گذشتہ باب میں ہم نے مفہوم توسُّل کی وضاحت کے لئے بے شمارآیات قرآنی میں سے صرف چند آیات کا ذکر کیا جن سے صراحت کے ساتھ توسُّل کا جواز ثابت ہوا۔ اگر دین کی حقیقی روح کو سمجھتے ہوئے ہم ان ارشادات باری تعالیٰ پر غور کریں تو نفس مسئلہ سے متعلق بہت سی غلط فہمیاں خود بخود دور ہوجائیں گی اور صحیح اسلامی عقیدہ سمجھ آجائے گا کہ کون دین حنیف پر اعتدال کے ساتھ گامزن ہے اور کون غلط فہمیوں کی بنا پر راہِ اعتدال سے ہٹ گیا ہے۔ اس باب میں ہم توسُّل کے عدم جواز پر وارد ہونے والے بعض اعتراضات کا رد کریں گے اور جو درست موقف ہے اسے قرآن و حدیث کے دلائل کی روشنی میں اجاگر کریں گے، یہ باب دو فصلوں پر مشتمل ہے۔ پہلی فصل میں ان آیات کا صحیح مفہوم پیش کیا جائے گا جن کی غلط تاویلات کر کے کہا جاتا ہے کہ یہ توسُّل کے عدم ِجواز پر دلیل ہیں اور دوسری فصل میں ذات انبیاء و صلحاء سے توسُّل کے حوالے سے ایک ایک اعتراض کا جواب شرعی دلائل کی روشنی میں دیتے ہوئے صحیح موقف بیان کریں گے۔
بعض لوگ حضور نبی اکرمﷺکی ذات اقدس کے وسیلے کا یہ کہہ کر انکار کردیتے ہیں کہ چونکہ یہ توسُّل اپنا عمل نہیں اس لئے جائز نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کے نزدیک صرف متوسِّل کا اپنا عمل صالح ہی وسیلہ بن سکتا ہے۔ وہ عمل غیر سے توسُّل کے عدم جواز پر مندرجہ ذیل آیات پیش کرتے ہیں :
1۔ لَیْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعٰیo
النجم، 53 : 39
ہر انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔
2۔ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ أُخْرٰی۔
الانعام، 6 : 164
اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔
3۔ لَھَا مَا کَسَبَتْ وَ عَلَیْھَا مَا اکْتَسَبَتْ۔
البقرہ، 2 : 286
اس نے جو نیکی کمائی اس کیلئے اس کا اجر ہے اور اس نے جو گناہ کمایا اس پر اس کا عذاب ہے۔
توسُّل بالغیر پر صحیح موقف یہ ہے کہ وسیلہ پکڑنے والے کے علاوہ کسی دوسرے کا عمل بھی وسیلہ بن سکتا ہے۔ درحقیقت توسُّل کے عدم ِجواز میں جو آیات بطور دلیل پیش کی جاتی ہیں ان کا تعلق عمل اور جزائے عمل سے ہے۔ نہ کہ قبولیت دعا اور تقرب الی اللہکے لئے وسیلہ ڈھونڈنے سے۔ توسُّل میں اللہ کے حضور اپنی حاجت کی تکمیل کیلئے کسی محبوب شے اور برگزیدہ ہستی کا وسیلہ پیش کیا جاتا ہے جبکہ ان آیات کا تعلق وسیلے سے ہرگز نہیں اور نہ ہی وسیلہ ان کا نفسِ مضمون ہے۔
لَیْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعٰی کا تو فقط یہ مطلب ہے کہ انسان کو جو کچھ ملے گا وہ اس کے اپنے اعمال کی جزا ہوگی۔ توسُّل کی بحث جزا اور عمل سے نہیں بلکہ دعا اور دعا کے وقت اس کی قبولیت کیلئے کسی کو وسیلہ بنانے سے ہے۔
اسی طرح وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ أُخْرٰی کا تعلق گناہ کے بوجھ اور جواب دہی کے تصور سے ہے اور کوئی جان دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔
لَھَا مَا کَسَبَتْ وَ عَلَیْھَا مَا اکْتَسَبَتْ کا تعلق عمل اور جزائے عمل سے ہے۔ تو معلوم ہوا کہ یہ جملہ آیات اپنے موضوع کے اعتبار سے توسُّل کی بحث سے خارج ہیں۔ عمل غیر سے توسُّل پر مسلم شریف کی صحیح حدیث دلیل قوی ہے:
عن اُبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ أن رسول اللہﷺ قال : إذا مات الإنسان انقَطَعَ عنہ عملہ إلا من ثلثۃٍ : إلا من صدقۃ جاریۃٌ، أو علم یُنْتَفَعُ بہ، أو ولدٍ صالحٍ یَدعولہ۔
1۔صحیح مسلم، 2 : 41 5۔مسند احمد بن حنبل، 2 : 372
2۔سنن ابو داؤد، 2 : 42 6۔السنن الکبریٰ للبیہقی، 6 : 278
3۔سنن النسائی، 2 : 132 7۔شرح السنۃ للبغوی، 1 : 300،رقم : 139
4۔جامع الترمذی، 1 : 165 8۔مشکاۃ المصابیح : 32
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا : جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو اس کے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں، لیکن تین عمل منقطع نہیں ہوتے : صدقہ جاریہ، علم نافع اور نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرتی رہتی ہے۔
اس حدیث مبارکہ کی رو سے انسان کے مندرجہ ذیل تین اعمال کو موت بھی ختم نہیں کرسکے گی اور ان کا اجر و ثواب اسے بعد از وصال بھی ملتا رہے گا :
1۔ ان اعمال میں سے پہلا صدقہ جاریہ ہے جیسے کوئی مسجد، درسگاہ یا کوئی سڑک، ہسپتال و غیرہ کا مفادِ عامہ کے لیے تعمیر کرا نا، یا دین کی ترویج و اشاعت اور احیائے اسلام کیلئے کوئی مالی تعاون کرنا، یا غریب و مفلس لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی رفاہی ادارہ (welfare society) قائم کرنا یا کسی ایسی تنظیم یا فلاحی ادارے کو فنڈز مہیا فلاح و بہبود کے ان کاموں کا ثواب اسے ہمیشہ ملتا رہے گا جب تک کہ یہ قائم رہیں گے۔
2۔ اسی طرح علم نافع ہے۔ کوئی عالم دین کسی کو پڑھائے اور درس و تدریس کے سلسلہ کو جاری رکھے یا علمی و دینی مسائل پر کوئی کتاب لکھ دے یا کوئی محقِّق تحقیق کرے، اس کے بعد جب تک اس کے شاگردوں کے ذریعے علم و تحقیق کی ترویج ہوتی رہے یا وہ کتاب دنیا میں پڑھی جاتی رہے اور لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے رہیں، اس کا ثواب اسے ملتا رہے گا۔
3۔ صدقہ جاریہ اور علم نافع کے بارے میں تو سب کا اتفاق ہے کہ یہ وسیلہ بن سکتے ہیں لیکن حدیث پاک میں ولد صالح کا ذکر بھی ہے کہ وہ بھی والدین کے حق میں صدقہ جاریہ کا ذریعہ ہیں اس کے نیک اعمال سے بھی والدین کو بعد از وفات نفع پہنچتا ہے۔ بلاشبہ ولدِ صالح کے اعمال، عمل غیر کے زمرے میں آتے ہیں جو والدین کے لئے وسیلہ بن جاتے ہیں۔
یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ نیک اعمال اولاد نے سر انجام دیئے ہیں لیکن والدین کی وفات کے بعد یہی اعمال صالحہ ان کی مغفرت کا وسیلہ بن رہے ہیں تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ کسی ایک شخص کے عمل دوسرے کے لئے نفع رساں ہو رہے ہیں، جبکہ صدقہ جاریہ اس کا اپنا عمل تھا جواس نے کیا اس کا ثواب اسے بہرحال ملتا رہے گا اور اسی طرح کا معاملہ علم و تحقیق کے ساتھ ہے جس کے ذریعے اس نے رشد و ہدایت کو پھیلایا، یہ بھی اس کا ایسا عمل تھا جس کا اجر بھی اسے ملتا رہے گا۔ لیکن ولد صالح کے اعمال صالح میت کے اپنے عمل نہ ہونے کے باوجود اس کے لئے باعث ثواب بن رہے ہیں اور وہ ولد صالح والدین کی بخشش و مغفرت کا وسیلہ بن رہا ہے۔ لہذا اس صحیح حدیث سے ثابت ہوا کہ یہ عقیدہ درست نہیں کہ وسیلہ انسان کا صرف اپنا عمل صالح ہی بنتا ہے، کسی دوسرے کا عمل وسیلہ نہیں بنتا بلکہ عمل غیر بھی باعث نفع بنتا ہے۔
اس اصول پر قائم رہتے ہوئے کہ متوسِّل کے اپنے اعمال کا وسیلہ جائز ہے غیر کا وسیلہ جائز نہیں بعض لوگ مذکورہ حدیث کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ ولد صالح بیشک اس کا بیٹا ہے اور اس کے نسب سے ہے، نفسا ًغیر بھی ہے لیکن اس کے باپ کی تربیت نے اسے نیک و صالح بنایا ہے اس بنا پر وہ جو عمل کرے گا وہ اسی کا بالواسطہ عمل تصور ہوگا اور وہ جو اعمال صالحہ بجا لائے گا اس کا اجر اس کے باپ کو بھی ملے گا اور یوں بالواسطہ یہ اسی کے اعمال کے کھاتے میں شمار ہوں گے۔ اور اس پر یہ حدیث بطور دلیل پیش کی جاتی ہے :
من سنَّ فی الإسلام سُنۃً حسنۃً، فلہ أجرھا، و أجر من عمل بھا بعدہ۔
1۔صحیح مسلم،1 : 327
2۔مسند احمد بن حنبل،4 : 359،357
3۔السنن الکبریٰ للبیہقی، 4 : 175
4۔فتح الباری، 13 : 302
جس نے اسلام میں کوئی نیک طریقہ ایجاد کیا تو اس کو اس کا اجر ملے گا اور اس کا بھی جس نے اس کے بعد اس پر عمل کیا۔
ا س حدیث کی یہاں یہ تاویل غلط ہے۔ اسی طرح جس طرح وہ بعض آیات کی اپنے موقف کے مطابق غلط تاویلات کرتے ہیں جن کا اصل موضوع سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔اگر سامع و مخاطب با شعور اور صاحب علم ہو تو وہ حقیقت حال سے آگاہ ہوجاتا ہے جبکہ عام آدمی صرف ان آیات کو سن کر ہی پریشان ہوجاتا ہے۔ مزید برآں آیات کی تلاوت تک ہی بات ختم نہیں کی جاتی بلکہ ان آیات کی من پسند تفسیر اور تاویل کر کے مخاطب کو پریشان بھی کیا جاتا ہے اور وہ اپنی کم علمی کی بنا پر یہ سمجھ لیتا ہے کہ آیات کا حقیقی مطلب و مفہوم یہی ہے۔ ایسی صورت میں جبتک وہ صحیح العقیدہ صاحب علم کی طرف رجوع نہ کرے تو وہ تشکیک میں مبتلا رہتا ہے۔ سو ایسی صورت حال میں ان صاحبان علم و معرفت کی طرف رجوع کرنا چاہیے جو واقفانِ حال ہوں اور علم و عمل کا پیکر اور اہل ذکر ہوں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَسْئَلُوْا أَھْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo
النحل، 16 : 43
سو تم اہل ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہو۔
اس حدیث پاک میں یہچیز زیر بحث نہیں کہ ولد صالح کا عمل والدین کا بالواسطہ عمل ہے یا نہیں بلکہ بالصراحت بیان یہ ہو رہا ہے کہ اعمال میں سے اولاد کے اعمال صالح کا ثواب والدین کو ملتا ہے اور ظاہر ہے کہ وہ بعد از وفات نیک عمل کر کے والدین کو ایصال ثواب کریں گے جس سے ان کو فائدہ ہو گا۔
اسی طرح توسُّل کے رد میں جو سوچی سمجھی(premeditated)آیات ان کا موقع محل اور اطلاق دیکھے بغیر تلاوت کی جاتی ہیں تاکہ اس طریقے سے نفسِمسئلہ کا عدم جواز ثابت ہوجائے، ان میںایک آیت کریمہ یہ بھی ہے :
وَ إِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ ط أُجِیْبُ دَعْوَۃِ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا ِلیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَo
البقرہ،2 : 186
اور (اے حبیب!) جب میرے بندے آپ سے میری نسبت سوال کریں تو (بتا دیا کریں کہ) میں نزدیک ہوں، میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے، پس انہیں چاہیے کہ میری فرمانبرداری اختیار کریں اور مجھ پر (پختہ) یقین رکھیں تاکہ وہ راہِ (مراد) پاجائیں۔
اس آیت کریمہ سے یہ موقف ثابت کرنا کہ اللہ کے علاوہ کسی غیر کو پکارنا جائز نہیں ہے کیونکہ باری تعالیٰ ہر پکارنے والے کی پکار کو خود سنتا بھی ہے اور اسے شرف قبولیت سے بھی نوازتا ہے درست نہیں۔ صحیح موقف یہ ہے کہ بے شک دعاؤں کا سننے والا اور اسے قبول کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے اور وہی حاجت روا ہے لیکن اس سے مانگتے وقت اس کے کسی نبی، رسول اور ولی کو اس کی بارگاہ میں دعا کی قبولیت کیلئے بطور وسیلہ پیش کرنا بھی جائز ہے جس پر ہم نے گزشتہ باب میں تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔
شفاعت اور توسُّل کے عدم جواز پر یہ آیات بھی بطور دلیل پیش کی جاتی ہیں :
1- وَ اتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا وَّ لَا یُقْبَلُ مِنْھَا شَفَاعَۃٌ وَّ لَا یُؤْخَذُ مِنْھَا عَدْلٌ وَّ لَا ھُمْ یُنْصَرُوْنَO
البقرہ، 2 : 48
اور اس دن سے ڈرو جس دن کوئی جان کسی دوسرے کی طرف سے کچھ بدلہ نہ دے سکی گی اور نہ اس کی طرف سے (کسی ایسے شخص کی) کوئی سفارش قبول کی جائے گی (جسے اذنِ الٰہی حاصل نہ ہوگا) اور نہ اس کی طرف سے (جان چھڑانے کیلئے) کوئی معاوضہ قبول کیا جائے گا اور نہ (امرِ الٰہی کے خلاف ) ان کی امداد کی جاسکے گی۔
اس ضمن میں بطور خاص یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ شفاعت کے انکار کے حوالے سے جتنی بھی آیات کا حوالہ دیا جاتا ہے وہ ساری کفار و مشرکین اور منافقین پر صادق آتی ہیں جو دوزخ کا ایندھن ہیں۔ ان کا اطلاق مومنین پر نہیں ہوتا اس لیے کہ شفاعت کا موضوع تو مومنین کیلئے ہے، یہ کفار و مشرکین کا سرے سے موضوع ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شفاعت کی نفی کفار و مشرکین کیلئے کی جارہی ہے۔ روز آخرت انبیاء و صالحین شفاعت کریں گے، ہمارے آقا و مولا حضور ﷺشفاعت کبری کے منصب جلیلہ پر فائز ہوں گے تو اس وقت کفار و مشرکین بھی چیخ و پکار کر رہے ہوں گے :
2- فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِیْنَOوَ لَا صَدِیْقٍ حَمِیْمٍO
الشعراء، 26 : 100 ۔ 101
سو (آج) نہ کوئی ہماری سفارش کرنے والا ہے۔ اور نہ کوئی گرم جوش دوست ہے۔
کفار و مشرکین کا روز محشر چیخ و پکار کرنے کا واضح مطلب یہ ہے کہ قیامت کے روز شفاعت ہوگی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کفار و مشرکین کی چیخ و پکار کا کوئی محل نہ ہوتا۔ ان کا واویلا مچانا خود اس آیت سے شفاعت کے ثبوت اور وقوع کو ثابت کر رہا ہے، اور اس انتفاع کا مفہوم ہی یہ ہے کہ یہ ساری چیزیں شفاعت کی ہوں گی مگر مومنین کیلئے نہ کہ کفار و مشرکین کیلئے۔
لہذا کفار ومشرکین کے بارے میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق اہل ایمان پر کرنا اور ان آیات کو شفاعت کے عدمِ جواز کی دلیل بنانا حقیقت کا منہ چڑھانے کے مترادف ہے، اس لئے کہ شفاعت کا تعلق کفار و مشرکین سے نہیں۔ کفار کے حق میں شفاعت کی نفی سے اہل ایمان کے حق میں شفاعت کی نفی ثابت نہیں ہوتی۔ مومنین کے حق میں شفاعت نصِّ قرآن و حدیث سے ثابت شدہ حقیقت ہے۔
مختلف فیہ مسائل اور معاملات کے حوالے سے پیش کی جانے والی آیات کا صحیح مفہوم جاننے کیلئے حدود صحت کا تعین کرنا اشد ضروری ہے۔ مناظرانہ اور فرقہ وارانہ ماحول میں خلافِ حقیقت فریق مخالف کو نیچا دکھانے کیلئے آیات کا صحیح معنی و مفہوم دانستہ فریق مخالف کو آزمائش اور پریشانی میں ڈالنے کیلئے آیات کے غلط اطلاق کا سہارا لیتا ہے اور اپنے تئیں وہ سمجھتا ہے فریق مخالف شکست سے دوچار ہوجائے گا۔ ایسی صورت حال میں آیات کی حدود ِصحت کا تعین کرنا چاہیے اور جمہور اہل اسلام کے ہاں قرآن و سنت کی روشنی میں آیت کا جو صحیح مفہوم بنتا ہو اور اس کا تعلق جس موضوع سے ہو اسے نظر انداز کر کے ہرگز ادھر ادھر کی باتوں میں نہیں الجھنا چاہئے۔ اس طریقے سے صحیح عقیدہ بھی واضح ہوجاتا ہے اور مسلمانوں کے باہمی فرقہ وارانہ کشیدگی کے ماحول کو بھی اعتدال پر لانے میں مدد ملتی ہے۔
توسُّل کے عدم جواز پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ چونکہ مشرکین بتوں کی پوجا کرتے ہوئے یہ کہتے تھے کہ ہم تو اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے ان کی عبادت کرتے ہیں لہذا جس طرح تقرب الٰہی کے لئے ان بتوں کی عبادت کرنا ناجائز اور ناپسندیدہ فعل ٹھہرا، اسی طرح اب اگر کوئی اللہ کے قرب کے لئے کسی کا توسُّل کرے تو وہ بھی اسی طرح ناجائز ہے۔ منکرین توسُّل بطور دلیل قرآن پاک کی یہ آیت کریمہ پیش کرتے ہیں:
مَا نَعبْدُھُمْ إِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَآ إِلَی اللهِ زُلْفٰی۔
زالزمر،39 : 3
ہم تو ان کی پرستش محض اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہم کو اللہ کا مقرب بنا دیں۔
اس آیت کریمہ سے واضح ہوا کہ مشرکین بتوں کی پوجا اللہ کا قرب حاصل کرنے کیلئے کرتے تھے وہ انہیں معبود سمجھ کر عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ اللہ کے قرب کیلئے وسیلہ تصور کرتے تھے جبکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس وسیلے کو رد کردیا۔ لہذا وسیلہ و توسُّل جائز نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے مذکورہ بالا آیت کریمہ توسُّل کے انکار اور رد میں ہے ہی نہیں۔ توسُّل کے عدم جواز پر یہ بالکل جاہلانہ اور متعصبانہ استدلال ہے۔ یہ آیت کریمہ غیر اللہ کی عبادت کے حرام ہونے پر نصِّ قطعی کا حکم رکھتی ہے، اور اس حرمت کو کوئی دلیل جواز و حلّت میں نہیں بدل سکتی۔ مشرکین بتوں کی عبادت کرتے تھے، اسلام نے اسے ناجائز قرار دے دیا، اور اسے شرک و کفر قرار دیا جب ان کی بت پرستی کو اسلام نے حرام اور شرک قرار دیا تو اس کے جواز میں انہوں نے یہ دلیل پیش کی اور بجائے اس کے کہ وہ بتوں کی عبادت سے برات کا اظہار کرتے اور اس حرام فعل کو ترک کردیتے، وہ ڈھٹائی سے دلیل ِجواز کے در پے ہوئے کہ ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں مگر معبود سمجھ کران کی عبادت نہیں کرتے بلکہ اس لیے ان کی عبادت کرتے ہیں تاکہ ان کے ذریعے ہمیں اللہ کا قرب نصیب ہوجائے یعنی ہم تقرب الی اللہ کیلئے انہیں وسیلہ بناتے ہیں۔
مذکورہ آیت کریمہ میں اس دلیل کو رد کردیا گیا کہ اگر کوئی تقرب اور وسیلہ کے ارادے سے بھی غیر اللہ کی عبادت کرے تو پھر بھی یہ شرک اور حرام قطعی ہے، کوئی دلیل اس کو جائز نہیں کرسکتی۔
اب سوال یہ ہے کہ مشرکین نے اپنے مشرکانہ اور حرام فعل کو جائز ثابت کرنے کیلئے توسُّل کی دلیل کیوں دی؟ یہ بڑی بدیہی بات ہے کہ دلیل دینے والا ہمیشہ اپنے مخاطب کے نظریات و عقائد کو سامنے رکھتا ہے، اسی تناظر میں وہ ایسی دلیل لاتا ہے جو اس کے فریق مخالف و مخاصم کیلئے نہ صرف قابل قبول بلکہ اس کے اعتقاد کا حصہ بھی ہوتی ہے۔ اس دلیل پر انحصار کرتے ہوئے وہ اپنے مخاطب کو وہ دلیل دیتا ہے کہ شاید اس دلیل کی وجہ سے اس کا فعل جائز ہوجائے جبکہ اس کے برعکس اگر اسے یہ معلوم ہو کہ بت پرستی مخاطب کے نزدیک مردود ہے اور بتوں کا توسُّل بھی مردود ہے تو ایسی دلیل وہ کبھی بھی نہیں دے گا۔ یا یوں کہہ لیں اگر انہیں یہ معلوم ہو کہ بت پرستی شرک ہے اور توسُّل بھی شرک ہے تو ایسی صورت میں بت پرستی کے جواز کیلئے وہ توسُّل کی دلیل کیوں دیتے ؟گویا مشرکین کا بت پرستی کے مشرکانہ فعل کے جواز کیلئے توسُّل کی دلیل دینا اس بات کا اظہار تھا کہ شاید اس جائز فعل… دلیلِ توسُّل سے امرِ حرام یعنی بت پرستی کا کوئی جواز نکل آئے۔ وہ بخوبی جانتے تھے حضور نبی اکرم ﷺ اورصحابہ کرام توسُّل کو جائز سمجھتے ہیں اگر انہیں معلوم ہوتا کہ اسلام توسُّل کو جائز نہیں سمجھتا تو وہ کبھی بھی حضور نبی اکرم ﷺاور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بت پرستی کے جواز کیلئے توسُّل کی دلیل پیش نہ کرتے۔ بت پرستی کے جواز کیلئے توسُّل کی دلیل پیش کرنا اس بات کا واضح اظہار تھا کہ توسُّل اسلام میں جائز ہے۔
اللہ رب العزت نے ان کی اس دلیل کو رد کر کے انہیں یہ باور کرایاکہ تمہارا توسُّل عنداللہ بے شک مقبول اور جائز ہی کیوں نہ ہو مگر اس سے شرک جائز نہیں ہوسکتا شرک قطعی حرام ہے۔ توسُّل جیسی ارفع دلیل بھی بت پرستی کو شرک سے پاک نہیں کرسکتی۔ لہذا شرک شرک ہی رہا۔اس کے جواز کیلئے دی جانے والی دلیل کو اللہ رب العزت نے قبول نہیں کیا۔ اسی لیے باری تعالی نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا:
إِنَّ اللهَ لَا یَغْفِرُ أَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ۔
النساء، 4 : 48
بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس سے کم تر (جو گناہ بھی ہو) جس کے لئے چاہتا ہے بخش دیتا ہے۔
وہ ہر گناہ کو معاف کردیتا ہے مگر فعلِ شرک کو معاف نہیں کرتا۔ گویا شرک ایسا فعل ہے جو ہر حال میں ناقابل قبول اور ناقابل معافی ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ مذکورہ آیہ کریمہ کی رو سے شرک رد ہوا، توسُّل رد نہیں ہوا۔
یہ بات بالکل اسی طرح ہے جیسے (معاذ اللہ) کوئی بیٹاماں کو جوتی سے مار رہا ہو اور باپ بیٹے کا ہاتھ روک کر پوچھے کہ ماں کو کیوں مار رہے ہو؟ بیٹا جواب میں کہے کہ میں ماں کو کبھی بھی نہ مارتا اور مجھے معلوم ہے کہ یہ ناپسندیدہ کام ہے مگر میں نے یہ سارا کچھ اس لیے کیا کہ وہ غلیظ گالیاں دے رہی تھیں۔ مارنے کے جواز کے بارے میں بیٹے کی اس دلیل کے پیچھے اس کا یہ خیال کارفرما تھا کہ باپ کو گالیاں دینے سے شدید نفرت تھی۔ اُس کی اِس نفسیات کو جان لینے سے بیٹے کا گمان غالب یہ تھا کہ شاید گالیاں دینے والی دلیل کام کر جائے گی اور اس کی حرکت پر باپ کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے گا اور وہ کہے گا : بیٹا !تم نے اپنی ماں کو مار کر اچھا کیا ہے اور تمہیں ایسا ہی کرنا چاہئے تھا۔ غلیظ گالیاں دینے پر اسے ایسا ہی سبق ملنا چاہئے۔ مگر باپ نے یہ کہنے کی بجائے بیٹے کو دو چار تھپڑ رسید کردیئے اور اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ٹھیک ہے گندی گالیاں دینا اچھی بات نہیں مگر پھر بھی وہ تمہاری ماں ہے، تمہیں اس کو مارنے کا کوئی حق نہیں۔ اس طرح بیٹے نے اپنی ماں کو مارنے کی جو دلیل دی وہ بلاجواز تھی اور باپ نے اسے رد کردیا۔
بتوں کی پوجا کے بارے میں جب کفار و مشرکین سے پوچھا جائے گا تو اسی طرح وہ کہیں گے کہ ہم انہیں معبود تو نہیں سمجھتے محض توسُّل کے لئے ان کی عبادت کرتے ہیں۔ غیر اللہ کی پرستش کے جواز میں ان کی دلیل توسُّل کو اس بنا پر رد کردیا جائے گا کہ تمہاری اس دلیل سے بت پرستی کو جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔
ایک ناپاک چیز کو پاک چیز کی دلیل سے پاک نہیں کیا جاسکتا۔ یا ایک حرام فعل کو محض دلیل جواز سے حلال نہیں کیا جاسکتا جیسے کوئی کہے کہ میں شراب پیتا ہوں۔ اس سے کوئی پوچھے کہ شراب کیوں پیتے ہو؟ اوروہ کہے : غم غلط کرنے کیلئے پیتا ہوں۔ تو اسے کہا جاسکتا ہے کہ غم دور کرنے کے شراب نوشی کے فعل حرام کے سوا اور بھی بے شمار طریقے ہیں، مثلا انسان باغ میں سیر کرے، ورزش کرے، صبح کی ٹھنڈی فضا میں سانس لے، ذکر و اذکار کرے، عبادات و نوافل ادا کرے وغیرہ۔
اب جہاں تک فی نفسہ غم غلط کرنے کی دلیل کا تعلق ہے تو یہ جائز ہے مگر اس دلیل سے شراب کیسے حلال ہوسکتی ہے۔ دلیل جواز سے شراب کی حرمت ختم نہیں ہوسکتی کہ غم غلط کرنے کی دلیل سے شراب کا پینا حلال سمجھا جائے۔ اسی طرح جب کفار و مشرکین سے پوچھا جائے کہ بت پرستی کیوں کرتے ہو؟ اور وہ کہیں : ہم ان کی عبادت اس لیے کرتے ہیں تاکہ ان کے ذریعے اللہ کا قرب مل جائے۔ ان کی اس دلیل کو اس لئے رد کر دیا گیا کہ توسُّل سے بت پرستی اور شرک جائز نہیں ہوسکتا۔
جہاں تک باری تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا تعلق ہے تو اس کے بے شمار جائز طریقے موجود ہیں۔ بت پرستی اس کا قرب حاصل کا طریقہ نہیں ہے، یہ تو حرام اور شرک ہے۔ اس لیے اللہ تعالی کا قرب پانے کیلئے جائز طریقوں کو استعمال میں لایا جائے تاکہ اس کا حقیقی قرب اور اس کی رضا و خوشنودی ملے، جبکہ بت پرستی قرب الٰہی کا نہیں بلکہ عذاب الٰہی کا باعث بنتی ہے۔
ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ جن مقربین کو لوگ اپنا وسیلہ بناتے ہیں ان کا تو خود اپنا حال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قرب کے لئے وسیلے کے متلاشی رہتے ہیں لہذا وہ کس طرح دوسروں کے لئے وسیلہ بن سکتے ہیں؟اس لئے انبیاء و اولیاء کا وسیلہ درست نہیں۔ اس غلط موقف کو صحیح ثابت کرنے کے لئے معترضین قرآن حکیم کی جس آیت کو تاویل کے غلط معنی پہناتے ہیں، وہ درج ذیل ہے:
أُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ إِلٰی رَبِّھِمُ الْوَسِیْلَۃَ أَیُّھُمْ أَقْرَبُ۔
بنی اسرائیل،17 : 57
یہ لوگ جن کی عبادت کرتے ہیں (یعنی ملائکہ، جنات، حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت عزیر علیہ السلام وغیرھم کے بت اور تصویریں بنا کر انہیں پوجتے ہیں) وہ (تو خود ہی) اپنے رب کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ ان میں سے (بارگاہِ اِلٰہی میں) زیادہ مقرّب کون ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ آیت کریمہ توسُّل کے جواز پر بہت بڑی دلیل ہے۔ اس سے جو یہ بات ثابت کرنے کی سعی کرتے ہیں کہ انبیاء و صلحاء کا خود اپنا حال یہ ہے کہ وہ اللہ کی بارگاہ کا قرب حاصل کرنے کیلئے وسیلہ تلاش کرتے ہیں، لہذا دوسروں کے لئے وسیلہ نہیں بن سکتے، ان کا یہ استدلال غلط ہے۔ لیکن ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ جو خود نیکوکار اور مقرب الٰہی ہیں وہ کس کا وسیلہ تلاش کرتے ہیں، قرآن نے اس کا جواب یہ دیاکہ
أَیُّھُمْ أَقْرَبُ : وہ جو ان میں سے اللہ کے زیادہ قریب ہیں وہ انہیں اللہ کی بارگاہ میں اپنا وسیلہ بناتے ہیں۔ گویا مقرب لوگ اقرب الی اللہ کا وسیلہ تلاش کرتے ہیں۔ غرضیکہ وہ لوگ جو اللہ کے زیادہ مقرب ہیں اور اقرب الی اللہ ہیں ان کا اپنا عمل یہ ہے کہ وہ ہروقت وسیلے کی تلاش میں رہتے ہیں۔ وہ اپنے سے زیادہ مقرب الی اللہ کو تلاش ہی اس لیے کرتے ہیں تاکہ اسے اللہ کی بارگاہ میں وسیلہ بنایا جائے۔ جب توسُّل خود مقربانِ بارگاہِ الٰہی کا عمل ٹھہرا تو یہ عام لوگوں کے لئے بطریق اولیٰ جائز ہونے میں کیا امر مانع ہے؟
انبیاء، اولیاء اور صلحاء سے عدم ِجواز ِتوسُّل پر ایک موقف یہ ہے کہ چونکہ ان کے اعمال ان کے ساتھ خاص ہیں اور وہ ان کیلئے وسیلہ بنتے ہیں تو ایک متوسِّل جس کے اپنے اعمال اس کیلئے وسیلہ ہوںاس کیلئے کوئی دوسرا شخص کیسے وسیلہ بن سکتا ہے۔ یعنی وسیلہ صرف اعمال صالحہ سے درست ہے نہ کہ ذوات ِصالحین سے۔
ہم ان کے اس موقف کو اس لئے درست تسلیم نہیں کرسکتے کیونکہ ہم جو حضور نبی اکرم ﷺ دیگر انبیاء علیہم السلام، اہل بیت اطہار اور اولیاء و صلحاء سے توسُّل کرتے ہیں اور ان کا وسیلہ پیش کرتے ہیں تو یہ اس وجہ سے ہے کہ ہمیں ان سے بے پناہ محبت و عقیدت ہے اور وسیلہ اس کا پیش کیا جاتا ہے جس سے محبت ہو اور یہ مسلمہ امر ہے کہ اللہ کے محبوب، مقرب اور مقبول بندوں سے محبت کرنا بذات خود عملِ صالح ہے اور یہ ایک ایسی دلیل ہے جس کے اثبات پر دلائل شرعیہ شاہد ہیں جنہیں کسی دلیل سے رد نہیں کیا جاسکتا۔
اللہ کے بندوں سے محبت کی وجہ سے متوسِّل بارگاہ الٰہی میں اپنا ہی عمل پیش کرتا ہے کہ اے مولا کریم !مجھے جو تیرے پیارے حبیب ﷺسے محبت ہے اور آپﷺکے خلفاء راشدین، صحابہ کرام، تابعین و تبع تابعین اور اولیاء و صلحاء رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے محبت ہے، اپنے اس عمل محبت کا واسطہ اور وسیلہ تیری بارگاہ میں پیش کرتا ہوں کہ میری فلاں حاجت پوری فرمادے۔ گویا اللہ کے بندوں کی محبت دعا کی قبولیت کیلئے وسیلہ بن جاتی ہے اور بلاشبہ محبوبان الٰہی کی محبت جہاں امر الٰہی کی تعمیل ہے وہاں بہت بڑا عمل صالح بھی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
قال رسول اللہ ﷺ : إن اللہ إذا أحب عبدا، دعا جبریل عليه السلام فقال : إنی أُحِبُّ فلانًا فأحبہ۔ قال : فیحبہ جبریل۔ ثم یُنادِی فی السماء، فیقول : إن اللہ یُحِبُّ فلانًا فأحِبُّوْہُ فیُحِبُّہٗ أھل السماء۔ قال : ثم یُوضَعُ لہ القَبُولُ فی الأرض۔
1۔الصحیح لمسلم، 2 : 331
2۔صحیح البخاری، 1 : 456
3۔صحیح البخاری، 2 : 1115، 892
4۔مؤطا امام مالک : 723
5۔مسند احمد بن حنبل، 2 : 413
6۔مشکاۃ المصابیح : 425
رسول اللہﷺ نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل کو بلاتا ہے اور فرماتا ہے : میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو۔ سو جبرئیل بھی اس سے محبت کرتا ہے۔ پھر جبرئیل آسمان میں ندا کرتا ہے کہ اللہ تعالی فلاں سے محبت کرتا ہے تم بھی فلاں سے محبت کرو، پھر آسمان والے اس سے محبت کرتے ہیں۔ پھر اس کی محبت کو زمین (یعنی دنیا میں) اتار دیا جاتا ہے۔
سب سے پہلے باری تعالیٰ نے اپنے بندے کو اپنا محبوب بنایا، پھر جبرئیل امین اور سب فرشتوں کو حکم دیا کہ تم بھی اس بندے سے محبت کرو۔ فرشتوں نے تعمیل امر کرتے ہوئے اس بندے کو اپنا محبوب بنالیا۔ یوں ساری آسمانی دنیا اللہ کے اس محبوب بندے کی محبت میں حکم الٰہی کے تحت شریک ہوگئی۔ بات یہاں تک ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ باری تعالیٰ نے اپنے اس بندے کی محبت کو اہل زمین کے دلوں میں اتار دیا اور اس بندے کی محبت و مقبولیت کو اس طرح عام کردیاکہ ہر کوئی اس سے محبت کرنے لگا۔گویا اللہ والوں سے محبت کرنا یہ اللہ ہی کا حکم ہے۔ اس اعتبار سے یہ عمل خود ایک ایسا عملِ صالح ہے جس میں اللہ رب العزت نہ صرف خود شریک ہے بلکہ اپنے ملائکہ اور زمینی مخلوق کو بھی اس میں شریک کر رہا ہے۔ جب یہ عمل سنت ِالٰہیہ ہونے کے ساتھ ساری زمینی و آسمانی مخلوق کا مقبول عمل ٹھہرا تومتوسِّل کے حق میں اس سے بڑھ کر عمل صالح اور کیا ہوسکتا ہے۔
حقیقی محبت وہ عمل صالح ہے جو محب کو محبوب کی قربتوں کے مقام پر فائز کرتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
جاء رجلٌ إلی رسول اللہ ﷺ، فقال : یا رسول اللہ! متی قیام الساعۃِ؟ فقام النبیﷺ الی الصلوۃ، فلما قضی صلاتَہُ، قال : أین السائِلُ عن قیامِ الساعۃِ؟
فقال الرجلُ : أنا، یا رسول اللہ۔
قال : ما أعددتَ لھا؟ قال : یا رسول اللہ! ما أعددتُ لھا کبیر صلاۃٍ و لا صومٍ إلا أنی أُحِبُّ اللہ و رسولہ۔ فقال رسول اللہﷺ : المرء مع من أحب و أنتَ مع من أحببتَ۔ فما رأیت فَرِحَ المسلمونَ بعد الإسلام فَرحَھُمْ بھٰذا۔ز
ایک شخص حضور نبی اکرمﷺکی خدمت میں آیا اور اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ! قیامت کب آئے گی؟ حضور نبی اکرمﷺنماز کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ نماز سے فارغ ہو کر آپﷺنے فرمایا : قیامت کے متعلق پوچھنے والا کہاں ہے؟ اس شخص نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں حاضر ہوں۔آپ ﷺنے فرمایا : تم نے قیامت کیلئے کیا تیاری کی ہے؟ اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ! نہ تو میں نے بہت زیادہ نمازیں پڑھی ہیں اور نہ ہی بے شمار روزے رکھے ہیں مگر اتنی بات ضرور ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺنے یہ سن کر فرمایا : (قیامت کے دن) انسان اس کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا ہے اور تیرا حشر بھی اسی کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ تجھے محبت ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ اسلام لانے کے بعد مسلمانوں کو جتنی خوشی اس بات سے ہوئی، میں نے انہیں کسی اور بات سے اتنا خوش ہوتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔
1۔جامع الترمذی، 2 : 61
2۔مسند احمد بن حنبل، 3 : 200،178، 168،104
3۔ صحیح ابن حبان، 1 : 182، 9۔308، رقم : 8،105
4۔ صحیح ابن حبان، 16 : 345، رقم : 7348
5۔ شرح السنۃ للبغوی، 13 : 4۔60، رقم : 9۔3475
یہ حدیث ذرا مختلف الفاظ کے ساتھ مندرجہ ذیل کتب میں بھی روایت کی گئی ہے :
1۔ صحیح البخاری، 1 : 521
2۔ صحیح البخاری، 2 : 911
3۔ صحیح البخاری،2 : 1059
4۔الصحیح لمسلم، 2 : 332،331
5۔ مصنف عبدالرزاق،11 : 199، رقم : 20317
6۔مسند الحمیدی،2 : 502،رقم : 1190
7۔مصنف ابن ابی شیبۃ،15 : 169، رقم : 19407
8۔ مسند احمد بن حنبل، 3 : 276، 255، 208،207،173،172،167،165،110
9۔ مسند ابی یعلی،5 : 144،رقم : 2758
10۔مسند ابی یعلی، 6 : 256،36، رقم : 3557،1۔3280
11۔صحیح ابن حبان،2 : 4۔323، رقم : 5۔563
12۔المعجم الکبیر، 3 : 183،رقم : 3061
13۔شعب الایمان للبیہقی،1 : 387،380 رقم : 498،462
14۔شعب الایمان للبیہقی،2 : 1۔130، رقم : 1379
15۔ مشکاۃ المصابیح : 426
اس حدیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جہاں نماز، روزہ، زکوۃ اور حج وغیرہ اعمال صالحہ ہیں اور ان کی ادائیگی انسان کو اجر و ثواب کا مستحق قرار دیتی ہے وہاں اس کے ساتھ ساتھ محبت بھی ایسا عمل صالح ہے جس کا اجر محبوب کی قربت ہے۔محبت کے عمل صالح ہونے پر خود حدیث کے الفاظ شاھد ہیں۔ جب حضور نبی اکرمﷺنے سائل سے پوچھا : بتاؤ قیامت کیلئے کیا تیاری کی ہے؟ تو اس کے جواب میں سائل کہتا ہے : یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم! میرے اعمال میں سے نماز، روزہ اور حج جیسے بڑے اعمال تو نہیں ہیںالبتہ اللہ اور اس کے رسول ﷺسے محبت کرنے کا عمل میرے اعمال میں ہے۔ فرمایا : جس طرح ہر عمل کی جزاء ہے، اسی طرح یہ عمل بھی جزا سے خالی نہیں۔ انسان کو جس سے محبت ہوگی قیامت کے روز اس کا حشرو نشر اسی کے ساتھ ہوگا۔ اور جس سے محبت ہوگی قیامت کے روز اسی کی سنگت نصیب ہوگی۔گویا قیامت کے دن محض عمل محبت کی وجہ سے اس کا حشر حضور نبی اکرمﷺ کے ساتھ ہوگا، حضور نبی اکرمﷺ کی معیت حاصل ہوگی۔ہرمحب کا اپنے محبوب کے ساتھ ہوگا۔ حشر کا وعدہ حضورﷺ کا وعدہ ہے اور وعدۂ مصطفے، وعدۂ الٰہی ہے۔ علاوہ ازیں اس وعدے میں عمومیت ہے صحابہ کرام،تابعین، تبع تابعین غرضیکہ حضور نبی اکرم ﷺ کی ساری امت کیلئے یہ وعدہ ہے۔
محبت رسول ﷺ ایک ایسا عمل ہے جو محب کو جہاں دنیا میں محبوب کے بے پناہ لطف و کرم اور نوازشات و عنایات کا مستحق بناتی ہے وہاں آخرت میں بھی محبوب کے قرب اور سنگت سے ہمکنار کرتی ہے۔ چونکہ یہاں لفظ حُبّ عمومی معنی میں استعمال ہوا ہے اس بنا پر اس میں ہر محبت اپنے مقام، مرتبے اور منزلت کے مطابق اس فیض کے حوالے سے شامل ہے۔ اس کی تصدیق حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ سے ہوتی ہے : فما رأیتُ فَرِحَ المسلمونَ بعد الإسلام فَرحَھُمْ بھذا (اسلام لانے کے بعد مسلمانوں کو جتنی خوشی اس بات سے ہوئی، میں نے انہیں کسی اور بات سے اتنا خوش ہوتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔)، یعنی اس ایمان افروز بات نے اہل ایمان کو بے پناہ مسرت دی۔
اس حدیث مبارکہ سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ اللہ کے محبوب اور مقبول بندوں کی محبت، باری تعالیٰ کے لطف وکرم کیلئے وسیلہ بن جاتی ہے اور بندہ جب اس کے حضور دست سوال دراز کرتا ہے تو وہ زبان حال سے یوں کہہ رہا ہوتا ہے : میرے مولا !مجھے جو تیرے حبیب مکرم ﷺسے محبت ہے، صحابہ کرام، اہلِ بیتِ اطہار اور اولیاء و صلحاء سے صرف تیری خاطر جو محبت ہے، میں اس عملِ محبت کا وسیلہ تیری بارگاہ میں پیش کرتا ہوں ان کے صدقے سے میری فلاں حاجت پوری کردے۔ بندے کا اللہ کے مقبولین کے ساتھ یوں اظہارِ محبت اللہ کے ہاں مقبول عمل ہے اور یہی عمل بندے کیلئے وسیلہ بنتا ہے۔
بندہ احکام الٰہی کی بجا آوری میں عبادات، نماز، روزہ، حج اور زکوۃ جیسے فرائض ادا کرتا ہے تمام مسنون و مشروع اعمال صالحہ کو بجا لاتا ہے اس نور عمل سے جہاں وہ ایک طرف امر الٰہی کی تعمیل کرتا ہے تو دوسری طرف وہ ان کے اجر و ثواب کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ اس اجر میں جنت کے انعامات بھی ہیں مگر اس میں سب سے اونچا مقام اللہ کی رضا وخوشنودی ہے۔ اس کے حصول کیلئے بندے کی زندگی کا ہر لمحہ اطاعت الٰہی میں بسر ہوتا ہے۔ وہ صرف مخصوص اوقات میں ہی نہیں بلکہ ہر وقت یاد الٰہی میں مگن رہتا ہے۔ اس کی محبت اور دشمنی کا مرکزو محور اللہ کی ذات ہوجاتی ہے، ایسے ہی محبّانِ الٰہی کیلئے باری تعالیٰ حدیث قدسی میں فرماتا ہے :
وَ جَبَتْ محبتی للمُتَحابِّینَ فیّ، والمُتجالِسینَ فیّ، و المُتَزاوِرینَ فیّ، والمُتَباذِلینَ فیّ۔
میری محبت ان دو بندوں کیلئے واجب ہوچکی ہے جو میری وجہ سے آپس میں محبت رکھتے ہیں اور میری وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بیٹھتے ہیں اور میری وجہ سے ایک دوسرے کی زیارت کرتے ہیں اور میرے واسطے مال خرچ کرتے ہیں۔
اس حدیثِ قدسی میں باری تعالی فرما رہا ہے میرے وہ بندے جو ایک دوسرے سے میری وجہ سے محبت کرتے ہیں اور میری محبت کی وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرنے والوں سے بھی محبت کرتے ہیں تو میری محبت ان کیلئے لازم اور واجب ہوجاتی ہے، میں انہیں اپنا محبوب بنا لیتا ہوں اسلیے کہ ان کا مقصد کوئی دنیوی غرض نہیں ہوتی، وہ میری رضا کے متلاشی بن کر آپس میں مل بیٹھتے ہیں، اور میری ہی خاطر خرچ کرتے ہیں اور میری ہی خاطر ایک دوسرے کی دید کرتے ہیں۔ ایسے بندے ہی میرے لطف و کرم، عطا و عنایات اور محبت کے مستحق ہیں۔ اب ایک متوسِّل کو حضور نبی اکرم ﷺ، اہل بیت اطہار، صحابہ کرام، اور اولیاء و صلحاء سے جو محبت ہے اس محبت کی بنیادمحبت الٰہی ہے اور یہ خالصتاً لِوجہِ اللہ ہے۔ یوں ان ہستیوں سے محبت کرنے والا وَجَبَتْ محبتی للمتحابین فِیّ کے فرمانِ الٰہی کی رو سے اللہ کا محبوب و مقرب بن جاتا ہے۔ متوسِّل کا اپنا یہ عملِ محبت ایسا عمل ہے جو اللہ کی بارگاہ میں عمل ِصالح بھی ہے اور عمل ِمقبول بھی اور یہ دیگر اعمال صالح سے افضل ہے اس لیے کہ اس میں رب تعالیٰ خود شریک ہے اور دوسرے اعمال کی قبولیت کے بارے میں یقین نہیں ہے، ممکن ہے وہ قبول ہوں یا نہ ہوں اور پھر ان کے ذریعے بندہ اللہ کا محبوب بھی بن جائے، مگر اولیاء صلحا سے محبت ایک ایسا عمل مقبول ہے جس کے وسیلہ سے متوسِّل، اللہ کا محبوب بن جاتا ہے اور یوں یہ عمل بدرجہ اتم قبولیت سے شرفیاب ہوتا ہے۔
اللہ کے بندوں سے محبت جہاں انسان کو قرب الٰہی سے نوازتی ہے وہاں اس کے درجات کی بلندی کا وسیلہ بھی بنتی ہے۔ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
قال النبی ﷺ : إن من عباد اللہ لأناسًا ما ھم بأنبیاء و لا شھداءَ، یغبطُھم الأنبیاءُ و الشھداءُ یوم القیامۃ بمکانھم من اللہ۔ قالوا : یا رسول اللہ! تخبرُنا من ھم؟ قال : ھم قومٌ تحابُّوا بروحِ اللہ، علی غیرُ أرحامٍ بینھم، و لا أموال یتعاطَونَھا، فواللہ إن وجوہَھم لنور، و إنھم لعلی نورٍ، لا یخافون إذا خافَ الناسُ، و لا یحزنونَ إذا حزنَ الناسُ، و قرأ ھذہ الآیۃ : {أَلَا إِنَّ أَوْلِیَآءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ}۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو نہ تو انبیاء ہیں اور نہ شہدائ، لیکن قیامت کے دن انبیاء اور شہداء ان کے مرتبہ پر رشک کریں گے۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیک و سلم! وہ کون ہوں گے؟ فرمایا : وہ لوگ جو خدا کے لئے آپس میں محبت رکھتے ہیںان میں کوئی رشتہ داری نہیں اور نہ مال ہے کہ وہ ایک دوسرے کو دیتے ہیں۔ اللہ کی قسم! ان کے چہرے نورانی ہوں گے اور وہ نور کے منبروں پر ہوں گے، جب لوگ ڈریں گے ان کو کوئی خوف نہ ہوگا، جب لوگ غم کریں گے وہ غم نہیں کھائیں گے۔ پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی : خبردار! بیشک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے، اور نہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے۔
قیامت کے روز جب نفسا نفسی کا عالم ہوگا ہر کوئی اللہ کی جلالت سے خوف کے مارے کانپ رہا ہوگا اس دن کچھ ایسے بھی لوگ ہوں گے جن کے چہروں پر سکون و طمانیت چھائی ہوئی ہوگی۔ وہ رشکِ خلائق ہوں گے حتی کہ انبیاء و اولیاء بھی ان کے مقام و مر تبے پر رشک کر رہے ہوں گے۔ صحابہ کرام نے حیرت سے پوچھا : یا رسول اللہ! وہ کون لوگ ہوں گے؟ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا : یہ وہ لوگ ہوں گے جو لوجہ اللہ ایک وسرے سے محبت کرتے ہوں گے ان کی محبت کی بنیاد نہ خونی رشتے داری پر ہوگی اور نہ مال و دولت کی فراوانی پر، یہ محض اللہ کیلئے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہوں گے گویا بنیاد ِمحبت لوجہ اللہ ہوگی۔ اس محبت کی وجہ سے انہیں بے مثال درجہ بھی ملے گا اور اجر بھی، ان کے چہروں سے نور کی شعاعیں پھوٹ رہیں ہو ں گی اور وہ نور کے منبروں پر بیٹھے ہوں گے۔ اس حدیث کے ذریعے یہ بات ثابت ہوگئی کہ وہ لوگ جو اللہ کے نیک بندوں سے صرف لوجہ اللہ محبت کرتے ہیں، باری تعالی انہیں اس عمل محبت کی وجہ سے اور اولیاء اللہ کے وسیلے سے قیامت کے دن بہت بڑے اجر اور مقام رفیع سے نوازے گا۔
اولیاء اللہ کی محبت ایک ایسا عمل ہے جو بندے کو اللہ کی محبت اور اس کے قرب سے سرفراز کرتا ہے۔ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
قال رسول اللہ : لو أن عبدین تحابَّا فی اللہ عز و جل، واحدٌ فی المشرق و آخر فی المغرب، لجمع اللہ بینھما یوم القیامۃ۔ یقول : ھذا الذی کنت تحبُّہ فیّ۔
1۔شعب الایمان للبیہقی،6 : 492، رقم : 9022
2۔ مشکوۃ المصابیح : 427
3۔کنز العمال،9 : 4،رقم : 24646
رسول اللہ ﷺنے فرمایا : اگر دو آدمی اللہ کی وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کریں اور اگر ان میں سے ایک مشرق میں ہو اور دوسرا مغرب میں، تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کو جمع کر دے گا اور اسے فرمائے گا : یہ وہ بندہ ہے جس کے ساتھ تو میری وجہ سے محبت رکھتاتھا۔
لہذا ثابت ہوا کہ انبیاء، اولیاء اور صالحین کا توسُّل کسی بھی شکل میں، خواہ وہ دعا میں ان کا نام لے کر ہو یا ان کی بارگاہ میں حاضر ہوکر یا ان سے تعلقِ محبت قائم کر کے یہ سب امور درست اور مشروع ہیں۔ اس پر مزید بحث انشاء اللہ باب نمبر 6 میں کریں گے۔ سردست قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ کی روشنی میں اتنی بات ذہن نشین کرلی جائے کہ بندگان خدا جو مقربین اور صالحین ہیں، ان سے توسُّل کا عقیدہ صحیح اور تعلیمات اسلامی کے عین مطابق ہے اور اس پر جتنے بھی اشکالات اٹھائے جاتے ہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں اور جو لوگ ذوات صالحین سے توسُّل کو ناجائز سمجھتے ہیں وہ درست نہیں کیونکہ ہم نے واضح کر دیا کہ ذواتِ صالحین سے توسُّل درحقیقت ان سے محبت کی وجہ سے ہوتا ہے اور اللہ کے کسی نیک بندے سے محبت کرنا خود عملِ صالح ہے۔ اس لئے ذواتِ صالحین سے توسُّل بھی درحقیقت عملِ صالح سے توسُّل ہے اور عملِ صالح سے توسُّل پر امت مسلمہ کا اتفاق ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved