کتاب التوسل

تبرکات نبوی ﷺ سے توسل

یہ حقیقت ہے کہ صالحین سے منسوب چیزیں بڑی با برکت اور فیض رساں ہوتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ کے آثار کو بطور تبرک محفوظ رکھنا اور ان سے برکت حاصل کرنا حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول تھا، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ ان چیزوں کو اللہ جل شانہ کی بارگاہ میں وسیلہ بناتے تھے۔ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اپنے انبیاء کے تبرکات کا ذکر کیا ہے، مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کی آل کے تبرکات سے بنی اسرائیل کا برکت حاصل کرنے کا ذکر کچھ یوں کیا ہے:

وَ قَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ إِنَّ اٰیَةَ مُلْکِهٖ أَنْ يَّأْتِیَکُمُ التَّابُوْتُ فِيْهِ سَکِيْنَةٌ مِّنْ رَّبِکُمْ وَ بَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوْسیٰ وَ اٰلُ هٰرُوْنَ تَحْمِلُهُ الْمَلٰئِکَةُ ط إِنَّ فِيْ ذٰلِکَ لَاٰیَةً لَّکُمْ إِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَO

البقرۃ، 2 : 248

اورا ن کے نبی نے ان سے فرمایا : اس کی سلطنت (کے مِنْ جَانبِ اللہ ہونے) کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس صندوق آئے گا، اس میں تمہارے رب کی طرف سے سکونِ قلب کا سامان ہوگا اور کچھ آلِ موسی اور آلِ ہارون کے چھوڑے ہوئے تبرکات ہوں گے، اسے فرشتوں نے اٹھایا ہوا ہوگا۔ اگر تم ایمان والے ہو تو بے شک اس میں تمہارے لیے بڑی نشانی ہے۔

قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت یعقوب علیہ السلام کا حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیض سے برکت حاصل کرنے کا واقعہ کچھ یوں ذکر کیا ہے:

إِذْهَبُوْا بِقَمِيْصِيْ هٰذَا فَأَلْقُوْهُ عَلیٰ وَجْهِ أَبِيْ یَأْتِ بَصِيْرًا ج وَ أْتُوْنِيْ بِأَهْلِکُمْ أَجْمَعِيْنَOوَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيْرُ قَالَ أَبُوْهُمْ إِنِّيْ لَأَجِدُ رِيْحَ یُوْسُفَ لَوْلَآ أَنْ تُفَنِّدُوْنَOقَالُوْا تَاللهِ إِنَّکَ لَفِيْ ضَلٰلِکَ الْقَدِيْمِOفَلَمَّآ أَنْ جَآء الْبَشِيْرُ أَلْقٰهُ عَلیٰ وَجْهِهٖ فَارْتَدَّ بَصِيْرًا ط قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَّکُمْ ج إِنِّيْ أَعْلَمُ مِنَ اللهِ مَالَا تَعْلَمُوْنَO

یوسف، 12 : 6۔ 93

میرا یہ قمیض لے جاؤ، سو اسے میرے باپ کے چہرے پر ڈال دینا، وہ بینا ہوجائیں گے اور (پھر) اپنے سب گھر والوں کو میرے پاس لے آؤ۔ اور جب قافلہ (مصر سے) روانہ ہوا، ان کے والد (یعقوب) نے (کنعان میں بیٹھے ہی) فرمادیا : بیشک میں یوسف کی خوشبو پا رہا ہوں اگر تم مجھے بڑھاپے کے باعث بہکا ہوا خیال نہ کرو۔ وہ بولے : اللہ کی قسم! یقینا آپ اپنی (اسی) پرانی محبت کی خود رفتگی میں ہیں۔ پھر جب خوشخبری سنانے والا آپہنچا، اس نے وہ قمیض یعقوب کے چہرے پر ڈال دیا تو اسی وقت ان کی بینائی لوٹ آئی۔ یعقوب نے فرمایا : کیا میں تم سے نہیں کہتا تھا کہ بیشک میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

کتبِ احادیث و سیر کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور نبی اکرمﷺ سے دعا کروانے کے علاوہ بھی بہت سی صورتوں میں آپﷺ سے حصول برکت کرتے تھے، مثلاً : آپﷺ کے دست مبارک کا اپنے اوپر مسح کرواتے؛ خود آپﷺ کے جسم اطہر کو تبرکاً مس کرتے؛ آپﷺ کے وضو سے بچے ہوئے پانی سے تبرک حاصل کرتے؛ جس پانی سے آپﷺ دست اقدس دھوتے اس سے تبرک حاصل کرتے؛ آپﷺ کے بچے ہوئے کھانے سے تبرک حاصل کرتے؛ آپﷺ کے پسینہ مبارک سے؛ لعاب دہن مبارک سے؛ ناک مبارک سے نکلنے والی رینٹ سے؛ موئے مبارک (جو حجامت کے وقت اترتے، نیچے نہ گرنے دیتے تھے) سے؛ ناخن مبارک سے؛ لباس مبارک سے؛ عصاء مبارک سے؛ انگوٹھی مبارک سے؛ بستر مبارک سے؛ چارپائی مبارک سے؛ چٹائی مبارک سے؛ الغرض ہر اس چیز سے تبرک حاصل کرتے جس کی حضورﷺ کے جسم اقدس سے تھوڑی یا زیادہ نسبت ہوتی۔ حتی کہ آپﷺ کے وصال کے بعد صحابہ کرام اور تابعین عظام نے آپﷺ کی قبرِ انور سے اور آپﷺ کے منبر مبارک سے بھی تبرک حاصل کیا۔ بلکہ جن مکانوں اور رہائش گاہوں میں آنحضور ﷺ نے سکونت اختیار فرمائی، جن جگہوں پر آپﷺ نے نمازیں ادا فرمائیں اور جن راستوں پر سے آپﷺگزرے ان کی گرد و غبار تک سے بھی انہوں نے تبرک حاصل کیا۔ یہاں تک کہ صحابہ و تابعین کے ادوار کے بعد نسلاً بعد نسلاً ہر زمانے میں اکابرائمہ و مشائخ اور علماء و محدثین کے علاوہ خلفاء و سلاطین حضورﷺ کے آثار و تبرکات کو بڑے ادب و احترام سے محفوظ رکھتے تھے۔ خصوصی ایام میں بہت اہتمام کے ساتھ مسلمانوں کو ان کی زیارت کروائی جاتی تھی، ان سے تبرک حاصل کیا جاتا تھا اور ان کے توسل سے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگی جاتی تھیں۔

ادب و احترام کا یہی تقاضا آپﷺ کی سنن مقدسہ، احادیث مبارکہ حتی کہ آپﷺ کے ذکر مبارک کے باب میں بھی ملحوظ رہنا تقاضائے ادب ہے۔ اسی طرح اہل بیت اطہار، صحابہ کرام اور آل پاک سب کی محبت و ادب بھی اسی نسبت سے واجب ہے۔ ایسے امور کے ملحوظ رکھنے سے اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو بہت سے ظاہری و باطنی تبرکات سے نوازتا ہے۔ اس کے برعکس ان کی بے ادبی کرنے سے بہت سی آفات و بلیات نازل ہوتی ہیں جن کا عام لوگوں کو ادراک نہیں ہوتا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے پاس آپ ﷺکے استعمال کی متعدد چیزیں بطور تبرک موجود تھیں ان میں بعض تبرکات اور ان سے توسل کا ذکر مندرجہ ذیل ہے:

1۔ قرب مصطفےﷺ میں دفن ہونے کی خواہش

امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ حضور نبی کریم ﷺ کے قریب دفن ہونے کے بہت ہی زیادہ خواہاں تھے۔ جب آپ کی وفات کا وقت قریب آگیا تو آپ نے اپنے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ کو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس اجازت لینے کے لئے بھیجا جبکہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ہوا تھا کہ وہ اس جگہ کو اپنے لئے پسند فرماتی ہیں۔ توانہوں نے فرمایا کہ میں اس جگہ کو اپنے لئے پسند کرتی تھی مگر اب میں عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے پر ترجیح دیتی ہوں۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ واپس آئے اور اپنے والد کو خوشخبری سنائی۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : الحمد للہ! میرے نزدیک سب سے اہم معاملہ یہ تھا۔ روایت اس طرح ہے:

حدثنا حصین بن عبدالرحمن، عن عمرو بن میمون الأودي قال : رأیت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، قال : یا عبد اللہ بن عمر! اذہب إلی أم المؤمنین عائشۃ رضی اللہ عنھا، فقل : یقرأ عمر بن الخطاب علیکِ السلام، ثم سلھا أن أدفن مع صاحبي، قالت : کنت أریدہ لنفسی فلأوثِرنّهُ الیوم علی نفسی، فلما أقبل، قال لہ : ما لدیک؟ قال : أذنت لک یا أمیر المؤمنین، قال : ما کان شئ أھم إلي من ذالک المضجع فإذا قبضت فاحملونی ثم سلموا، ثم قل : یستأذن عمر بن الخطاب فإن أذنت لی فأدفنونی، و إلا فردونی إلی مقابر المسلمین۔

صحیح البخاری، 1 : 524، 186

حضرت حصین بن عبدالرحمن، عمر بن میمون رضی اللہ عنہ اودی سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا : میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ فرماتے تھے : اے عبداللہ بن عمر! تم ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاؤ اور کہو عمر بن خطاب آپ رضی اللہ عنہ کو سلام کہتا ہے اور پھر اجازت مانگنا کہ کیا مجھے اپنے دونوں ساتھیوں کے ہمراہ دفن ہونے کی اجازت ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا کہ یہ جگہ میں نے اپنے لیے رکھی تھی لیکن آج میں عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے اوپر ترجیح دیتی ہوں۔ جب وہ پاس آئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا خبر لیکر آئے ہو؟ تو وہ بولے : اے امیر المؤمنین! انہوں نے آپ رضی اللہ عنہ کو اجازت دیدی ہے۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : آج میرے نزدیک اس آرام گاہ سے بڑھ کر کوئی چیز اہم نہیں ہے۔ جب میں انتقال کر جاؤں تو مجھے لیجا کر (اس جگہ پر) سلام عرض کرنا اور عرض کرنا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اجازت چاہتا ہے اگر وہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اجازت دیدیں تو دفن کردینا ورنہ مجھے عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کردینا۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اس خواہش کی تفسیر صرف یہی ہے کہ وہ نبی ﷺ کی وفات کے بعد آپ ﷺکے قریب دفن ہونے سے برکت حاصل کرنے کے لئے آپﷺ کو وسیلہ بنانا چاہتے تھے۔

2۔ مشکیزہ سے حصولِ برکت

1۔ حضرت عبدالرحمن بن ابی عمرہ اپنی دادی سے روایت کرتے ہیں کہ انہیں کبشۃ انصاری نے کہا :

أن رسول اللہﷺ دخل علیہا، و عندہا قِربۃ معلقۃ فشرب منھا و ھو قائم، فقطعت فم القِربۃ تبتغی برکةَ موضع فی رسول اللہﷺ۔

1۔ سنن ابن ماجہ : 253
2۔ جامع الترمذی، 2 : 11
3۔ شمائل الترمذی : 15
4۔ مسند احمد بن حنبل، 6 : 434
5۔ مسند الحمیدی، 1 : 172، رقم : 354
6۔ صحیح ابن حبان، 12 : 9۔ 138، رقم : 5318
7۔ المعجم الکبیر للطبرانی، 25 : 15، رقم : 8
8۔ شرح السنۃ للبغوی، 11 : 379، رقم : 3042

نبی کریمﷺ اس کے پاس تشریف لائے اور اس کے پاس ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا۔ آپﷺ نے اس سے کھڑے ہوکر پانی پیا۔ پھر اس نے مشکیزہ کا منہ برکت کے باعث کاٹ کر رکھ لیا چونکہ اس سے حضورﷺ کا دہن اطہر لگا تھا۔

امام ابن ماجہ کی روایت کی سند صحیح ہے جبکہ امام ترمذی نے اس روایت کو حسن صحیح غریب قرار دیا ہے۔

2۔ اُم سلیم رضی اللہ عنہا نے اس مشکیزہ کا منہ کاٹ لیا جس مشکیزہ کے منہ سے نبی کریمﷺ نے پانی نوش فرمایا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

أن النبي ﷺ دخل علے أم سلیم، و فی البیت قِربۃ معلقۃ، فشرب من فیھا و ھو قائم، قال : فقطعت أم سلیم فم القربۃ فھو عندنا۔

1۔ مسند احمد بن حنبل، 3 : 119
2۔ مسند احمد بن حنبل، 6 : 431
3۔ شمائل الترمذی : 15
4۔ مسند ابوداؤد طیالسی، 229، رقم : 1605
5۔ المعجم الکبیر للطبرانی، 25 : 127، رقم : 307
6۔ المعجم الاوسط للطبرانی، 1 : 379، رقم : 658

کہ حضور اکرمﷺ ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور گھر میں ایک مشکیزہ (پانی کا) لٹکا ہوا تھا۔ آپﷺ نے کھڑے ہوکر اس مشکیزے سے (پانی) پیا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ام سلیم رضی اللہ عنھا نے مشکیزے کے منہ کو کاٹ لیا۔ پس وہ (اب بھی) ہمارے پاس موجود ہے۔

3۔ جبہ رسول ﷺکے توسل سے حصولِ شفاء

عن عبداللہ مولی اسماء بنت أبی بکر رضی اللہ عنها أنھا أخرجت إلیّ جبۃ طیالسۃ کسروانیۃ لھا لبنۃ دیباج، وفرجیھا مکفوفین بالدیباج، فقالت : ھذہ کانت عند عائشۃ حتی قُبضتْ، فلما قُبضتْ قبضتھا وکان النبیﷺ یلبسھا، فنحن نغلسلھا للمرضی لنستشفی بھا۔

1۔ الصحیح لمسلم، 2 : 190
2۔ سنن ابو داؤد، 2 : 206
3۔ سنن ابن ماجہ : 265
4۔ مسند احمد بن حنبل، 6 : 8۔ 347
5۔ الطبقات الکبری، 1 : 454

حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے مولی عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر نے کسروانی طیلسان کا جبہ نکالا جس کے گریبان اور چاکوں پر ریشم کا کپڑا لگا ہوا تھا۔ کہنے لگیں : یہ حضرت عائشہ کے پاس تھا جب وہ فوت ہوئیں تو میں نے لے لیا اور نبی کریم ﷺ اس کو پہنتے تھے۔ ہم بیماروں کیلئے اس کو دھوتے اور اس کے ساتھ بیماروں کیلئے شفاء طلب کرتے ہیں۔

امام نووی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :

و فی هذا الحدیث دلیل علی استحباب التبرک بآثار الصالحین و ثیابهم۔

شرح الصحیح لمسلم، 2 : 191

اس حدیث میں صالحین کے آثار اور ان کے کپڑوں سے برکت حاصل کرنے کے استحباب پر دلیل ہے۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں :

إتخذ رسول اللہ ﷺ خاتماً من ورق و کان فی یدہ، ثم کان بعد فی ید أبی بکر، ثم کان بعد فی ید عمر، ثم کان فی ید عثمان حتی وقع بعد فی بئر أریس، نقشہ : محمد رسول اللہ ﷺ۔

1۔ صحیح البخاری، 2 : 873
2۔ صحیح مسلم، 2 : 196
3۔ سنن ابو داؤد، 2 : 227

رسول اللہ ﷺ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اور وہ آپﷺ کے ہاتھ میں تھی پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں رہی پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں رہی، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں رہی، پھر ان کے ہاتھ سے اریس کے کنوئیں میں گر گئی۔ اس انگوٹھی کا نقش یہ تھا:

اللہ
رسول
محمد

4۔ کمبل مبارک سے حصولِ برکت

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس وہ کمبل محفوظ تھا جس میں حضورﷺ کا وصال مبارک ہوا تھا، جیسا کہ حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما نے ایک موٹا کمبل نکال کر ہمیں دکھایا اور بتایا:

فی ھذا نزع روح النبیﷺ۔

صحیح البخاری، 1 : 438

حضورﷺ کا وصال اس کمبل میں ہوا تھا۔

5۔ نعلینِ پاک سے حصولِ برکت

1۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس حضورﷺ کے نعلین پاک اور ایک پیالہ بھی محفوظ تھا جس میں حضور نبی اکرمﷺ پانی نوش فرماتے تھے۔ نعلین پاک کے حوالے سے صحیح البخاری میں ہے:

حدثنا عیسی بن طھمان قال : أخرج إلینا أنس نعلین جرداوین، لهما قبالان، فحدثنی ثابت البُنانی بعدُ عن أنس : أنهما نعلا النبیﷺ

1۔ صحیح البخاری، 1 : 438
2۔ شمائل الترمذی : 7

حضرت عیسیٰ بن طھمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ہمیں دو پرانے نعلین مبارک نکال کر دکھائے ان میں سے ایک ایک کے دو تسمے تھے۔ پھر ثابت بُنانی نے اس کے بعد حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ یہ دونوں حضورﷺ کے نعلین مبارک ہیں۔

2۔ اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ عبید بن جُریح نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا : ’’میں آپ کو بالوں سے صاف کی ہوئی کھال کی جوتی پہنے ہوئے دیکھتا ہوں۔ ‘‘ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے جواب دیا : ’’میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسی جوتیاں پہنے ہوئے دیکھا ہے جس میں بال نہیں ہوتے تھے اور آپ ﷺ وضو کر کے اس میں پاؤں مبارک رکھتے تھے، لہذا میں ایسی جوتیاں پہننا پسند کرتا ہوں۔‘‘

1۔ صحیح البخاری، 2 : 870
2۔ شمائل الترمذی : 7

3۔ امام قسطلانی اپنی کتاب ’المواہب اللدنیۃ (2 : 118۔ 9)‘ میں لکھتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ کے خادمین میں سے تھے اور آپﷺ کی خدمت اقدس میں تکیہ، مسواک، نعلین اور وضو کے لیے پانی لے کر حاضر رہتے۔ جب آپﷺ قیام فرماتے تو وہ آپﷺ کو نعلین مبارک پہنا دیتے اور جب آپﷺ تشریف رکھتے تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آپﷺ کے نعلین پاک اٹھا کر بغل میں دبالیتے تھے۔

امام قسطلانی مزید لکھتے ہیں:

’’نعلین پاک کی فضیلت، منفعت اور برکت جو بیان کی گئی ہے، اس میں سے ایک وہ ہے جو صالح شیخ ابو جعفر بن عبدالمجید نے بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے نعلین پاک کا نمونہ اپنے ایک طالب علم کو دیا۔ ایک دن وہ میرے پاس آکر کہنے لگا : کل میں نے نعلین پاک کی عجیب برکت دیکھی۔ میری بیوی شدید درد کی وجہ سے قریب المرگ تھی۔ میں نے نعلین پاک کو درد کی جگہ پر رکھا اور کہا : اے اللہ! مجھے اس نعلین کے مالکﷺ کی کرامت دکھا۔ اللہ تعالیٰ نے کرم فرمایا اور میری بیوی فوراً صحت یاب ہوگئی۔‘‘

حضور نبی اکرمﷺ کے نعلین پاک کی بابت ابوبکر احمد بن امام ابو محمد عبداللہ بن حسین قرطبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:

و نعلٍ خضَعْنا هیبةً لِبَهائِها
و إنَّا متی نَخضَع لها أبدًا نعلو

فَضَعْها علی أعلَی المَفارِق إنھا
حقیقَتُهَا تاجٌ و صورتُها نعلُ

(ایسے جوتے کہ جن کی بلند و بالا عظمت کو ہم تسلیم کرتے ہیں، کیونکہ اس عظمت کو تسلیم کر کے ہی ہم بلند ہوسکتے ہیں۔ اس لیے انہیں بلند ترین جگہ پر رکھنا چاہیے کیونکہ درحقیقت یہ (سَر کا) تاج ہیں اگرچہ دیکھنے میں جوتے ہیں۔)

المواہب اللدنیۃ، 2 : 470 2- انوارِ محمدیہ للنبھانی : 258

جب امام فخانی نے پہلی مرتبہ نعلین پاک دیکھے تو بے اختیار بول پڑے :

وَ لو قیل للمجنونِ لَیلیٰ و وَصْلُہا
تُریدُ أمِ الدنیا و ما فی زوایھا

لقال غُبارُ من ترابِ نِعالہا
أحبُّ إلی نفسی و الشفا لِی بَلائھا

(اور اگر لیلیٰ کے مجنوں سے پوچھا جاتا کہ تو لیلیٰ سے ملاقات اور مال و زرِ دنیا میں سے کس چیز کو ترجیح دے گا؟ تو وہ بے اختیار پکار اٹھتا : ’’اس کی جوتیوں سے اٹھنے والی خاک مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیاری ہے اور اس کی مصیبتیں رفع کرنے کے لئے سب سے بہترین علاج ہے۔‘‘)

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ علماء دیو بند نے نعلینِ پاک کے متعلق کتب تالیف کی ہیں :

1۔ مولانا شہاب الدین احمد مقری نے ’فتح المتعال فی مدح النعال‘ نامی کتاب لکھی۔

2۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے ’نیل الشفاء بنعال المصطفے‘ نامی رسالہ لکھا جو کہ ان کی کتاب ’زاد السعید‘ میں پایا جاتا ہے۔

مولانا محمد زکریا کاندھلوی لکھتے ہیں :

’’نعل شریف کے برکات و فضائل مولانا اشرف علی تھانوی کے رسالہ ’زاد السعید‘ کے اخیر میں مفصل مذکور ہیں جس کو تفصیل مقصود ہو، اس میں دیکھ لے۔ مختصر یہ کہ اس کے خواص بے انتہا ہیں، علماء نے بارہا تجربے کئے ہیں۔ اسے اپنے پاس رکھنے سے حضورﷺ کی زیارت میسر ہوتی ہے، ظالموں سے نجات حاصل ہوتی ہے، ہر دلعزیزی میسر ہوتی ہے، غرض ہر مقصد میں اس کے توسل سے کامیابی ہوتی ہے، طریقِ توسل بھی اسی میں مذکور ہے۔‘‘

شمائل ترمذی مع اردو شرح خصائل نبوی : 77

اس بحث سے ثابت ہوا کہ حضورﷺ سے بے پناہ عشق و محبت اور آپﷺ کی اشیاء کی تعظیم و تکریم ہی زندگی کا حقیقی سرمایہ ہیں۔ جیسا کہ امام احمد رضا خان کہتے ہیں:

جو سر پہ رکھنے کو مل جائے نعلِ پاکِ حضورﷺ
تو پھر کہیں گے کہ ہاں، تاجدار ہم بھی ہیں

6۔ پیالہ مبارک سے حصولِ برکت

1۔ حضرت ابوبردۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :

قال لی عبد اللہ بن سلام : أ لا أسقیک فی قدح شرب النبیﷺ فیہ؟

صحیح البخاری، 2 : 842

مجھے عبداللہ بن سلام نے کہا : کیا میں آپ کو اس پیالے میں (پانی) نہ پلاؤں جس میں آقاﷺ نے نوش فرمایا تھا؟

2۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :

فأقبل رسول اللہﷺ یومئذ حتی جلس فی سقیفۃ بنی ساعدۃ ھو و أصحابہ ثم قال : اسقنا، لسهل۔ قال : فأخرجت لهم هذا القدح فأسقیتهم فیه۔ قال أبو حازم : فأخرج لنا سهل ذلک القدح فشربنا فیه۔ ثم استوهبه بعد ذلک عمر بن عبدالعزیز، فوهبه له۔ و فی روایۃ أبی بکر بن إسحاق، قال : اسقنا یا سهل۔

1۔ الصحیح لمسلم، 2 : 169
2۔ صحیح البخاری، 2 : 842

حضور نبی اکرمﷺ ایک دن اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہمراہ سقیفہ بنی ساعدہ میں تشریف فرما ہوئے۔ پھر حضرت سہل سے فرمایا کہ مجھے (پانی) پلاؤ۔ پھر میں نے ان کے لیے یہ پیالا نکالا اور انہیں اس میں (پانی) پلایا۔ ابو حازم نے کہا : سہل نے ہمارے لیے وہ پیالہ نکالا اور ہم نے بھی اس میں پیا۔ پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے وہ پیالہ ان سے مانگ لیا تو حضرت سہل نے وہ پیالہ ان کو دے دیا۔ اور ابوبکر بن اسحاق کی روایت میں ہے کہ اس نے کہا : اے سہل! ہمیں پانی پلاؤ۔

3۔ حضرت حجاج بن حسان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

کنا عند أنس بن مالک، فدعا بإناء فیہ ثلاث ضباب حدید و حلقۃ من حدید، فأخرج من غلاف أسود و ھو دون الربع و فوق نصف الربع، فأمر أنس بن مالک فجعل لنا فیہ ماء فأتینا بہ فشربنا وصببنا علی رؤوسنا و وجوہنا و صلینا علی النبیﷺ۔

1۔ مسند احمد حنبل، 3 : 187
2۔ البدایۃ والنہایۃ، 4 : 370

ہم حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس تھے کہ آپ نے ایک برتن منگوایا جس میں لوہے کی تین مادہ گوہ اور لوہے کا ایک چھلا تھا۔ آپ نے اسے سیاہ غلاف سے نکالا، جو درمیانے سائز سے کم اور نصف چوتھائی زیادہ تھا۔ اور حضرت انس کے حکم سے اس میں ہمارے لیے پانی ڈال کر لایا گیا تو ہم نے پانی پیا اور اپنے سروں اور چہروں پر ڈالا اور آقاﷺ پر درود پڑھا۔

اس روایت کی اسناد صحیح ہیں۔

4۔ اور جب وہ پیالہ ٹوٹ گیا جس میں آقا ﷺنے پانی پیا تھا جو حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ تھا تو اس کی مرمت کا انہوں نے جس قدر اہتمام کیا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور نبی کریمﷺ سے منسوب اشیاء کو کس قدر حرزجاں بنائے ہوئے تھے۔

روایت میں آیا ہے :

أن قدح النبی ﷺ انکسر فاتخذ مکان الشعب سلسلةً من فضۃ۔ قال عاصم : رأیتُ القدح و شربتُ فیہ۔

صحیح البخاری، 1 : 438

حضور نبی کریمﷺ کا پیالہ ٹوٹ گیا تو (حضرت انس رضی اللہ عنہ نے) عام چیز کی بجائے چاندی کی زنجیر سے اسے ٹھیک کیا۔ عاصم (راوی) کہتے ہیں : خود میں نے وہ پیالہ دیکھا ہے اور اسی میں پانی بھی پیا ہے۔

7۔ موئے مبارک سے حصولِ برکت

تبرکات کو محفوظ رکھنے کی خود نبی اکرمﷺ نے تعلیم دی اور اپنے صحابہ کے اندر عملاً یہ شعور بیدار کردیا تھا کہ وہ حضور ﷺ کے برکات کو حاصل کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے تھے۔

1۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ جب حضورﷺ حج کے موقع پر قربانی دینے سے فارغ ہوئے تو

ناول الحالق شِقَّہ الأیمن فحلقہ، ثم دعا أبا طلحۃ الأنصاری فأعطاہ إیاہ، ثم ناولہ الشِّقَّ الأیسر، فقال : احلق۔ فحلقہ، فأعطاہ أبا طلحۃ، فقال : اقسمہ بین الناس۔

1۔ الصحیح لمسلم، 1 : 421
2۔ سنن ابو داؤد، 1 : 279
3۔ جامع الترمذی، 1 : 111
4۔ مسند احمد بن حنبل، 3 : 214، 208، 111
5۔ مسند الحمیدی، 2 : 512، رقم : 1220
6۔ السنن الکبری للبیہقی، 5 : 134
7۔ صحیح ابن خزیمہ، 4 : 299، رقم : 2928
8۔ شرح السنۃ للبغوی، 7 : 206، رقم : 1962

آپ ﷺ نے سر انور کا دایاں حصہ حجام کے سامنے کردیا، اس نے بال مبارک مونڈھ دیئے۔ پھر آپﷺ نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور وہ بال ان کو دے دیئے اس کے بعد حجام کے سامنے دوسری جانب فرمائی، اس نے ادھر کے بال بھی مونڈھ دیئے۔ آپﷺنے وہ بال حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو دے دیئے اور فرمایا : یہ بال لوگوں میں بانٹ دو۔

2۔ ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں:

أن رسول اللہﷺ لما حلق رأسہ، کان أبو طلحۃ أولَ من أخذَ من شعرہ۔

صحیح البخاری، 1 : 29

جب رسول اللہ ﷺ نے اپنا سر مبارک منڈوایا تو حضرت ابو طلحۃ رضی اللہ عنہ پہلے شخص تھے جنہوں نے آپﷺ کے بال مبارک لیے۔

3۔ اسی طرح ایک اور روایت حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

لقد رأیت رسول اللہﷺ، والحَلّاق یَحلِقہ وأطاف بہ أصحابہ، فما یریدون أن تقع شعرۃ إلا فی ید رجل۔

1۔ صحیح مسلم، 2 : 256
2۔ مسند احمد بن حنبل، 3 : 133، 137
3۔ الطبقات الکبریٰ، 1 : 431
4۔ السنن الکبری للبیہقی، 7 : 68
5۔ البدایۃ والنہایۃ، 4 : 140

میں نے حضور ﷺ کو دیکھا کہ حجام آپ ﷺکے سر مبارک کی حجامت بنا رہا ہے اور صحابہ کرام آپﷺ کے گرد حلقہ باندھے ہوئے تھے اور چاہتے تھے کہ حضورﷺ کا جو بال بھی گرے وہ کسی نہ کسی کے ہاتھ میں گرے۔

4۔ ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں :

قلت لعبیدۃ : عندنا من شعر النبي ﷺ، أصبناہ من قِبَل أنس، أو من قِبَل أھل أنس، فقال : لأن تکون عندی شعرۃ منہ أحب إليّ من الدنیا وما فیھا۔

1۔ صحیح البخاری، 1 : 29
2۔ السنن الکبری للبیہقی، 7 : 67۔ 8

میں نے عبیدہ سے کہا کہ ہمارے پاس نبی اکرمﷺ کے بال مبارک ہیں جن کو میں نے انس یا ان کے گھر والوں سے حاصل کیا ہے۔ عبیدہ نے کہا کہ اگر ان میں سے ایک بال میرے پاس ہو تو وہ بال مجھے ساری دنیا اور جو کچھ اس میں ہے، سے زیادہ محبوب ہے۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اس میں آپﷺ کے بال مبارک سے برکت حاصل کرنے کا بیان ہے۔‘‘

فتح الباری، 1 : 274

5۔ ثابت البنانی بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

هذہ شعرۃ من شعر رسول اللہﷺ فضعها تحت لسانی۔ قال : فوضعتها تحت لسانہ، فدفن و ہی تحت لسانہ۔

الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، 1 : 71

یہ اللہ کے پیارے رسولﷺ کا ایک بال مبارک ہے، پس تم اسے میری زبان کے نیچے رکھ دینا۔ وہ کہتے ہیں : میں نے وہ بال آپ رضی اللہ عنہ کی زبان کے نیچے رکھ دیا اور انہیں اس حال میں دفنایا گیا کہ وہ بال ان کی زبان کے نیچے تھا۔

6۔ عثمان بن عبداللہ بن موہب بیان کرتے ہیں:

أرسلَنی أہلی إلی أم سلمۃ بقدح من ماء، و قبض إسرائیل ثلاث أصابع من قُصَّۃ فیہ شعر من شعر النبیﷺ، و کان إذا أصاب الإنسانَ عین أو شئ بعث إلیہا مِخْضَبَةٌ۔ فاطلعتُ فی الجُلْجُل فرأیتُ شعراتٍ حمرًا۔

1۔ صحیح البخاری، 2 : 875
2۔ البدایۃ والنہایۃ، 4 : 390

مجھے میرے گھر والوں نے حضرت ام سلمۃ رضی اللہ عنہا کے پاس پانی کا ایک پیالہ دے کر بھیجا۔ اسرائیل نے تین انگلیاں پکڑ کر اس پیالے کی طرح بنائیں جس میں نبی اکرمﷺ کا موئے مبارک تھا، اور جب کبھی کسی کو نظر لگ جاتی یا کوئی تکلیف پہنچتی تو وہ حضرت ام سلمۃ رضی اللہ عنہا کے پاس (پانی کا) برتن بھیج دیتا۔ پس میں نے برتن میں جھانک کر دیکھا تو میں نے چند سرخ بال دیکھے۔

علامہ بدر الدین عینی فرماتے ہیں:

’’حضرت ام سلمۃ رضی اللہ عنہا کے پاس آقا ﷺ کے موئے مبارک چاندی کی بوتل میں تھے۔ جب لوگ بیمار ہوتے تو وہ ان بالوں سے برکت حاصل کرتے اور ان کی برکت سے شفا پاتے۔ اگر کسی کو نظر لگ جاتی یا کوئی بیمار ہوجاتا تو وہ اپنی بیوی کو حضرت ام سلمۃ رضی اللہ عنہا کے پاس برتن دیکر بھیجتے جس میں پانی ہوتا اور وہ اس پانی میں سے بال مبارک گزار دیتیں اور بیمار وہ پانی پی کر شفایاب ہوجاتا اور اس کے بعد موئے مبارک جِلجَل میں رکھ دیا جاتا۔

عمدۃ القاری، 22 : 49

8۔ حضور اکرم ﷺ کے مس شدہ کپڑے کو کفن بنانا

1۔ شیرِ خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا کا وصال ہوا تو حضورﷺ نے ان کی تجہیز و تکفین کے لئے خصوصی اہتمام فرمایا، غسل کے بعد جب انہیں قمیص پہنانے کا موقعہ آیا تو آپﷺ نے اپنا کرتہ مبارک عورتوں کو عطا فرمایا اور حکم دیا کہ یہ کرتہ پہنا کر اوپر کفن لپیٹ دیں۔

1۔ المعجم الکبیر للطبرانی، 24 : 2۔ 351، رقم : 871
2۔ المعجم الاوسط للطبرانی، 1 : 3۔ 152، رقم : 191
3۔ الاستیعاب لابن عبدالبر، 4 : 382
4۔ حلیۃ الاولیاء لابی نعیم، 3 : 121
5۔ العلل المتناہیۃ لابن الجوزی، 1 : 9۔ 268، رقم : 433
6۔ صفۃ الصفوۃ لابن الجوزی، 2 : 38
7۔ اسد الغابۃ، 7 : 213
8۔ وفاء الوفاء للسمھودی، 3 : 8۔ 897
9۔ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، 4 : 380

کرتہ عطا فرمانے کا مقصد یہی سمجھ میں آتا ہے کہ آپﷺ چاہتے تھے کہ وہ اس کے فیوض و برکات سے مستفید ہوجائیں۔

2۔ حضور ﷺ کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو آپﷺ نے کفن لپیٹنے کے لئے اپنا ازاربند مبارک عطا فرمایا۔

1۔ صحیح البخاری، 1 : 168
2۔ الصحیح لمسلم، 1 : 304
3۔ سنن ابو داؤد، 2 : 92
4۔ سنن النسائی، 1 : 267، 266
5۔ جامع الترمذی، 1 : 118
6۔ سنن ابن ماجہ : 106
7۔ موطا امام مالک : 203۔ 4
8۔ مسند احمد بن حنبل، 5 : 84
9۔ مسند احمد بن حنبل، 6 : 407
10۔ مسند الحمیدی، 1 : 6۔ 175، رقم : 360
11۔ صحیح ابن حبان، 7 : 304، 302، رقم : 3032۔ 3
12۔ المعجم الکبیر للطبرانی، 25 : 45۔ 50، رقم : 99۔ 97، 5۔ 94، 93۔ 88، 86

3۔ اسی طرح ایک خاتون نے حضورﷺ کی بارگاہ میں ایک چادر پیش کی۔ جب آپﷺ نے وہ زیب تن فرمائی تو ایک شخص نے عرض کی : یا رسول صلی اللہ علیک وسلم! کتنی حسین چادر ہے، مجھے عنایت فرمادیں۔ آپﷺ نے انہیں عنایت فرمائی۔ حاضرین نے اس کو اچھا نہیں سمجھا اور چادر مانگنے والے کوملامت کی کہ جب تمہیں معلوم تھا کہ حضورﷺ کسی سائل کو واپس نہیں لوٹاتے تو تم نے یہ چادر کیوں مانگی؟ اس شخص نے جواب دیا کہ میں نے یہ چادر استعمال کے لئے نہیں لی بلکہ اپنا کفن کے لئے لی ہے تاکہ میں بھی اس سے برکت حاصل کروں۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:

عن سھل بن سعد قال : جاءتِ امرأۃ إلی النبیﷺ ببردۃ، فقال سھل للقوم : أ تدرون ما البردۃ؟ فقال القوم : ھی الشملۃ۔ فقال سھل : ھی شملۃ منسوجۃ فیھا حاشیتھا، فقالت : یا رسول اللہ! أکسوک ھذہ، فأخذھا النبیﷺ محتاجًا إلیھا فلبسھا، فرآھا علیہ رجل من أصحابہ، فقال : یا رسول اللہ! ما أحسن ھذہ، فأکسُنیھا، فقال : نعم۔ فلما قام النبیﷺ لَامَهُ أصحابہ، قال : ما أحسنت حین رأیت النبیﷺ أخذھا محتاجا إلیھا، ثم سألتہ إیاھا، و قد عرفتَ أنہ لا یُسئل شیئا فیمنعہ، فقال : رجوت برکتھا حین لبسھا النبیﷺ، لعلی أکفن فیھا۔

1۔ صحیح البخاری، 2 : 5۔ 864، 892
2۔ صحیح البخاری، 1 : 281، 170
3۔ سنن ابن ماجہ : 262
4۔ مسند احمد بن حنبل، 5 : 4۔ 333
5۔ الطبقات الکبری، 1 : 454

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت نبی کریمﷺ کے لئے بردہ یعنی چادر لیکر آئی۔ سہل نے لوگوں سے کہا : جانتے ہو کہ بردہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا : بڑی کھلی چادر ہے۔ سہل نے کہا : بردہ وہ چادر ہے جو لکیردار ہو۔ اس عورت نے کہا : اے اللہ کے رسول! (یہ چادر) آپ کو پہننے کیلئے پیش کرتی ہوں۔ نبی کریمﷺنے وہ چادر قبول فرمالی اس حال میں کہ آپ ﷺ کو اس کی ضرورت تھی۔ پھر حضور نبی کریمﷺ نے وہ پہنی۔ صحابہ میں سے ایک آدمی نے وہ چادر دیکھی تو عرض کیا : یا رسول اللہ! یہ کیا ہی اچھی چادر ہے، آپ ﷺیہ مجھے عطا فرما دیں۔ فرمایا : ہاں! تم لے لو۔ جب نبی کریم ﷺاٹھ کر چلے گئے تو آپﷺ کے صحابہ نے اس کو ملامت کی۔ انہوں نے کہا : تو نے اچھا نہیں کیا جب تو نے نبی اکرمﷺ کو دیکھا تھا کہ آپ ﷺنے وہ چادر لے لی ہے حالانکہ آپ کو اس کی ضرورت تھی اور تو جانتا ہے کہ حضورنبی اکرمﷺ سے کوئی بھی سوال کیا جائے تو آپﷺ انکار نہیں فرماتے۔ اس آدمی نے کہا : جب نبی کریمﷺ نے اس کو پہن لیا تو میں نے اس کی برکت کی امید کی شاید کہ میں اسی میں کفنایا جاؤں۔

سہل بن سعد بیان کرتے ہیں کہ اسے اس چادر میں دفنایا گیا۔

4۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں :

أتی النبیﷺ عبداللہ بن أبی بعد ما دفن، فأخرجہ، فنفثَ فیہ من ریقہ، و ألبَسہ قمیصَہ۔

1۔ صحیح البخاری، 1 : 169

حضور نبی رحمتﷺ عبداللہ بن ابیّ کے پاس اس کے دفن ہونے کے بعد پہنچے تو آپﷺ نے اسے باہر نکلوایا، اپنا لعابِ دہن مبارک اس کے منہ میںڈال دیا اور اپنا کرتہ اسے پہنا دیا۔

یہی روایت ذرا مختلف الفاظ کے ساتھ اس طرح بھی نقل کی گئی ہے :

أتی النبیﷺ عبد اللہ ابن أبی بعد ما أدخل قبرہ، فأمر بہ فأخرج، و وضع علی رُکبتیہ، و نفث علیہ من ریقہ، و ألبسہ قمیصہ۔

1۔ صحیح البخاری، 2 : 862
2۔ صحیح البخاری، 1 : 180
3۔ الصحیح لمسلم، 2 : 368
2۔ مسند احمد بن حنبل، 3 : 371
4۔ سنن النسائی، 1 : 284، 269
5۔ مسند احمد بن حنبل، 3 : 381
6۔ السنن الکبری للبیہقی، 3 : 402
7۔ المغازی للواقدی، 2 : 1057

نبی اکرمﷺ عبداللہ بن ابیّ کے پاس اس وقت تشریف لائے جب وہ قبر میں رکھا جا چکا تھا۔ آپﷺ نے اس کو نکالنے کا حکم دیا (اور جب اسے باہر نکالا گیا تو) آپﷺ نے اپنے گھٹنوں پر اسے رکھا اور اس پر اپنا لعاب دہن ملتے ہوئے دم کیا اور اسے اپنی قمیص پہنائی۔

5۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :

لما توفی عبداللہ بن أبی، جاء ابنہ إلی رسول اللہﷺ فقال : یا رسول اللہ! أعطنی قمیصک أکفنہ فیہ و صَلِّ علیہ، و استغفر لہ، فأعطاہ قمیصہ۔

1۔ صحیح البخاری، 2 : 674، 673، 862
2۔ صحیح البخاری، 1 : 169
3۔ الصحیح لمسلم، 2 : 368
4۔ سنن النسائی، 1 : 269
5۔ تفسیر النسائی، 1 : 2۔ 551، رقم : 244
6۔ جامع الترمذی، 2 : 136
7۔ مسند احمد بن حنبل، 2 : 18
8۔ صحیح ابن حبان، 7 : 447، رقم : 3715
9۔ الاستیعاب لابن عبدالبر، 2 : 336
10۔ السنن الکبریٰ للبہیقی، 3 : 402
11۔ السنن الکبری للبہیقی، 8 : 199
12۔ دلائل النبوۃ للبہیقی، 5 : 287
13۔ البدایۃ والنھایۃ، 3 : 635
14۔ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، 2 : 336

جب عبداللہ بن ابیّ کا انتقال ہوا تو اس کے بیٹے نے نبی اکرمﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر عرض کیا : اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیک وسلم اپنی قمیص عنایت کردیجئے تاکہ اس کیلئے اس کا کفن بناؤں اور آپ صلی اللہ علیک وسلم اس پر نماز پڑھ دیجئے اور اس کے لیے مغفرت طلب کیجئے، تو آپﷺ نے اسے اپنی قمیص مبارک عنایت کردی۔

6۔ حضرت عبداللہ بن سعد بن سفیان غزوہ تبوک میں شہید ہوئے تو نبی اکرمﷺ نے انہیں اپنی مبارک قمیص کا کفن پہنایا۔

1۔ اسد الغابۃ، 3 : 262
2۔ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، 2 : 318

7۔ حضرت عبداللہ بن حارث بن عبدالمطلب بن ہاشم فوت ہوئے تو آپﷺ نے انہیں اپنی مبارک قمیص کا کفن پہنا کر دفن کیا، اور فرمایا : یہ خوش بخت ہے اور اس نے اس سے سعادت حاصل کی ہے۔

1۔ الاستیعاب لابن عبدالبر، 2 : 279
2۔ اسد الغابۃ، 3 : 207
3۔ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، 2 : 292

9۔ موئے مبارک کے توسُّل سے جنگ میں فتح و کامرانی

عن صَفِيَّۃ بنت نَجدَۃ : قالت و کانت فی قلنسوۃ خالد بن ولید شَعَراتٌ من شَعرہ فسقطت قلنسوتُہ فی بعض حُروبِہ، فشدَّ علیھا شدةً أنکر علیہ أصحاب النبیﷺ کَثرةَ مَن قُتِل فیھا، فقال : لم أفعلْھا بسبب القَلَنْسُوۃ، بل لما تضَمَّنَتْہ من شَعرِہ ﷺ لئلا أُسْلَب برکتھا وتقع فی أیدی المشرکین۔

الشفا، 2 : 619

حضرت صفیہ بنت نجدہ سے مروی ہے کہ حضرت خالد بن ولید کی ٹوپی مبارک میں حضورﷺ کے چند موئے مبارک تھے۔ جب وہ ٹوپی کسی جہاد میں گرپڑی تواس کے لینے کیلئے تیزی سے دوڑے جب اس جہاد میں بکثرت صحابہ کرام رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو لوگوں نے آپ پر اعتراض کیا۔ فرمایا : میں نے صرف ٹوپی کے حاصل کرنے کیلئے اتنی تگ و دو نہیں کی بلکہ اس ٹوپی مبارک میں حضورﷺ کے موئے مبارک تھے مجھے خوف ہوا کہ کہیں اگر یہ مشرکین کے ہاتھ لگ گئی تو اس کی برکت سے محروم ہوجاؤں گا۔

10۔ نبی اکرمﷺ کے کھنکار مبارک سے حصولِ برکت

1۔ سن 6 ہجری میں جب حضور نبی کریمﷺ اپنے جانثار صحابہ کے ساتھ حج کے ارادے سے مکہ معظمہ کی طرف تشریف لے گئے توراستے میں مشرکین نے ان کو روک لیا۔ آپﷺ چونکہ حج کے ارادے سے نکلے تھے اسلئے جذبہ جہاد سے سرشار صحابہ کرام کو بھی مشتعل نہ ہونے دیا۔ اس دوران دو طرفہ سفارتی مذاکرات جاری رہے۔ جب کفار و مشرکین کی طرف سے حضرت عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (جو اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے) سفیر بن کر آئے تو انہوں نے اس موقع پر حضورﷺ کے ساتھ آپ ﷺ کے اصحاب کی والہانہ وابستگی کا بغور مشاہدہ کیا اور واپس جاکر مشرکین سے اس کا تذکرہ اس طرح کیا:

أی قوم! و اللہ، لقد وفدت علی الملوک، و وفدت علی قیصر و کسریٰ و النجاشی، و اللہ! إن رأیت ملکاً قط یعظمہ أصحابہ ما یعظم أصحاب محمدٍﷺ محمدًا، واللہ إن تَنخَّم نُخامةً إلا وقَعتْ فی کف رجل منھم فَدَلَکَ بھا وجہهٗ وجلدہ، و إذا أمرھم ابتدروا أمرہ، و إذا توضأ کادوا یقتتلون علیٰ وضوئہ، و إذا تکلم خفضوا أصواتھم عندہ، و ما یُحِدّون إلیہ النظر تعظیماً لہ، و إنہ قد عَرَضَ علیکم خُطۃ رُشد فاقبلوھا۔

1۔ صحیح البخاری، 1 : 379 2۔ دلائل النبوۃ للبیہقی، 1 : 104

اے قوم (کفار مکہ!) اللہ کی قسم! میں بادشاہوں کے درباروں میں حاضر ہوا ہوں اور قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے ہاں بھی گیا ہوں۔ اللہ کی قسم! میں نے کبھی کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا کہ جس کے اصحاب اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسی محمدﷺ کے اصحاب محمدﷺ کی کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم ! انہوںنے جب کبھی کھنکھار پھینکا ہے تو وہ آپﷺ کے اصحاب میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ میں گرا جسے انہوں نے اپنے منہ اور جسم پر مل لیا۔ جب وہ اپنے اصحاب کو حکم دیتے ہیں تو وہ اس کی تعمیل کے لیے دوڑتے ہیں اور جب وضو فرماتے ہیں تو وہ ان کے وضو کے پانی کے حصول کے لیے باہم جھگڑنے کی نوبت تک پہنچ جاتے ہیں اور جب وہ گفتگو کرتے ہیں تو اصحاب ان کے سامنے اپنی آوازیں پست کرلیتے ہیں اور از روئے تعظیم ان کی طرف تیز نگاہ نہیں کرتے۔ انہوں نے تم پر ایک نیک امر پیش کیا ہے پس تم اسے قبول کرلو۔

2۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ مریض کے لیے فرمایا کرتے تھے :

بِسم اللہ، تُربةُ أرضِنا، و ریقۃ بعضنا، یُشفَی سَقِيْمُنا، بِإذنِ رَبِّنا۔

1۔ صحیح البخاری، 2 : 855
2۔ الصحیح لمسلم، 2 : 223
3۔ مسند احمد بن حنبل، 6 : 93
4۔ المستدرک للحاکم، 4 : 412
5۔ شرح السنۃ للبغوی، 5 : 224۔ 5، رقم : 1414

اللہ کے نام سے، ہماری زمین کی مٹی اور ہم میں سے کسی کے لعابِ دہن سے دہن سے ہمارا بیمار اللہ کے حکم سے شفا پائے گا۔

حافظ ابن حجر عسقلانی اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :

’’حضور نبی اکرمﷺ کے الفاظ ’’ہم میں سے کسی کے لعاب دہن سے‘‘ سے ثابت ہوتا ہے کہ آپﷺ دم فرماتے وقت لعابِ دہن مبارک لگایا کرتے تھے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’اس حدیث کا مطلب ہے کہ نبی اکرمﷺ اپنا لعابِ دہن اپنی انگشتِ شہادت پر لے کر زمین پر ملتے اور اسے منجمد کر کے اسے بیمار یا زخم کی جگہ پر ملتے اور ملتے ہوئے حدیث میں مذکور الفاظ ارشاد فرماتے۔ ‘ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے : ’اس حدیث سے ہر بیماری میں دم کرنے کا جواز ثابت ہوتا ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے درمیان یہ امر عام اور معروف تھا۔ ‘ انہوں نے یہ بھی کہا ہے : ’نبی اکرمﷺ کا اپنی انگلی مبارک زمین پر رکھنا اور اس پر مٹی ڈالنے سے دورانِ دم اس کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ …اور بے شک اس میں اسماءِ الٰہی اور رسولﷺ کے آثار سے تبرک حاصل کرنے کا بیان ہے، پھر دم اور اسماء مبارکہ وغیرہ حیران کُن اثرات رکھتے ہیں جن کی حقیقت سے عقل ماؤف ہوجاتی ہے۔‘‘

فتح الباری، 10 : 208

مستند ترین کتبِ احادیث میں یہ مثالیں بھی بکثرت ملتی ہیں کہ جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسے گھٹّی دلوانے اور اس کا نام رکھوانے کے لیے بارگاهِ رحمت للعالمینﷺ میں حاضر ہوتے۔ آپﷺ اس نومولود کے منہ میں اپنا مبارک لعابِ دہن ڈالتے اور یوں اس بچے کے پیٹ میں سب سے پہلے جو چیز پہنچتی وہ دو جہانوں کے والی آقاﷺ کا لعاب دہن ہوتا۔

3۔ حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنھما بیان کرتی ہیں:

أنها حَملتْ بعبد اللہ بن الزبیر، قالتْ : فخرجتُ و أنا مُتِمٌّ، فأتیتُ المدینةَ فنزلتُ بقُبَاء، فولدتهُ بقُباءٍ، ثم أتیتُ بہ النبیﷺ فوضَعتُہ فی حَجرِہ، ثم دعا بتمرةٍ، فَمَضَغَهَا، ثم تَفَل فی فیہ، فکان أولَ شئ دخل جوفَہ ریقُ رسولِ اللہﷺ، ثم حَنَّکَہ بتمرۃ، ثم دعالہ و بَرَّکَ علیہ۔

1۔ صحیح البخاری : 1 : 555
2۔ صحیح البخاری، 2 : 821۔ 2
3۔ الصحیح لمسلم، 2 : 209
4۔ مسند احمد بن حنبل، 6 : 347، 93

کہ میں (مکہ میں ہی) عبداللہ بن زبیر سے حاملہ ہوگئی تھی (یعنی کہ وہ میرے پیٹ میں تھے)۔ حمل کے دن پورے ہونے کو تھے کہ میں مدینہ کے لیے روانہ ہوئی۔ میں قبا میں اتری اور قبا میں ہی میرا بچہ (عبداللہ بن زبیر) پیدا ہوا۔ پھر میں اسے رسول اللہﷺ کی خدمتِ اقدس میں لے کر حاضر ہوئی اور میں نے اسے آپﷺ کی گود مبارک میں ڈال دیا۔ پھر آپﷺ نے کھجور منگوائی اور اسے چبایا۔ پھر بچہ کے منہ میں لعابِ دہن ڈال دیا اور جو چیز سب سے پہلے اس کے پیٹ میں داخل ہوئی وہ آپﷺ کا لعاب تھا۔ پھر اس کے تالو میں کھجور لگادی، اس کے حق میں دعا کی اور اس پر مبارکباد دی۔

4۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :

ذہبتُ بِعبدِ اللہ بن أبی طلحۃ الأنصاری إلی رسولِ اللہﷺ حین وُلِدَ، و رسول اللہﷺ فی عَبَاءَةٍ یَهْنأُ بَعیرًا لہ فقال : ہل معکَ تمرٌ؟ فقلتُ : نعم، فناولتهُ تَمَراتٍ، فألقاهُنَّ فی فیہ، فَلا کَهُنَّ، ثم فَغَرَفا الصَّبِیِّ فمَجَّہ فی فیہ، فجعل الصبی یَتَلَمَّظُهُ، قال رسول اللہﷺ : حُبُّ الأنصارِ التمر۔ و سماہ عبدَ اللهِ۔

1۔ الصحیح لمسلم، 2 : 208
2- مسند احمد بن حنبل، 3 : 212، 196، 175، 171

جب حضرت ابو طلحۃ انصاری رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو میں انہیں لے کر حضورنبی اکرمﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ اس وقت رسول اللہﷺ ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے اور اپنے اونٹ کو روغن مل رہے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا : کیا تمہارے پاس کھجوریں ہیں؟ میں نے عرض کیا : جی ہاں۔ پھر میں نے کچھ کھجوریں آپﷺ کو پیش کیں، آپﷺ نے وہ اپنے منہ میں ڈال کر چبائیں۔ پھر آپﷺ نے بچہ کا منہ کھول کر اسے بچہ کے منہ میں ڈال دیا اور بچہ اسے چوسنے لگا۔ پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا : انصار کو کھجوروں سے محبت ہے۔ اور اس بچے کا نام عبداللہ رکھا۔

11۔ حضور ﷺ کے پسینہ مبارک سے تبرک حاصل کرنا

1۔ عن ثمامہ عن أنس رضی اللہ عنہ أن أم سلیم کانت تبسط النبي ﷺ نِطَعا، فیقیل عندھا علیٰ ذالک النِطَع، قال : فإذا قام النبيﷺ أخذتْ من عَرَقہ و شَعرہ فجمعتہ، فی قارورۃ، ثم جمعتہ فی سُکٍّ، قال : فلما حضر أنس بن مالک الوفاةُ أوصیٰ إلي أن یُجْعل فی حنوطہ من ذالک السُّکِ، قال : فجُعل فی حنوطہ۔

صحیح البخاری، 2 : 929

حضرت ثمامہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنھا نبی اکرمﷺ کے لیے چمڑے کا ایک گدا بچھایا کرتی تھیں اور حضور ﷺان کے ہاں اسی گدے پر قیلولہ فرمایا کرتے تھے۔ (حضرت انس رضی اللہ عنہ کا) بیان ہے کہ جب نبی اکرمﷺ سونے سے بیدار ہوکر اٹھ کھڑے ہوتے تو میں آپﷺ کا پسینہ مبارک اور موئے مبارک جمع کرلیتا اور ان کو ایک شیشی میں ڈال کر خوشبو میں ملالیا کرتا تھا۔ حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ کا بیان کہ جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے وصیت فرمائی کہ وہ خوشبو ان کے کفن کو لگا دی جائے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ وہ خوشبو ان کے کفن کو لگا دی گئی۔

2۔ اسی طرح دوسری روایت ہے :

عن أنس بن مالک، قال : دخل علینا النبيﷺ، فقال عندنا، فعَرِق و جاءت أمی بقارورۃ، فجَعلتْ تَسْلتُ العَرَقَ فیھا، فاستیقظَ النبيﷺ، فقال : یا أم سلیم! ما ھذا الذی تصنعین؟ قالت : ھذا عَرَقک نجعلہ فی طِیبِنا و ھو مِن أطیب الطیب۔

1۔ الصحیحلمسلم، 2 : 257
2۔ مسند احمد بن حنبل، 3 : 136

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس نبی اکرمﷺ تشریف لائے اور قیلولہ فرمایا۔ آپﷺکو پسینہ آیا اور میری والدہ ایک شیشی لیکر آئیں اور آپﷺ کا پسینہ پونچھ پونچھ کر اس میں ڈالنے لگیں۔ نبی اکرمﷺ بیدار ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا : اے ام سلیم! تم یہ کیا کر رہی ہو؟ انہوں نے عرض کی :

یہ آپﷺ کا پسینہ ہے جس کو ہم اپنی خوشبو میں ڈالیں گے اور یہ سب سے اچھی خوشبو ہے۔

12۔ دستِ محمدﷺ کے غسّالہ سے حصولِ تبرک

حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :

کنتُ عند النبیﷺ و ھو نازل بالجِعرانۃ بین مکۃ و المدینۃ، و معہ بلال، فأتیٰ رسول اللہﷺ رجل أعرابي، فقال : ألا تُنجز لی، یا محمد! ما وعدتنی؟ فقال لہ رسول اللہﷺ : أبشر۔ فقال لہ الأعرابی : أکثرت علي من أبشر۔ فأقبل رسول اللہﷺ علی أبی موسیٰ و بلال، کھیئۃ الغضبان۔ فقال : إن ھذا قد ردّ البشریٰ فأقبلا أنتما۔ فقالا : قبلنا یا رسول اللہ! ثم دعا رسول اللہ بقدح فیہ مآئ، فغسل یدیہ و وجھہ فیہ و مج فیہ، ثم قال : إشربا منہ، و أفرغا علیٰ وجوھکما و نحورکما، و أبشرا۔ فأخذا القدح ففعلا ما أمرھما بہ رسول اللہ ﷺ، فنادتھما أم سلمۃ رضي اللہ عنھا من وراء الستر : أفضِلا لأمکما مما فی إنائکما، فأفضلا لھا منہ طائفۃ۔

1۔ الصحیح لمسلم، 2 : 303
2۔ صحیح البخاری، 2 : 620
3۔ کنز العمال، 13 : 608۔ 9، رقم : 37556

میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ تھا جب آپﷺ جعرانہ میں تشریف لائے، جو کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے۔ آپﷺ کے ساتھ حضرت بلال رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ ایک اعرابی آپﷺ کے پاس آیا اور بولا : اے محمد ! کیا آپ نے مجھ سے کیا ہوا وعدہ پورا نہیں کیا۔ آپ نے اسے فرمایا : خوش ہوجاؤ۔ وہ بولا : آپ نے بہت دفعہ کہا ہے : ’’خوش ہوجاؤ۔ ‘‘ آپﷺ غصے کی حالت میں حضرت ابو موسیٰ اور حضرت بلال کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : اس شخص نے میری بشارت کو رد کیا، اب تم دونوں میری بشارت قبول کرو۔ دونوں نے عرض کی : یا رسول اللہ! ہم نے (خوشخبری) قبول کی۔ پھر آپﷺنے ایک پیالہ پانی کا منگوایا اور دونوں ہاتھ اور چہرہ انور دھوئے اور اس میں کلی کی، پھرفرمایا : اسے پی جاؤ اور اپنے منہ اور سینے پر ڈالو اور خوش ہو جاؤ۔ ان دونوں نے پیالیہ لیا اور ایسے ہی کیا جیسے آپ ﷺ نے انہیں فرمایا تھا۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ان کو پردے کے پیچھے سے آواز دی : اپنی ماں کے لیے بھی اپنے برتنوں میں سے بچاؤ۔ پس انہوں نے ان کیلئے بھی کچھ پانی رکھ لیا۔

13۔ حضور ﷺ کے ناخن مبارک سے حصولِ تبرک

حضرت محمد بن عبداللہ بن زید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں:

فحلق رسول اللہﷺ رأسہ فی ثوبہ فأعطاہ فقسم منہ علی رجال و قلم أظفارہ فأعطاہ صاحبہ۔

مسند احمد بن حنبل‘ 4 : 42

نبی اکرمﷺ نے کپڑے میں سر کے بال کٹوائے اور انہیں عطا کردئے جس میں سے کچھ انہوں نے لوگوں میں تقسیم کردیے پھر آپﷺ نے ناخن مبارک کٹوائے اور اپنے صاحب کو عطا کردیے۔

اس روایت کی اسناد صحیح ہے اور اس کے رجال مشہور و ثقہ ہیں۔

14۔ حضور ﷺ کے عصامبارک سے حصولِ تبرک

1۔ حضرت عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:

فلما قدمت علی رسولہﷺ فرآنی فقال : أفلح الوجہ۔ قال : قلت : قتلتہ، یا رسول اللہ! قال : صدقت۔ قال : ثم قام معی رسول اللہﷺ، فدخل فی بیتہ فأعطانی عصا، فقال : أمسک ہذہ عندک یا عبداللہ بن أنیس۔ قال : فخرجتُ بھا علی الناس، فقالوا : ما ھذہ العصا؟ قال : قلت : أعطانیھا رسول اللہﷺ و أمرنی أن أمسکھا۔ قالوا : أولا ترجع إلی رسول اللہﷺ فتسألہ عن ذالک؟ قال : فرجعت إلیٰ رسول اللہ ﷺ۔ فقلت : یا رسول اللہ! لم أعطیتنی ھذہ العصا؟ قال : آیۃ بینی و بینک یوم القیامۃ، إن أقل الناس المنحصرون یومئذ یوم القیامۃ۔ فقرنھا عبداللہ بسیفهٖ فلم تزل معہ حتی إذا مات، أمر بھا فصبت معہ فی کفنہ ثم دفنا جمیعاً۔

1۔ مسنداحمد بن حنبل، 3 : 496 2۔ الطقبات الکبریٰ، 2 : 1۔ 50

جب میں نبی اکرمﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپﷺ نے مجھے دیکھ کر فرمایا : کامیاب ہونے والا چہرہ (کامیاب ہونے والا آدمی)۔ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے اس (خالد بن سفیان بن نبیح) کو قتل کردیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا : تو نے سچ کہا۔ پھر رسول اللہ ﷺ میرے ساتھ کھڑے ہوئے اور اپنے کاشانہ اقدس میں تشریف لے گئے اور مجھے عصا عطا کیا اور فرمایا : اے عبداللہ بن أنیس! اسے اپنے پاس رکھ۔ تو جب میں یہ عصاء لیکر لوگوں کے سامنے نکلا توانہوں نے کہا کہ یہ عصا (ڈنڈا) کیا ہے؟ تو کہتے ہیں کہ میں نے کہا : یہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے عطا کیا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ اسے پاس رکھو۔ تو لوگوں نے (مجھے) کہا : کیا تم اسے رسول اللہﷺ کو واپس نہیں کروگے، تم اس سے متعلق حضورﷺ سے پوچھو؟ تو عبداللہ بن انیس کہتے ہیں کہ میں نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرضَ کیا : اے اللہ کے رسول! یہ عصا مبارک آپﷺ نے مجھے کس لیے عطا کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا : قیامت کے روز یہ تیرے اور میرے درمیان ایک نشانی ہوگی کہ جس دن بہت کم لوگ کسی کے ساتھ تعاون کرنے والے ہوں گے۔ حضرت عبداللہ بن أنیس نے اس عصا کو اپنی تلوار کے ساتھ باندھ لیا اور وہ ہمیشہ ان کے پاس رہتا یہاں تک کہ ان کا وصال ہوگیا۔ انہوں نے عصا کے متعلق وصیت کی تھی کہ اس کو میرے کفن میں رکھ دیں تو پھر ہم نے ان کو اکٹھے دفن کردیا۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت ہے:

أنہ کانت عندہ عصیۃ لرسول اللہ ﷺ، فمات فدفنت معہ بین جنبهٖ و قمیصہ۔

ز البدایہ والنہایہ، 4 : 368

کہ ان کے پاس حضور ﷺ کی ایک چھوٹی سی چھڑی تھی، جب وہ فوت ہوئے تو وہ (چھڑی) ان کے ساتھ ان کی قمیص اور پہلو کے درمیان دفن کی گئی۔

قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ ’الشفا (2 : 621)‘ میں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

أن جَهْجَاہا الغِفَاری أخَذَ قضیبَ النبيِّﷺ من ید عثمان رضی اللہ عنہ، و تناولہ لِیکسِرہ علی رُکبتہ، فصاح بہ الناسُ، فأخذتہ الأکِلَۃ فی رُکبتہ فقطعہا، و مات قبل الْحَولِ۔

جھجاھا غفاری نے نبی اکرمﷺ کا عصا مبارک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے چھین لیا اور اسے اپنے گھٹنے پر رکھ کر توڑنے کی (مذموم) کوشش کی لیکن لوگوں نے شور مچا کر اسے روک دیا۔ لیکن (اس کو غیبی سزا اس طرح ملی کہ) اس کے گھٹنے پر پھوڑا نکلا جو ناسور بن گیا جس کی وجہ سے اس کی ٹانگ کاٹ دی گئی اور وہ اُسی سال مرگیا۔

15۔ منبر مبارک سے حصولِ برکت

حضور نبی اکرمﷺ جس منبر شریف پر بیٹھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دین سکھاتے تھے، عشاقِ رسولﷺ نے اس منبر کو بھی حضور نبی اکرمﷺ کے دوسرے آثار کی طرح دل و جاں سے بھی زیادہ عزیز رکھتے اوراس سے برکت حاصل کرتے۔

قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں:

و رُئی ابن عمر واضعا یدَہ علی مَقْعَدِ النبیِﷺ من المِنبَر، ثم وضعها علی وَجْهہ۔

الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰﷺ، 2 : 620

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا جاتا کہ وہ منبر (نبوی) کی وہ جگہ جہاں حضورﷺ تشریف فرما ہوتے، اسے اپنے ہاتھ سے چھوتے اور پھر ہاتھ اپنے چہرہ پر مل لیتے۔

16۔ حضور ﷺ کے عطا شدہ سونے سے حصولِ تبرّک

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول تھا کہ آقاﷺ سے منسوب کسی شے کی حفاظت اپنی جان سے زیادہ کرتے اور حتی المقدور اسے ضائع نہ ہونے دیتے۔ حضورﷺ نے جو دینار خرچ کیے، صحابہ رضی اللہ عنہ نے انہیں بھی سنبھال کر رکھا اور خرچ نہیں کیا۔

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں : میں نبیﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھا۔ ایک سست اونٹ پر سوار ہونے کی وجہ سے سب سے پیچھے رہتا تھا۔ جب میرے پاس سے نبی اکرمﷺ گزرے تو پوچھا : کون ہے؟ میں نے عرض کیا : جابر بن عبداللہ۔ آپﷺ نے دریافت فرمایا : کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا : میں ایک سُست اونٹ پر سوار ہوں۔ آپﷺ نے مجھ سے چھڑی کے متعلق فرمایا تو میں نے چھڑی آپﷺ کے حضور پیش کی۔ آپﷺ نے اس سے اونٹ کو مارا اور ڈانٹا۔ پھر وہی اونٹ سب سے آگے بڑھ گیا۔ آپﷺ نے میرے اونٹ کو خریدنا چاہا تو میں عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! یہ آپ ہی کا ہے، یہ بلا معاوضہ آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ مگر نبی اکرمﷺ نے خریدنے پر اصرار کیا اور فرمایا کہ میں نے چار دینار کے عوض اسے تم سے خرید لیا۔ اور مجھے مدینہ منورہ تک اس پر سواری کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ … جب ہم مدینہ منورہ پہنچے تو آپﷺ نے فرمایا:

یا بلال، اقضِہ و زِدهُ۔

اے بلال! (جابر کو) اس کی قیمت دو اور اس میں زیادتی کرو۔

حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو چار دینار اور ایک قیراط سونا زیادہ دیا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

لا تُفارِقنُی زیادةُ رسولِ اللہﷺ۔ فلم یکنِ القیراط یُفارق قراب جابر بن عبداللہ۔

1۔ صحیح البخاری، 1 : 10۔ 309
2۔ الصحیح لمسلم، 2 : 29
3۔ مسند احمد بن حنبل، 3 : 299، 308، 314

اللہ کے پیارے رسولﷺ کا دیا ہوا (ایک قیراط) سونا ہم سے کبھی جد ا نہ ہوتا۔ (راوی بیان کرتے ہیں : ) اور (نبی اکرمﷺ کا عطا کردہ ) وہ ایک قیراط (سونا) جابر بن عبداللہ کی تھیلی میں برابر رہتا، کبھی جدا نہ ہوتا۔

17۔ ہاتھ و پاؤں مبارک سے حصولِ برکت

1۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :

کان رسول اللہﷺ إذا صلی الغداۃ جاء خدم المدینۃ بآنیتهم فیہا الماء، فما یؤتی بإناء إلا غمس یدہ فیہ، وربما جاؤہ فی الغداۃ الباردۃ فیغمس یدہ فیها۔

الصحیح لمسلم، 2 : 256

اللہ کے رسولﷺ جب صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تو خدّامِ مدینہ اپنے پانی سے بھرے ہوئے برتن لے آتے۔ آپﷺ ہر آنے والے کے برتن میں اپنا ہاتھ مبارک ڈبو دیتے۔ بسا اوقات یہ واقعہ موسم سرما کی صبح میں ہوتا اور آپﷺ اپنا ہاتھ اس میں ڈبو دیتے۔

2۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہﷺ کے لشکروں میں سے ایک لشکر میں تھے، لوگ کفار کے مقابلے سے بھاگ نکلے اور میں بھی ان میں شامل تھا۔ پھر جب پشیمان ہوئے تو واپس مدینہ جانے کا مشورہ کیا اور عزمِ مصمم کرلیا کہ اگلے جہاد میں ضرور شریک ہوں گے۔ وہاں ہم نے رسول اللہﷺ کے پاس جانے کی تمنا کی کہ خود کو آپﷺ کے سامنے پیش کردیں۔ اگر ہماری توبہ قبول ہوگئی تو مدینہ میں ٹھہر جائیں گے ورنہ کہیں اور چلے جائیں گے۔ پھر ہم نے بارگاهِ رسالت مآبﷺ میںآکر عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم! ہم بھاگنے والے ہیں۔ آپﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:

لا، بل أنتم العَکَّارون۔ قال : فدنونا فقبلنا یدہ، فقال : أنا فِئَۃ المسلمین۔

1۔ سنن ابوداؤد، 1 : 362
2۔ سنن ابوداؤد، 2 : 362
3۔ جامع الترمذی، 1 : 205
4۔ سنن ابن ماجہ : 271
5۔ الادب المفرد للبخاری : 338، رقم : 972
6۔ مسند احمد بن حنبل، 2 : 70، 100
7۔ الطبقات الکبری، 4 : 145
8۔ مصنف ابن ابی شیبۃ، 8 : 2۔ 561، رقم : 7۔ 5256
9۔ السنن الکبریٰ للبہیقی، 9 : 76۔ 7
10۔ شعب الایمان للبہیقی، 4 : 50۔ 1، رقم : 4311
11۔ سنن سعید بن منصور، 2 : 209۔ 10، رقم : 2539
12۔ شرح السنۃ للبغوی، 11 : 68۔ 9، رقم : 2708

نہیں، تم پھر لڑائی میں آنے والے ہو۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ (یہ سن کر ہم خوش ہوگئے) آپﷺ کے نزدیک گئے اور آپﷺ کا ہاتھ مبارک چوما۔ آپﷺ نے فرمایا : میں مسلمانوں کی پناہ کی جگہ ہوں (یعنی ان کا ملجا و مأویٰ ہوں، وہ میرے سوا اور کہاں جائیں گے، خواہ غلطی و کوتاہی کریں یا کچھ)۔

3۔ امِ ابان بنت وازع بن زارع اپنے دادا زارع …جو وفدِ عبدالقیس کے رکن تھے … سے روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے بیان کیا:

لما قَدِمنا المدینۃ فجعلنا نتبادرُ من رواحلِنا، فَنُقَبِّلُ یدَ رسول اللہﷺ و رِجلَهٗ۔

1۔ سنن ابو داؤد، 2 : 363
2۔ السنن الکبری للبیہقی، 7 : 102

جب ہم مدینہ منورہ گئے تو اپنی سواریوں سے جلدی جلدی اترے اور اللہ کے پیارے رسولﷺ کے ہاتھ اور پاؤں چومنے لگے۔

4۔ امام بخاری نے یہ روایت ام ابان سے ان الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے کہ ان کے دادا وازع بن عامر نے کہا:

قدمنا، فقیل : ذاک رسول اللہ۔ فأخذنا بیدیہ و رجلیہ نقبلها۔

الادب المفرد : 339، رقم : 975

ہم (مدینہ) پہنچے تو کہا گیا : وہ ہیں اللہ کے رسولﷺ۔ پس ہم نے آپﷺ کے ہاتھ اور پاؤں مبارک پکڑے اور انہیں چوما۔

5۔ حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

أن قوما من الیهود قبلو ید النبیﷺ و رجلیہ۔

1۔ سنن ابن ماجہ : 271
2۔ جامع الترمذی، 2 : 98
3۔ مصنف ابن ابی شیبۃ، 8 : 562، رقم : 6258
4۔ مسند احمد بن حنبل، 4 : 239
5۔ مسند ابو داؤد طیالسی : 160، رقم : 1164
6۔ المستدرک للحاکم، 1 : 9
7۔ المعجم الکبیر للطبرانی، 8 : 70۔ 69، رقم : 7396
8۔ حلیۃ الاولیاء لابی نعیم، 5 : 8۔ 97
9۔ دلائل النبوۃ للبیہقی، 6 : 268

یہودیوں کے ایک وفد نے نبی اکرمﷺ کے ہاتھ اور پاؤں مبارک کا بوسہ لیا۔

امام حاکم نے اس روایت کو صحیح کہا ہے جبکہ امام ذہبی نے بھی ان کی تائید کی ہے۔

خلاصۂِ کلام

اوپر بیان کردہ تمام روایات جو احادیث ِ پاک کی معتبر کتب سے ثابت شدہ اور صحیح ہیں، اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ انبیاء و صالحین سے منسوب آثار و تبرکات فیض رساں اور پُرتاثیر ہوتے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو تبرکاتِ نبی ﷺ کی حفاظت کا اس قدر اہتمام فرماتے ان کا مقصد ان کو برائے نمائش محفوظ رکھنا نہیں تھا بلکہ وہ آفات و بلیات کو دفع کرنے کیلئے ان کے وسیلے سے اللہ کی بارگاہ میں دعا کرتے۔ اور یہ بھی ثابت شدہ مسئلہ ہے کہ صحابہ کرام نے ان آثارو تبرکات سے فیوض و برکات حاصل کیں اور مقاصدِ جلیلہ حاصل کئے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved