اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی حضرت محمدﷺ کی امت پر بے پایاں لطف و کرم اور نوازشات فرمائی ہیں۔ من جملہ اکرام و نوازشات میں سے ایک یہ ہے کہ ایمان لانے کے بعد یہ امت دوبارہ کفر و شرک کی مر تکب نہیں ہوگی۔ سابقہ امم میں ایسا بار ہا ہوتا رہا کہ کسی نبی کی امت ایمان لائی مگر اس برگزیدہ نبی کے اس ظاہری دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد وہ طرح طرح کے خرافات میں مبتلا ہوتی چلی گئی، حتی کہ شرک کے اندھیروں میں راہ ِ حق سے دور ہو گئی، لیکن امتِ مصطفوی کے باب میں اللہ کے نبیﷺ نے اپنی زبان اقدس سے اپنی ظاہری حیات مبارکہ کے آخری ایام میں اس چیز کا اعلان فرمایا تھا کہ اب مجھے اس کے شرک میں مبتلا ہونے کا ڈر نہیں رہا۔ اب ہم مسلمانوں کو چاہئے کہ اس بات پر غور کریں کہ وہ نبی ﷺ جو شرک و بدعات کا قلع قمع کرنے کیلئے تشریف لائے جن کے وسیلے سے ہمیں راہِ ہدایت نصیب ہوئی وہ تو یہ فرمارہے ہیں کہ مجھے اپنی امت کے دوبارہ شرک کی طرف پلٹ جانے کا اندیشہ نہیں رہا۔ ایک ہم ہیں محض مسلکی تعصب اور عناد کی بناء پر اپنی جھوٹی انا کی تسکین کے لئے ایک دوسرے پر مشرک ہونے کا فتویٰ لگاتے چلے جا رہے ہیں، اس سے بڑھ کر بدبختی کوئی نہیں۔ حضور نبی اکرمﷺ کی حدیث مبارکہ کے یہ الفاظ ہمیں دعوتِ غور و فکر دے رہے ہیں :
عن عقبہ بن عامرٍ : أن النبَّیﷺ خرج یوماً فصلی علی اھل أُحُدٍ صلاتَہ علی المیت، ثم انصَرَفَ إلی المنبرِ فقال : إنی فَرَطٌ لکم، و أنا شھیدٌ علیکم، و إنی و اللہ لأنظُرُ إلی حوضی الآن، و اِنی أُعطیتُ مفاتیح خزائنِ الارض، أو مفاتیح الأرض، و إنی و اللہ ما أخافُ علیکم أن تُشرِکُوا بعدی، ولکن أخاف علیکم أن تَنَافَسوا فیھا۔
1۔صحیح البخاری، 1 : 508، 179
2۔ صحیح البخاری، 2 : 975،951،585
3۔ صحیح مسلم، 2 : 250
4۔مسند احمد بن حنبل، 4 : 4۔153، 149
5۔المعجم الکبیر،17 : 80۔278،رقم : 70۔767
6۔شرح السنۃ للبغوی،14 : 41۔39، رقم : 3۔3822
7۔السنن الکبری للبیہقی،4 : 14
8۔کنز العمال، 14 : 416،رقم : 39122
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ ایک دن (احد) تشریف لے گئے اور احد والوں کے لئے نماز پڑھی جس طرح (عام) مرُدوں پر پڑھی جاتی ہے۔ پھر منبرکی طرف لوٹ آئے اور فرمایا : میں تمہارا پیش رو ہوں، اور میں تم پر گواہ ہوں اورمیں اپنے حوضِ (کوثر) کو اس وقت دیکھ رہا ہوں، مجھے زمین کے خزانوں (یا زمین) کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ اور اللہ کی قسم! مجھے اس بات کا ڈر نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگوگے لیکن مجھے تمہارے حصولِ دنیا میں ایک دوسرے سے مقابلہ کا اندیشہ ہے۔
یہ نبی کریمﷺ کا فرمان اقدس ہے۔ آپﷺ نے تو اپنی امت کے بارے میں ذاتِ خداوندِ قدوس کی قسم کھا کر فرمایا کہ میں اپنی امت کے بارے میں شرک میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہیں رکھتا۔ دوسری طرف قابلِ افسوس مقام یہ ہے کہ ہم میں سے جو لوگ بلاوجہ ایک دوسرے پر شرک کے فتوے صادر کر رہے ہیں، وہ پیارے نبی ﷺ کی اس صحیح حدیث کی طرف کیوں توجہ نہیں دیتے؟ اس حدیث کو امام بخاری، امام مسلم اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے۔ اتنے بڑے ائمہ حدیث کا اس روایت کو بار بار ذکر کرنے کے باوجود ہمارا رویہ اس کے خلاف ہونا دین کی حقیقی روح سے ناآشنائی کے سوا اور کچھ نہیں۔
توسّل جو نص صریح اور احادیث صحیحہ متواترہ سے ثابت شدہ مسئلہ ہے اور شروع سے تا امروز صحیح العقیدہ مسلمانوں کی اکثریت اس پر عمل کرتی آرہی ہے اس کو بھی بدقسمتی سے متنازعہ بنا کر موضوعِ مناظرہ و مجادلہ بنادیا گیا اور نتیجتاً اس کے جواز کے ماننے اور نہ ماننے والے بے دریغ ایک دوسرے پر شرک و کفر کا الزام لگا رہے ہیں۔اگر ہم محبوب کبریا رؤوف و رحیم نبیﷺ کے ارشاد عالیہ پر غور کریں تو خود بخود ہم پر یہ حقیقت آشکار ہوجائے گی کہ قرآن و حدیث میں جس طرح توسُّل اور وسیلے کو جائز قرار دیا گیا اس کے باوجود اس کو ناجائز کہنا اور اس کے عدم جواز پر دلیلیں پیش کرنا ہرگز دین و ایمان کا تقاضا نہیں۔ حضور نبی کریمﷺ کے سینکڑوں ارشادات عالیہ اس بات کے شاہد عادل ہیں کہ قرب الٰہی کے لئے وسیلہ پکڑنا اور اس کے متلاشی رہنا منشاء باری تعالیٰ اور منشاء رسول ﷺ ہے۔
جیسا کہ عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں‘ آپ نے اپنے والد سے سنا اور آپ نے اپنے دادا سے سنا۔ آپ کے دادا فرماتے ہیں : ہم حضورﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر تھے جب قبیلہ بنو ہوازن کے ایلچی آئے اور کہنے لگے : اے محمد (صلی اللہ علیک وسلم) !ہم سب ایک ہی اصل اور قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں اور جو مصیبت ہم پر ٹوٹی ہے وہ آپ سے پوشیدہ نہیں ‘ لہذا ہم پر نظرِ کرم فرمائیے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : دو چیزوں میں سے ایک اختیار کرلو‘ یا تو اپنا مال و دولت لے جاؤ یا اپنی عورتیں آزاد کرالو۔ انہوں نے دونوں میں سے عورتوں اور بچوں کو اختیار کیا۔ پھر رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا : جس قدر میرا اور حضرت عبدالمطلب کی اولاد کا (مالِ غنیمت میں) حصہ ہے ‘ میں وہ تم کو دے چکا لیکن جب میں ظہر کی نماز پڑھ لوں تو تم سب کھڑے ہو اور یوں کہو :
إنا نستعین برسول اللہ علی المؤمنین أو المسلمین فی نساء نا و أ موالنا۔
سنن النسائی،2 : 136
ہم اللہ کے رسول(ﷺ) کے وسیلہ جلیلہ سے مؤمنوں (یا مسلمانوں) سے اپنی عورتوں اور مالوں میں مدد چاہتے ہیں۔
راوی بیان کرتے ہیں کہ جب لوگ نماز سے فارغ ہوچکے تو انہوں نے ایسے ہی کہا۔ اب یہ الفاظ خود حضور نبی اکرم ﷺ کی زبانِ اقدس سے ادا ہوئے اور آپﷺ نے حکمًا فرمایا کہ میرے وسیلہ سے مسلمانوں سے مدد مانگو۔ اس طرح یہ حدیث جوازِ توسّل کی بہت بڑی دلیل ہے جس میں خود اللہ کے محبوب نبیﷺ اپنے ارشاد گرامی میں مؤمنین سے استعانت و استغاثہ (یعنی مدد طلب کرنے) کا حکم دے رہے ہیں۔
آئندہ صفحات میں ہم ارشاداتِ رسولﷺ میں سے چند ایک کا ذکر کریں گے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وسیلہ ہرگز شرک نہیں اور نہ فعل حرام ہے بلکہ ایک امرِ جائز اور قرب الی اللہ کے لئے دین کے جائز طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے۔
اعمال صالحہ سے مراد حسنات یا نیکیاں ہیں۔ ان اعمال کے وسیلہ سے اگر کوئی دعا کرے کہ … باری تعالیٰ! میرا فلاں عمل جو خالص تیری رضا جوئی کے لئے تھا، اس کے توسّل سے تیری بارگاہ میں اِلتجا کرتا ہوں میری حاجت پوری فرما… جائز ہے۔ اعمال ِصالحہ سے توسُّل پر حضور ﷺ کے چند فرمودات مندرجہ ذیل ہیں :
کسی مشکل اور پریشانی کو دور کرنے کے لیے نیک اعمال سے توسّل کے بارے میں صحیح بخاری کی ایک حدیث شاہد عادل ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا :
ایک دفعہ کا ذکر ہے تین مسافر جنگل سے گزر رہے تھے۔ اچانک آسمان پر گھنگھور گھٹا چھاگئی۔ ابھی بچاؤ کا طریقہ سوچ ہی رہے تھے کہ زبردست موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔ ایک غار میں پناہ لینے کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہا چنانچہ وہ اس میں گھس گئے۔ غار کا دہانہ چھوٹا تھا اچانک ایک بھاری بھرکم پتھر لڑھکتا ہوا آیا اور غار کے دہانے پر گرگیا۔ یہ لوگ اس میں محبوس ہوکر رہ گئے۔ ان میں اتنی سکت نہیں تھی کہ تینوں مل کر بھی اسے ہلاسکتے اس لیے زندگی سے مایوس ہوگئے اور سمجھ گئے کہ یہی غاران کی قبر بنے گی۔
تینوں خدا رسیدہ، رجائیت پسند اور ہر چیز کا روشن پہلو دیکھنے والے تھے، خدا کی شان اور ذات پر ان کا توکل و بھروسہ تھا اس لیے مایوسی زیادہ دیر ان پر مسلط نہ رہی اور وہ ایک ترکیب سوچ کر دل ہی دل میں مسکرا اٹھے۔ مایوسی کے بادل چھٹ گئے تدبیر بڑی ہی ایمان افروز تھی اسلئیے وہ عمل کرنے پرآمادہ ہوگئے۔ انہوں نے کہا : اس مصیبت سے نجات اور رستگاری حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم نے اپنی اپنی زندگی میں صرف اللہ کی رضا و خوشنودی کے حصول کے لیے جو عمل کئے ہیں بارگاہ خداوندی میں ہم ان کا وسیلہ پیش کریں کہ باری تعالیٰ ان کی برکت سے ہمیں آزادی عطا کرے اور اس قید سے نکالے۔
أنظُروا أعمالا عَمِلتُموها ﷲ صالحۃً، فَادعوا اللہ بھا لَعَلَّہٗ یَفْرُجْھَا۔
اپنے اپنے (وہ نیک )اعمال یاد کرو جو تم نے خالصتاً اللہ (کی رضا و خوشنودی) کے لئے کئے ہیں، پھر ان کے وسیلے سے اللہ کی بارگاہ میں دعا کرو شاید وہ اس کو کھول دے (اور اس مصیبت سے نجات دے)۔
تجویز چونکہ بڑی مناسب اور حسب حال تھی اسلیے سبھی اس پر عملدرآمد کرنے کیلئے تیار ہوگئے۔ ہر ایک نے باری باری اپنے اعمال صالحہ پیش کئے۔اور ان سے توسُّل کرتے ہوئے باری تعالیٰ سے اس مصیبت سے خلاصی کیلئے التجا کی۔
ان میں سے ایک شخص اپنا عمل صالحہ یوں بیان کرنے لگا : یا الٰہی !میرے والدین سنِ رسیدہ اور بڑے ضعیف تھے، دل و جان سے ان کی خدمت کرنا میں اپنا فرض سمجھتا تھا، سارا دن محنت مزدوری کرتا۔ جب شام کو واپس آتا تو سب سے پہلے دودھ دوہ کر اپنے ماںباپ کو پلاتا اور بعد میں اپنے اہل و عیال اور دوسروں کی خبر گیری کرتا۔ یہ میرا روزانہ کا معمول تھا۔ ایک روز دیر سے گھر پہنچا۔ میرے ماں باپ انتظار کرتے کرتے گہری نیند سوگئے، تاہم میں نے دودھ دوہا اور پیالے میں ڈال کر ان کے سرہانے کھڑا ہوگیا۔ ادب و احترام جگانے میں مانع تھا اور ان کوکھلائے پلائے بغیر اپنی اولاد کو کھلانا مجھے گوارا نہ تھا اس لیے پیالہ ہاتھ میں لے کر کھڑا ہوگیا کہ جب ماں باپ بیدار ہوں گے تو انہیں پلاؤں گا۔ ننھے منھے بچے چیختے اور بھوک سے بلبلاتے رہے مگر میں نے کوئی پروا نہ کی اور اپنا اصول توڑنا پسند نہ کیا۔آخر اسی کش مکش میں صبح ہوگئی۔
فإن کنتَ تعلمُ أنی فَعلتُ ذٰلک ابتغاء وجھِکَ فَافُرجْ لنا فُرجۃً نَرَی منھا السماءَ۔
اے اللہ! تو جانتا ہے اگر میں نے یہ عمل محض تیری رضا کے لیے کیا تھا تو دہانے سے پتھر ہٹا دے تاکہ ہم آسمان دیکھ سکیں۔
جونہی اس وفا شعار انسان نے دعائیہ الفاظ ختم کئے وہ پتھر تھوڑا سا ہٹ گیا اور انہیں آسمان نظر آنے لگا، مگر اتنا راستہ نہ بنا کہ کوئی آدمی باہر جاسکے۔
دوسرا شخص اپنا عملِ صالح اس طرح پیش کرتا ہے کہ مجھے اپنے چچا کی لڑکی کے ساتھ جذباتی وابستگی تھی مگر وہ پاکباز میری دلی کیفیات اور میرے جذبات و خیالات سے قطعی ناآشنا تھی۔ ایک دفعہ میں نے حال دل بیان کیا تو اس نے سختی سے ڈانٹ پلادی اور پھر دوبارہ میری جرأت نہ ہوئی۔
اس کے بعد ایک دفعہ شدید قحط پڑا تو افلاس و بھوک کے سائے اس پر منڈلانے لگے۔ وہ نیک بخت فاقہ کشی سے مجبور ہوکر میرے پاس آئی اور امداد چاہی، میں نے مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا عزم کرلیا اور اسے ورغلایا۔ وہ مجبور تھی، میں نے سودینار کی خطیر رقم اس کے آگے ڈھیر کردی۔ اس نے نیم دلی سے رضامندی ظاہر کردی۔ جب میں عملی اقدام کرنے لگا تو اسکی آنکھیں اشک بار ہوگئیں، وہ صدمے سے تڑپ اٹھی اور بولی : ناحق ظلم نہ کر اور میری مجبوری سے فائدہ نہ اٹھا، اللہ سے ڈر اور یہ ناجائز اور خلاف شرع حرکت نہ کر۔ اس کی یہ بات سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے، خوف الٰہی نے میرے اعضاء پر رعشہ طاری کردیا۔ برائی کی نیت دب گئی اور اندر کا سویا ہوا انسا ن بیدار ہوگیا میں نے اسے وہیں چھوڑا اور رقم بھی نہ لی۔
اللهم! فإن کنتَ تعلمُ أنی فَعلتُ ذٰلک ابتغاءَ وجھِکَ فَافرُجْ لنا منھا۔
اے اللہ ! پس اگر تیرے علم میں میں نے تیری رضا حاصل کرنے کے لیے ایسا کیا (اور میرا یہ عمل تیری بارگاہ میں مقبول ہے )تو ہمارا راستہ کھول دے (کہ ہم باہر کی دنیا دیکھ سکیں)۔
اس کے دعائیہ کلمات پر پتھر مزید سرک گیا مگر ابھی اتنی گنجائش نہ ہوئی تھی کہ وہ بآسانی باہر نکل سکتے۔
تیسرا شخص اپنے نیک عمل کا وسیلہ بارگاہ الٰہی میں اس طرح بیان کرنے لگا : یا الٰہی! ایک مرتبہ میں نے کام پر مزدور لگائے ہوئے تھے جب انہوں نے اپنا کام مکمل کرلیا تو میں نے سب کی اجرت اور مزدوری اداکردی۔ ایک مزدور کے دل میں نہ جانے کیا بات آئی اور وہ اپنی اجرت لیے بغیر چلاگیا۔ اس کی اجرت چاولوں کا ایک ٹوپہ تھی، میں نے وہ چاول کاشت کردیے ان سے دھان کی ایک لہلہاتی فصل تیار ہوگئی، میں نے اسے فروخت کر کے بکری لی۔ تو نے اپنے فضل سے اس میں برکت ڈال دی اور اس سے مزید بکریاں پیدا ہوئیں، پھر گائے خریدی اور اس میں بھی تونے برکت دی۔ یوں ایک مزدور کی اجرت سے اتنے زیادہ مال مویشی ہوگئے کہ وادی بھر گئی۔ اور ان جانوروں کی نگہداشت کے لیے مجھے چرواہا رکھنا پڑا۔ ایک دن وہی مزدور آیا اور بولا :
إتَّقِ اللہ ولا تَظلِمنی وأعطِنی حَقی۔ فقُلتُ : إذہب الی تلک البقرِ و رَاعِیھا۔
اللہ سے ڈر اور مجھ پر ظلم نہ کر اور میرا حق (مزدوری) ادا کر۔ میں نے اسے کہا : ان گایوں اور چرواہے کے پاس جا اور انہیں لے لے، یہ تیرے ہیں۔
اس نے کہا : ’’ اللہ سے ڈرو اور میرا مذاق نہ اڑاؤ۔ ‘‘ میں نے سنجیدگی سے اسے سب کچھ بتا دیا اور وہ سارا مال لیکر چلاگیا۔
فإن کُنتَ تعلَمُ أنی فعَلتُ ذٰلک ابتغاء وجھِکَ، فَافرُجْ ما بَقِیَ۔
1۔ صحیح مسلم، 2 : 353
2۔صحیح البخاری، 2 : 4۔883
3۔صحیح البخاری، 1 : 493، 4۔313، 303،5۔294
(اے الٰہی! )اگر میں نے یہ ایثار صرف تیری رضا کے لیے کیا تھا تو (اس کی برکت سے ہماری مشکل دور فرما اور) غار کے دہانے سے پتھر ہٹادے (کہ ہم باہر نکل سکیں)۔
اس طرف ان کی دعا ختم ہوئی دوسری طرف اجابت الٰہیہ نے دعا کو شرف قبولیت سے نوازا، ان کے اعمال صالحہ ان کی ہمیشہ کی اندھیر رات کو دن میں بدل گئے، رحمت الٰہی جوش میں آئی، نیک اعمال کا وسیلہ ان کی بارگاہ الٰہی سے انہیں ایک نئی زندگی دے گیا۔ ان کے اعمال کی بنیاد رضا ئے الٰہی تھی اس لئے رحمت الٰہی جوش میں آئی اور پتھر غار کے دہانے سے ایک طرف لڑھک گیا اور یہ تینوں حضرات بڑی آسانی اور عافیت کے ساتھ باہر نکل آئے اور منزل مقصود کی طرف چل دیئے۔
پنجگانہ نماز ہر مسلمان پر فرض ہے۔ یہ وہ عمل صالحہ ہے کہ جس کے ذریعے بندہ اپنے مولا کے حضور سربسجود ہوکر اپنی بندگی کا عملاً اظہار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کی عاجزی اور انکساری بہت پسند ہے اور نماز وہ عبادت ہے کہ جس میں کمال درجے کا عجز و انکسار پایا جاتا ہے اسی لئے رب ذوالجلال کو نماز کا عمل بہت محبوب ہے۔ نماز کے وسیلے اور برکت سے اللہ رب العزت اپنے بندوں خطائیں معاف فرما دیتا ہے۔
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا :
أرأیتم لو أن نھرا ببابِ أحدکم یغتَسِلُ منہ کل یوم خمس مرات۔ ھل یبقی من دَرَنہ شئ؟ قالوا : لا یبقی من دَرَنہ شئ۔ قال : فذالک مَثَلُ الصلوات الخمس، یمحوا اللہ بهن الخطایا۔
1۔صحیح مسلم، 1 : 235
2۔صحیح البخاری، 1 : 76
3۔جامع الترمذی، 2 : 110
4۔سنن النسائی، 1 : 81
5۔سنن الدارمی، 1 : 213، رقم : 1187
6۔مسند احمد بن حنبل، 2 : 379
(مجھے بتاؤ) اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر نہر ہو اور وہ دن میں پانچ دفعہ اس میں نہاتا ہو کیا اس کے جسم پر میل نام کی کوئی چیز باقی رہ جائے گی؟ حاضرین نے جواب دیا : نہیں۔ فرمایا : یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے۔ خدا تعالیٰ ان (کے وسیلہ اور برکت) سے گناہ مٹاتا ہے۔
بندۂ مومن کا مقصود اپنے معبود حقیقی اور مالک اصلی کے قرب اور رضا کا حصول ہوتا ہے۔ نوافل کے ذریعے بندہ اپنے مولا کی رضا بھی حاصل کرتا اور قرب بھی گویا نوافل کے توسُّل سے بندے کو قرب الٰہی نصیب ہوتا ہے۔ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لا یزال عبدی یتقربُ إلیّ بالنوافل حتی أحببتُہ : فکنتُ سمعہ الذی یَسمَع بہ، و بصرَہ الذی یُبصِر بہ و یدہ التی یَبطِش بہا، و رِجْلَہ التی یَمشی بہا۔
صحیح البخاری، 2 : 963
میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اسے محبوب بنالیتا ہوں۔ پھر میں اس کی سماعت بن جاتا ہوں جن کے ساتھ وہ سنتا ہے اور اس کی بصارت بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ پکڑتا ہے اور اس کی ٹانگبن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ چلتا ہے۔
دور جاہلیت میں لوگوں کا عمومی رویہ یہ تھا کہ وہ بیٹیوں کو ناپسند کرتے تھے اور جب بیٹی پیدا ہوتی تو وہ سخت پریشان ہوجاتے قرآن حکیم نے ان کے اس رویے کی تصویر کشی کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب کسی کو بیٹی کی خوشخبری دی جاتی ہے تو غصے سے اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے (النحل، 16 : 58)۔ یہ ان مشرکین کا بیٹیوں کی پیدائش پر ناپسندیدگی کا اظہار تھا۔ اسلام نے صنفِ نازک کو وہ مقام اور مرتبہ دیا کہ جس کا تصور بھی کسی اور معاشرے میں ممکن نہیں۔ ماں، بہن، بیٹی سب قابل عزت و تکریم رشتے ہیں۔ اسلام نے نہ صرف ان رشتوں کی تقدیس کی بات کی بلکہ ان کی حفاظت اور پرورش پر اجر عظیم کا مژدہ بھی سنایا۔ حضور نبی اکرمﷺ کے ارشادات گرامی میں جا بجا ہمیں اس چیز کا ثبوت ملتا ہے کہ اپنی بچیوں کی بہتر پرورش اور تعلیم و تربیت ایک ایسا عمل صالحہ ہے کہ اس کے وسیلے سے ماں باپ کو جہنم کی آگ سے خلاصی نصیب ہوتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
جاء تنی امرأۃٌ معھا ابنتانِ تَسألُنی، فلم تجدْ عندی غیر تمرۃٍ واحدۃٍ، فأعَطیْتُھا فقسمَتْھا بین إبنتیھا، ثم قَامَتْ فخرجَتْ، فدخَلَ النبیﷺ فحدَّثْتُہ، فقال : من بُلِیَ من ھذہ البناتِ شیئاً، فأحسنَ إلیھن، کُنَّ لہ سِتراً من النار۔
1۔صحیح البخاری، 2 : 887
2۔ صحیح مسلم، 2 : 330
میرے پاس ایک عورت آئی جس کے ساتھ اس کی دو بچیاں تھیں، وہ مجھ سے کچھ مانگتی تھی۔ اس نے ایک کھجور کے سوا میرے پاس کچھ نہ پایا، میں نے اس کو وہی دے دی۔ اس نے کھجور دونوں بیٹیوں میں تقسیم کردی اور پھر اٹھ کر چلی گئی۔ اس کے بعد نبی کریمﷺ تشریف لائے میں نے حضورﷺ سے سارا ماجرا کہ سنایا۔ حضورﷺ نے فرمایا : جو کوئی بیٹیوں کے ذریعے آزمایا گیا اور اس نے ان سے اچھا سلوک کیا تو یہ اس کیلئے دوزخ سے حجاب بن جاتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے گھر کو اس کے ذکر سے آباد کرنا، اللہ تعالیٰ کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنا اور اس وقت اٹھ کر اللہ کو یاد کرنا جب اکثر لوگ غفلت کی نیند سو رہے ہوں یہ ایسے اعمال ِصالحہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کو نہایت پسند ہیں اور ان اعمال کو سر انجام دینے والوں کی برکت سے اللہ تعالیٰ اپنی دیگر مخلوق سے بھی عذاب ٹال دیتا ہے۔ رسول اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
إن اللہ سبحانہ یقول : إنی لأھم بأھل الأرض عذاباً، فإذا نظرت إلی عمار بیوتی والمتحابین فیّ والمستغفرین بالأسحار، صرفت عنھم۔
1۔شعب الإیمان للبیہقی، 6 : 500، رقم : 9051
2۔تفسیر الد ر المنثور، 3 : 216
بے شک اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں زمین والوں پر عذاب اتارنا چاہتا ہوں لیکن جب میرے گھر آباد کرنے والوں، باہم میرے لئے محبت کرنے والوں اور پچھلی رات کو استغفار کرنے والوں کو دیکھتا ہوں تو (اپنا غضب) ان سے پھیر دیتا ہوں۔
جس طرح متوسِّل کے اپنے اعمال اللہ کی بارگاہ میں وسیلہ بنتے ہیں، اسی طرح اگر کوئی اللہ کے اسمائے حسنی کا ذکر اپنا شعار بنا لے تو وہ اللہ کی بارگاہ میں دعا کی قبولیت کے لیے وسیلہ بن جاتے ہیں۔جیسے سورہ فاتحہ کی ابتدائی آیات میں صفاتِ الٰہیہ کا بیان ہے :
الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَO الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِO مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِO
الفاتحہ،1 : 1۔3
سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہے۔ نہایت مہربان بہت رحم فرمانے والا ہے۔ روز جزا کا مالک ہے۔
ان تعریفات کے بعد بندہ اللہ کی بارگاہ میں اپنا مدعا بیان کرتا ہے:
إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُO
الفاتحہ،1 : 4
(اے اللہ!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔
إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کے حوالے سے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عبادت کو استعانت پر مقدم کیوں کیا گیا ہے؟ عبادت تو اللہ کے فضل و کرم اور توفیق و عنایت کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ اللہ کی مدد شامل حال نہ ہو تو عبادت کیسے ممکن ہے۔ اس لئے چاہیے تو یہ تھا کہ پہلے اللہ کی مدد طلب کی جاتی یوں اس کی مدد و اعانت اور توفیق سے بندہ عبادت میں مصروف ہوجاتا۔ اس بنا پر استعانت کو عبادت پر مقدم کرنا چاہیے تھا نہ کہ مؤخر۔ اس سوال کا امام بیضاوی اپنی’ تفسیر‘ میں اس طرح جواب دیتے ہیں کہ عبادت کو استعانت پر مقدم کر کے توسُّل کیا گیا ہے تاکہ اس کی قبولیت کی امید پیدا ہوجائے :
و قدمت العبادۃ علی الإستعانۃ لیتوافق رؤوس الٓای، و یعلم منہ أن تقدیم الوسیلۃ علی طلب الحاجۃ ادعی إلی الإجابۃ۔
تفسیر البیضاوی، 1 : 14
عبادت کو استعانت پر اس لیے مقدم کیا گیا ہے تاکہ آیات کے آخری حروف میں موافقت پیدا ہوجائے۔ علاوہ ازیں اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وسیلہ (عبادت) کو حاجت کے طلب کرنے (استعانت) پر اس لیے مقدم کیا ہے تاکہ قبولیت کی کوئی صورت ہوجائے۔
یہ تعلقِ بندگی ہے، اور پھربندہ آگے دعا کرتا ہے :
إِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَO
الفاتحہ،1 : 5
ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔
بندہ اپنے تعلق بندگی کا واسطہ دے کر رب کی بارگاہ میں دعا کر کے ہدایت طلب کرتا ہے۔ یوں اسماء حسنی کا ذکر اور پھر کلمات بندگی اور دعا ئے ہدایت اللہ کی بارگاہ میں وسیلہ بن جاتے ہیں۔ بندہ اللہ کے اسماء کا ذکر کر کے اپنی عبدیّت کو بطور توسّل پیش کرتا ہے اور اپنی عبدیت کو تذلّل اور خشوع کی صفات سے آراستہ کر کے کمال بندگی میں نقص کا اعتراف کر تا ہے۔ اس کیفیت میں اللہ کی بارگاہ میں دست بدعا ہوجاتا ہے اور یہ دعا اس کیلئے وسیلہ بن جاتی ہے۔
بعض اوقات ہم اللہ تعالیٰ کے اسماء ِحسنی کے توسُّل سے سوال کرتے ہیں، اسی طرح ہم اس کا ذاتی اسمِ جلالت لے کر بھی سوال کرتے ہیں جو کہ جائز ہے۔ خود نبی اکرمﷺ سے اس طرح کرنا ثابت ہے۔ ’سنن ابن ماجہ‘ میں ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا :
اللھم! إنی أسئلک بأنک أنت اللہ۔
1۔سنن ابن ماجہ : 282
2۔سنن ابو داؤد،1 : 216
3۔جامع الترمذی، 2 : 185
4۔مسند احمد بن حنبل، 5 : 360،349
5۔شرح السنۃ للبغوی، 5 : 8۔37، رقم : 60۔1259
اے میرے مولا! میں تجھ سے تیرے اللہ ہونے کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں۔
اسی طرح کبھی اللہ تعالیٰ کی کسی صفت یا فعل کے توسُّل سے سوال کیا جاتا ہے، جیسا کہ ایک روایت میں حضور نبی اکرمﷺ سے یہ دعا منقول ہے :
اللھم! إنی أعوذ برضاک من سخطک و بمعافاتک من عقوبتک۔
1۔الصحیح لمسلم، 1 : 192
2۔سنن ابو داؤد، 1 : 135
3۔سنن ابن ماجہ : 281
4۔موطا امام مالک : 197
5۔مسند احمد بن حنبل، 6 : 201
6۔صحیح ابن حبان، 5 : 258،رقم : 1932
7۔صحیح ابن خزیمۃ، 1 : 329، رقم : 655
اے اللہ! میں تیری رضا کے سبب تیری ناراضگی سے اور تیرے عفو و درگزر کے توسُّل سے تیرے عذاب سے پناہ چاہتا ہوں۔
ان احادیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور افعال کے وسیلہ سے اس سے سوال کرنا اور اپنی حاجت کو پیش کرنا صحیح ہے۔
جہاں حضور نبی اکرم ﷺ کے مقام وسیلہ پر فائز ہونے کی دعا اور اس کا توسُّل ایک مومن کو رحمت الٰہیہ کا سزاوار بناتا ہے، وہاں اسے شفاعتِ رسول کا بھی حقدار ٹھہراتا ہے۔ سرور کائناتﷺ نے ارشاد فرمایا :
إذا سَمِعتم المؤذنَ فقولوا مثل ما یَقولُ، ثم صَلُّوا علیّ، فإنہ من صلی علیّ صلوۃً صلی اللہ علیہ بہا عشرا، ثم سَلُوا اللہ لِی الوسیلۃَ۔ فإنھا منزلۃٌ فی الجنۃ لا تَنبغی إلا لعبدٍ من عباد اللہ و أرجو أن أکون أنا ھو، فمن سأل لی الوسیلۃَ حَلَّتْ علیہ الشفاعۃُ۔
1۔ الصحیح لمسلم، 1 : 166
2۔سنن أبوداؤد، 1 : 5۔84
3۔جامع الترمذی، 2 : 202
4۔سنن النسائی، 1 : 110
5۔مسند احمد بن حنبل، 2 : 168
6۔صحیح ابن حبان، 4 : 90۔588، رقم : 2۔1690
7۔السنن الکبریٰ للبیہقی، 1 : 10۔409
8۔مسند ابوعوانہ، 1 : 336
9۔صحیح ابن خزیمہ، 1 : 219،رقم : 418
10۔مشکاۃ المصابیح : 5۔64
11۔کنزالعمال، 7 : 700، رقم : 20998
12۔شرح السنۃ للبغوی، 2 : 5۔284، رقم : 421
13۔عمل الیوم والیلۃ لابن السنی : 33، رقم : 91
14۔عمل الیوم والیلۃ للنسائی : 158، رقم : 45
جب تم موذن کو اذان دیتے سنو، تو تم بھی وہی کہو جو وہ کہتا ہے۔ پھر مجھ پر درود بھیجو، بے شک جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجا اللہ اس پر دس مرتبہ رحمت بھیجتا ہے۔ پھر اللہ سے میرے لیے وسیلہ مانگو، بے شک یہ ( وسیلہ) جنت میں ایک مقام ہے جو اللہ کے خاص بندے کے لیے مخصوص ہے اور اور مجھے امید ہے وہ خاص بندہ میں ہی ہوں۔ پس جس نے میرے لئے وسیلہ مانگا، اس کے لئے قیامت کے دن میری شفاعت واجب ہوگئی۔
حضور نبی اکرمﷺ پر ایک مرتبہ درود بھیجنا دس مرتبہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت کا مستحق ٹھہراتا ہے اور اسی طرح حضور نبی اکرمﷺکا مقامِ محمود اور وسیلہ پر فائز ہونے کی دعا شفاعت رسولﷺ کو مومن کے حق میں اس ارشاد گرامی کے مطابق واجب ٹھہراتی ہے۔
صلوۃ و سلام ایک ایسا محبوب و مقبول عمل ہے جو کسی صورت میں اور کسی مرحلے پر بھی مردود اور ظنی القبول نہیں بلکہ قطعی القبول ہے یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ضرور مقبول ہوتا ہے، حتی کہ اگر پڑھنے والا فاسق و فاجر، گناہگار اور معصیت میں لت پت ہی کیوں نہ ہو پھر بھی اس کا یہ عمل رد نہیں کیا جاتا اور جب وہ درود و سلام پڑھتا ہے تو قبول کرلیا جاتا ہے۔
ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک گنہگار شخص سے بھی صلوۃ و سلام قبول کرنے میں کیا حکمت ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ صلوۃ و سلام کے بہت سے معانی ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں:
رحمت بھیجنا، قرب عطا کرنا، ذکر بلند کرنا، اور برکت دینا
اب اگر ان معانی پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان میںسے کوئی ایک نعمت بھی ایسی نہیں جو حضورﷺکو پہلے سے حاصل نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہر لحظہ ان پر نازل ہوتی رہتی ہیں اور یہ سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا اور اس کے ختم ہونے کا بھی کوئی امکان نہیں۔ رہی قربِ خاص کی بات تو اس کا اندازہ اس قرب سے لگایا جاسکتا ہے جو باری تعالیٰ نے اپنے محبوب کو معراج کی شب عطا کیا کہ تمام فاصلے مٹ گئے۔ جیسا کہ فرمایا :
فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنیٰO
النجم،53 : 9
پھر (یہاں تک بڑھے کہ) صرف دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔
ایک شب کے قرب کا یہ عالم ہے تو جو قرب آپﷺ کو مسلسل عطا کیا جارہا ہے، اس کا کون اندازہ لگاسکتا ہے۔ ذکر کی بلندی اور رفعت کا بھی یہی عالم ہے۔ خدا نے رفعتِ ذکر کی وہ شان عطا کی جس کا کوئی انسان تصور بھی نہیں کرسکتا۔ غرضیکہ صلوۃ کے جتنے معانی ہیں وہ حضورﷺ کو پہلے ہی سے حاصل ہیں۔ اس لیے ایک بندہ جب بارگاہ ِ الوہیت میں عرض گزار ہوتا ہے : اللّٰھُمَّ! صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ (اے اللہ! (اپنے حبیب) محمدﷺ پر صلوٰۃ بھیج)، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ا ے بندے! میں تو پہلے ہی صلوۃ بھیج رہا ہوں، برکت دے رہا ہوں، ذکر بلند کر رہا ہوں اور قرب خاص عطا کر رہا ہوں، تیرے کہنے کی ضرورت نہیں اس پر پہلے ہی سے عمل ہو رہا ہے۔ چونکہ تو نے اپنے لئے کچھ نہیں مانگا، مال نہیں مانگا، اولاد نہیں طلب کی، بیماری سے شفا کے لیے دعا نہیں کی، اپنی کسی اور غرض کو بیچ میں نہیں ڈالا بلکہ صرف میرے محبوب کے لیے صلوۃ و سلام کی بات کی ہے اور ان پر درود بھیجنے کی درخواست اور دعا کی ہے، اس لیے تیری دعا قبول ہے۔
چونکہ دعا سے پہلے ہی اس پر عمل ہورہا ہوتا ہے اس لیے درود پڑھنے والا خواہ گنہگار ہی ہو اس کی دعا قبول کرلی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ درود پاک قطعی القبول ہے اور اس کے ردّو نامقبول کیے جانے کا کوئی امکان نہیں۔
عبادات چونکہ ظنی القبول ہیں مگر چونکہ انسان باقاعدہ اہتمام، تیاری اور شرائط و لوازمات کے مطابق عبادت کرتا ہے جس کے لیے اسے تگ و دو کرنا، وقت نکالنا اور آرام ترک کر کے ادھر آنا پڑتا ہے اور خاصی مشقت بھی اٹھانا پڑتی ہے اس لیے طبعی طور پر اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی عبادت قبول ہو اور اس کی یہ مشقت رائیگاں نہ جائے، اس عبادت کا اسے صلہ ملے مگر اللہ کی بارگاہ بے نیاز کی بارگاہ ہے۔ قرآن کہتا ہے:
إِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ۔
الفاطر، 35 : 10
اسی کی طرف پاک کلام بلند ہوتا ہے اور وہی عملِ صالح کے مدارج کو بلند کرتا ہے۔
اس لیے انسان طبعی اقتضاء سے مجبور ہوکر ایسے حیلے بہانے تلاش کرتا ہے جن کے سبب اس کے اعمال درجہ قبولیت پر پہنچنے کے قابل ہوجائیں اور خامیوں کوتاہیوں اور لغرشوں کے باوجود کسی نہ کسی طرح قبول کرلئے جائیں۔ رحمت خداوندی نے اس طبعی طلب کے سلسلے میں اسے بے یار و مددگار اور بے آسرا نہیں چھوڑا بلکہ اپنے لطف و کرم سے خود اسے ایک ایسا ذریعہ عطا کیا ہے جس کی وساطت سے وہ بآسانی اپنے ظنی القبول اعمال کو قطعی القبول بنا سکتا ہے اور وہ طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہر عمل اور عبادت کے شروع اور آخر میں درود و سلام پڑھ لے۔ چونکہ درود شریف قطعی القبول عمل ہے اسلیئے جب وہ بارگاہ خداوندی میں پیش ہوگا تو قبول کیا جائے گا اور رحمت حق سے کیا بعید ہے کہ اس کے بارگاہ میں اعمال کی طشتری پیش ہو اور اس میں سے صرف درود و سلام قبول کرلے اور ان کے درمیان جو اعمال ہیں انہیں رد کردے۔ اس لیے اعمال کو قطعی القبول بنانے کا بڑا ہی مؤثر اور یقینی طریقہ یہ ہے کہ ہر نیک عمل کے آغاز و اختتام پر صلوۃ و سلام پڑھ لیا جائے۔
باری تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :
کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍO وَّ یَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَ الْإِکْرَامِO
الرحمن، 55 : 7۔26
جو کچھ بھی زمین پر ہے سب فنا ہوجانے والا ہے۔ اور صرف آپ کے پروردگار کی ذات باقی رہ جائے گی جو نہایت بزرگی اور عظمت والی ہے۔
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :
کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ۔
آل عمران، 3 : 185
ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے۔
جب ہر چیز کو نیست و نابود اور فنا ہوجانا ہے تو فقط اللہ رب العزت کی ذات ہی باقی رہ جائے گی اور اس کی حمد کرنے والا بھی کوئی نہیں رہے گا۔ تو اس وقت بھی درود پاک ایسا عمل ہے جو جاری و ساری ہوگا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ خود یہ عمل فرماتا ہے، جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا :
إِنَّ اللهَ وَ مَلٰئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیّ۔
احزاب، 33 : 56
بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی (ﷺ) پر رحمت بھیجتے ہیں (اور بھیجتے رہیں گے)۔
ہر ذی روح کو فنا ہے۔ اس کائنات کی ہر مخلوق نے ذائقۃ الموت کے فرمانِ الٰہی کے مطابق ایک مرتبہ موت کا ذائقہ چکھناہے۔ بقاء و دوام فقط ایک ہی ذات حی و قیوم اللہ د کو ہے۔ چونکہ درود پاک اللہ تبارک و تعالیٰ کا بھی عمل ہے اور جب باری تعالیٰ ابداً موجود ہے اور اس پر فنا نہیں ہے تو اس کا عمل بھی اس کے ساتھ قائم و دائم رہے گا۔ اسلیئے قرآن حکیم میں یُصَلُّوْنَ فعلِ مضارع میں استعمال کیا گیا ہے جو کہ حال و مستقبل پر دلالت کرنے کی وجہ سے دائمی مفہوم رکھتا ہے۔ حال کبھی ختم نہیں ہوتا۔ہر موجود لمحہ، حال ہے اور ہر آنے والا لمحہ، مستقبل ہے۔ تو گویا اللہ رب العزت کا اپنے نبیﷺ پر درود بھیجنا ہر لحظہ جاری ہے اور ابد الآباد تک جاری رہے گا۔ اس میں آج تک نہ کبھی کوئی انقطاع آیا ہے اور نہ آسکتا ہے۔ اسلیے یہی مسلّمہ حقیقت ہے کہ درود شریف ہی اس کائنات کا سب سے آخری عمل ہے اور اسی عمل کو ہی صفت الوہیت کی وجہ سے دوام حاصل ہے۔ اور جب ہم اس کے وسیلے سے دعا کریں گے تو دعا ضرور قبول ہوگی۔
ایک صحیح حدیث کے مطابق حضورﷺ نے خود اپنی ذات اور انبیاء علیہم السلام کے وسیلہ سے دعا فرمائی۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
لما ماتتْ فاطمۃُ بنتُ أسدِ بن ھاشم أم عليّ بن أبي طالب، دخل علیھا رسولُ اللہ ﷺ، فجلسَ عند رأسِھا، فقال : رحمکِ اللهُ یا أمی! کنتِ أمی بعد أمی و تشبعینی، و تَعرَین و تَکسینی، و تَمنَعین نفسَکِ طیباً و تُطْعِمینی، تُریدینَ بذٰالکَ وَجَہَ اللہ والدارَ الٓاخرَۃ۔ ثم أمَرَ أن تُغسَلَ ثلاثاً، فلما بلغَ الماء الذی فیہ الکافورُ سَکَبَہُ رسول اللہ ﷺ بیدِہ، ثم خَلَعَ رسولُ اللہﷺ قمیصَہ فألبسھا إِیَّاہ وکفنھا ببرد فوقہ، ثم دعا رسولُ اللہ ﷺ أسامۃَ بن زید، و أبا أیوبِ الأنصاريّ، و عمرَ بنَ الخطابِ، و غلاماً أسوَدَ یحفرون، فَحَفروا قبرَھا، فلما بلغوا اللحد حفرہ رسول اللہﷺ بیدہ، وأخرج ترابَہ بیدہ، فلما فرغ دخل رسول اللہﷺ فاضطجعَ فیہ، ثم قال : اللہ الذي یُحیي و یُمیت و ھو حَيٌّ لا یموتُ۔ أغفر لأمِّي فاطمۃ بنتِ أسدٍ وَلقِّنْھا حُجَّتَھا، و وَسِّعْ علیھا مُدْخَلَھا بحق نبیکَ والأنبیاء الذین مِن قَبْلی۔ فإنک أرحم الراحمین۔ و کَبَّرَ علیھا أربعاً و اد خلوھا اللحد ھو و العباس، و أبوبکر الصدیقث۔
ا۔ لمعجم الکبیر للطبرانی، 24 : 2۔351، رقم : 871
2۔المجعم الأوسط للطبرانی، 1 : 3۔152، رقم : 191
3۔حلیۃ الأولیاء لابی نعیم، 3 : 121
4۔ العلل المتناہیۃ للجوزی، 1 : 9۔268، رقم : 433
5۔ مجمع الزوائد، 9 : 7۔256ٔ
جب حضرت علی بن ابو طالب کی والدہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم وصال فرما گئیں تو حضور نبی کریم ﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور آپ کے سرہانے بیٹھ گئے، پھر فرمایا : اے امی جان! اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے، میری والدہ ماجدہ کے بعد آپ ہی میری ماں تھیں۔ آپ مجھے بھوک میں سیر ہوکر کھلاتی اور خود بھوکی رہتی تھیں اور آپ مجھے پہناتی تھیں اور اچھی چیزیں خود کھانے کی بجائے مجھے کھلاتی تھیں۔آپ یہ سب کچھ اللہ کی رضا اور روزِ آخرت کی خاطر کرتی تھیں۔ پھر حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ان کو تین مرتبہ غسل دیا جائے۔ پھر جب کافور کا پانی لایا گیا تو حضور نبی کریمﷺ نے پانی انڈیل کر اپنے ہاتھوں میں لیا پھر اپنی قمیض اتار ی اور وہ قمیض انہیں پہنادی اور اپنی چادر سے انہیں کفن پہنایا۔ پھر حضور ﷺ نے حضرت اسامہ بن زید، حضرت ابو ایوب انصاری اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہم اور حبشی غلام کو بلایا کہ وہ قبر کھودیں۔ پس انہوں نے قبر کھودی۔ جب لحد تک پہنچے تو حضور نبی کریمﷺ نے اپنے ہاتھ سے قبر کھودی اور اس سے اپنے ہاتھوں سے مٹی نکالی اور جب فارغ ہوگئے تو حضور ﷺ اس میں لیٹ گئے۔ پھر فرمایا : اے اللہ، تعالیٰ جوزندگی اور موت دیتا ہے اور وہ خود ہمیشہ زندہ رہنے والی ذات ہے، اسے موت نہیں آئیگی، (اے اللہ!) تو میری ماں فاطمہ بنت اسد کی مغفرت فرما اور ان کو سوالات کے موقع پر جوابات تلقین فرمادے اور اپنے نبی (محمدﷺ) اور ان انبیاء کے وسیلہ سے جو مجھ سے پہلے تھے، ان کی قبر کو وسیع فرمادے، بیشک تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے۔ (اور پھر حضورﷺ نے) چار مرتبہ تکبیر کہی (یعنی نمازِ جنازہ پڑھائی)، اور پھر آپﷺ نے، حضرت عباس اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما نے ان کو لحد میں اتار دیا۔
اس حدیث پاک کی سند میں ایک راوی ’روح بن صلاح، کو بعضوں نے ضعیف کہا ہے، جبکہ ابن حبان اور امام حاکم نے اسے ثقۃ کہا ہے۔ محمود سعید ممدوح نے روح بن صلاح کو صادق اور اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔
رفع المنارۃ : 155۔147
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
قال رسول اللہﷺ : من خرجَ من بیتہِ إلی الصلاۃِ فقالَ : اللھم! إني أسألکَ بحقِ السائلینَ علیکَ، و أسألکَ بحق مَمشايَ ھذا، فإني لم أخْرُجْ أشراً و لا بَطَراً و لا رِیاء و لا سُمْعَۃً و خرجتُ اتقاءَ سُخطِکَ و ابتغاءَ مَرْضَاتِکَ، فأسألُکَ أن تُعیذَني من النار و أن تَغْفِرَ لي ذُنُوبي، إنہ لا یَغْفِرُ الذنوبَ إلا أنت۔ أقبل اللہ علیہِ بوجھہِ واستَغْفَرَ لہ سبعونَ ألفِ مَلِکٍ۔
1۔ سنن ابن ماجہ : 57
2۔ مسند احمد بن حنبل، 3 : 21
3۔ عمل الیوم والیلۃ لابن السنی : 30، رقم : 83
4۔ الترغیب و الترہیب، 2 : 458
5۔مصنف ابن ابی شیبۃ، 10 : 2۔211، رقم : 9251
6۔المتجر الرابح فی ثواب العمل الصالح : 2۔641،رقم : 1321
7۔میزان الاعتدال للذہبی، 2 : 447، رقم : 4384
رسول اللہﷺ نے فرمایا : جو شخص نماز کے ارادے سے اپنے گھر سے نکلے اور یہ دعا مانگے : اے اللہ !میں تجھ سے تیرے سائلین کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں اور میں تجھ سے (نماز کی طرف اٹھنے والے) اپنے ان قدموں کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں، بے شک میں نہ کسی برائی کی طرف چل پڑا ہوں نہ تکبر اور غرور سے، نہ دکھاوے اور نہ کسی دنیاوی شہرت کی خاطر نکلا ہوں، میں تو صرف تیری ناراضی سے بچنے کیلئے اور تیری رضا کو حاصل کرنے کے لئے نکلا ہوں۔ پس میں تجھ سے سوال کرتا ہوں، کہ مجھے دوزخ کی آگ سے نجات دے، میرے گناہوں کو بخش دے، بے شک تو ہی گناہوں کو بخشنے والا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور ستر ہزار فرشتے اس کی مغفرت طلب کرتے ہیں۔
اس حدیث کی سند حسن حدیث کی شرائط کے مطابق ہے اور مندرجہ ذیل پانچ مشہور حفاظِ حدیث نے اسے حسن حدیث قرار دیا ہے :
1۔ حافظ دمیاطی نے ’المتجر الرابح فی ثواب العمل الصالح‘ میں
2۔ حافظ منذری نے ’الترغیب والترہیب‘ میں۔
3۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے ’ عمل ا الأذکار‘ میں۔
4۔ حافظ عراقی نے ’أحادیث الإحیائ‘ کی تخریج میں۔
5۔ حافظ بوصیری نے ’مصباح الزجاجۃ‘ میں۔
ابن خزیمۃ نے اپنی ’صحیح‘ میں فضیل بن مرزوق سے روایت کرتے ہوئے اسے صحیح حدیث قرار دیا ہے۔
رفع المنارۃ : 2۔170
نیک بندو ں کے علاوہ مسافروں، مریضوں اور وہ سب جن پر اللہ تعالیٰ نے رحم فرمانے کی بات کی ہے یا جن کی نسبت فرمایا کہ میں ان کے ساتھ ہوں، ان کی مدد کرتا ہوں اور اپنی شفقت و رحمت سے نوازتا ہوں ان کا وسیلہ پیش کرنا بھی رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی سے ثابت ہے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا :
إنما یَنْصرُ اللهُ ھذہ الأمۃَ بضعیفِھا بدعوتِھْم و صلاتِھم و إخلاصِھم۔
1۔سنن النسائی، 2 : 64
2۔ السنن الکبریٰ للبیہقی، 6 : 331
3۔حلیۃ ا لٔاولیاء لٔابی نعیم، 5 : 26
بے شک اللہ تعالیٰ کمزور لوگوں کی دعا، نماز اور خلوص کے باعث ہی تو اس امت کی مدد فرماتا ہے۔
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ ارشاد فرمایا :
أبغونِی الضعیفَ فإنکم إنما تُرزَقونَ و تُنصَرونَ بِضُعَفائکم۔
1۔سنن النسائی، 2 : 64
2۔ السنن الکبریٰ للبیہقی، 6 : 331
مجھے کمزور لوگوں میں تلاش کرو۔ بے شک کمزور لوگوں کے سبب ہی تمہیں رزق عطا کیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔
گویا ضعیف و نادار لوگوں کے توسُّل سے باری تعالیٰ امت مسلمہ کو نہ صرف اپنی مدد و نصرت سے نوازتا ہے بلکہ انہیں رزق اور وسائل بھی عطا کرتا ہے۔ لہذا ان کے وسیلے سے مانگی گئی دعا بھی قبولیت سے نوازی جاتی ہے۔
حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا :
دعوۃُ ذِی النونِ إذ دعا و ھو فی بطنِ الحوتِ : {لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ} فإنہُ لم یَدْعُ بھا رجلٌ مسلمٌ فی شئ قَطُّ إلا استَجَابَ اللهُ لَہُ۔
1۔جامع الترمذی، 2 : 188
2۔مسند احمد بن حنبل، 1 : 170
3۔مسند ابو یعلی، 2 : 111، رقم : 772
4۔المستدرک للحاکم، 1 : 505
5۔المستدرک للحاکم، 2 : 3۔382
6۔شعب الایمان للبیہقی، 1 : 432، رقم : 620
7۔عمل الیوم والیلۃ للنسائی : 416، رقم : 656
8۔الترغیب والترہیب، 2 : 488
امام حاکم نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے جبکہ امام ذہبی نے بھی ان کی تائید کی ہے۔
مچھلی کے پیٹ والے (نبی یعنی حضرت یونس علیہ السلام) نے مچھلی کے پیٹ میں جو دعا مانگی، وہ یہ تھی : ’’(اے اللہ!) تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تیری ذات پاک ہے، بے شک میں ہی (اپنی جان پر) زیادتی کرنے والوں میں سے تھا۔‘‘ بے شک جب کبھی کسی مسلمان مرد (و عورت) نے کسی بھی (جائز) مقصد کے لیے ان الفاظ سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے قبول کیا۔
بارگاہِ الوہیت کے آداب جو اللہ کے کسی نبی کو ہوتے ہیں وہ کسی بھی دوسرے ولی اور مقرب بندے کو نہیں ہوسکتے اور اسی طرح درجہ بدرجہ ان آداب کی حقیقی معرفت میں کمی آجاتی ہے، اس باب میں اسی بنا پر خواص اور عوام میں فرق رکھا جاتا ہے اور نیکو کاروں کی حسنات ابرار کی سیئات ٹھہرتی ہیں۔
جب اللہ کا نبی بارگاہ الوہیت کی کمال معرفت رکھتے ہوئے اور آداب ربوبیت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اور سراپا ادب بن کر عرض کناں ہوتا ہے تو اس کا ہر ہر لفظ قبولیت و اجابت الہٰی کے شرف سے سرفراز ہوتا ہے اور اگر ایسی دعا سے توسُّل کرتے ہوئے بارگاہ الوہیت میں کوئی التجاء کی جائے تو زبانِ نبوت کی ضمانت پر وہ ردّ نہیں ہوتی بلکہ شرفِ قبولیت سے ہمکنار ہوتی ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved