خاصۂ خاصان رسل ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفےﷺ کی یہ شانِ امتیاز ہے کہ آپﷺ کی بعثت بلکہ ولادت سے قبل بھی آپﷺ سے توسُّل ہوتا رہا۔ سیدنا آدم علیہ السلام اور پھر یہود کا آپ ﷺ کو وسیلہ بنانے کا بیان گزشتہ فصل میں گزرا۔ جب امم سابقہ آپﷺ کے وسیلہ سے اللہ کی بارگاہ میں دشمنوں پر فتح اور اپنے گناہوں کی مغفرت کیلئے التجائیں کرتی تھیں تو امت مصطفوی تو بطریق اولیٰ آپﷺ کے توسُّل کی حقدار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں صراحۃ اس بات کا ثبوت پایا جاتا ہے کہ آپﷺ کے وسیلہ جلیلہ سے اللہ تعالیٰ نے امت مرحومہ پر بے شمار انعامات فرمائے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپﷺ سے توسُّل کیا‘ آپﷺ نے ان کو یہ نہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے براہ راست سوال کیا کرو بلکہ آپ ﷺنے تو خود ان کو وسیلہ کی تعلیم دی۔ آپ ﷺسے توسُّل پر قرآن حکیم سے جو دلائل بطورِ استشہاد ثابت ہیں وہ درج ذیل ہیں :
حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی حیات ظاہری میں توسُّل کے بارے میں قرآن حکیم ہماری رہنمائی یوں فرماتا ہے :
وَمَا کَانَ اللهُ لِیُعَذِّبَھُمْ وَ أَنْتَ فِیْہِمْ ط وَماَ کَانَ اللهُ مُعَذِّبَهمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَo
الانفال، 8 : 33
اور (درحقیقت بات یہ ہے کہ) اللہ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ان پر عذاب فرمائے در آنحالیکہ (اے حبیب مکرم!) آپ بھی ان میں (موجود) ہوں اور نہ ہی اللہ ایسی حالت میں ان پر عذاب فرمانے والا ہے کہ وہ (اس سے) مغفرت طلب کر رہے ہوں۔
باری تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کی وجہ سے اپنے نظام کو بدل دیا۔ امم سابقہ جب ایک خاص وقت اللہ کی تک نافرمانی میں تمام حدود تجاوز کر جاتیں اور پیغام حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیتیں تو اس نافرمانی اور سرکشی کی پاداش میں عذاب الٰہی کی گرفت میں آجاتیں۔ کبھی ان پر آسمانوں سے پتھر برسائے جاتے‘ کبھی صورتیں مسخ کردی جاتیں اور کبھی سیلاب میں غر ق کردیئے جاتے غرضیکہ طرح طرح کے عذاب ان پر مسلط کر دیئے جاتے جن سے پتہ چل جاتا کہ ان کی نافرمانی کے باعث انہیں عذاب کی گرفت میں لیا گیا ہے۔ مگر جوں ہی حضور نبی اکرمﷺ اس دنیا میں تشریف لائے تو آپﷺ کے وجود اقدس کی برکت و توسُّل سے باری تعالیٰ نے اپنا قانون و ضابطہ تبدیل کردیا۔ آپﷺ کے باعث نہ صرف امتِ اجابت (مؤمنین و مسلمین) بلکہ امتِ دعوت (کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ) سے بھی دنیاوی عذاب اٹھالئے گئے۔ یہ عذاب کا اٹھایا جانا کسی خاص وقت اور زمانے کیلئے نہ تھا‘ بلکہ یہ ابد الاباد تک حضور نبی اکرمﷺ کی نبوت و رسالت کے ساتھ لازم کردیا گیا ہے۔ جب تک آپﷺ کی نبوت و رسالت موجود رہے گی‘ اس وقت تک عذاب الہی نہیں آئے گا اور بلاشبہ آپﷺ کی نبوت و رسالت قیامت تک جاری و ساری رہے گی کیونکہ وَأَنْتَ فِیْہِمْ کی برہان قطعی کی بنا پر حضور نبی اکرمﷺ کا وجود اقدس رحمت الٰہی کا باعث بن گیا۔ لہذا جب تک وجود مصطفےﷺ باقی ہے تو خود رب کائنات کی ضمانت پر پہلی امم کی طرح نہ صرف یہ امت بلکہ تمام دنیائے انسانیت عالمگیر عذابوں میں گرفتار نہیں ہوگی۔ پس عذاب الٰہی اور نوعِ بشر کے درمیان حضور نبی اکرمﷺ کا وسیلہ جلیلہ ایک لاک (barrier) بن گیا ہے۔
مذکورہ آیہ کریمہ میں دو وسیلے ہیں : ایک حضور نبی اکرمﷺ کا وسیلہ ہے اور دوسرا ذکر الہی (استغفار) کا ہے کہ باری تعالیٰ گنہگاروں کو اس وجہ سے بھی عذاب نہیں دیتا۔ گویا کہ استغفار بھی عذاب کو ٹالنے کا وسیلہ بن جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات اقدس کا وسیلہ ہونا پہلے بیان کیا اور اپنی بارگاہ میں استغفار کا بعد میں۔ اس ترتیب کا بغور جائزہ لینے سے یہ حکمت سامنے آتی ہے کہ استغفار اور توبہ انہی لوگوں کی قبول ہوگی جو حضور علیہ السلام کے ساتھ متعلق ہیں اور آپﷺ کے دامن سے وابستہ کرلیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا بندوں کی استغفار قبول کرنا اس بات پر منحصر ہے کہ وہ محض آپﷺ کی نبوت پر ہی ایمان نہ لائیں بلکہ ایمان لانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی مانیں کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام آج بھی ہم میں موجود ہیں اور قیامت تک رہیں گے۔ جب یہ عقیدہ پختہ ہوجائے گا تو پھر ہمارے توبہ و استغفار سے عذاب ٹل جائے گا۔
تعجب خیز امر یہ ہے کہ کفار و مشرکین چیلنج کرتے : اے اللہ! ہم تیرے نازل کردہ قرآن کو نہیں مانتے، اگر یہ قرآن‘ جس کے ہم انکاری ہیں‘ حق ہے تو ہم پر عذاب نازل فرما۔ جیسا کہ قرآن حکیم نے ان کے عذاب کو دعوت دینے کا ذکر کیا ہے :
وَ إِذْ قَالُوا اللّٰھُمَّ إِنْ کَانَ ھٰذَا ھُوَ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِکَ فَأَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآء أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلیِمٍo
الانفال، 8 : 32
اور جب انہوں نے (طعنا) کہا : اے اللہ! اگر یہی (قرآن) تیری طرف سے حق ہے تو (اس کی نافرمانی کے باعث) ہم پر آسمان سے پتھر برسادے یا ہم پر کوئی دردناک عذاب بھیج دے۔
کفار و مشرکین نے یہ چیلنج قرآن کی حقانیت و صداقت کو پرکھنے کے لیے کیا۔ مگر اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اس سے متصل آیت میں فرمایا کہ اگر میرا محبوب تم میں نہ ہوتا تو تمہارا غرور و تکبر بھی سابقہ قوموں کی طرح ضرور ختم ہوجاتا۔ اب میری رحمت کو گوارا نہیں کہ ایک طرف میرا محبوب تم میں موجود ہو اور دوسری طرف تم پر عذاب بھی نازل ہو اس لئے کہ میں نے اپنے حبیبﷺ کو سارے جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَمَآ أَرْسَلْنٰکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَo
الانبیاء، 21 : 107
اور (اے رسول محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر۔
یہاں پر خدا تعالیٰ نے واضح کردیا ہے کہ اس کے حبیب کی شانِ رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْنِیْ اور سورۃ الانفال کی آیت نمبر 33 میں کیا گیا اس کا اعلان کفار و مشرکین کی نافرمانی و معصیت کے باوجود ان پر عذابِ الٰہی کے نازل ہونے میں مانع ہے،وگرنہ تاریخ انسانی گواہ ہے کہ ان جیسے سرکش اور باغی اپنی نافرمانی کے باعث کسی دور میں بھی اس کے عذاب سے محفوظ نہیں رہ سکے اور بالخصوص وہ قومیں جنہوں نے تکبر و غرور کا مظاہرہ کیا اور اس کے عذاب کو دعوت دی توان میں سے کسی کی صورتیں مسخ ہو کر بندروں کی صورت میں ڈھل گئیں‘ کوئی غرق ِآب ہوا اور کوئی خوفناک آواز سے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ غرضیکہ جیسی انہوں نے نافرمانی کی ویسے ہی عذاب سے انہیں دوچار کردیا گیا۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ کفار و مشرکین نے اپنی دائمی کفر والی نفسیات کے مطابق جب آیہ مذکورہ میں قرآن کے حق ہونے کو عذاب ِحجار اور عذابِ الیم کے نزول سے مشروط کیا تو اس کے جواب میں اس آیت سے متصل آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس چیلنج کا جواب دیا اور اپنے محبوب ﷺکی عظمت و رفعت اور شانِ رحمت کو اجاگر کردیا اور یوں حضور نبی اکرمﷺ کی ذاتِ اقدس دنیوی زندگی میں کفار و مشرکین سے بھی عذاب کے ٹلنے کا وسیلہ بن گئی۔
اس کی تائید سورہ آل عمران سے بھی ہوتی ہے جس میں وَ فِیْکُمْ رَسُوْلُہٗ کی ضمانت رشد و ہدایت کا باعث بن جاتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَکَیْفَ تَکْفُرُوْنَ وَ أَنْتُمْ تُتْلٰی عَلَیْکُمْ اٰیٰتُ اللهِ وَفِیْکُمْ رَسُوْلُہٗ ط وَمَنْ یَّعتَصِمْ بِاللهِ فَقَد ھُدِیَ إِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیمٍo
آل عمران، 3 : 101
اور تم (اب) کس طرح کفر کروگے حالانکہ تم وہ (خوش نصیب) ہو کہ تم پر اللہ کی آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں اور تم میں (خود) اللہ کے رسول موجود ہیں اور جو شخص اللہ (کے دامن) کو مضبوط پکڑلیتا ہے تو اسے ضرور سیدھی راہ کی طرف ہدایت کی جاتی ہے۔
اس آیت کریمہ سے پہلے یہ بیان ہو رہا ہے کہ یہود و نصاریٰ مسلمانوں کو کفر کی طرف لوٹانے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتے رہے جن میں سے ایک سنگین ترین یہ تھا کہ وہ صبح مسلمان ہوجاتے اور شام کو یہ کہہ کر کافر ہوجاتے کہ ہمیں تو دینِ اسلام پسند نہیں آیا۔ اس ذہنیت میں پسِ پردہ نیتِ بد اور یہ سازش کارفرما ہوتی کہ کفر کی طرف ہمارا دوبارہ پلٹنا دیکھ کر ممکن ہے کوئی کمزور عقیدہ مسلمان بھی دوبارہ کفر اختیار کرلے۔ یعنی یہ سوچی سمجھی اسلام سے بیزار کرنے کی ایک چال تھی جسے باری تعالیٰ نے بے نقاب کردیا کہ رسول ﷺ کی موجودگی کے باعث وہ اپنے برے عزائم میں ناکام و خاسر رہیں گے۔ علاوہ ازیں آیۃ کریمہ کے سیاق و سباق کے حوالے سے اہل ایمان کو اطمینان دلاتے ہوئے باری تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تمہیں کفر کی طرف پلٹنے اور ایمان کے ضائع ہوجانے کا خدشہ ہو تو اس کے لیے ایک ہی نسخہ ہے اور وہ نسخہ وسیلہ ہے۔ اسے پیش نظر رکھنے اور اختیار کرنے سے کبھی بھی تم مومن ہونے کے بعد کفر کی طرف نہیں پلٹوگے اور وہ وسیلہ تمسُّک بالقرآن اور تمسُّک بالرسولﷺ (قرآن اور رسولﷺ کو تھامے رہنا)ہے۔ یہ دو وسیلے تمہیں حالت ایمان میں قائم رکھنے کے لیے کافی ہوں گے۔
اس آیۃ کریمہ میں عقیدئہ ِرسالت کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ تمہارے اندر قرآن موجود ہے بلکہ فرمایا کہ تمہارے اندر رسولﷺ موجود ہیں۔ یہ بھی تو فرمایا جا سکتا تھا کہ تم کیسے کافر ہو سکتے ہو حالانکہ تمہارے اندر قرآن بھی ہے اور رسولﷺ بھی موجودہیں‘ مگر یہ انداز بھی اختیار نہیں کیا۔ جب اپنی کتاب کا ذکر کیا تو فرما یا کہ تمہارے اوپر اللہ کی آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ خالی کتاب کا ہونا کفر کی طرف پلٹنے سے نہیں بچا سکتا بلکہ کوئی کتاب پڑھ کر سنانے والا بھی ہونا چاہیے اور وہ میرا محبوب ہے جو تمہیں میری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور وہ خود سراپا قرآن ہیں۔ اس لئے قرآن حضور نبی اکرم ﷺ کے فرائض چہارگانہ میں سے تلاوت آیات کے فریضے کو یوں بیان کرتا ہے:
رَسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیَاتِ اللهِ۔
الطلاق، 65 : 11
(اور) ایک ایسا رسول (بھیجا ہے) جو تم پر اللہ کی آیات تلاوت کرتا ہے۔
باری تعالیٰ نے ان آیات کے ذریعے اس حقیقت کو واضح کردیا کہ قرآن حکیم کا جو بھی فیض ملتا ہے وہ رسول ﷺکی تلاوت سے ملتا ہے۔ تو قرآن سے تمسک اگر رسولﷺ کے واسطہ سے ہوگا تو فیض ملے گاورنہ گمراہی تمہارا مقدر بن جائے گی۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا وَّ یَهدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا۔
البقرۃ، 2 : 26
اللہ ایک ہی بات کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گمراہ ٹھہراتا ہے‘ اور بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے۔
عجب طرفہ صورت حال ہے کہ وہی قرآن سب کے پاس ہوگا‘ مگر کچھ لوگ اس سے گمراہی حاصل کریںگے۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا :
وَمَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللهِ فَقَدْ هُدِیَ إِلیٰ صِرٰطٍ مُّسْتَقِیْمٍO
آل عمران، 3 : 101
اور جو شخص اللہ (کے دامن) کو مضبوط پکڑ لیتا ہے تو اسے ضرور سیدھی راہ کی طرف ہدایت کی جاتی ہے۔
اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کا دامن کیا ہے؟
اللہ کا دامن رسول مقبولﷺ کی ذات با برکات ہے۔ قرآن کی زبان میں حضور علیہ السلام کی غلامی کا نام الإِعْتِصَامْ بِاللهِ ہے۔ اللہ کے محبوب کا دامن تھام لیا جائے تو یہی الإِعْتِصَامْ بِاللهِ ہے اور پھر جو اللہ کے محبوب ﷺ کی سیرت و اسوہ میں اپنی زندگی کو ڈھال لیتا ہے تو ہدایت اس کا مقدر بن جاتی ہے۔
یہ غزوہ احد کا واقعہ ہے کہ جب کچھ صحابہ کرام جن کی حضور ﷺنے ایک خاص جگہ (دَرَّہ ) پر ذمہ داری لگائی تھی اور مزید برآں تاکید فرمائی تھی کہ فتح ہو یا شکست تم نے ہرگز اپنی جگہ نہیں چھوڑنی لیکن ان میں سے کچھ حضرات نے مال غنیمت کے حصول کیلئے دَرَّہ کو چھوڑ دیا جس کے باعث کفار و مشرکینِ مکہ نے پیچھے سے پلٹ کر حملہ کردیا جس سے لشکر اسلام میں بھگڈر مچ گئی‘ انتشار پیدا ہوگیا اور بہت سے صحابہ کرام شہید ہوگئے۔ حضور علیہ السلام نے منتشر صحابہ رضی اللہ عنہ کو اپنی طرف بلایا‘ بعد ازاں وہ جم کر لڑے اور فتح پائی۔ پھر اگلے دن جب جنگ احد سے واپس پلٹے تو حضور علیہ السلام نے ایک اور معرکے کی دعوت دے دی ‘ زخموں سے چور چور اور نڈھال جسم صحابہ کرام دوبارہ جنگ کے لئے تیار ہوگئے۔ اس جانثاری پر اللہ تعالیٰ اور حضور نبی اکرمﷺ کو ان پر رحم آگیا۔ باری تعالیٰ نے چاہا کہ احد والے دن صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے جو خطائیں ہوئی تھیں مثلاً :
جن سے لشکر اسلام کو بہت نقصان ہوا حتی کہ خود سرور کائنات ﷺ کا چہرہ اقدس زخمی ہوگیا۔ اتنی بڑی ناقابل معافی خطا پر رحمت حق‘ ندائے مصطفےﷺپر پہلے معرکے سے فراغت کے فوری بعد دوسرے معرکے کیلئے تیار ہوجانے اور جذبۂِ جہاد سے سرشار ہوکر جانثاری کا مظاہرہ کرنے پر جوش میں آگئی اور صحابہ کرام کی اس عظیم جانثاری پر انہیں معاف کرنے کا ارادہ فرمالیا تو اپنے حبیب سے فرمایا :
فَاعْفُ عَنْھُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَھُمْ۔
آل عمران، 3 : 159
سو آپ ان سے درگزر فرمایا کریں اور ان کے لئے بخشش مانگا کریں۔
اس آیت کریمہ میں باری تعالیٰ کی طرف سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی مغفرت کی سفارش کی گئی ہے۔ گویا صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو معافی کا پروانہ اس وقت تک جاری نہیں ہوسکتا جب تک اس کے ساتھ حضور نبی اکرم ﷺ کے استغفار کا وسیلہ شامل نہ ہوجائے۔
یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ باری تعالیٰ اپنی شان جلالت کے مطابق معاف کرنے کا مالک ہے اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام اس باب میں اس کے ماذون بندے ہیں۔ مالک معاف فرمانا چاہتا ہے اور ماذون سے فرماتا ہے کہ میرے محبوب! میں تیرے صحابہ کو معاف فرمانا چاہتا ہوں‘ پہلے تو انہیں معاف کر اور مجھ سے ان کی معافی کی درخواست کر، تاکہ میں انہیں تیرے کہنے پر معاف کردوں۔ رب مالک ہو کر بھی اپنے اختیار خاص میں اپنے ماذون بندے کو کیسے اذن دے رہا ہے۔ اسی حقیقت کو اعلیٰ حضرت شاہ احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے یوں بیان کیا :
میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب
یعنی محبوب و محب میں نہیں تیرا میرا
اگر ’’تیرا میرا ‘‘ کا فرق ہوتا تو حضور نبی اکرمﷺ سے پوچھے بغیر ہی معاف فرما دیا جاتا۔ لیکن باری تعالیٰ معاف بھی فرمانا چاہتا ہے اور اپنے محبوب کی سفارش کے بغیر معاف بھی نہیں فرماتا۔ اس لئے کہ
بخدا خدا کا یہی ہے در، نہیں اور کوئی مفرّ مقرّ
جو وہاں سے ہو یہیں آکے ہو، جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں
حضور نبی اکرمﷺ کی ظاہری حیات مبارکہ میں توسُّل پر قرآن مجید کی یہ آیت کریمہ بڑی قوی دلیل ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَ لَوْ أَنَّھُمْ إِذْ ظَّلَمُوْا أَنْفُسَھُمْ جَآءوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ و َاسْتَغْفَرَ لَهُمْ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّاباً رَّحِیْماًo
النساء، 4 : 64
اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آ پ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول(ﷺ) بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بناء پر ) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں اہل ایمان کو یہ ہدایت عطا فرمائی ہے کہ جب بھی وہ کوئی گناہ کر بیٹھیں یا ان سے کوئی خطا سرزد ہوجائے تو اس کی بخشش کیلئے اگر وہ درِ مصطفے ﷺ پر حاضر ہوکر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کریں تو اللہ تعالی اپنے حبیبﷺ کے اس وسیلہ کی بناء پر ان کو معاف فرما دے گا۔ منشاء ایزدی بھی یہی ہے کہ خطاکار اہل ایمان اپنے گناہوں کو بخشوانے کیلئے درِ مصطفے ﷺپر حاضر ہوجائیں اوران کا دامن رحمت پکڑ کر ان کے توسُّل اور وسیلہ سے بارگاہ خداوندی میں التجا کریں۔ پھر جب رسولﷺ بھی ان کی شفاعت کریں گے تو یہ امر یقینی ہیکہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہ بخش دے گا۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ جس طرح حضورﷺ کی ظاہری حیات مبارکہ میں اس آیت کا اطلاق ہوتا تھا اسی طرح بعد از وصال بھی یہ جاری و ساری رہے گا۔ (اسی باب کی فصل سوم میں اس پر مزید روشنی ڈالی گئی ہے۔ )
آیات بینات کے علاوہ خود نبی اکرمﷺ کے ارشادات گرامی میں اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ آپﷺ سے آپ کی ظاہری حیات مبارکہ میں توسُّل کیا گیا بلکہ آپﷺ نے خود حکماً فرمایا۔ جیسا کہ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
أن رجلاً ضریر البصر أتی النبیﷺ، فقال : ادعُ اللہ لی أن یعافِیَنی۔ فقال : إن شئتَ أخرتُ لک و ھو خیر، و إن شئتَ دعوتُ۔ فقال : ادعُہ فأمرہ أن یتوضاء فیُحسنِ وضوئہ، و یُصلی رکعتین، و یدعو بھذا الدعاء : اللّٰھُمَّ! إِنِّی أَسَأَلُکَ وَ أَتَوَجَّہُ إِلَیْکَ بِمُحَمَّدٍ نَّبِیِّ الرَّحْمَۃِ، یَا مُحَمَّدُ! إِنِّی قَدْ تَوَجَّھْتُ بِکَ إِلٰی رَبِّی فِی حَاجَتِی ھٰذِہٖ لِتُقضٰی، اللّٰھُمَّ! فَشَفِّعْہُ فِیَّ۔
1۔ سنن ابن ماجہ : 100
2۔ جامع الترمذی،2 : 197
3۔ عمل الیوم والیلۃ للنسائی : 417،رقم : 9۔ 658
4۔ مسند احمد بن حنبل، 4 : 138
5۔ دلائل النبوۃ للبیہقی، 6 : 166
6۔ المستدرک للحاکم، 1 : 313،519
7۔ صحیح ابن خزیمۃ، 2 : 6۔ 225، رقم : 1219
8۔ شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام : 123
9۔ کتاب الأذکار للنووی : 83
10۔ اسد الغابۃ، 3 : 571
11۔ تحفۃ الاشراف، 7 : 236، رقم : 9760
12۔ البدایۃ والنھایۃ،4 : 558
13۔ الجوھر المنظم لابن حجر : 61
14۔ تحفۃ الذاکرین للشوکانی : 5۔ 194
کہ ایک نابینا شخص بارگاہ نبوی میں حاضر ہوا اور عرض گزار ہوا : (یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم!) اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے عافیت عطا فرمائے۔ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا : اگر تو چاہے تو میں اس کو موخر کرتا ہوں اور یہ تیرے لئے بہتر ہے اور اگرتو چاہے تو دعا کروں۔ اس نے عرض کیا : اس سے دعا فرما دیجئے۔ پس آپﷺنے اسے وضو کرنے کا حکم دیا کہ اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت نفل پڑھ‘ پھر یہ دعا کر : اے اللہ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں اور آپ کی طرف آپ کے نبی محمدﷺ نبیِ رحمت کے وسیلہ سے متوجہ ہوتا ہوں۔ اے محمد صلی اللہ علیک وسلم! میں آپ کے وسیلہ سے آپ کے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تاکہ وہ میری یہ حاجت پوری فرما دے۔ اے اللہ! آپ اپنے نبی کی شفاعت کو میرے حق میں قبول فرمائیں۔
ابن ماجہ اور حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے جبکہ امام ترمذی نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے۔ اسی طرح امام حاکم کی بیان کردہ ایک اور روایت کے الفاظ ذرا مختلف ہیں جس میں حضرت عثمان بن حنیف فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم ﷺکی خدمت میں حاضر تھا‘ ایک نابینا شخص آیا‘ اس نے اپنی بینائی ختم ہونے کی شکایت کی اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم !میری رہنمائی کرنے والا کوئی بھی نہیں اور میں سخت مشکل سے دوچار ہوں۔ اس کی بات سننے کے بعد حضور نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا :
إئت المیضاۃ فتوضأ، ثم صل رکعتین ثم قُل : اللّٰھُمَّ! إِنِّی أَسْئَلُکَ وَ أَتَوَجَّہُ إِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍﷺ نَّبِیِّ الرَّحْمَۃِ، یَا مُحَمَّدُ! إِنِّی أَتَوَجَّہُ بِکَ إِلٰی رَبِّکَ فَیُجَلِّیْ لِی عَنْ بَصَرِی۔ اللّٰھُمَّ! شَفِّعْہُ فِیَّ وَ شَفِّعْنِی فِی نَفْسِی۔ قال عثمان : فو اللہ! ما تفرقنا و لا طال بنا الحدیث حتی دخل الرجل و کأنہ لم یکن بہ ضر قط۔
المستدرک للحاکم،ا : 7۔ 526
علاوہ ازیں اس صحیح الاسناد حدیث پاک کو جن بڑے بڑے محدثین کرا م نے نقل کیا ہے، وہ مندرجہ ذیل ہیں :
1۔ اما م نسائی نے ’عمل الیوم واللیۃ‘میں،ص : 418، رقم : 660
2۔ امام بخاری نے ’التاریخ الکبیر‘میں، 6 : 10۔ 209
3۔ امام احمد بن حنبل نے ’مسند‘ میں، 4 : 138
4۔ امام بیہقی نے ’دلائل النبوۃ‘ میں، 6 : 7۔ 166
5۔ امام ابن السنی نے ’عمل الیوم والیلۃ‘ میں،ص : 202، رقم : 622
6۔ حافظ منذری نے ’الترغیب والترہیب‘ میں، 1 : 4۔ 473
7۔ علامہ سبکی نے ’شفاء السقام فی زیارۃ خیر الأنام‘ میں، ص : 4۔ 123
8۔ امام ابن کثیر نے ’البدایۃ والنھایۃ‘ میں، 4 : 559
9۔ امام سیوطی نے ’الخصائص الکبری‘ میں، 2 : 201
10۔ امام قسطلانی نے ’المواہب اللدنیہ‘ میں، 4 : 594
11۔ امام زرقانی نے’ شرح المواہب اللدنیہ(12 : 2۔ 221)‘میں روایت کیا ہے۔
(نوٹ : اسی موضوع سے متعلق ایک اور حدیث پر بحث اگلی (تیسری) فصل میں ملاحظہ کیجئے۔ )
وضو کے لیے لوٹا لاؤ‘ پھر وضو کرو اور دو رکعت نماز پڑھو ‘پھر کہو : اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف تیرے نبیِ رحمت محمدﷺ کے وسیلہ جلیلہ سے متوجہ ہوتا ہوں۔ اے محمد صلی اللہ علیک وسلم! میں آپ کے توسُّل سے آپ کے ر ب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں کہ وہ میری آنکھیں روشن کردے۔ اے اللہ! تو اپنے نبی کی شفاعت کو میرے بارے میں اور میری دعا کو بھی میرے حق میں قبول فرما۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بن حنیف فرماتے ہیں : اللہ کی قسم! ہم ابھی مجلس سے اٹھے ہی نہ تھے اور نہ ہی کوئی طویل گفتگو کی کہ وہ شخص (صحیح سلامت آنکھوں کے ساتھ) داخل ہوا، گویا اس کو کوئی اندھا پن تھا ہی نہیں۔
امام حاکم نے اسے امام بخاری کی شرائط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے‘ جبکہ امام ذہبی نے بھی ان کی توثیق کی ہے۔
شیخ محمود سعید ممدوح اپنی کتاب ’رفع المنارہ (ص : 123)‘ میں اس حدیث کی تخریج کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ھذا إسناد صحیح، و قد صححہ غیر واحد من الحفاظ ……فیہم الترمذی، و الطبرانی و ابن خزیمہ، و الحاکم و الذھبی۔
یہ تمام سندیں صحیح ہیں جن کو بہت سے حفاظ حدیث نے صحیح قرار دیا ہے …جن میں سے امام ترمذی‘ امام طبرانی‘ ابن خزیمہ‘ حاکم اور ذہبی بھی ہیں۔
اس حدیث مبارکہ سے واضح ہے کہ بندہ اللہ تبارک و تعالیٰ کو ہی اپنا حاجت روا سمجھ رہا ہے اور دستِ سوال بھی اسی کے آگے دراز کیا جا رہا ہے‘ کہ وہی ناممکن کو ممکن کرنے کی قدرت رکھتا ہے لیکن یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ دعا کے کلمات خود حضور نبی اکرمﷺ کی ذات اقدس نے سکھلائے جن میں سوال اور توجہ بارگاہ الہی کو بنبیکَ محمدٍ ﷺ نبی الرحمۃ ِکے توسُّل سے قبولیت سوال کو یقینی بنانے کیلئے مزین کیا جارہا ہے۔ توسُّل میں فقط آپﷺ کی ذات اقدس کو ہی وسیلہ نہیں بنایا گیا بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی آپ ﷺ کو عطا کردہ شان رحمت للعالمینی کو بھی وسیلہ بنایا گیا ہے۔ گویا سائل یوں کہہ رہا ہے : باری تعالیٰ! میں تجھے تیرے سب سے زیادہ پیارے نبی حضرت محمد مصطفےﷺ کی شان رحمت للعالمینی کا واسطہ دے کر تجھ ہی سے مانگتا ہوں کہ میری ختم ہوجانے والی بینائی کو لوٹا دے اور میری آنکھوں کی ختم ہوجانے والی روشنی کو دوبارہ بحال کردے۔
دعا چونکہ وسیلہ مصطفےﷺ سے مانگی گئی تھی‘ اس لیے رب کی رحمت کو یہ گوارا نہ ہوا کہ کوئی میرے نبی رحمتﷺ کا وسیلہ دے کر مجھ سے مانگے اور اس کی دعا قبول نہ ہو‘ حتی کہ دعا کی قبولیت کیلئے زیادہ وقت اور عرصہ بھی صرف نہ ہوا اور نہ ہی عالم اسباب حائل ہوا۔ یہ توسُّل مصطفےﷺ کی برکت تھی جس نے بینائی کو اس طرح فی الفور بحال کردیاجیسے وہ گئی ہی نہیں تھی۔
حضور نبی اکرمﷺ کے ظاہری حیات مبارکہ میں جب بھی بارش رکتی اور قحط کے آثار پیدا ہوتے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بارگاہ نبویﷺ میں حاضر ہوکر بارگاہ خداوندی سے دعا کی التجا کرتے حالانکہ وہ خود بھی دعا کرسکتے تھے۔ اس بات میں تو شک کی گنجائش نہیں کہ وہ ہم سے زیادہ دین کا فہم رکھنے والے تھے مگر وہ جانتے تھے کہ اللہ کے خاص اور عام بندوں میں فرق ہوتا ہے۔ عام بندے کی دعا ردّ بھی کی جاسکتی ہے لیکن جو بندہ اس کا مقرب بن جائے اور وہ اسے محبو ب رکھے تو ایسے بندے کی دعا کو فوری شرف قبولیت سے نوازا جاتا ہے۔ حضور نبی اکرمﷺ کی بارگاہ اقدس میں آ کر صحابہ کرام کا ان کے وسیلہ سے دعائیں کرنے میں یہی راز تھا کہ لوگ عبد اور عبدہٗ کے فرق کو سمجھیں اور اللہ کے مقبول بندوں کے مقام و مرتبے سے آگاہ ہوں۔ چنانچہ جب بھی بارش رکتی اور قحط کا اندیشہ ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سید ھے بارگاہ مصطفویﷺ میں حاضر ہوجاتے اور رحمتِ خداوند کا نظارہ اپنی آنکھوں سے کرتے جب ان کی دعا کے وسیلہ سے فوری بارش ہوجاتی۔ کتب احادیث میں ایسے ایمان افروز واقعات کا تذکرہ بکثرت ملتا ہے۔ یہاں ہم ان میں سے بعض کو نقل کرتے ہیں تاکہ یہ حقیقت واضح ہوجائے کہ آپﷺ کے وسیلہ سے رحمتِ خداوند جوش میں آجاتی ہے اور مجبور و محتاج لوگوں پر لطف و عنایات کا ساماں پیدا ہوجاتا۔
جب حضورﷺ ابھی بچے تھے تو اس دور میں زبردست قحط اور خشک سالی نے عوام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا‘ لوگ پانی کی ایک ایک بوند کو ترس گئے اور ان کیلئے آسمان کو حسرت بھری نظروں کے ساتھ دیکھنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ بھوک سے ان کے جسم نڈھال ہو گئے‘ آہیں اور حسرتیں آنسوؤں میں ڈھل گئیں‘ مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا اورآسمان پر ایک بدلی بھی نمودار نہ ہوئی۔ آخر حضرت ابوطالب کو حضور نبی کریمﷺ کے وسیلے سے بارش مانگنے کی کارگر تدبیر سوجھی‘ چنانچہ حضرت ابوطالب کی قیادت و معیت میں تمام لوگ ایک میدان میں جمع ہوگئے۔ انہوں نے حضورﷺ کو اپنے بازوؤں میں لے لیا اور آسمان کی طرف اٹھا کر کہا : ’’ اے پروردگار! اس حسین بچے کے طفیل ہم کو بارش عطا فرما‘ ہم اس کا وسیلہ تیرے دربار میں پیش کرتے ہیں۔ ‘‘ آپ نے تین بار اسی طرح کہا اور وہ آسمان جو آگ برسانے کا منظر پیش کر رہا تھا، اچانک ابر آلود ہوگیا۔ ہر طرف گھنگھور گھٹائیں چھاگئیں اور مینہ برسنا شروع ہوگیا ‘ اتنی زبردست اور موسلا دھار بارش ہوئی کہ چھتوں کے پر نالے منہ زور نالوں کی طرح بہنے لگے۔
1۔ تاریخ ابن عساکربحوالہ المواہب اللدنیۃ، 4 : 3۔ 272
2۔ الروض الانف للسھیلی،1 : 179
3۔ شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ،11 : 4۔ 143
اس واقعہ سے تقریباً پینتالیس سال بعد جب خاندان بنی ہاشم کو شعب ابی طالب میں نظر بند کیا گیا تو اس وقت حضرت ابو طالب نے ایک زوردار قصیدہ لکھا‘ جس میں اس واقعہ کی طرف بھی اشارہ کیا اور اہل مکہ کو آگاہ کیا کہ ایسی بابرکت ہستی کو وہ تمہارے سپرد نہیں کریں گے بلکہ ان کے دفاع میں اپنی جان‘ اولاد اور ہر چیز قربان کردیں گے۔ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم اپنی یہ متاع بے بہا ان کے سپرد کردیں گے وہ سخت غلطی پر ہیں۔ اس ایمان افروز قصیدہ کا ایک شعر یہ ہے :
و أبیضُ یُسْتَسقَی الغمامُ بوجھِہِ
ثِمالُ الیَتَامیٰ عِصمۃٌ لِلأرامِلِ
(وہ روشن چہرے والے کہ جن کے چہرہ انور کے وسیلے سے بارش طلب کی جاتی ہے جو یتیموں کے ملجا اور بیواؤں کے فریاد رس ہیں۔ )
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں:
مجھے بارہا ابوطالب کا یہی شعر یاد آجاتا تھا جب میں نبی کریمﷺ کا چہرہ دیکھتا تھا اور آپ ﷺ بارش کی دعا میں مصروف ہوتے تھے۔ ابھی منبر شریف سے اترتے بھی نہ تھے کہ پرنالے بہنا شروع ہوجاتے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد سے پتہ چلتا ہے طلب باراں کیلئے اکثر آپﷺ کے توسُّل سے التجائیں کی جاتی تھیں اور آپ ﷺکی دعا کے وسیلہ سے نزول باراں ہوجاتا۔ بخاری شریف میں اس روایت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:
عن عبد اللهِ بن دینارٍ، عن أبیہ قال : سمعتُ ابنَ عمرَ یَتمثَّلُ بشعر أبی طالب :
’و أبیضُ یُسْتَسقَی الغمامُ بوجھِہ ِثِمالُ الیَتَامٰی عِصمۃٌ لِلأرامِلِ‘
و قال عُمَرُ بُن حمزۃَ : حدثنا سالِمٌ عن أبیہ : و ربما ذَکرتُ قول الشاعِرِ، وأنا أنظُر إلی وجہِ النبیِّ ﷺ یُستَسقی، فما ینزِلُ حتی یجیشَ کلُّ میزابٍ : ’و أبیضُ یُسْتَسقَی الغمامُ بوجھِہِ ثِمالُ الیتَامٰی عِصمۃٌ لِلأرامِلِ‘
1۔ صحیح البخاری، 1 : 137
2۔ سنن ابن ماجہ، 1 : 2۔ 91
3۔ مسند احمد بن حنبل، 2 : 93
4۔ دلائل النبوۃ للبیہقی، 6 : 3۔ 142
5۔ السنن الکبریٰ للبیہقی، 3 : 352
البدایۃ والنہایۃ، 4 : 2۔ 471
تحفۃ الاشراف، 5 : 359، رقم : 6775
عمدۃ القاری، 7 : 31۔ 29
فتح الباری، 2 : 494
حضرت عبداللہ بن دینار نے اپنے والد سے روایت کی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنھما سے سنا کہ وہ ابوطالب کا شعر پڑھتے تھے کہ ’’وہ روشن چہرے والے کہ جن کے چہرہ انور کے وسیلے سے بارش طلب کی جاتی ہے‘ جو یتیموں کے فریاد رس اور بیواؤں کے غمخوار ہیں۔ ‘‘ عمر بن حمزہ نے کہا : ہمیں سالم نے اپنے والد (عبداللہ بن عمر) سے خبر دی کہ میں شاعر کا یہ شعر کبھی یاد کرتا اور میں نبی کریمﷺ کے چہرہ انور کو دیکھتا جبکہ آپﷺ بارش کیلئے دعا فرماتے‘ آپ ابھی منبر سے نہ اترتے کہ پر نالے زور سے بہنے لگتے : ’’وہ روشن چہرے والے کہ جن کے چہرہ انور کے وسیلے سے بارش طلب کی جاتی ہے ‘ جو یتیموں کے فریاد رس اور بیواؤں کے غمخوار ہیں۔ ‘‘
اس ضمن میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مختلف روایات منقول ہیں، جن میں سے چند ایک ذیل میں درج ہیں :
1۔ بینما رسولُ اللهِ ﷺ یَخطبُ یومَ الجمعِۃ، إذ جاء رجلٌ فقالَ : یا رسول اللہ! قَحَطَ المطرُ، فادعُ اللهَ أن یسقِیَنَا۔ فدعا، فمُطَرنا۔ فما کِدْنا أن نَصِلَ إلی منازِلنِا، فما زِلْنا نُمطَرُ إلی الجمعۃِ المُقبِلۃِ۔ قال : فقام ذالک الرجلُ أو غیرُہُ، فقال : یا رسول اللہ! ادع اللہَ أن یَصرفہ عنا۔ فقال رسول اللہﷺ : اللھم! حوالَینا و لا علینا۔ قال : فلقد رأیتُ السحابَ یتقَطَّعُ یمینًا و شمالاً، یُمطَرون و لا یُمطَرُ أھلُ المدینۃِ۔
1۔ صحیح البخاری، 1 : 138
2۔ صحیح مسلم، 1 : 4۔ 293
3۔ دلائل النبوۃ للبیہقی، 6 : 140
4۔ البدایۃ والنہایۃ، 4 : 3۔ 472
5۔ فتح الباری، 2 : 508
ایک دفعہ حضور ﷺ ہمارے درمیان جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اچانک ایک شخص آگیا اور عرض کی : یا رسول اللہﷺ!بارش رک گئی ہے‘ آپﷺ دعا فرمائیںکہ اللہ تعالیٰ ہمیں بارش سے سیراب فرمائے۔ چنانچہ آپﷺ نے دعا فرمائی تو بارش کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ہم اپنے گھروں کو بڑی مشکل سے واپس ہوئے یہاں تک کہ دوسرے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ پھر وہی آدمی یا کوئی اور کھڑا ہوا اور عرض کی : یا رسول اللہ! دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس بارش کو کسی اور جگہ بھیج دے۔ چنانچہ حضور ﷺ نے دعاکی : یا اللہ تعالیٰ ! ہم پر نہیں‘ بلکہ ہمارے اردگرد علاقوں پر (بارش) نازل فرما۔ حضرت انس نے کہا : میں نے دیکھا کہ فورا بادل دائیں بائیں چھٹ گیا‘ مدینہ منورہ کے سوا گرد و پیش پر برابر بارش ہوتی رہی۔
2۔ أن رجلا دخل المسجد یوم جمعۃ، من باب کان نحو دار القضاء، و رسول اللہ ﷺ قائم یخطب، فاستقبل رسول اللہ ﷺ قائما، ثم قال : یا رسول اللہ! ھلکتِ الأموال، و انقطعت السبل، فادع اللہ یغیثنا، فرفع رسول اللہ ﷺ یدیہ، ثم قال : اللھم أغثنا، اللھم أغثنا، اللھم أغثنا۔ قال أنس : ولا واللہ، ما نری فی السماء من سحاب، ولا قزعۃ، و ما بیننا و بین سلع من بیت ولا دار۔ قال : فطلعت من ورائہ سحابۃ مثل الترس، فلما توسطت السماء انتشرت، ثم أمطرت، فلا واللہ، ما رأینا الشمس ستا، ثم دخل رجل من ذلک الباب فی الجمعۃ… یعنی الثانیۃ … و رسول اللہ قائم یخطب، فاستقبلہ قائما، فقال : یا رسول اللہ! ھلکتِ الأموال، و انقطعت السبل، فادع اللہ یمسکھا عنا، قال : فرفع رسول اللہﷺ یدیہ، ثم قال : اللھم! حوا لینا و لا علینا، اللھم! علی الآکام و الظراب، و بطون الأدویۃ و منابت الشجر۔ قال : فأقلعت، و خرجنا نمشی فی الشمس۔ قال شریک : فسألت أنس بن مالک : أھو الرجل الأول؟ فقال : ما أدری۔
1۔ صحیح البخاری، 1 : 1۔ 140، 139، 8۔ 137، 127، 138
2۔ الصحیح لمسلم، 1 : 4۔ 293
3۔ سنن النسائی، 1 : 225، 224
4۔ سنن ابن ماجہ : 91
5۔ موطا امام مالک : 179
6۔ مسند احمد بن حنبل، 3 : 256
7۔ صحیح ابن حبان، 3 : 3۔ 272، رقم : 992
8۔ مسند ابی یعلی، 5 : 416، رقم : 3104
9۔ صحیح ابن خزیمہ، 3 : 147، 144، رقمَ 1792، 1788
10۔ السنن الکبری للبیہقی، 3 : 5۔ 354
11۔ دلائل النبوۃ للبیہقی، 6 : 40۔ 139
12۔ شرح السنۃ للبغوی، 4 : 5۔ 412، رقم : 7۔ 1166
13۔ نصب الرایۃ للزیلعی، 2 : 9۔ 238
14۔ البدایۃ والنھایۃ، 4 : 472
کہ ایک شخص جمعہ کے دن اس دروازے سے مسجد کے اندر داخل ہوا جو منبر شریف کے سامنے ہے اور رسول اللہﷺ کھڑے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ پس وہ شخص آپﷺ کے سامنے کھڑا ہوگیا، پھر اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ! مویشی ہلاک اور راستے منقطع ہو گئے ہیں، پس اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ہم پر بارش برسائے۔ (حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ) اللہ کے رسولﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ بلند فرمائے اور (بارگاہِ الٰہی میں) عرض گزار ہوئے : اے اللہ! ہم پر بارش برسا، اے اللہ! ہم پر بارش برسا، اے اللہ! ہم پر بارش برسا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ کی قسم! ہم آسمان پر نہ تو بادل، نہ بادل کا کوئی ٹکڑا دیکھتے تھے اور نہ ہمارے اور سلع (پہاڑ) کے درمیان کوئی گھر یا مکان تھا۔ پھر سلع (پہاڑ) کے پیچھے سے کوئی ڈھال کے برابر بدلی کاایک ٹکڑا نمو دار ہوا۔ پس جب وہ آسمان کے درمیان آیا تو پھیل گیا، پھر بارش ہوئی، خدا کی قسم! ہم نے چھ دن تک آسمان پر سورج نہ دیکھا۔ پھراگلے جمعہ ایک شحص اسی دروازے سے داخل ہوا جبکہ اللہ کے رسولﷺ کھڑے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ وہ آپﷺ کے سامنے کھڑا ہوگیا اور اس نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! مویشی ہلاک اور راستے منطق ہوگئے ہیں۔ پس اللہ تعالی سے دعا کیجئے کہ وہ ہمارے اوپر بارش روک دے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پھر رسول اللہﷺ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور (بارگاہِ الہی) میں عرض گزار ہوئے : اے اللہ! (بارش) ہمارے ارد گرد ہو، ہم پر نہ ہو۔ اے اللہ! پہاڑوں، ٹیلوں اور وادیوں اور درختوں کے اگنے کے مقامات پر (بارش) ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بارش منقطع ہوگئی اور ہم (مسجد سے) باہرنکلے جبکہ ہم دھوپ میں چل رہے تھے۔ شریک نے کہا : میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا وہ شخص پہلے والا ہی تھا؟ انہوں نے کہا : میں نہیں جانتا۔
3۔ أصاب أھل المدینۃ قحط علی عھد رسول اللہ ﷺ، فبینما ھو یخطب یوم الجمۃ، إذ قام رجل فقال : یا رسول اللہ! ھلکت الکراع، ھلکتِ الشاء، فادع اللہ یسقینا۔ فمد یدیہ و دعا، قال أنس : و إن السماء لمثل الزجاجۃ فھاجت ریح أنشأت سحابا، ثم اجتمع، ثم أرسلت السماء عزالیھا، فخرجنا نخوض الماء حتی أتینا منازلنا، فلم نزل نمطر إلی الجمعۃ الأخری، فقام إلیہ ذلک الرجل أو غیرہ، فقال : یا رسول اللہ! تھدمت البیوت، فادع اللہ یحسبہ، فتبسم ثم قال : حوا لینا و لا علینا۔ فنظرت إلی السحاب تصدع حول المدینۃ کأنہ اکلیل۔ و فی روایۃ أخری، قال أنس : یریھم اللہ کرامۃ نبیہ و إجابۃ دعوتہ۔
1۔ صحیح البخاری، 1 : 139، 127، 506
2۔ صحیح البخاری، 2 : 939، 900
3۔ الصحیح لمسلم، 1 : 294
4۔ سنن النسائی، 1 : 227، 225
5۔ سنن ابوداؤد، 1 : 173
6۔ مسند احمد بن حنبل، 3 : 271
7۔ مسند ابی یعلی، 6 : 82، رقم 3334
8۔ البدایۃ و النھایۃ، 4 : 474
9۔ دلائل النبوۃ للبیہقی، 6 : 140
10۔ صحیح ابن خزیمہ، 3 : 6۔ 145، رقم : 1789
11۔ السنن الکبری للبیقہی، 3 : 357،356،4۔ 353
12۔ شرح السنۃ للبغوی، 4 : 6۔ 415، رقم : 1168
ایک مرتبہ عہد رسالت مآب میں مدینہ میں قحط پڑا۔ حضورﷺ جمعہ کے روز ہمارے درمیان خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا : اے اللہ کے رسول! گھوڑے اور بکریاں ہلاک ہو گئی ہیں، پس اللہ تعالی سے دعا کیجئے کہ وہ ہم پر بارش برسائے۔ حضور رحمۃ للعالمینﷺ نے اپنے دستِ اقدس اٹھائے اور دعا فرمائی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (اس وقت) آسمان شیشے کی طرح (صاف) تھا، (لیکن حضور پر نورﷺ کی دعا مبارک سے) فوراً ہوا چلی اور بادل آگئے، پھر گھنے ہوگئے اور پھر آسمان نے اپنے دہانے کھول دیئے(یعنی موسلا دھار بارش شروع ہوگئی)۔ ہم وہاں سے نکلے اور (بارش میں بھیگتے اور ) پانی میں ڈوبتے ہوئے اپنے گھروں تک پہنچے۔ دوسرے جمعہ تک بارش نہ ٹھہری تواس روز وہی یا کوئی اور شخص کھڑا ہوا اور عرض کی : یا رسول اللہ! مکانات منہدم ہوگئے ہیں، پس اللہ تعالی سے دعا کیجئے کہ یہ سلسلہ رک جائے۔ آپﷺ مسکرا دیئے، پھر (بارگاہِ الہی میں) دعا کی : (بارش) ہمارے اردگرد ہو، ہم پر نہ ہو۔ پس میں نے دیکھا کہ بادل مدینہ کے ارد گرد چھٹ گئے (اور مدینۃ المنورہ ایسے ہوگیا کہ) گویا مدینہ کے اوپر کا آسمان تاج ہے۔ ایک اور روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: اللہ تعالی لوگوں کو اپنے نبیﷺ کی کرامت اور ان کی دعاؤں کی قبولیت دکھاتا ہے۔
یہ بعثت کے بعد کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ قحط پڑا۔ ایک روز ایک دیہاتی روتا پیٹتا حضور رحمت مجسم‘ مشکل کشا آقاﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور اس نے لوگوں کی تکالیف و مصائب اور خشک سالی کی حشر سامانیوں اور تباہ کاریوں کا نقشہ جس موثر پیرائے میں بصورت اشعار کھینچا ‘وہ اس طرح ہے :
’’یا رسول اللہ!جن حالات میں ہم آپ کے پا س طلب دعا و مناجات کیلئے آئے ہیں وہ کچھ اس قسم کے ہیں کہ افلاس کے باعث جواں لڑکیاں کام کرنے پر مجبور ہوگئی ہیں اور محنت و مشقت کی وجہ سے ان کے سینے لہولہان ہوگئے ہیں اور صورت حال کی سنگینی نے لوگوں کو اس حد تک خود غرض بنادیا ہے کہ ماں جیسی شفیق ہستی بھی اپنے بچے سے غافل ہوگئی ہے۔ اور بھوک کی ناتوانی نے بچے کو اس حد تک نڈھال کردیا ہے کہ بے حس و حرکت گرا پڑا ہے اور اس کے منہ سے کوئی تلخ یا شیریں بات نہیں نکل رہی ہے۔ لوگ جو کچھ کھاتے ہیں اس میں سے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے اور اگر کچھ ہے تو وہ آفت رسیدہ خراب تمر ہے یا پھر خود رو بے کار گھاس۔
و لیس لنا إلا إلیک فرارنا
و أین فرار الناس إلا إلی الرسل
(آقا! ہماری بھاگ دوڑ تو صرف آپ ﷺ تک ہے اور لوگوں کی بھاگ دوڑ رسولوں کے سوا اور کہاں تک ہوسکتی ہے۔ )
’’حضور نبی کریم ﷺیہ فریاد سن کر بے قرار ہوگئے اور چادر گھسیٹتے ہوئے منبر شریف پر جلوہ فرما ہوئے اور بارگاہ خداوندی میں دست دعا پھیلا دیئے:
’’یا اللہ! تو بڑا ہی غفو ررحیم ہے۔ موسلا دھار اور لگاتار برسنے والا نفع رساں سحاب کرم بھیج جو مردہ ڈھانچوں میں زندگی کی روح ڈال دے‘ پستانوں کو دودھ سے بھر دے اور زمین کو تازگی بخش دے۔ ‘‘
’’ابھی نبی رحمت ﷺ نے اپنے رخ انور پر ہاتھ بھی نہیں پھیرے تھے کہ بادلوں کے پرّے ہر طرف چھاگئے‘ ابر کرم کے پہاڑوں نے آفاق کو ڈھانپ لیا اور اس طرح برسنا شروع کردیا جیسے برساتی نالوں کے کشادہ دہانے کھول دیئے گئے ہوں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف جل تھل ہوگیا اور ہر چیز پانی میں نہاگئی۔ بارش کا تسلسل قائم رہا تاآنکہ گرد وپیش کے لوگ بھاگم بھاگ آئے اور عرض کی : یا رسول اللہ! کثرت باراں کے باعث ہر چیز غرق ہونے کے قریب ہوگئی ہے‘ جلدی سے دعا کیجئے کہ بارش رک جائے وگرنہ پانی سب کچھ بہالے جائے گا۔ پانی سے محروم لوگ اس بارگاہِ کرم سے اس طرح سیراب ہوئے کہ اپنی وادیوں اور نہروں کی تنگ دامانی کی شکایت کرنے لگے۔ حضورﷺ دعا کی فوری قبولیت ‘ بارش کے نزول اور اس کی کثرت اور اپنے غلاموں کے متضاد ردعمل کا یہ عجیب منظر دیکھ کر اتنا مسرور ہوئے کہ جا نفزا مسکراہٹ سے فضاؤں میں انوار اور نغمے بکھر گئے‘ ہر شے پر بہارآگئی۔ آپﷺ نے اس خوشی کے عالم میں فرمایا:
للہ درّ أبی طالب، لو کان حاضرا لقرت عیناہ، من ینشدنا شعرہ؟
ابو طالب کا بھلا ہو اگر وہ یہاں ہوتے تو یہ منظر دیکھ کر ان کی آنکھیں ضرور ٹھنڈی ہوتیں ‘ہمیں ان کا شعر کون سنائے گا؟
حضرت علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ اپنے محبوب نبی ﷺ کی زبان مبارک سے یہ سن کر جھوم اٹھے اور عرض کی : شاید آپ یہ شعرسننا پسند فرما رہے ہیں :
و أبیض یستسقی الغمام بوجھہ
ثمال الیتامی عِصمۃٌ للأرامل
(وہ روشن چہرے والے کہ جن کے چہر ہ انور کے وسیلے سے بارش طلب کی جاتی ہے جو یتیموں کے ملجا اور بیواؤں کے فریاد رس ہیں۔ )
اتنے میں بنی کنانہ کا ایک شاعر کھڑا ہوگیا اور اس نے اپنا نذرانہ عقیدت اشعار کی صورت میں یوں پیش کیا : ’’اے اللہ! ہم تیری حمد بیان کرتے ہیں اور یہ حمد شکر گزار بندوں کی طرف سے ہے کیونکہ ہمیں نبی کریمﷺ کے رخ پر نور کے وسیلہ سے بارش عطا کی گئی ہے۔ انہوں نے اپنے خالق و مالک اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی اور ساتھ ہی نگاہ اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا ‘ایک ساعت نہ گزری تھی کہ ہم نے اس سے بھی پہلے بارش کے موتی دیکھ لیے۔ جس طرح ان کے چچا ابو طالب نے کہا ہے‘ وہ ویسے ہی خوبصورت اور درخشاں ہیں۔ پس جو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے وہ برکت دیکھتا ہے۔ اور جو ناشکری اور بے قدری کرتا ہے وہ ردّی چیز پاتا ہے۔ ‘‘
حضور ﷺ اس کے ان صادق جذبات کے اظہار سے بہت خوش ہوئے اور فرمایا:
إن یکن شاعرٌ أحسن، فقد أحسنتَ۔
1۔ عمدۃ القاری، 7 : 31
2۔ فتح الباری، 2 : 495
3۔ دلائل النبوۃ للبیہقی،6 : 2۔ 141
4۔ شفا ء السقام : 8۔ 126
5۔ البدایۃ والنہایۃ، 4 : 6۔ 475
6۔ سیرت ابن ہشام، 1 : 1۔ 280
7۔ المواہب اللدنیۃ، 4 : 271
8۔ شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ، 11 : 41۔ 139
اگر شاعر بھی اچھی بات کر سکتے ہیں تو تُو نے بہت اچھی بات کہی ہے۔
اسی طرح ایک اور واقعہ کتب سیر و تاریخ میں درج ہے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ حضور سرور کائنات ﷺ جب غزوہ تبوک سے فارغ ہوکر واپس تشریف لائے تو نبی فزارہ کے خستہ حال لوگ بارگاہ نبوی میں آئے اور اپنی پسماندگی ‘غربت اور عدم بارش کی وجہ سے معاشی تباہ حالی کی شکایت کی۔ آپ ﷺ نے ان پر ترس کیا اور بارگاہ خداوندی میں بارش کے لئے دعا کی جس کے نتیجے میں زور دار بارش ہوئی اور آٹھ روز مسلسل ہوتی رہی۔ اگلے جمعہ کو پھر کسی نے بارش کے تھم جانے کی درخواست کی تو آپﷺ نے دعا کی : یا اللہ!ہمارے گرد و پیش ہو مگر ہم پر نہ ہو۔ اور اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی کیا۔
1۔ دلائل النبوۃ للبیہقی، 6 : 4۔ 143
2۔ البدایۃ والنہایۃ، 4 : 7۔ 476
3۔ المواہب اللدنیۃ،4 : 70۔ 269
4۔ شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ، 11 : 8۔ 133
گزشتہ صفحات میں ہم نے حضور نبی کریم ﷺ سے آپﷺ کی ظاہری حیات طیبہ میں وسیلہ بنانے کے حوالے سے قرآن و حدیث کی روشنی میں اس بات پر تفصیلی روشنی ڈالی کہ آپ ﷺ سے ظاہری حیات مبارکہ میں توسُّل کیا گیا۔ اور نہ صرف کسی ایک خاص معاملے میں بلکہ جملہ دینی اور دنیوی امور میں صحابہ کرام آپﷺ کے وسیلہ سے بارگاہ خداوندی میں دعا کرتے۔ ہماری ذکر کردہ روایات سے ثابت ہوا کہ بیماری‘ دکھ ‘ تکلیف ‘ ایمان واسلام‘گناہوں کی بخشش‘ اجتماعی طور پر لوگوں کی معاشی بدحالی و ابتری سے نجات‘ الغرض تمام دینی و دنیوی حاجات میں آپﷺ سے توسُّل کیا گیا اور آپﷺ نے بھی لوگوں کے لئے بارگاہ خداوند کریم میں دعائیں کیں۔ کبھی یہ نہیں فرمایا کہ ہماری بارگاہ میں حاضر ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے،اس لئے اپنے گھروں میں رہ کر اس سے مانگا کرو بلکہ آپ ﷺنے آنے والوں کو کہا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے صحیح جگہ پہنچنے کی ہدایت و رہنمائی فرمائی ہے اور آپ کی مراد پوری ہوجائے گی۔ تو معلوم ہوا کہ انبیاء و رسل سے توسُّل جائز اور پسندیدہ عمل ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved