ارشاد باری تعالیٰ ہے :
کُلاًّ نُّمِدُّ ھٰٓؤُلَآء وَھٰؤُلَآءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّکَ ط وَ مَا کَانَ عَطَآءُ رَبِّکَ مَحْظُوْرًاO
بنی اسرائیل، 17 : 20
ہم ہر ایک کی مدد کرتے ہیں، ان (طالبانِ دنیا) کی بھی اور ان (طالبانِ آخرت) کی بھی۔ (اے حبیب مکرم! یہ سب کچھ) آپ کے رب کی عطا سے ہے اور آپ کے رب کی عطا (کسی کیلئے) ممنوع اور بند نہیں ہے۔
اس آیت کریمہ میں یوں نہیں فرمایا : ھٰٓؤُلَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّهِمْ (یہ سب کچھ ان کے رب کی عطا سے ہے)، بلکہ فرمایا : هٰٓؤُلَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّکَ (یہ سب کچھ آپ کی رب کے عطا سے ہے۔ ) یعنی عطا تو بے شک رب کی ہے مگر آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’تیرا رب‘‘ کہہ کر دیتا ہوں تاکہ ہر ایک کا دھیان میری عطا کے بعد تیری طرف رہے۔
اس سے ظاہر ہوا کہ کائنات میں جس کو جو کچھ ملتا ہے وہ وسیلہ مصطفےﷺ سے ہی ملتا ہے اور ملتا رہے گا۔ کسی نے کیا خوب کہا:
کسی کو کچھ نہیں ملتا تری عطا کے بغیر
خدا بھی کچھ نہیں دیتا تری رضا کے بغیر
مذکورہ آیہ کریمہ کے پہلے جزو میں اللہ رب العزت نے اپنا نظام ربوبیت بیان فرمایا کہ ہم ہر ایک کو عطا کرتے اور ہر ایک کی مدد کرتے ہیں۔
دوسرے جزو میں فرمایا کہ اے محبوب! ہم یہ اعلان کردینا چاہتے ہیں کہ جس کو جو کچھ عطا ہوتا ہے اور جس کو بھی نوازا جاتا ہے اور جس پر جو بھی نوازشات و عنایات کی جاتی ہیں، وہ سب کچھ تیرے رب کی عطا ہے۔
عام قاعدہ یہ تقاضا کرتا ہے کہ مذکورہ آیۂ کریمہ میں عَطَاءِ رَبِّکَ کی بجائے عَطَاء رَبِّهِمْ ہونا چاہئے تھا کہ بات مخلوق کی ہورہی ہے اور لوگ اسے اپنا کمال نہ سمجھیں بلکہ یہ سمجھیں کہ سب کچھ ان کے رب کی عطا سے ہے۔ یہ بات خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ اس آیہ کریمہ میں اس سے ہٹ کر مختلف انداز میں بات کی گئی ہے۔ اور یہ اس لئے کہ ان سب کو معلوم ہوجائے کہ جس کو جتنا عطا ہوتا ہے اور جو کچھ بھی ملتا ہے وہ اللہ کے محبوب کے رب کی عطا ہے اور اسی کے وسیلے سے ملتا ہے۔ وہ کہیں یہ گمان نہ کرنے لگیں کہ ان کو اپنے کمال اور محنت کی وجہ سے ملتا ہے بلکہ سب کو اللہ کے محبوب کے وسیلے سے عطا ہوتا ہے۔
یہاں ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ ان کا رب نہیں جن کی وہ مدد فرماتا ہے؟ ان کارب بھی تو و ہی ہے اور اسی لئے ان کی مدد و نصرت فرماتا ہے اور اگر ان کا رب نہ ہوتا تو پھروہ انہیں کُلًّا نُّمِدُّ ھٰٓؤُلَآءِ کے مصداق نہ ٹھہراتا۔ اگر وہ ان کا بھی رب ہے تو پھر یہاں خصوصیت کے ساتھ هٰٓؤُ لَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّکَ کیوں ارشاد فرمایا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ لوگوں پر یہ نکتہ آشکار ہوجائے کہ یہ عطائیں تو سب اسی کی ہیں مگر ان سب کو محبوبﷺ کے رب کے واسطے سے ملتا ہے۔ تو گویا یہ آیت زبانِ حال سے پکار پکار کر کہہ رہی ہے:
کوئی مانے نہ مانے اپنا تو یہ عقیدہ ہے
خدا دیتا ہے لیکن، دیتا ہے صدقہ محمدﷺ کا
یہ ہمارا عقیدہ ہے اور یہی عقیدہ صحیح و مستحکم ہے۔ علاوہ ازیں رَبِّکَ کا کلمہ اس حقیقت کو بھی آشکار کر رہا ہے کہ جس طرح رب العالمین ایک ہے اسی طرح اس کا اصل میں مربوب بھی ایک ہی ہے اور وہ حضور اکرمﷺ کی ذات گرامی ہے۔ اس لئے حضور اکرمﷺ کی ذات اقدس اللہ رب العزت کے سارے فیضان ربوبیت کا اجمال ہے اور تمام کائنات اس اجمال (حضور نبی اکرمﷺ) کی تفصیل ہے۔
اس کو ایک مثال سے یوں سمجھا جاسکتا ہے : جیسے کوئی شخص باہر سے آئے اور اپنے بچے کے لئے ایک تحفہ لائے لیکن ساتھ اپنے بیٹے کے دوستوں کے لئے بھی تحائف لائے اور پھر یہ سلسلہ ہمیشہ چلتا رہے کہ باپ اپنے بیٹے کے لئے تحائف لانے کے ساتھ ساتھ اس کے دوستوں کو بھی تحائف سے نوازتا ہے۔ اگر اس امر کے دوام پکڑنے سے اس کے بیٹے کے دوست یہ سمجھنے لگیں کہ شاید یہ ہمارا حق ہے اور ہمیں ہماری ہی کسی خوبی کی وجہ سے تحفوں کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ ان کے اس گمانِ باطل کو دور کرنے کے لئے ایک دن اس لڑکے کا باپ اپنے بیٹے کے دوستوں کو جمع کرکے کہے کہ بے شک میں تمہیں تحائف دیتا ہوں، مگر ذہن میں رکھ لو کہ تمہیں اس لئے دیتا ہوں کہ تم میرے بیٹے کے دوست ہو اور اگر چاہتے ہو کہ میری داد و دینش کا سلسلہ جاری رہے تو پھرمیرے بیٹے کے ساتھ اپنے تعلق دوستی قائم رکھو اور اگر اس تعلق کو توڑ کر اسے درمیان سے ہٹا دوگے تو یہ سلسلہ عطاء بند ہوجائے گا۔
بلا تشبیہ و بلا مثال اس آیۃ مبارکہ میں بھی اللہ پاک یہی نکتہ سمجھار ہا ہے کہ بلا شبہ ہر ایک کو ہم ہی نوازتے ہیں، ہر ایک کی ہم ہی مدد کرتے ہیں مگر میرے فیضان ربوبیت کا پہلا مظہر اور میرے لطف و کرم کا پہلا مرکز و محور میرا محبوبﷺ ہے۔ اس لئے جو کچھ بھی تمہیں دیتا ہوںوہ اس وجہ سے ہے کہ میں ربِّ محمد ﷺ ہوں۔ لہذا ہمہ وقت یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ہر عطاء ربِ محمدﷺ کی عطا ہے۔ اگر لوگ چاہتے ہیں کہ یہ سلسلہ عطا قائم رہے تو اس دامن کو تھامے رکھیں اس مرکز سے ربط قائم رکھیں۔ اگر یہ ربط قائم رہا تو اس نسبت کے توسُّل سے سلسلہ عطاء جاری رہے گا۔ جس دن یہ ربط ٹوٹ گیا سمجھ لینا کہ سلسلہ عطا بھی بند ہوگیا۔ پھر در بدر بھٹکتے پھروگے، گلی گلی خاک چھانتے پھروگے مگر کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ پس اس نکتے کو ذہن نشین کرلو کہ دیتا ضرور ہوں لیکن رب محمدﷺ ہوکر دیتا ہوں۔ گویا کہ یہ نکتہ سمجھایا جارہا ہے کہ عطاء اللہ تعالیٰ کی ہے مگر مرکز تقسیم مصطفی ﷺ کی ذات با برکات ہے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں نے اسی نکتہ کو کیا خوب انداز سے اجاگر کیا ہے:
بخدا! خدا کا یہی ہے در، نہیں اور کوئی مفرّ مقرّ
جو وہاں سے ہو، یہیں آکے ہو، جو یہاں نہیں، تو وہاں نہیں
اس آیہ کریمہ پر غور کرنے سے ایک اور لطیف نکتہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ ھٰٓؤُلَآء مِنْ عَطَآءِ رَبِّکَ میں اللہ رب العزت اپنی ربوبیت کا اظہار نسبت نبوت کے ذریعے کر رہا ہے اور یہ نکتہ بھی واضح رہے کہ رب تعالیٰ نسبتوں کا محتاج نہیں۔ وہ شان صمدیت کا مالک ہے، وہ بے نیا ز ہے لیکن ا س کے باوجود وہ اپنی ربوبیت کو نسبت نبوت سے متعارف کرا رہا ہے۔ اس سے منشائے ایزدی یہ ہے کہ لوگ اللہ کو رب مانیں، اللہ کی ربوبیت پر ایمان لائیں مگر براہ راست اپنے ذرائع سے اور اپنے مساعی سے رب کو رب ماننے کی بجائے اسے رب محمدﷺ سمجھ کر مانیں کیونکہ اس نسبت کے علاوہ معرفت خداوندی کا حصول ممکن ہی نہیں ہے۔
قرآن مجید میں جن جن مقامات پر اللہ رب العزت نے اپنی ربوبیت کا اظہار فرمایا، اسے نسبت نبوت کے ذریعے بیان کیا :
فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتَّی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ۔
النسائ، 4 : 65
پس (اے حبیب!) آپ کے رب کی قسم! یہ لوگ مسلمان نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنالیں۔
یہاں رب العزت نے اپنی ربوبیت کی قسم حضور نبی اکرمﷺ کی نسبت سے کھائی۔ وَرَبِّکَ کے انداز بیان میں مضمرایک لطیف نکتہ یہ بھی ہے کہ محبوب !میں رب تو ہر ایک کا ہوں لیکن جو لطف تیرا رب ہونے میں ہے وہ کسی اور کا رب ہونے میں نہیں۔
صحبت رسولﷺ کے تربیت یافتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر ہونے والی نوازشات پر نظر ڈالی جائے تو صاف طور پر پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر ہونے والی عطاؤں میں حضور ﷺ کی نسبت سے مِنْ عَطَآء رَبِّکَ کی ہی جلوہ گری تھی۔
اب اگر یہ سوال کیا جائے کہ حضور ﷺ کو وصال فرمائے تو چودہ صدیاں گزر گئیں تو کیا آج بھی حضورﷺ کے توسط اور نسبت سے ملتا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ جل مجدہ عالم الغیب ہے۔ عندہ مفاتیح الغیب کی شان کا مالک ہے وہ تو ہر بات کو حیطۂ خیال میں آنے سے بھی پہلے جانتا ہے۔ اس نے اس سوال کا جواب بھی دے دیا اور فرمایا کہ جو پہلے گزرے ہیں وہ بھی جان لیں کہ انہیں جو کچھ ملا وہ محمدﷺ کے رب کی عطا تھی۔ اور اب محبوب ﷺ کے اس ظاہری حیات سے پردہ فرما جانے کے بعد قیامت تک جتنی نسلیں بھی امت مسلمہ کی آئیں گی، جتنے طبقات اور مختلف زمانوں میں جتنے لوگ آئیں گے، ان کو بھی اسی بارگاہ سے ملے گا :
وَ مَا کَانَ عَطَاءُ رَبِّکَ مَحْظُوْرًاO
بنی اسرائیل، 17 : 20
اور آپ کے رب کی عطا (کسی کیلئے) ممنوع اور بند نہیں ہے۔
یہاں پر اللہ اپنے محبوب ﷺ کو مخاطب کر کے فرما رہا ہے کہ جس طرح گزرے ہوؤں کو تیرے رب کی عطا سے ملا، آنے والوں پر بھی قیامت تک تیرے رب کی عطا کا دروازہ اسی طرح کھلا رہے گا۔ گویا جو نسلیں گزر گئیں ان پر بھی اللہ کی عطائیں نسبت نبوت سے ہوئیں اور قیامت تک امت مسلمہ کی جتنی نسلیں آنے والی ہیں ان پر اللہ کی عطاؤں اور عنایات کی جو برسات ہوگی، جس کو بھی اور جہاں بھی جو کچھ ملے گا نسبتِ مصطفیﷺ سے ملے گا۔
آج اگر ہم ایمان کی شمع روشن کرنا اور ایمان کی لذت و حلاوت پانا چاہتے ہیں تو اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ تعلق باللہ کو مضبوط تر کرلیا جائے۔ اس لئے کہ جس طرح پہلے لوگوں نے اللہ کی عطا کو نسبت محمدیﷺ سے پایا ہے، ہم بھی رب کی عطا کو نسبت مصطفویﷺ کے حوالے سے یقینی طور پر جاری و ساری رکھ سکتے ہیں اور اسی نسبت کا استحکام ہمارے سینوں میں ایمانی شمعوں کو روشن رکھے گا۔
یہ آیہ کریمہ اس تصور کو بھی واضح کر رہی ہے کہ ایمان کا مرکز نسبت و ربطِ رسالت کی استواری ہے اور اسی سے اللہ کی عطاؤں کا سلسلہ قائم رہتا ہے، تعلق باللہ کی بنیاد نسبت و تعلق بالرسالت ہی ہے۔
باری تعالیٰ کا ارشاد مِنْ عَطَآء رَبِّکَ لوگوں کو یہ باور کرا رہا ہے کہ عطا بے شک میری ہوتی ہے خواہ وہ دولتِ ایمان ہو، دولتِ عمل ہو، دولتِ اخلاص ہو، دولتِ قال ہو، دولتِ حال ہو اور خواہ وہ دولتِ عرفان و ایقان ہو۔ یا د رکھو جو کچھ بھی میری بارگاہ سے ملتا ہے وہ نسبتِ نبوت اور ربط ِرسالت سے ہی ملتا ہے۔
یہ ارشاد ربانی توحید و رسالت کے باہمی تعلق کو بھی آشکار کر رہا ہے۔ یعنی اگر انسان ربط رسالت کو مضبوط کرے تو اللہ کی بندگی کا تعلق بھی مضبوط ہوجاتا ہے۔ بنا بریں اس ربط اور اللہ کے ساتھ ربط میں فرق نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ربط رسالت نصیب ہوجائے تو سمجھ لیں کہ تعلق بندگی نصیب ہوگیا۔ اس لئے کہ بندگی کا خمیر اسی ربط رسالت سے اٹھتا ہے، خدا کی معرفت کا تصور اسی نسبت نبوت سے جنم لیتا ہے اور اللہ کی عبدیت کا کمال اسی نسبت سے نمو پاتا ہے۔
بے شک رب تعالیٰ کی ذات اور رسول ﷺ کی ذات، اپنی ذات کے حوالے سے جُدا جُدا ہیں۔ اس لئے کہ وہ خالق ہے اور یہ مخلوق، وہ رب ہے اور یہ مربوب، وہ مُرسِل ہے اور یہ مُرسَل، اللہ تعالیٰ معطی ہے تو آپﷺ عطاؤں کا محل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ذات خالق ہونے کے حوالے سے اور ہے اور یہ ذات مخلوق ہونے کے ناطے سے دو جداگانہ وجود (entities) ہیں مگر ایمان کے باب میں قرآن مجید ہمیں جو قاعدہ سمجھا رہا ہے وہ یہ کہ ذات کا فرق ضرور ہے لیکن جہاں تک معرفت، قرب و وصال، اطاعت اور نعمتوں کی عطا کا تعلق ہے دونوں میں کوئی فرق اور بُعد نہیں۔ اور بقول اعلٰحضرت:
میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب
یعنی محبوب و محب میں نہیں تیرا میرا
اللہ جل شانہ کے نزدیک حضور نبی کریمﷺ کا مقام و مرتبہ بڑا ہی عظیم ہے۔ آپﷺ کی عظمت و عالی مرتبت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس طرح آپﷺ کی حیات ظاہری میں آپ ﷺ سے توسُّل جائز تھا اسی طرح بعد از وصال بھی مشروع ہے۔ کوئی شرعی و عقلی دلیل ایسی نہیں جو بعد از وصال آپﷺ سے توسُّل پر مانع ہو۔ قابل فہم بات یہ ہے کہ جب ہم اپنے اعمال کو بارگاہِ ایزدی میں وسیلہ بنانا جائز سمجھتے ہیں تو پھر نبی کریمﷺ کی ذات اقدس کو بارگاہ الہی میں بطور وسیلہ پیش کرنا بطریق اولیٰ جائز امر ہے کیونکہ ہم آپﷺ کے ارشادات عالیہ پر عمل کرتے ہوئے جو نیک اعمال کرتے ہیں وہ سنت رسول کہلاتے ہیں۔ جب سنت سے توسُّل جائز ہوا تو اس ذات سے کیوں جائز نہیں جنہوں نے ہمیں یہ سنت عطا کی ہے۔ آپﷺ بلاشبہ تمام مخلوقات میں سے افضل ترین ہیں اور ہمیں نیک اعمال کی ہدایت بھی تو آپﷺ کے وسیلہ سے نصیب ہوئی ہے۔
یہ بات پیش نظر رہے کہ ہمارے نزدیک صحیح عقیدہ یہی ہے کہ جب ہم آپﷺ کی ذات گرامی یا دیگر نیک اعمال کو یااللہ کے محبوب اولیاء اور صالحین کو وسیلہ بناتے ہیں تو ان تمام صورتوں میں ہم ہرگزان کو اللہ کا شریک اور برابر نہیں سمجھتے۔ اعمال و ذات تو صرف متوسَّل بہٖ ہیں جبکہ اللہ تبارک و تعالی متوسَّل الیہ ہے۔ وہ ذات وحدہٗ لا شریک ہے اور کوئی رسول یا نبی، ولی اور کوئی زندہ یا مردہ اس کا شریک نہیں، نہ ذات میں اور نہ صفات میں۔ وسیلہ کی تمام صورتوں میں متوسَّل الیہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات ہوتی ہے۔ وہ اس بات پر قادر ہے کہ ہر کسی کی دعا و پکار کو براہ راست سن لے اور وسیلہ کے بغیر بھی دعا قبول فرما لے مگر وسیلہ سے قبولیت کی امید بڑھ جاتی ہے۔ اس لئے ان پاک ہستیوں کا وسیلہ پکڑ کر فی الواقع اسی سے دعا کرتے ہیں اور اسی کو پکارتے ہیں۔ اس امید کے ساتھ کہ وہ ذات ستودہ صفات اپنی مخلوق میں سے محبو ب ترین مخلوق اور پسندیدہ اعمال کے وسیلہ سے ہماری دعاؤں کو ضرور شرف قبولیت سے نوازے گا اور ہماری مشکلات و پریشانیوں کو دور کریگا اور ہماری حاجات پوری فرمائے گا۔ سورہ نساء میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ لَوْ أَنَّھُمْ إِذْ ظَّلَمُوْآ أَنْفُسَھُمْ جَآءوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَ اسْتَغَفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّاباً رَّحِیْماًO
النسآء، 4 : 64
اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول (ﷺ) بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بناء پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔
اس آیت کریمہ کو فقط حضور نبی اکرمﷺ کی ظاہری حیات طیبہ پر محمول کرنا …جیسا کہ بعض لوگوں کا نظریہ ہے… نصّ قرآنی کا غلط اطلاق ہوگا اور قرآن فہمی سے نا آشنائی کی دلیل ہوگی۔ مفسرّین و محدّثین نے ذاتِ مصطفیﷺ سے توسُّل کو مطلق قرار دیا ہے۔
امام حافظ عماد الدین ابن کثیر اس آیت کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں:
یُرشِد تعالیٰ العصاۃ و المذنبین إذا وقع منهم الخطاء و العصیان أن یأتوا إلی الرسولﷺ، فیستغفروا الله عنده و یسألوه أن یغفر لھم فإنھم إذا فعلوا ذالک تاب الله علیهم و رحمھم و غفرلھم، و لھذا قال : {لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا} و قد ذکر جماعۃ منهم الشیخ أبو منصور الصباغ فی کتابه الشامل الحکایۃ المشھورۃ عن العتبی، قال : کنتُ جالسًا عند قبر النبیﷺ فجاء أعرابی، فقال : السلام علیک یا رسول الله! سمعتُ یقول : {وَ لَوْ أَنَّھُمْ إِذْ ظَّلَمُوْآ أَنْفُسَھُمْ جَآءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوْا اللهَ وَ اسْتَغْفَرَلَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا} و قد جئتک مستغفراً لذنبی مستثفعًا بک إلی ربی۔ ثم أنشأ یقولُ:
’یا خیر من دفنت بالقاع أعظمه
فطاب من طیبهن القاع والأکم
نفسی الفداء لقبر أنت ساکنه
فیه العفاف و فیه الجود و الکرم‘
ثم انصرف الأعرابی فغلبتنی عینی، فرأیت النبیﷺ فی النوم، فقال : یا عتبی الحق الأعرابی، فبشره أن الله قد غفرله۔
تفسیر القرآن العظیم، 1 : 20۔ 519
(اس آیت کریمہ میں) اللہ تعالیٰ عاصیوں اور خطاکاروں کو ارشاد فرماتا ہے کہ جب ان سے خطا و گناہ سرزد ہوجائیں تو انہیں رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر خدا تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہئے اور خود رسول اللہ ﷺ سے بھی عرض کرنا چاہیے کہ آپﷺ ہمارے لئے دعا کیجئے۔ جب وہ ایسا کرینگے تو یقیناً اللہ تعالیٰ ان کی طرف رجوع کرے گا، انہیں بخش دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا۔ اس لئے لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا کہا۔ یہ روایت بہت سوں نے بیان کی ہے جن میں سے ابومنصور صباغ نے اپنی کتاب ’’الحکایات المشھورہ‘‘ میں لکھا ہے کہ عتبی کا بیان ہے کہ میں حضورﷺ کی قبر انور کے پاس بیٹھا ہوا تھا، ایک اعرابی (دیہاتی) آیا اور اس نے کہا : السلام علیک یا رسول اللہ! میں نے سنا ہے کہ اللہ پاک کا ارشاد ہے : ’’اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کربیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول (ﷺ) بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بناء پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے‘‘۔ میں آپ کی خدمت میں اپنے گناہوں پر استغفار کرتا ہوا اور آپ کو اپنے رب کے سامنے اپنا سفارشی بناتا ہوا حاضر ہوا ہوں۔
پھر اس نے یہ اشعار پڑھے : ’’اے مدفون لوگوں میں سب سے بہتر جن کی وجہ سے میدان اور ٹیلے اچھے ہو گئے، میری جان قربان اس قبر پر جس میں آپﷺ رونق افروز ہیں، جس میں عفاف و جود و کرم ہے۔ ‘‘ پھر اعرابی تو لوٹ گیا اور مجھے نیند آ گئی، میں نے خواب میں نبی اکرمﷺ کی زیارت کی۔ آپﷺ نے مجھ سے فرمایا : عتبی! جا، اس اعرابی کو خوشخبری سنا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ معاف فرما دیئے۔
اعرابی کا مذکورہ بالا مشہور واقعہ درج ذیل کتب میں بھی بیان کیا گیا ہے:
1۔ شعب الایمان للبیھقی، 3 : 6۔ 495، رقم : 4178
2۔ المغنی لابن محمد بن قدامہ، 3 : 557
3۔ کتاب الاذکار للنووی : 3۔ 92
4۔ تاریخ ابن عساکر بحوالہ شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام : 46
5۔ شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام : 7۔ 46
6۔ الجوہر المنظم : 51
اس کے علاوہ تمام مذاہب کے اجل ائمہ و علماء کا عتبی کی روایت کے مطابق دیہاتی کا روضۂ رسول ﷺ پر آکر مغفرت طلب کرنا ان کی کتابوں میں زیارۃ روضۂ رسولﷺ یا مناسک حج کے ذیل میں بیان ہوا ہے۔
آیت کریمہ کے الفاظ جَاءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ گناہ گاروں اور خطاکاروں کو نبی کریمﷺ کے توسُّل سے اللہ کی بارگاہ سے مغفرت طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ وَ اسْتَغْفَرَلَهُمُ الرَّسُوْلُ سے حضورﷺ کی شفاعت کا ثبوت ملتا ہے۔ لَوَجَدُوْا اللهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا میں توسُّل کا ثبوت اس طرح ہے کہ اس کو بطور شرط عائد کیا کہ رسولﷺ کے وسیلے سے مغفرت طلب کرو۔ لہذا واضح ہوگیا کہ جب رسول ﷺ نے امتی کے لئے عمل استغفار کیا تو یہ شفاعت ہی تو ہے اور ا س شفاعت سے بخشش کا مل جانا وسیلہ ہو گیا۔
وہ لوگ جو وسیلہ اور شفاعت کو مختلف چیزیں سمجھتے ہیں انہیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ جب شفاعت کے منصب پر حضور ﷺ کا فائز ہونا آپﷺ کا حق ہے جبکہ امتی کے حق میں یہی وسیلہ ہے۔
علاوہ ازیں عمدۃ المفسرین امام قرطبی نے اپنی معروف تفسیر ’’الجامع لأحکام القرآن (5 : 6۔ 265) ‘‘ میں عتبی کی روایت سے ملتا جلتا دوسرا واقعہ یوں بیان کیا ہے :
’’ابو صادق نے علی سے روایت کیا ہے کہ ہمارے سامنے ایک دیہاتی حضورﷺ کی تدفین کے تین دن بعد آیا اور اس نے اپنے آپ کو نبیﷺ کی قبر مبارک کے قریب زمیں بوس کیا، اس کی مٹی اپنے اوپر ڈالی اور پھر کہا : اے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا اور ہم نے آپ کا قول مبارک سنا ہے، آپ نے اللہ سے احکامات لیے اور ہم نے آپ سے احکام لیے اور انہی میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے : وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَّلَمُوْآ أَنْفُسَهُمْ (تحقیق میں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے آپ میرے لیے استغفار فرما دیں۔) اس اعرابی کی التجاء پر اسے قبر سے ندا دی گئی:
أنہ قد غفرلک۔
بیشک تمہاری مغفرت ہوگئی ہے۔
علامہ سید محمد بن علوی المالکی نے بھی اپنی تصنیف لطیف ’’مفاہیم یجب ان تصحح (8۔ 157) ‘‘ میں یہ دونوں واقعات نقل کیے ہیں اور بعد ازاں ان پر بڑا ایمان افروز تبصرہ کیا ہے جس کا نقل کرنا یہاں خالی از فائدہ نہیں۔ وہ لکھتے ہیں :
’’عتبی کی روایت امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی معروف کتاب ’’الایضاح‘‘ کے چھٹے باب میں، شیخ ابو الفرج بن قدامہ نے اپنی تصنیف ’’الشرح الکبیر (3 : 495) ‘ ‘ میں اور شیخ منصور بن یونس البہوتی نے اپنی کتاب ’’کشاف القناع (5 : 30) ‘‘، جو مذہب حنبلی کی مشہور کتاب ہے، میں نقل کی ہے۔ ‘‘
اس کے بعد علامہ مالکی صاحب اس پر تبصرہ فرماتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ سند کے اعتبارسے یہ روایت صحیح ہو یا ضعیف، بہرحال اس پر اکابر محدثین نے اعتماد کیا ہے۔ ہم تو یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا ان اکابرین (محدثین و مفسرین کرام) نے کفر اور گمراہی کو نقل کیا ہے؟ یا انہوں نے وہ بات نقل کی ہے جو بت پرستی یا قبر پرستی کی دعوت دیتی ہے؟ (معاذاللہ) اگر ایسا تسلیم کرلیا جائے تو پھر کس کو اور کس کتاب کو ثقہ اور معتبر کہا جائے گا؟‘‘
حضور نبی اکرمﷺ کے ارشاد نے تمام اشکالات و احتمالات کا خاتمہ کر دیا ہے اور ایک مسلمان کو شرح صدر کی دولت عطا کر دی۔ حضور نبی اکرمﷺ کی دعا اور استغفار امت کے حق میں جس طرح آپ ﷺکی حیات ظاہری میں قابل اطلاق تھی، اسی طرح بعد از وصال بھی آپ ﷺکا یہ عمل اسی طرح جاری رہے گا اور اس میں کسی بھی لمحہ انقطاع ہواہے اور نہ آئندہ کبھی ہوگا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا :
حیاتی خیرلکم تُحدِثُون و تحدث لکم، و وفاتی خیرلکم تعرض علي أعمالکم، فما رأیت من خیر حمدت اللہ علیہ، و ما رأیت من شر استغفرت اللہ لکم۔
مجمع الزوائد، 9 : 24
امام ابن حجر ہیثمی کا کہنا ہے کہ یہ حدیث بزار نے روایت کی ہے اور اس کے تمام رجال صحیح ہیں۔ جبکہ امام زین الدین ابو الفضل العراقی نے بھی اپنی کتاب ’’طرح التثریب فی شرح التقریب (3 : 297) ‘‘ میں اس روایت کی اسناد کو صحیح قرار دیا۔ ابن سعد نے ’’الطبقات الکبریٰ (2 : 194) ‘‘میں روایت کی ہے۔ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے ’’الشفا (1 : 19) ‘‘ میں یہ حدیث بیان کی ہے اور امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’الخصائص الکبریٰ (2 : 281) ‘‘اور ’’مناہل الصفا فی تخریج احادیث الشفا (ص : 3) ‘‘ میں یہ روایت ذکر کر کے لکھا ہے کہ ابن ابی اسامۃ نے اپنی ’’مسند‘‘ میںبکر بن عبداللہ المزنی اور بزار نے اپنی’’مسند‘‘ میں عبداللہ بن مسعود سے صحیح اسناد کے ساتھ یہ روایت بیان کی ہے۔ اس بات کی تائید علامہ خفاجی رحمۃ اللہ علیہ اور ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے ’’الشفا‘‘ کی شروحات ’نسیم الریاض (1 : 102) ‘ اور شرح الشفاء لملا علی قاری (1 : 36) ‘ میں بالترتیب کی ہے۔ محدث ابن الجوزی نے بکر بن عبداللہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے یہ روایت ’’الوفاء باحوال المصطفی (2 : 10۔ 809) ‘‘ میں بیان کی ہے۔ علامہ تقی الدین سبکی نے یہ حدیث ’’شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام (ص : 34) ‘‘ میں بکر بن عبداللہ المزنی سے روایت کی ہے اور احمد بن عبد الہادی نے ’’الصارم المنکی (ص : 7۔ 266) ‘‘ میں کہا ہے کہ اس کی اسناد صحیح ہیں اور بکر ثقہ تابعین میں سے ہے۔ بزار کی روایت امام ابن کثیر نے بھی ’’البدایۃ والنہایۃ (4 : 257) ‘‘ میں نقل کی ہے۔
میری زندگی بھی تمہارے لیے خیرہے کیونکہ تم حدیثیں سنتے سناتے ہو اور میری وفات بھی تمہارے لیے خیرہے کیونکہ (میری قبر میں) تمہارے اعمال میرے سامنے پیش ہوا کریں گے۔ چنانچہ اگر نیکیاں دیکھوں گا تو اللہ کا شکر بجا لایا کروں گا، اور اگر برائیاں دیکھوں گا تو تمہارے لئے اللہ سے استغفار کیا کروں گا۔
امام دارمی، ابو الجوزاء اوس بن عبداللہ سے صحیح اسناد کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
قحط أھل المدینۃ قحطًا شدیدًا فشکوا الی عائشۃ، فقالت : انظروا قبر النبی ﷺ فاجعلوا منہ کواً إلی السماء، حتی لا یکون بینہ و بین السماء سقف، قال : ففعلوا فمطروا مطراً حتی نبت العشب، و سمنت الإبل حتی تفتقت من الشحم، فسمی عام الفتق۔
1۔ سنن الدارمی، 1 : 43، رقم : 93
2۔ الوفاء باحوال المصطفی، 2 : 801
3۔ شفاء السقام : 128
4۔ المواہب اللدنیۃ، 4 : 276
5۔ شرح الزرقانی، 11 : 150
مدینہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہوگئے تو انہوں نے حضرت عائشہ سے (اپنی دگرگوں حالت کی) شکایت کی۔ آپ نے فرمایا : حضور کی قبر مبارک کے پاس جاؤ اور اس سے ایک کھڑکی آسمان کی طرف اس طرح کھولوکہ قبر انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ رہے۔ راوی کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ پس بہت زیادہ بارش ہوئی حتی کہ خوب سبزہ اگ آیا اور اونٹ اتنے موٹے ہوگئے کہ ( محسوس ہوتا تھا) جیسے وہ چربی سے پھٹ پڑیں گے۔ لہٰذا اُس سال کا نام ہی ’عام الفتق (سبزہ و کشادگی کا سال)‘ رکھ دیا گیا۔
قبرِ مصطفیﷺ کے توسُّل سے اہل مدینہ پر طاری شدید قحط ختم ہوگیا، اور موسلادھار بارش نے ہر طرف بہار کا سماں پیدا کردیا۔ جہاں انسانوں کو غذا ملی وہاں جانوروں کو چارا ملا، توسُّل مصطفیﷺ کی وجہ ہونے والی اس بارش نے اہل مدینہ کو اتنا پر بہار بنا دیا کہ انہوں نے اس پورے سال کو عام الفتق (سبزہ اور کشادگی کا سال) کے نام سے یاد کیا۔
منکرینِ توسُّل نے اس روایت پر بعض اعتراضات کیے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ اس کی سند کمزور ہے، لہذا یہ روایت بطور دلیل پیش نہیں کی جاسکتی۔
اس حدیث کی سند یہ ہے:
’’ابو نعمان نے سعید بن زید سے، اس نے عمرو بن مالک سے اور اس نے ابوالجوزاء اوس بن عبداللہ سے روایت کی ہے۔‘‘
ذیل میں ان راویوں پر کئے جانے والے اعتراضات اور ان کا ردپیش کیا جاتا ہے۔
1۔ ابو نعمان عارم کا نام محمد بن الفضل سدوسی تھا۔ اس پر یہ اعتراض وارد کیا جاتا ہے کہ وہ دراصل قابلِ اعتماد راوی تھا جیسا کہ امام ذہبی ’میزان الاعتدال (4 : 7) ‘ میں رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں : ’’وہ امام بخاری کا شیخ اور حدیثیں یاد رکھنے والا، انتہائی راست باز تھا۔ ‘‘ لیکن عمر کے آخری حصے میں مختلط ہوگیا۔ محدث برہان الدین حلبی اپنی کتاب ’المقدمہ‘ میں اسے ان رایوں کے ساتھ ذکر کرتے ہیں جو اواخرِ عمر میں مختلط ہوگئے۔ امام حلبی کہتے ہیں : ’’ایسے راویوں کے متعلق حکم یہ ہے کہ اگر لوگ ان کے اختلاط سے قبل کی روایا ت لیں تو وہ قبول کی جائیں گی جبکہ اختلاط کے بعد کی روایات قبول نہیں کی جائیں گی۔ اور اگر ایسے لوگ روایات لیں جن کے بارے ہم میں ہم یہ نہیں جانتے کہ انہوں نے اختلاط سے پہلے روایت لی ہے یا بعد میں، تو وہ روایت بھی قبول نہیں کی جائے گی۔ ‘‘ معترضین کا کہنا ہے کہ چونکہ ہم نہیں جانتے کہ یہ روایت ابو نعمان نے اپنی یادداشت کے اختلاط سے پہلے بیان کی ہے یا بعد میں، لہذا یہ روایت بطور استشہاد نہیں لی جاسکتی۔
یہ اعتراض در حقیقت بے وقعت اور غیر معتبر ہے کیونکہ جو کچھ ابو نعمان کی روایت سے آگے بیان کیا گیاہے، اس کے اختلاط نے اس کو متاثر نہیں کیا۔ جیسا کہ امام ذہبی ’میزان الاعتدال (4 : 8) ‘میں لکھتے ہیں : ’’امام دار قطنی کہتے ہیں کہ وہ عمر کے آخری حصے میں مختلط ہوگیا لیکن اختلاط کے بعد کوئی منکر حدیث اس سے ظاہر نہیں ہوئی اور وہ ثقہ راوی ہے۔ میں کہتا ہوں یہ اس حافظِ عصر کا قول ہے کہ جن جیسا عبقری امام نسائی کے بعد کوئی نہیں آیا۔ ‘‘ ابن حبان کا کہنا ہے کہ اختلاط کے بعد ابو نعمان کی روایات میں بہت سی مناکیر واقع ہوئی ہیں۔ امام ذہبی نے اس قول کا رد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ابن حبان کوئی ایک بھی منکر حدیث بطور حوالہ پیش کرنے سے قاصر رہے ہیں اور حقیقت وہی ہے جو امام دار قطنی نے بیان کی ہے۔
حافظ عراقی نے ’التقیید والایضاح (ص : 461) ‘ میں اقرار کیا ہے کہ امام ذہبی نے ابن حبان کے اس قول کا رد کیا ہے۔ امام ذہبی نے ’الکاشف (3 : 79) ‘ میں وضاحت کی ہے کہ تغیر موت سے پہلے واقع ہوا مگر پھر اس نے حدیث روایت نہیں کی۔
حافظ ابن حجر عسقلانی ’تقریب التہذیب (2 : 200) ‘ میں فرماتے ہیں کہ ابو نعمان کا ثقہ ہونا ثابت ہے اور اواخرِ عمر میں تغیر واقع ہوا۔
شیخ محمد بن علوی مالکی ’شفاء الفؤادبزیارۃ خیر العباد (ص : 152) ‘ میں لکھتے ہیں : ’’ابو نعمان کا اختلاط اس کے لیے نقصان دہ ہے اور نہ ہی اس کی ثقاہت پر طعن کا سبب ہے کیونکہ امام بخاری نے ’الصحیح‘ میں ایک سو (100) سے زیادہ روایات اس سے لی ہیں اور اس کے اختلاط کے بعد اس سے کوئی روایت نہیں لی گئی جیسا کہ امام دار قطنی نے کہا ہے۔‘‘
امام بخاری کے علاوہ امام احمد بن حنبل، عبداللہ بن محمد مسندی، ابن ابو حاتم رازی اور ابو علی محمد بن احمد بن خالد زریقی نے بھی ابو نعمان کے اختلاط سے قبل اس سے روایات سنی ہیں۔ (التقیید والایضاح : 462)
امام دارمی اجل حفاظِ حدیث اور امام بخاری و ذھلی کے شیوخ میں سے ہیں۔ لہذا یہ نا ممکن ہے کہ وہ ابو نعمان کے اختلاط کے بعد اس سے روایت لیں۔
2۔ سعید بن زید ابو الحسن بصری جو کہ حما د بن زید کا بھائی ہے، پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ کسی حد تک ضعیف ہے۔ کیونکہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس کے بارے میں ’تقریب التہذیب (1 : 296) ‘ میں کہا ہے : ’’صدوق لہ أوہام‘‘ یعنی ہے تو انتہائی راستباز لیکن بعض اوقات غلطی کر جاتا ہے۔ امام ذہبی ’میزان الاعتدال (2 : 138) ‘ میں لکھتے ہیں : ’’یحی بن سعید نے اسے ضعیف کہا ہے، سعدی کا کہنا ہے کہ وہ حجت نہیں بلکہ اس کی احادیث ضعیف ہیں اور امام نسائی وغیرہ نے کہا ہے کہ وہ قوی نہیں ہے۔‘‘
معترضین و منکرینِ توسُّل کا صرف مذکورہ بیانات کا حوالہ دینا جزوی اور تعصب پر مبنی ہے اوران کی دلیل صرف اپنے تصورات کے مطابق ہے۔ ذیل میں اس اعتراض کا تفصیل وار جواب دیا جاتا ہے:
امام ذہبی ’الکاشف (1 : 286) ‘ میں لکھتے ہیں کہ سعید بن زید پر ضعف کا الزام لگانا صحیح نہیں کیونکہ امام مسلم نے اس سے روایات لی ہیں اور ابن معین نے اسے ثقہ کہا ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی نے مفصل بیان کیا ہے:
’’امام بخاری نے کہا کہ مسلم بن ابراہیم نے ہم سے بیان کیا کہ سعید بن زید ابو الحسن ’صدوق (انتہائی راست باز) ‘ اور ’حافظ‘ ہے۔
التاریخ الکبیر، 3 : 472
’’امام دوری نے ابن معین سے روایت کیا کہ سعید بن زیدثقہ راوی ہے۔
’’ابن سعد نے اسے ثقہ راوی کہا ہے۔
الطبقات الکبری، 7 : 287
’’امام عجلی نے کہا کہ وہ بصرہ سے تعلق رکھتا ہے اور وہ ثقہ راوی ہے۔
’’ابو زرعۃ نے کہا کہ میں نے سلیمان بن حرب کو کہتے سنا کہ سعید بن زید ثقہ ہے۔
’’ابو جعفر دارمی نے کہا : حبان بن ہلال نے ہم سے بیان کیا کہ سعید بن زید نے ہمیں روایت بیان کی اور وہ صدوق و حافظ ہے۔
’’ابن عدی نے ’الکامل (3 : 5۔ 1212) ‘ میں کہا ہے کہ سعید بن زید صدوق اور حافظ ہے۔ اس نے کوئی منکر روایت بیان نہیں کی سوائے اس کے کہ کوئی اور اسے بیان کرے اور وہ میرے نزدیک صدق کی قسم (راست بازوں) کے راویوں میں سے ہے۔ ‘‘
تہذیب التہذیب، 4 : 3۔ 32
مراکش کے مشہور محدث عبداللہ بن محمد غماری اپنی کتاب ’ ارغام المبتدی الغبی بجواز التوسُّل بالنبی‘ میں لکھتے ہیں : ’’امام احمد بن حنبل نے سعید بن زید کے متعلق ’لیس بہ بأس ‘ کہا ہے جس کا معنی ہے کہ اس پر کوئی اعتراض نہیں یعنی وہ بالکل صحیح ہے۔ [*] امام احمد کی یہ اصطلاح معناً ثقہ کے ساتھ متماثل ہے جو کہ مستند راویانِ حدیث کے اعلیٰ درجوں میں سے ایک درجہ ہے۔ ‘‘
* (امام احمد کا یہ قول امام ذہبی نے ’میزان الاعتدال (2 : 138) ‘ میں اور حافظ عسقلانی نے ’تہذیب التہذیب (4 : 32) ‘ میں بیان کیا ہے۔)
ابن معین بھی لیس بہ بأس سے مراد ثقہ لیتے ہیں۔
لسان المیزان، 1 : 13
محدث ابن الصلاح نے ’المقدمۃ‘ میں، امام سخاوی نے ’فتح المغیث‘ میں، حافظ ابن حجر نے ’ھدی الساری مقدمہ فتح الباری‘ میں اور امام نووی کی ’التقریب والتیسیر‘ کے مؤلف نے لیس بہ بأساورثقہ کی اصطلاحوں کو یکساں قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ تیسری صدی ہجری کے بہت سے محدثین مثلاً ابن معین، ابن المدینی، امام احمد، ابو زرعۃ، ابن ابو حاتم رازی اور یعقوب بن سفیان فساوی وغیرہ نے بھی لیس بہ بأس کو ثقہ کے درجہ کے برابر قرار دیا ہے۔
3۔ عمرو بن مالک نکری کو ابن حبان نے ثقہ کہا ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی اس کے بارے میں ’تہذیب التہذیب (8 : 96) میں لکھتے ہیں : ’’ابن حبان نے اسے اپنی کتاب ’الثقات‘ میں ذکر کیا ہے۔ ‘‘ لہذا ابن حبان کا اس کی ثقاہت قبول کرنا برحق ہے اور اس میں کوئی شک نہیں اور اس پر اعتماد کرتے ہوئے حافظ ابن حجر عسقلانی نے ’تقریب التہذیب (2 : 77) ‘ میں عمرو بن مالک نکری کے بارے میں ’صدوق لہ أوھام‘ کہا ہے۔
حافظ ابن حجر کے قول ’صدوق ‘ سے عمرو بن مالک نکری کے صواب کا پتہ چلتا ہے اور انہوں نے اس لفظ کو مقدم بھی کیا ہے۔ شیخ محمود سیعد ممدوح اپنی کتاب ’رفع المنارۃ (ص : 258) ‘ میں اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ عبداللہ بن احمد نے اپنے والدسے روایت کرتے ہوئے کہا ہے : ’’أنہ کأنہ ضعفہ ‘‘، انہوں نے اسے ضعیف کہا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ لفظ ’کأنّ‘ ظن و گمان ہے، اس سے حجت قائم نہیں ہوسکتی۔‘‘
حسن بن موسی اشیب کے بارے میں جب عبداللہ بن علی بن مدینی نے ’وکأنہ ضعفہ‘ کہا تو حافظ ابن حجر عسقلانی نے بھی’ ھدی الساری مقدمہ فتح الباری (ص : 397) ‘ یہی کہا : ’’ہذا ظن، لا تقوم بہ حجۃ (یہ گمان ہے، اس لیے اس سے حجت قائم نہیں ہوسکتی)۔‘‘
پس عمرو بن مالک نکری کی ثقاہت میں اس بیان کے بعد کوئی شک و شبہ نہیں، اسی کی توضیح امام ذہبی نے ’میزان الاعتدال (3 : 286) ‘ اور ’المغنی (2 : 488) ‘ میں کی ہے۔ شیخ محمود سعید ممدوح لکھتے ہیں:
’’ابن عدی نے ’الکامل (5 : 1799) ‘ میں عمرو بن مالک نکری کو عمرو بن مالک راسبی کے ساتھ ملا دیا ہے اور اسے منکر الحدیث کہا ہے۔ اس بات کی وضاحت امام ذہبی نے ’میزان الاعتدال (3 : 285) ‘ اور ’المغنی (2 : 488) ‘ میں جبکہ حافظ عسقلانی نے ’تہذیب التہذیب (8 : 95) ‘ میں عمرو بن مالک نکری کو عمرو بن مالک راسبی سے الگ بیان کیا ہے اور ابن عدی کے اختلاط کی وضاحت بھی کی ہے جس کی وجہ سے بعض محدثین نے عمرو بن مالک نکری کو ضعیف کہا اور انہوں نے یہ صرف ابن عدی کی تقلید میں بغیر غلطی کے کیا ہے۔ جیسا کہ محدث ابن الجوزی نے ’کتاب الموضوعات (2 : 145) ‘ اور امام ابن تیمیہ نے ’التوسُّل و الوسیلۃ‘ میں کیا۔ ‘‘
رفع المنارۃ : 60۔ 259
علامہ ناصر الدین البانی نے ’تعلیق علی فضل الصلاۃ علی النبی (ص : 88) ‘ میں لکھا ہے : ’’عمرو بن مالک نکری ثقہ ہے جیسا کہ امام ذہبی نے کہا ہے۔ ‘‘ انہوں نے اپنی ایک اور کتاب ’سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ (5 : 608) ‘ میں بھی اسے ثقہ کہا ہے۔
4۔ ابو الجوزاء اوس بن عبداللہ سے کثیر لوگوں نے روایات لی ہیں اور ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کا سماع بھی ثابت شدہ امر ہے۔ دلیل کے لیے صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ امام مسلم نے ابو الجوزاء کی حضرت عائشۃ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث بیان کی ہے۔ امام بخاری فرماتے ہیں:
و قال لنا مسدد، عن جعفر ابن سلیمان، عن عمرو بن مالک النکری، عن أبی الجوزاء، قال : أقمت مع ابن عباس و عائشۃ اثنتی عشرۃ سنۃ، لیس من القرآن آیۃ إلا سألتهم عنها۔
زالتاریخ الکبیر، 2 : 7۔ 16
ہمیں مسدد نے کہا، اس نے جعفر بن سلیمان سے، اس نے عمرو بن مالک نکری سے اور اس نے ابو الجوزاء سے روایت کیا : میں حضرت ابن عباس اور حضرت عائشۃ رضی اللہ عنہا کے ساتھ بارہ سال تک رہا اور قرآن کی کوئی آیت ایسی نہ تھی جس کے بارے میں میں نے ان سے نہ پوچھا ہو۔
ابن سعد ایک اور روایت یوں بیان کرتے ہیں :
عن أبی الجوزاء قال : جاورت ابن عباس فی دارہ اثنتی عشرۃ سنۃ مافی القرآن آیۃ إلا و قد سألتہ عنها۔
الطبقات الکبریٰ، 7 : 224
ابو الجوزاء روایت کرتے ہیں کہ میں بارہ سال حضرت ابن عباس کا پڑوسی رہا اور قرآن کی کوئی آیت ایسی نہ تھی جس کی بابت میں نے ان سے نہ پوچھا ہو۔
امام ابو نعیم اصبہانی یہ روایت ان الفاظ کے اضافہ کے ساتھ بیان کرتے ہیں :
و کان رسولی یختلف إلی أم المؤمنین غدوۃً وعشیۃً، فما سمعتُ أحدا من العلماء، و لا سمعتُ أن اللہ تعالی یقول لذنب : إنی لأغفرہ إلا الشرک بہ۔
حلیۃ الاولیائ، 3 : 79
اور میرا نمائندہ صبح و شام ام المؤمنین (حضرت عائشہ) رضی اللہ عنہا کے پاس آتا جاتا تھا۔ پس میں نے کسی عالِم سے وہ نہیں سنا ( جو کچھ میں نے حضرت عائشۃ رضی اللہ عنہا سے سنا) اور نہ میں نے یہ سنا کہ اللہ تعالیٰ گناہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ میں اسے ضرور معاف کر دوں گا سوائے اس کے کہ اس کے ساتھ کوئی شریک ٹھہرایا جائے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں :
’’لیکن یہ چیز اس جواز میں مانع نہیں کہ اس نے اس کے بعد کبھی حضرت عائشۃ رضی اللہ عنہا سے ملاقات نہیں کی۔ پس امام مسلم کے مذہب کے مطابق ملاقات کے امکان کے تحت اس نے حضرت عائشۃ رضی اللہ عنہا سے بالمشافہ ملاقات کی ہے۔‘‘
تہذیب التہذیب، 1 : 384
پس جب ابو الجوزاء کی سیدہ عائشۃ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ملاقات یقین کے ساتھ ثابت ہوگئی تو وہ مدلِّس نہ رہا۔ لہٰذا اس کی روایت کو سماع پر محمول کیا جائے گا جو نہ صرف امام مسلم بلکہ جمہور کا بھی مذہب ہے۔
ابو نعیم اصبہانی نے ’حلیۃ الأولیاء‘ میں ’عن عائشۃ‘ کے الفاظ کے ساتھ ابو الجوزاء کی کافی روایات صحیح قرار دی ہیں۔
ابن قیسرانی نے ’سمع عائشۃ‘ کے الفاظ کے ساتھ ابو الجوزاء سے مروی روایت بیان کی ہے۔
الجمع بین الصحیحین لابن القیسرانی، 1 : 46، بحوالہ رفع المنارۃ : 261
پس اس مفصل بحث سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اسناد حسن یا صحیح ہیں۔
شیخ محمد بن علوی المالکی کہتے ہیں : ’’اس روایت کی سند بالکل ٹھیک ہے بلکہ میرے نزدیک صحیح ہے۔ علماء نے اسے قبول کیا اور بہت سی ایسی اسناد سے استشہاد کیا ہے جو اس جیسی ہیں یا اس سے کم مضبوط ہیں۔‘‘
شفاء الفؤاد بزیارۃ خیر العباد : 153
لہذا اس روایت کو بطور دلیل لیا جائے گا کیونکہ امام نسائی کا مسلک تھا کہ جب تک تمام محدثین ایک راوی کی حدیث کے ترک پر متفق نہ ہوں، اس کی حدیث ترک نہ کی جائے۔
شرح نخبۃ الفکر فی مصطلح اہل الاثر : 233
منکرینِ توسُّل اس روایت پر ایک اور اعتراض یہ کرتے ہیں کہ یہ موقوف ہے یعنی صرف صحابیہ تک پہنچتی ہے، اور یہ حضرت عائشۃ رضی اللہ عنہا کا قول ہے، حضورﷺ کا فرمان نہیں ہے۔ اگر حضرت عائشۃ رضی اللہ عنہا تک اس کی اسناد صحیح بھی ہوں تو یہ دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ یہ ذاتی رائے پر مبنی ہے اور بعض اوقات صحابہ کی ذاتی رائے صحیح ہوتی ہے اور بعض اوقات غلط بھی ہوتی ہے، لہذا ہم اس پر عمل کرنے کے پابند نہیں۔
اس بے بنیاد اعتراض کا سادہ لفظوں میں جواب یہ ہے کہ نہ صرف اس روایت کی اسناد صحیح اور مستند ہیں بلکہ کسی بھی صحابی نے نہ تو حضرت عائشۃ رضی اللہ عنہا کے تجویز کردہ عمل پر اعتراض کیا اور نہ ہی ایسا کوئی اعتراض مروی ہے جس طرح حضرت مالک دارص کی بیان کردہ روایت میں اس آدمی پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا جو قبر مصطفےﷺ پر آکر بارش کے لیے دعا کرتا ہے اور یہ روایت ہم آگے بیان کریں گے۔ یہ روایتیں صحابہ کا اجماع ظاہر کرتی ہیں اور ایسا اجماع بہر طور واثق و لازم ہوتا ہے۔ کوئی شخص اس عمل کوناجائز یا بدعت نہیں کہہ سکتا کہ جسے صحابہ نے خاموشی سے جائز یا مستحب قرار دیا ہو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پیروی کے لزوم کے بارے میں امام شافعی فرماتے ہیں : ’’ہمارے لیے ان کی رائے ہمارے بارے میں ہماری اپنی رائے سے بہتر ہے۔‘‘
اعلام الموقعین عن رب العالمین، 2 : 186
اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدہ عائشۃ رضی اللہ عنہا نے مدینہ کے لوگوں کو رحمتیں اور برکتیں حاصل کرنے کے لیے حضور نبی اکرمﷺ کی قبر مبارک کو وسیلہ بنانے کا حکم دیا۔
حضور علیہ السلام کی قبر انور کے پاس جاکر حضورﷺ کے توسُّل سے دعا کرنا عثمانی ترکوں کے زمانے تک رہا یعنی بیسیویں صدی کے اوائل دور تک یہ طریقہ رائج رہا کہ جب قحط ہوتا بارش نہ ہوتی، اہل مدینہ چھ سات سالہ معصوم مدنی بچہ کو وضو کروا کر اوپر چڑھاتے اور وہ بچہ اس رسی کو کھینچتا جو قبر انور کے اوپر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے کہنے پر کئے گئے سوراخ کے ڈھکنے کو بند کرنے کے لئے لٹکائی ہوئی تھی۔ اسی طرح جب قبر انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ نہ رہتا تو بارش ہو جاتی۔
امام ابن تیمیہ نے اس روایت پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جھوٹ ہے اور حضرت عائشۃ رضی اللہ عنہا کی پوری زندگی میں روضہ اقدس کی چھت میں اس طرح کا کوئی سوراخ موجود نہیں تھا۔ یہ اعتراض کمزور ہے کیونکہ امام دارمی اور ان کے بعد آنے والے ائمہ و علماء اس طرح کی تفصیل متأخرین سے زیادہ بہتر جانتے تھے۔ مثال کے طور پر مدنی محدث و مؤرخ امام علی بن احمد سمہودی نے امام ابن تیمیہ کے اعتراض کا ردّ اور امام دارمی کی تصدیق کرتے ہوئے’وفاء الوفاء (2 : 560) ‘ میں لکھا ہے : ’’ زین المراغی نے کہا : ’جان لیجئے کہ مدینہ کی لوگوں کی آج کے دن تک یہ سنت ہے کہ وہ قحط کے زمانہ میں روضہ رسول کے گنبد… جو کہ گنبدِ خضرٰی ہے… کی تہہ میں قبلہ رخ ایک کھڑکی کھولتے اگرچہ قبر مبارک اور آسمان کے درمیان چھت حائل رہتی۔ میں کہتا ہوں کہ ہمارے دور میں بھی مقصورہ شریف، جس نے روضہ مبارک کو گھیر رکھا ہے، کا باب المواجہ یعنی چہرہ اقدس کی جانب کھلنے والا دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور لوگ وہاں (دعا کے لیے) جمع ہوتے ہیں۔‘‘
حضرت مالک دار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أصاب الناس قحط فی زمن عمر، فجآء رجل إلی قبر النبیﷺ فقال : یا رسول اللہ! استسق لأمتک فإنھم قد ھلکوا، فأتی الرجل فی المنام فقیل لہ : ائت عمر فأقرئہ السلام وأخبرہ أنکم مسقیون و قل لہ : علیک الکیس! علیک الکیس! فأتی عمر فأخبرہ فبکی عمر، ثم قال : یا رب! لا آلو إلا ما عجزت عنہ۔
1۔ مصنف ابن ابی شیبہ، 12 : 2۔ 31، رقم : 12051
2۔ دلائل النبوۃ للبیہقی، 7 : 47
3۔ الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، 2 : 464
4۔ شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام : 130
5۔ کنز العمال، 8 : 431، رقم : 23535
6۔ کتاب الارشاد فی معرفۃ علماء الحدیث للخلیلی، 1 : 4۔ 313، بحوالہ رفع المنارۃ :
262
حضرت عمر (بن خطاب) رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ قحط میں مبتلا ہوگئے۔ پھر ایک صحابی نبی کریمﷺ کی قبر اطہر پرآئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ (اللہ پاک سے) اپنی امت کے لئے سیرابی مانگئے کیونکہ وہ ہلاک ہوگئی۔ پھر خواب میں نبی ﷺ اس کے پاس آئے اور فرمایا کہ عمر کے پاس جاکر اسے میرا سلام کہو اور اسے بتاؤ کہ تم سیراب کیے جاؤ گے۔ اور عمر سے کہہ دو کہ عقلمندی اختیار کرو، عقلمندی اختیار کرو۔ پھر وہ صحابی حضرت عمر رضی اللہ کے پاس آئے اور ان کو خبر دی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے۔ فرمایا : اے اللہ! میں کوتاہی نہیں کرتا مگر یہ کہ عاجز ہو جاؤں۔
امام ابن تیمیہ نے ’اقتضاء الصراط المستقیم (ص : 373) ‘ میں اس روایت کی تائید کی ہے۔ امام ابن کثیر نے ’البدایۃ والنھایۃ (5 : 167) ‘ میں اس روایت کے بارے میں کہا ہے کہ اس کی اسناد صحیح ہیں۔ اسی سند کے ساتھ ابن ابی خیثمہ نے روایت کیا ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی ’الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (3 : 484) ‘ میں لکھتے ہیں، جبکہ وہ ’فتح الباری (2 : 6۔ 495) ‘ میں لکھتے ہیں : ’’یہ روایت ابن ابی شیبۃ نے صحیح اسناد کے ساتھ بیان کی ہے … اور سیف بن عمر تمیمی نے ’الفتوح الکبیر‘ میں یہ بھی نقل کیا ہے کہ خواب دیکھنے والے ایک صحابی حضرت بلال بن حارث مزنی تھے۔ امام قسطلانی نے ’المواھب اللدنیۃ (4 : 276) ‘ میں کہا ہے کہ اسے ابن ابی شیبۃ نے صحیح اسنا د کے ساتھ روایت کیا ہے جبکہ علامہ زرقانی نے بھی ’شرح (11 : 1۔ 150) ‘ میں امام قسطلانی کی تائید کی ہے۔
حیرت ہے کہ بعض لوگوں نے اس صحیح الاسناد قوی حدیث کو بھی ضعیف قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے مندرجہ ذیل اعتراض کیے ہیں :
پہلا اعتراض: اس کا ایک راوی’ اعمش ‘ مدلِّس ہے۔
جواب : اس کا جواب یہ ہے کہ اعمش اگرچہ مدلّس ہے لیکن اس کی یہ روایت درج ذیل دو وجوہات کی بنا پر مقبول ہے چاہے اس کا سماع ثابت ہو یا نہ ہو :
1۔ اعمش کا ذکر دوسرے درجے کے مدلِّسین میں کیا گیا ہے اور یہ وہ مدلِّسین ہیں جن سے ائمۃ نے اپنی صحیح کتب میں روایات لی ہیں۔ لہذا ثابت ہوا کہ اعمش کی یہ روایت مقبول ہے۔
2۔ دوسرا یہ کہ اگر ہم اعمش کا سماع ثابت ہونے پر ہی یہ روایت قبول کریں جیسا کہ تیسرے یا اس سے نچلے مدارج کے مدلِّسین کے معاملے میں کیا جاتا ہے تو اعمش کی یہ روایت مقبول ہوگی کیونکہ اس نے ابو صالح ذکو ان سمّان سے نقل کی ہے۔ امام ذھبی فرماتے ہیں : ’’جب اعمش لفظ ’عن‘ کے ساتھ روایت کرے تو اس میں احتمالِ تدلیس ہوتا ہے مگر جب اپنے بہت سارے شیوخ مثلا ابراہیم، ابن ابو وائل، ابو صالح سمّان وغیرہ سے روایت کرے تو ان کو اتصال پر محمول کیا جائے گا۔ ‘‘
میزان الاعتدال، 2 : 224
علاوہ ازیں امام ذھبی نے اسے ثقہ کہا ہے۔
دوسرا اعتراض: علامہ ناصر الدین البانی اپنی کتاب ’التوسُّل، أحکامہ و أنواعہ‘ــ میں لکھتے ہیں : ’’ہم اس واقعے کو مستند نہیں مانتے کیونکہ مالک دار کی ثقاہت اور ضبط معروف (known) نہیں اور اصولِ حدیث میں کسی راوی کے مستند ہونے کے لیے یہی دو بنیادی اصول ہیں۔ امام ابن ابی حاتم رازی نے ’کتاب الجرح و التعدیل (4 : 213) ‘ میں مالک دار کو بیان کرتے ہوئے ابو صالح کے علاوہ کسی اورراوی کا ذکر نہیں کیا جس نے اس سے روایت لی ہو، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مجہول (unknown) ہے۔ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ابن ابن حاتم جو خود شیخ الاسلام اور حافظ الحدیث ہیں، نے کسی ایک کا بھی ذکر نہیں کیا جس نے اسے ثقہ قرار دیا ہو۔ اسی طرح حافظ منذِری نے مالک دار کے بارے میں کہا ہے کہ میں اسے نہیں جانتا جبکہ امام ابن حجرہیثمی نے بھی ’مجمع الزوائد‘ میں ایسا ہی کہا ہے۔ …‘‘
جواب : اس اعتراض کا بطلان مالک دار کے اس سوانحی تذکرے سے ثابت ہے جسے ابن سعد نے مدنی تابعین کے دوسرے طبقے میں بیان کرتے ہوئے کچھ یوں لکھا ہے : ’’مالک دار حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا آزاد کردہ غلام تھا۔ اس نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایات لے کر بیان کیں، اس سے ابو صالح سمان نے روایات لیں۔ وہ معروف (known) تھا۔
الطبقات الکبری، 5 : 12
مزید برآں یہ اعتراض حافظ خلیلی (م : 445ھ) کے مالک دار پر تبصرے سے غلط ثابت ہوتا ہے : ’’مالک دار (کی ثقاہت ) متفق علیہ ہے اور تابعین (Successors) کی جماعت نے اس کی بہت تعریف کی ہے۔ ‘‘
کتاب الارشاد فی معرفۃ علماء الحدیث بحوالہ ارغام المبتدی الغبی بجواز التوسُّل بالنبی للغماری : 9
اس کے علاوہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے مالک دار کا جو سوانحی خاکہ بیان کیا ہے، اس سے بھی یہ اعتراض رد ہوتا ہے :
’’مالک بن عیاض، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا آزاد کردہ غلام، اسے مالک دار کہا جاتا تھا۔ اس نے نبیﷺ کو دیکھا تھا اور اس نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے حدیثیں سنی ہیں۔ اس نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فارو ق رضی اللہ عنہ، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو عبیدۃص سے روایات لی ہیں۔ اس سے ابو صالح سمان اور اس (مالک دار) کے دو بیٹوں عون اور عبداللہ نے روایات لی ہیں۔
’’اور امام بخاری نے ’کتاب التاریخ الکبیر (7 : 5۔ 304) ‘ میں مالک دار سے بحوالہ ابو صالح ذکوان یہ روایت لی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زمانہ قحط میں کہا : اے میرے پروردگار!میں کوتاہی نہیں کرتامگر یہ کہ عاجز ہوجاؤں۔
’’ابن ابی خیثمہ نے انہی الفاظ کے ساتھ ایک طویل روایت نقل کی ہے (جس پر ہم بحث کر رہے ہیں) …اور ہم نے ’فوائدِ داؤد بن عمر رضی اللہ عنہ ‘ اور ’الضبی‘ جسے امام بغوی نے جمع کیا ہے، میں مالکِ دار سے بحوالہ عبدالرحمن بن سعید بن یربوع مخزوہی روایت نقل کی ہے۔ اس نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دن مجھے بلایا، ان کے ہاتھ میں سونے کا بٹوہ تھا جس میں چار سودینار تھے، اور مجھے حکم دیا کہ اسے ابوعبیدۃص کے پاس لے جاؤں۔ اور پھر اس نے بقیہ واقعہ بیان کیا۔
’’ابن سعد نے مالک دار کو اہلِ مدینہ تابعین کے پہلے طبقہ میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایات لی ہیں، اور وہ معروف تھا۔ ابو عبیدۃص نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے عیال کا نگران مقرر کیا تھا، پھر جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو انہوں نے اسے وزیرِ خزانہ بنا دیا اور اسی لیے اس کا نام مالکِ دار (گھر کا مالک) پڑ گیا۔
’’اسماعیل قاضی نے علی بن مدینی سے روایت کیا ہے کہ مالکِ دار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خزانچی تھے۔ ‘‘
الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، 3 : 5۔ 484
ابن حبان نے ’الثقات (5 : 384) ‘ میں مالک دار کو ثقہ قرار دیا ھے۔
رفع المنارۃ : 266
اب اگر حافظ منذِری اور امام ابن حجر ہیثمی نے مالکِ دار کے بارے میں کہا ہے کہ ہم اسے نہیں جانتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اسے ثقہ یا غیر ثقہ کچھ بھی نہیں کہا۔ تاہم امام بخاری، ابن سعد، علی بن مدینی، ابن حبان اور حافظ ابن حجر عسقلانی جیسے دوسرے اجل محدثین بھی ہیں جو اسے جانتے ہیں۔ حافظ عسقلانی نے اس کا ذکر ’تہذیب التہذیب (7 : 226، 8 : 217) ‘ میں بھی کیا ہے۔
مقامِ حیرت ہے کہ علامہ ناصر الدین البانی ان کے قول کو قبول و منتخب کرتے ہیں جو مالک دار کا معاملہ نہیں جانتے اور اسے ان لوگوں کے قول پر ترجیح دیتے ہیں جو اسے جانتے ہیں۔ علامہ البانی نے مالک بن عیاض جو’ الدار‘ کے لقب سے مشہور ہے، کی روایات ردّ کی ہیں جبکہ کبار ِصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں اپنا وزیر بنایا اور وزارتِ خزانہ جیسے اہم محکمے کی ذمہ داریاں تفویض کیں۔ علامہ البانی اس کے برعکس مالک دار کی نسبت کم مرتبے کے حامل لوگوں کی روایت قبول کرتے ہیں۔ ذیل میں اس کی چند مثالیں دی جاتی ہیں :
1۔ انہوں نے یحی بن عریان ھروی کو ’سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ (1 : 49) ‘ میں حسن قرار دیا ہے۔ ان کی دلیل حافظ خطیب بغدادی کا ’تاریخ بغداد (14 : 161) ‘ میں وہ قول ہے جس میں وہ یحی بن عریان ھروی کو بغداد کا ایک محدث قرار دیتے ہیں : کان ببغداد محدثًا (وہ بغداد کا ایک محدث تھا)۔
یہ بیان بالکل واضح ہے۔ حافظ خطیب بغدادی نے یحی بن عریان ھروی پر کوئی جرح و تعدیل کی، نہ ہی یہ ظاہر کیا کہ وہ کتنے بلند پائے کا محدث تھا یا اس کی روایات صحیح یا حسن تھیں، لیکن پھر بھی علامہ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
2۔ ابو سعید غفاری کو ’سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ (2 : 298) ‘میں حسن کہا گیا ہے۔ یہ بیان کرنے کے بعد کہ وہ مجہول (unknown) نہیں رہا چونکہ اس سے روایت لینے والے دو راوی ہیں، وہ لکھتے ہیں : ’’پس وہ تابعی ہے۔ حفاظ کی ایک جماعت نے اس کی حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔ لہذا حافظ عراقی کا ( اس سے مروی روایت کی) اِسناد کو جیّد کہنے میں کوئی حرج نہیں۔ اسی بات سے مجھے انشراحِ صدر حاصل ہو ا اور میرا نفس اس پر مطمئن ہوا۔ ‘‘
سوال یہ ہے کہ ابو سعید غفاری اور مالکِ دار کے درمیان فرق کیوں؟
3۔ صالح بن خوات کو ’سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ (2 : 436) ‘میں حسن قرار دیا ہے کیونکہ ایک جماعت نے اس سے روایات لی ہیں اور ابن حبان نے ’الثقات‘ میں اس کا ذکر کیا ہے۔
جبکہ ہماری تحقیق کے مطابق حافظ ابن حجر عسقلانی نے ’تقریب التہذیب (1 : 359) ‘ میں اسے مقبول کہا ہے اور یہ بھی بیان کیا ہے کہ وہ آٹھویں طبقہ میں سے تھا۔
تو کیا پہلے طبقے کا راوی مالک دار حسن نہیں ہوگا؟
لہذا امام ابن ابی حاتم رازی کا سکوت مالک دار کے مجہول ہونے پر دلالت نہیں کرتا کیونکہ وہ اس لیے سکوت اختیار کرتے ہیں کہ وہ راوی کے بارے میں جرح و تعدیل نہیں پاتے۔ پس عدم جرح و تعدیل سے مراد راوی کی جہالت نہیں کیونکہ جہالت جرح ہے جس کی سکوت سے صراحت ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی طرف اشارہ ملتا ہے، بلکہ حقیقت میں اس طرح سے راوی کا جہل ثابت کرنے کی مخالفت کی جاتی ہے۔ کتنے ہی ایسے راوی ہیں جن کے متعلق ابن ابی حاتم رازی خاموش رہتے ہیں حالانکہ دوسرے ائمۃ نے ان راویوں پر جرح و تعدیل کی ہے۔ کتبِ اسماء الرجال اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہیں۔
تیسرا اعتراض : ابو صالح ذکو ان سمان اور مالک دار کے درمیان انقطاع کا گمان ہے۔
جواب : یہ گمان باطل ہے جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں۔ اس کے بطلان کے لیے صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ ابو صالح بھی مالک دار کی طرح مدنی تھا اور ا س نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے حدیثیں روایت کی ہیں، لہذا وہ مدلِّس نہیں۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ کسی سند کے اتصال کے لیے صرف معاصرت کافی ہے جیسا کہ امام مسلم نے ’الصحیح‘ کے مقدمہ میں اس بات پر اجماع کا ذکر کیا ہے۔
چوتھا اعتراض : اس روایت کا صحیح ہونا حجت نہیں کیونکہ اس کا دار و مدار ایک ایسے شخص پر ہے جس کا نام نہیں لیا گیا۔ صرف سیف بن عمر تمیمی کی بیان کردہ روایت میں اس کا نام ’بلال‘ بیان کیا گیا ہے اور سیف نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
جواب : یہ اعتراض باطل ہے اس لیے کہ حجت کا دار و مدار بلال پر نہیں بلکہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عمل پر ہے۔ انہوں نے بلال کو اس کے فعل سے روکا نہیں بلکہ اسے تسلیم کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ خود بھی رو دیے اور فرمایا : ’’اے میرے پروردگار! میں کوتاہی نہیں کرتا مگر یہ کہ عاجز ہوجاؤں۔ ‘‘ لہذا قبر شریف پر آنے والا شخص خواہ وہ صحابی ہو یا تابعی، اس کا عدمِ ذکر اس روایت کی صحت پر اثر انداز نہیں ہوتا۔
اس بحث کا ماحصل یہ ہے کہ مالکِ دارکی بیان کردہ روایت صحیح ہے جیسا کہ ہم نے ابتدامیں بیان کیا۔ شیخ محمد بن علوی مالکی لکھتے ہیں :
’’وہ حضرات جنہوں نے اس حدیث کا ذکر کیا یا روایت کیا ہے اور کتابیں تصنیف فرمائی ہیں ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ یہ گمراہی و کفر ہے اور نہ انہوں نے متن حدیث پر کسی قسم کا اعتراض کیا۔ اس حدیث کا حافظ ابن حجر عسقلانی جیسے جلیل القدر صاحب علم نے حوالہ دیا اور کہا کہ اس کی سند صحیح ہے۔ حفاظ حدیث میں ان کاجو مقام و مرتبہ اور علم و فضل ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ ‘‘
مفاہیم یجب ان تصحح : 151
اس روایت سے مندرجہ ذیل اہم نکات مستنبط ہوتے ہیں :
1۔ توسُّل اور استمداد کی نیت سے زیارتِ قبور کے لیے جانا۔
2۔ ابتلاء و آزمائش کے وقت کسی فوت شدہ نیک ہستی کی قبر پر جاکر توسُّل کرنا اور اس سے مدد طلب کرنا جائز ہے کیونکہ اگر یہ فعل ناجائز ہوتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس شخص کو ضرور منع فرماتے۔
3۔ حضور ﷺ کا قبر شریف پر آنے والے شخص کے خواب میں آکر اسے بشارت دینا اس بات پر دلیل ہے کہ غیر اللہ اور فوت شدگان سے استعانت جائز ہے کیونکہ اگر ایسا کرنا جائز نہ ہوتا تو یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ حضورﷺ اس شخص کو منع نہ فرماتے۔
4۔ بعد از وصالِ مبارک ندائے یا رسول اللہ کا اِثبات۔
5۔ ندائ، استمداد اور توسُّل کا عمل خیر القرون سے چلا آرہا ہے۔
6۔ حضور نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس بعد از وصال بھی رُشد و ہدایت کا منبع ہے۔
7۔ سلطنت کا سربراہ انتظامی معاملات کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ حضور نبی اکرمﷺ نے سرورِ انبیاء ﷺہونے کے باوجود ریاستی چینل (channel) کو نہیں توڑا، اوردر حقیقت نظم و نسق کی پاسداری کا سبق دیتے ہوئے قبر شریف پر آنے والے شخص کو سربراہِ ریاست کے پاس جانے کا حکم فرمایا۔
8۔ قبر شریف پر آنے والے شخص نے حضور نبی اکرمﷺ کو امت کا واسطہ دیا جس سے حضورﷺ کی امت کے ساتھ بے پایاں محبت ظاہر ہوتی ہے۔
9۔ امت کو وسیلہ بنانے کا جواز۔
10۔ نبیﷺ کے سامنے غیر نبی کو وسیلہ بنانے کا جواز۔
11۔ جو شخص بھی حضور نبی اکرمﷺ سے تعلق استوار کرے اور اس نسبت کو پختہ کرے تو آقائے نامدار ﷺ اپنے اس غلام کو ضرور اپنے دیدار سے مشرف فرماتے ہیں اور اپنی عطاؤں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے نامِ محمدﷺ کی غلامی کا پٹہ ڈالنے والے کو فیوض و برکات سے نوازتے ہیں۔
12۔ حضور نبی اکرمﷺ کو بعد از وصال بھی اپنی امت یا اس کے کسی حکمران کی کمزوریوں کا علم ہوتا ہے اور آپﷺ ان کمزوریوں کو رفع کرنے کے لیے مختلف احکامات صادر فرماتے ہیں۔
13۔ عظیم اور اہل اللہ ہستیوں سے ان کے وصال کے بعد راہنمائی طلب کرنا۔
14۔ آقائے دو جہاںﷺکے بعد از وصال ملنے والے احکامات کو صحابہ کا حق و سچ ماننا۔
15۔ خواب میں ملنے والے احکامات کا دوسروں پر نفاذ۔
16۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے موَحِّدکے سامنے توسُّل و استمداد کی بات کی گئی تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے منع نہیں فرمایا بلکہ سن کر رو پڑے اور اسے حق جان کر جواب دیا۔
17۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا سرورِ دوجہاں سے عشق کہ محبوب خدا ﷺکا ذکر سنتے ہی آپ رضی اللہ عنہ پر رِقّت طاری ہوگئی۔
فصل اوّل و دوم میں ہم نے ثقہ روایات کے ذریعہ اس بات کو ثابت کردیا کہ حضور نبی کریمﷺ سے آپ کی ولادت باسعادت سے قبل اور حیات طیبہ میں توسُّل ہوتا رہا۔ حیات طیبہ کے حوالے سے حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کی اس معروف و مشہور روایت کا تفصیلی ذکر ہوچکا جس میں ایک نابینا شخص نے بارگاہ نبویﷺ میں درخواست کردی اور پھر حضور ﷺکے وسیلہ جلیلہ سے اس کی بینائی لوٹ آئی۔ اب ہم یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ توسُّل کا یہ طریقہ نبی ﷺ کی حیات ظاہری کے ساتھ خاص نہیں۔ بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم توسُّل کے اس صیغہ کو آپﷺ کی وفات کے بعد بھی استعمال کرتے تھے۔ جیسا کہ طبرانی کی روایت سے ثابت ہے کہ ایک آدمی اپنی کسی غرض و حاجت سے باربار حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس جاتا تھا۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اس کی طرف التفات کرتے اور نہ اس کی حاجت میں غور فرماتے۔ وہ آدمی حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کو ملا اور ان سے اس کا شکوہ کیا۔ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ لوٹا لاؤ اور وضو کرو۔ پھر مسجد میں جاکر دو رکعت نماز پڑھ کر یہ کہو : ’’اللھم! إنی أسالک و أتوجہ إلیک بنبینا محمدﷺ نبی الرحمۃ، یا محمد! إنی أتوجہ بک إلی ربی فتقضی لی حاجتی۔ ‘‘ (اے اللہ ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں اور آپ کی طرف ہمارے نبی محمدﷺ نبیِ رحمت کے وسیلے سے متوجہ ہوتاہوں، اے محمد! میں آپ کے وسیلے سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں کہ وہ میری یہ حاجت پوری فرمادے۔ ) اور اپنی حاجت کو ذکر کر۔ وہ آدمی چلا گیا اور جو اس کو کہا گیاتھا اس نے وہی کیا۔ اس کے بعد جب وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دروازے پر آیا تو دربان آیا، اس کو اپنے ہاتھ سے پکڑا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا دیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کو اپنے ساتھ چٹائی پر بٹھایا اور فرمایا کہ تمہاری کیا حاجت ہے؟ اس نے اپنی حاجت بیان کی تو حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ نے اس کی حاجت کو پورا کردیا اور فرمایا کہ تم نے اب تک اپنی حاجت کاکیوں ذکر نہ کیا؟ آپ نے اسے یہ بھی فرمایا کہ آئندہ جو بھی ضرورت ہو، ہمارے پاس آنا۔ وہ آدمی جب ان کے ہاں سے رخصت ہوا تو حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے عرض کیا۔ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ وہ تو میری حاجت کے بارے میں نہ غور کرتے اور نہ میری طرف التفات کرتے تھے حتی کہ آپ نے ان سے میری سفارش کردی۔ تو حضرت عثمان بن حنیفص نے فرمایا :
واللہ! ما کلمتہ، و لکنی شھدت رسول اللہ ﷺ و أتاہ ضریر، فشکا إلیہ ذھاب بصرہ، فقال لہ النبی ﷺ : فتصبر؟ فقال : یا رسول اللہ! لیس لی قائد و قد شق علی، فقال لہ النبی : ائت المیضأۃ فتوضأ ثم صل رکعتین ثم ادع بھذہ الدعوات۔ قال ابن حنیف : فواللہ! ما تفرقنا، و طال بنا الحدیث حتی دخل علینا الرجل کأنہ لم یکن بہ ضر قط۔
1۔ المعجم الکبیر للطبرانی، 9 : 31، رقم : 8311
2۔ المعجم الصغیر للطبرانی، 1 : 4۔ 183
3۔ دلائل النبوۃ للبیہقی، 6 : 8۔ 167
4۔ الترغیب و الترھیب، 1 : 6۔ 474
5۔ شفاء السقام : 125
6۔ مجمع الزوائد، 2 : 279
7۔ (الخصائص الکبری، 2 : 2۔ 201)
بخدا ! یہ میں نے نہیں کہا۔ بلکہ ایک دفعہ میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ کے پاس ایک اندھا آدمی آیا اور آپﷺ سے اپنی بینائی کے ختم ہونے کا شکوہ کیا تو نبیﷺنے اس سے فرمایا کہ تو صبر کر۔ اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میرا کوئی خادم نہیں ہے اور مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ لوٹا لے کر آؤ اور وضو کرو۔ پھر دو رکعت پڑھ کر ان دعائیہ کلمات سے دعا کرو۔ پھر حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ خدا کی قسم! ہم لوگ ابھی نہ تو مجلس سے دور ہوئے اور نہ ہی ہمارے درمیان گفتگو لمبی ہوئی حتی کہ وہ آدمی ہمارے پاس (اس حالت میں) آیا کہ گویا اسے اندھا پن تھا ہی نہیں۔
حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے اس شخص کو وہ دعا سکھائی جس میں نبی ﷺ کے وصال کے بعد آپﷺ کے ذریعہ استغاثہ و ندا اور نبی ﷺکو وسیلہ بنانے کا ذکر کیا ہے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس آدمی نے یہ گمان کیا کہ شاید عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کی خلیفہ سے سفارش کرنے کی وجہ سے اس کی ضرورت پوری ہوئی ہے اس لئے حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے جلدی سے اس کے گمان کی نفی کردی اور اس کو وہ حدیث سنائی جو نبی ﷺ سے سنی تھی اور اس واقعہ کا مشاہدہ کیا تھا تاکہ ثابت ہوجائے کہ اس کی حاجت نبیﷺ کو وسیلہ بنانے اور آپ ﷺکو نداء اور آپﷺ سے استغاثہ کی وجہ سے پوری ہوئی ہے اور اللہ کی قسم کھا کر اسے یقین دہانی کروائی کہ انہوں نے خلیفہ سے اس بارے میں کوئی سفارش نہیں کی بلکہ یہ سب کچھ وسیلہ مصطفے ﷺ کی برکت ہے۔
امام ابن تیمیہ نے اسی حدیث پاک کے حوالے سے ایک حکایت بیان کی ہے کہ ابن ابی الدنیا نے کتاب ’مجابی الدعاء ‘میں ایک روایت بیان کی ہے کہ ایک شخص عبدالملک بن سعید بن ابجر کے پاس آیا۔ عبدالملک نے اس کے پیٹ کو دبایا اور کہا کہ تمہیں ایک بیماری ہے جو کہ ٹھیک نہیں ہوسکتی۔ اس نے کہا : وہ کیا؟ عبدالملک نے کہا دبیلہ (بڑا پھوڑا) ہے جو پیٹ کے اندر نکلتا ہے اور اکثر مریض کو ہلاک کردیتا ہے۔ کہتے ہیں کہ وہ شخص واپس ہوا اور پھر اس نے کہا :
اللہ! اللہ ! اللہ ربی، لا أشرک بہ شیئا، اللھم! إنی أتوجہ إلیک بنبیک محمد نبی الرحمۃ ﷺ تسلیما، یا محمد! إنی أتوجہ بک إلی ربک و ربی یرحمنی مما بی۔
اللہ! اللہ! اللہ میرا رب ہے۔ میں ا س کا کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتا۔ اے اللہ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں اور آپ کی طرف آپ کے نبی محمد نبی رحمتﷺ کے وسیلے سے متوجہ ہوتا ہوں۔ اے محمد! میں آپ کے وسیلے سے آپ کے اور اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں کہ میری بیماری میں مجھ پر رحم فرمائیں۔
کہتے ہیں کہ عبدالملک نے اس کے بعد اس کے پیٹ کو دبایا اور کہا کہ تم ٹھیک ہوگئے ہو، تمہیں کوئی بیماری نہیں۔ امام ابن تیمیہ اپنی کتاب میں اس پورے واقعے کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
قلت : فہذا الدعا و نحوہ قدروی أنہ دعا بہ السلف۔
قاعدہ جلیلہ فی التوسُّل والوسلیہ : 91
میں کہتا ہوں کہ یہ اور اس جیسی دیگر دعائیں سلف سے منقول ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ شیخ ابن تیمیہ نے بھی اس چیز کی روایت کردی :
(1) یہ سلف کا عمل ہے، اور
(2) اس عمل سے شفایاب ہونا بھی درست ہے۔
مندرجہ بالا دونوں روایات سے یہ بھی واضح ہوا کہ مشائخ و بزرگان دین کا وظیفہ دینے کا عمل درست ہے کیونکہ یہ سلف صالحین کا معمول ہے۔ حضور ﷺنے تو حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کو یہ نہیں فرمایا تھا کہ تم آگے لوگوں کو بھی یہ دعا پڑھنے کا کہتے پھرو۔
قیامت کے دن بھی حضور نبی اکرمﷺ کی ذاتِ اقدس بخشش و مغفرت کا وسیلہ ہوگی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
رَبَّنَا وَ اٰتِنَا مَا وَ عَدْتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ وَ لَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِط إِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَO
آل عمران، 3 : 194
اے ہمارے رب! اور ہمیں وہ سب کچھ عطا فرما جس کا تو نے ہم سے اپنے رسولوں کے ذریعے وعدہ فرمایا ہے، اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کر، بے شک تو وعدہ کے خلاف نہیں کرتا۔
اس آیت کی روشنی میں جملہ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ کیا گیا وعدۂ الٰہی توسُّل کو ظاہر کرتا ہے۔ انعامات و احسانات کے وہ تمام وعدے جو دیگر انبیاء علیہم السلام کے ساتھ کیے گئے وہ حضور نبی اکرمﷺکے توسُّل سے آپﷺ کی امت کے حق میں خصوصی انفرادیت رکھتے ہیں، روز قیامت جملہ ذریت آدم اس دن کی گرمی و تپش سے تنگ آکر سارے انبیاء علیہم السلام کی خدمت میں حاضر ہوگی۔ ہر کوئی یہی کہے گا : إذھبوا إلی غیری (آج کے روزکسی اور پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہو)۔ بالآخر ساری انسانیت حضور نبی اکرمﷺ کی در اقدس پر آجائے گی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے متفق علیہ روایت ہے :
حدثنا محمدﷺ قال : إذا کان یوم القیامۃ ماج الناس بعضہم فی بعض، فیأتون آدم فیقولون : اشفع إلی ربک، فیقول : لست لھا، و لکن علیکم بإبراہیم فإنہ خلیل الرحمن، فیأتون إبراہیم، فیقول : لست لھا، و لکن علیکم بموسی فإنہ کلیم اللہ، فیأتون موسی، فیقول : لست لھا، و لکن علیکم بعیسی فانہ روح اللہ و کلمتہ، فیأتون عیسی، فیقول : لست لھا، و لکن علیکم بمحمدﷺ، فیأتوننی، فأقول : أنا لھا، فأستأذن علی ربی، فیؤذن لی، و یلھمنی محامد أحمدہ بھا لا تحضرنی الان، فأحمدہ بتلک المحامد، و أخر لہ ساجدا، فیقال : یا محمد! ارفع رأسک و قل یسمع لک، و سل تعط، و اشفع تشفع، فأقول : یا رب! أمتی أمتی، فیقال : انطلق فأخرج منھا من کان فی قلبہ مثقال شعیرۃ من إیمان، فأنطلق فأفعل، ثم أعود فأحمدہ بتلک المحامد، ثم أخر لہ ساجداً، فیقال : یا محمد! ارفع رأسک، و قل یسمع لک، و سل تعط، و اشفع تشفع، فأقول : یا رب! أمتی أمتی، فیقال : انطلق فأخرج منھا من کان فی قلبہ مثقال ذرۃ أو خردلۃ من إیمان، فأنطلق فأفعل، ثم أعود فأحمدہ بتلک المحامد، ثم أخر لہ ساجداً، فیقال : یا محمد! ارفع رأسک، و قل یسمع لک، و سل تعط، و اشفع تشفع، فأقول : یا رب! أمتی أمتی، فیقول : انطلق فأخرج منھا من کان فی قلبہ أدنی أدنی أدنی مثقال حبۃ من خردلۃ من إیمان فأخرجہ من النار من النار من النار۔ فأنطلق فأفعل…و قال : ثم أعود الرابعۃ فأحمدہ بتلک المحامد، ثم أخر لہ ساجداً، فیقال : یا محمد! ارفع رأسک و قل یسمع، و سل تعط، و اشفع تشفع، فأقول : یا رب! إئذن لی فیمن قال : لا إلہ إلا اللہ، فیقول : و عزتی و جلالی و کبریائی و عظمتی لأخرجن منھا من قال لاإلہ إلا اللہ۔
1۔ صحیح البخاری، 2 : 20۔ 1118، 1108، 2۔ 1101، 971، 642
2۔ صحیح البخاری، 1 : 470
3۔ الصحیح لمسلم، 1 : 9۔ 108
4۔ جامع الترمذی، 2 : 66
5۔ سنن الدارمی، 2 : 5۔ 234، رقم : 2807
6۔ مسند ابو داؤد الطیالسی : 9۔ 268، رقم : 2010
7۔ مسند ابو عوانہ، 1 : 4۔ 183، 4۔ 171
8۔ مسند ابو یعلی، 1 : 9۔ 56، رقم : 59
9۔ مصنف ابن ابی شیبۃ، 11 : 451۔ 444، رقم : 3، 1، 11720
10۔ صحیح ابن حبان، 14 : 9۔ 377، رقم : 6464
11۔ صحیح ابن حبان، 14 : 7۔ 393، رقم : 6476
12۔ شعب الایمان للبیہقی، 1 : 6۔ 285، رقم : 9۔ 308
13۔ شرح السنۃ للبغوی، 15 : 60۔ 157، رقم : 4333
14۔ موارد الظمآن : 642، رقم : 2589
15۔ مجمع الزوائد، 10 : 4۔ 373
حضور نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا : جب قیامت کا دن ہوگا لوگ گھبرا کر ایک دوسرے کے پاس جائیں گے۔ سب سے پہلے وہ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور عرض کریں گے : آپ (ہمارے لیے) اپنے رب کی بارگاہ میں سفارش کریں۔ وہ فرمائیں گے کہ آج یہ منصب میرا نہیں، البتہ تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں جاؤ، وہ اللہ کے خلیل ہیں۔ پس لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں آئیں گے، وہ بھی فرمائیں گے : میں اس کا اہل نہیں ہوں، البتہ تم حضرت موسی علیہ السلام کی خدمت میں جاؤ اس لیے کہ وہ کلیم اللہ ہیں۔ لوگ حضرت موسی علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور وہ بھی فرمائیں گے : میں اس قابل نہیں ہوں، البتہ تم حضرت عیسی علیہ السلام کی خدمت میں جاؤ، وہ روح اللہ ہیں اور اس کا کلمہ ہیں۔ لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس آئیں گے، وہ بھی یہی فرمائیں گے : آج میں بھی اس کا اہل نہیں ہوں، البتہ تم حبیب خدا حضرت محمدﷺ کی خدمت میں جاؤ۔ ساری انسانیت میرے پاس آجائے گی۔ میں کہوں گا : ہاں اس منصب شفاعت کا اہل (آج) میں ہی ہوں۔ میں اپنے رب سے اجازت طلب کروں گا تو مجھے اجازت مل جائے گی۔ مجھے اس وقت محامد (حمدوں) کا الہام کیا جائے گا جس کے ذریعے میں اللہ کی حمد و ثنا کروں گا جنہیں میں اس وقت بیان نہیں کرسکتا۔ (غرضیکہ) میں ان محامد کے ساتھ رب کی حمد و ثنا کروں گا اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوجاؤں گا۔ پس مجھے کہا جائے گا : اے محمد! اپنا سر انور اٹھائیے، بولیے آپ کی بات سنی جائے گی اور مانگئے، آپ کو عطا کیا جائے گا، اور شفاعت کیجیے، آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا : اے رب! میری امت، میری امت۔ پس حکم ہوگا کہ جائیے اور جہنم سے اسے نکال لیجیے جس کے دل میں جَو کے برابر بھی ایمان ہے۔ پس میں جاکر ایسا ہی کروں گا (اور ایسے تمام افراد کو جہنم سے نکال لوں گا)۔ پھر واپس آکر ان محامد کے ساتھ اس کی حمدو ثنا کروں گا اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوجاؤں گا۔ پس فرمایا جائے گا : اے محمد! اپنا سر انور اٹھائیے اور فرمائیے، سنا جائے گا اور سوال کیجئے، عطا کیا جائے گا اور شفاعت کیجیے، آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا : اے رب! میری امت، میری امت۔ پس فرمایا جائے گا کہ جائیے اور جہنم سے اسے بھی نکال لیجیے جس کے دل میں ذرے کے برابر یا رائی کے برابر
بھی ایمان ہے پس میں جاکر ایسا ہی کروں گا۔ پھر واپس آکر ان ہی محامد کے ساتھ اس کی حمد و ثنا کروں گا اور پھر اس کے حضور سجدہ ریز ہوجاؤں گا۔ پس فرمایا جائے گا : اے محمد! اپنا سر انور اٹھائیے اور بیان کیجئے سنا جائے گا اور سوال کیجئے، عطا کیا جائے گا اور شفاعت کیجئے، آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا : اے رب! میری امت، میری امت۔ پس فرمایا جائے گا کہ جائیے اسے بھی جہنم سے نکال لیجیے جس کے دل میں رائی کے دانے سے بھی کم، بہت کم اور بہت ہی کم ایمان ہے، پس ایسے شخص کو بھی جہنم کی آگ، آگ، آگ سے نکال لیجیے۔ چنانچہ میں جاکر ایسا ہی کروں گا۔
حضرت حسن … ہی نے حضرت انس کی روایت میں ہی ان الفاظ کو بھی بیان کیا ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ چوتھی مرتبہ پھر واپس لوٹوں گا اور اسی طرح حمد و ثناء کروں گا، پھر اس کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا۔ پس فرمایا جائے گا : اے محمد! اپنا سر انور اٹھائیے اور بیان کیجیے، سنا جائے گا اور سوال کیجیے، عطا کیا جائے گا اور شفاعت کیجیے، آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ اس وقت میں عرض کروں گا کہ اے رب! مجھے اس شخص کو جہنم سے نکالنے کی اجازت دیجیے جس نے (ایک مرتبہ بھی صدق دل سے) کلمہ طیبہ پڑھ لیا ہے۔ باری تعالیٰ فرمائے گا کہ مجھے قسم ہے اپنی عزت کی! اپنے جلال کی!اپنی کبریائی و عظمت کی !میں ضرور دوزخ سے اسے بھی آزاد کروں گا جس نے لا إلہ إلا اللہ کہا ہے۔ ‘‘
گویا اس حدیث مبارکہ سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ میدان حشر میں حساب و کتاب کا سلسلہ حضور نبی اکرمﷺ کی اللہ کی بارگاہ میں خصوصی حمد و ثناء اور التجاء و دعا کے توسُّل سے ہی شروع ہوگا اور سب سے پہلے حضور نبی اکرمﷺ کے وسیلے سے امت مصطفوی کا حساب و کتاب شروع ہوگا تاکہ یہ حشر کی گرمی میں زیادہ دیر مبتلا نہ رہے۔ اسی طرح قرآن مجید میں قیامت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا :
یَوْمَ لَا یُخْزِی اللهُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ ج نُوْرُھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ أَیْدِیْھِمْ وَبِأَیْمَانِھِمْ۔
التحریم، 66 : 8
(یہ وہ دن ہوگا) جس دن اللہ اپنے نبی کو اور ان لوگوں کو جو آپ کے ساتھ ایمان لائے رسوا نہ کرے گا۔ (اس روز) ان کا نورِ (ایمان) ان کے آگے اور ان کے داہنی طرف دوڑتا چلا جاتا ہوگا۔
اس آیت کریمہ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ باری تعالیٰ اپنے رسول نبی آخر الزمان ﷺ کے وسیلہ سے امت مصطفوی کو قیامت میں رسوا نہ کرے گا بلکہ اعلیٰ اعزاز کے ساتھ جنت میں داخل فرمائے گا۔ ان کی نشانی یہ ہوگی کہ وہ نور جو انہیں اللہ کے نبی کے وسیلے سے ملا ہوگا انہیں اپنے احاطے میں لیے ہوگا۔
یہ تمام روایات و آثار، توسُّل کو ثابت کرتے ہیں اور اس کی تائید کرتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی توسُّل بالنبیﷺ کو آپﷺ کی حیات مبارکہ کے ساتھ ہی خاص کرنے پر اصرار کرتا ہے تو یہ درست نہیں ہے کیونکہ توسُّل کو آپﷺ کی حیات ظاہری کے ساتھ خاص کرنے کی کوئی دلیل نہیں۔
بعض لوگ اپنی جہالت اور کم علمی کی بناء پر اس بات کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ (معاذ اللہ) نبی کریم ﷺ کو بعد از وصال کوئی اختیار نہیں، وہ نہ تو سنتے ہیں نہ ہمارے لئے دعا کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسی بدعقیدگی سے اہل ایمان کو بچائے۔ کوئی صحیح العقیدہ مسلمان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ آپﷺ کے بارے میں توسُّل کا عقیدہ قرآن و حدیث سے ثابت شدہ مسلمہ امر ہے۔ اور یہ آپ کی بلندی شان، رفعت منزلت کی دلیل ہے۔ عدم جوازِ توسُّل کا عقیدہ دراصل آپﷺکی شان اقدس کو کم کرنے کی کوشش کے مترادف ہے۔
اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ مردہ سنتا ہے، احساس و شعور بھی رکھتا ہے، زندہ کی نیکی اور بھلائی سے اسے فائدہ بھی پہنچتا ہے اور ان کی برائی پر وہ پریشان ہوتا ہے۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ یہ عقیدہ ایک عام انسان کے حوالے سے ثابت شدہ ہے۔ جبکہ عامۃ المؤمنین اور پھر سید البشراور اللہ کی مخلوق میں سے افضل ترین مخلوق ہمارے آقا و مولا سیدنا محمد مصطفیﷺ کی برزخی حیات کے بارے میں کیا کہنا؟ متعدد ثقہ روایات سے حیات النبیﷺ ثابت شدہ امر ہے، آپﷺ سنتے ہیں، سلام کا جواب دیتے ہیں، آپﷺ کی امت کے اعمال آپﷺ پر پیش کئے جاتے ہیں، امت کی برائیوں پر استغفار فرماتے ہیں جبکہ ان کی نیک اعمال پر اللہ جل مجدہ کی حمد و ثنا کرتے ہیں۔ روایات میں آیا ہے کہ ایک دفعہ خلیفہ مروان بن الحکم نے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو آپﷺ کی قبر انور پر پڑے دیکھا تو کہا : تو یہ کیا کر رہا ہے؟ اس پر آپ نے ایمان افروز جواب دیا۔ وہ روایت یہ ہے :
عن داؤد بن أبی صالح قال : أقبل مروان یوماً فوجد رجلاً واضعاً وجھہ علی القبر، فقال : أتدری ماتصنع؟ فأقبل علیہ فإذا ھو أبو أیوب رضی اللہ عنہ، فقال : نعم، جئت رسول اللہ ﷺ و لم آت الحجر، سمعت رسول اللہﷺ یقول : لا تبکوا علی الدین إذا ولیہ أھلہ، و لکن أبکوا علیہ اذا ولیہ غیر أھلہ۔
1۔ مسند احمد بن حنبل، 5 : 422
2۔ المستدرک، 4 : 515
3۔ المعجم الکبیر للطبرانی، 4 : 158، رقم : 3999
4۔ المعجم الاوسط للطبرانی، 1 : 200۔ 199، رقم : 286
5۔ المعجم الاوسط للطبرانی، 10 : 169، رقم : 9362
6۔ شفاء السقام : 113
7۔ مجمع الزوائد، 5 : 245
8۔ کنز العمال، 6 : 88، رقم : 14967
حضرت داؤد بن صالح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز مروان آیا اور اس نے دیکھا کہ ایک آدمی حضور نبی کریمﷺ کی قبر انور پر اپنا منہ رکھے ہوئے ہے تو اس (مروان ) نے کہا : کیا تو جانتا ہے کہ تو یہ کیا کر رہا ہے؟ جب مروان اس کی طرف بڑھا، دیکھا تو وہ ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ تھے۔ (جواب میں) انہوں نے فرمایا : ہاں (میں جانتا ہوں)، میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا ہوں اور کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔ میں نے رسول خداﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے : دین پر مت روؤ جب ابھی اس کا ولی اہل ہو، ہاں دین پر اس وقت روؤ جب اس کا ولی نااہل ہو۔
امام احمد بن حنبل کی بیان کردہ روایت کی اسناد صحیح ہیں۔ امام حاکم نے اسے شیخین (بخاری و مسلم) کی شرائط پر صحیح قرار دیا ہے جبکہ امام ذہبی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ آپﷺسے توسُّل کے خلاف دلائل کو ثابت کرنے کی کوشش کرنا اور من گھڑت طریقوں سے صحیح اور ثقہ روایات کو ضعیف اور بے اصل قرار دینا سب بے فائدہ کوشش ہے۔ کیونکہ آپﷺ کے ارشاد گرامی …حیاتی خیر لکم و مماتی خیرلکم (میری زندگی بھی تمہارے لیے خیر ہے اور میری وفات بھی تمہارے لیے خیر ہے) …کے تحت فیضان مصطفے ﷺ آج بھی اسی طرح جاری و ساری ہے جس طرح کہ ظاہری حیات طیبہ میں تھا۔ اور ابھی ہم نے اس صحیح الاسناد حدیث کو بھی بیان کیا جس میں روز قیامت آپﷺ اللہ تعالی کی بارگاہ میں سفارش کریں گے توعمل حساب وکتاب شروع ہوگا۔
آئیے ذرا غور کریں کہ قیامت کا دن ہوگا، گرمی اور تپش انتہا کو پہنچی ہوگی، لوگ سخت تکلیف میں مبتلا ہوںگے، رب تعالیٰ کرسی پرجلوہ افروز ہوگا اور مصطفےﷺ بھی تشریف فرما ہوں گے، جملہ انبیاء کرام موجود ہوں گے اور اولین و آخرین بھی جمع ہوں گے تو ایسے میں جب وہ یہ سمجھ کر کہ ہم سب کے باپ سیدنا آدم علیہ السلام ہیں ان کے پاس جائیں گے کہ آپ اللہ کی بارگاہ میں سفارش فرمائیں کہ ہم سے اس تکلیف کو ہٹائے لیکن وہ ان کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف، وہ حضرت موسی علیہ السلام کی طرف، وہ حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف اور وہ سب کو سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفےﷺ شافعِ یوم النشور کی طرف بھیج دیں گے۔ اس تمام مرحلے میں جلیل القدر انبیاء میں سے کوئی ایک بھی یہ نہیں فرمائے گا کہ یہ تم کیا شرک کر رہے ہو، ہمارے پاس کس لئے آئے ہو؟ جلوہ حق سامنے ہے اس بارگاہ عالیہ میں اپنی التجا پیش کرو .......بلکہ وہ خود انہیں دوسرے نبی ںکی طرف بھیج دیں گے کہ شاید وہ سفارش کردیں۔
تو معلوم ہوا کہ توسُّل اور استغاثہ ایک ایسا عمل ہے جو ابتدا سے لیکر روز قیامت تک جاری و ساری ہے اور اس روز تو جواز توسُّل پر سب کا اجماع ہو جائے گا۔ لطیف نکتہ یہ ہے کہ عالم انسانیت کی پہلی ہستی سیدنا حضرت آدم علیہ السلام سے جب لغرش ہوئی تو انہوں نے بارگاہ خداوندی میں حضرت محمد مصطفےﷺ کو بطور وسیلہ پیش کیا اور ان کی لغزش معاف ہوئی۔ اپنی لغزش کی وجہ سے وہ جس کرب و پریشانی میں مبتلا تھے انھیں اس وسیلہ جلیلہ سے نجات ملی اور یوم آخرت بھی جب اس دنیاوی زندگی کا خاتمہ ہو رہا ہوگا اور حساب کتاب کے شروع نہ ہونے کی وجہ سے اولین و آخرین پریشان ہوں گے، تب بھی انہیں نجات ہمارے آقاﷺ کے وسیلہ سے ملے گی۔ تو معلوم ہوا کہ عالم بشریت کے پہلے انسان کے لئے وسیلہ مصطفیﷺ پریشانی سے نجات کا سبب بنا اور جب اس کا خاتمہ ہو رہا ہو گا تو تب بھی تمام انسانوں کو پریشانی سے نجات ہمارے آقا و مولا حضور سیدنا محمد مصطفیﷺ کے وسیلہ جلیلہ سے ملے گی۔ خوش بخت و خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو آج بھی اس صحیح عقیدے پر قائم ہیں اور قیامت کو بھی وہ اس کا نظارہ کریں گے۔ اعلحضرت نے فرمایا تھا :
آج لے ان کی پناہ، آج مدد مانگ ان سے
کل نہ مانیں گے، قیامت میں اگر مان گیا
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved