العرفان فی فضائل و آداب القرآن

تلاوت قرآن کے وقت رونے کا بیان

78. عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم: إِقْرَأْ عَلَىَّ. قَالَ: قُلْتُ: أَقْرَأُ عَلَيْکَ وَ عَلَيْکَ أُنْزِلَ؟ قَالَ: إِنِّى أَشْتَهِي أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْ غَيْرِي. قَالَ: فَقَرَأْتُ النِّسَاءَ حَتَّی إِذَا بَلَغْتُ: فَکَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّةٍ بِشَهيْدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَی هَؤُلَاءِ شَهيْدًا [النساء، 4 : 41]. قَالَ لِى: کُفَّ أَوْ أَمْسِکْ فَرَأَيْتُ عَيْنَيْهِ تَذْرِفَانِ. متفق عليه.
”حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا: مجھے قرآن مجید پڑھ کر سناؤ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: میں آپ کو پڑھ کر سناؤں حالانکہ آپ پر قرآن نازل ہوا! فرمایا: میری یہ خواہش ہے کہ میں اسے دوسروں سے سنوں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پھر میں نے سورۃ النساء کی تلاوت کی یہاں تک کہ جب میں اس آیت پر پہنچا: فَکَيْفَ إذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيْدٍ وَ جِئْنَا بِکَ عَلَی هَؤُلَاءِ شَهِيْدًا (پھر اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب!) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گے)۔ تو مجھ سے فرمایا: رک جاؤ! جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ اقدس سے آنسو رواں تھے۔“
وَفِى رِوَايَةٍ عَنْهُ قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم: إقْرَأْ عَلَيَّ فَقُلْتُ: أَقْرَأُ عَلَيْکَ وَعَلَيْکَ أُنْزِلَ؟ فَقَالَ: إنِّى أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَهُ غَيْرِى، فَافْتَتَحْتُ، فَقَرأْتُ سُوْرَةَ النِّسَاءِ، حَتَّی بَلَغْتُ: فَکَيْفَ إذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيْدٍ، وَجِئْنَا بِکَ عَلَی هَؤُلَاءِ شَهِيْدًا [النساء، 4 : 41]، فَاغْرَوْرَقَتْ عَيْنَاهُ صلی الله عليه وآله وسلم. فَأَمْسَکْتُ، فَقَالَ لِى: سَلْ تُعْطَه. رواه الطبراني، ونحوه البزار. (1)
”حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے قرآن سناؤ، میں نے عرض کیا: (آقا!) میں آپ کو سناؤں حالانکہ یہ قرآن تو آپ پر نازل ہوا ہے؟ فرمایا: میں کسی دوسرے سے قرآن مجید سننا پسند کرتا ہوں۔ حضرت عبد اﷲ بیان کرتے ہیں کہ میں نے قرات شروع کی اور میں نے سورۃ النساء کی تلاوت کی یہاں تک کہ میں اس آیت پر پہنچا:فَکَيْفَ إذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيْدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَی هَؤُلَاءِ شَهِيْدًا (پھر اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب!) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گے)۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ اقدس آب ریز ہوگئیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے روک دیا اور فرمایا: مانگو عطا کیا جائے گا۔“

79. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها، قَالَتْ: لَمْ أَعْقِلْ أَبَوَيَّ إلَّا وَهُمَا يَدِيْنَانِ الدِّيْنَ، وَلَمْ يَمُرَّ عَلَيْنَا يَومٌ إلَّا يَأْتِيْنَا فِيْهِ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم طَرَفَيِ النَّهارِ بُکْرَةً وَ عَشِيَّةً، ثُمَّ بَدَا لِأَبِي بَکْرٍ فَابْتَنَی مَسْجِدًا بِفِنَاءِ دَارِهِ، فَکَانَ يُصَلِّى فِيْهِ وَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ، فَيَقِفُ عَلَيْه نِسَاءُ الْمُشْرِکِيْنَ وَأَبْنَاؤُهُمْ يَعْجَبُونَ مِنْهُ وَيَنْظُرُونَ إلَيْهِ، وَکَانَ أَبُوبَکْرٍ رَجُلًا بَکَّاءً لاَ يَمْلِکُ عَيْنَيْهِ إذَا قَرَأَ الْقُرْآنَ فَأَفْزَعَ ذَلِکَ أَشْرَافَ قُرَيْشٍ مِنَ الْمُشْرِکِيْنَ. رواه البخاري.
”حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ جب میں سنِ شعور کو پہنچی تو میں نے اپنے والدین کو اسی دین (اسلام) کا پابند دیکھا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر روز صبح و شام بلا تاخیر ہمارے گھر تشریف لاتے۔ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دل میں خیال آیا تو انہوں نے اپنے گھر کے صحن میں مسجد بنا لی۔ وہ اسی میں نماز پڑھا کرتے اور اسی میں تلاوت فرماتے۔ مشرکین کی عورتیں اور بچے کھڑے ہوکر ان کی طرف دیکھتے اور تعجب کا اظہار کرتے۔ جب وہ قرآن مجید کی تلاوت کرتے تو (بے تحاشا روتے) اور انہیں اپنی آنکھوں پر قابو نہ رہتا۔ ان کا (اس سوز سے) قرآن مجید پڑھنا قریش کے مشرک سرداروں کو مضطرب کر دیتا۔“

80. عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي الله عنه أَنَّهُ أَخْبَرَهُ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: لَمَّا اشْتَدَّ بِرَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَجَعُهُ، قِيْلَ لَهُ فِي الصَّلاَةِ، فَقَالَ: مُرُوا أَبَابَکْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ. قَالَتْ عَائِشَةُ: إنَّ أَبَابَکْرٍ رَجُلٌ رَقِيْقٌ إذَا قَرَأَ غَلَبَهُ الْبُکَاءُ. قَالَ: مُرُوهُ فَيُصَلِّي فَعَاوَدَتْهُ. قَالَ: مُرُوهُ فَيُصَلِّي إنَّکُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ. متفق عليه. وهذا لفظ البخارى.
”حضرت حمزہ بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مرض شدت اختیار کرگیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نماز کے لئے عرض کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا عرض گزار ہوئیں: ابوبکر رقیق القلب (نرم دل) آدمی ہیں، جب وہ قرات کرتے ہیں تو ان پر گریہ و بکاء غالب آ جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان ہی سے کہو کہ نماز پڑھائیں۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا دوبارہ عرض گزار ہوئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان ہی سے کہو کہ نماز پڑھائیں، تم تو یوسف علیہ السلام کے زمانہ کی عورتوں کی طرح ہو۔“

81. عَنْ مُطَرِّفٍ عَنْ أَبِيْهِ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يُصَلِّي وَفِي صَدْرِهِ أَزِيْزٌ کَأَزِيْزِ الرَّحَی مِنَ الْبُکَاءِ. رواه أبوداود والنسائى وأحمد. وقال الحاکم: هذا حديث صحيح علی شرط مسلم.
”حضرت مطرف اپنے والد ماجد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہء اقدس سے رونے کی آواز اس طرح آرہی تھی جیسے چکی کے چلنے کی آواز ہوتی ہے۔“

82. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ رضي الله عنهم قَالَ: قُلْتُ لِجَدَّتِى أسْمَاءَ رضي اﷲ عنها: کَيْفَ کَانَ يَصْنَعُ أصْحَابُ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إذَا سَمِعُوا الْقُرْآنَ؟ قَالَتْ: تَدْمَعُ أعْيُنُهُمْ، وَتَقْشَعِرُّ جُلُودُهُمْ کَمَا نَعَتَهُمُ اﷲُ. قَالَ: قُلْتُ: فإنَّ نَاسًا هَهُنَا إذَا سَمِعَ أحَدُهُمُ الْقُرْآنَ خَرَّ مَغْشِيًّا عَلَيْهِ. قَالَتْ: أَعُوْذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ. رواه البيهقى وابن منصور وابن المبارک، وسنده صحيح.
”حضرت عبد اﷲ بن عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنی دادی حضرت اسماء رضی اﷲ عنہا سے دریافت کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب قرآن سنتے تھے تو کیا کرتے تھے؟ آپ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا: ان کی آنکھیں اشک بار ہوجایا کرتی تھیں اور ان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کا وصف بیان کیا ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں: میں نے کہا: بیشک بعض لوگ یہاں ایسے بھی ہیں کہ ان میں سے جب کوئی قرآن پڑھتا ہے تو وہ بے ہوش ہوکر گر پڑتا ہے ۔ حضرت اسماء رضی اﷲ عنہا نے فرمایا: میں شیطان مردود سے اﷲ تعالیٰ کی پناہ مانگتی ہوں۔“

83. عَنْ جَرِيْرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ الْبَجَلِيِّ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم: إنِّى قَارِئٌ عَلَيْکُمْ سُوْرَةَ أَلْهَاکُمْ [التکاثر، 102]، فَمَنْ بَکَی فَلَهُ الْجَنَّةُ، فَقَرَأَ فَبَکَی بَعْضٌ وَلَمْ يَبْکِ الْبَاقُونَ، قَالَ الَّذِيْنَ لَمْ يَبْکُوا: لَقَدْ جَهَدْنَا يَارَسُولَ اﷲِ! أنْ نَبْکِي فَلَمْ نَقْدِرْ، فَقَالَ: إنِّى قَارِئُهَا عَلَيْکُمُ الثَّانِيَةَ، فَمَنْ بَکَی فَلَهُ الْجَنَّةَُ، وَمَنْ لَمْ يَقْدِر أَنْ يَبْکِي فَلْيَتَبَاکِ. رواه البيهقي والديلمي.
”حضرت جریر بن عبد اﷲ بجلی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک میں تمہارے سامنے سورۃ التکاثر پڑھنے والا ہوں، سو جو اس سورت کو سن کر روئے گا اس کے لیے جنت ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ سورت تلاوت فرمائی تو بعض صحابہ رو پڑے اور کچھ کو رونا نہ آیا، تو جو صحابہ نہ رو سکے انہوں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! بیشک ہم نے بہت زیادہ کوشش کی کہ ہم روئیں لیکن ہم ایسا نہ کر سکے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک میں دوبارہ اس کو تمہارے سامنے پڑھتا ہوں، تو جو روئے گا اس کے لیے جنت اور جو نہ رو سکے وہ کم از کم رونے والی شکل ہی بنا لے۔“

84. عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَيْرٍ أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إنِّى قَارِئٌ عَلَيْکُمْ سُورَةً فَمَنْ بَکَی فَلَهُ الْجَنَّةُ، فَقَرَأَ فَلَمْ يَفْعَلْ ذَلِکَ أَحَدٌ مِنْهُمْ. فَقَالَ أَيْضًا. فَلَمْ يَفْعَلْ ذَلِکَ أَحَدٌ مِنْهُمْ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: إنِّى قاَرِئٌ عَلَيْکُمْ سُوْرَةً فَمَنْ بَکَی فَلَهُ الْجَنَّةُ فَإِنْ لَمْ تَبْکُوا فَتَبَاکُوا. رواه البيهقى مرسلا.
”حضرت عبدالملک بن عمیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک میں تم پر قرآن پاک کی ایک سورت تلاوت کرنے والا ہوں، پس جو (اس سورت کو سن کر) روئے گا اس کے لیے جنت ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ سورت پڑھی لیکن ان میں سے کوئی بھی نہ رو سکا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک میں تمہارے سامنے ایک سورت کی تلاوت کرنے لگا ہوں، پس (اس سورت کو سن کر) جو روئے گا تو اس کے لیے جنت ہے اور اگر تم رو نہ سکو تو کم از کم رونے والی شکلیں ہی بنا لو۔“

85. عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: کَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَمُرُّ بِالْآيَةِ فِى وِرْدِهِ فَتُخِيْفَهُ فَيَبْکِي حَتَّی يَسْقُطَ، وَيَلْزَمُ بَيْتَهُ الْيَوْمَ وَالْيَوْمَيْنِ حَتَّی يُعَادَ، وَيَحْسَبُونَهُ مَرِيضًا. رواه ابن أبي شيبة والبيهقي، واللفظ له.
”حضرت حسن سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اپنے اَوراد میں کسی آیت کی تلاوت کرتے جو آپ کو خوف زدہ کردیتی تو آپ رضی اللہ عنہ اتنا روتے یہاں تک کہ گر پڑتے اور ایک یا دو دن گھر میں پڑے رہتے یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ کی عیادت کی جاتی اور لوگ آپ کو مریض گمان کرتے۔“

86. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ يَقُولُ: سَمِعْتُ نَشِيْجَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضي الله عنه وَأَنَا فِى آخِرِ الصَّفُوفِ فِى صَلاَةِ الصُّبْحِ يَقْرَأُ مِنْ سُوْرَةِ يُوْسُفَ يَقُوْلُ: إنَّمَا أَشْکُو بَثِّي وَحُزْنِي إلَی اﷲِ [يوسف، 12 : 86]. رواه عبد الرزاق والبيهقي، واللفظ له، وأخرجه البخاري في ترجمة الباب. وقال العسقلاني: هذا إسناده صحيح.
”حضرت عبد اﷲ بن شداد بن الھاد بیان کرتے ہیں کہ میں نے صبح کی نماز میں حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے رونے کی آواز سنی اور میں اس وقت آخری صف میں (آپ رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں) نماز ادا کر رہا تھا۔ اور آپ سورہ یوسف کی یہ آیت تلاوت فرما رہے تھے: إنَّمَا أَشْکُو بَثِّي وَحُزْنِي إلَی اﷲِ (بے شک میں اپنے دکھ اور غم کا شکوہ صرف اﷲ تعالیٰ سے کرتا ہوں)۔“

87. عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ رضي الله عنه قَالَ: صَلَّيْتُ خَلْفَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضي الله عنه عِشَاءَ الآخِرِ، فَقَرَأَ بِسُوْرَةِ يُوْسُفَ فَلَمَّا أَتَی عَلَی ذِکْرِ يُوْسُفَ نَشَجَ عُمَرُ رضي الله عنه حَتَّی سَمِعْتُ نَشِيْجَهُ وَإِنِّي لَفِي آخِرِ الصَّفِّ. رواه البيهقي.
”حضرت علقمہ بن وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نمازِ عشاء پڑھی، پس آپ رضی اللہ عنہ نے سورہ یوسف کی تلاوت فرمائی، سو جب آپ حضرت یوسف علیہ السلام کے ذکر پر پہنچے تو (رونے سے) آپ کی ہچکی بندھ گئی یہاں تک کہ ا س ہچکی کی آواز میں نے بھی سنی جبکہ میں آخری صف میں کھڑا تھا۔“

88. عَنْ أَبِى مُعْمَرٍ أَنَّ عُمَرَ رضي الله عنه قَرَأَ سُوْرَةَ مَرْيَمَ (فَسَجَدَ، ثُمَّ) قَالَ: هَذَا السُّجُوْدُ، فَأَيْنَ الْبُکَاءُ. رواه البيهقي.
”حضرت ابومعمر روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سورہ مریم پڑھی (پھر سجدہ کیا اور) فرمایا: یہ (تو صرف ظاہراً) سجدہ ہے، پس رونا کہاں ہے؟“

89. عَنْ أَبِى بُرْدَةَ، قَالَ: کَانَ أَبُومُوسَی إِذَا قَرَأَ: يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِيْمِ [الإنفطار، 82 : 6]. قَالَ: يَعْنِي الْجَهْلَ وَيَبْکِي، وَإِذَا قَرَأَ: أَفَتَتَّخِذُوْنَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُوْنِي وَهُمْ لَکُمْ عَدُوٌّ [الکهف، 18 : 50]، بَکَی. رواه البيهقي.
”حضرت ابوبردہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوموسیٰ (اشعری) رضی اللہ عنہ جب یہ آیت کریمہ ... يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِيْمِ (اے انسان! تجھے کس چیز نے اپنے ربِ کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا) ... تلاوت فرماتے تو کہتے کہ اس سے مراد (انسان کی) جہالت ہے۔ اور پھر وہ (زار و قطار) روتے، اور جب یہ آیت ... أَفَتَتَّخِذُوْنَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُوْنِي وَهُمْ لَکُمْ عَدُوٌّ (کیا تم اس کو اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کر دوست بنا رہے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں) ... پڑھتے تو رو پڑتے۔“

90. عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ رضي الله عنه أَنَّهُ قَالَ لِعَائِشَةَ رضي اﷲ عنها: أَخْبَرِيْنَا بِأَعْجَبِ شَيئٍ رَأَيْتِهِ مِنْ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم؟ قَالَ: فَسَکَتَتْ، ثُمَّ قَالَتْ: لَمَّا کَانَ لَيْلَةً مِنَ اللَّيَالِي. قَالَ: يَا عَائِشَةُ! ذَرِيْنِى أَتَعَبَّدُ اللَّيْلَةَ لِرَبِّى. قُلْتُ: وَاﷲِ! إِنِّى أُحِبُّ قُرْبَکَ، وَأُحِبُّ مَا يَسُرُّکَ. قَالَتْ: فَقَامَ فَتَطَهَّرَ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّى. قَالَتْ: فَلَمْ يَزَلْ يَبْکِى حَتَّی بَلَّ حِجْرَهُ، قَالَتْ: وَکَانَ جَالِسًا فَلَمْ يَزَلْ يَبْکِي حَتَّی بَلَّ لِحْيَتَهُ. قَالَتْ: ثُمَّ بَکَی حَتَّی بَلَّ الْأَرْضَ، فَجَاءَ بِلاَلٌ يُؤْذِنُهُ بِالصَّلَاةِ، فَلَمَّا رَآهُ يَبْکِي. قَالَ: يَا رَسُولَ اﷲِ! تَبْکِي! وَقَدْ غَفَرَ اﷲُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ؟ قَالَ: أَفَلاَ أَکُونُ عَبْدًا شَکُورًا؟ لَقَدْ نَزَلَتْ عَلَى اللَّيْلَةَ آيةٌ، وَيْلٌ لِمَنْ قَرَأَهَا وَلَمْ يَتَفَکَّرْ فِيْهَا: إنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ [البقرة، 2 : 164] الآيةَ، کُلّهَا. رواه ابن حبان.
”حضرت عبید ابن عمیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے عرض کیا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں جو سب سے حیران کن بات دیکھی اس کے بارے میں مجھے بتائیے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ رضی اﷲ عنہا کچھ دیر خاموش رہیں، پھر فرمایا: جن راتوں میں (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قیام) میرے پاس تھا ان میں سے ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے عائشہ! مجھے الگ چھوڑ دو کہ میں آج رات اپنے رب کی عبادت کروں۔ آپ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: خدا کی قسم! میں آپ کے قرب کو پسند کرتی ہوں اور اس چیز کو بھی پسند کرتی ہوں جو آپ کو پسند ہے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھے اور وضو کیا اور پھر نماز کے لئے کھڑے ہوگئے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل روتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود مبارک تر ہوگئی۔ پھر فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما رہے اور روتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داڑھی مبارک (آنسوؤں سے) تر ہوگئی۔ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل روتے رہے یہاں تک کہ زمین بھی تر ہوگئی۔ پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نمازِ فجر کی اطلاع دینے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روتے دیکھا تو عرض کیا: یا رسول اﷲ! آپ رو رہے ہیں حالانکہ (آپ کے توسّل سے تو) آپ کے اگلوں پچھلوں کے گناہ معاف کر دیئے گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا میں (اپنے رب کا) شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ پھر فرمایا: آج رات مجھ پر ایک آیت نازل ہوئی ہے۔ اس کے لئے بربادی ہے جس نے اسے پڑھا اور اس میں غور و فکر نہ کیا۔ (وہ آیت یہ ہے:) إنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ (بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں) .... آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخر تک مکمل آیت بیان کی۔“

91. عَنْ أَبِي صَالِحٍ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ أَهْلُ الْيَمَنِ فِي زَمَانِ أَبِي بَکْرٍ رضي الله عنه فَسَمِعُوا الْقُرْآنَ جَعَلُوا يَبْکُونَ. فَقَالَ: أَبُوبَکْرٍ رضي الله عنه: هَکَذَا کُنَّا، ثُمَّ قَسَتْ قَُلُوبٌ. رواه ابن أبي شيبة وأبو نعيم.
”ابو صالح بیان کرتے ہیں کہ جب اہلِ یمن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانہء خلافت (میں مدینہ منورہ) آئے تو انہوں نے قرآن سنا اور رونا شروع کر دیا، تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس طرح ہم تھے (یعنی ہم جب قرآن سنتے تھے تو روتے تھے) (پھر ایسا وقت آیا کہ لوگوں کے) دل سخت ہوگئے۔“

92. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَابِرٍ قَالَ: سَمِعْتُ بِشْرَ بْنَ الْحَکَمِ النِّيْسَابُوْرِيَّ يَقُوْلُ: کَانَتِ امْرَأَةُ الْفُضَيْلِ تَقُوْلَُ: لاَ تَقْرَؤُوْا عِنْدَ إِبْنِي بِالْقُرْآنِ، قَالَ بِشْرٌ: وَکَانَ إذَا قُرِئَ عِنْدَهُ الْقُرْآنُ غَشِيَ عَلَيْهِ، قَالَ بِشْرٌ: وَکَانَ ابْنُ الْفُضَيْلِ لاَ يَقْدِرُ عَلَی قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ، فَقَالَ لِأَبِيْهِ: يَا أَبَّهُ! ادْعُ اﷲَ لَعَلِّى اسْتَطِيْعُ أَنْ أَخْتَمَ الْقُرْآنَ مَرَّةً وَاحِدَةً. رواه البيهقى.
”حضرت محمد بن جابر بیان کرتے ہیں کہ میں نے بشر بن حکم نیشاپوری کو کہتے ہوئے سنا کہ حضرت فضیل رضی اللہ عنہ کی اہلیہ کہا کرتی تھیں کہ میرے بیٹے کے پاس قرآن نہ پڑھو۔ بشر کہتے ہیں کہ جب اس کے پاس قرآن پڑھا جاتا تھا تو اس پر غشی طاری ہو جاتی تھی۔ بشر بیان کرتے ہیں کہ ابن فضیل (رِقتِ قلب کی وجہ سے) قرآن پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتا تھا۔ پس اس نے اپنے والد سے کہا: اے میرے باپ! اﷲ تعالیٰ سے (میرے حق میں) دعا کریں شاید کہ میں اس قابل ہو جاؤں کہ میں ایک دفعہ ہی قرآن مکمل کر لوں۔“


حواشی

الحديث رقم 78: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: فضائل القرآن، باب: البکاء عند قراءة القرآن، 4 / 1927، الرقم: 4768، وفي کتاب: تفسير القرآن، باب: قوله تعالى: فکيف إذا جئنا من کل أمة بشهيد وجئنا بک على هؤلاء شهيدا، 4 / 1673، الرقم: 4306، ومسلم في الصحيح، کتاب: صلاة المسافرين وقصرها، باب: فضل إستماع القرآن وطلب القراءة من حافظه للإستماع، 1 / 551، الرقم: 800، والنسائي في السنن الکبرى، 5 / 29، الرقم: 8079، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 363، الرقم: 2052، والطبراني في المعجم الکبير، 9 / 80، الرقم: 8459، وابن منصور في السنن، 1 / 212، الرقم: 51.

.....1. أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 164، الرقم: 1587، وفي المعجم الصغير، 1 / 136، الرقم: 204، والبزار في المسند، 4 / 322، 346، الرقم: 1510، 1543، 5 / 9، الرقم: 1564.

الحديث رقم 79: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الصلاة، باب: المسجد يکون في الطريق من غير ضرر بالناس، 1 / 181، الرقم: 464، وابن حبان في الصحيح، 14 / 178، الرقم: 6277، وعبدالرزاق في المصنف، 5 / 384-387، الرقم: 9743، وابن راهوية في المسند، 2 / 324، الرقم: 849، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 364، الرقم: 2055، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 1 / 29، وابن حبان في الثقات، 1 / 68، وهبة اﷲ في إعتقاد أهل السنة، 4 / 766، الرقم: 1422.

الحديث رقم 80: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: صفة الصلاة، باب: أهل العلم والفضل أحق بالإمامة، 1 / 241، الرقم: 650، ومسلم في الصحيح، کتاب: الصلاة، باب: استخلاف الإمام إذا عرض له عذر من مرض وسفر وغيرهما من يصلي بالناس، 1 / 313، الرقم: 418، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 229، الرقم: 25959، وابن حبان في الصحيح، 15 / 294، الرقم: 6874، والبيهقي في السنن الکبرى، 2 / 251، الرقم: 3172.

الحديث رقم 81: أخرجه أبوداود في السنن، کتاب: الصلاة، باب: البکاء في الصلاة، 1 / 238، الرقم: 904، والنسائي في السنن، کتاب: السهو، باب: البکاء في الصلاة، 3 / 13، الرقم: 1214، وفي السنن الکبرى، 1 / 196، الرقم: 544، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 25-26، وابن خزيمة في الصحيح، 2 / 53، الرقم: 900، وابن حبان في الصحيح، 2 / 439، الرقم: 665، والحاکم في المستدرک، 1 / 396، الرقم: 971.

الحديث رقم 82: أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 2 / 365، الرقم: 2062، وابن منصور في السنن، 2 / 330، الرقم: 95، وابن المبارک في الزهد، 1 / 359، الرقم: 1016، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 15 / 249.

الحديث رقم 83: أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 2 / 364، الرقم: 2045، والديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 1 / 76، الرقم: 227، والحکيم الترمذي في نوادر الأصول، 2 / 198.

الحديث رقم 84: أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 2 / 363، الرقم: 2053.

الحديث رقم 85: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 95، الرقم: 34457، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 364، الرقم: 2056.

الحديث رقم 86: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: صفة الصلاة، باب: إذا بکى الإمام في الصلاة وقال عبد اﷲ بن شداد: سمعت نشيج عمر رضي الله عنه وأنا في آخر الصفوف يقرأ إنَّمَا أشْکُو بَثِّي وَحُزْنِي إلَي اﷲِ ، 1 / 252، وعبد الرزاق في المصنف، 2 / 114، الرقم: 2716، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 364، الرقم: 2057، وابن منصور في السنن، 5 / 405، الرقم: 1138، وابن سعد في الطبقات، 6 / 126، والعسقلاني في تغليق التعليق، 2 / 300، وقال: إسناده صحيح، والشوکاني في نيل الأوطار، 2 / 369.

الحديث رقم 87: أخرجه البيهقي في شعب الإيمان ، 2 / 365، الرقم: 2058.

الحديث رقم 88: أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 2 / 365، الرقم: 2059، والعسقلاني في فتح الباري، 8 / 428.

الحديث رقم 89: أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 2 / 365، الرقم: 2060.

الحديث رقم 90: أخرجه ابن حبان في الصحيح، 2 / 386، الرقم: 620، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 243، الرقم: 2255، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 139، الرقم: 523.

الحديث رقم 91: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 224، الرقم: 35524، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 1 / 33، والنووي في التبيان، 1 / 91.

الحديث رقم 92: أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 2 / 366، الرقم: 2064.

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved