توسُّل کا مسئلہ نصِّ قطعی سے ثابت شدہ ہے۔ اس کے شرعی جواز کے بارے میں مطلقاً انکار آیاتِ قرآنی سے انکار کے مترادف ہے جس کا کوئی صحیح العقیدہ مسلمان تصوّر بھی نہیں کرسکتا۔ توسُّل درحقیقت بندے کا اللہ رب العزت کی بارگاہِ بے کس پناہ میں اپنی دعا کی قبولیت اور حاجت برآری کے لئے اپنی عاجزی اور بے کسی کے اعتراف کے ساتھ کسی مقبول عمل یا مقرب بندے کا واسطہ پیش کرنا ہے تاکہ بندۂ گنہگار کی دعا جلد قبول ہو اور اللہ رب العزت اپنے اس مقرب بندے کی خاطر اس کی حاجت پوری فرمائے۔
کسی کو بطور وسیلہ پیش کرنے میں ہرگز ہرگز یہ عقیدہ کارفرما نہیں ہوتا کہ وہ مقبول و مقرب بندہ جس کا وسیلہ دیا جا رہا ہے دعا قبول کرے گا، یا وہ اللہ بزرگ و برتر کی ذات کو (معاذ اللہ) اس امر پر مجبور کردے گا کہ فلاں کام ہونا چاہئے یا فلاں بندے کی بخشش و مغفرت لازمًا کردی جائے۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے جو بعض لوگوں کے ذہنوں میں پائی جاتی ہے۔ دراصل وسیلہ پیش کرتے وقت سائل کے ذہن میں یہ تصور ہوتا ہے کہ جب وہ اپنی عاجزی‘ بے بسی اور نیاز مندی کا اظہار کر کے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد اس کے کسی مقبول اور مقرب بندے کا نام بطور وسیلہ پیش کروں گا تو اللہ تعالیٰ اپنے اس اطاعت گزار مقبول اور مقرب بندے کا لحاظ فرماتے ہوئے ضرور اس کی حاجت پوری فرمائے گا۔ یہ تصور بھی متوسِّل کے ذہن میں نہیں ہوتا ہے کہ وہ صالح بندہ (معاذ اللہ) خدائی میں شریک ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ توسُّل کی حقیقت کو سمجھا جائے تاکہ جو لوگ توسُّل کے صحیح مفہوم کو سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں اپنی اصلاح کرسکیں۔
اوّلاً : سب سے اہم بات جو ذہن نشین کرنی ضروری ہے وہ یہ کہ توسُّل محض دعا کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے اور اس میں فی الاصل مقصودِ حقیقی صرف اللہ رب العزت کی ذات ہے جس کے حضور وسیلہ پیش کیا جارہا ہے۔ جبکہ وہ جس کو بطور وسیلہ پیش کیا جانامقصود ہے اس کی حیثیت محض ایک واسطہ کی ہے جو اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہے۔ اس تقرب الی اللہ کی بناء پر اللہ جل مجدہٗ قبولیت دعا کے باب میں اس کا لحاظ اور حیاء کرتے ہیں۔
ثانیاً : دوسری بات جو ذہن میں مستحضر رہنی چاہئے یہ ہے کہ متوسِّل جس کو اپنا وسیلہ بناتا ہے وہ اس بناء پر ہے کہ اس مقرب بندے کو اللہ تعالیٰ سے بغائت درجہ محبت ہوتی ہے اور اللہ بھی اس کو محبو ب رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ محض اللہ کے لئے کسی سے محبت رکھنا بذاتِ خود عمل صالحہ ہے۔ یہی بات توسُّل کی بنیاد ہے جس سے کسی کو اختلاف نہیں، درست عقیدہ یہی ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی شخص اور عقیدہ رکھتا ہے تو وہ صریح گمراہی اور ضلالت میں مبتلا ہے۔ اگر کوئی شخص متوسَّل بہٖ کے بارے میں اعتقاد رکھے کہ وہ بذاتِ خود اللہ جل شانہ کی طرح نفع و نقصان کا مالک ہے تو وہ شخص اس گمراہ کن عقیدے کے باعث ایمان سے خارج ہوجائے گا۔
ثالثاً : قبولیت دعا کے باب میں یہ کوئی ضروری و لازمی اَمر نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا دعا قبول کرنا محض توسُّل ہی پر موقوف ہے، کیونکہ خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَ إِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ۔
ا لبقرہ، 2 : 186
اور (اے حبیب!) جب میرے بندے آپ سے میری نسبت سوال کریں تو (بتا دیا کریں کہ) میں نزدیک ہوں۔
دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
قُلِ ادْعُو اللهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ ط أَیًّامَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْأَسْمَآء الْحُسْنٰی ج
زز الاسرائ، 17 : 110
فرما دیجئے کہ اللہ کو پکارو یا رحمان کو پکارو، جس نام سے بھی پکارتے ہو، (سب) اچھے نام اسی کے ہیں۔
لہٰذا اگر کسی کے ذہن میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ وسیلہ جبر و اِکراہ کا نام ہے تو وہ اب دور ہوجانی چاہئے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جو شخص وسیلہ بنتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کو اس امر پر مجبور کر دے گا کہ وہ متعقلہ فرد کے بارے میں مانگی جانے والی دعا کو ضُرور شرفِ قبولیت سے نوازے۔ ہمارے نزدیک اس چیز کا توسُّل کی اصلیت سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ یہ محض اللہ جل شانہ کا انعام و اکرام اور اس کی رحمت ہے کہ اس نے اپنے بعض صالح بندوں کو اپنی محبت‘ اطاعت اور فرمانبرداری کی وجہ سے یہ مقام عطا فرمایا کہ ان کی وجہ سے گناہ گار‘ خطاکار اور عاجز و مسکین بندوں کو اپنی دعاؤں کی باریابی کی زیادہ امید لگ جاتی ہے۔ اسی طرح اللہ ان نیک صالح بندوں سے منسوب چیزوں کی بھی حیا کرتا ہے۔ اس لئے متبرک مقامات اور اشیاء کا وسیلہ بھی اسے پیش کیا جاتا ہے تاکہ دعا کی قبولیت کی امید بڑھ جائے۔
توسُّل کے باب میں امت کے مختلف مسالک کے ہاں کچھ امور متفق علیہ ہیں اور کچھ مختلف فیہ ہیں۔ توسُّل کے حوالے سے متفق علیہ وہ امور جن پر کسی کو بھی اعتراض نہیں یہ ہیں:
جمہور اہل اسلام کا اس پر اجماع ہے کہ اعمالِ صالحہ یعنی صوم و صلوۃ اور حج و زکوٰۃ، تلاوت قرآن اور دیگر اعمال کو وسیلہ بنانا جائز ہے۔ اس میں کسی نے اختلاف نہیں کیا۔ البتہ توسُّل بغیرِ عمل جیسے’ توسُّل بالنبی ﷺ‘، ’توسُّل بالصالحین‘، ’توسُّل بالاولیاء‘ اور’ توسُّل بالآثار‘ کا بعض لوگ انکار کرتے ہیں جبکہ معتدبہ جمہور اہل اسلام شروع سے ہر دور میں ان چیزوں سے توسُّل کے جواز کے قائل رہے ہیں۔ توسُّل کی اختلافی صورت پر شیخ محمد بن علوی المالکی نے ’مفاہیم یجب أن تصحح (ص : 8۔ 117)‘میں جو بلیغ تبصرہ فرمایا ہے، ذیل میں اس کا ترجمہ ملاحظہ کریں:
’’توسُّل کے جس مسئلہ میں اختلاف ہے وہ توسُّل بغیرِعمل ہے جیسا کہ ذوات اور شخصیات کو وسیلہ بنایا جائے۔ اس طریقہ پر کہ یہ کہا جائے: اللھم إنی أتوسل إلیک بنبیک محمدﷺ أو أتوسل إلیک بأبی بکرن الصدیق أو بعمر بن الخطاب أو بعثمان أو بعلیث۔ (اے اللہ! میں تیرے محبوب نبی محمدﷺ کا وسیلہ تیری بارگاہ میں پیش کرتا ہوں ٗ یا میں تیری بارگاہ میں حضرت ابوبکر صدیق ‘ یا حضرت عمر بن خطاب‘ یا حضرت عثمان‘ یا حضرت علیث کا وسیلہ پیش کرتا ہوں۔) یہ صورت بعض علماء کے نزدیک ممنوع ہے۔ ہماری رائے یہ ہے کہ اختلاف صرف صوری ہے کیونکہ توسُّل بالذات میں درحقیقت جس ذات کو وسیلہ بنایا جاتا ہے وہ اس کے عمل کی وجہ سے ہے، اور توسُّل بالاعمال بالاتفاق جائز ہے۔ اور جو لوگ توسُّل کو ممنوع کہتے ہیں اور ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہیں اگر وہ اس مسئلہ کو نظرِ بصیرت سے دیکھتے تو معاملہ واضح ہو جاتا اور اِشکال حل ہو جاتا اور فتنہ بھی ختم ہو جاتا جس میں وہ مبتلا ہو کر مسلمانوں کو کفر و شرک سے متہم کرتے ہیں۔ غیرِعمل کے ذریعہ توسُّل دراصل متوسَّل بہِ کی طرف منسوب ہے کیونکہ وہ عمل متوسَّل بہِ کے کسب سے ہے۔ انسان کسی بھی شخص کو صرف اس کی محبت کی وجہ سے وسیلہ بناتا ہے۔ کیونکہ یہ وسیلہ بنانے والا متوسَّل بہِ کے بارے میں حسنِ ظن کی بنا پر ہی اس کی بزرگی و فضیلت پراعتقاد رکھتا ہے یا پھر یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ اللہ پاک اس متوسَّل بہِ شخص سے محبت کرتے ہیں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
یُحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّونَہٗ۔
المائدہ، 5 : 54
(اللہ) ان سے محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہونگے۔
’’یا پھر یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ یہ تمام امور متوسَّل بہ ِمیں موجود ہیں۔ جب آپ اس معاملہ میں غور کریں گے تو اس محبت کو ضرور بالضرور پائیں گے۔ اور یہ اعتقاد متوسِّل کا عمل ہے کیونکہ عقیدت و اعتقاد اس عمل کو کہتے ہیں جس پر متوسِّل کا قلب مضبوطی سے جما ہوا ہوتا ہے۔ گویا کہ وہ متوسِّل کہتا ہے : یا رب! إنی أحب فلا نا و أعتقد أنہ یحبک و ھو مخلص لک و یجاھد فی سبیلک، و أعتقد أنک تحبہ و أنت راض عنہ، فأتوسل إلیک بمحبتی لہ و باعتقادی فیہ أن تفعل کذا و کذا۔ (اے میرے رب! بے شک میں فلاں آدمی سے محبت رکھتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ وہ تجھ سے محبت رکھتا ہے اور وہ تیرا مخلص بندہ ہے اور وہ تیرے راستہ میں جہاد کرتا ہے‘ اور میرا اعتقاد ہے کہ تو اس سے پیار کرتا ہے اور تو اس سے راضی ہے‘ میں اس سے اپنی محبت کی وجہ سے تیری بارگاہ میں اسے بطور وسیلہ پیش کرتا ہوں اور میرا عقیدہ ہے کہ تو میری دعا قبول فرمائے گا۔ )
’’لیکن بہت سے متوسِّلین اس امر کی صراحت میں تسامح کرتے ہیں اور صرف اس ذات کے علم پر اکتفا کرتے ہیں جس سے آسمانوں اور زمینوں کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے وہ ذات آنکھوں کی خیانت اور سینوں کے پوشیدہ رازوں تک کو جانتی ہے۔ جو شخص ’’اللھم إنی أتوسُّل إلیک بنبیک (اے اللہ! میں تیرے نبی کو تیری بارگاہ میں بطور وسیلہ پیش کرتا ہوں)‘‘ کہے اور جو شخص ’’اللھم إنی أتوسُّل إلیک بمحبتی لنبیک (اے اللہ! میں تیرے نبی سے اپنی محبت کے سبب اسے تیرے بارگاہ میں بطور وسیلہ پیش کرتا ہوں)‘‘ کہے، وہ دونوں برابر ہیں۔ کیونکہ پہلی صورت میں اس متوسِّل نے جو یہ وسیلہ پکڑا ہے تو اپنے نبی ﷺپر ایمان اور نبی ﷺسے محبت ہی کی وجہ سے وسیلہ اختیار کیا ہے۔ اگر متوسِّل کو حضورﷺ سے محبت نہ ہوتی اور آپ ﷺپر ایمان نہ ہوتا تو حضورﷺ کو وسیلہ نہ بناتا۔ اسی طرح اولیائے امت کے بارے میں کہا جاسکتا ہے۔
’’اس بحث سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ یہ اختلاف جو حقیقتاً صرف ایک صوری اختلاف ہے اس سے یہ بات کہاں لازم آتی ہے کہ متوسِّلین پر کفر کا حکم لگایا جائے اور ان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیا جائے۔ ‘‘
بعض لوگ کم علمی کے باعث حضور نبی اکرمﷺ کے وسیلہ سے دعا مانگنے میں تامل کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ شاید وسیلے سے دعا مانگنا‘ اللہ سے براہ راست مانگنے کے منافی ہے۔ وہ قرآن مجید کی ان آیات کا جن میں اللہ تعالیٰ سے مانگنے اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرانے کا حکم ہے ان کا صحیح مفہوم نہ سمجھنے کی بنا پر خیال کرتے ہیں کہ شاید اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ پیش کرنا (معاذ اللہ) کسی کو اللہ کا شریک ٹھہرانے کے مترادف ہے۔ یہ تصور بہت بڑی جہالت اور لا علمی کی پیداوار ہے، ہمیں اس کی اصلاح کرنی چاہیے۔ انبیاء و رسل میں سے کسی کو، یا اللہ تعالیٰ کے کسی مقرب اور صالح بندے کو یا کسی بھی عمل صالح کو اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہوئے اس کی بارگاہ میں بطور وسیلہ پیش کرنا نہ تو کسی قسم کا شرک ہے اور نہ ہی براہ راست اللہ سے مانگنے کے منافی ہے۔
کسی کو وسیلہ بنانے کے باوجود براہ راست اللہ ہی سے مانگا جاتا ہے‘ صاحبِ وسیلہ سے نہیں۔ شرک کا ارتکاب تو تب ہوکہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کسی اور کو اللہ تعالیٰ کی طرح نفع و نقصان کا مالک‘ قادر مطلق اور دعائیں سننے والا سمجھاجائے‘ یہاں سرے سے ایسا معاملہ ہے ہی نہیں۔ دعا فقط اللہ تعالیٰ ہی سے مانگی جاتی ہے اور اس سے اپنی حاجتیں اور مرادیں مانگتے ہوئے حضور نبی اکرمﷺ کی ذات گرامی کا یا کسی ایسے مقرب بندے یا نیک عمل کا واسطہ دیا جاتا ہے جس سے خود اللہ تعالیٰ کو محبت ہو اور جس کا وہ عام مخلوق سے کہیں بڑھ کر حیا اور لحاظ فرماتا ہو۔ سو ایسا وسیلہ پیش کرنے سے جہاں خود کلماتِ دعا کی برکت اور تاثیر میں اضافہ ہوجاتا ہے وہاں اس کی بارگاہ ِعالی میں شرف قبولیت پانے کے امکانات پہلے سے کہیں زیادہ ہوجاتے ہیں کیونکہ اب بندے کی التجا کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی اپنی محبت بھی اس کے پیش نظر ہوتی ہے۔ یہ معلوم ہونا چاہیے کہ دعاؤں کی اجابت و قبولیت میں وسیلہ شرط نہیں مگر مفید اور کارگر ضرور ہے۔ خود حضور نبی اکرمﷺ نے صحابہ کرام کو اپنے وسیلہ جلیلہ سے دعا مانگنے کی تعلیم فرمائی تھی جیسا کہ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے مروی صحیح حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ آپ ﷺ نے انہیں دعا کے یہ کلمات تلقین فرمائے:
اللھم! إنی أسئلک، و أتوجہ إلیک بمحمد نبی الرحمۃ، یا محمد! إنی قد توجھت بک إلی ربی فی حاجتی ھذہ لتقضی، اللھم! فشفعہ فیّ۔
1۔ سنن ابن ماجہ : 100
2۔ جامع الترمذی، 2 : 197
3۔ مسند احمد بن حنبل، 4 : 138
4۔ المستدرک للحاکم، 1 : 313، 519
5۔ دلائل النبوۃ للبیہقی، 6 : 166
6۔ صحیح ابن خزیمۃ، 2 : 6۔ 225، رقم : 1219
7۔ عمل الیوم والیلۃ للنسائی : 417، رقم : 9۔ 658
8۔ شفاء السقام : 123
9۔ اسد الغابۃ، 3 : 571
10۔ کتاب الاذکار للنووی : 83
11۔ البدایۃ و النھایۃ، 4 : 558
12۔ تحفۃ الاشراف، 7 : 236، رقم : 9760
13۔ تحفۃ الذاکرین للشو کانی : 5۔ 194
اے اللہ! میں تجھ سے درخواست کرتا ہوں اور تیری طرف حضرت محمد ﷺ نبی رحمت کے وسیلے سے متوجہ ہوتا ہوں۔ اے محمد !میں آپ کے وسیلہ سے اپنی اس حاجت میں اپنے رب کی طرف متوجہ ہوا ہوں تاکہ وہ پوری ہوجائے۔ اے اللہ! میرے حق میں آپ کی شفاعت قبول فرما۔
خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضورﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلے سے بارش کی دعا مانگتے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ’صحیح البخاری ‘میں مروی ہے۔ اسی طرح ایک مرتبہ جب مدینہ طیبہ میں سخت قحط پڑگیا تھا تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے صحابہ کرام ثاور دیگر اہل مدینہ کو توسُّلاً حضور نبی اکرمﷺ کی قبر انور کی طرف بھیجا اور اس کی برکت سے موسلا دھار بارش ہوئی۔ (یہ روایت امام دارمی نے ابو الجوزاء سے’ سنن (1 : 43، رقم : 93)‘ کے ’مقدمہ‘ میں نقل کی ہے۔ ) الغرض یہ مبارک عمل حضرت آدم ںاور دیگر انبیاء کرام سے لے کر خود عہد رسالت مآب ﷺتک اور پھر عہد صحابہ و تابعین سے لے کر تاحال امت میں مقبول اور متداول چلا آرہا ہے۔ اب بعض لوگ دین کی صحیح معرفت نہ ہونے کے باعث اس پر اعتراض کرنے لگے ہیں اور اسے (معاذ اللہ) توحید کے منافی سمجھنے لگے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ احکام شریعت کی حقیقی روح کو سمجھا جائے تاکہ ہم اپنی کم علمی اور عدم واقفیت کے باعث دینی تصورات کا حلیہ نہ بگاڑ بیٹھیں۔
مسئلہ توسُّل پر بحث کرتے ہوئے اس میں چار چیزوں کا ذکر آئے گاجو باہم متعلق ہیں۔ لہذا انہیں ذہن نشین کرنا ضروری ہے :
1۔ وسیلہ (intermediation) :
نفس مسئلہ کو وسیلہ کہا جاتا ہے۔
2۔ متوسِّل (intermediatee) :
وسیلہ بنانے والا یعنی وہ شخص جو اپنی دعا میںکسی نیک عمل، مقرب ہستی یا کسی خاص مقام کو وسیلہ بنائے۔
3۔ متوسَّل بہٖ (intermediator, intermediary) :
جس چیز کو بارگاہ ربوبیت میں وسیلہ بنایا جائے جیسے نیک اعمال، مقربین اور آثار و تبرکاتِ مقربین۔
4۔ متوسَّل اِلیہ :
خود باری تعالی کی ذات متوسَّل اِلیہ ہے کیونکہ اس کی بارگاہ عالیہ میں وسیلہ پیش کیا جاتا ہے۔
توسُّل اور وسیلہ ایک ہی مفہوم کے تحت استعمال ہوتے ہیں۔ ائمہ لغت کے نزدیک وسیلہ سے مراد مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے۔
1۔ امام راغب اصفہانی مفہومِ وسیلہ پر یوں رقمطراز ہیں :
الوسیلۃ : التَّوصل إلی الشئ برغبۃ، و ھی أخصُّ من الوصیلۃ، لتضَمُّنھا لِمعنی الرغبۃِ۔
مفردات ألفاظ القرآن : 871
وسیلہ کے معنی کسی چیز کی طرف رغبت کے ساتھ پہنچنے (یعنی توصل) کے ہیں اور وسیلہ میں رغبت کا پہلو شامل ہونے کی وجہ سے یہ ’’وصیلۃ‘‘ سے خاص ہے۔
2۔ ابن منظور لفظ ’وسیلہ ‘کی تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
الوسیلۃ : ھی فی الأصل ما یُتَوَصَّلُ بہ إلی الشئ و یُتَقَرَّبُ بہ۔
لسان العرب، 11 : 725
درحقیقت وسیلہ وہ چیز ہے جس کے ذریعے کسی تک پہنچا جائے اور اس کا قرب حاصل کیا جائے۔
3۔ امام زمخشری کہتے ہیں :
الوسیلۃ : کل ما یتوسُّل بہ أی یتقرب…بہ إلی اللہ تعالی۔
تفسیر الکشاف‘ 1 : 488
ہر وہ چیز جس کے ذریعے اللہ تک پہنچا جائے یعنی قرب حاصل کیا جائے‘ اسے ہی وسیلہ کہتے ہیں۔
توسُّل کے معانی کثیر ہیں : یہ حاجت، رغبت، منزلت اور قربت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ ان میں تین معانی وہ ہیں جو توسُّل کے شرعی معنی کے اعتبار سے استعمال ہوتے ہیں :
وسیلہ جنت میں ایک مشہور منزل یعنی مقام ہے جو حضور شافعِ یوم النشورﷺ کے لئے مختص ہے۔ اذان کے بعد اس مقام پر حضور ﷺکو فائز کرنے کے لئے دعا مانگی جاتی ہے۔ جیسا کہ ’صحیح البخاری‘ میں ہے کہ حضور ﷺ نے خود یہ دعا مانگنے کی ترغیب دی :
عن جابر بن عبداللہ : أن رسول اللهﷺ قال : من قال حین یسمع النداء : اللّٰهم! رَبَّ ھٰذِہٖ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃَ وَ الصَّلٰوۃِ الْقَائِمَۃِ اٰتِ مُحَمَّدًا الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَّحْمُوْدَانِ الَّذِی وَعَدَّتہٗ، حَلَّتْ لہ شفاعتی یوم القیامۃ۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اذان کے بعد یہ دعا پڑھے : ’’اے ہمارے رب! اس دعوۃ تامہ اور صلوۃ قائمہ کے بدلے تو محمدﷺ کو وسیلہ اور فضیلت عطا فرما اور انہیں مقام محمود پر فائز فرما جس کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا۔ ‘‘قیامت کے دن اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوگئی۔
1۔ صحیح البخاری، 1 : 86
2۔ سنن النسائی، 1 : 110
3۔ مسند احمد بن حنبل، 3 : 354
4۔ السنن الکبریٰ للبیہقی، 1 : 410
5۔ شرح السنۃ للبغوی، 2 : 4۔ 283، رقم : 420
6۔ مشکاۃ المصابیح : 65
7۔ فتح الباری، 2 : 94
8۔ فتح الباری، 8 : 399
اس دعا میں’الوسیلۃ‘ سے وہ مقام رفیع مراد ہے جو جنت میں ایک خاص درجہ ہے اور یہی مقام محمود بھی ہے گویا حضور نبی اکرم ﷺکیلئے جب وسیلہ مانگیں گے تو اس سے جنت کا یہ خاص مقام مراد ہوگا۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں قرب بنفسہ ایک وسیلہ ہے۔ جب بندہ ایمانِ کامل‘ اتباعِ احکام‘ عبادات‘ پیرویِ سنت اور گناہوں سے بچنے کے سبب اللہ کا قرب حاصل کر لیتا ہے تو یہ قرب خود ہی وسیلہ بن جاتا ہے۔ جس طرح کہ خلوص نیت سے کام کرنے والے اللہ رب العزت کے مقرب بندے بن جاتے ہیں، ان کا یہ قرب اور اخلاص انہیں راہِ راست پر ثابت قدم رکھنے اور شیطان کی دسیسہ کاریوں سے محفوظ رکھنے کا وسیلہ بن جاتا ہے۔ ارشاد ربانی کے مطابق ا یمان والوں کو شیطان نے راہ راست سے بھٹکانے کی قسم کھا رکھی ہے :
قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَأُغْوِیَنَّهُمْ أَجْمَعِیْنَo
ص، 38 : 82
(شیطان) بولا : تیری عزت کی قسم! میں ان سب کو ضرور گمراہ کروں گا۔
لیکن قرآن کے مطابق وہ کبھی بھی اللہ کے مقرب بندوں کو گمراہ نہیں کرسکے گا۔
جو چیزیں قرب کے حصول کا ذریعہ بنیں وہ بھی وسیلہ ہیں‘ چاہے ان کا تعلق افراد سے ہو یا اعمال سے کیونکہ قرآن پاک نے وسیلہ کے تلاش کرنے کا حکم مطلق رکھا ہے اور مطلق کو بغیر دلیل شرعی و نص قطعی مقید نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا یہ حکم کہ :
یٰأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَ ابْتَغُوْا إِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ۔
المائدہ، 5 : 35
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اس (کے حضور) تک (تقرب اور رسائی کا) وسیلہ تلاش کرو۔
……اپنے اطلاق پر رہے گا۔ اسکا اطلاق اعمال و افراد دونوں پر ہوگا اور اسے کسی ایک چیز کے ساتھ خاص نہیں کیا جاسکتا۔ یہی آیت کریمہ توسُّل کے جواز اور اس کی مشروعیت پر نص صریح کا درجہ رکھتی ہے۔
شاہ اسماعیل دہلوی اس آیت سے مراد مرشد کی رہنمائی لیتے ہیں : ٔ
اہل سلوک ایں آیت را اشارت بسلوک می فھمند و وسیلہ مرشد را می دانند، پس تلاش مرشد بنا بر فلاح حقیقی و فوز تحقیقی پیش از مجاہدہ ضروری است، و سنت اللہ برھمین منوال جاریست، لہذا بدون مرشد راہ یابی نادر است۔
صراطِ مستقیم : 58
سالکانِ راہِ حقیقت نے وسیلہ سے مراد مرشد لیا ہے۔ حقیقی کا میابی و کامرانی کے حصول کے لئے مجاہدہ و ریاضت سے پہلے تلاشِ مرشد از حد ضروری ہے اور اللہ تعالی نے سالکانِ راہِ حقیقت کے لئے یہی قاعدہ مقرر فرمایا ہے۔ اسی لئے مرشد کی راہنمائی کے بغیر اس کا ملناشاذو نادر سا ہے۔
توسُّل کو مندرجہ ذیل قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :
1۔ التوسُّل للدعاء
2۔ التوسُّل فی الدعاء
3۔ التوسُّل بالدعاء
4۔ التوسُّل بالنداء یا بالإستغاثہ
5۔ التوسُّل بالأعمال الصالحہ
6۔ التوسُّل بآثار الصالحین
ہو : التقرب إلی اللہ بالوسیلۃ الشرعیۃ۔
وسیلہ شرعیہ (جس کو شریعت جائز قرار دیتی ہو) کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب چاہنا توسُّل للدعا ہے۔
ھو : التقرب إلی اللہ تعالی وقت المسئلۃ و عرض المقصود۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں کوئی حاجت اور پریشانی پیش کرتے وقت کسی ضرورت اور مراد کے حصول کے لئے کسی کو بطور وسیلہ پیش کرنا توسُّل فی الدعا ہے۔
پہلی قسم میں فقط اللہ تعالی کی بارگاہ میں قرب حاصل کرنے کے لئے توسُّل ہے جبکہ دوسری قسم میں اپنی پریشانی کے دور کرنے، حاجت اور ضرورت کے پورا ہونے اور مراد کے حصول کے لئے کسی کو بطور وسیلہ پیش کیا جانا ہے۔
توسُّل فی الدعا ء کی دو قسمیں ہیں :
1۔ توسُّل لفظی
2۔ توسُّل نفسی
فھو : أن یذکر فی دعائہ ما یتقرب بہ إلی اللہ تعالی۔
(دعا کی قبولیت کے لئے، کسی حاجت یا مراد کے حصول کے لئے یا) اللہ تعالیٰ کا قرب چاہنے کے لیے جس کا وسیلہ پیش کیا جائے، لفظاً اس کا ذکر کرنا توسُّل لفظی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے حضور بوقت دعا کسی مقبول عمل کا ذکر یا کسی برگزیدہ ذات و ہستی کا ذکر ہی تقرب الی اللہ اور دعا کی قبولیت کا وسیلہ بن جاتا ہے۔ اس چیز کی ضرورت نہیں کہ لفظ وسیلہ استعمال کرکے کہے کہ میں فلاں کا وسیلہ تیری بارگاہ میں پیش کرتا ہوں فقط متوسَّل بہٖ (جس کا وسیلہ پکڑا گیا ہو) کا ذکر ہی کافی ہوتا ہے۔
جیسا کہ’ صحیح بخاری‘ میںتین آدمیوں کا واقعہ مذکور ہے، جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے :
’’دوران سفر ان پر غار کا دروازہ بندہو گیا۔ تینوں بندے خدا رسیدہ اور نیک خصلت تھے۔ ایک نے ماں باپ سے حسن سلوک کا ذکر کیا اور اللہ رب العزت سے دعا کی، دوسرے نے بے حیائی کے اسباب پر قدرت کے باوجود اس سے بچنے کا ذکر کیا اور دعا کی، تیسرے نے کسی مزدور کی اجرت جو کئی سالوں کے بعد مال و متاع میں تبدیل ہوگئی تھی اس کی حفاظت کرنے اور مکمل ادائیگی کا ذکر کرنے کے بعد دعا کی تو قاضی الحاجات نے تینوں کی دعا سے اس بھاری پتھر کو غار کے دھانے سے ہٹا کر انہیں مشکل سے نجات دی۔ ‘‘
بوقت دعا کسی چیز، عمل یا مقام کو تقرب کا ذریعہ بنالینا جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہو مگر دعا میں لفظاً ذکر نہ کرنا عملاً اور محلاًّ اس کا خود بخود ہو جانا توسُّل نفسی ہے۔
توسُّلِ لفظی کو توسُّل بالعمل بھی کہتے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ دعا میں لفظاً ذکر نہ کرنا بلکہ کسی اللہ والے کی مجلس میں جاکر دعا کرنا یا کسی بابرکت جگہ یا اللہ تعالی کی مقبول چیز کو سامنے رکھ کر دعا کرنا۔
توسُّل نفسی (عملی) کی پہلی مثال سید نا زکریا علیہ السلام کا حضرت مریم علیھا السلام کی عبادت گاہ میں دعا مانگنا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ ج قَالَ رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً ج إِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِO
آل عمران، 3 : 38
اسی جگہ (حضرت مریم علیہا السلام کی عبادت گاہ میں) زکریا علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا کی۔ عرض کیا : میرے مولا! مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بیشک تو ہی دعا کا سننے والا ہے۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ پاک نے حضرت زکریاں کا عمل مبارک بیان فرمایا کہ جب انہوں نے اپنی زیرتربیت اللہ کی بندی حضرت مریم علیھا السلام کے پاس طرح طرح کے بے موسمی پھل اور دیگر انعامات الہیہ کا مشاہدہ کیا تو انہوں نے اس خاص مقام کو اپنی دعا کیلئے منتخب کیا۔ اللہ پاک نے ان کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور انہیں حضرت یحیٰ علیہ السلام عطا فرمائے۔
اسی طرح دوسری مثال حضرت یوسف علیہ السلام کا اپنی قمیض کو سیدنا یعقوبں کو بھیجنا تاکہ اس قمیض کے ذریعہ اللہ پاک ان کی بینائی لوٹائے۔ اس کے علاوہ اعمال ِصالحہ، ذوات ِانبیاء کرام و صالحین، آثار ِانبیاء و صالحین سے دعامیں توسُّل کرنا توسُّلِ لفظی ہے جس کو ہم اسی کتاب میں تفصیل سے بیان کریں گے۔
یہ اللہ تعالیٰ کے کسی مقرب بندے سے دعا کی التجاہے کہ وہ بارگاہ الہی میں حاجت مند کیلئے اپنا ہاتھ اٹھا دیں اور اس پر نازل شدہ آفات و بلیات سے نجات کیلئے حضور الٰہ میں دعا کریں۔ یقینا اس کا دریائے رحمت اپنے مقرب بندے کے اٹھے ہوئے ہاتھوں کو خالی نہ لوٹنے دے گا بلکہ اس دعا کو شرف قبولیت سے نوازے گا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَإِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسیٰ لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰی طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الْأَرْضُ مِنْمْ بَقْلِھَا وَ قِثَّآئِھَا وَفُوْمِھَا وَعَدَسِھَا وَبَصَلِھَا۔
اور جب تم نے کہا : اے موسیٰ! ہم فقط ایک کھانے (یعنی منّ و سلوی) پر ہرگز صبر نہیں کرسکتے تو آپ اپنے رب سے ہمارے (حق میں) دعا کیجئے کہ وہ ہمارے لیے زمین سے اگنے والی چیزوں میں سے ساگ اور ککڑی اور گیہوں اورمسور اور پیاز پیدا کردے۔
البقرہ، 2 : 61
اس آیہ کریمہ میں ’’فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ‘‘ کے الفاظ ’’توسُّل بالدعاء‘‘ کا سبب بن رہے ہیں۔ ان میں صراحتاً امت موسوی حضرت موسی علیہ السلام سے رب کے حضور دعا مانگنے کی گزارش کر رہی ہے۔ چونکہ یہاں حضرت موسی علیہ السلام کی دعا سے توسُّل کیا جارہا ہے‘ اس لیے یہ عمل توسُّل بالدعا ہے۔
سائل اپنا مقصود خود بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں پیش کرے اور حضور نبی اکرمﷺ کے توسُّل سے رب کی مدد و نصرت کو طلب کرے یہ ذکر رسول اللہﷺ کی مدد و نصرت کیلئے وسیلہ بن جاتا ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ جنگ یمامہ کے موقع پر ’’یا محمداہ (اے محمدؐ! مدد فرمائیے)‘‘ مسلمانوں کا نعرہ تھا۔ ‘‘وہ فرماتے ہیں : ’’جنگ یمامہ میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی شہادت پر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جھنڈا اٹھایا اور لشکر سے گزر کر مسیلمہ کذاب کے پہاڑ کی طرف چل دیئے اور انتظار کرنے لگے کہ وہ آپ رضی اللہ عنہ تک پہنچے اورآپ رضی اللہ عنہ اسے قتل کردیں۔ پھر آپ لوٹ آئے اور دونوں لشکروں کے درمیان کھڑے ہوکر بلند آواز سے فرمایا:
أنا ابن الولید العود، أنا ابن عامر و زید… ثم نادیٰ بشعار المسلمین، و کان شعارھم یومئذ : ’’یا محمداہ‘‘۔
البدایہ والنھایہ، 5 : 30
میں ولید کا بیٹا ہوں‘ میں عامر و زید کا بیٹا ہوں۔ پھر آپ نے مسلمانوں والا مروّجہ نعرہ بلند کیا، اور ان دنوں ان کا جنگی نعرہ ’’یا محمداہ‘‘ (اے محمد ﷺ! مدد فرمائیے) تھا۔
اس روایت میں ’’یا محمداہ‘‘ کے الفاظ کے ذریعے سے توسُّل کیا جارہا ہے اور اس عمل کا ارتکاب کرنے والے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں۔ پس حضور نبی اکرمﷺ کی ذات اقدس سے توسُّل سنت صحابہ ٹھہرا۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے :
أن رسول اللہ ﷺ قال : إن ﷲ ملئکۃ فی الأرض سوی الحفظۃ یکتبون ما یسقط من ورق الشجر، فإذا أصاب أحدکم عرجۃ بارض فلاۃ، فلیناد : أعینوا عباد اللہ۔
مجمع الزوائد، 10 : 132
نبی اکرمﷺ نے فرمایا : بے شک زمین میں اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ایسے بھی ہیں جو محافظ فرشتوں کے علاوہ ہیں۔ درخت کا جو پتا بھی گرتا ہے وہ اسے لکھ لیتے ہیں۔ پس جب تم میں سے کسی شخص کو جنگل میں اذیت پہنچے تو وہ یوں نداء کرے : ’’أعینوا عباد اللہ (اے اللہ کے بندو! میری مدد کرو)‘‘۔
حافظ ابن حجر ہیثمی کہتے ہیں کہ اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے سب راوی ثقہ ہیں۔
سرور ِکائنات فخرِ موجودات حبیب ِخداﷺ اپنی زبان اقدس سے خود تعلیم توسُّل دے رہے ہیں کہ جنگل و بیاباں میں بھی اللہ والوں سے اپنا رابطہ منقطع نہ کرو۔ بظاہر انسانی صورت میں کوئی بندہ نظر نہ آئے تو ملائکہ سے توسُّل کرتے ہوئے رب کی بارگاہ میں عرض کرو۔ اس کے حکم سے اس کے فرشتے تمہاری مدد کو پہنچ جائیں گے اور تمہاری ضرورت کو پورا کردیں گے۔ یہ کائنات ملائکہ سے معمور ہے۔ مذکورہ حدیث میں ’’فلیناد : أعینوا عباد اللہ‘‘ کے الفاظ توسُّل بالاستغاثہ پر صریح دلیل ہے۔
میدان حشر میں جب اولین و آخرین شدید گرمی کی وجہ سے سخت تکلیف میں ہوں گے اور ابھی حساب کتاب کا مرحلہ باقی ہوگا تو ایسے میں وہ تمام لوگ اکٹھے ہوکر حضور نبی اکرمﷺ سمیت دیگر انبیاء کرام علیہم السلام سے استغاثہ کریں گے۔ جب اُس روز توسُّل بالاستغاثہ جائز امر ہے تو اس دنیا میں بھی جائز ہے۔ ’صحیح البخاری‘ کی حدیث پاک اس پر شاہد ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں :
عن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما قال : قال النبیﷺ : ما یزالُ الرجلُ یسأل الناسَ، حتی یأتی یوم القیامۃ لیس فی وجھہ مُزْعَۃُ لحمٍ۔ و قال : إن الشمسَ تدنوا یومَ القیامۃِ، حتی یَبلُغ العرقُ نصف الأذنِ، فبیناھم کذٰلک استغاثوا بآدم، ثم بموسیٰ، ثم بمحمدٍﷺ۔ و زاد عبد اللہ، قال : حدثنیِ اللَّیْث، قال : حدثنی ابن أبی جعفر : فیَشْفَعُ لِیُقْضٰی بین الخلقِ، فَیَمشِی حتی یأخُذَ بحَلَقَہِ الباب، فیومئذٍ یبعثہ اللہ مقاماً محموداً، یحمدہ أھل الجمعِ کُلُّھُمْ۔
1۔ صحیح البخاری‘ 1 : 199
2۔ معجم الاوسط للطبرانی، 9 : 331، رقم : 8720
مجمع الزوائد، 10 : 371
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک آدمی ہمیشہ لوگوں سے مانگتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ قیامت کے دن جب وہ حاضر ہوگا تو اس کے چہرے پر گوشت کا ٹکڑا نہ ہوگا۔ فرمایا : قیامت کے دن سورج لوگوں کے قریب آجائے گا یہاں تک کہ نصف کان تک پسینہ آجائے گا اس حال میں لوگ حضرت آدمں، پھر موسی علیہ السلام اور پھر حضرت محمدﷺ سے استغاثہ کریں گے۔ (اور عبداللہ نے اس روایت میں اتنا اضافہ کیا کہ مجھ سے لیث نے ابن ابی جعفر سے بیان کیا کہ آپ ﷺلوگوں کے درمیان فیصلے کی سفارش کرینگے، آپﷺ روانہ ہوں گے یہاں تک کہ بہشت کے دروازے کا حلقہ تھام لیں گے۔ اس دن اللہ تعالیٰ آپ ﷺکو مقامِ محمود پر فائزکرے گا اور وہاں موجود سب لوگ آپﷺ کی تعریف کریں گے۔
بیان توسُّل میں ایک اور بات بطور خاص قابل غور ہے کہ جب ہم کسی کی ذات کو بطور توسُّل بارگاہ رب العزت میں پیش کرتے ہیں تو اس عمل سے توسُّل کے علاوہ شفاعت اور استعانت کا تصور بھی واضح ہوتا ہے۔ یعنی جب توسُّل ثابت ہو جائے تو اس سے باقی دو چیزیں بھی خود بخود ثابت ہو جاتی ہیں۔ ذیل میں ہم ان تینوں کا باہمی تعلق قرآن مجید کی آیت کی روشنی میں واضح کرتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَ لَوْ أَنَّھُمْ إِذْ ظَّلَمُوْآ أَنْفُسَھُمْ جَاءوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰہَ وَ اسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًاO
النساء، 4 : 64
اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول (ﷺ) بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔
اس آیت مبارکہ میں جَاءُوْکَ دلیلِ توسُّل ہے یعنی جو لوگ گناہ کر بیٹھیں اور وہ آپﷺ کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوکر آپﷺ کو وسیلہ بنائیں اور آپ ﷺ بھی ان کی بخشش و مغفرت طلب کریں تو اللہ کو بخشنے والا مہربان پائیں گے۔
فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ دلیلِ شفاعت ہے۔ لہذا جب رسول ﷺ کی شفاعت پر اللہ نے بخش دیا تو اس سے ثابت ہوا کہ شفاعت از روئے قرآن امرِ جائز ہے۔
تیسری چیز ’استعانت ‘کسی سے مدد طلب کرنے کا ثبوت ہے۔ جب بندہ اپنے گناہوں کی بخشش کے لیے نبی اکرمﷺ کی بارگاہ کی طرف رجوع کرتا ہے تو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ وہ آپ ﷺ سے شفاعت طلب کر رہا ہے کہ یا رسول اللہ ! میں بندہ گناہگار‘ عاجز خطا کار و سیاہ کار ہوں، آپﷺ کرم فرمائیں اور بارگاہ الہٰی سے میرے گناہوں کی بخشش کے لئے سفارش فرمائیں۔ امتی کی یہی طلب درحقیقت استعانت ہے جبکہ رسول ﷺکا اللہ کی بارگاہ سے اس کی بخشش و مغفرت طلب کرنا شفاعت ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved