زیرِنظر باب میں مرزا غلام احمد قادیانی کی ذاتی زندگی، خاندانی پس منظر، پیدائش اور بچپن سے لے کر اِبتدائے شباب تک کے جو حالات قلم بند کیے گئے ہیں وہ مرزا صاحب اور ان کے پیروکاروں کی ان تحریروں سے ماخوذ ہیں جو ان کی مستند و معتبر کتب میں موجود ہیں۔ قارئین کرام کو یہ معلومات بہم پہنچانے کا مقصد یہ ہے کہ جھوٹے مدعی نبوت کی شخصیت کو پوری جزئیات سمیت خود اس کی اور اس کے حواریوں کی تحریروں کی روشنی میں اجاگر کیا جاسکے اور اس کا کوئی گوشہ قاری کی نظر سے اوجھل نہ رہے۔
مرزا صاحب اپنی پیدائش کے متعلق لکھتے ہیں:
’’میں تو اُم پیدا ہوا تھا اور میرے ساتھ ایک لڑکی تھی جس کا نام جنت تھا اور یہ الہام کہ یَا آدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکْ الْجَنَّۃ جو آج سے بیس برس پہلے براہینِ احمدیہ کے صفحہ 496 میں درج ہے اس میںجو جنت کا لفظ ہے اس میں یہ ایک لطیف اشارہ ہے کہ وہ لڑکی جو میرے ساتھ پیدا ہوئی اس کا نام جنت تھا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، تریاق القلوب: 351؛ روحانی خزائن، 15: 479
چونکہ مرزا صاحب کے ساتھ پیدا ہونے والا دوسرا بچہ لڑکی تھی اس لیے انہیں یہ وہم تھا کہ ان کے اندر بھی انثیّت کا مادہ موجود ہے چنانچہ انہوں نے اپنے اس خیال کا اظہاریوں کیا:
’’میں خیال کرتا ہوںکہ اس طرح پر خدا تعالیٰ نے انثیت کا مادہ مجھ سے بکلّی الگ کر دیا۔‘‘
یعقوب علی قادیانی، حیات النّبی، 1: 50
مرزا صاحب کی تاریخ پیدائش کے متعلق متضاد بیانات سے معلوم ہوتاہے کہ حتمی تاریخ کا علم خود مرزا صاحب کو اور ان کے اہل خانہ کو بھی نہیں۔ معروف یہی ہے کہ و ہ لاہور کے شمال مشرق میں 50، 55 میل پر و اقع ہندوستان کے ضلع گورداسپور کے ایک چھوٹے سے قصبہ قادیان میں 13 فروری 1839ء یا 1840ء میں پیدا ہوئے، جب سکھ حکومت دم توڑ رہی تھی اور ہندوستان میں برطانوی اقتدار کا سورج طلوع ہو رہا تھا۔ اس دور کے متعلق ان کی اپنی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ جب 1857 کا ہنگامہ آزادی شروع ہوا تو اس وقت ان کی عمر سولہ سترہ سال تھی۔ مرزا صاحب لکھتے ہیں:
’’میری پیدائش 1839ء یا 1840ء میں سکھوں کے آخری وقت میں ہوئی ہے اور میں 1857ء میں سولہ برس کا یا سترھویں برس میں تھا اور ریش و برودت کا آغاز نہیں تھا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، کتاب البریہ، حاشیہ: 159؛ مندرجہ روحانی خزائن 13: 177
اپنی تاریخ پیدائش سے متعلق قادیانیت کے پیشوا کے بیان پر غیر تو غیرٹھہرے ان کے اپنے بیٹے کو بھی اعتماد نہیں۔ وہ اسے صحیح تسلیم نہیں کرتا اور اپنے اختلاف کا اظہار اس طرح کرتا ہے:
’’لیکن بعد میں ان کے خاندان کے افراد میںان کے سالِ ولادت کے بارے میں اختلاف پیدا ہو گیا تھا۔ پہلے نظریے کے مطابق سال ولادت 1836ء یا 1837ء ہو سکتا ہے۔‘‘
مرزا بشیر احمد، سیرۃ المہدی، 2: 150
’’ایک تخمینہ کے مطابق سال ولادت1831ء ہو سکتا ہے۔‘‘
مرزا بشیر احمد، سیرۃ المہدی، 2: 74
’’پس 13 فروری 1835 عیسوی بمطابق 14 شوال 1250 ہجری بروز جمعہ والی تاریخ صحیح قرار پاتی ہے۔‘‘
مرزا بشیر احمد، سیرۃ المہدی، 2:76
’’جبکہ دیگر 1833ء یا 1834ء کو سال ولادت قرار دیتے ہیں۔‘‘
مرزا بشیر احمد، سیرۃ المہدی، 3: 194
’’معراج دین نے تاریخ ولادت 17 فروری 1832ء مقرر کی ہے۔‘‘
مرزا بشیر احمد، سیرۃ المہدی، 3: 302
مرزا صاحب کی تاریخ پیدائش کا تعین ایک ایسا معمہ ہے جسے ان کا بیٹا بھی حل نہ کر سکا اور شش و پنج میں پڑ گیا۔
مرزا غلام احمد قادیانی کے نام و نسب اور خاندان کے بارے میں جاننا اس لیے ضروری ہے کہ کسی تنظیم اور تحریک کے بانی کے عزائم و مقاصد اورنظریات و خیالات اس کی شخصیت کے گرد گھومتے ہیں اور انہیں اس کی ذات سے الگ کرکے دیکھنا اور پرکھنا ممکن نہیں۔
مرزا صاحب کا نام غلام احمد، ماں کا نام چراغ بی بی، باپ کا نام غلام مرتضیٰ، دادا کا نام عطا محمد اور پردادا کا نام گل محمد تھا۔ مرزا کے اس شجرۂ نسب سے اس کی اور اس کے آباء و اجداد کی نسل متعین کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتا ہے کیونکہ مرزائے قادیان کو خود معلوم نہیں کہ ان کی نسل اور خاندان کیا ہے؟ وہ اس حوالے سے تشکیک و ابہام کا شکار نظر آتے ہیں۔ اس کا ثبوت خود ان کی تحریریں ہیں۔ وہ اپنی اصل ونسل کے بارے میںمتضاد بیانات دیتے ہیں اور کسی ایک نسل یا خاندان پر اکتفا نہیں کرتے۔ یہ بات عام قاری کے لیے حیرانی کا باعث ہے۔ ہم ذیل میں مرزا کی تحریروں کی روشنی میںان کی نسل وخاندان معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مرزا صاحب کی ایک تحریر کے مطابق ان کا تعلق مغل قوم اور اس کی شاخ برلاس سے تھا۔ وہ اپنی تصنیف ’’کتاب البریہ‘‘ کے حاشیہ میں لکھتے ہیں:
’’اب میرے سوانح اس طرح پر ہیں کہ میرا نام غلام احمد میرے والدصاحب کا نام غلام مرتضیٰ اور دادا صاحب کا نام عطا محمداور پڑدادا صاحب کا نام گُل محمد تھا اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے ہماری قوم برلاس ہے اور میرے بزرگو علیہ السلام کے پرانے کاغذات سے جو اب تک محفوظ ہیںمعلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ملک میں ثمرقند سے آئے تھے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، کتاب البریہ، حاشیہ: 144، 145؛ روحانی خزائن، 13: 162، 163
لیکن پھر انہیں جانے کیا سوجھی کہ قرآنی آیات اور احادیثِ نبوی ﷺ کی کچھ نصوص کو پڑھتے ہی انہوں نے خود کو ان کا مصداق سمجھنا شروع کر دیا اور کچھ عبارتیں اپنے پاس سے گھڑ کر انہیں الہام قرار دے دیا۔ بعض احادیثِ مبارکہ میں حضور ﷺ نے فارس کا تذکرہ فرمایا اور محدثین کی اکثریت نے اس سے مراد امام اعظم ابو حنیفہؒ لیے ہیں کیونکہ وہ فارسی النسل تھے اور ان کی علمی خدمات کا ایک جہان معترف ہے اور یہ اعتراف صدیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ لیکن مرزا صاحب نے خود ہی اسے اپنے بارے میں الہام بنا کر اپنے آباء و اجداد کو فارسی الاصل قرار دینے کی کوشش کی۔ چنانچہ مذکورہ کتاب کے حاشیے میں لکھتے ہیں:
’’دوسرا الہام میری نسبت یہ ہے: لَوْ کَانَ الايْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَيَّا لَیَنَالُهُ رَجُلٌ مِنْ فَارَس۔ (1) یعنی اگر ایمان ثریا سے معلّق ہوتا تو یہ مرد جو فارسی الاصل ہے وہیں جاکر اس کو لے لیتا۔ اور پھر تیسرا الہام میری نسبت یہ ہے: إن الذین کفروا رد علیھم رجل من فارس شکر اللہ سعیہ۔ یعنی جو لوگ کافر ہوئے اس مرد نے جو فارسی الاصل ہے ان کے مذاہب کو رد کر دیا۔ خدا اس کی کوشش کا شکر گزار ہے۔ یہ تمام الہامات ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارے آباء اوّلین فارسی تھے۔‘‘(2)
(1) یہ حدیث اختلافِ الفاظ کے ساتھ صحیحین اور دیگر کتب حدیث میں مذکور ہے۔ ’صحیح بخاری (4: 1858، رقم: 4615)‘ میں بروایتِ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس طرح آئی ہے:
وضع رسول اللہ ﷺ یدہ علی سلمان، ثم قال: لو کان الإیمان عند الثریا لنالہ رجال أو رجل من ھؤلاء۔
’صحیح مسلم (4: 1972، رقم: 2546)‘ میں درج ذیل الفاظ مذکور ہیں:
لو کان الدین عند الثریا لذھب بہ رجل من فارس أو قال من أبناء فارس حتی یتناولہ۔
اس حدیث مبارکہ کی مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو ہماری کتاب: ’اِمام ابو حنیفہ ص: اِمام الائمہ فی الحدیث (جلد اَوّل)‘۔
(2) غلام احمد قادیانی، کتاب البریہ، حاشیہ: 135؛ مندرجہ روحانی خزائن، 13: 163
اپنے خاندان کے حوالے سے اپنے اس خلافِ حقیقت بیان کی وہ خود ہی ایک جگہ نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’یاد رہے کہ اس خاکسار کا خاندان بظاہر مغلیہ خاندان ہے کوئی تذکرہ ہمارے خاندان کی تاریخ میں یہ نہیںدیکھا گیا کہ وہ بنی فارس کا خاندان تھا، ہاں بعض کاغذات میں یہ دیکھا گیا کہ ہماری بعض دادیاں شریف اور مشہور سادات میں سے تھیں، اب خدا کے کلام سے معلوم ہوا کہ در اصل ہمارا خاندان فارسی خاندان ہے، سو اس پر ہم پورے یقین سے ایمان لاتے ہیںکیونکہ خاندانوں کی حقیقت جیسا کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کسی دوسرے کو ہر گز معلوم نہیں، اسی کا علم صحیح اور یقینی اور دوسرے کا شکی اور ظنی۔‘‘
غلام احمد قادیانی، اربعین، حاشیہ: 23؛ مندرجہ روحانی خزائن، 17: 365
مرزا قادیانی اس حد تک تضاد بیانی کا شکار ہیں کہ کبھی وہ مغلوں کی شاخ برلاس کہتے ہیں، پھر فارسی الأصل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور جب طبیعت اس پر بھی اکتفا نہیں کرتی تو بیک جنبشِ قلم خود کو اسرائیلی اور فاطمی بھی قرار دینے لگتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’خدا نے مجھے یہ شرف بخشا ہے کہ میں اسرائیلی بھی ہوں اور فاطمی بھی۔‘‘
مرزا غلام احمد قادیانی، ایک غلطی کا ازالہ: 12؛ مندرجہ روحانی خزائن، 18: 216
اپنی نسل اور اصل کے بارے میں مرزا صاحب نے ایک اور پینترا بدلا اور خود کو چینی النسل ثابت کرنے لگے۔ اپنی کتاب’’ تحفہ گولڑویہ‘‘ میں لکھا:
’’میرے بزرگ چینی حدود سے پنجاب میں پہنچے ہیں۔‘‘
مرزا غلام احمد قادیانی، تحفہ گولڑویہ:41؛ مندرجہ روحانی خزائن، 17: 127
مرزائے قادیان نے مہدی بننے کے چکر میں بھی اپنی نسل بدلنے کی تحریری کاوشیں کیں۔ بعض احادیث میں چونکہ امام مہدی کے خاندانی نسب کی نشاندہی بھی موجود ہے اس لیے مرزا صاحب نے بڑے ہی تکلف کے ساتھ بنی فاطمہ سے ہونے کا دعویٰ کیا:
’’میں اگر چہ علوی تو نہیں ہوں مگر بنی فاطمہ میں سے ہوں۔ میری بعض دادیاں مشہور اور صحیح النسب سادات میں سے تھیں۔‘‘
غلام احمد قادیانی، نزول المسیح، حاشیہ: 48؛ مندرجہ روحانی خزائن، 18: 626
مرزا صاحب اپنی خاندانی اصل کے بارے میں درجہ بالا متضاد معلومات بہم پہنچانے کے بعد خود ہی لکھتے ہیں:
’’اورمیں اپنے خاندان کی نسبت کئی دفعہ لکھ چکا ہوںکہ وہ ایک شاہی خاندان ہے اور بنی فارس اور بنی فاطمہ کے خون سے ایک معجون مرکب ہے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، تریاق القلوب:158، 159؛ مندرجہ روحانی خزائن، 15: 286، 287
ہندوستان میں اپنے اردگرد پھیلے ہوئے ہندو ؤں کو خوش کرنے کے لیے مرزا صاحب اپنا ناتہ ان سے بھی جوڑنے سے نہیں چونکتے بلکہ نت نئے دعوؤں کا ریکارڈ بناتے ہوئے اعلان کرتے ہیں:
’’پس جیسا کہ آریہ قوم کے لوگ کرشن کے ظہور کا ان دنوں میں انتظار کرتے ہیں وہ کرشن میں ہی ہوں۔‘‘
1۔ غلام احمد قادیانی، حقیقۃ الوحی، تتمہ: 85؛ مندرجہ روحانی خزائن، 22: 521
2۔ تذکرہ، مجموعہ الہامات مرزا: 381
مرزا صاحب نے سکھوں کے ساتھ بھی اپنا تعلق ظاہر کیا۔ چنانچہ سکھ ہونے کا اعلان اس تعارف کے ساتھ کرتے ہیں:
’’8 ستمبر 06 19ء بوقت فجر کئی الہام ہوئے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے امین الملک جے سنگھ بہادر۔‘‘
تذکرہ، مجموعہ الہاماتِ مرزا: 472
مرزا صاحب اپنے ایک الہام میں خود کو آریوں کا بادشاہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہ دعوی صرف میری طرف سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے بار بار میرے پر ظاہر کیا ہے کہ جو کرشن آخر زمانہ میں ظاہر ہونے والا تھا وہ تو ہی ہے۔ آریوں کا بادشاہ۔
غلام احمد قادیانی، تتمہ حقیقہ الوحی: 85؛ مندرجہ روحانی خزائن، 22: 522
’’جو ملک ہند میں کرشن نام ایک نبی گذرا ہے جس کو ردّر گوپال بھی کہتے ہیں (یعنی فنا کرنے والا اور پرورش کرنے والا)اس کا نام بھی مجھے دیا گیا ہے۔‘‘
غلام احمد قادیا نی، تتمہ حقیقۃ الوحی: 85؛ مندرجہ روحانی خزائن، 22: 521
مختلف نسلیں تبدیل کرنے کے بعد وہ ایسی لفظی قلابازی کھاتے ہیں کہ عقل حیران اور ناطقہ سربگر یبان ہونے لگتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
میں کبھی آدم، کبھی موسیٰ، کبھی یعقوب ہوں
نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار
غلام احمد قادیانی، در ثمین: 100
پھر ان تمام نسلوں پر خطِ تنسیخ پھیرتے ہوئے ایک اور چھلانگ لگاتے ہیں اور خود کو نوع انسانی سے نکال باہر کرتے ہیں اور اپنی حقیقت کااعتراف یوں کرتے ہیں:
کِرم خاکی ہوں میں پیارے نہ میں آدم زاد ہوں
ہوں بشر کی جائے نفرت اور اِنسانوں کی عار
غلام احمد قادیانی، در ثمین: 68
اس خلط مبحث سے بقول غالب:
اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
کے مصداق مرزا کی نسل کا مسئلہ ابھی تک لاینحل ہے، اس لیے ہم اس بحث کو یہیں سمیٹتے ہیں۔
مرزا صاحب کے بقول ان کے ساتھ پیدا ہونے والی لڑکی کی موت کے ساتھ ہی ان سے انثیت کا مادہ کلیتاً الگ کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد مرزا صاحب کو اپنی مردانگی کا یقین ہو جانا چاہیے تھا مگرایسا نہیں ہوا، وہ بعد میںجنس مخالف ہونے کا دعویٰ کرتے رہے۔ اس کا سبب مرزا صاحب ہی جانتے ہوں گے ہم تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ مرزا صاحب ایک عجیب و غریب شخص تھے۔ بھول بھلیوں اور پہیلیوں کے شوقین حضرات کے لیے وہ گویا ایک پہیلی تھے وہ مرد تھے یا عورت؟ آپ بھی عقل آزمائیں۔ ان کی کہانی ان کی زبانی ملاحظہ کریں:
1۔ ’’الہام ہوا کہ تو فارسی جوان ہے۔‘‘
تذکرہ، مجموعہ الہامات: 634
2۔ ’’الہام ہواسلامت بر تو اے مرد سلامت۔‘‘
تذکرہ، مجموعہ الہامات: 297
3۔ لیکن اس کے بعد دعویٰ مردانگی سے منحرف ہو کر دعویٰ نسوانیت کرنے لگتے ہیں:
مرزا صاحب کا ایک مرید قاضی یار محمد اپنے ٹریکٹ نمبر 34 موسومہ ’’اسلامی قربانی‘‘ میں لکھتا ہے:
’’حضرت مسیح موعود (مرزا) نے ایک موقع پر اپنی حالت یہ ظاہر فرمائی کہ کشف کی حالت آپ پر اس طرح طاری ہوئی گویا کہ آپ عورت ہیں اور اللہ تعالیٰ نے رجولیت کی طاقت کا اظہار فرمایا تھا۔‘‘
قاضی یار محمد، اسلامی قربانی، ٹریکٹ نمبر 34، صفحہ: 34
4۔ ’’خدا نے مجھے الہام کیا کہ تیرے گھر میں لڑکا پیدا ہو گا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، حقیقۃ الوحی: 95؛ تذکرہ: 144
5۔ ’’بابو الٰہی بخش چاہتا ہے کہ تیرا حیض دیکھے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، تتمہ حقیقۃ الوحی: 143؛ مندرجہ روحانی خزائن، 22: 581
مرزا کے ان الہامات سے کوئی بھی ذی شعور انسان سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ان کی جنس کیا تھی؟آیا وہ مرد تھے یا عورت یا پھر کچھ اور!
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اللہوالوں کا بچپن ان کی آئندہ زندگی کاایک خوبصورت دیباچہ ہوتا ہے۔ لوگ ان کے بچپن سے ان کے سیرت و کردار کی ندرت اور عظمت کا اندازہ لگا لیتے ہیں، جبکہ اس کے برعکس مرزائے قادیان کا بچپن’’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات‘‘ کے مصداق ان کی آئندہ زندگی کا آئینہ دار اپنی نوعیت کا عجیب بچپن تھا۔ مرزا کی اوائل عمری کی ناقابل رشک سیرت کے چند گوشے قارئین کی نذر کیے جاتے ہیں۔
مرزا صاحب بچپن میں چڑیاں شکار کرنے کے شوقین تھے۔ ان کا بیٹا مرزا بشیر احمد اپنی والدہ کے حوالے سے لکھتا ہے:
’’والدہ صاحبہ نے فرمایاایک دفعہ چند بوڑھی عورتیں وہاں سے آئیں تو انہوں نے باتوں باتوں میں کہا کہ سندھی ہمارے گاؤں میں چڑیاں پکڑا کرتا تھا، والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ میں سندھی کا مفہوم نہ سمجھ سکی آخر معلوم ہوا کہ سندھی سے مراد حضرت صاحب ہیں۔‘‘
مرزا بشیر احمد قادیانی، سیرت المہدی، 1: 45
مرزا بشیر احمد آگے لکھتا ہے:
’’بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ ہماری دادی ایم ضلع ہوشیاپور کی رہنے والی تھیں۔ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہم اپنی والدہ کے ساتھ بچپن میں کئی دفعہ ایم گئے ہیں۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ وہاںحضرت بچپن میں چڑیاں پکڑا کرتے تھے اور چاقو نہیں ملتا تھا تو سرکنڈے سے ذبح کر لیتے تھے۔‘‘
مرزا بشیر احمد قادیانی، سیرت المہدی، 1: 45
مرزا صاحب بچپن میں روٹی پر راکھ بطور سالن رکھ کر کھا گئے۔ مرزا بشیر احمد لکھتا ہے:
’’بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ بعض بوڑھی عورتوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ بچپن میں حضرت صاحب نے اپنی والدہ سے روٹی کے ساتھ کچھ کھانے کو مانگا، انہوں نے کوئی چیز شاید گڑ دیا کہ یہ لے لو۔ حضرت نے کہا یہ میں نہیں لیتا۔ انہوں نے کوئی اور چیز بتائی، حضرت صاحب نے اس پربھی وہی جواب دیا وہ اس وقت کسی بات پر چڑی ہوئی بیٹھی تھیں سختی سے کہنے لگیں کہ جاؤ پھر راکھ سے کھا لو، حضرت صاحب روٹی پر راکھ ڈال کر بیٹھ گئے اور گھر میں لطیفہ ہو گیا۔‘‘
مرزا بشیر احمد، سیرت المہدی، 1: 245
مرزا بشیر احمد اپنے والد مرزا غلام احمد قادیانی کے دماغی خلل کا ایک اور واقعہ بیان کرتاہے جو کسی لطیفے سے کم نہیں:
’’بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب سناتے کہ جب میں بچہ ہوتا تھا تو ایک دفعہ بعض بچوں نے مجھے کہا کہ جاؤ گھر سے میٹھا لاؤ۔ میں گھر آیا اور بغیر کسی سے پوچھنے کے ایک برتن میں سے سفید بورا اپنی جیبوں میں بھر کر باہر لے گیا اور راستہ میں ایک مٹھی بھر کرمنہ میں ڈال لی۔ بس پھر کیا تھا؟ میرا دم رک گیا اور بڑی تکلیف ہوئی کیونکہ معلوم ہوا کہ جسے میں نے سفید بورا سمجھ کر جیبوں میں بھرا تھا وہ بورا نہ تھا بلکہ پسا ہوا نمک تھا۔‘‘
مرزا بشیر احمد، سیرت المہدی، 1: 244
اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ مرزا صاحب کو چوری کی عادت بچپن سے ہی تھی جو بڑھتے بڑھتے ختمِ نبوت کی عمارت میں نقب زنی پرمنتج ہوئی۔
1۔ ’’لالہ بھین سین وکیل سیالکوٹ کا بیان ہے کہ جب میں اور مرزا غلام احمد بٹالہ میں پڑھا کرتے تھے تو ان کی عادت تھی کہ مٹی کا ایک لوٹا (سبلوچہ گلی) پانی سے بھرواتے اور دو لڑکوں سے کہتے کہ اسے ہاتھ میں ایک ایک انگلی سے اٹھائے رہو۔ لڑکے انگلیوں کے سہارے لوٹے کو تھام لیتے اس کے بعد مرزا صاحب کیمیا کے نسخوں کی دوائیں جدا کاغذ کے پرزوں پر لکھ کر گولیاں بناتے اور ایک ایک گولی اس لوٹے میں ڈالتے جاتے اور ساتھ ہی کوئی اسم پڑھتے جاتے تھے، جس گولی کی نوبت پر لوٹا گھوم جاتا تھا، اس گولی کا نسخہ پڑھ کر علیحدہ رکھ لیتے تھے اور پھر اس نسخہ کا تجربہ کرتے تھے لیکن کیمیا گری میں کامیابی کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہوا۔‘‘
چودھویں صدی کا مسیح: 11، مطبوعہ امرتسر، 1324ھ
2۔ ’’مولوی محمد حسین بٹالوی اور مرزا قادیانی بٹالہ میں ہم سبق تھے، ایک مرتبہ مولوی محمد حسین، مرزا قادیانی اور چند لڑکے رات کے وقت قصبہ بٹالہ سے باہر کھیتوں میں قضائے حاجت کے لیے گئے۔ گرمی کا موسم تھا، جگنو اڑ رہے تھے۔ رفع حاجت کے وقت ایک جگنو مرزا قادیانی کے گریبان میں آگیا۔ مرزا صاحب نے اسے ہاتھ میں دبا لیا۔ جب سب لڑکے جمع ہوئے تو مرزا قادیانی نے ہم جولیوں سے کہا: دیکھو میرے پیرہن کے نیچے درخشاں چیز کیا ہے؟ اور کہا اگر اسی طرح کوئی شعبدہ کیا جائے تو لوگوں کو پھانسا جا سکتا ہے یا نہیں؟‘‘
مولانا ابو القاسم رفیع دلاروی، رئیس قادیان: 16
مرزا صاحب کی جوانی کا اوائل دور بھی کسی عام نوجوان سے کم نہیں۔ موصوف نے عمر کے اس سنہری دور میں خوب مزے کیے۔ درج ذیل واقعہ جس کی راویہ مرزا صاحب کی اپنی اہلیہ اور ناقل صاحبزادے ہیں اس بات کا واضح ثبوت ہے:
’’بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ اپنی جوانی کے زمانے میں حضرت مسیح موعود تمہارے دادا کی پنشن مبلغ 700 روپے وصول کرنے گئے تو پیچھے پیچھے مرزا امام الدین چلاگیا۔ جب آپ نے پنشن وصول کر لی تو آپ کو بھلا پھسلا کر اور دھوکا دے کر بجائے قادیان لانے کے باہر لے گیا اور ادھر ادھر پھراتا رہا۔ پھر جب اس نے سارا روپیہ اڑا کر ختم کر دیا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں اور جگہ چلا گیا۔ حضرت مسیح موعود اس شرم سے گھر واپس نہیں آئے۔‘‘
مرزا بشیر احمد قادیانی، سیرۃ المہدی، 1: 34، 35
آج سے قریبا سوا سو سال قبل 700 روپیہ ایک خطیر رقم تھی۔ اتنی رقم کو کہاں اڑا کر ختم کر دیا؟ اس کا جواب سوائے ’’آوارگی‘‘ کے اور کیا ہو سکتا ہے؟
یہ ایک مسلمہ حقیقت اور طے شدہ امر ہے کہ نبی کا اس دنیا میں کوئی استاد نہیں ہوتا، بلکہ وہ براہ راست اللہ رب العزت سے فیض حاصل کرتا ہے۔ نبی کی تعلیم و تربیت کا انتظام و انصرام اللہ پاک خود فرماتا ہے، انبیاء کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ کسی نبی نے دنیوی مکتب میں استاد کے آگے زانوئے تلمذ طے نہیں کئے، نبوت کی یہ ایک ایسی تسلیم شدہ علامت ہے کہ مرزا قادیانی کو بھی یہ ڈھونگ رچانے کے لیے کہ اس کا کوئی استاد نہیں یہ مضحکہ خیز اعلان کرنا پڑا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اسے ثابت نہیں کر سکا بلکہ اس بات میں اپنے جھوٹے ہونے کی ایک اور شہادت رقم کر گیا۔ مرزا صاحب اپنے بارے میں رقمطراز ہیں:
’’سو آنے والے کا نام جو مہدی رکھا گیا، سو اس میںیہ اشارہ ہے کہ وہ آنے والا علم دین خدا سے ہی حاصل کرے گا اور قرآن و حدیث میں کسی استاد کا شاگرد نہیں ہو گا۔ سو میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرا حال یہی ہے۔ کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے یا کسی مفسر یا محدث کی شاگردی اختیار کی ہے پس یہی مہدویت ہے جو نبوت محمدیہ کے منہاج پر مجھے حاصل ہوئی ہے اور اسرار دین بلاواسطہ میرے پر کھولے گئے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، ایام الصلح: 147؛ مندرجہ روحانی خزائن، 14: 394
اس دعویٰ کی تکذیب مرزا صاحب کی اپنی خود نوشت سے ہوتی ہے جو درج ذیل ہے:
’’بچپن کے زمانہ میں میری تعلیم اس طرح پر ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلم میرے لیے نوکر رکھا گیا، جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کانام فضل الٰہی تھا اورجب میری عمر تقریباً دس برس کے ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کے لیے مقرر کیے گئے جن کا نام فضل احمد تھا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خدا تعالیٰ کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی اس لیے ان استادوں کے نام کا پہلا لفظ بھی فضل ہی تھا۔ مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار ااور بزرگ وار آدمی تھے۔ وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتے رہے اور میں نے صرف کی بعض کتابیں پڑھیںاور کچھ قواعدِنحو ان سے پڑھے اور بعد اس کے جب میں سترہ یااٹھارہ سال کا ہوا تو ایک مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان کا نام گل علی شاہ تھا۔ ان کو بھی میرے والدصاحب نے نوکررکھ کر قادیان میں پڑھانے کے لیے مقررکیا تھا اور ان آخر الذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وٖغیرہ کے علومِ مروجہ کو جہاں تک خدا تعالیٰ نے چاہا حاصل کیا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، کتاب البریہ، حاشیہ: 161؛ مندرجہ روحانی خزائن، 13: 179-181
طب کا علم انہوں نے اپنے والد صاحب سے پڑھا جو ایک مجرب و حاذق طبیب تھے۔
’’اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، کتاب البریہ، حاشیہ: 163؛ روحانی خزائن، 13: 181
انہیں اپنے زمانہ طالب علمی میں کتابوں سے گہرا شغف تھا وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’اور ان دنوں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں دنیا میںنہ تھا۔ میرے والد صاحب مجھے بار بار یہی ہدایت کرتے تھے کہ کتابوں کا مطالعہ کم کرنا چاہیے کیونکہ وہ نہایت ہمدردی سے ڈرتے تھے کہ صحت میں فرق نہ آوے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، کتاب البریہ، حاشیہ: 163؛ روحانی خزائن، 13: 181
لیکن ان کو اپنے والد کے اصرار پر تعلیمی سلسلہ منقطع کرکے اپنی آبائی زمینوں کے حصول کے لیے تگ و دو اور عدالتی کارروائیوں میں مصروف ہونا پڑا جیسا کہ وہ لکھتے ہیں:
’’میرے والد صاحب اپنے بعض آباؤ و اجداد کے دیہات کو دوبارہ لینے کے لیے انگریزی عدالتوں میں مقدمات کر رہے تھے۔ انہوں نے انہی مقدمات میں مجھے بھی لگایا اور ایک زمانہ دراز تک میں ان کاموں میں مشغول رہا۔ مجھے افسوس ہے کہ بہت سا وقت عزیز میرا ان بیہودہ جھگڑوں میں ضائع گیا اوراس کے ساتھ ہی والد صاحب موصوف نے زمینداری امور کی نگرانی میں مجھے لگا دیا۔ میں اس طبیعت اور فطرت کا آدمی نہیں تھا اس لیے اکثر والد صاحب کی ناراضگی کا نشانہ رہتا تھا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، کتاب البریہ، حاشیہ: 164؛ مندرجہ روحانی خزائن، 13: 182
مرزا قادیانی کا یہ کہنا کہ میرا کوئی استاد نہیں، ایسا جھوٹ ہے جو تاویلات کے ہزار پردوں میں بھی چھپائے نہیں چھپتا۔ اب جھوٹے کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہئے یہ بھی مرزا صاحب خود ہی بتائیں گے۔
جھوٹے کے بارے میں مرزا صاحب کے چنداپنے اقوال درج ذیل ہیں:
1۔ ’’ظاہر ہے جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہو جائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، چشمہ معرفت: 222؛ مندرجہ روحانی خزائن، 23: 231
2۔ ’’اور محض ہنسی کے طور پر یا لوگوں کو اپنا رسوخ جتانے کے لیے دعویٰ کرتا ہے کہ مجھے یہ خواب آئی اور یا الہام ہوا اورجھوٹ بولتا ہے یا اس میں جھوٹ ملاتا ہے وہ اس نجاست کے کیڑے کی طرح ہے جو نجاست میں ہی پیدا ہوتا ہے اور نجاست میں ہی مر جاتا ہے۔‘‘
مرزا غلام احمد قادیانی، تحفہ گولڑویہ: 20؛ مندرجہ روحانی خزائن، 17: 56
3۔ ’’جھوٹ بولنا مرتد ہونے سے کم نہیں۔‘‘
مرزا غلام احمد قادیانی، تحفہ گولڑویہ، حاشیہ: 20؛ مندرجہ روحانی خزائن، 17: 56
مرزا صاحب کی عمر پندرہ سال تھی اور وہ ابھی زمانہ طالب علمی میں تھے کہ ان کی شادی اپنے ماموں مرزا جمعیت بیگ کی بیٹی، مرزا شیر علی ہوشیار پوری کی ہمشیرہ سے کر دی گئی۔ مرزا صاحب کی اس بیوی سے دو لڑکے مرزا سلطان احمد اور مرزا فضل احمد پیدا ہوئے۔
مرزا بشیر احمد، سیرۃ المہدی، 2: 150
مرزا قادیانی کے سوانح نگار ڈاکٹر بشارت احمد کے مطابق اس شادی کے وقت مرزا صاحب کی عمر 19 سال تھی، وہ اس اختلاف کا سبب مرزا صاحب کی تاریخِ پیدائش میں اختلاف کو قرار دیتا ہے۔
ڈاکٹر بشارت احمد، مجدد اعظم، 1: 25
مرزا قادیانی نہ صرف دنیاوی تعلیم حاصل کرتے رہے بلکہ اس سے فائدہ اٹھایا اور 1864ء سے 1868ء تک چار سال ڈپٹی کمشنر آفس سیالکوٹ میں ملازمت کرتے رہے۔ مرزا محمود احمد اپنے والد کے بارے میں کہتا ہے:
’’اور ایسا ہوا کہ ان دنوں میں آپ گھر والوں کے طعنوں کی وجہ سے کچھ دنوں کے لیے قادیان سے باہر چلے گئے اور سیالکوٹ جا کر رہائش اختیار کر لی تو گزارہ کے لیے ضلع کچہری میں ملازمت بھی کر لی۔‘‘
تحفہ شہزادہ ویلز: 341 بحوالہ رئیس قادیان
گھر والوں کے طعنے کس بات پر تھے؟ اس بارے میں مرزا محمود کی خاموشی صورتحال کو پراسرار بنا دیتی ہے۔
مرزا بشیر احمد اپنے والد کی ملازمت کے بارے میں نقل کرتا ہے:
’’چونکہ تمہارے دادا کا منشا رہتا تھا کہ آپ کہیں ملازم ہو جائیں اس لیے آپ سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں قلیل تنخواہ پر ملازم ہو گئے اور کچھ عرصہ تک وہاں ملازمت پر رہے۔ پھر جب تمہاری دادی بیمار ہوئیں تو تمہارے دادا نے آدمی بھیجا کہ ملازمت چھوڑ کر آجاؤ۔ حضرت صاحب فوراً روانہ ہوگئے … خاک سار عرض کرتا ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کی سیالکوٹ کی ملازمت 1864ء تا 1868ء کا واقعہ ہے۔‘‘
مرزا بشیر احمد، سیرۃ المہدی، 1: 35، روایت نمبر: 49
ملازمت کے دوران مرزا صاحب ترقی کے لیے کوشاں رہے مگر ترقی کے لیے ضروری امتحان میں فیل ہو گئے۔ مرزا بشیر احمد لکھتا ہے:
’’چونکہ مرزا صاحب ملازمت کو پسند نہیں فرماتے تھے اس واسطے آپ نے مختاری کے امتحان کی تیاری کے لیے قانونی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا، پر اس امتحان میں کامیاب نہ ہوئے۔‘‘
مرزا بشیر احمد، سیرۃ المہدی، 1: 138، روایت نمبر: 150
دوران ملازمت مرزاصاحب نے دو کتابیں انگریزی کی بھی پڑھیں۔ مرزا بشیر احمد اس حوالے سے لکھتاہے:
’’اسی زمانہ میں مولوی الٰہی بخش صاحب کی سعی سے جو چیف محرر مدراس تھے، کچہری کے ملازم منشیوں کے لیے ایک مدرسہ قائم ہوا کہ رات کو کچہری کے ملازم منشی انگریزی پڑھا کریں۔ ڈاکٹر امیر شاہ صاحب جو اس وقت اسسٹنٹ سرجن پنشنر ہیں، استاد مقرر ہوئے۔ مرزا صاحب نے بھی انگریزی شروع کی اورایک دو کتابیں انگریزی کی پڑھیں۔‘‘
مرزا بشیر احمد قادیانی، سیرۃ المہدی، 1: 137، روایت نمبر: 150
مرزا صاحب کا انگریزی پڑھنا یقینًاملازمت میں ترقی اور قرب شاہی کی خاطر تھا، ترقی تو مل نہ سکی مگر قرب شاہی میں بہت آگے تک پہنچ گئے۔
مرزا صاحب نے وکیل بننے کی غرض سے مختاری کا امتحان بھی دیا مگر ناکام ہو گئے۔ مرزا بشیر احمد لکھتا ہے:
’’چونکہ مرزا صاحب ملازمت کو پسند نہیں فرماتے تھے اس واسطے آپ نے مختاری کے امتحان کی تیاری شروع کر دی اور قانونی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا پر امتحان میں کامیاب نہ ہوئے اور کیوں کر ہوتے، وہ دنیوی اشغال کے لیے بنائے نہیں گئے تھے۔‘‘
مرزا بشیر احمد، سیرۃ المھدی، 1: 138؛ روایت نمبر: 150
یہ دنیاوی امتحانوں میں ناکامی مرزا صاحب کو انگریز کے در پر لے گئی اور وفاداری بشرط استواری کی بدولت دیکھتے ہی دیکھتے وہ سلطنت برطانیہ کے منظور نظربن گئے۔ قادیان کے مدعی نبوت مرزا غلام احمد کی ابتدائی زندگی سے ان کی آئندہ کی زندگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ بچپن میں چڑیوں کا شکار کرکے انہیں سرکنڈے سے ذبح کرنے والے مرزا صاحب عمر بھرسادہ لوح مسلمانوں کا شکار کر کے ان کے عقائد کو اپنے مکر و فریب کی چھری سے ذبح کرتے رہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved