باوجود اس امر کے کہ بعض لوگ توسُّل کے جواز پر قرآن و سنت کے جمیع اَحکام اور عملِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں، وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ دُنیوی زِندگی میں تو ایک دوسرے کے کام آنا اور ایک دوسرے کا وسیلہ و مدد مانگنا اور مدد کرنا بھی جائز ہے۔ لیکن موت کے بعد بندے کا اپنے بدن پر اختیار نہیں ہوتا، تب اُس سے کیونکر توسُّل کیا جاسکتا ہے؟ اور چونکہ وہ وسیلہ بننے پر قدرت نہیں رکھتا، لہذا اخروی زندگی میں اس سے توسُّل کرنا شرک ہے۔
یہ ایک کج فہمی ہے جس کو دور کرنے کے لئے ہم دو چیزوں کی وضاحت بطورِ خاص کرنا چاہیں گے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ایک طے شدہ اَمر ہے کہ بندہ زندہ ہو یا قبر میں آرام کر رہا ہو دونوں صورتوں میں وہ اپنے وجود پر قطعاً مطلق طور پر با اختیار نہیں ہوتا۔ یہ محض اللہ تعالی کی طرف سے عطا کر دہ وہ اختیارات ہوتے ہیں جنیں ہم حیاتِ دنیوی کے دوران استعمال کرتے اور دنیا بھر کے معاملات سر انجام دیتے پھرتے ہیں۔ یہ اختیار اللہ رب العزت کی عطا سے قائم ہے، اور اگر اس ظاہری حیات میں بھی اللہ تعالی اپنا دیا ہو ا یہ اختیار چھین لے تو بندہ ایک تنکا توڑنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ سو جس طرح اس عالم اسباب میں بندے کے جملہ اختیارات کا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہے اور اس کے باجود بھی اس سے توسُّل کرنا یا مدد طلب کرنا شرک نہیں بلکہ ایسا کرنا حکم خداوندی کے تحت جائز ہے، بالکل اسی طرح موت کے بعد بھی اگر کسی بندۂ بشر کو وسیلہ بنایا جائے تو اسے اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے مختار مانا جائے گا۔ جس طرح زندگی میں کسی بھی صورت میں بندے کو مستغاث و مختار حقیقی ماننا شرک ہے لیکن اسے وسیلہ بہرحال بنایا جاسکتا ہے اور مجازاً اسے مدد کے لئے بھی پکارا جاسکتا ہے اسی طرح بعد از موت اولیاء و صلحاء کو وسیلہ بنانا اور مستغاثِ مجازی مان کر ان سے استغاثہ کرنابھی جائز ہے۔ شرک بہرحال شرک ہے خواہ وہ زندہ سے ہو یا فوت شدہ سے اور مجازی طور پر مالک و مختار مان کر مدد مانگنا زندہ سے ہو یا اہل مزار سے دونوں صورتوں میں شرک نہیں ہوگا۔ اسلام کے معیار دہرے نہیں۔ یہ نہیں کہ کوئی کام مسجد میں تو شرک نہ ہو اور مندرمیں جاکر وہی عمل کریں تو شرک ہو جائے۔ اسلامی احکام اور ان سے ثابت ہونے والے نتائج ہر جگہ یکساں اثرات کے حامل ہوتے ہیں۔ اس بنا پر اگر کسی ڈاکٹر کو مستغاثِ حقیقی سمجھ کر اس سے علاج کروایا جائے تو یہ شر ک قرار پائے گا۔اس کے برعکس جب اللہ رب العزت ہی کو مستغاثِ حقیقی جان کر کسی بزرگ کی دعایا کسی صاحبِ مزار کے وسیلے کو شفایابی کا ذریعہ بنایا جائے تو وہ بھی عین روا ہے اور اسے ہرگز خلافِ شریعت اسلامی نہیں گردانا جاسکتا۔
انسانیت کا مقصودِ حقیقی ’انسان مرتضی‘ بننا اور معرفتِ الہٰی سے سرشار ہونا ہے۔ چنانچہ مقصود کو پانے کے لئے اولیاء اور صلحاء کی ذات کو وسیلہ بنایاجاتا ہے، اس لئے کہ وہ معرفتِ الہٰی سے نہ صرف خود آشنا ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اس رنگ میں رنگ دیتے ہیں۔ یہی سبب تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تعلیمِ امت کے لئے خود کو زمرۂ صلحاء میں شامل ہونے کے لئے بارگاہ ِ ربوبیت میں دعا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں:
رَبِّ ھَبْ لِیْ حُکْماً وَّ أَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَO
الشعراء، 26 : 83
اے میرے رب! مجھے علم و عمل میں کمال عطا فرما اور مجھے اپنے قربِ خاص کے سزاواروں میں شامل فرما لے۔
یہاں حُکْماً سے مراد قوتِ علمیہ و عملیہ کا نقطۂ کمال تک پہنچنا ہے۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒ فرماتے ہیں :
أی کمالا فی العلم و العمل بحیث یستعد خلافۃ الحق و ریاسۃ الخلق۔
التفسیر المظہری، 7 : 72
یعنی علم و عمل میں ایسا کمال جس سے خلافتِ الہیہ کا منصب جلیل سنبھالنے اور مخلوق کی سیاست و رہبری کی مکمل استعداد اور ملکہ پیدا ہو جائے۔
امام فخری الدین رازی ؒ لکھتے ہیں :
اگر حُکْمًا سے ’علم‘ مراد لیا جائے تو اس امر میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ آپ نے اللہ سے ایسا علم مانگا جس کے سبب آپ اس کی ذات اور صفات میں ہمہ تن مستغرق ہوجائیں۔ آپ ایسے علم کے باب میں جو شامل باللہ مع صفاتہٖ ہو، یوں رقمطراز ہیں:
و ھذا یدل علی أن معرفۃ اللہ تعالی لا تحصل فی قلب العبد إلا بخلق اللہ تعالٰی، و قولہ : {وَأَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ} یدل علی أن کون العبد صالحا لیس علی أن کون العبد صالحا لیس إلا بخلق اللہ تعالی۔
التفسیر الکبیر، 24 : 148
یہ علم دلالت کرتا ہے کہ معرفت الہیہ بندے کے دل میں اللہ کی مخلوق کے ذریعے ہی حاصل ہوسکتی ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ قول… اور مجھے اپنے قربِ خاص کے سزاواروں میں شامل فرما لے… اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بندے کاصالح ہونا محض اللہ کے پیدا کرنے سے ہوتا ہے۔
لہذا معرفتِ الہیہ کا حصول عبادِ صالحین (نیک و متقی بندے) کے وسیلہ ہی سے ممکن ہے۔ اور ان کی سنگت اور صحبت اختیار کرناکہ ان کے توسُّل سے معرفتِ الٰہیہ نصیب ہو، سنتِ انبیاء ہے اور جو بندہ بارگاہِ اُلوہیّت سے عبادِ صالحین کے وسیلے سے اس کی معرفت کا طلبگار ہوتا ہے، اس کی دعا اِجابت سے سرفراز ہوتی ہے اور اسے صالحین میں شمار کر لیا جاتا ہے۔ پھر وہ معرفتِ اِلٰہیّہ سے اس درجہ سرشار ہوتا ہے کہ اسے تقرب الٰہیہ کا مقام رفیع حاصل ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَ إِنَّہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَO
البقرۃ، 2 : 130
اور یقیناً وہ آخرت میں (بھی) بلند رتبہ مقرّبین میں ہوں گے۔
اللہ کے انہی صالح و نیکو کار اور بلند مرتبہ والے متقین کو وسیلہ بنانے کے استشہاد میں ثبو ت کے طور پر کلامِ مجید کی صرف وہی آیت کافی ہے جس میں اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو نیک و صالح بندوں کی صحبت اختیار کرنے کا صریح حکم فرما رہا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰأَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَO
التوبۃ، 9 : 119
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیّت) میں شامل رہو۔
اس آیت میں ربِّ ذوالجلال جہاں جمیع اہلِ ایمان کو اپنے تقوی اور للّٰھیّت کا درس دے رہا ہے، وہاں انہیں اہلِ صدق کی سنگت و معیّت اپنانے کا حکم بھی دے رہا ہے تاکہ اہلِ صدق کے وسیلے سے اہلِ ایمان بھی وہ مقام حاصل کریں جس پر اہلِ صدق فائز ہیں۔ اسی طرح ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے :
وَ اتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ أَنَابَ إِلَیَّ۔
لقمن، 31 : 15
اور راہ اسکی اختیار کرو جو ہماری طرف رجوع ہوا۔
اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام کی دعا قرآنِ حکیم میں یوں مذکور ہے :
تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّ أَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ O
یوسف، 12 : 101
مجھے حالتِ اسلام پر موت دینا اور مجھے صالح لوگوں کے ساتھ ملا دے۔
تاجدارِ کائنات حضرت محمد مصطفیﷺ بھی اکثر انہیں قرآنی الفاظ کے ساتھ بارگاہِ ایزدی میں دستِ بہ دعا رہا کرتے تھے۔
1۔ مسند احمد بن حنبل، 5 : 191
2۔ المستدرک للحاکم، 1 : 512
3۔ المعجم الکبیر، 5 : 157، 119، رقم : 4932، 4803
4۔ مجمع الزوائد،10 : 113
اب حضورﷺ کی حدیث کی حیثیت کے بارے میں تو بعض لوگ اعتراض کرسکتے ہیں کہ یہ ضعیف ہے، یا موضوع ہے، وغیرہ۔ جبکہ قرآن پاک میں مذکور حضرت یوسف علیہ السلام کی دعا کے الفاظ کا تو کسی صورت بھی انکار ممکن نہیں کیونکہ قرآن مجید تو نصِ قطعی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ معیّت و توسُّلِ صالحین کی دعائیں مانگنا اللہ کے برگزیدہ انبیاء علیہم السلام کی سنت چلی آرہی ہے اور قرآنِ حکیم میں ایسی دعائیں بیان کرنے کا مقصد صرف یہی ہوسکتا ہے کہ ہم بھی انبیاء علیہم السلام کی سنت اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیں۔
ابن الفِراسی روایت کرتے ہیں کہ ِفراسی نے نبی رحمۃ للعالمینﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کیا : اے اللہ کے رسول! کیا میں آپ سے مانگوں؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
لا، و إن کنتَ سائلاً لا بُدَّ فسَلِ الصالحینَ۔
1۔ سنن ابو داؤد، 1 : 240
2۔ سنن النسائی، 1 : 262
3۔ مسند احمد بن حنبل، 4 : 334
4۔ التاریخ الکبیر للبخاری، 7 : 138
5۔ السنن الکبری للبیہقی، 4 : 197
6۔ التمھید لا بن عبدالبر، 4 : 107
7۔ کنز العمال، 6 : 502، رقم : 16721
نہیں، اور اگر سوال کئے (یعنی مانگے) بغیر گزارہ نہ ہوسکے تو تم صالح اور نیک لوگوں سے سوال کرو۔
یہ روایت صحیح ہے۔
بعض لوگوں کے خیال میں نیک و بابرکت اور صالح لوگوں کی دعا ان کی زندگی میں تو قبول ہوتی ہے لیکن بعد از وفات وہ اپنے پسماندگان کی کوئی مدد نہیں کر سکتے اور نہ ان کے لئے فائدہ بخش ہوسکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ صرف اپنی ظاہری حیات میں کسی کے لئے امداد رساں ہیں، بعد از وفات نہیں۔ایسا عقیدہ رکھنا شرک ہے۔
ایسا نظریہ رکھنے والے لوگ سخت غلط فہمی کا شکار ہیں کیونکہ صورتحال اسکے برعکس ہے۔ یہ بات بالکل بجا ہے کہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات جلّ شانہٗ ہی مستغیث اور منبعِ برکت ہے اور کبھی بھی کوئی انسان مطلق معنوں میں مبنعِ فیض نہیں ہوتا۔ لہذا یہ سوچ کہ … اللہ تعالی نیک لوگوں کے وسیلہ سے اس وقت تو دیتا ہے جب وہ زندہ ہوتے ہیں اور جب وہ اس دارِ فانی سے کوچ کرکے ابدی گھر چلے جاتے ہیں اس وقت اللہ تعالیٰ ان کے وسیلہ سے نہیں دیتا… ایک بہت بڑا مغالطہ ہے۔ دراصل یہ سوچ تب پیدا ہوگی جب خدا کے مقابلے میں اس بزرگ کو منبعِ امداد مانا جائے اور اس کی فیض بخشی کو اوّلاًترجیح دی جائے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ذات فقط خداہی کی ہے جو اپنے صالحین و اولیاء کے توسُّل سے … ان کی زندگی اور موت دونوں صورتوں میں … لوگوں کی حاجات پوری کرتی ہے۔
جو لوگ صالحین واولیاء کو بعد از وصال وسیلہ بنانے پر اعتراض کرتے ہیں، وہ گمراہی میں مبتلا ہیں اور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ ان کے اعتراضات اس غلط فہمی پر مبنی ہیں کہ وسیلۂِ اولیاء و صلحاء سے رحمتِ الہی کا حصول ان کی زندگی تک موقوف ہے۔ جبکہ درحقیقت اللہ تعالی کا صلحاء و اولیاء کے وسیلے سے عطا کرنا ان کی حیات و ممات سے غیر متعلق ہے۔ آئندہ صفحات میں دی جانے والی احادیث و آثار سے بھی معترضین کے ان شبہات کا ازالہ ہوجائے گا۔ یہ مسلمہ امر ہے کہ صلحاء و اولیاء اور بزرگانِ دین سے ان کی وفات کے بعد توسُّل کرنا نہ صرف جائز بلکہ یہ عمل کبار صحابۂ کرامث، ائمہ و محدثین اورشیوخ کی سنت رہا ہے۔ یہی وہ گروہِ امت ہے جس کے نقشِ قدم پر چل کر ہم ہدایت پاسکتے ہیں۔ جیسا کہ امام ابن تیمیہ اپنی کتاب ’العقیدۃ الواسطیۃ‘ کے آخر میں اس بحث کے لُبِّ لُبا ب کے طور پر لکھتے ہیں :
صار المتمسکون بالإسلام المحض الخالص عن الشوب، ھم أھل السنۃ والجماعۃ، و فیھم الصدیقون و الشھداء و الصالحون، و منھم أعلام الھدی و مصابیح الدجی أولو المناقب المجثورۃ و الفضائل المذکورۃ، و فیھم الأبدال، و فیھم أئمۃ الدین الذین أجمع المسلمون عل ھدایتھم، و ھم الطائفۃ المنصورۃ الذی قال فیھم النبیﷺ : لا تزال طائفۃ من أمتی علی الحق منصورۃ لا یضرھم من خالفھم ولا من خذلھم حتی تقوم الساعۃ۔
شرح العقیدۃ الواسطیۃ : 153
اہل سنت و الجماعت ہی ہر قسم کی آمیزش سے بچتے ہوئے دینِ اسلام کے ساتھ متمسک (چمٹے ہوئے) ہیں۔ ان میں صدیقین، شہداء اور صالحین (درجہ بدرجہ) شامل ہیں۔ اور انہی میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو منبعِ ہدایت اور مینارۂ نور ہیں۔ یہ بڑے ہی ذی مناقب، اور اعلی فضائل والے افراد ہیں۔ ابدال اور ائمئہ دین بھی انہی میں سے ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو اپنی ہدایت (کے راستے) پر جمع کیا۔ یہی وہ گروہ ہے (جسکی حق پر) مدد کی گئی ہے (اور) جسکے بارے میں نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا تھا : ’’میری امت کا ایک گروہ جسکی حق سے تائید کی گئی ہے، انعقادِ قیامت تک کبھی ختم نہ ہوگا اور ان کی مخالفت یا تذلیل کرنے والے انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے‘‘۔
اَب رہا یہ اعتراض کہ اہلِ قبور کو وسیلہ نہیں بنایا جاسکتا اور انہیں مدد کرنے کی استعداد حاصل نہیں ہوتی۔یہ نظریہ قرآنی آیات کے صحیح مفہوم سے مستنبط نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اہل اللہ کی برزخی حیات کا ذکر فرمایا ہے۔ حیاتِ شہداء کے بارے میں تو کسی مسلک و مذہب کے پیروکاروں میں بھی اختلاف نہیں ہے۔ جس نبی ﷺ کے ادنی امتی مرتبۂ شہادت پا کر قیامت تک کے لئے زندہ ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق بھی بہم پہنچایا جاتا ہے اس نبی کریم ﷺ کی اپنی حیاتِ برزخی کی عظمتوں کا عالم کیا ہوگا! پس سرور کائنات ﷺ کو حیات بعد از ممات کے عقیدے کے تحت مستغاثِ مجازی قرار دیتے ہوئے آپﷺ سے توسُّل، استعانت اور استمداد کرنا بالکل اسی طرح سے درست ہے جیسے آپﷺ کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں جائز تھا۔ حتی کہ آپﷺ کی حیات برزخی کا تویہ عالم ہے کہ امت کی طرف سے آپﷺ پر درود و سلام کے جو نذرانے پیش کئے جاتے ہیں، وہ بھی فرشتے شب و روزآپﷺ کی بارگاہ میں پہنچانے پر مامور ہیں۔
اگر توسُّل، طلبِ شفاعت اور استغاثہ کفر و شرک کے مترادف تسلیم کیا جائے تو پھر دنیاوی زندگی، حیاتِ برزخی اور آخرت میں ہر جگہ اسے کفر و شرک پر محمول ہونا چاہیے … کیونکہ شرک تو اللہ تعالی کو ہر حال میں ناپسند ہے… مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ تعلیماتِ اسلامی میں اس کا ذکر صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ زندگی میں بھی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بے شمار مواقع پر آنحضورﷺ سے توسُّل و استغاثہ کیا اور بعد از وصال بھی نیز قیامت کے روز بھی انہیں کے در پر لوگ استغاثہ کریں گے اور انہیں وسیلہ بنائیں گے۔ یہ توسُّل و استغاثہ ہی کا صلہ ہوگا کہ شفیع مذنبینﷺ اللہ تعالی کی بارگاہ میں جمیع گناہگار مخلوق کی شفاعت کریں گے۔ سو جب حیات دنیوی اور حیات اخروی میں توسُّل و استغاثہ جائز ٹھہرا تو حیات کی وہ قسم جو ’’حیاتِ برزخی‘‘ کہلاتی ہے اس میں اسے شرک قرار دینا کس طرح سے درست ہوسکتا ہے؟
حیات بعد از موت یا قبر کی برزخی زندگی کی حقیقت قرآن و حدیث کی تعلیمات سے اسی طرح ثابت ہے جیسے قیامت کے روزجی اٹھنا۔ قرآن حکیم میں اللہ رب العزت کا ارشاد گرامی ہے :
کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَ کُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْیَاکُمْ ج ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ إِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَO
البقرہ، 2 : 28
تم کس طرح اللہ کا انکار کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے، اس نے تمہیں زندگی بخش، پھر تمہیں موت سے ہمکنار کرے گا اور پھر تمہیں زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
اس آیتِ کریمہ میں حیات و موت کی دو اقسام اور بالآخر یومِ آخرت کو تمام انسانیت کو اللہ تعالی کی بارگاہ میں لوٹائے جانے کا صراحتاً ذکر ہے۔ آیت کریمہ کی روشنی میں پہلی موت تو ہمارا عدم تھا، جب ہم ابھی عالم وجود میں نہ آئے تھے۔ اس کے بعد کی زندگی ہماری یہ دنیوی حیات ہے۔ پھر اس کے بعد موت آئے گی اور لوگ حسبِ حال ہماری تکفین و تدفین کریں گے۔ اس موت کے بعد کی زندگی حیاتِ برزخی کہلاتی ہے جوہر انسان کو قبر (یا موت کے بعد) میں میسر آئے گی اور فرشتے سوالات پوچھنے آتے ہیں اور جنت یا جہنم کی طرف سے ایک کھڑ کی میت کے احوال کے مطابق قبر میں کھول جاتے ہیں۔ اس دوسری زندگی کے آخری مرحلے میں ہمیں روزِ محشر اللہ رب العزت کی طرف لوٹایا جائے گا۔ یوں حیاتِ برزخی کا دورانیہ قبر میں سوالات کے لئے فرشتوں کی آمد سے لے کر روزِ محشر پھونکے جانے والے ُصورِ اسرافیل تک طویل ہے۔
یہ تو ایک عام انسان (خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر) کی حیاتِ برزخی کا معاملہ تھا، آئیے اب حیاتِ شہداء کے سلسلے میں سورہ بقرہ ہی کی ایک اور آیتِ مبارکہ ملاحظہ کرتے ہیں:
وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَمْوَاتٌ ط بَلْ أَحْیَآء وَّلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَO
البقرہ، 2 : 154
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مت کہا کرو کہ یہ مردہ ہیں، (وہ مردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں۔
اسی مضمون کو سورۂ آل عمران میں کچھ مختلف الفاظ کے ساتھ یوں ارشاد فرمایا گیا :
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَمْوَاتًا ط بَلْ أَحْیَآء عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَO
آل عمران، 3 : 169
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں انہیں ہرگز مردہ خیال (بھی) نہ کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے حضور زندہ ہیں، انہیں (جنت کی نعمتوں کا) رِزق دیا جاتا ہے۔
شہداء کی حیات پر تو بلا امتیاز ہر مسلک کے پیروکار قائل ہیں تاہم مذکورہ بالا آیاتِ کریمہ کے علاوہ متعدد احادیثِ مبارکہ میں بھی کفار و مشرکین کی موت کے بعد حیات اور زندہ لوگوں کے کلام کو مرنے کے بعد سننے پر قدرت کا ثبوت پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر غزوئہ بدر کے بعد سرورِ کائنات ﷺ نے خود کفار و مشرکین میں سے قتل ہو جانے والوں کو نام لے لے کر پکارا اور ان سے پوچھا:
فَإِنَّا قَدْ وَ جَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَھَلْ وَ جَدْتُّمْ مَّا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا؟
ہم نے تو واقعتا اسے سچا پالیا جو وعدہ ہمارے رب نے ہم سے فرمایا تھا، سو (اے کفار و مشرکین!) کیا تم نے بھی اسے سچا پایا جو وعدہ تمہارے رب نے (تم سے) کیا تھا؟
اس موقع پر سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بارگاہِ مصطفیﷺ میں یوں عرض گزار ہوئے : ’’ حضور! آپ ایسے جسموں سے خطاب فرما رہے ہیں جن میں روح ہی نہیں‘‘۔ اس پر آپﷺ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مخاطب ہو کر فرمایا:
والذی نفس محمد بیدہ! ما أنتم بأسمع لما أقول منھم۔
1۔ صحیح البخاری، 2 : 566
2۔ الصحیح لمسلم، 2 : 387
3۔ مسند احمد بن حنبل، 3 : 145
4۔ مسند احمد بن حنبل، 4 : 29
5۔ المعجم الکبیر للطبرانی، 5 : 96، رقم : 4701
6۔ شرح السنۃ للبغوی، 13 : 384، رقم : 3779
7۔ البدایۃ والنھایۃ، 1 : 210
8۔ فتح الباری، 7 : 301
9۔ مجمع الزوائد، 6 : 1۔ 90
اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد (ﷺ) کی جان ہے، میں ان (کفار و مشرکین) سے جو باتیں کر رہا ہوں وہ انہیں تم سے بڑھ کر سننے پر قادر ہیں۔
اس متفق علیہ حدیثِ مبارکہ کی رو سے تو کفار و مشرکین کو بعد از موت برزخی زندگی میں حاصل شدہ قوتِ سماعت نہ صرف عام زندہ انسانوں بلکہ زندہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی سماعت سے بھی بڑھ کر ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔
اسی طرح محسنِ کائنات ﷺ نے مسلمانوں کے قبرستان کے پاس سے گزرنے والے ہر شخص کو یہ تعلیم دی کہ وہ اہلِ قبور کو نہ صرف حرف نداء ’’یا‘‘ کے ذریعے مخاطب کرے بلکہ ان پر سلام بھی بھیجے۔ یہی سبب ہے کہ مسلمان اپنے بچوں کو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ قبرستان کے پاس گزرتے وقت وہ ’’السلام علیکم یا أھل القبور‘‘ (اے اہل قبور! تم پر سلامتی ہو۔) ضرور کہا کریں۔
جب کفار و مشرکین کی حیات، عامۃ المؤمنین کی حیات اور شہداء وصالحین کی حیات اپنے اپنے حسبِ حال قرآن و حدیث کی نصوص سے ثابت ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور بالخصوص تاجدارِ انبیاء ﷺ کی حیات کا انکار کیا جائے؟ باوجود اس امر کے کہ آنحضور ﷺ و اشگاف الفاظ میں بار ہا یہ اعلان فرما چکے ہیں :
إِنَّ اللّٰہَ حَرَمَ عَلَی الْأرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أَجْسَادَ الْاَنْبِیَآء، فَنَبِیُّ اللّٰہِ حَیٌّ یُّرْزَقُ۔
1۔سنن النسائی،1 : 204، 221
2۔ سنن ابو داؤد، 1 : 157
3۔ سنن ابن ماجہ : 77، 119
4۔مسند احمد بن حنبل، 4 : 8
5۔ صحیح ابن حبان، 3 : 191، رقم : 910
6۔صحیح ابن خزیمہ، 3 : 118، رقم : 1733
7۔ سنن الدارمی، 1 : 307، رقم : 1580
8۔ مصنف ابن ابی شیبۃ، 2 : 516
9۔ المستدرک للحاکم، 1 : 278
10۔ المعجم الکبیر للطبرانی، 1 : 217، رقم : 589
11۔ السنن الکبری للبیہقی، 3 : 249
اللہ تعالی نے زمین پر حرام قرار دیا ہے کہ وہ انبیاء کے اجسام کو کھائے۔ پس انبیاء علیہم السلام زندہ ہیں (اور) انہیں رزق بہم پہنچایا جاتا ہے۔
اس صحیح حدیث مبارکہ سے بالصراحت یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ اللہ تعالی کی قدرتِ کاملہ سے انبیاء علیہم السلام اپنی قبور میں زندہ ہوتے ہیں۔ ایک حدیث مبارکہ میں تو یہاں تک وارد ہے کہ سرور کائنات ﷺ کے سامنے امت کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں، نیک اعمال پر حضورﷺ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں جبکہ بد اعمالیوں پر اللہ کے حضور امت کی مغفرت کے لئے دعا فرماتے ہیں۔ حدیث مبارکہ کے الفاظ یہ ہیں:
تعرض علیّ أعمالکم فما رأیت من خیر حمدت اللہ علیہ و ما رأیت من شر أستغفرت اللہ لکم۔
مجمع الزوائد،9 : 24
مجھ پر تمہارے اعمال پیش کئے جاتے ہیں۔ اگر وہ اچھے ہوں تو میں اللہ کا شکر بجالاتا ہوں، اگر اعمال اچھے نہ ہوں تو اللہ کے حضور تمہاری مغفرت کے لئے دعا کرتا ہوں۔
امام ابن حجر ہیثمی کا قول ہے کہ یہ حدیث بزارنے روایت کی ہے اور اس کے تمام رجال صحیح ہیں۔ جبکہ امام زین الدین ابو الفضل العراقی نے بھی اپنی کتاب ’طرح التثریب فی شرح التقریب (3 : 297)‘ میں کہا ہے کہ اس روایت کی اسناد صحیح ہیں۔ ابن سعد نے ’الطبقات الکبری (2 : 194)‘ میں اسے روایت کیا ہے۔ قاضی عیاض نے ’الشفا (1 : 19)‘ میں یہ حدیث بیان کی ہے اور امام جلال الدین سیوطیؒ نے ’الخصائص الکبری (2 : 281)‘ اور ’مناہل الصفا فی تخریج احادیث الشفا (ص : 3)‘ میں ہی روایت بیان کی لکھا ہے کہ ابن ابی اسامۃ نے اپنی ’مسند ‘ میں بکر بن عبداللہ المزنی اوربزارنے عبداللہ بن مسعود سے صحیح اسناد کے ساتھ یہ روایت بیان کیہے۔ اس بات کی تائید علامہ خفا جیؒ اور ملا علی قاریؒ نے ’الشفا‘ کی شروحات ’نسیم الریاض (1 : 102)‘ اور’ شرح الشفاء لملا علی قاری (1 : 32)‘ میں بالترتیب کی ہے۔ محدث ابن الجوزی نے بکر بن عبداللہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے یہ روایت ’الوفاء با حوال المصطفی (2 : 10۔ 809)‘ میں بیان کی ہے۔ علامہ تقی الدین سبکی نے یہ حدیث ’شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام (ص : 34)‘ میں بکر بن عبداللہ المزنی سے روایت کی ہے اور احمد بن عبدالہادی نے ’الصارم المنکی (ص : 7۔266)‘ میں کہا ہے کہ اس کی اسناد صحیح ہیں اور بکر ثقہ تابعین میں سے ہے۔ بزار کی روایت امام ابن کثیر نے بھی ’البدایۃ والنہایۃ ( 4 : 257) ‘ میں نقل کی ہے۔
وہ خدائے ذوالجلال جو اس دنیا میں اور آخرت میں جمیع انسانیت کو زندگی عطا کرنے اور رزق مہیا کرنے پر قادر ہے وہی انبیاء کرامعلیہم السلام کو قبروں میں بھی زندہ رکھنے اور رزق بہم پہنچانے پر قادر ہے۔ اسلامی لٹریچر میں یونانی فلاسفہ کی طرف سے برزخی حیات کو خلط مبحث سے الجھا دینے والی غیر فطری و غیر سائنسی بحثیں اسلام کے غیر متغیر اور اٹل فطری اصولوں کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ احکامِ اسلام صاف اور واشگاف انداز میں اقسامِ حیات اور حیاتِ برزخی کے حامل افراد کو پکارنے کے بارے میں اللہ رب العزت کی تعلیمات کو واضح اور اس بات کا واشگاف الفاظ میں اعلان کر رہے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام، شہداء، صلحاء، عام مسلمان حتی کہ کفار و مشرکین بھی اپنی قبروں میں زندہ ہوتے ہیں۔ شہداء کو تو اسبابِ برزخی کے تحت رزق بہم پہنچائے جانے پر قرآن مجید خود شاہد عادل ہے۔ سو جو لوگ ظاہری حیات میں توسُّل و استغاثہ کو جائز مان کر موت کے بعد اس کو حرام بلکہ شرک کا موجب قرار دے رہے ہیں ان کے لئے یہ بات تو روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ موت کا ذائقہ ایک لمحاتی کیفیت کا نام ہے جو آکر چلی جاتی ہے۔ یعنی بقول حکیم الامت:
موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے
حیاتِ دنیوی اور قیامت کے روز عطا ہونے والی اخروی حیات کے مابین حیاتِ برزخی کا زمانہ موجود ہوتا ہے۔ پس جیسے دنیوی اور اخروی حیات کے حامل فرد بشر سے توسُّل اور استغاثہ کرنا جائز ہے بعینہ حیاتِ برزخی کے دوران بھی توسُّل اور استغاثہ روا ہے، اس میں شرک تو در کنار اس کا ذرا سا شائبہ بھی موجود نہیں۔ کیونکہ دنیوی، برزخی اور اخروی، تینوں زندگیوں میں اللہ تعالی کو مستعانِ حقیقی اور بندے کو مستغاثِ مجازی مان کر استغاثہ کیا جاتا ہے اور اسے وسیلہ بنایا جاتا ہے، جو کہ جائزہے۔ مذکورہ تینوں اقسامِ حیات میں سے کسی بھی زندگی میں بندے کو مستغاثِ حقیقی سمجھ لینا یقینا شرک ہے۔ واضح رہے کہ شرک کا سبب اقسامِ حیات نہیں بلکہ حقیقت و مجاز کی تفریق کا مٹانا ہے۔
ارواحِ انسانی کی حیاتِ برزخی کے دلیلِ قطعی کے ساتھ حق ثابت ہو جانے کے بعد توسُّل بعد الموت کو ناجائز سمجھنا کم فہمی یا ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں۔ ارواحِ انبیاء و صلحاء سے توسُّل و استغاثہ بالکل اسی طرح روا ہے جس طرح کسی زندہ انسان یا فرشتوں کومجازاً وسیلہ بنایا جاتا ہے یا ان سے مدد طلب کی جاتی ہے۔ جب ہم زندگی میں کسی انسان سے مدد کے خواہاں ہوتے ہیں تو درحقیقت ہم اس کی روح سے ہی مدد چاہتے ہیں۔ جسم انسانی تو مادی انسان کی اصل یعنی… روح … کا لباس ہوتا ہے۔ موت کے بعد جب روح جسم کی مادی بندشوں سے آزاد ہو جاتی ہے تو جسدِ خاکی کی آلائشوں سے آزاد ہوجانے کی وجہ سے فرشتوں کی طرح بلکہ ان سے بھی بڑھ کر غیر مادی افعال سر انجام دینے پر قادر ہو جاتی ہے۔ ہمارے مادی عالم میں جو قوانینِ تصرّف معروف ہیں روح ان قوانین کی پابندی سے مکمل طور پر آزاد ہوتی ہے کیونکہ اس کا عالم … عالمِ امر… جسم کے اس عالمِ اسباب سے مختلف ہوتا ہے۔ اسی حقیقت کے بارے میں ارشاد باری تعالی ہے :
وَ یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ ط قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّیْ۔
الاسراء، 17 : 85
اوریہ (کفار) آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں، فرما دیجئے : روح میرے رب کے امر سے ہے۔
انسان کو حیاتِ برزخی میں عالم امر کی جو زندگی میسر ہوتی ہے اس میں وہ دنیا کی جسمانی زندگی سے بڑھ کر اعمال و افعال پر قادر ہوتا ہے اور اپنے پکارنے والوں اور مدد طلب کرنے والوں کی مدد کو روحانی طور پر پہنچ سکتا ہے۔ واضح رہے کہ انبیاء و صلحاء کا اپنے مُتوسِّلین اور مُستغیثین کا وسیلہ بننا اور ان کی امداد کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ مدد کے طالب کے لئے اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا فرمائیں اور اللہ رب العزت ان کی دعا کو شرف قبولیت عطا کرتے ہوئے متعلقہ شخص کی حاجت پوری کرے۔ مسئلہ فقط یہ ہے کہ معترضین اہلِ قبور کی حیات کا انکار کرکے انہیں دعا کرسکنے کے قابل بھی نہیں سمجھتے جبکہ صحیح اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ وہ صاحبان مزار زندہ ہیں، وہ اپنے شعور و ادراک کے تحت زائرین کو پہچانتے ہیں۔ جسم سے جدا ہو جانے کے بعد روح کا شعور مزید کا مل ہو جاتا ہے اور شہوات ِ بشریہ کے زائل ہو جانے کی وجہ سے خاکی حجابات اٹھ جاتے ہیں۔
توسُّل و استغاثہ کا معاملہ یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ جس ذات سے توسُّل کیا جاتا ہے یا مدد طلب کی جاتی ہے وہ اللہ رب العزت ہی ہے مگر سائل یوں عرض کناں ہوتا ہے کہ گویا وہ نبی کریمﷺ کے وسیلہ سے اللہ تعالی سے حاجت روائی کا خواہشمند ہے۔ وہ اللہ کے مقرب بندوں کا وسیلہ پکڑ کر اللہ تعالی سے عرض کرتا ہے کہ میں ان اولیاء و صلحاء کے محبین میں شامل ہوں لہذا ان کی محبت اور قرابت داری کی وجہ سے خصوصی رحم و کرم کا مستحق ہوں۔ چنانچہ اللہ تعالی تاجدار کائنات ﷺ یا دعا میں مذکورہ اولیائے کرام کے صدقے اس شخص کی خطاؤں کو معاف فرما دیتا ہے اور اس کی حاجات پوری کر دیتا ہے۔
نماز جنازہ پڑھنے والوں کا میت کی بخشش کے لئے دعا کرنا بھی اسی ذیل میں آتا ہے، کیونکہ جنازہ میں موجود لوگ اپنے آپ کو اللہ کی بارگاہ میں میت کی مغفرت کا وسیلہ بناتے اور اس کے مدد گار بنتے ہیں۔
توسُّل بالاولیاء و الصالحین کے منکر آخری حربے کے طور پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ فوت شدگان زندہ لوگوں کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتے کیونکہ وہ تو اپنے جسم پر بیٹھنے والی مکھی اڑانے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک فوت شدہ شخص جو اپنے بدن میں ذرہ بھر طاقت و توانائی نہیں رکھتا، زندہ لوگوں کو فائدہ پہنچائے اور عامۃ الناس اس سے تمتع حاصل کریں۔
یہ بے بنیاد اعتراض در اصل احادیثِ رسول ﷺ اور بزرگانِ دین و ائمئہ امت کی تعلیمات سے عدم آگہی کی پیدا وار ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے واضح کیا ہے کہ اس مادی دنیا سے رخصت فرما جانے والے لوگ دنیاوی زندگی سے ایک دوسری زندگی (حیاتِ برزخی) میں چلے جاتے ہیں۔ اگرچہ وہ ہماری نظر میں فوت ہوکر حیاتِ جسمانی سے محروم ہو چکے ہیں مگر درحقیقت محض ان کی زندگی کا انداز بدلا ہے۔
اسکو ایک مثال کے ذریعے یوں واضح کیا جاسکتا ہے : فرض کیجئے ایک کمرے میں دو ٹیوب لائٹس موجود ہیںجن میں سے ایک کا رنگ سفید اور دوسری کا رنگ نیلا ہے۔سفید ٹیوب لائٹ کی روشنی ہر طرف پھیلی ہوئی ہے جبکہ نیلی ٹیوب لائٹ (off) ہے۔ اب دفعتاً سفید ٹیوب لائٹ کا بٹن آف (off)کر دیا جائے اور عین اسی لمحے نیلے رنگ کی ٹیوب لائٹ کا بٹن آن (on) کر دیا جائے، توکیا ہوگا؟ کمرہ وہی ہوگا، اس کی تمام اشیاء اصلی حالت میں اپنی جگہ پر موجود رہیں گی، اس کمرے کے دروازے، کھڑکیاں اور پردے وغیرہ اپنی جگہ پر برقرار رہیں گے مگر کمرے کے اندرونی منظر میں ایک تبدیلی آجائے گی۔ وہ یہ کہ پہلے ہر شے سفید روشنی میں اپنے اصلی رنگ میں نظر آرہی تھی اور اب اس کی ہر شے کا رنگ نیلی ٹیوب لائٹ کی وجہ سے تبدیل شدہ نظر آرہا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے : کیا کمرے میں پڑی اشیاء کا رنگ واقعی بدل گیا ہے؟ کیا اشیاء کی ماہیت تبدیل ہو چکی ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے، ہر شے اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ فرق صرف ہمارے دیکھنے میں ہے۔ بالکل یہی مسئلہ فوت شدگان کے سلسلے میں ہے۔ ان کی دنیاوی زندگی کا چراغ گل ہوتا ہے تو ہم خیال کرتے ہیں کہ وہ مر گئے، جبکہ در حقیقت ان کی حیات برزخی کی ٹیوب لائٹ روشن ہو جاتی ہے۔ تو جس طرح اولیاء اللہ اور صلحاء کو ان کی زندگی میں وسیلہ بنایا جاسکتا ہے… جبکہ دینے والی ذات اور مستعانِ حقیقی صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے … اسی طرح اس مادی دنیا سے ان کے پردہ فرما جانے کے بعد بھی انہیں بارگاہِ الہی میں تقرب و حاجت روائی کے لئے وسیلہ بنایا جاسکتا ہے۔
امام جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب’ شرح الصدور (ص : 110، 111)‘ میں اس ضمن میں پندہ روایات نقل کی ہیں اور حیاتِ برزخی کا ثبوت دیتے ہوئے فوت شدگان کا زندہ لوگوں کو نفع پہنچانا بیان کیا ہے۔
امام ابن القیم نے ’روح‘ پر ایک مفصل کتاب لکھی ہے جو کہ اس موضوع پر لکھی جانے والی مستند ترین کتاب ہے۔ ایک جگہ پر وہ عبداللہ بن مبارک سے روایت کرتے ہیں کہ ابو ایوب انصاری نے کہا:
تعرض أعمال الأحیاء علی الموتی، فإذا رأوا حسنا فرحوا، و استبثروا، و إن رأوا سوءًا قالوا : اللّٰھم! راجع بہ۔
کتاب الروح : 13
زندہ لوگوں کے اعمال فوت شدگان پر پیش کئے جاتے ہیں۔اگر وہ نیک (اعمال) دیکھیں تو خوش ہوجاتے ہیں اور کِھل اٹھتے ہیں اور اگر وہ برے (اعمال) دیکھیں تو کہتے ہیں : اے اللہ! انہیں لوٹا دے۔
امام ابن القیم ایک اور روایت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : عباد بن عباد ابراہیم بن صالح کے پاس گئے اور ابراہیم بن صالح اس وقت فلسطین کے حاکم تھے۔ عبادبن عباد نے کہا : مجھے کچھ نصیحت فرمائیے۔ ابراہیم بن صالح نے کہا :
بم أعظک؟ أصلحک اللہ، بلغنی أن أعمال الأحیاء تعرض علی أقاربھم الموتی، فانظر ما یعرض علی رسول اللہ ﷺ من عملک۔
کتاب الروح : 13
میں تمہیں کیا نصحیت کروں؟ اللہ تمہیں نیک بنائے۔ مجھے خبر ملی ہے کہ زندوں کے اعمال ان کے مردہ عزیزوں پر پیش کئے جاتے ہیں۔ اب تم اپنے اعمال پر غور کر لو جو اللہ کے رسول ﷺ پر پیش کئے جاتے ہیں۔
اتنی بات بیان کرنے کے بعد ابراہیم بن صالح اس قدر روئے کہ ان کی داڑھی تر ہوگئی۔
علاوہ ازیں بے شمار روایات سے فوت شدگان پر زندوں کے اعمال پیش کئے جانے کا ثبوت ملتا ہے۔ لہذا شکوک و شبہات میں مبتلا افراد کو ان روایات کی روشنی میں اپنے عقیدے کو صحیح و درست کرلینا چاہیے … جو کہ امام ابن تیمیہ کے مطابق اہلِ سنت و جماعت کا ہے جیسے کہ ہم شرح و بسط کے ساتھ پہلے بیان کرچکے ہیں … ہمیں صرف ایسے راستے کا مسافر بننا چاہیے۔ اگر ہم ہر چیز کے ظاہر کو لے کر اسے اپنی عقلِ عیار… جو کہ سو بھیس بدل لیتی ہے … کے ترازو میں تولنے کی کوشش کریں گے تو ہدایت کبھی ہمارا مقدر نہیں بن سکتی۔ بقول علامہ اقبال:
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے، منزل نہیں ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَکَانَ أَبُوْھُمَا صَالِحاً۔
الکہف، 18 : 82
اور ان کا باپ صالح (شخص) تھا۔
اس آیت میں بیان کردہ واقعہ کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت موسیٰ اور خضر علیہما السلام ایک گاؤں میں۔ گاؤں کے لوگوں نے ترش روئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی مہمان نوازی سے انکار کردیا۔ جب وہ وہاں سے روانہ ہوئے تو راستے میں دیکھا کہ دو یتیم بھائیوں کی دیوار گر رہی ہے جس کے نیچے ان کا خزانہ مدفون تھا، حضرت خضر علیہ السلام نے بغیر معاوضے کے اس دیوار کو تعمیر کردیا۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ چونکہ ان کا باپ صالح آدمی تھا اس لئے حضرت خضر علیہ السلام نے یہ عمل کیا۔ گویا اللہ تبارک و تعالی نے ان کے والدین کے توسُّل سے اس خزانے کو ان کے لئے محفوظ کردیا۔ بعض مفسرین کے مطابق صالح باپ پانچویں پشت میں تھا جبکہ بعض کے نزدیک ساتویں پشت میں تھا۔ اس آیہ کریمہ سے معلوم ہوا کہ صلحاء و اولیاء کی اولاد کا لحاظ اور عزت و تکریم ان کے ذاتی عمل سے صرف نظر کر کے محض نسب کی وجہ سے کرنا سنت انبیاء و اولیاء ہے۔ یہاں ذہن میں یہ خیال آسکتا ہے کہ صلحاء و اولیاء اور بزرگوں کی اولاد آج کل خود اچھے کام نہیں کرتی پھر ان کے ادب و احترام کا کیا جواز؟…یہ بات ٹھیک ہے کہ قرآنی حکم کے مطابق بزرگی اور عظمت کا معیار تقویٰ ہے مگر جس طرح حسب کا مقام ہے اسی طرح نسب کا بھی ہے۔ لہذا اس نسبت کا ادب و احترام …کاَنَ أبُوْ ھُمَا صَالِحًا (اور ان کا باپ صالح (شخص) تھا)…کی نص کے پیش نظر اس نسبت کی حیا کیلئے تھا اور یہی سنتِ انبیاء و اولیاء ہے۔ اب اولاد اگر اپنے کسی عمل اور فعل کی وجہ سے دائرہ اسلام سے ہی (معاذ اللہ) خارج ہوجائے تو وہ… ’’إنَّہٗ لَیْسَ مِنْ أَھْلِکَ‘‘ (ھودٗ، 11 : 46) ’’بے شک وہ تیرے گھروالوں میں شامل نہیں… کی نص کے تحت ’’أَبُوْھُمَا صَالِحًا‘‘ کے ضمن میں آئے گی ہی نہیں جیسے حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا اور اسی طرح کا معاملہ یزید کے ساتھ ہے… جو اسی نص کے تحت حیاء و احترام کے قابل نہ رہا۔
یہ واقعہ عام الرّمادہ کا ہے یعنی وہ سال جب خشک سالی کی وجہ سے نوبت قحط اور ہلاکت تک پہنچ چکی تھی۔ مویشی ہلاک ہو رہے تھے۔ لوگوں نے نمازِ استسقاء پڑھی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے امامت کی۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قحط کے زمانہ میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما کے وسیلہ سے دعا طلب کی تو فرمایا:
اللھم! إنا کنا نتوسل إلیک بنبینا فتسقینا و إنا نتوسل إلیک بعم نبینا فاسقنا۔
1۔ صحیح البخاری، 1 : 526، 137
2- صحیح ابن حبان، 7 : 1۔ 110، رقم : 2861
3- صحیح ابن خزیمہ، 2 : 8۔ 337، رقم : 1421
4- السنن الکبری للبیہقی، 3 : 352
5- دلائل النبوۃ للبیہقی، 6 : 147
6- شرح السنہ للبغوی، 4 : 409، رقم : 1165
7- شفاء السقام : 128
8- الاستیعاب لابن عبدا البر، 3 : 97
9- فتح الباری، 2 : 494
10- شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ، 11 : 152
اے اللہ ! ہم اپنے نبی ﷺ کو آپ کی بارگاہ میں وسیلہ بناتے تھے پس تو ہم کو سیرابی بخش دیا کرتا تھا۔ اور اب ہم اپنے نبیﷺ کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں، پس ہم کو (ان کے وسیلے سے) سیراب کر دے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب بھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے توسُّل سے دعا کی جاتی انہیں سیراب کردیا جاتا یعنی خشک سالی ختم ہوجاتی اور بارش برستی۔
اس طرح عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عام الرمادہ (قحط و ہلاکت کا سال) میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما کو وسیلہ بنایا اور اللہ پاک سے بارش کے لئے دعا مانگی۔ پھر لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا:
أیھا الناس! إن رسول اللہﷺ کان یری للعباس ما یری الولد لوالدہ، یعظمہ و یفخمہ و یبر قسمہ، فاقتدوا أیھا الناس برسول اللہﷺ فی عمہ العباس، واتخذوہ وسیلۃ إلی اللہ عز وجل فیما نزل بکم۔
1۔ المستدرک للحاکم، 3 : 334
2- فتح الباری، 2 : 497
3- المواھب اللدنیۃ، 4 : 277
4- شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ، 11 : 152
اے لوگو! رسول اللہ ﷺ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ویسا ہی سمجھتے تھے جیسے بچہ باپ کو سمجھتا ہے۔ (یعنی نبی ﷺ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بمنزلہ والد سمجھتے تھے۔) آپﷺ ان کی تعظیم و توقیر کرتے اور ان کی قسموں کو پورا کرتے تھے۔ اے لوگو! تم بھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں نبی کریمﷺ کی اقتداء کرو اور ان کو اللہ کی بارگاہ میں وسیلہ بناؤ تاکہ وہ تم پر (بارش) برسائے۔
پھر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ دعا فرمائی :
اللھم! إنہ لم ینزل بلاء إلا بذنب ولم یکشف إلا بتوبۃ، وقد توجہ القوم بی إلیک لمکانی من نبیک، وھذہ أیدینا إلیک بالذنوب ونواصینا إلیک بالتوبۃ فاسقنا الغیث۔
1۔ فتح الباری، 2 : 497
2- شفاء السقام : 128
3- المواہب اللدنیۃ، 4 : 277
4- شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ، 11 : 152
اے اللہ! گناہ ہی کی وجہ سے بلاء (و تکلیف) نازل ہوتی ہے اور صرف توبہ ہی اس بلاء کو اٹھاتی ہے اور لوگوں نے مجھے تیری بارگاہ میں اس تعلق کی وجہ سے جو میرا تیرے نبی ﷺکے ساتھ ہے، وسیلہ بنایا ہے اور ہمارے یہ ہاتھ گناہوں میں لتھڑے ہوئے تیرے سامنے ہیں اور ہماری پیشانیاں توبہ کے ساتھ جھکی ہوئی ہیں۔ پس ہم کو بارش دے دے۔
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے دعا فرمائی تو اس کے بعد فوراً دیکھتے ہی دیکھتے بادل پہاڑوں کی طرف سے اٹھے اور آسمان پر چھاگئے۔ زمین بارش سے بھرگئی، لوگ خوش ہوگئے اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے جسم کو چھو کر تبرک حاصل کرنے لگے اور کہنے لگے : اے ساقی حرمین !آپ کو مبارک ہو۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس موقع پریہ بھی کہا:
ھذا واللہ الوسلیۃ إلی اللہ والمکان منہ۔
الاستیعاب لابن عبدالبر، 3 : 98
خدا کی قسم! اللہ کی بارگاہ میں وسیلہ اسی کو کہتے ہیں اور مرتبہ اسی چیز کا نام ہے۔
علامہ تقی الدین سبکی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
و کذرک یجوزُ مثل ہذا، التوسل بِسائرِ الصالحینَ، و ہذا شئ لا ینکر مسلم، بل مُتَدَیِّن بملۃِ من المِللِ۔
شفاء السقام : 128
اور اسی طرح اس (واقعہ) سے تمام صالحین سے توسُّل کا جواز ثابت ہوتا ہے اور یہ ایسی چیز ہے جس کا مسلمانوں نے انکار نہیں کیا بلکہ صرف فرقوں میں سے ایک فرقے …مُتَدَیِّن (نیا دین ایجاد کرنے والے )… نے (توسُّل کا انکار کیا ہے)۔
حافظ ابن حجر عسقلانی اس روایت کے تحت لکھتے ہیں:
و یستفاد من قصۃ العباس استحباب الاستشفاع بأہل الخیر والصلاح و أہل بیت النبوۃ، و فیہ فضل العباس و فضل عمر لتواضعہ للعباس و معرفتہ بحقہ۔
فتح الباری، 2 : 497
حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے یہ نکتہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ اہلِ خیر، صالحین اور اہلِ بیتِ نبوی سے شفاعت طلب کرنا مستحب ہے۔ اس کے علاوہ اس واقعہ سے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان کرنا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی تواضع کرنا اور ان کے مقام و مرتبہ کو پہنچاننا بھی ثابت ہوتا ہے۔
جو لوگ اس سے بعد از وفات توسُّل کے عدم جواز کا استدلال کرتے ہیں وہ غلط فہمی کا شکار ہیں کیونکہ جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے توسُّل کیا تو وہ موقع نماز پڑھانے کا تھا یعنی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جو خلیفہ تھے نے خود امامت کی بجائے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو آگے کردیا۔ ظاہری حیات مبارکہ میں حضور ﷺ خود امامت فرماتے اور آقا ﷺ کا نماز پڑھانا صحابہ کیلئے وسیلہ ہوتا اب جبکہ آپﷺ وصال فرماگئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپﷺ کے چچا کو کھڑ ا کردیا اور ان کے وسیلہ سے بارش کی دعا کی۔ لہذا وہ اعتراض خود بخود رفع ہوگیا کیونکہ اگر استسقاء کے علاوہ کوئی اور دعا ہوتی تو شاید درست ہوتا مگر اس موقع پر حضور علیہ السلام نے خود امامت تو نہیں کروانی تھی۔
دراصل منصب خلافت پر فائز ہونے کی وجہ سے یہ حق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تھا کہ نماز استسقاء میں لوگوں کی وہ خود امامت کرتے لیکن انہوں نے نبی کریمﷺ کی تعظیم اور آپ کے رشتہ داروں کے اکرام کی وجہ سے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو مقدم کیا تاکہ جتنا قریب سے قریب ہوسکے نبی کریمﷺ سے توسُّل ہوجائے۔ اور لوگوں کو بھی اس پر ابھارا کہ وہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اللہ کی بارگاہ میں وسیلہ بنایا کریں اور خود انہوں نے بھی یہی کیا تاکہ نبی کریم ﷺکا مقام توسُّل قائم رہے۔ کیونکہ آپﷺ نے اسی جگہ نماز استسقاء پڑھائی تھی۔ اور یہ سب اس لئے کیا تاکہ نبی کریمﷺ کی زیادہ سے زیادہ تعظیم ہو۔ اور آپ ﷺ کے اہل بیت کا زیادہ سے زیادہ اکرام ہو۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی دعا میں بھی اس کو بیان کردیا : اے اللہ !ہم آپ کی بارگاہ میں اپنے نبی ﷺکا وسیلہ پکڑا کرتے تھے تو تُو ہمیں بارش عطا فرماتا۔ اب ہم آپﷺکے چچا کا وسیلہ پکڑتے ہیں تو تُو ہمیں بارش عطا کریعنی نبی کریم ﷺ کی حیات میں ان کا وسیلہ پکڑتے تھے، اسی طرح سے آپ لوگوں کو لے کر باہر نکلتے تھے ان کی امامت کرتے تھے، پھر دعا مانگتے تھے۔ اب آپﷺ کی وفات کی وجہ سے تو یہ ساری چیزیں ممکن نہ رہیں، تو اب ان میں سے ہم ان کے اہل بیت کو مقدم کرتے ہیں تاکہ جلد سے جلد دعا قبول ہو۔
قحط سالی اور خشک سالی کے موقع پر نماز استسقاء پڑھی جاتی ہے جو سنت ہے اس روایت پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نماز کی نسبت وسیلے پر زیادہ زور دے رہے ہیں یہ نہیں کہا جارہا ہے کہ لوگو رو رو کر نماز پڑھو، اللہ سے التجائیں کرو، اللہ بارش عطا فرمائے گا۔ ایک بار بھی اس طرح نہیں کہا بلکہ نماز سے زیادہ امید وسیلے کی نتیجہ خیزی میں بارش ہونے پر لگی رہی۔ پھر جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دعا بھی انہی سے کروائی اور آپ نے فرمایا : باری تعالیٰ! مجھے اس قوم نے تیرے حبیب نبیﷺ کے ساتھ نسبت کی وجہ سے آگے کھڑا کردیا ہے۔ یعنی حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بھی حضور ﷺ کا وسیلہ پیش کردیا۔ لہذا ان کا آگے کھڑا کرنا بھی اصلاً حضور ﷺکا وسیلہ ثابت ہوا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کلام سے کوئی یہ سمجھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا توسُّل اختیار کیا نہ کہ رسول اللہ ﷺ کا۔ کیونکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ تو زندہ تھے اور نبی کریمﷺ کا وصال ہوچکا تھا تو یہ بات کسی طرح بھی درست نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا توسُّل اختیار فرمایا تو ایسا کرنا حضور ﷺکی قرابت ہی کی وجہ سے تھا جیسا کہ ان کی دعا سے خود ظاہر ہے لہذا معلوم ہوا کہ اس میں دراصل توسُّل نبی اکرمﷺ ہی کی نسبت سے تھا۔
جو لوگ زندہ سے توسُّل کو جائز کہتے ہوئے میت کے توسُّل کی وجہ سے مسلمانوں کو مشرک قرار دیتے ہیں وہ خود گمراہ ہیں کیونکہ اگر توسُّل شرک قرار پائے تو زندہ مردہ سب برابر ٹھہریں۔ کوئی مسلمان یہ عقیدہ نہیں رکھ سکتا کہ غیر اللہ کو اس کی حیات میں رب بنانا جائز ہے مگر اس کی وفات کے بعد شرک ہے۔
حضور نبی کریم رحمۃ للعالمینﷺ جو اپنی امت مرحومہ کے بہت بڑے غمخوار ہیں، نے ہماری بھلائی اور خیر خواہی کے لئے کئی راستے اور ذریعے متعین فرمائے۔ ان ذرائع میں سے ایک ذریعہ مقربین و صالحین کے وسیلے سے دعا کرانے کا بھی ہے۔ ارشادات گرامی سے یہ ظاہر و باہر ہے کہ آپﷺ نے خود صالحین سے دعا کروانے کا حکم فرمایا۔ جیسا کہ آپﷺ نے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جیسے اکابر صحابہ کو حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ سے دعا کرانے کی ترغیب دی۔ حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ اکابر تابعین میں سے ہیں۔ وہ یمن کے رہنے والے تھے لیکن اپنی ضعیف والدہ کی خدمت کی وجہ سے حضور نبی کریمﷺ کی بارگاہ عالیہ میں حاضر ہو کر صحابی بننے کا شرف حاصل نہ کرسکے۔ آپﷺ بھی اپنے اس سچے عاشق سے محبت کرتے تھے۔ آپﷺ نے ان کی دعا سے اپنی امت کی بخشش کی خوشخبری دی اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ اگر ہو سکے تو ان سے اپنی مغفرت کے لئے ضرور دعا کرا لینا۔ آپﷺ کا فرمان اقدس حضرت اسیر بن جابر نے روایت کیا ہے:
أن أھل الکوفۃ وفدوا إلی عمر۔ فیهم رجل ممن کان یسخرُ بأویس، فقال عمر : ھل ھھنا أحد من القرنیین؟ فجاء ذلک الرجل، فقال عمر : إن رسول اللہﷺ قد قال إن رجلاً یاتیکم من الیمن یُقال لہ أویس، لا یدع بالیمن غیر أم لہ، قد کان بہ بَیاض، فدعا اللہ فأذھبہ عنہ إلا موضع الدینار أو الدرھم، فمن لقیہ منکم فلیستغفر لکم۔
1۔ صحیح مسلم، 2 : 311
2- المستدرک، 3 : 403
3- حلیۃ الاولیاء، 2 : 80۔ 79
4- تاریخ ابن عساکر، 3 : 163
کہ اہل کوفہ ایک وفد لے کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ وفد میں ایک ایسا آدمی بھی تھا جو حضرت اویس رضی اللہ عنہ سے مذاق کرتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا : یہاں کوئی قرن کا رہنے والا ہے؟ تو وہ شخص پیش ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا : تمہارے پاس یمن سے ایک شخص آئے گا، اس کا نام اویس ہو گا، یمن میں اس کی والدہ کے سوا کوئی نہیں ہو گا، اس کو برص کی بیماری تھی، اس نے اللہ تعالی سے دعا کی تو اللہ تعالی نے ایک دینار یا درھم کے برابر سفید داغ کے سوا باقی داغ اس سے دور کر دیئے۔ تم میں سے جس شخص کی اس سے ملاقات ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اس سے تمہاری مغفرت کی دعا کرائے۔
اور مسلم شریف ہی کی دوسری روایت میں حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے ہے کہ آپﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
لو أقسم علی اللہ لأبرہ۔ فإن استطعت أن یستغفر لک فأفعل۔
اگر وہ قسم کھا کر کوئی بات کہہ دے تواللہ پاک ویسا ہی کر دیں۔ اگر تم اس سے اپنے لئے دعائے مغفرت کرا سکو تو ضرور کرا لینا۔
پھر حضور نبی اکرمﷺٗ کی پیشن گوئی کے مطابق یمن سے جہاد میں شرکت کرنے کے لئے مجاہدین آئے اور حضرت اویس قرنی بھی ان میں تھے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان سے دعا کرائی۔
1۔ الصحیح لمسلم، 2 : 311
2- حلیۃ الاولیاء 2 : 80
3- المستدرک، 3 : 4۔ 403
4- تاریخ ابن عساکر، 3 : 163
یہاں اس مقام پر ہمارے لئے فرمان نبویﷺ سے جو بات مستنبط ہوتی ہے وہ یہ کہ آپﷺ نے بذات خود صالحین اور مقربین کا وسیلہ پکڑنے کا حکم فرمایا۔ وہ آقاﷺ جن کے طفیل کائنات ہست و بود وجود میں آئی جو ہمارے لئے دین حق لے کر مبعوث ہوئے اور جو اپنے اللہ کو سب سے بڑھ کر پیارے ہیں جن کا منصب تلاوت آیات ہے وہ خود فرما رہے ہیں کہ میرے غلام اویس سے اپنے لئے مغفرت کی دعا کرانا۔ حالانکہ معلوم ہے کہ اللہ تعالی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، دعاؤں کا سننے والا وہی ہے مگر اس کے باوجود آپﷺ فرما رہے ہیں کہ اویس قرنی سے دعا کرانا۔ لہذا معلوم ہوا کہ مقربین اور صالحین کے توسُّل سے دعا کرانا عین منشاء خدا و رسولﷺ ہے اور یہی دین و ایمان کا تقاضا ہے۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے نبی کریمﷺ سے روایت کی کہ آپ ﷺنے فرمایا :
یأتی زمان یغزوا فیہ فئام من الناس، فیقال : فیکم من صحب النبیﷺ؟ فیقال : نعم۔ فیفتح علیہ، ثم یأتی زمان، فیقال : فیکم من صحب أصحاب النبیﷺ؟ فیقال : نعم۔ فیفتح، ثم یأتی زمان، فیقال : من صحب صاحب أصحاب النبیﷺ؟ فیقال : نعم۔ فیفتح۔
صحیح البخاری، 1 : 6۔ 405 2- مسند ابو یعلی، 4 : 132، رقم : 3182
ایک زمانہ آئیگا لوگوں کی جماعتیں آئیں گی اور جنگ لڑیں گی تو کہا جائے گا : تم میں کوئی نبی کریمﷺ کا صحابی ہے؟ تو کہا جائے گا : ہاں۔ تو فتح حاصل ہوگی۔ پھر ایک زمانہ آئے گا تو کہا جائے گا : تم میں وہ شخص ہے جس نے نبی کریمﷺ کے صحابہ کی معیت اختیار کی ہو؟ تو کہا جائے گا : جی ہاں۔ تو فتح حاصل ہوگی۔ پھر ایک زمانہ آئیگا اور کہا جائیگا : تم میں وہ شخص ہے جس نے نبی کریمﷺ کے صحابہ کی معیت اختیار کرنے والوں کی معیت اختیار کی ہو؟ تو کہا جائے گا : جی ہاں۔ تو فتح حاصل ہوگی۔
اس صحیح الاسناد حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ امام ابو یعلی نے بھی حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام ابن حجر ہیثمی نے ’مجمع الزوائد (10 : 18)‘ میں اسے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے رِجال صحیح ہیں۔
اس صحیح حدیث پاک سے ذواتِ صالحین سے توسّل کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
شرح ابن عبید کہتے ہیں :
ذکر أھل الشام عند علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ و ھو بالعراق، فقالوا : العنھم یا أمیر المومنین۔ قال : لا إنی سمعت رسول اللہ ﷺ یقول : الأبدال یکونون بالشام و ھم أربعون رجلا، کلما مات رجل، أبدل اللہ مکانہ رجلا یسقی بھم الغیث و ینتصربھم علی الأعداء، و یصرف عن أھل الشام بھم العذاب۔
1۔ مسند احمد بن حنبل، 1 : 112
2- مجمع الزوائد، 10 : 62
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس اہل شام کا ذکر کیا گیا۔ اس وقت آپ عراق میں تھے۔ لوگوں نے کہا : یا امیر المؤمنین! اہل شام پر آپ لعنت بھیجیں۔ آپ نے فرمایا : نہیں بلکہ میں نے نبی اکرمﷺ کو فرماتے سنا : شام میں چالیس ابدال ہونگے، ان میں سے جب بھی کوئی مرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ کسی دوسرے کو ابدال بنا دیتے ہیں۔ ان کی وجہ سے اہل شام بارش سے سیراب کیے جاتے ہیں، دشمنوں پر ان کو ابدال کے وسیلے سے فتح عطا کی جاتی اور اہل شام سے ان کے وسیلے سے عذاب ختم کیا جاتا ہے۔
امام ابن حجر ہیثمی کا کہنا ہے کہ اس روایت کے رجال صحیح ہیں سوائے شریح بن عبید کے اور وہ ثقہ ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا :
إن ﷲ خلقا خلقھم لحوائج الناس، تفزع الناس إلیھم فی حوائجھم أولئک الٓامنون من عذاب اللہ۔
مجمع الزوائد، 8 : 192
بیشک اللہ تعالیٰ کے کچھ خاص بندے ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مخلوق کی حاجت روائی کیلئے خاص فرمایا ہے۔ لوگ گھبرائے ہوئے اپنی حاجتیں ان کے پاس لے آتے ہیں اور اللہ کے وہ خاص بندے ہیں جو عذاب الہی سے امان میں ہیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا :
إذا انفلتت دابۃ أحدکم بأرض فلاۃ فلیناد : یا عباد اللہ! احبسوا علیّ، یا عباد اللہ احبسوا علیّ۔ فإن ﷲ فی الأرض حاضراً سیحبسہ علیکم۔
1۔ المعجم الکبیر، 10 : 217، رقم : 10518
2- مسند ابو یعلی، 9 : 177
3- عمل الیوم واللیلۃَلابن السنی : 162، رقم : 506
4- مجمع الزوائد، 10 : 132
5- حاشیہ المطالب العالیہ، 3 : 239، رقم : 3375
جب تم میں سے کسی کی سواری جنگل بیاباں میں چھوٹ جائے تو اس کو پکارنا چاہئے : اے اللہ کے بندو! میری سواری پکڑا دو، اے اللہ کے بندو! میری سواری پکڑا دو۔ کیونکہ اللہ کے بہت سے بندے اس زمین میں ہیں، وہ اس کو پکڑا دیں گے۔
محمود سعید ممدوح اپنی تصنیف ’ رفع المنارۃ (ص : 225)‘ میں لکھتے ہیں:
ومع ذالک فللحدیث طرق تقویہ و ترفعہ من الضعف إلی الحسن المقبول المعمول بہ۔
یہ حدیث پاک مختلف طرق سے مروی ہونے کی وجہ سے ضعف سے حسن کے درجے تک پہنچ چکی ہے جس پر ہمیشہ مسلمانوں کا عمل رہا ہے۔
حضرت مصعب بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
ھل تنصرون و تزرقون إلا بضعفانکم۔
صحیح البخاری، 1 : 405
کمزور اور ضعیف افراد کی وجہ سے ہی تو تمہیں نصرت عطا کی جاتی ہے اور رزق دیا جاتا ہے۔
ذخیرہ حدیث میں سے ہم نے چند روایات پر اکتفا کیا تاکہ معلوم ہو جائے کہ صالحین سے توسُّل ایک ایسی روایت (practice) ہے جو قرون اولی سے لے کر آج تک جاری و ساری ہے اور مسلمانوں کا اس پر عمل رہا ہے۔ کسی بھی دلیل سے اس صحیح عقیدے کا بطلان نہیں کیا جا سکتا۔
اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب بندوں سے نسبت و تعلق رکھنے والی یا ان کے زیرِاستعمال چیزوں سے وسیلہ پکڑتے ہوئے دعا کرنا جو اللہ کے مقبول بندوں کا شیوہ رہا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشانات سے توسُّل کرنا قرآن مجید میں یوں مذکور ہے :
وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی۔
البقرہ، 2 : 125
اور (حکم دیا کہ) ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنالو۔
نماز تو اللہ کی پڑھی جاتی ہے چاہے جہاں بھی کھڑے ہوکر پڑھی جائے۔ اس آیت کریمہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مبارک قدموں کے نشانات کو ’’جائے نماز‘‘ بنانے کی تلقین کی گئی ہے یعنی وہ مقام قبولیت نماز کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ اس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کا توسّل مستنبط ہو رہا ہے۔
وہ پتھر جس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی تعمیر کی اسے مقامِ ابراہیم کہتے ہیں۔ یہ وہ مبارک پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نقوشِ پا ثبت ہوگئے اور یہ آج بھی کعبہ مکرمہ کے دروازے کے سامنے پیتل کی جالی میں محفوظ ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس پر کھڑے ہوکر کعبہ کی دیواریں مکمل کیں۔ کعبہ کے چاروں طرف جدھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ضرورت ہوتی اسی جانب پتھر چلا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر کے ساتھ اس نسبت کی وجہ سے قرآن مجید میں اس جگہ نماز پڑھنے کی بطور خاص تلقین فرمائی۔
اس سے ثابت ہوا کہ وہ مقام اور جگہیں جن کے ساتھ کسی اللہ کے محبوب بندے کی نسبت ہوجائے نہایت قابل احترام اور باعث ادب ہوجاتی ہیں۔ اس وجہ سے ان کو متبرک جان کر اللہ کی بارگاہ میں بھی قبولیتِ دعا کیلئے وسیلہ بنایا جاتا ہے۔
سامری نے سونے کا بچھڑا بنایا اور اس کے منہ میں حضرت جبریل علیہ السلام کے گھوڑے کے پاؤں کی مٹی ڈالی تو وہ بولنے لگا۔ لوگوں نے اس بچھڑے کی پوجا شروع کردی۔ حضرت موسی علیہ السلام نے جب یہ صورت حال دیکھی تو انتہائی غضبناک ہوئے اور سامری سے پوچھا :
فَمَا خَطْبُکَ یٰسَا مِرِیُّo
طہ، 20 : 95
اے سامری !(بتا ) تیرا کیا معاملہ ہے؟
سامری نے کہا:
بَصُرْتُ بِمَالَمْ یَبْصُرُوْا بِہٖ فَقَبَضْتُ قَبْضَۃً مِّن أَثَرِ الرَّسُوْلِ۔
طہ، 20 : 96
میں نے وہ چیز دیکھی جو ان لوگوں نے نہیں دیکھی تھی۔ سو میں نے اس فرستادہ (فرشتے) کے نقشِ قدم سے (جو آپ کے پاس آیا تھا) ایک مٹھی (مٹی کی) بھرلی۔
کتب تفسیر میں آتا ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام، سیدنا موسی علیہ السلام کے پاس صحرائے سینا میں گھوڑے پر سوار ہو کر آئے۔ ان کا گھوڑا جہاں قدم رکھتا صحرا کی ریتلی اور خشک زمین پر سبزہ اُگ آتا۔
سامری نے جبریل علیہ السلام کو دیکھا تو سمجھ گیا کہ اللہ کے مقربین میں سے ہیں اور اس کے گھوڑے کے قدموں کا یہ حال ہے کہ جہاں وہ خشک زمین کو مس کرتے ہیں ہریالی ہوجاتی ہے۔ اس وجہ سے اس نے مٹی محفوظ کر لی اور جب بعد میں بچھڑا بنا کر اس کے منہ میں ڈال دی تو وہ بولنے لگا۔
اس سے معلوم ہوا کہ آثارِ صالحین وسیلۂِ حیات ہوتے ہیں اس لئے وہ مٹی بچھڑے کی گویائی کا وسیلہ اور سبب بن گئی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَقَالَ لَهمْ نَبِیُّھُمْ إِنَّ اٰیَۃَ مُلْکِہٖٓ أَنْ یَّأْتِیَکُمُ التَّابُوْتُ فِیْہِ سَکِیْنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَبَقِیَّۃٌ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوْسٰی وَاٰلُ ھٰرُوْنَ تَحْمِلُہُ الْمَلٰائِکَۃُ ط إِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَٰایَۃً لَّکُمْ إِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَo
البقرۃ، 2 : 248
اور ان کے نبی نے ان سے فرمایا : اس کی سلطنت (کے من جانبِ اللہ ہونے) کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس صندوق آئے گا، اس میں تمہارے رب کی طرف سے سکونِ قلب کا ساماں ہوگا اور کچھ آلِ موسیٰ اور آلِ ھارون کے چھوڑے ہوئے تبرّکات ہوں گے، اسے فرشتوں نے اٹھایا ہوا ہوگا۔ اگر تم ایمان والے ہو تو بیشک اس میں تمہارے لیے بڑی نشانی ہے۔
یہ امر واضح رہے کہ ہم نے ترجمہ میں تبرّکات کا لفظ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے لیا ہے۔ اس کی تفصیل کم و بیش تفسیر کی ہر کتاب میں آئی ہے۔ معالم التنزیل، جلالین، التفسیر الکبیر، الجامع لأحکام القرآن، تفسیر بیضاوی، روح البیان، روح المعانی، لباب التأویل فی معانی التنزیل، المدارک اور التفسیر المظہری وغیرہ ملاحظہ ہوں۔ ہم یہاں دور حاضر کی تین معروف تفاسیر کے حوالے سے اس کا بیان کریں گے :
مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ نے اس تابوت کا نہایت جامع بیان کیا ہے۔ ہم اسی کو ’خزائن العرفان‘ سے نقل کرتے ہیں:
’’یہ تابوت شمشاد کی لکڑی کا زر اندوز صندوق تھا جس کا طول تین ہاتھ اور عرض دو ہاتھ تھا۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام پر نازل فرمایا تھا۔ اس میں تمام انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی تصویریں تھیں اور آخر میں حضور سیدانبیاء ﷺ کی اور حضورﷺ کی دولت سرائے اقدس کی تصویر ایک یا قوت سرخ میں تھی کہ حضورﷺ بحالتِ نماز قیام میں ہیں اور آپﷺکے گرد آپﷺ کے اصحاب ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام نے ان تمام تصویروں کو دیکھا۔ یہ صندوق وراثتاً منتقل ہوتا ہوا حضرت موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا۔ آپ علیہ السلام اس میں توریت بھی رکھتے تھے۔ چنانچہ اس میں الواح توریت کے ٹکڑے بھی تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور آپ کے کپڑے اور نعلین شریف اور حضرت ہارون علیہ السلام کا عمامہ اور ان کا عصا اور تھوڑا سا ’’من ‘‘ جس سے بنی اسرائیل کے دلوں کو تسکین رہتی تھی۔ آپ کے بعد یہ تابوت بنی اسرائیل میں متوارث ہوتا چلا گیا۔ جب انہیں کوئی مشکل درپیش ہوتی تو اس تابوت کو سامنے رکھ کر دعائیں کرتے اور کامیاب ہوتے۔ دشمنوں کے مقابلہ میں اس کی برکت سے فتح پاتے۔ جب بنی اسرائیل کی حالت خراب ہوئی اور ان کی بدعملیاں حد سے بڑھ گئیں اور اللہ تعالیٰ نے ان پر عمالقہ کو مسلط کیا تو وہ ان سے تابوت چھین کر لے گئے اور اس کو نجس اور گندے مقامات میں رکھا اور اس کی بے حرمتی کی اور ان گستاخیوں کی وجہ سے وہ طرح طرح کے امراض و مصائب میں مبتلا ہوئے۔ ان کی پانچ بستیاں ہلاک ہوئیں اور انہیں یقین ہوا کہ تابوت کی اہانت ان کی بربادی کا باعث بنی ہے تو انہوں نے تابوت ایک بیل گاڑی پر رکھ کر بیلوں کو چھوڑ دیا اور فرشتے اس کو بنی اسرائیل کے سامنے طالوت کے پاس لائے اور اس تابوت کا آنا بنی اسرائیل کے لیے طالوت کی بادشاہی کی نشانی قرار دیا گیاتھا۔ بنی اسرائیل یہی دیکھ کر اس کی بادشاہی کے مقر ہوئے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ بزرگوں کے تبرکات کا اعزاز و احترام لازم ہے۔ ان کی برکت سے دعائیں قبول ہوتی اور حاجتیں روا ہوتی ہیں اور تبرکات کی بے حرمتی گمراہوں کا طریقہ اور بربادی کا سبب ہے۔ اس تابوت میں انبیاء علیہم السلام کی جو تصویریں تھیں وہ کسی آدمی کی بنائی ہوئی نہ تھیں بلکہ اللہ کی طرف سے آئی تھیں۔
مولانا عبدالماجد دریا آبادی کی ’تفسیر ماجدی‘ سے اقتباس ملاحظہ ہو:
اس خاص صندوق کا اصطلاحی نام ’تابوت سکینہ ‘ہے۔ یہ بنی اسرائیل کا اہم ترین ملّی اور قومی ورثہ تھا۔ اس کے اندر اصل نسخۂِ توریت مع تبرّکاتِ انبیاء محفوظ تھا۔ اسرائیلی اس کو انتہائی برکت و تقدیس کی چیز سمجھتے تھے اور اس کے ساتھ برتاؤ انتہائی احترام کا رکھتے تھے۔ سفر و حضر، جنگ و امن ہر حال میں اسے بڑی حفاظت سے اپنے ساتھ رکھتے۔ یہ کچھ ایسا بڑا نہ تھا۔ موجودہ علماء یہود کی تحقیق کے مطابق اس کی پیمائش حسب ذیل تھی:
طول : اڑھائی فٹ، عرض : ڈیڑھ فٹ اور بلندی : ڈیڑھ فٹ۔
بنی اسرائیل اپنی ساری خوش بختی اس سے وابستہ سمجھتے تھے۔ مدت ہوئی فلسطینی اسے ان سے چھین لے گئے تھے۔ اسرائیلی اسے اپنے حق میں انتہائی نحوست و بدطالعی سمجھ کر اس کی واپسی کے لیے نہایت درجہ بیتاب و مضطرب تھے۔ طالوت کے وقت میں یہ تابوت واپس آجانے کے بعد تاریخ کا بیان ہے کہ بنی اسرائیل کے قبضہ میں حضرت سلیمان علیہ السلام (متوفی 933 ق م) تک رہا اور آپ نے بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے بعد اسی میں اسے رکھ دیا تھا۔ اس کے بعد سے اس کا پتہ نہیں چلتا۔ یہود کا عام خیال یہ ہے کہ یہ تابوت اب بھی ہیکل سلیمانی کی بنیادوں میں دفن ہے۔
’’سَکِیْنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ‘‘ یعنی توریت کا نسخہ شفاء اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کااور حضرت ہارون علیہ السلام اور ان کی مقدس اولاد کے آثار و تبرکات، بعض اہل طریق نے کہا ہے کہ اولیاء اللہ کے احترام کا جو طریقہ چلا آرہا ہے اس کی اصل اور سند اس قصہ تابوت سے مل جاتی ہے۔‘‘
مولانا اشرف علی تھانوی اپنی تفسیر’بیان القرآن‘ میں لکھتے ہیں :
’’اور جب ان لوگوں نے پیغمبر سے یہ درخواست کی کہ اگر کوئی ظاہری حجت بھی ان کی من جانبِ اللہ بادشاہ ہونے کی ہم مشاہدہ کرلیں تو اور زیادہ اطمینان ہوجاوے۔ اس وقت ان سے ان کے پیغمبر نے فرمایا کہ ان کے من جانبِ اللہ بادشاہ ہونے کی یہ علامت ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق بدون تمہارے لائے ہوئے آجائے گا جس میں تسکین اور برکت کی چیز ہے۔ تمہارے رب کی طرف سے یعنی تورات۔ اور تورات کا من جانبِ اللہ ہونا ظاہر ہے اور کچھ بچی ہوئی چیزیں ہیں جن کو حضرت موسیٰ و حضرت ہارون علیہما السلام چھوڑ گئے ہیں یعنی ان حضرات کے کچھ ملبوسات وغیرہ۔ غرض اس صندوق کو فرشتے لے آویں گے اس طرح سے صندوق کے آجانے میں تم لوگوں کے واسطے پوری نشانی ہے اگر تم یقین لانے والے ہو۔ اس صندوق میں تبرکات تھے۔ قولہ تعالیٰ : ’’یاتیکم التابوت فیہ سکینۃ‘‘ اس میں اصل ہے آثار صالحین سے برکت حاصل کرنے کی۔‘‘
اس تفصیل سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ جب بنی اسرائیل کو اپنے انبیاء کے تبرکات کے وسیلے سے اللہ تعالی نے طرح طرح کے دنیوی و اخروی اور ظاہری و باطنی فوائد عطا فرمائے تھے اور قرآن مجید خود اس امر پر سند ہے اور یہ محض خوش عقیدگی یا توہم پرستی نہیں، جیسا کہ بعض لوگ بلا جواز ایسا خیال کرنے لگتے ہیں تو کیا امت محمدی کو حضورﷺ سے قلبی نسبت و تعلق اور سچی محبت و ادب کے ذریعے ظاہری و باطنی تبرکات و فیوضات نصیب نہیں ہوں گے؟ کیوں نہیں بلکہ یقینی بات ہے کہ پہلی امتوں سے کہیں زیادہ بڑھ کر نصیب ہوں گے۔ مگر ہم نے آنحضرتﷺ سے فقط ذہنی اور فکری تعلق تو استوار کیا ہے مگر قلبی اور باطنی تعلق کمزور کرلیا ہے۔
جو لوگ آج بھی آپ ﷺ سے ایسا قلبی و روحانی رشتہ قائم رکھتے ہیں وہ اپنی زندگی میں حضورﷺ کے الطافِ کریمانہ کے نظارے کرتے ہیں۔جیسا کہ بعض لوگوں کو قصیدہ بردہ کے قلمی اوراق …جو مؤلف قصیدہ، امام شرف الدین بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں لکھے گئے تھے… کے آنکھوں پر لگانے سے آشوب چشم میں شفا یابی ہوئی۔ اسی طرح بزرگوں نے حضورﷺ کے نعلینِ مبارک کے نقشے کی بہت سی برکات بیان کی ہیں۔ حتی کہ مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنے رسالے نیل الشفاء نبعال المصطفے ‘میں نقشہ نعلِ مبارک کے برکات و خواص تفصیل سے درج کیے ہیں جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
أن الناس نزلوا مع رسول اللہ ﷺعلی الحجر أرض ثمود، فاستقوا من آبارھا وعجنوا بہ العجین، فأمرھم رسول اللہﷺ أن یھریقوا ما استقوا و یعلفوا الإبل العجین، و أمرھم أن یستقوا من البئرالتی کانت تردھا الناقۃ۔
الصحیح لمسلم، 2 : 411
لوگ نبی اکرمﷺ کے ساتھ ارض ثمود میں حجر کے مقام میں اترے۔ انہوں نے وہاں کے کنوؤں کا پانی پیا اور اس سے آٹا (بھی) گوندھا تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں اس پانی کے بہا دینے اور آٹا اونٹوں کو کھلاد ینے کا حکم فرمایا۔ اور فرمایا کہ پینے کا پانی اس کنویں سے لو جس پر (حضرت صالح علیہ السلام) کی اونٹنی آتی تھی۔
سورہ کہف میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
قَالَ الَّذِیْنَ غَلَبُوْا عَلٰٓی أَمِرْھِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیْہِمْ مَّسْجِداًo
الکہف، 18 : 21
ان (ایمان والوں) نے کہا جنہیں ان کے معاملہ پر غلبہ حاصل تھا کہ ہم ان (کے دروازہ) پر ضرور ایک مسجد بنائیں گے (تاکہ مسلمان اس میں نماز پڑھیں اور ان کی قربت سے خصوصی برکت حاصل کریں)۔
اصحابِ کہف جب 309 سال کے بعد بیدار ہوئے اور پھر کچھ عرصہ بعد طبعی وفات پائی تو لوگوں میں اختلاف ہوا۔ بعض کی رائے یہ تھی کہ غار کے دروازے پر دیوار بنا کر اس کا منہ بند کردیا جائے اور بعض جو ان میں صاحب اقتدار و اختیارتھے ان کی رائے یہ تھی کہ ان کے قرب میں ایک مسجد تعمیر کردی جائے تاکہ مسلمان اس میں نماز پڑھیں اور ان کی قربت سے خصوصی برکت حاصل کریں۔ اس طرح اصحابِ کہف کی یاد بھی تازہ ہوتی رہے گی۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی اس آیہ کریمہ کی تفسیر یوں کرتے ہیں :
ھذہ الاٰیۃ تدل علی جواز بناء المسجد لیصلی فیہ عند مقابر اولیاء اللہ قصدا للتبرک بھم۔
التفسیر المظہری 6 : 23
یہ آیہ کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اولیاء کرام کے مزارات کے قریب ان سے تبرک حاصل کرنے کے لئے مسجد بنانا تاکہ اس میں نماز پڑھی جائے، جائز ہے۔
اس ضمن میں آپ بعض لوگوں کا موقف جو حدیث رسولﷺ کا غلط معنی بیان کر کے ذہنوں میں تشکیک پیدا کرتے ہیں،کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
و معنی اتخذوا قبور أنبیاء ھم مساجد أنھم یسجدون إلی القبور کما ھو صریح فی حدیث أبی مرثد الغنوی قال : قال رسول اللہﷺ : ولا تجلسوا علی القبور ولا تصلوا إلیھا۔(الصحیح لمسلم، 1 : 312)
التفسیر المظہری، 6 : 24
اور اس حدیث کا معنی، کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنالیا تھا یہ ہے کہ انہوں نے ان قبروں کو سجدے شروع کردیے تھے جیسا کہ ایک دوسری حدیث رسول ﷺسے یہی بات ثابت ہوتی ہے جس میں حضرت ابومرثد الغنوی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا : قبروں پر نہ بیٹھو اور نہ ہی ان کی طرف نماز پڑھو۔
مزاراتِ اولیاء …جہاں ہر وقت تلاوتِ قرآن حکیم اور ذکرِ الٰہی کی ایمان افروز آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں… جب کوئی شخص عبادت و ریاضت میں مشغول ہوکر اولیاء اللہ کے توسُّل سے اللہ کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرتا ہے تو رب اپنے ان مقرب بندوں کے توسُّل سے مانگی ہوئی دعا کو شرفِ قبولیت سے نوازتا ہے۔
گزشتہ صفحات میں ہم نے انبیائے کرام، تبرکاتِ انبیائے کرام، صالحین اور آثارِ صالحین کے حوالے سے قرآن و حدیث سے یہ بات ثابت کی کہ ان سے توسُّل نہ صرف جائز بلکہ عین منشاء خدا و رسول ہے۔ دین و ایمان کا تقاضا ہے اور اس سے کوئی صحیح العقیدہ مسلمان انحراف کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اب ہم اس بحث کو سمیٹتے ہوئے قرآن مجید سے ثابت کریں گے کہ اس توسُّل سے فائدہ اٹھانے کا حق دار کون ہے؟ اس حوالے سے یہ بات ذہن نشین رہے کہ توسُّل کا نفع مسلمان کے ساتھ ساتھ کافر کو بھی اس کے درجہ کے مطابق ہوتا ہے حتی کہ اولیاء کاملین کے وسیلہ کا فائدہ انسان تو درکنار حیوانات کو بھی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اصحاب کہف کے کتے نے ان کے وسیلے سے نفع پایا۔ باری تعالیٰ نے اس کا ذکر قرآن حکیم میں یوں کیا:
وَکَلْبُھُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْہِ بِالْوَصِیْدِ۔
الکہف، 18 : 18
اور ان کا کتا (ان کی) چوکھٹ پر اپنے دونوں بازو پھیلائے (بیٹھا) ہے۔
309 سال تک اصحابِ کہف کو زندہ رکھنے میں یہ حکمت الہی کار فرما تھی کہ انہیں آنے والی نسلِ انسانی کیلئے اللہ کی قدرت کی ایک نشانی بنایا جائے مگر اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنا ہی عرصہ ان کا کتا ان کے دروازے پر ان کی برکت اور وسیلہ سے 309 سال تک بغیر کھائے پئے زندہ بیٹھا رہا۔اگر کسی اور کا کتا ہوتا تو شاید بہت تھوڑ ا عرصہ بھی زندہ نہ رہتا اور بغیر کھائے پئے تھوڑے ہی عرصہ میں مرجاتا۔ دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ وہ کتا ان کا ذاتی بھی نہ تھا بلکہ ان کے نان بائی کا تھا۔ جب وہ چلے تو کتا بھی ان کے ساتھ چل پڑا اور ان مقربین کی سنگت نہ چھوڑنے کی وجہ سے قرآن مجید نے بھی اس کی نشست و برخاست کا ذکر کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کتا تو ایسے ہی بیٹھتا ہے پھر کون سی ایسی بات ہے جو کلام الٰہی کا موضوع بنی اور اس کی نشست و برخاست پر قرآن پاک میں آیات ربانی اتریں؟ یہ سارا کچھ اس لئے کہ کتے نے اللہ کے مقرب اولیاء و صلحاء کی سنگت نہیں چھوڑی اور وفادار بن کر دروازے پر بیٹھا رہا۔ ان کی اسی سنگت نے نہ صرف اس کو تین سو نو سال تک زندہ رکھا بلکہ اسے عام کتوں سے بھی ممتاز کردیا۔ ان اولیاء کی وجہ سے قرآن حکیم میں جہاں بھی باری تعالیٰ نے اپنے ان پیارے بندوں کا ذکر کیا، ان کے ساتھ ساتھ اس کتے کا بھی ذکر کیا ہے :
سَیَقُوْلُوْنَ ثَلٰثَۃٌ رَّابِعُھُمْ کَلْبُھُمْ وَ یَقُوْلُوْنَ خَمْسَۃٌ سَادِسُھُمْ کَلْبُھُمْ رَجْماًمْ بِالْغَیْبِ ج وَ یَقُوْلُوْنَ سَبْعَۃٌ وَّ ثَامِنُھُمْ کَلْبُھُمْ۔
الکہف، 18 : 22
(اب) کچھ لوگ کہیں گے : (اصحابِ کہف) تین تھے، ان میں سے چوتھا ان کا کتا تھا اور بعض کہیں گے : پانچ تھے، ان میں سے چھٹا ان کا کتا تھا، یہ بِن دیکھے اندازے ہیں اور بعض کہیں گے : (وہ) سات تھے اور ان میں سے آٹھواں ان کا کتا تھا۔
اس آیتِ کریمہ میں اصحابِ کہف کے ساتھ ان کے کتے کا بھی ذکر آرہا ہے۔وہ کتا جس نے وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے اصحابِ کہف کی سنگت کو نہ چھوڑا۔ اس کایہ طرزِ عمل اللہ تعالیٰ کو اتنا پسند آیا کہ جہاں اس نے مقربین کا ذکر کیا وہاں کتے کی وفاداری کا بھی ذکر کیا۔
اصحاب کہف کے کتے کی نشست و برخاست کا تذکرہ قرآن میں آسکتا ہے تو ایک صحیح العقیدۂ مسلمان اگر اپنی دعا کی قبولیت کی امید بڑھانے کے لئے اس کے برگزیدہ نبی اور مقرب بندے یا ان سے منسوب کسی متبرک چیز کا وسیلہ پیش کرے یا کسی متبرک مقام پر جا کر دعا کرے یا اولیاء و صلحاء کی صحبت میں آجائے تو وہ اللہ کے قرب اور اس کی معرفت سے کیسے محروم ہوسکتا ہے کیونکہ اللہ کے بندے تو رب کی معرفت سے آشنا کرنے اور اس کی رضا کی راہ دکھانے کے حوالے سے وسیلہ ہیں۔لہذا ثابت ہوا کہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان بطریقِ اولی وسیلہ سے حصولِ نفع کا حقیقی مستحق ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved