عقیدہ ختم نبوت

مسئلہ نزول مسیح علیہ السلام

مسئلہ نزولِ مسیح علیہ السلام اس حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ بانیِ قادیانیت مرزا غلام احمد نے دعویٰ نبوت سے پہلے دعویٰ مسیحیت کو اس عمارت کی بنیاد کے طور پر کھڑا کیا جس پر آگے چل کر مجازی، ظلی، بروزی اور درپردہ حقیقی نبوت کے دعاوی نہایت چابکدستی اور عیاری سے استوار کر لیے۔ اُنہوں نے اپنی جھوٹی نبوت منوانے کے لیے سب سے بھیانک اور گمراہ کن کردار منصبِ مسیحیت پر خود کو فائز کرنے کے حوالے سے ادا کیا۔ اگرچہ مرزا صاحب خود کو مثیلِ مسیح قرار دینے سے پہلے نفسِ ختمِ نبوت کا عقیدہ تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہیں لیکن پھر رفتہ رفتہ ’’النّاس کالأنعام‘‘ کی سادہ لوحی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے وہ انتہائی دجل و فریب سے اس مسئلے پر الحاد و تشکیک کی فضا پیدا کر دیتے ہیں۔ ان کی جسارت اس انتہاء کو پہنچ جاتی ہے کہ ان کا بے باک قلم یہاں تک لکھ دیتا ہے:

ومع ذلک إذا کان نبینا ﷺ خاتم الأنبیاء فلا شک أنہ من آمن بنزول المسیح الذی ھو نبي میں بني إسرائیل فقد کفر بخاتم النبیین۔

غلام احمد قادیانی، رسالہ تحفہ بغداد: 28، مندرجہ روحانی خزائن، 7: 34

’’اس کے ساتھ جب ہمارے نبی خاتم الانبیاء ہیں تو اس میں ذرہ شک نہیں کہ جس شخص نے نزولِ مسیح پر ایمان رکھا جو بنی اسرائیل کے نبی تھے اُس نے خاتم الانبیاء کا انکار کیا۔‘‘

اس طرح نزولِ مسیح علیہ السلام کے مسئلہ پر مرزا غلام احمد قادیانی نے تشکیک و التباس کی گرد اُڑا کر اپنے لیے فضا ہموار کرنا چاہی کہ یہ کیسا تضاد ہے کہ ایک طرف مسلمان حضور نبی اکرم ﷺ کو خاتم النبیین بھی مانتے ہیں اور اس کے ساتھ حضرت مسیح علیہ السلام کی دوبارہ آمد پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ وہ اس بات سے صرفِ نظر کیے رہے کہ ختمِ نبوت کا نفسِ مضمون ذہن نشین کر لینے سے کسی قسم کا شبہ باقی نہیں رہتا۔ فی الحقیقت مرزا صاحب کے تمام دلائل کذب و افترا اور دجل و فریب کا ملغوبہ ثابت ہوئے۔

اسلام کے اساسی نظریات میں نظریۂ نزولِ مسیح علیہ السلام کو بنیادی اہمیت اس لیے بھی حاصل ہے کہ اس کا تعلق توحید و رسالت اور ختمِ نبوت میں بہت نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔ اس کا یہ پہلو قابل ذکر ہے کہ یوں تو مرزا غلام احمد قادیانی نے ابتدائی دور میں وحی و الہام کے دعوے کے ساتھ مہدویت، مجددیت اور محدثیت کے دعووں کے تھوڑا عرصہ بعد دعویٰ مسیحیت کر ڈالا اور اس دعویٰ کو دعویٰ نبوت و رسالت کے لیے سیڑھی کے طور پر استعمال کیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ دعویٰ مسیحیت کی مسند پر بیٹھ کر نہایت عیاری اور چابکدستی سے بتدریج نبوت و رسالت کے دعووں کی طرف یلغار کرتے ہوئے آگے بڑھے۔ مسیحیت کے حوالے سے ان کا کردار ایک ایسے شخص کا ہے جو ختمِ نبوت کے نفس مضمون کو تسلیم کرتے ہوئے جاہل اور نیم خواندہ عوام الناس کی سادہ لوحی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے انتہائی دجل و فریب سے عقیدۂ نزولِ مسیح سے مخالف موقف اختیار کر کے اپنی جعلی نبوت منوانے کے لیے لوگوں کے ذہنوں میں الحاد و تشکیک کے بیج بوتا رہا۔ ہم اس مسئلے کو نزولِ مسیح کے باب میں احادیث کی روشنی میں بیان کر رہے ہیں۔

اَحادیثِ نزولِ مسیح علیہ السلام

یہ امر پیشِ نظر رہے کہ نزولِ مسیح علیہ السلام کا عقیدہ درجنوں احادیث میں بیان ہوا ہے، بعض میں مختصر طور پر اور بعض میں تفصیلی طور پر۔ ان کثیر احادیث میں چند ایک بطور استشہاد درج ذیل ہیں:

1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

والّذي نفسي بیدہ لیوشکن أن ینزل فیکم ابن مریم حکما مقسطا فیکسر الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الجزیۃ ویفیض المال حتّی لا یقبلہ أحد۔

1۔ بخاري، الصحیح، کتاب البیوع، باب قتل الخنزیر، 2: 774، رقم: 2109
2۔ مسلم، الصحیح، کتاب الإیمان، باب نزول عیسی ابن مریم، 1: 135، رقم: 155
3۔ ترمذي، السنن، کتاب الفتن، باب ما جاءٖٖ في نزول عیسی ابن مریم، 4: 506، رقم: 2233

’’مجھے اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، عنقریب تم میں ابن مریم (علیہا السلام) اُتریں گے (چونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سیدنا عیسیٰ ابن مریم علیھما السّلام کو آسمان پر زندہ اٹھا لیا تھا، اب قیامت کے نزدیک دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے) جو انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیں گے، صلیب کو توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ موقوف کر دیں گے اور (اس وقت) مال اتنا زیادہ ہو جائے گا کہ اسے کوئی بھی قبول نہ کرے گا (ہر شخص خوشحال ہو گا)۔‘‘

2۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

کیف أنتم إذا نزل ابن مریم منکم وإمامکم منکم۔

1۔ بخاري، الصحیح، کتاب أحادیث الأنبیاء، باب نزول عیسٰی ابن مریم، 3: 1272، رقم: 3265
2۔ مسلم، الصحیح، کتاب الإیمان، باب نزول عیسٰی ابن مریم حاکما بشریعۃ نبیّنا محمد ﷺ ، 1: 136، رقم: 155
3۔ ابن حبان، الصحیح، 15: 213، رقم: 6802

’’تم لوگوں کا اس وقت (خوشی سے) کیا حال ہوگا۔ جب تم میں عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام (آسمان سے) اُتریں گے اور تمہارا امام تمہیں میں سے ہو گا۔‘‘

3۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ایک اور حدیث میں حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

لا تقوم السّاعۃ حتّی ینزل فیکم ابن مریم حکَما مقسطا فیکسر الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الجزیۃ ویفیض المال حتّی لا یقبلہ أحد۔

1۔ بخاري، الصّحیح، کتاب المظالم والغصب، باب کسر الصّلیب وقتل الخنزیر، 2: 875، رقم: 2344
2۔ مسلم، الصّحیح، کتاب الإیمان، باب نزول عیسٰی ابن مریم حاکما بشریعۃ نبینا محمد ﷺ ، 1: 135، رقم: 155
3۔ ترمذي، السنن، کتاب الفتن عن رسول اللہ ﷺ ، باب ما جاء في نزول عیسٰی ابن مریم علیہما السلام، 4: 506، رقم: 2233
4۔ ابن ماجہ، السنن، کتاب الفتن، باب فتنۃ الدجال وخروج عیسٰی بن مریم علیھما السلام وخروج یأجوج ومأجوج، 2: 1363، رقم: 4078
5۔ أحمد بن حنبل، المسند، 2: 538، رقم: 10957

’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ عیسیٰ بن مریم حاکم عادل بن کر نازل ہوں گے پس وہ (آ کر) صلیب کو توڑ دیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ موقوف کریں گے اور (اس وقت) مال اتنا زیادہ ہو جائے گا کہ اُسے کوئی بھی قبول نہ کرے گا۔‘‘

4۔ حضرت حذیفہ ابن اَسِید غفاری رضي اللہ عنھما سے روایت ہے:

اطلع النّبيّ ﷺ علینا، ونحن نتذاکر فقال: ما تذاکرون؟ قالوا: نذکر السّاعۃ قال: إنّھا لن تقوم حتّی ترون قبلھا عشر آیات فذکر الدّخان والدجّال والدّابۃ وطلوع الشمس من مغربھا ونزول عیسٰی ابن مریم علیہ السلام ویأجوج ومأجوج وثلاثۃ خسوف خسف بالمشرق وخسف بالمغرب وخسف بجزیرۃ العرب وآخر ذلک نار تخرج من الیمن تطرد النّاس إلی محشرھم۔

1۔ مسلم، الصحیح، کتاب الفتن وأشراط الساعۃ، باب في الآیات التی تکون قبل السّاعۃ، 4: 2225، رقم: 2901
2۔ ابن ماجہ، السنن، کتاب الفتن، باب الآیات، 2: 1347، رقم: 4055
3۔ حاکم، المستدرک، 4: 474، رقم: 8317
4۔ ابن أبي شیبۃ، المصنف، 7: 500، رقم: 37542
5۔ طبراني، مسند الشامیین، 2: 32، رقم: 864

’’ہم باتیں کر رہے تھے کہ حضور نبی اکرم ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: تم کیا باتیں کر رہے ہو؟ ہم نے عرض کیا: (آقا) قیامت کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو: (1) دھواں؛ (2) دجال؛ (3) دابۃ الارض؛ (4) سورج کا مغرب سے طلوع ہونا؛ (5) حضرت عیسیٰ بن مریم کا نازل ہونا؛ (6) یاجوج ماجوج کا نکلنا اور تین جگہ زمین کا دھنسنا؛ (7) مشرق میں دھنسنا؛ (8) مغرب میں دھنسنا؛ (9) جزیرہ عرب میں دھنسنا؛ (10) آخر میں یمن سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو ہانک کر انہیں محشر کی طرف لے جائے گی۔‘‘

5۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضي اللہ عنھما بیان کرتے ہیں:

سمعت رسول اللہ ﷺ یقول: لا تزال طائفۃ من أمّتي یقاتلون علی الحق ظاہرین إلی یوم القیامۃ۔ قال: فینزل عیسٰی ابن مریم عليهما السلام۔ فیقول أمیرہم: تعال صلّ لنا۔ فیقول: لا، إن بعضکم علی بعض أمراء تکرمۃ اللہ ہذہ الأمۃ۔

1۔ مسلم، الصحیح، کتاب الإیمان، باب نزول عیسٰی ابن مریم علیھما السلام حاکما بشریعۃ نبینا محمد ﷺ ، 1: 137، رقم: 156
2۔ ابن حبان، الصحیح، 15: 231، رقم: 6819
3۔ بیھقي، السنن الکبریٰ، 9: 180
4۔ أبو عوانۃ، المسند، 1: 99، رقم: 317

’’میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: میری اُمت میں سے ایک جماعت قیامِ حق کے لیے کامیاب جنگ قیامت تک کرتی رہے گی۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ان مبارک کلمات کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: ’’آخر میں (حضرت) عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام آسمان سے اُتریں گے تو مسلمانوں کا امیر ان سے عرض کرے گا: تشریف لائیے ہمیں نماز پڑھائیے۔ اس کے جواب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے: (اس وقت) میں امامت نہیں کروں گا۔ تم میں سے بعض، بعض پر امیر ہیں‘‘ (یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس وقت امامت سے انکار فرما دیں گے اس فضیلت و بزرگی کی بناء پر جو اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کو عطا فرمائی ہے۔)‘‘

6۔ حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

إذ بعث اللہ عیسی بن مریم فینزل عند المنارۃ البیضاء شرقي دمشق بین مھرودتین واضح کفیہ علی أجنحۃ ملکین إذا طأطأ رأسہ قطر وإذا رفعہ ینحدر منہ جمان کاللؤلؤ ولا یحل لکافر یجد ریح نفسہ إلّا مات ونفسہ ینتھي حیث ینتھی طرفہ فینطلق حتّی یدرکہ عند باب لد فیقتلہ۔

1۔ ابن ماجہ، السنن، کتاب الفتن، باب فتنۃ الدجال وخروج عیسی ابن مریم، 2: 1357، رقم: 4075
2۔ حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 4: 538، رقم: 8508

’’جب اللہ تعالیٰ عیسیٰ ابن مریم علیھما السّلام کو بھیجیں گے تو وہ دمشق کی مشرقی جانب سفید مینار کے پاس دو زرد رنگ کے کپڑے پہنے دو فرشتوں کے بازوؤں پر اپنے ہاتھ رکھے ہوئے نازل ہوں گے جب وہ (عیسیٰ علیہ السلام) اپنا سر جھکائیں گے تو پسینے کے قطرے گریں گے اور جب سر اوپر اٹھائیں گے تو موتیوں کی طرح قطرے گریں گے جس کافر تک بھی آپ کی خوشبو پہنچے گی، اس کا زندہ رہنا ممکن نہ ہو گا آپ کی خوشبو منتہائے نظر تک پہنچے گی آپ دجال کو تلاش کریں گے حتی کہ ’’باب لد‘‘ پر اسے پا لیں گے پھر اسے قتل کر دیں گے‘‘

7۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

لیس بیني وبینہ نبي یعني عیسٰی، وإنّہ نازل فإذا رأیتموہ فاعرفوہ: رجل مربوع، إلی الحمرۃ والبیاض، بین ممصرتین، کأنّ رأسہ یقطر وإن لم یصبہ بلل، فیقاتل النّاس علی الإسلام، فیدق الصلیب، ویقتل الخنزیر، ویضع الجزیۃ، ویھلک اللہ في زمانہ الملل کلھا إلّا الإسلام، ویھلک المسیح الدجال، فیمکث في الأرض أربعین سنۃ ثم یتوفی فیصلی علیہ المسلمون۔

1۔ أبو داود، السنن، کتاب الملاحم، باب خروج الدجال، 4: 117، رقم: 4324
2۔ ابن حبان، الصحیح، 15: 233، رقم: 6821
3۔ ابن عبد البر، التمھید، 14: 201

’’میرے اور عیسیٰ علیہ السلام کے مابین کوئی نبی نہیں ہے اور بے شک وہ نازل ہوں گے جب تم اُنہیں دیکھو تو پہچان لینا کہ درمیانے قد کے آدمی ہیں ان کا رنگ مائل سرخی و سپیدی ہے (دیکھنے والے کو) یوں محسوس ہو گا کہ ان کے سر سے پانی ٹپکنے والا ہے حالانکہ وہ بھیگے ہوئے نہ ہوں گے وہ لوگوں سے دین اسلام پر جنگ کریں گے، صلیب کو توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ جہاد موقوف کر دیں گے، اللہ تعالیٰ ان کے زمانے میں اسلام کے سوا تمام ملتوں کو مٹا دے گا وہ دجال کو قتل کریں گے اور چالیس سال تک زمین پر رہنے کے بعد وصال فرمائیں گے پھر مسلمان ان پر نماز پڑھیں گے۔‘‘

8۔ حضرت ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ سے مروی علاماتِ قیامت کے بیان پر مشتمل ایک طویل حدیث میں ہے کہ ایک صحابیہ اُم شریک بنت ابی العکر رضی اللہ عنھا نے حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس وقت عرب کہاں ہوں گے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:

ہم یومئذ قلیل وجلہم ببیت المقدس وإمامہم رجل صالح فبینما إمامہم قد تقدم یصلي بہم الصبح إذ نزل علیہم ابن مریم الصبح فرجع ذلک الإمام ینکص یمشی القہقري لیتقدم عیسٰی ابن مریم یصلي بالناس فیضع عیسٰی یدہ بین کتفیہ ثم یقول لہ: تقدم فصلّ فإنہا لک أقیمت فیصلی بہم إمامہم۔

ابن ماجہ، السنن، کتاب الفتن، باب فتنۃ الدجال وخروج عیسٰی ابن مریم علیھما السلام وخروج یأجوج ومأجوج، 2: 1361، رقم: 4077

’’عرب اس وقت کم ہوں گے اور ان میں بھی اکثر بیت المقدس (یعنی شام) میں ہوں گے اور ان کا امام و امیر ایک رجل صالح (مہدی) ہوگا۔ جس وقت ان کا امام نماز فجر کے لیے آگے بڑھے گا اچانک (حضرت) عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام اسی وقت (آسمان سے) اتریں گے۔ وہ امام آپ کو دیکھ کر پیچھے ہٹنا چاہے گا تاکہ (حضرت) عیسیٰ علیہ السلام لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ (حضرت) عیسیٰ علیہ السلام امام کے کندھوں کے درمیان ہاتھ رکھ کر فرمائیں گے: آگے بڑھو اور نماز پڑھاؤ کیونکہ تمہارے ہی لیے اقامت کہی گئی ہے۔ سو ان کے امام (مہدی) لوگوں کو نماز پڑھائیں گے۔‘‘

9۔ حضرت عثمان بن ابو العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

فینزل عیسٰی ابن مریم علیہ السلام عند صلاۃ الفجر فیقول لہ إمام النّاس: تقدم یا روح اللہ فصلّ بنا۔ فیقول: إنّکم معشر ھذہ الأمۃ أمراء بعضکم علی بعض تقدم أنت فصلّ بنا۔ فیتقدم الأمیر فیصلي بھم۔

1۔ حاکم، المستدرک، 4: 524، رقم: 8473
2۔ طبراني، المعجم الکبیر، 9: 60، رقم: 8392

’’(حضرت) عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام نماز فجر کے وقت (آسمان سے) اُتریں گے تو لوگ ان سے عرض کریں گے: اے روح اللہ! آگے تشریف لائیے اور ہمیں نماز پڑھائیے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے: تم اُمت محمدیہ کے لوگ ہو۔ بے شک تم میں سے بعض بعض پر امیر ہیں۔ پس آپ ہی آگے بڑھیں اور ہمیں نماز پڑھائیں تو مسلمانوں کا امیر آگے بڑھے گا اور انہیں نماز پڑھائے گا۔‘‘

10۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

ألا إنّ عیسی ابن مریم لیس بیني وبینہ نبيّ ولا رسول ألا أنّہ خلیفتي في أمّتي من بعدي۔

1۔ طبراني، المعجم الأوسط، 5: 142، رقم: 4898
2۔ سیوطی، الدر المنثور، 2: 736

’’خبردار! میرے اور عیسیٰ ابن مریم کے مابین نہ کوئی نبی ہے اور نہ کوئی رسول مگر یہ کہ وہ میرے بعد میری اُمت میں میرے خلیفہ ہوں گے۔‘‘

11۔ محمد بن علی بن ابی طالب ابن حنفیہ رضی اللہ عنہ آیت کریمہ ’’وَاِنْ مِنْ اَھْلِ الْکِتَابِ‘‘ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

إنّ عیسی لم یمت وإنّہ رفع إلی السّماء وھو نازل قبل أن تقوم السّاعۃ فلا یبقی یہودي ولا نصراني إلّا آمن بہ۔

سیوطي، الدر المنثور، 2: 734

’’بے شک عیسیٰ علیہ السلام فوت نہیں ہوئے بلکہ وہ (زندہ) آسمان کی طرف اٹھا لیے گئے اور وہ قیامت قائم ہونے سے پہلے (زمین پر) اُتریں گے پس کوئی ایسا یہودی اور نصرانی نہیں رہے گا جو ان پر ایمان نہ لائے‘‘

12۔ سنن ابن ماجہ میں دجال کے بارے میں ایک طویل حدیث ہے جس میں نزول عیسیٰ ابن مریم کا ذکر کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے:

ایک دن صبح کے روز مسلمانوں کا امام انہیں نماز پڑھانے کے لیے کھڑا ہو گا کہ اتنے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے۔ امام آپ کو دیکھ کر پیچھے ہٹنا چاہے گا تاکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام امامت کرائیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر فرمائیں گے کہ آگے بڑھو اور امامت کراؤ، بے شک تمہارے لیے اقامت کہی گئی ہے اور وہ امام (یعنی امام مہدی علیہ السلام) لوگوں کو نماز پڑھائیں گے۔ (حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کی اقتداء میں نماز پڑھیں گے) نماز سے فارغ ہونے کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے، دروازہ کھولو پس دروازہ کھولا جائے گا، اس وقت دجال ستر ہزار یہودیوں کے ساتھ باہر موجود ہو گا جب دجال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھے گا تو اس طرح پگھلے گا جس طرح پانی میں نمک پگھلتا ہے چنانچہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر بھاگ نکلے گا، آخرکار حضرت عیسیٰ علیہ السلام (فلسطین میں) ’باب لد‘ کے پاس اسے پکڑ لیں گے اور قتل کر دیں گے پھر اللہ تعالیٰ یہودیوں کو شکست سے دوچار فرمائے گا۔

ابن ماجہ، السنن، کتاب الفتن، باب فتنۃ الدجال وخروج عیسٰی ابن مریم علیہما السلام وخروج یأجوج و مأجوج، 2: 1361، رقم: 4077

مذکورہ بالا احادیث سے ثابت ہوا کہ جس مسیح کے آنے کا ذکر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا وہ حضرت عیسیٰ ابن مریم علیھما السّلام ہیں۔ اب دوبارہ انہی کا نزول ہو گا۔ مسیح موعود کی جو علامات اور خصوصیات حضور نبی اکرم ﷺ نے بیان فرمائیں مرزا قادیانی میں ان میں سے کوئی ایک بھی نہیں پائی جاتی مثلاً نہ تو اس کا ملک شام میں نزول ہوا، نہ اس کے دور میں غلبہ اسلام ہوا، نہ اس نے حج یا عمرہ کیا، نہ ہی گنبد خضراء کے اندر اسے دفن کیا گیا چنانچہ احادیث کی روشنی میں یہ ثابت ہو گیا کہ مرزا قادیانی کا مسیح موعود ہونے کا دعویٰ بھی اسی طرح باطل اور بے بنیاد ہے جس طرح نبوت و رسالت کا۔ مرزا صاحب نے امام مہدی علیہ السلام ہونے کا بھی دعویٰ کیا تھا جبکہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں حضور نبی اکرم ﷺ نے بالصراحت فرما دیا تھا کہ امام مہدی میرے اہلِ بیت سے ہوں گے اور وہ میرے ہم نام ہوں گے یعنی ان کا نام محمد ہو گا اور ان کے باپ کا نام میرے والد گرامی کے نام پر ہو گا یعنی عبداللہ اور ان کی والدہ کا نام میری والدہ ماجدہ کے نام پر ہو گا یعنی آمنہ، آپ ﷺ نے یہ بھی فرما دیا کہ امام مہدی حکومت کریں گے روئے زمین پر انصاف کا بول بالا ہو گا اور ظلم و ستم کا خاتمہ ہو گا۔ مرزا قادیانی میں ان خصوصیات میں سے کوئی ایک بھی نہیں پائی جاتی کیونکہ اس کا نام غلام احمد ہے اس کی والدہ کا نام چراغ بی بی، اس کے والد کا نام غلام مرتضیٰ مغل ہے نہ تو اس کا اہلِ بیت کے ساتھ کوئی نسبی تعلق ہے کیونکہ وہ مغل خاندان سے متعلق ہے اور اس کے دور میں عدل و انصاف کا بول بالا ہوا اور نہ ہی اسے کبھی حکومت ملی بلکہ انگریز کا خود کاشتہ پودا ہونے کی بنا پر اس نے انگریزی حکومت کے مفادات کی آبیاری کے لیے جہاد کو حرام قرار دے دیا تاکہ مسلمانانِ ہند پر غلامی کی تاریک رات اور طویل ہو جائے۔ اس لیے ہمارے لیے مسیح موعود یا امام مہدی کے پرکھنے کا معیار احادیثِ رسول ﷺ ہیں، عقل خانہ ساز نہیں کیونکہ بقول علامہ محمد اقبالؔ:

عقل عیار ہے سو بھیس بدلتی ہے
عشق بے چارہ نہ ملا نہ زاھد نہ حکیم

دوسری بات یہ کہ ہماری نظر میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ارشاداتِ گرامی کے مقابلے میں کسی قسم کی تاویلات فاسدہ اور تصورات باطلہ اس قابل بھی نہیں کہ ان پر کان دھرا جائے۔

تصوّرِ مسیح احادیث کی روشنی میں

احادیثِ نبوی ﷺ میں دو طرح کے مسیحیوں کا ذکر ملتا ہے:

1۔ مسیح ابن مریم علیھما السّلام
2۔ مسیح کذاب یا مسیح دجال

حضور نبی اکرم ﷺ نے دونوں قسم کے مسیحوں کا ذکر صراحتاً فرما دیا ہے، لهٰذا ان کی پہچان اور ان کے مابین پائے جانے والے تفاوت میں کسی قسم کا کوئی ابہام باقی نہیں رہتا۔ ان کے مختصراحوال درج ذیل ہیں:

1۔ مسیح ابن مریم علیھما السّلام

مسیح ابن مریم علیھما السّلام سے مراد سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ہیں جنہیں زندہ آسمان پر اُٹھا لیا گیا۔ آپ قربِ قیامت دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے۔ آپ کے احوال و واقعات گزشتہ صفحات میں تفصیل سے گزر چکے ہیں اس لیے انہیں یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔

2۔ مسیح دجال یا مسیح کذاب

مسیح دجال کا ظہور بھی قربِ قیامت میں ہو گا۔ اس کافر و کذاب کے حوالے سے چند مستند روایات درج ذیل ہیں:

1۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھماسے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ لوگوں میں قیام فرما ہوئے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی اس کی شان کے لائق حمد وثنا بیان کی، پھر دجال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

إنّي لأنذرکموہ وما من نبيّ إلّا أنذرہ قومہ لقد أنذر نوح قومہ ولکني أقول لکم فیہ قولا لم یقلہ نبي لقومہ تعلمون أنّہ أعور وأنّ اللہ لیس بأعور۔

1۔ بخاري، الصحیح، کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ: إنا أرسلنا نوحا إلی قومہ، 3: 1214، رقم: 3159
2۔ مسلم، الصحیح، کتاب الإیمان، باب ذکر المسیح ابن مریم والمسیح الدجال، 4: 2245، رقم: 169
3۔ ترمذي، السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في علامۃ الدجال، 4: 508، رقم: 2235

’’میں تمہیں اس کے بارے میں خبردار کر رہا ہوں، ہر نبی نے اپنی قوم کو اس کے بارے میں خبردار کیا ہے، بے شک حضرت نوح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو اس کے بارے میں خبردار کیا لیکن میں تمہیں اس کے بارے میں ایسی بات بتاتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتائی کہ جان لو کہ وہ بلاشبہ کانا ہو گا اور بے شک اللہ کانا نہیں۔‘‘

2۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

ما من نبي إلّا وقد أنذر أمّتہ الأعور الکذّاب ألا إنّہ أعور وإنّ ربکم لیس بأعور مکتوب بین عینیہ: ک ف ر۔

1۔ مسلم، الصحیح، کتاب الفتن وأشراط السّاعۃ، باب ذکر الدجال، 4: 2248، رقم: 2933
2۔ ترمذي، السنن، کتاب الفتن عن رسول اللہ ﷺ ، باب ما جاء في قتل عیسٰی بن مریم الدجال، 4: 516، رقم: 2245
3۔ أحمد بن حنبل، المسند، 3: 276، رقم: 13955

’’ہر نبی نے اپنی اُمت کو کانے کذاب (دجال) سے خبردار کیا ہے اور سنو! وہ بلا شبہ کانا ہو گا اور تمہارا رب کانا نہیں ہے۔ اُس (دجال) کی دو آنکھوں کے درمیان ک ف ر (کفر) لکھا ہوا ہوگا‘‘

3۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

أنّ رسول اللہ ﷺ ذکر الدّجال بین ظھراني النّاس فقال: إنّ اللہ تعالٰی لیس بأعور ألا وإنّ المسیح الدجال أعور العین الیمنی کأن عینہ عنبۃ طافئۃ۔

مسلم، الصحیح، کتاب الإیمان، باب ذکر المسیح ابن مریم والمسیح الدجال، 4: 2247، رقم: 169

’’رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کے سامنے دجال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے سنو مسیح دجال دائیں آنکھ سے کانا ہو گا اس کی آنکھ ایسے ہو گی جیسے پھولا ہوا انگور۔‘‘

4۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

قال رسول اللہ ﷺ : الدجّال أعور العین الیسریٰ جُفال الشعر معہ جنّۃ ونار فنارہ جنّۃ وجنّتہ نار۔

1۔ مسلم، الصحیح، کتاب الفتن وأشراط الساعۃ، باب ذکر الدجال وصفتہ وما معہ، 4: 2248، رقم: 2934
2۔ أحمد بن حنبل، المسند، 5: 383، رقم: 23298
3۔ نعیم بن حماد، الفتن، 2: 547، رقم: 1532

’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دجال بائیں آنکھ سے کانا ہو گا اور بال گھنے ہوں گے اس کے ساتھ جنت اور دوزخ ہو گی اس کی دوزخ حقیقت میں جنت ہے اور اس کی جنت (حقیقت میں) دوزخ ہے۔‘‘

5۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

قال رسول اللہ ﷺ : یأتي الدّجال المدینۃ فیجد الملائکۃ یحرسونھا فلا یدخلھا الطاعون ولا الدّجال إن شاء اللہ ۔

ترمذی، السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في الدجال لا یدخل المدینۃ، 4: 514، رقم: 2242

’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دجال مدینہ طیبہ کے پاس آئے گا اور فرشتوں کو اس کی حفاظت کرتے ہوئے پائے گا۔ پس نہ تو طاعون (بیماری) مدینہ طیبہ میں آئے گی اور نہ ہی دجال۔‘‘

6۔ حضرت ابو أمامہ الباہلی سے مروی ایک طویل حدیث میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دجال لوگوں سے کہے گا:

أنا نبي ولا نبي بعدي ثم یُثنّي فیقول: أنا ربکم۔

ابن ماجہ، السنن، کتاب الفتن، باب فتنۃ الدجال وخروج عیسی ابن مریم، 2: 1360، رقم: 4077

’’میں نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں پھر وہ دوبارہ کہے گا: میں تمہارا رب ہوں۔‘‘

مذکورہ بالا احادیث سے ثابت ہوا کہ دجال نبوت کا اور پھر خدائی کا دعویٰ کرے گا اس کے ساتھ جنت بھی ہوگی اور دوزخ بھی، سر زمینِ مدینہ منورہ پر اس کے ناپاک قدم نہیں لگیں گے، نیز یہ کہ دجال کانا ہو گا۔ ایک روایت کے مطابق دائیں آنکھ سے کانا ہو گا اور ایک روایت کے مطابق بائیں آنکھ سے، یہاں یہ امر پیش نظر رہے کہ آپ ﷺ کی اُمت میں فقط ایک نہیں بلکہ تیس دجال پیدا ہوں گے ان میں سے جو دجال اکبر ہو گا، وہ دائیں آنکھ سے کانا ہو گا، سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اسے قتل کریں گے باقی سب چھوٹے دجال ہوں گے۔

چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

لا تقوم السّاعۃ حتّٰی یبعث دجّالون کذّابون قریب من ثلاثین کلہم یزعم أنّہ رسول اللہ ۔

1۔ مسلم، الصحیح، کتاب الفتن وأشراط الساعۃ، باب لا تقوم الساعۃ حتی یمر الرجل بقبر الرجل، 4: 2239، رقم: 2923
2۔ ترمذي، السنن، کتاب الفتن عن رسول اللہ ﷺ ، باب ما جاء لا تقوم الساعۃ حتی یخرج کذابون، 4: 498، رقم: 2218
3۔ أحمد بن حنبل، المسند، 2: 236، رقم: 7227
z۔ طبراني، المعجم الصغیر، 2: 182، رقم: 993

’’قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک جھوٹے دجالوں کو نہ بھیج دیا جائے جو تیس کے قریب ہوں گے۔ ان میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ ہو گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے۔‘‘

مذکورہ بالا احادیث سے یہ امر ثابت شدہ ہے کہ مسیح ابن مریم علیھما السّلام اور مسیح دجال قربِ قیامت ایک ہی زمانہ میں ہوں گے۔ مسیح دجال، مسیح ابن مریم علیھما السّلام کے ہاتھوں قتل ہوکر جہنم واصل ہو گا۔ مرزا غلام احمد قادیانی کا مسیح موعود ہونے کا دعویٰ باطل ہے کیونکہ مرزا صاحب میں مسیح ابن مریم علیھما السلام کی علامات میں سے کوئی ایک علامت بھی نہیں پائی گئی اور نہ مرزا صاحب کے زمانے میں اس دجال کا ظہور ہی ہوا جس کا ذکر احادیث میں ملتا ہے۔ البتہ مرزا صاحب کا شمار ان تیس دجالوں میں ممکن ہے جن کے فتنے سے حضور نبی اکرم ﷺ نے اُمت کو خبردار فرمایا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved