن، انرجی، inland security اور counter-terrorism جیسے اَہم محکمہ جات ہوں گے۔ باقی تمام وزارتیں اور محکمہ جات ضلع و تحصیل کی طرف منتقل کر دیے جائیں گے۔
٭ 35 صوبے بنائے جائیں گے
نئے نظام کے تحت پاکستان کے ہر ڈویژن کو صوبہ کا درجہ دیں گے۔ اس طرح چار صوبوں کی بجائے 35 صوبے بنائے جائیں گے تاکہ اِختیارات اور وسائل ایک فرد یا چند اَفراد کے ہاتھوں میں جمع نہ ہوں۔ صوبے کے گورنر کا بجٹ صرف اُتنا ہوگا جتنا آج ایک صوبائی وزیر یا ڈویژن کے کمشنر کا بجٹ ہوتا ہے۔ سب سے پہلے صوبہ ہزارہ بنایا جائے گا جہاں کے لوگ اس کے حصول کی خاطر شہادتیں پا چکے ہیں اور جن کے لیے کمیشن بنے، اسمبلیوں میں قراردادیں پاس ہوئیں مگر وہاں کے عوام کی بات نہیں سنی گئی اور اُن کے ساتھ مذاق کیا گیا۔ اِسی طرح زیریں پنجاب میں نئے صوبوں کے قیام کو ترجیح دی جائے گی۔
٭ 150 ضلعی اور 800 تحصیلی حکومتیں قائم کی جائیں گی
150 ضلعی حکومتیں قائم کی جائیں گی اور ان ضلعی حکومتوں کے نیچے آٹھ سو تحصیلی حکومتیں قائم ہوں گی جن میں شہری آبادی کے لیے چار سو city governments ہوں گی اور دیہی آبادی کے لیے چار سو town governments ہوں گی۔
٭ 6,000 سے زائد یونین کونسل حکومتیں قائم کی جائیں گی
یونین کونسل کی سطح پر union council governments بنیں گی جن کی تعداد 6 ہزار سے زائد ہوگی۔
٭ ولیج کونسلز بنائی جائیں گی
دیہی آبادیوں میں Village Councils اور Ward Administrations قائم کی جائیں گی۔
اِس طرح عوامی شرکتِ اِقتدار کے نظام کے تحت تقریباً دس لاکھ اَفراد کو شریکِ اِقتدار کیا جائے گا۔ اِن میں تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار دونوں ہوں گے۔ اِسے حقیقی جمہوریت کہتے ہیں جو ہم اِنقلاب کے ذریعے قوم کو دینا چاہتے ہیں۔
پاکستان عوامی تحریک جو نظام لانا چاہتی ہے، اُس کے لیے ہم نے اپنا ہوم ورک مکمل کرلیا ہے، وائٹ پیپرز تیارہیں۔ جونہی اِقتدار عوام کو منتقل ہوگا، ہم نئے نظام کے نفاذ کا اعلان کردیں گے۔ ہم اپنی پارٹی پر مشتمل حکومت نہیں بنائیں گے بلکہ اَعلیٰ ذہن کے حامل اَفراد کے ساتھ پوری قوم شریکِ اِقتدار ہوگی۔
موجودہ نظام چونکہ اِرتکاز پر قائم ہے اور وسائل چند ہاتھوں میں محدود ہیں، اس لیے عوام کو کچھ نہیں ملتا۔ عوام اِنصاف کے لیے دھکے کھاتے پھرتے ہیں۔ غریب آدمی پچیس پچیس سال تک سوِل کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک دھکے کھاتا ہے مگر اُسے انصاف نہیں ملتا حتیٰ کہ وہ اپنی جائیداد، زمین، گھر بار سب کچھ بیچ کر بھی انصاف سے محروم رہتا ہے۔
جب میں وکالت کرتا تھا تو جھنگ میں ایک بوڑھا شخص مقدمہ لے کر میرے پاس آیا۔ اُس بوڑھے شخص کے دادا نے مقدمہ دائر کیا تھا جو سپریم کورٹ تک گیا۔ سپریم کورٹ نے مقدمہ واپس سوِل کورٹ کی طرف بھیج دیا اور 30 سال بعد وہ پھر زیرو پر کھڑا تھا اور اپنا حق مانگنے کے لیے وہ بوڑھا شخص ساری جائیداد بیچ چکا تھا۔
ایسی جمہوریت اور پارلیمانی نظام پر صد حیف ہے کہ جس میں حکمران غریب عوام کو عدل و اِنصاف فراہم نہ کرسکیں۔ اِس وقت بھی پاکستان کی عدالتوں میں سولہ لاکھ مقدمات زیر سماعت ہیں۔ غریب کہاں جائے؟ اِنصاف اِتنا مہنگا ہے کہ لاکھوں روپے کی فیس ادا کرتے کرتے غریب کی نسلیں گزر جاتی ہیں، مقدمہ دائر کرنے والے مرجاتے ہیں اور سوِل مقدمات میں مدعی کے پوتوں کو کہیں جاکر انصاف مل جاتا ہے۔
حالیہ اَیام میں لاہور ہائی کورٹ میں ایک کیس کی سماعت ہوئی ہے۔ بیرسڑ جاوید اِقبال جعفری نے 26 سیاست دانوں کی کرپشن اور منی لانڈرنگ کے ذریعے ارب ہا ڈالر بیرونِ ملک منتقل کرنے کے خلاف 1996ء میں درخواست دائر کی تھی، جس میں بعد ازاں مزید سیاست دانوں کے نام بھی شامل کیے۔ 1996ء میں دائر ہونے والی درخواست کی سماعت 9 مئی 2014ء کو ہوئی جو 29 مئی 2014ء تک ملتوی کر دی گئی ہے۔ اٹھارہ سال سے سماعت چل رہی ہے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہاں غریب کو پچیس پچیس سال تک انصاف نہیں ملتا اور طاقت ور کا پچیس پچیس سال تک مواخذہ نہیں ہوتا۔ ان لوگوں کو ڈوب کے مرجانا چاہیے جو اِسے نظام، جمہوریت یا rule of law کا نام دیتے ہیں۔
٭ اسلام آباد میں وفاقی سپریم کورٹ ہوگی
مرکزی سپریم کورٹ صرف آئین اور ریاست سے متعلق اُمور کی سماعت کرے گی۔ عام آدمی کو اسلام آباد جانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
٭ سپریم کورٹس صوبوں (موجودہ ڈویژنز) کی سطح پر قائم ہوں گی
نئے نظام کے تحت عدالتی نظام میں سپریم کورٹ کی سیٹ ہر ڈویژن میں منتقل ہو جائے گی۔ ہر ڈویژن ایک صوبہ بن چکا ہوگا تو وہ Provincial Supreme Court کہلائے گئی۔ گویا سپریم کورٹ تک جانے والے کا سفر اپنے ڈویژونل شہر تک ختم ہوجائے گا۔
٭ ہائی کورٹس ضلعی سطح پر ہوں گی
ہائی کورٹس ضلعوں میں منتقل ہوں گی اور یہ ڈسٹرکٹ ہائی کورٹ کہلائے گی۔
٭ سیشن کورٹس تحصیلی سطح پر ہوں گی
اس وقت ضلعی سطح پر موجود سیشن کورٹس تحصیلوں میں منتقل ہوجائیں گی۔
٭ یونین کونسل عدالتیں قائم کی جائیں گی
سیشن کورٹس کے نیچے یونین کونسل کورٹس قائم ہوں گی۔ تمام چھوٹے مقدمات یونین کونسل کے اندر عدالتوں میں سماعت ہوں گے اور فوری طور پر مقامی سطح پر اِنصاف ملے گا۔
٭ گاؤں اور محلہ کی سطح پر اِنصاف کمیٹیاں قائم کی جائیں گی
سب سے پہلے بنیادی سطح پر اِنصاف کمیٹیاں قائم کی جائیں گی جو یونین کونسل کورٹس کے نیچے ہوں گی۔ اِنصاف کمیٹیوں میں علاقے کے معزز، دیانت دار، تعلیم یافتہ اور قانون و شریعت کا فہم رکھنے والے باکردار لوگ شامل ہوں گے۔ انہیں باقاعدہ قانونی درجہ دیا جائے گا تاکہ روز مرہ کے چھوٹے مقدمات اور نزاعات کا فیصلہ وہیں ہو اور اس سے بڑا کیس یونین کونسل کورٹ میں جائے گا۔
٭ غریب سائلین کو حکومتی خرچ پر وکیل کی خدمات مفت فراہم کی جائیں گی
تمام عدالتوں میں غریبوں کے لیے حکومت کی طرف سے سرکاری وکیل کی مفت خدمات مہیا ہوں گی، یعنی غریب کے لیے وکیل کا کوئی خرچہ نہیں ہوگا۔
٭ پولیس 24 گھنٹے کے اندر FIR درج کرنے اور 3 دن میں چالان عدالت میں پیش کرنے کی پابند ہوگی
جرم ہونے کی صورت میں پولیس چوبیس گھنٹے میں FIR درج کرکے تین دن کے اندر اندر چالان پیش کرنے کی پابند ہوگی۔ متاثرہ فریق کو تھانے میں دھکے نہیں کھانے پڑیں گے بلکہ متاثرہ فریق صرف وقوعہ کی اطلاع کرے گا، چاہے فون پر ہی کردے۔
٭ فوج داری مقدمہ کا فیصلہ ایک سے تینماہ میں ہوگا
فوج داری مقدمات کا فیصلہ ایک ماہ میں کردیاجائے گا۔ دوسرا ماہ پہلی اپیل کے لیے ہوگا جب کہ تیسرا ماہ دوسری اور آخری اپیل کے لیے ہوگا۔ اِس طرح فوج داری مقدمہ FIR سے لے کر آخری اپیل تک کل تین ماہ میں ختم ہوجائے گا۔
٭ دیوانی مقدمات 6 ماہ میں مکمل کرکے فیصلہ سنا دیا جائے گا
دیوانی مقدمات اِبتداء سے لے کر آخری اپیل تک کل 6 ماہ میں ختم ہوجائیں گے۔ اِس طرح لوگوں کو مفت اور فوری عدل و اِنصاف ملے گا۔ نئے عدالتی نظام کا ہوم ورک میں نے مکمل کر لیا ہے اور اِن شاء اﷲ عوام کو اِقتدار منتقل ہوتے ہی نئے صوبے بنا کر اِسے نافذ کر دیاجائے گا۔
یہاں سوال ہوسکتا ہے کہ ان تمام اِقدامات کے لیے وسائل کہاں سے آئیں گے۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ میں بنیادی طور پر قانون کا ایک طالب علم اور وکیل ہوں اور میں نے قانون پڑھایا بھی ہے۔ اس حوالے سے سارا ڈھانچہ (sketch) مکمل ہے اور کسی چیز کے لیے بھی زائد بجٹ کی ضرورت نہیں ہوگی۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اِنقلاب اور نئے نظام سے غریبوں کو کیا ملے گا؟ میں آپ کو دس نکاتی اِنقلابی چارٹر دے رہا ہوں، جس کے اَہم نکات حسبِ ذیل ہیں:
1۔ ہر بے گھر کو گھر دیا جائے گا اور متوسط خاندانوں کو گھر کی تعمیر کے لیے 25 سال کی اَقساط پر بلا سود قرض دیا جائے گا۔
بے گھر خاندانوں کو حسبِ ضرورت تین تا پانچ مرلے کے مفت پلاٹ دیے جائیں گے۔ تعمیر کے لیے بلا سود قرضے فراہم کیے جائیں گے جو بیس تا پچیس سال کی مدت میں واپس کرنا ہوں گے۔ جو خاندان اِس کی اِستطاعت نہ رکھتے ہوں گے، انہیں مفت گھر بنا کر چابیاں دے دی جائیں گی۔
وفاقی حکومتِ پاکستان کے جاری کردہ حقائق اور کینیڈا کی CIDA، جاپان کی JICA، برطانیہ کی DFID اور امریکہ کی USAID کے اَعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 15 ملین یعنی ڈیڑھ کروڑ افراد رجسٹرڈ بے گھر ہیں۔ ان ڈیڑھ کروڑ بے گھر اَفراد کو خاندانوں کے units میں تقسیم کریں تو دو یا تین بیڈ رومز پر مشتمل گھر ایک ایک فیملی کو مہیا کرنے کے لیے کل سات کھرب یعنی سات سو ارب روپے درکار ہوں گے۔ لہٰذا دونوں صورتیں ممکن ہیں کہ حکومت مکمل خرچ برداشت کرے یا 20 تا 25 سالہ آسان اَقساط اور شرائط پر بلا سود قرض فراہم کیا جائے۔ علاوہ ازیں بین الاقوامی donor agencies بھی بے گھر لوگوں اور خاندانوں کے لیے donations دیتی ہیں۔
2۔ ہر بے روزگار شخص کو مناسب روزگار فراہم کیا جائے گا یا روزگار الاؤنس دیا جائے گا۔
پاکستان میں معمول ہے کہ حکمران، سیاست دان اور اَشرافیہ اربوں روپے کے قرض کھا جاتے ہیں اور defaulter بن کر bankruptcy کروا لیتے ہیں۔ مزید یہ کہ عدالتوں سے پچیس پچیس سال کے stay بھی لے لیتے ہیں۔ ہمارے نوجوان جب یہ سب کچھ دیکھتے ہیں تو وہ بھی قرض خور ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں چھوٹا قرض کھانے میں کیا حرج ہے۔ ہم قوم کو اِس غلط روِش پر نہیں ڈالنا چاہتے۔ ہم job planning کے ذریعے نوجوانوں کو روزگار مہیا کریں گے اور کوئی بھی graduate اور technical education رکھنے والا بے روزگار نہیں رہے گا۔
3۔ قلیل آمدنی والوں کو ضروری اَشیاے خورد و نوش (آٹا، گھی، چینی، چاول، دودھ، دال اور سادہ کپڑا) آدھی قیمت پر فراہم کی جائیں گی۔
4۔ لوئر مڈل کلاس کے لیے بجلی، پانی اور گیس کے بلوںپر ٹیکس ختم کردیے جائیں گے اور مذکورہ یوٹیلٹیز نصف قیمت پر فراہم ہوں گی۔
5۔ سرکاری اِنشورنس کا نظام بنایا جائے گا جس کے تحت غریبوں کا علاج مکمل طور پر فری ہوگا۔
غریبوں کے لیے state insurance اور نیشنل ہیلتھ سروس کا نظام وضع کیا جائے گا اور انہیں علاج کی جملہ سہولیات بشمول اَدویات مفت مہیا کی جائیں گی۔
پاکستان میں 10 کروڑ اَفراد یعنی تقریباً نصف آبادی صحت کی مناسب سہولتوں سے محروم ہے۔ اِن اَفراد کو علاج کی مناسب سہولتیں مہیا کرنے کے لیے حکومتِ پاکستان کو health sector کی مد میں international donors سے پہلے ہی کھربوں روپے کی اِمداد ملتی ہے، مگر یہ سب اِمداد کرپشن اور حرام خوری کی نظر ہوجاتی ہے۔ عوام کو اِن کی تفصیلات کا کچھ علم نہیں ہے۔ عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ رقوم ان کے لیے دی جاتی ہیں۔ جب تک ان کرپٹ لیڈروں کو اٹھا کر باہر نہیں پھینکیں گے اُس وقت تک باہر کے ملکوں کی طرف سے ملنے والی اِمدادی رقوم بھی حرام خوری کی مد میں جاتی رہیں گی۔
پوری دنیا میں پاکستانی ڈاکٹرز خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ اُن کے ملین ڈالرز کے پیکجز ہیں اور وہ ایک مہینے میں ہزار ہا ڈالر کماتے ہیں۔ ان کے دل پاکستان کے اندر basic health care units، rural health centres اور چھوٹے ہسپتال بنانے کے لیے تڑپتے ہیں مگر کرپٹ سیاست دان اور بیوروکریسی انہیں رفاہی کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے حالاں کہ یہ محب وطن پاکستانی پورے ملک میں علاج کی بنیادی سہولیات مہیا کرنے کا جال بچھا سکتے ہیں۔
6۔ یکساں نظام کے تحت میٹرک تک تعلیم مفت اور لازمی ہوگی۔
یکساں نصاب کے تحت میٹرک تک تعلیم مفت اور لازمی ہوگی۔ والدین بچوں کو تعلیم سے محروم نہیں رکھ سکیں گے اور خلاف ورزی پر تعزیر ہوگی۔ اَعلیٰ تعلیم کے لیے ہر خواہش مند طالب علم کو مواقع ملیں گے اور میرٹ کے مطابق داخلہ یقینی ہوگا۔
پاکستان میں 3 کروڑ اَفراد مناسب تعلیم سے محروم ہیں۔ پاکستانی حکومت کو اعلیٰ تعلیم کی مد میں بین الاقوامی اداروں سے 200 ارب روپے سالانہ امداد ملتی ہے تاکہ لوگوں کو تعلیم مہیا ہو۔ لیکن یہ اِمداد سیاست دان اور کرپٹ بیوروکریٹس کی جیبوں میں جاتی ہے۔ یہ کوئی حیرت ناک اَمر نہیں کیوں کہ جب سیلاب کے کمبل اور سیلاب زدگان کی خوراک ان حکمرانوں کے گھروں میں جاتی ہے تو تعلیم کی اِمداد کہاں غریب تک پہنچے گی؟
7۔ غریب کسانوں اور ہاریوں کو 5/10 ایکڑ زرعی زمین برائے کاشت مفت فراہم کی جائے گی۔
پاکستان کا کل رقبہ 20 کروڑ ایکڑ ہے، جس میں سے نصف یعنی 10 کروڑ ایکڑ زرعی زمین ہے۔ اس 10 کروڑ ایکڑ میں سے 5 کروڑ ایکڑ نجی ملکیت میں ہے اور بقیہ 5 کروڑ ایکڑ رقبہ کاشت کاری کے لیے غریب کسانوں، ہاریوں اور چھوٹے کاشت کاروں میں 5 تا 10 ایکڑ کے یونٹ بنا کر تقسیم کردیا جائے گا۔
8۔ مستحق گھرانوں میں خواتین کو گھریلو صنعتوں کے ذریعے روزگار فراہم کیا جائے گا تاکہ انہیں معاشی اِستحکام مل سکے اور خواتین کے خلاف اِمتیازی رسوم اور ظالمانہ قوانین کا خاتمہ کیا جائے گا۔
خواتین کو گھریلو صنعتی یونٹس کی صورت میں روزگار اور کسبِ معاش کے مواقع مہیا کیے جائیں گے تاکہ وہ اپنے قدموں پر کھڑی ہوسکیں۔ اُنہیں مکمل سماجی و معاشی تحفظ فراہم کر کے ان کے خلاف تمام اِمتیازی رسوم اور ظالمانہ قوانیں ختم کیے جائیں گے۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم آبادیاں برابر کی حق دار ہیں۔
9۔ سرکاری و غیر سرکاری چھوٹے بڑے ملازمین کے درمیان تنخواہوں کے فرق کو ممکنہ حد تک کم کیا جائے گا۔ تنخواہوں کے scales اور structure کو review کیا جائے گا۔
10۔ فرقہ واریت اور دہشت گردی کے خاتمے کی اِنقلابی پالیسی بنائی جائے گی۔ 10 ہزار peace training centres قائم کیے جائیں گے۔ مدارس اور اسکولز کے نصابات میں ترامیم اور جدت پیدا کی جائے گی۔ پورے معاشرے کو اِنتہاء پسندی سے پاک اور معتدل بنایا جائے گا تاکہ یہاں اَمن، حفاظت، خوش حالی اور ترقی کی ضمانت فراہم کی جائے۔
اِن اِقدامات کے ذریعے ملک میں investment کا سازگار ماحول پیدا کیا جائے گا۔ اس سے نہ صرف چھوٹے بڑے تاجر اپنا سرمایہ باہر لے جانے کی بجائے پاکستان میں invest کریں گے بلکہ غیر ملکی سرمایہ کار اور بیرونِ ملک پاکستانی بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اِن تمام اِنقلابی اِقدامات کے لیے وسائل کہاں سے آئیں گے؟
اس کا جواب واضح کردوں کہ اِس ملک میں بے حساب وسائل ہیں۔ میں صرف تین چیزوں کی نشان دہی کروں گا تاکہ تصور واضح ہو جائے:
اِس اِنقلابی منشور کو قابلِ عمل بنانے کے لیے سب سے پہلے کرپشن کا خاتمہ کیا جائے گا اور ملک سے لوٹی ہوئی دولت سوئس بینکوں سے واپس لائی جائے گی۔ سوئٹرزر لینڈ میں کل 13 بینک ہیں جہاں دوسرے ملکوں کا کالا دھن جمع ہوتا ہے۔ ان میں سے صرف دو بینکوں میں ہمارے حکمرانوں اور سیاسی و مذہبی لیڈروں کے ایک سو ارب ڈالر یعنی دس ہزار ارب روپے جمع ہیں۔ اِنقلاب کے بعد ایسے تمام لیڈروں کو قابو کرکے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے لیے سوئس بینکوں کے ساتھ معاہدہ کریں گے اور ایک غیر جانب دار ادارہ مقرر کریں گے جو معاہدے کے تحت بین الاقوامی قوانین کے مطابق پاکستان کا لوٹا ہوا سرمایہ واپس لائے گا۔ یوں ہم عوام کے پیسے سے عوام کے حالات بدلیں گے۔
حکومت نے اِس معاملے میں بھی دھوکا دہی کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ حکومت پارلیمنٹ کے فلور پر کیوں نہیں بتاتی کہ سوئس بینکوں میں کن کن کے اکاؤنٹس ہیں؟ کرپٹ لوگوں کے نام ریکارڈ پر لانے چاہییں مگر وزیر خزانہ ہرگز ایسا نہیں کریں گے اور نہ ہی قوم کو رپورٹ دیں گے۔
پاکستان میں قدرتی وسائل کی کمی ہرگز نہیں ہے۔ اللہ رب العزت نے اس پاک سرزمین میں اتنے معدنی وسائل رکھے ہیں کہ پاکستان بھی سعودی عرب اور ایران کی طرح امیر ہو سکتا ہے، مگر یہاں کے کرپٹ لیڈروں نے آج تک پاکستان کی زمین کے سینے میں چھپے ہوئے خزانے نکالنے کی اجازت ہی نہیں دی۔
٭ صرف بلوچستان میں Reko Diq سونے کی اتنی بڑی کان ہے جہاں ایک ہزار ارب ڈالر یعنی ایک لاکھ ارب روپے کا سونا ہے۔ اس سے پورے ملک کے غریبوں کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے میں نے جتنے پروگرام دیے اور structural reforms کا اِنقلابی ایجنڈا دیا ہے، ان کے سارے اخراجات صرف تنہا Reko Diq سے پورے ہو سکتے ہیں بشرطیکہ ایمانداری کے ساتھ اس کی کھدائی کی جائے اور اس پر کمیشن یا kickbacks نہ لی جائیں۔ ایسی کمپنیوں کو ٹھیکے دیے جائیں جو جائز منافع لیں اور پاکستان کو سونا نکال کر دے دیں۔
٭ Sandak Gold Mine میں پچاس ارب ڈالر یعنی پانچ ہزار ارب روپے مالیت کا unclean gold موجود ہے۔
٭ کوئٹہ سے زیارت کے روٹ میں پلاٹینم کی کانوں میں ایک ٹریلین ڈالر یعنی ایک لاکھ ارب روپے کا پلاٹینم ہے۔
٭ اسی طرح یورینیم کی کانوں میں دو ٹریلین ڈالر یعنی دو لاکھ ارب روپے کا یورینیم پڑاہے۔
٭ مزید برآں کراچی سے جیوانی کی سرحدی پٹی اور ایران کے ساتھ ملحقہ بارڈر میں دو ٹریلین ڈالر یعنی دو لاکھ ارب روپے کے تیل کے ذخائر (oil reserves) موجود ہیں۔
مگر افسوس کہ 65 سال میں کسی بھی جگہ کھدائی نہیں کرنے دی گئی۔
٭ گوادر 20 ارب ڈالر یعنی دو ہزار ارب روپے سالانہ دے سکتا ہے۔
بلوچستان کی سرزمین میں اللہ رب العزت نے وہ وسائل دیے ہیں کہ پاکستان دس سے بیس سال کے اندر اندر سعودی عرب اور عرب امارت کی طرح امیر ہو سکتاہے۔ اِس کا آغاز ہم عوام کو اِقتدار منتقل ہونے کے پہلے سال میں ہی کرسکتے ہیں جس سے غریبوں کے حالات بدلنے لگ جائیں گے۔
اَصل مسئلہ یہ ہے کہ حکمران ہرگز ایسا نہیں ہونے دیں گے کیونکہ یہ اپنے ذاتی کمیشن کے لیے معدنیات نہیں نکالتے۔ موجودہ حکمرانوں کی اِس بابت کئی میٹنگز ہوئی ہیں اور یہ سونے اور یورینیم کی کانوں سے معدنیات نکالنے پر اپنا حصہ مانگتے ہیں۔ دس ارب ڈالر یعنی ایک ہزار ارب روپے صرف معاہدہ کرنے کا مانگتے ہیں اور حصے داری (partnership) کا الگ مانگتے ہیں۔ دنیا کی آٹھ بڑی گولڈ مائن کمپنیوں کے ساتھ مذاکرات ہورہے ہیں اور اس سلسلے میں دبئی، جدہ، لندن، نیویارک وغیرہ میں ملاقاتیں بھی کرچکے ہیں۔ اگر چاہیں تو میں اُن دفتروں کے پتے اور تاریخیں بھی بتا سکتا ہوں جہاں یہ حکمران ان کمپنیوں سے ملے ہیں۔ یہ حرام کھانے کے لیے کمیشن اور رشوت مانگتے ہیں جس کی وجہ سے قوم غربت کی آگ میں جل رہی ہے۔
اِنقلابی ایجنڈے پر عمل پیرا ہونے کے لیے وسائل پیدا کرنے کا تیسرا ذریعہ کرپشن کا خاتمہ ہے۔ جب ہماری حکومت میں عوام کا اِقتدار آئے گا تو کوئی حکمران کرپشن نہیں کرسکے گا۔
پاکستان میں کم اَز کم ایک سو ارب روپے ماہانہ کی کرپشن ہوتی ہے اگرچہ رپورٹس پندرہ سو ارب روپے ماہانہ کی ہیں۔ یہ اَعداد و شمار سرکاری طور پر مصدقہ ہیں۔ NAB کے سابق چیئرمین نے بھی بیان کیا تھا اور بین الاقوامی ایجنسیاں بھی یہی بتاتی ہیں۔ رشوت، کمیشن اور kickbacks بھی کرپشن کی قسم ہیں، بڑے بڑے سودوں میں تیس چالیس فیصد کے حساب سے حصہ کھانا بھی کرپشن ہے۔ ٹیلی فون کے محکمے، بجلی کے کنکشن، transformers کی تبدیلی و مرمت اور بلوں کی درستگی، ٹیکس، ریونیو اور کسٹم ڈیوٹی میں بھی کرپشن ہے؛ الغرض جہاں جائیں ہر محکمے اور دفتر میں کرپشن اور لوٹ مار ہے۔
اگر ہم اس کا ایک چوتھائی بھی کنٹرول کرلیں تو پچیس ارب روپے ماہانہ بچت شروع ہوجائے گی جو غریبوں پر خرچ ہوگی۔ جب پچاس فیصد کنٹرول کرلیں گے تو پچاس ارب روپے ماہانہ بچت ہوگی۔ اِس طرح سال کا حساب لگائیں گے تو چھ سو ارب روپے سالانہ صرف یومیہ روٹین کی کرپشن سے بچت ہوگی جو غریبوں کی طرف جائے گی۔
اس ملک میں شفافیت اور اِحتساب نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ یہاں حرام خوری اور کرپشن کا نظام ہے۔ اپنی حرام خوری اور کرپشن چھپانے کے لیے اِحتساب کا چیئرمین بھی دونوں پارٹیوں نے مک مکا سے مقرر کیا ہوا ہے۔
فیڈرل بورڈ آف ریوینو (FBR) کی رپورٹ کی مطابق tax leakage کی مد میں پاکستان کو سالانہ دو ہزار ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ہم اس پر بتدریج کنٹرول کریں گے اور ٹیکس چوروں کا محاسبہ کریں گے۔
FBR کے مطابق اِس ملک میں 3.8 ملین (تقریباً چالیس لاکھ) اَفراد ٹیکس چوری میں ملوث ہیں جنہیں ٹیکس نیٹ میں لانا ہے۔ لہٰذا تاجروں اور دیگر طبقات کی مشاورت سے ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے گا تاکہ وہ اَز خود بآسانی اپنا ٹیکس ادا کرسکیں۔ اِس طرح کم اَز کم پانچ سو ارب روپے سالانہ آمدن اور وسائل میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔
یہ حقیقت اَلمیہ سے کم نہیں کہ حکومت خود ٹیکس چوری میں ملوث ہے۔ موجودہ حکومت نے اپنے سیاسی لوگوں کے لیے 11 ماہ میں اَسّی SROs جاری کرکے ٹیکس چوری کروائی ہے۔ اِس طرح صرف 11 ماہ میں قومی خزانے کو تقریباً 500 ارب روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔ ان سارے SROs یعنی Statutory Regulatory Orders کے نمبرز اور تفصیلات بھی میرے پاس ہیں۔ حکمرانوں نے اپنی شوگر ملوں کے لیے ٹیکس چوری کروایا ہے اور ایکسائز ڈیوٹی چھڑوائی ہے یعنی tax exemptions بھی دی ہیں اور deductions بھی کی ہیں۔ الغرض یہ وہ طریقے ہیں کہ ایک طرف ٹیکس نادہندہ ہیں اور دوسری طرف خود حکومتی طبقات اپنے ذاتی مفادات کے لیے ٹیکس چوری کرواتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہر حکومتی محکمہ نادہندہ ہے اور اس کے ذِمہ رقوم واجب الادا ہیں۔
اگر مملکتِ خداداد میں زکوٰۃ کی شفاف collection ہو اور لوگوں کا اِعتماد بحال ہو جائے تو اربوں روپے غریبوں کی خوش حالی پر خرچ ہوسکتے ہیں۔
ہر فرد جانتا ہے کہ جونہی یکم رمضان المبارک قریب آتا ہے تو بینکوں سے رقوم نکلوا لی جاتی ہیں کیونکہ سرکاری نظامِ زکوٰۃ پر لوگوں کا اِعتماد نہیں رہا کہ ان کی رقوم صحیح مصرف پر خرچ ہوں گی۔ زکوٰۃ کی رقم سرکاری اللوں تللوں اور کرپشن پر خرچ ہوتی ہے۔ اگر اِس ملک میں ایمان دار اور دیانت دار لیڈرشپ اور کرپشن سے پاک نظام آجائے اور لوگوں کا اِعتماد بحال ہوجائے کہ دین کے اَہم رُکن زکوٰۃ کے مال میں ایک پائی کی کرپشن بھی نہیں کی جائے گی تو قوم اپنی زکوٰۃ بینکوں کے ذریعے ادا کرنے پر تیار ہوگی۔
بڑے بڑے رفاہی ادارے دنیا بھر کے پاکستانی مسلمانوں کی زکوٰۃ سے چل رہے ہیں۔ قوم اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور زکوٰۃ دینا چاہتی ہے۔ آج 11 مئی کی ہی مثال لے لیں۔ ہم نے 60 شہروں میں سے کسی ایک شہر میں بھی بسوں اور ٹرانسپورٹ کے کرائے وغیرہ کے لیے کسی تنظیم کو کچھ نہیں دیا، بلکہ نظام کی تبدیلی اور حقیقی جمہوریت کے قیام کے لیے تمام تر اَخراجات عوام اور کارکنان نے خود اپنی جیب سے کیے ہیں۔
اِنقلاب کے بعد آزاد، مضبوط اور مستحکم معاشی پالیسی بنائی جائے گی۔ اسٹیٹ بینک، تمام شیڈولڈ بینکوں، DFIs اور SECP وغیرہ جیسے اداروں کو حکومت اور سیاسی تقرریوں کے اثر و رسوخ سے آزاد کردیں گے۔ اِسی طرح وہ تمام 58 ادارے بھی آزاد کردیے جائیں گے جن کے بارے میں سپریم کورٹ نے 22 جولائی 2013ء کو فیصلہ صادر کیا تھا کہ وزیر اعظم یا سیاسی لوگ ان کے سربراہ کی تقرری نہیں کرسکتے، مگر موجودہ وزیر اعظم نے سپریم کورٹ کے احکامات کو ردّ کرکے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے منسوخ کردیا کہ 58 میں سے 40 اداروں پر خود اپنے ذاتی ملازمین کی تقرریاں کریں گے تاکہ ملک میںکرپشن کا بازار گرم کرسکیں اور وہ لوگ انہیں تحفظ فراہم کریں۔
آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، اے ڈی بی اور آئی ڈی بی سے عوام کی مرضی اور پارلیمنٹ کی منظوری کے ساتھ قرضے لیے جائیں گے اور کوئی کام مخفی نہیں ہوگا۔
یہاں ایک بڑا اَہم سروے بیان کرنا چاہوں گا۔ 1985ء سے لے کر 2013ء تک کے 28 سالہ دور میں برسر اِقتدار آنے والی حکومتوں نے IMF اور ورلڈ بینک سے جتنا قرض لیا، وہ کل 59 ارب ڈالر بنتا تھا۔ ہم اسے 60 ارب ڈالر کہہ سکتے ہیں۔ اِس کل قرضے کی سالانہ اَوسط نکالی جائے تو دو ارب دس کروڑ ڈالر بنتی ہے۔ اب معاشی ترقی کے دعوے دار موجودہ حکمران - جن کا کبھی یہ کہنا تھا کہ ’قرض اتارو، ملک سنوارو‘ - اِس وقت 180 ڈگری کی متضاد سمت پر چل رہے ہیں۔ اُنہوں نے صرف 11 ماہ میں 24 ارب ڈالر کا قرض منظور کروایا ہے۔ یہ قرض قسطوں میں ملے گا،جس میں سے بہت کچھ مل چکا ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب بھی نہیں کہ قرض لینے کا یہ سلسلہ اِسی ایک سال میں بند ہو جائے گا بلکہ حکمران ہر سال مزید قرضے منظور کرائیں گے۔ پھر short term قرضے بھی لیے جائیں گے۔ پاکستان پر 28 سال میں جتنا قرض چڑھا، اگر یہ حکومت پانچ سال رہی تو اس سے کئی گنا زیادہ مقروض کرے گی۔ یہ پاکستان کی نسلوں کو مقروض چھوڑ کر جائیں گے۔
پاک ریلوے، NHA ،PIA، واپڈا، پاک اسٹیل، پورٹ قاسم، KPT ،OGDC ،PSO ،SNG/SSG اور بہت سے قومی ادارے جنہیں نجکاری کے نام پر بانٹا جارہا ہے - حالانکہ وہ نفع دے رہے تھے یا نفع دینے کے قابل ہیں - ہم ان اداروں کو ڈیڑھ سے دو سال کے اندر دوبارہ نفع بخش بنائیں گے۔ اِس سے ایک ہزار ارب روپے سالانہ آمدن ہوگی۔
پاکستان میں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ ایسے قومی اِداروں کو منافع بخش بنانے کے بجائے بیچ کر کھانے کا سامان ہو رہا ہے اور IMF اور World Bank سے لیے گئے قرضوں کی ادائیگیاں ہو رہی ہیں۔
الغرض میں نے جو حقائق آپ کے سامنے رکھے، ان کا لبِ لباب یہ ہے کہ اِس ملک میں وسائل کی کمی نہیں ہے۔ اِس ملک کو کرپٹ لیڈر کھا گئے ہیں۔ اِن شاء اﷲ تعالیٰ! عوامی سبز اِنقلاب اس ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کردے گا۔
سرکاری طور پر سادہ طرزِ زندگی کا نظام اپنایا جائے گا۔ ترقیاتی بجٹ کے نام پر کروڑ ہا روپے MNAs اور MPAs کی جیبوں میں جاتے ہیں۔ غریب اور چھوٹے ملازمین کی تنخواہیں تو صرف پانچ دس فیصد بڑھتی ہیں جب کہ اِقتدار پر براجمان MNAs اور MPAs کی تنخواہیں یک لخت ایک بل کے ذریعے سو فیصد سے دو سو فیصد تک بڑھا دی جاتی ہیں۔ حرام خوری اور کرپشن کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ غریب دشمنی اور ملک لوٹنے کے ایسے تمام اِقدامات پر پابندی ہوگی۔ نیز ایوانِ صدر، وزیر اَعظم ہاؤس، گورنر ہاؤسز، وُزراے اَعلیٰ اور وزراء و مشیران کی تنخواہیں، perks اور priviliges پر برباد ہونے والے ہزار ہا ارب روپے سادہ نظامِ زندگی کے ذریعے سے پہلے مہینے میں ہی اِن شاء اﷲ کنٹرول کر لیے جائیں گے کیونکہ یہ عوام کا حق ہے اور انہی کو ملے گا۔
موجودہ وزیر اعظم صاحب نے پندرہ بیس افراد کے ہمراہ ترکی بھی جانا ہو تو معمول کی فلائٹ پر نہیں جاتے۔ حرام کے پیسوں پر پلنے والے یہ حکمران پورا جہاز خالی کرواتے ہیں۔ وہ جہاز تین دن تک ترکی میں کھڑا رہا اور اُس کی روزانہ کی کمائی بھی ضائع ہوئی۔ جس دن واپسی تھی، اچانک اِرادہ ملتوی کر دیا گیا۔ تمام لوگ اور پی آئی اے کی انتظامیہ حیران رہ گئی کہ دفعتاً پروگرام کیوں تبدیل ہوگیا؟ خبر ملی کہ ترکی کے ایک خاص ریسٹورنٹ کا کھانا وزیراعظم صاحب کو بہت پسند ہے۔ مصروفیات کے باعث وہ اس کا کھانا نہیں کھا سکے، لہٰذا اس کا کھانا کھا کر اگلے دن واپسی ہوگی۔
جب اِس طرح کے حکمران ہوں گے تو ادارے کبھی منافع میں نہیں ہوں گے، بلکہ خسارے میں ہی جائیں گے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved