گزشتہ باب میں اس امر کی صراحت کی گئی کہ توسُّل اور وسیلہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے کسی شے تک پہنچنے کا سبب اور ذریعہ ہے، اور یہ کسی کے قرب کے حصول کا باعث بھی بنتا ہے۔ ایک بندہ مومن کا مقصودِ حیات، اللہ کی معرفت، قرب اور اسکی رضاء و خوشنودی ہوتی ہے۔ اسی لئے قرآن حکیم میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے جا بجا متلاشیانِ حق کو اپنے حضور تک تقرب اور رسائی کا وسیلہ تلاش کرنے کے بارے رہنمائی فرمائی ہے۔ ذیل میں ہم قرآن مجید کے ان مقامات میں سے چند کا ذکر کریں گے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کس طرح صراحت کے ساتھ وسیلہ ڈھونڈنے کا حکم فرمایا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
یٰأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَ ابْتَغُوْا إِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وَجَاھِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَO
المائدہ، 5 : 35
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اس (کے حضور) تک (تقرب اور رسائی کا) وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔
اس آیہ کریمہ میں چار چیزوں کا بیان ہے:
1۔ ایمان
2۔ تقوی
3۔ تلاشِ وسیلہ
4۔ جہاد فی سبیل اللہ
سب سے پہلے ایمان کا ذکر کیا گیا۔ ایمان کے بعد تقوی کا حکم دیا کیونکہ جس دل میں اللہ کا ڈر اور خوف پیدا ہوجاتا ہے اس کا ہر قدم اطاعت الٰہی کی طرف اٹھتا ہے۔ احکامِ ِالٰہی کی پیروی اس کا شیوۂ حیات بن جاتا ہے۔ نیکی اور عمل صالح اس کی سیرت و کردار کا جز و لاینفک بن جاتا ہے، خشیت الٰہی کی کیفیت اسے رضائے الٰہی کے مقام پر فائز کرتی ہے۔ وہ ہردم اسی جستجو میں رہتا ہے کہ اس کا ہر عمل اسے اللہ کے قرب و حضور میں لے جائے۔ اس بنا پر إِتَّقُوا اللهَ کے الفاظ بندۂ مؤمن کے تمام اعمال صالحہ کو محیط ہیں۔ ایمان، عبادات، اتباعِ سنت اور گناہوں سے بچنا سارا کچھ اس میں آجاتا ہے۔
تیسرا حکم آیہ مذکورہ میں تلاشِ وسیلہ کا ہے۔ ارشاد فرمایا : وَ ابْتَغُوْآ إلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ ’’اور اس (کے حضور) تک (تقرب اور رسائی کا) وسیلہ تلاش کرو۔ ‘‘ بعض علماء نے اس آیہ کریمہ میں تلاشِ وسیلہ سے فقط ایمان اور اعمال صالحہ مراد لیا ہے۔ جبکہ اکثر علماء نے آیہ کریمہ کے ان الفاظ سے مراد انبیاء، صلحاء اور اولیاء کی ذوات مقدسہ کو لیا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ إِتَّقُو اللهَ میں ایمان، اعمال ِصالحہ اور عبادات سب شامل ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس آیہ کریمہ میں قرب ِالٰہی کے لیے تلاش وسیلہ کا عمومی حکم ہے۔ قرب و حضور الٰہی کا وسیلہ جہاں اعمال صالحہ اور ایمان بنتا ہے وہاں اللہ کے انبیاء اور اولیاء بطریق اولی ہیں۔ اسی لیے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے ’القول الجمیل (ص : 34) ‘میں وسیلہ سے مراد بیعتِ مرشد جبکہ شاہ اسمعیل دہلوی نے ’صراطِ مستقیم (ص : 58)‘ میں وسیلہ سے مراد مرشِد لیا ہے اور مزید برآں کہا:
بدون مرشد راہ یابی ناد راست۔
مرشد کی راہنمائی کے بغیر (ہدایت ربانی) کا ملنا شاذ و نادر ہے۔
اسی حقیقت کو مولائے روم بھی اپنے حوال کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ کی معرفت اور اس کا قرب مجھے حضرت شمس تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبتِ کیمیا اثر سے ہی ملا ہے :
مولوی ہرگز نشد مولائے روم
تا غلامِ شمس تبریزی نشد
چوتھا حکم جہاد کا ہے۔ جہاد بھی اسلام کی اشاعت و ترویج، دین کے احیاء و اقامت، احکامِ الٰہیہ کے نفاذ اور اعلائے کلمۃ اللہ کیلئے وسیلہ بنتا ہے۔ جب ایک ہی آیت کریمہ میں مذکور چار چیزوں …ایمان، تقویٰ، وسیلہ اور جہاد …میں سے تین چیزیں …ایمان، تقوی، جہاد…شرک اور بدعت نہیں بلکہ جائز امورہیں تو وسیلہ بھی آیت میں بیان کردہ دیگر چیزوں کی طرح حکمِ قرآنی اور امرشرعی ہے اس کا تعلق ہرگز شرک اور بدعت سے نہیں۔
قرآن حکیم میں دوسرے مقام پر تلاش وسیلہ کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا :
أُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ إِلٰی رَبِّھِمُ الْوَسِیْلَۃَ أَیُّھُمْ أَقْرَبُ وَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَ یَخَافُوْنَ عَذَابَہٗ ط إِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحْذُوْرًاO
بنی اسرائیل، 17 : 57
یہ لوگ جن کی عبادت کرتے ہیں (یعنی ملائکہ، جنات، حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت عزیر علیہ السلام وغیرہم کے بت اور تصویریں بنا کر اُنہیں پوجتے ہیں)، وہ (تو خود ہی) اپنے رب کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ ان میں سے (بارگاہ الٰہی میں) زیادہ مقرب کون ہے اور (وہ خود) اس کی رحمت کے امیدوار ہیں اور (وہ خود ہی) اس کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں۔ (اب تم ہی بتاؤ کہ وہ معبود کیسے ہوسکتے ہیں، وہ تو خود معبودِ برحق کے سامنے جھک رہے ہیں۔) بیشک آپ کے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے۔
دور جاہلیت میں مشرکین جنات، حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت عزیر علیہ السلام کے بت اور تصاویر بناکر ان کی پوجا کرتے تھے۔ اسلام سے قبل جنات نے انسانوں کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ بتوں میں گھس کر عجیب و غریب حرکتیں کرتے۔ بتوں کو ہلتا جلتا اور مسکراتا دیکھ کر سادہ لوح ضعیف الاعتقاد لوگ ان کی عبادت میں مصروف ہوجاتے۔ لیکن جب اسلام کی روشنی ظاہر ہوئی تو جنات اپنے اس گمراہ کن عمل سے تائب ہوکر مسلمان ہوگئے، نورِ حق ان کے رگ و پے میں سرایت کرگیا اور وہ راہ راست پر آگئے۔ اللہ تعالیٰ کے عابد و فرمانبردار بن گئے اور اسے پانے کیلئے کسی اقرب اور افضل وسیلے کے متلاشی بن گئے، ایسا وسیلہ جو انہیں خدا رسیدہ کردے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس آیت کے شان نزول کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ یہ آیت ایک جماعت ِعرب کے حق میں نازل ہوئی جو جنات کے ایک گروہ کو پوجتے تھے جب وہ جنّ اسلام لے آئے اور ان کے پوجنے والے اس سے بے خبر رہے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں یاد دلایا اور فرمایا جنہیں تم پوج رہے ہو وہ ہمارے حضور سربسجود ہیں اور وہ خود ہمارے مقربین کا وسیلہ ڈھونڈ رہے ہیں۔
1۔ صحیح البخاری، 2 : 685
2۔ صحیح مسلم، 2 : 422
3۔ المستدرک للحاکم، 2 : 362
4۔ تفسیر البغوی، 3 : 120
اس سے یہ مسئلہ واضح ہوگیا کہ مقربان الٰہی کا وسیلہ لینا جائز ہے اور وہ خود بھی قرب الٰہی کے حصول کیلئے خود سے اپنے زیادہ مقرب کے متلاشی رہتے ہیں، گویا مقربین کا اپنا عمل بھی یہی ہے۔
مذکورہ آیہ کریمہ اپنا معنی واشگاف انداز میں واضح کر رہی ہے کہ مشرکین جن کواپنا خدا بنائے اپنی تکلیف و مصیبت میں پکارتے ہیں یہ خدا نہیں ہیں بلکہ یہ تو خود ہر لمحہ اور ہرلحظہ اپنے رب کی رضا کیلئے محو رہتے ہیں اگر یہ واقعی خدا ہوتے جیسا کہ مشرکین کا زعم باطل ہے تو پھر انہیں کسی کی عبادت اور رضا جوئی کی ضرورت ہی نہ رہتی۔ اس آیہ کریمہ سے یہ بھی واضح ہوا کہ مقرب بندوں کو بارگاہِ الٰہی میں وسیلہ بنانا جائز ہے اور ان مقبولانِ حق کا اپنا طریق بھی یہی ہے۔ یہاں کسی ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ مقربان الٰہی، انبیاء و اولیاء خود وسیلے کے متلاشی ہیں تو اوروں کا کیا وسیلہ بنیں گے؟ درحقیقت اس آیہ کریمہ میں غور کرنے سے اس کا جواب خود مل جاتا ہے کہ کسی غیر کی عبادت کرنا ممنوع ہے لیکن مقبولانِ حق کا وسیلہ پکڑنا اور ان سے دعا کے لئے عرض کرنا جائز ہے عبادت کی نفی ہے وسیلے کی نفی نہیں۔ مقبولانِ حق وسیلہ بنتے ہیں، معبود نہیں۔ صحیح عقیدہ بھی یہی کہ انبیاء، اولیاء اور صلحاء وسیلہ ہی ہیں، معبود نہیں ہیں۔
وسیلہ ڈھونڈنے پر قرآن مجید کی یہ آیت بھی نص صریح ہے :
وَلَوْ أَنَّھُمْ إِذْ ظَّلَمُوْآ أَنْفُسَھُمْ جَآءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًاO
النساء، 4 : 64
اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول (ﷺ) بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے مومنوں کو ان کے گناہوں اور لغزشوں کی مغفرت کے لئے بارگاہ مصطفیﷺ میں آکر ان کا وسیلہ پکڑنے کا حکم دیا ہے۔ یہ آیت کریمہ صرف آپﷺ کی حیات ظاہری تک محدود نہیں بلکہ بعد از وصال بھی اس کا حکم اسی طرح باقی ہے جس طرح ظاہری حیات طیبہ میں تھا۔ مفسرین کرام اور ائمہ کرام نے اس پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ (اس آیت مبارکہ پر مزید بحث ہم ان شاء اللہ باب پنجم کی تیسری فصل میں کریں گے۔)
سورۃ بنی اسرائیل میں ارشاد فرمایا گیا:
عَسٰٓی أَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَاماً مَّحْمُوْداًo
بنی اسرائیل، 17 : 79
یقیناآپ کا رب آپ کو مقامِ محمود (یعنی وہ مقامِ شفاعتِ عظمیٰ جہاں جملہ اولین و آخرین آپ کی طرف رجوع اور آپ کی حمد کریں گے) پر فائز فرمائے گا۔
مقامِ محمود سے مراد وہ اعلیٰ اور رفیع مقام ہے جو روز قیامت حضور نبی کریمﷺ کی شانِ نبوت کے لئے مختص ہوگا۔ آپﷺ کا مقام محمود پر فائز ہونے کا مقصد امت کی شفاعت فرمانا ہے اور قرآن و حدیث سے یہ ثابت شدہ امر ہے کہ شفاعت حضور ﷺکا حق ہے۔ قیامت کے دن شدتِ تکلیف میں تمام لوگ جمع ہوکر آپﷺ کی بارگاہ میں آئیں گے اور آپ ﷺکے حضور التجا کریں گے کہ ہمارے لئے اللہ کے حضور سفارش کریں کہ حساب کتاب جلدی شروع ہواور ہم اس جان لیوا تکلیف سے نجات پائیں۔ لہذا احادیث متواترہ صحیحہ سے ثابت ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ آپﷺ کی خاطر حساب و کتاب شروع فرمائے گا تو ثابت ہوا کہ قیامت کے روز بھی تمام لوگ آپﷺ کو رب ذوالجلال کی بارگاہ میں وسیلہ بنائیں گے یہی آپ کا مقامِ محمود پر فائز ہونا ہے جس کا ذکر اس آیت کریمہ میں ہوا۔
سورہ آل عمران میں ارشاد فرمایا :
وَ کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ وَ أَنْتُمْ تُتْلٰی عَلَیْکُمْ اٰیٰتُ اللهِ وَ فِیْکُمْ رَسُوْلُہٗ ط وَ مَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللهِ فَقَدْ ھُدِیَ إِلٰی صِرَاطٍ مُّستَقِیْمٍo
آل عمران، 3 : 101
اور تم (اب) کس طرح کفر کرو گے حالانکہ تم وہ (خوش نصیب) ہو کہ تم پر اللہ کی آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں اور تم میں (خود) اللہ کے رسول موجود ہیں، اور جو شخص اللہ (کے دامن) کو مضبوط پکڑلیتا ہے تو اسے ضرور سیدھی راہ کی طرف ہدایت کی جاتی ہے۔
یہ آیت کریمہ بھی توسُّل پر دلالت کرتی ہے۔ وَفِیْکُمْ رَسُوْلُہٗ کے الفاظ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک ایسا واسطہ اور ذریعہ ہیں کہ جس کی وجہ سے اللہ پاک لوگوں کو کفر کی تاریکیوں سے نکال کر راہ ہدایت کی روشنی عطا فرماتا ہے۔ جبکہ وَ کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ سے مزید وضاحت ہوتی ہے کہ کفر کی طرف نہ پلٹنا بھی رسولﷺکے وسیلے سے ہے، یعنی معلوم ہوا کہ ہدایت بھی اگر ملتی ہے تو رسولﷺ کے وسیلے سے اور اس ہدایت پر استقامت بھی اگر ملتی ہے تو رسول ﷺ کے وسیلے سے۔ اللہ پاک قادر و قیوم ہے، وہ براہ راست ہدایت دے سکتا ہے مگر جب وہ خود فرماتا ہے کہ وہ رسولﷺ کی وجہ اور وسیلہ سے ہمیں ہدایت پر قائم رکھے گا تو اس سے ہمارے لئے یہی ثابت ہوا کہ وسیلہ جائز امر ہے۔
سورہ انفال میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَ مَا کَانَ اللہ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ أَنْتَ فِیْھِمْ ط وَ مَا کاَنَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ ھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَo
الانفال، 8 : 33
اور (در حقیقت بات یہ ہے کہ ) اللہ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ان پر عذاب فرمائے در آنحالیکہ (اے حبیب مکرم!) آپ بھی ان میں (موجود ) ہوں، اور نہ ہی اللہ ایسی حالت میں ان پر عذاب فرمانے والا ہے کہ وہ (اس سے) مغفرت طلب کر رہے ہوں۔
اس آیت کریمہ میں اللہ پاک نے امت سے عذاب ٹال دینے کی دو وجوہات بیان فرمائیں :
1۔ رسول اللہﷺ کا ان میں موجود ہونا۔
2۔ اللہ پاک سے مغفرت طلب کرنا۔
سب سے پہلے امت کے اندر رسول اللہ ﷺ کی موجودگی کی وجہ سے عذاب نہ دینے کا بیان فرمایا اور اس کے بعد اپنے حضور طلب مغفرت کی وجہ سے عذاب نہ دیا جانا بیان فرمایا۔ بارگاہِ الوہیت میں طلبِ مغفرت سے بھی مقدم رسولﷺ کا واسطہ بیان کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جب تک رسول ﷺموجود ہیں ان کے وسیلے سے امت پہ عذاب نہیں آسکتا۔ بعض لوگ جو اس سے ظاہری حیات طیبہ مراد لیتے ہیں، ہمارے نزدیک وہ درست نہیں۔ یہاں بالکل ایسی کوئی بات نہیں کہ ظاہری حیات مبارکہ میں بھی توسُّل جائز ہے اور بعد از ممات بھی بلکہ مطلقاً آپ ﷺ کی موجودگی کا ذکرہے۔ آئندہ صفحات میں ہم بیان کریں گے کہ آپﷺ کی ولادت سے قبل یہود مشرکین ِعرب پر فتحیابی کے لئے آپ ﷺ کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے تھے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا۔
البقرہ، 2 : 89
حالانکہ اس سے پہلے وہ خود (نبی آخر الزمان حضرت محمدﷺ اور ان پر اترنے والی کتاب قرآن کے وسیلے سے) کافروں پر فتحیابی (کی دعا) مانگتے تھے۔
اس آیت کریمہ میں یہودیوں کا ایک عمل بیان ہوا ہے جس کی قرآن مجید نے تصدیق فرمائی اور جملہ محدثین و مفسرین کرام نے اس سے دلیل پکڑی ہے۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ جب گزشتہ امتوں کا ہمارے آقا حضور نبی کریم ﷺ سے توسُّل کرنا ثابت ہے تو پھر اس امت کے لئے آپﷺ کا وسیلہ پکڑنا تو بطریق اولیٰ جائز اور درست عمل ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَ کَفَّلَھَا زَکَرِیَّا ط کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْھَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَھَا رِزْقًا ج قَالَ یٰمَرْیَمُ أَنّٰی لَکِ ھٰذَا ط قَالَتْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اللهِ ط إِنَّ اللهَ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍo
آل عمران، 3 : 37
اور اس کی نگہبانی زکریاّ کے سپرد کردی، جب بھی زکریا اس کے پاس عبادت گاہ میں داخل ہوتے تو وہ اس کے پاس (نئی سے نئی) کھانے کی چیزیں موجود پاتے، انہوں نے پوچھا : اے مریم! یہ چیزیں تمہارے لئے کہاں سے آتی ہیں؟ اس نے کہا : یہ (رزق) اللہ کے پاس سے آتا ہے، بے شک اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق عطا کرتا ہے۔
اس سے متصل اگلی آیت میں قرآن مجید نے اس مقام پر حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا کا ذکر کیا :
ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ ج قَالَ رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً ج إِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِO
آل عمران، 3 : 38
اسی جگہ زکریا نے اپنے رب سے دعا کی، عرض کیا : میرے مولا ! مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بے شک تو ہی دعا کا سننے والا ہے۔
یہاں ذہن میں ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ سیدنا زکریا علیہ السلام جب بھی سیدہ مریم علیھا السلام کے حجرے میں ان کی خبر گیری کے لیے تشریف لے جاتے تو وہاں انواع و اقسام کے بے موسمی پھل پاتے۔ ایک دن دعا کا خیال آگیا کہ جو کریم رب بے موسم پھل عطا کرسکتا ہے وہ بڑھاپے میں اولاد دینے پر بھی قادر ہے اور یہ خیال آتے ہی وہیں کھڑے کھڑے دعا کردی۔ کوئی یہ گمان کر سکتا ہے کہ یہ دعا اللہ سے تھی اس میں مقام دعا کا کوئی دخل نہیں۔ لیکن اسے عقلِ سلیم تسلیم نہیں کرتی اور اس مقام پر چند سوالات ذہن میں ابھرتے ہیں :
1۔ کیا حضرت زکریہ علیہ السلام نے پہلے کبھی دعا نہ مانگی تھی؟
2۔ حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا کو اب ہی کیوں شرف قبولیت سے نوازا گیا؟
3۔ حضرت زکریا علیہ السلام نے اس جگہ پر کھڑے ہوکر دعا کیوں فرمائی، اس میں کیا وجہ
فضیلت تھی؟
4۔ قرآن نے صرف اس مقام پر دعا کا ذکر خصوصی طور پر کیوں کیا؟
یہاں قرآن مجید نے خود اس غلط فہمی کا ازالہ ’’ھُنَالِکَ‘‘ کہہ کر کردیا۔ آیت کریمہ کے الفاظ پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام کا معمول تھا کہ آپ پچھلی رات شب بیداری فرمایا کرتے۔ اپنے معمول کے مطابق اس دن بھی آپ نماز میں مشغول ہوئے لیکن دعا کے لیے خصوصی طور پر حجرے کا انتخاب کیا۔ اگر آپ نے اتفاقا وہاں کھڑے کھڑے دعا کی ہوتی تو لفظ ’’ھُنَالِکَ‘‘ لانے کا کوئی فائدہ اور محل نہ ہوتا اور توسُّل بھی ثابت نہ ہوتا۔ لیکن بدیہی طور پر محبوب مقام پر کھڑے ہوکر دعا کرنا توسُّل کا آئینہ دار ہے۔
اللہ رب العزت نے بذریعہ توسُّل، دعا کی اجابت و قبولیت کا نظارہ اسی وقت بغیر کسی تاخیر کے کرا دیا :
فَنَادَتْهُ الْمَلٰئِکَۃُ وَ ھُوَ قَآئِمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِ أَنَّ اللهَ یُبَشِّرُکَ بِیَحْیٰی۔
آل عمران، 3 : 39
ابھی وہ حجرے میں کھڑے نماز ہی پڑھ رہے تھے (یا دعا ہی کر رہے تھے) کہانہیں فرشتوں نے آواز دی : بیشک اللہ آپ کو (فرزند) یحیی کی بشارت دیتا ہے۔
حضرت زکریا علیہ السلام نے صرف اس جگہ کو مقام قرب سمجھتے ہوئے اس جگہ کے توسُّل سے دعا مانگی گئی تو وہ فوراً رنگ لائی جس سے یہ بات اظہر من الشمس ہوگئی کہ اللہ رب العزت کو اپنے محبوب بندوں سے توسُّل کرنا پسند ہے جس پسند کا اظہار دعا کی قبولیت کی صورت میں سامنے آیا۔
سورۃ یوسف میں ارشاد باری تعالی ہے :
إِذْھَبُوْا بِقَمِیْصِیْ ھٰذَا فَأَلْقُوْهُ عَلٰی وَجْہِ أَبِیْ یَأْتِ بَصِیْراً ج
یوسف، 12 : 93
(حضرت یوسف ںنے کہا : ) میری یہ قمیض لے جاؤ، سو اسے میرے باپ (حضرت یعقوب) کے چہرے پر ڈال دینا، وہ بینا ہوجائیں گے۔
اس کے بعد کے واقعہ کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا :
فَلَمَّآ أَنْ جَآءَ الْبَشِیْرُ أَلْقٰهُ عَلٰی وَجْھِہٖ فَارْتَدَّ بَصِیْرًا ج
یوسف، 12 : 96
پھر جب خوشخبری سنانے والا آپہنچا اس نے وہ( قمیض یعقوب )کے چہرے پر ڈال دیا تو اسی وقت ان کی بینائی لوٹ آئی۔
اس آیت کریمہ سے یہ ثابت ہوگیا کہ جس چیز کو انبیاء اکرام و صلحاء عظام سے نسبت ہوجائے اس سے توسُّل کرنا توحید کے منافی نہیں کیونکہ قمیض کو بھیجنے والے بھی نبیں، اس وسیلہ سے فائدہ اٹھانے والے بھی نبیں ہیں اور بیان کرنے والا ماحیِ شرک یعنی قرآن ہے۔ مذکورہ آیت کریمہ سے درجہ ذیل نکات بھی ثابت ہوتے ہیں :
اولاً : جَآءَ الْبَشِیْرُ کے اعتبار سے یہ توسُّل اگرچہ ظاہراً توسُّل بغیر النبی ہے لیکن فی الحقیقت یہ توسُّل بآثار النبی ہے۔
ثانیاً : حضرت یعقوب ںکے چہرے پر قمیض ڈالتے وقت بشارت دینے والے نے زبان سے کچھ نہ کہا لہذا قمیض کے توسُّل سے بینائی کا لوٹ آنا توسُّل نفسی ہے۔
ثالثاً : غیر نبی سے بھی وسیلہ کرنا سنت انبیاء علیہم السلام ہے اور سنت انبیاء علیہم السلام کو شرک قرار دینا انبیاء سے بغض و عناد اور نادانی و کم فہمی کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ اس آیت کریمہ میں صراحت کے ساتھ دو جلیل القدر انبیاء کرام… حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام…کا وسیلہ پکڑنے کی سنت بیان ہورہی ہے۔ اتنی بڑی صریح دلیل کی موجودگی میںکوئی مسلمان عقیدہ توسُّل سے انکار کی جسارت نہیں کرسکتا۔ علاوہ ازیں اس آیت کریمہ میں یہ امر بطور خاص توجہ طلب ہے کہ ایک پیغمبر حضرت یوسف علیہ السلام وسیلے کا حکم دے رہے ہیں اور دوسرے پیغمبر حضرت یعقوب علیہ السلام اس قمیض سے توسُّل کر رہے ہیں یعنی قمیض متوسَّل بہِ ہے۔ لہذا جب پیغمبر کی قمیض سے توسُّل امر جائز ہے تو اس سے توسُّل بآثار الانبیاء اور توسُّل بالصالحین کا عقیدہ بھی از خود ثابت ہوجاتا ہے۔
مافوق الاسباب کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ جو اسباب کسی امر کے لیے خاص ہوں ان اسباب کو زیراستعمال لائے بغیر وہ کام ہوجائے جو کہ اس سبب کے بغیر ناممکن تھا۔ جیسے حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش۔ کہ پیدائش کے لیے اسباب کا ہونا ضروری ہے جبکہ یہاں تزوج کا وجود ہی نہیں۔ اس طرح جنس مخالف کی عدم موجودگی کے باوجود پیدائش کا ہونا مافوق الاسباب میں سے ہے۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ مافوق الاسباب امور کے لیے توسُّل شرک اور ماتحت الاسباب کے لیے شرک نہیں ہوتا …… یہ نظریہ دراصل مافوق الاسباب کی حقیقی تعریف سے عدم واقفیت کی پیداوار ہے۔ جبکہ سرسری سی تعریف کردی جاتی ہے کہ اس عالم اسباب سے بالا چیز مافوق الاسباب اور عالم اسباب کے اندر کی چیز ماتحت الاسباب ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے حضرت یعقوب ںکی بینائی کی بازیابی والی مثال زیادہ موزوں معلوم ہوتی ہے کہ آنکھوں کی روشنی اور بینائی کا واپس آنا اگر دوا، علاج یا آپریشن سے ہو تو اسے اسباب سے منسوب کیا جائے گا لیکن اس کے برعکس فقط قمیص کے رکھنے سے بینائی کا لوٹ آنا تو اسباب سے ماوراء چیز ہے جسے مافوق الاسباب کی اصطلاح سے موسوم کیا جائے گا۔ اس بحث سے پتہ چلا کہ :
1۔ ترک اسباب سے کوئی کام ہو جائے تو وہ مافوق الاسباب ہے۔
2۔ مافوق الاسباب سے توسُّل کرنا قرآن سے ثابت اور انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے۔
3۔ إِذْھَبُوْا بِقَمِیْصِیْ کوئی دعائیہ الفاظ نہیں اور نہ ہی یہ کوئی دوا ہے، یہصرف قمیص مبارک سے بینائی کا لوٹ آنا ہے، جو کہ توسُّل مافوق الاسباب میں سے ہے۔ اگر توسُّل مافوق الاسباب شرک ہوتا تو قرآن مجید ہرگز ایسے امور کی تائید نہ کرتا کیونکہ قرآن تو خود ماحی شرک ہے۔
یہاں ایک بات جو بطور خاص توجہ طلب ہے وہ یہ کہ ماتحت الاسباب سے توسُّل کو جائز کہنا اور مافوق الاسباب سے ناجائز اور شرک سمجھنا یہ بھی ایک خود ساختہ تقسیم ہے جو کسی قرآنی نص اور حدیث صحیح سے ثابت نہیں۔ صحیح اسلامی عقیدہ تو یہی ہے کہ حقیقی کارساز و مددگار اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات ہے اس کی ذات و صفات میں کسی کو شریک ٹھہرانے کا تصور بھی ممکن نہیں کہ جو چیز شرک ہے وہ ہرجگہ اور ہر وقت شرک ہے۔
ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب دونوں کا تعلق دراصل ظاہری اور باطنی و روحانی اسباب سے ہے۔ ہماری زندگی کے اندر بہت سارے امور ایسے ہیں جو ماتحت الاسباب یعنی ظاہری اسباب کے تحت حل ہوجاتے ہیں اور کچھ امور وہ ہوتے ہیں جو ظاہری اسباب کے بغیر باطنی اور روحانی طور پر حل ہوجاتے ہیں یعنی اصلاً کوئی بھی کام بغیر سبب کے نہیں ہوتا تو معلوم ہوا کہ حقیقی معنوں میں کوئی بھی امر مافوق الاسباب نہیں ہوتا۔ اگر کوئی امر ظاہری اسباب (امور عادیہ) کے بغیر واقع ہوجائے تو وہ بھی حقیقتاً بغیر سبب کے نہیں بات یہ ہے کہ فرد بشر کو وہ سب کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
خلاصہ بحث یہ ہوا کہ اگر ہم مافوق الاسباب امورمیں توسُّل کو شرک قرار دیں تو اس سے نص صریح سے انحراف لازم آئے گا مثلا حضرت جبرئیل علیہ السلام جب اللہ تعالیٰ کے اذن سے سیدنا عیسی علیہ السلام کی ولادت کے سلسلے میں حضرت مریم علیھا السلام کے پاس انسانی روپ میں آئے تو ان سے کہا :
إِنَّمَا أَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِأَھَبِ لَکِ غُلٰماً زَکِیًّاo
مریم، 19 : 19
میں تو فقط تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں (اس لئے آیا ہوں) کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں۔
اس آیت کریمہ میں حضرت جبرئیل امین علیہ السلام عطاءِ فرزند کی نسبت اپنی طرف کر رہے ہیں جو کہ ظاہری اسباب کے بغیر ہے یعنی باپ کے بغیر صرف پھونک مارنے سے بچہ عطا کرنا یہ مافوق الاسباب چیز ہے مگر اس میں اللہ کا مقرب فرشتہ جبرئیل علیہ السلام وسیلہ بن رہے ہیں۔ لہذا ایک خود ساختہ عقیدے کی بناء پر آیات قرآنی کی حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ لہذا توسُّل ایک مشروع قرآنی حقیقت ہے۔
انتہائی تذلل، عاجزی، انکساری، بے کسی و بے بسی کے ساتھ اللہ کے حضور گریہ زاری اور لجاجت کے ساتھ دعا کرنا بھی اللہ کی بارگاہ میں وسیلہ بن جاتا ہے، رحمت الٰہی جوش میں آجاتی ہے اور بندے کی مراد بر آتی ہے۔
صحابہ کرام، ائمہ اطہار کی منقول دعاؤں میں ہمیں یہی عاجزی و انکساری، ندامت و شرمندگی اور خود کو اللہ کی بارگاہ میں حقیر، بے بس اور بے کس کی طرح پیش کرنے کے احوال نظر آتے ہیں۔ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ اور حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کی دعائیں ایسی کیفیات اور احوال سے معمور ہوتی تھیں۔
وسیلے اور توسُّل میں یہی حکمت کار فرما ہے کہ کسی چیز کو اللہ کی بارگاہ میں اپنی دعا میں بطور واسطہ اس طرح پیش کرنا کہ جہاں وہ دعا کی قبولیت کو بڑھا دے وہاں بندے کی حاجت کا اللہ کی بارگاہ سے پورا ہونے کا مزید یقین بھی عطا کردے۔ اس وسیلے کے نتیجے میں رب کی رحمت جوش میں آجائے، بندے کی مراد جلد پوری ہوجائے اور دعا شرف قبولیت سے ہمکنار ہو۔ واسطہ اور وسیلہ بننے والی جو بھی شے ہوگی وہ کوئی عمل ہوگا یا اللہ کا کوئی ایسا صالح بندہ جو اللہ کے ہاں اتنا مقبول و محبوب ہوگا کہ اس کی محبوبیت اور مقبولیت کا ذکر اور واسطہ بارگاہ الٰہی میں دعا کی قبولیت کیلئے ایک وسیلہ بن جائے۔
قرآن حکیم میں ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام سے خطا سرزد ہوئی تو وہ اس پر پشیماں ہو کر بارگاہ الٰہی میں اپنی خطا کا ذکر کرتے اور اپنی بے بسی و عاجزی کا اظہار کرتے ہوئے اس کی رحمت اور عفو و درگزر کیلئے یوں عرض گزار ہوئے:
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَ إِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَO
الاعراف، 7 : 23
اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اور اگر تو نے ہم کو نہ بخشا اور ہم پر رحم (نہ) فرمایا تو ہم یقینا نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔
اس دعا کے ذریعے حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی عاجزی اور بے کسی کو بطور وسیلہ پیش کیا اور اس کی بخشش و مغفرت اور رحمت کے طلبگار ہوئے، احادیث صحیحہ سے یہ بھی ثابت ہے کہ قبولیت توبہ کیلئے حضرت آدم علیہ السلام نے حضور نبی اکرمﷺ کا وسیلہ بھی پیش کیا اور آپﷺکی توبہ شرف قبولیت سے سرفراز ہوئی۔
بارگاہ الوہیت میں دعا مانگتے ہوئے صرف اپنی ذات کے لئے ہی دعا نہ مانگنا جیسے : اللّٰھُمَّ ارْحَمْنِیْ (اے اللہ !مجھ پر رحم فرما) بلکہ اپنی دعا میں ساری امت کو شریک کرنا اور یوں کہنا : ’’اللّٰھُمَّ ارْحَمْنَا (اے اللہ ہم پر(پوری امت پر) رحم فرما۔ )‘‘ یوں دعا مانگنے سے خود بخود توسُّل کا پہلو نکلتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَ کَفِّرْ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِO
آل عمران، 3 : 193
اے ہمارے رب! اب ہمارے گناہ بخش دے اور ہماری خطاؤں کو ہمارے (نوشتۂ اعمال) سے محو فرما دے اور ہمیں نیک لوگوں کی سنگت میں موت دے۔
یہ دعا جب اللہ کے صالح اور مقرب بندوں کی زبان سے نکلتی ہوتی ہے، تو اجابت کی منزل کو پہنچتی ہے اور اپنی عمومیت کی بنا پر گنہگار، نیکوکار سبھی اس میں شامل ہوجاتے ہیں، سب بخشش و مغفرت الٰہیہ کا مژدہ جانفزا سنتے ہیں۔ گویا اجتماعی دعا کا توسُّل سب کے گناہوں کی معافی کا سبب بن جاتا ہے۔
بارگاہ الوہیت میں التجا کرتے وقت لفظ ’’رب ‘‘ کو کسی مقدس اور پاکیزہ ہستی کا مضاف کرنا بھی توسُّل ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کو ’’ربِ محمد‘‘ ﷺاور اسی طرح ربِ عباد الصالحین یا کسی مقرب اور برگزیدہ بندے کا رب کہہ کر توسُّل کیا جانا۔
قرآن حکیم میں ہے:
وَ أَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیْنَO
النمل، 27 : 19
اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے خاص قرب والے نیکوکار بندوں میں داخل فرمالے۔
نفس مطمئنہ اور نفس راضیہ و مرضیہ پر فائز بندوں کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن میں ارشاد فرمایا گیا :
یٰأَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُo ارْجِعِیْ إِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃًo فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰادِیْ o وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْo
الفجر، 89 : 30۔ 27
اے اطمینان پاجانے والے نفس! تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آکہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی (گویا اس کی رضا تیری مطلوب ہو اور تیری رضا اس کی مطلوب)۔ پس تو میرے کامل بندوں میں شامل ہو جا اور میری جنتِ (قربت و دیدار) میں داخل ہو جا۔
اس آیہ کریمہ میں لفظ رب کی اضافت اس نفس (بندۂ مرتضی) کی طرف ہے جو اللہ کی رحمتوں، نوازشوں اور قربتوں کا مژدہ جانفزاء سننے والا ہے۔ رب کو اس کی بندگی پر ناز اور اس کی ریاضت و مجاہدہ، خلوص و للہیت پرفخر ہے۔ اس لئے کہ وہ اپنی ہر آرزو و خواہش کو ربّ کی رضا کے تابع کردیتا ہے اس کی ساری زندگی کا ایک ایک لمحہ رضائے الٰہی کا متلاشی ہونے کی صورت میں گزرتا ہے۔ وہ مجاہدہ نفس سے نفس امارہ کی ہر آرزو کو کچل دیتا ہے اور اس طرح ایمان میں ترقی کرتے ہوئے نفس مطمئنہ پر فائز ہوکر خود کو ذات ِالٰہی میں فنا کر کے بقائے دوام کی حالت میں مقام رضا پر فائز ہوجاتا ہے۔ پھر اس کا بولنا ربّ کا بولنا، اس کا کلام کرنا رب کا کلام کرنا اور اس کا چلنا رب کا چلنا بن جاتا ہے حتی کہ اس کا سننا رب کا سننا بن جاتا ہے۔ ایسے بندوں کا توسُّل کرتے ہوئے جب یوں کہا جائے : اے صالح بندوں کے رب! تواس کی رحمت جوش میں آکرمانگنے والے کے دامنِ مراد کو بھردیتی ہے، پھر وہ مانگنے والوں کو نہیں دیکھتا بلکہ ان کو دیکھتا ہے جو اس کے مقام قرب پر فائز ہوتے ہیں۔ مقرب اور صالح بندوں کے توسُّل سے مانگنا خود حضور نبی اکرمﷺ کی بھی سنت ہے۔ صبح کی دو رکعتوں کے بعد حضور نبی اکرمﷺ یوں دعا مانگا کرتے تھے:
اللھم رب جبریل و میکائیل و إسرافیل و محمد (ﷺ)! أعوذ بک من النار۔
1۔ المستدرک للحاکم، 3 : 622 3۔ مجمع الزوائد، 2 : 219
2۔ المعجم الکبیر للطبرانی، 1 : 195، رقم : 520
مذکورہ کتب میں یہ حدیث حضرت اسامہ بن عمیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ جبکہ تھوڑے مختلف الفاظ کے ساتھ یہ حدیث درج ذیل کتب میں حضرت عائشۃ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
1۔ سنن النسائی، 2 : 319 3۔ مجمع الزوائد، 10 : 110، 104
2۔ مسند احمد بن حنبل، 6 : 61
اے جبریل، میکائیل، اسرافیل اور محمد (ﷺ) کے رب! میں جہنم کی آگ سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
شیخ محمد بن علوی المالکی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ان اسماء مبارکہ کو خاص طور پر ذکر کرنا ان کو وسیلہ بنانے کے معنی میں ہے۔ گویا آپﷺ یہ فرمایا کرتے تھے : ’’اے اللہ ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں اور جبریل، اسرافیل، میکائیل اور محمد (ﷺ) کو آپ کی بارگاہ میں وسیلہ بناتا ہوں۔ ‘‘
مفاہیم یجب ان تصحح : 153
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَ الَّذِیْنَ إِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً أَوْ ظَلَمُوْآ أَنْفُسَھُمْ ذَکَرُوا اللهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ وَ مَن یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلَّا اللهُ۔
آل عمران، 3 : 135
اور (یہ) ایسے لوگ ہیں کہ جب کوئی برائی کر بیٹھتے ہیں یا اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کا ذکر کرتے ہیں، پھر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، اور اللہ کے سوا گناہوں کی بخشش کون کرتا ہے۔
اس آیہ کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان جب گناہوں میں مبتلا ہوجائے اور اس کا دامن عصیاں سے آلودہ ہوجائے تو ایسی صورت حال میں ذکر الٰہی سے توسُّل، اس کی بخش و مغفرت کا سبب بن جاتا ہے۔ آیۂ مذکورہ میں ذکر الٰہی کو گناہوں کی معافی کا وسیلہ ٹھہرایا گیا ہے۔
اللہ کے محبوب اور مقرب بندوں کا ذکر کرنا یہ بھی وسیلہ ہے جسکی دلیل سورہ فاتحہ ہے جس میں اسمِ ذات، اسماء و صفات، انبیاء و اولیاء اور شہداء و صالحین کا وسیلہ پیش کیا گیا ہے۔
قرآن حکیم میں ارشاد ہے :
صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ۔
الفاتحہ، 1 : 6
ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا۔
جن لوگوں پر انعام فرمایا گیا، ان کی تفصیل ایک اور مقام پر قرآن میں یوں بیان کی گئی ہے :
وَ مَنْ یُّطِعِ اللهَ وَ الرَّسُوْلَ فَأُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّھَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَ ج وَحَسُنَ أُولٰٓئِکَ رَفِیْقًاO
النسائ، 4 : 69
اور جو کوئی اللہ اور رسول (ﷺ) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) ان (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں۔
سورہ فاتحہ ہر نوع کے وسیلہ کی جامع دعا ہے۔ یہ پوری سورۃ گویا سورہ وسیلہ ہے اس میں توحید، رسالت اور شان ولایت سب جمع ہیں۔ لہذا جب نیک لوگوں کی راہ دکھانے کا ذکر ہوا تو دوسری جگہ ان کی نشاندہی ہوگئی کہ وہ کون لوگ ہیں۔ اور ان لوگوں کی وجہ سے ہدایت ملنا دلیلِ توسُّل ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے :
وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللہ عَلَیْکُمْ إِذْ کُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ إِخْوَانًا۔
النحل، 16 : 18
اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے ) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے۔
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :
وَ إِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللهِ لَا تُحْصُوْھَا ط إِنَّ اللهَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo
آل عمران، 3 : 103
اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو انہیں پورا شمار نہ کرسکوگے۔ بے شک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔
بندہ اگر اللہ کی نعمتوں کو یاد کرتا رہے اور ان نعمتوں کو یاد کرنے کے بعد اللہ سے مغفرت طلب کرے تو اس وسیلے سے اللہ کو بڑا بخشنے والا پائے گے۔ یہاں صراحتاً یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفتِ مغفرت، اس کی نعمتوں کے تذکرے کے وسیلے سے جوش میں آتی ہے۔ جو دعا اس کے انعامات اور احسانات کو یاد کر کے اور ان کا وسیلہ دے کر مانگی جائے وہ بندے کی طرف سے اللہ کی نعمتوں کا شکرانہ بن کر اجابت کو پہنچتی ہے۔ اس پر خود نصِ قرآنی شاہد ہے:
لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیْدَنَّکُمْ۔
ابراہیم، 4 1 : 7
اگر تم شکر ادا کروگے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کرونگا۔
اللہ تعالیٰ نے امت مصطفوی سے اپنی شان کے مطابق جو مختلف وعدے فرمائے ہیں، ان کا ذکر کر کے اس کی بارگاہ میں وسیلہ پیش کیا جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ وَلَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ط إِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَO
آل عمران، 3 : 194
اے ہمارے رب! اور ہمیں وہ سب کچھ عطا فرما جس کا تو نے ہم سے اپنے رسولوں کے ذریعے وعدہ فرمایا ہے، اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کر، بے شک تو وعدہ کے خلاف نہیں کرتا۔
بندہ اپنی نماز اور دعا میں اپنے مولا سے ہم کلام ہوکر اور اپنا گناہ آلودہ دامن لیکر عرض گزار ہوتا ہے کہ یا اللہ! میرے اعمال تو اس قابل نہیں کہ ان کی وجہ سے میں بخشش و مغفرت کا مستحق ٹھہروں اس لیے تجھ سے تیرے رسولوں کی وساطت سے سوال کرتا ہوں کہ محشر کی تپش و حرارت اور اس کی ہولناکیوں سے مجھے محفوظ و مامون فرما، میں نے تیرے برگزیدہ پیغمبروں کا دامن پکڑ لیا ہے، ان کی راہ پر چل پڑا ہوں، ان کے لائے ہوئے دین کی پیروی کر رہا ہوں، دین کی پیروی ہی کو تیرے انبیاء علیہم السلام نے نجات کا وسیلہ بنایا ہے اس لئے مجھے اپنے وعدہ کو روز روشن کی طرح دکھا دے اور تیرے وعدے ہمیشہ وفا ہی ہوتے ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved