اللہ جل جلالہ تمام کائنات کا خالق و مالک اور پروردگار ہے۔ اس کا نظامِ ربوبیت کائنات کے ہرہر وجود کو انتہائی سادہ اور پست ترین حالت سے اٹھا کر درجہ بدرجہ منتہائے کمال تک پہنچا رہا ہے۔ اس نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں چنانچہ اس نے اَمرِ کُنْ سے یہ بسیط و عریض کائنات اور اس کے اندر موجود مختلف جہان پیدا فرمائے۔ آسمان تخلیق کیے، ان کو بلندیاں عطا کیں۔ فضائی طبقات بنائے، انہیں وسعتیں بخشیں۔ ناپیدا کنار سمندر بنائے، انہیں تموج عطا کیا۔ پہاڑ بنائے، انہیں ہیبت و جلال سے نوازا۔ غرضیکہ ہر ذی روح اور بے روح کو وجود عطا کیا اور اس میں اپنی صفات و کمالات اور حسن وجمال کے کسی نہ کسی پہلو کا عکس اتار دیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
سَنُرِيْھمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ أَنْفُسِھِمْ حَتّٰی یَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ۔
حم السجدۃ، 41: 53
’’ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں اطرافِ عالم میں اور خود ان کی ذاتوں میں دکھا دیں گے یہاں تک کہ ان پرظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے۔‘‘
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کائناتِ پست و بالا میں ہر سو اپنے حسن و جمال کے جلوے بکھیر دیئے اور اس بزمِ ہستی کو اپنے حسنِ لازوال کا مظہر بنا دیا۔ کائنات کے ہر ہر گوشے میں اس کی صفاتِ مطلقہ کی جلوہ نمائیاں اور اس کے جمالِ جہاں آرا کی رعنائیاں دامن کش قلب و نظر ہوئیں، جب قدرتِ خداوندی نے آرائشِ عالم کا سامان کر لیا اور یہ عالم رنگ و بو ہر طرح کی حیات کے لیے ساز گار ہوگیا تو مشیتِ الٰہیہ نے چاہا کہ کسی ایسی ہستی کو خلعت وجود عطا کی جائے جس میں حسن و جمالِ ایزدی کے تمام جلوے مجتمع ہوں چنانچہ اس ارادۂ الوہیت کی تکمیل میں کارخانۂ کائنات میں انسان کو خلعتِ وجود عطا ہوئی۔ ربِ کائنات نے ارشاد فرمایا:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْ اَحْسَنِ تَقْوِيْمِo
التین، 95: 4
’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال و توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے۔‘‘
اللہ جل جلالہ نے انسان کو اس انداز سے تخلیق فرمایا کہ ساری کائنات کے جملہ مظاہرِ حسن اس کے پیکر میں سمٹ آئے۔ اس کے اندر ملائکہ کی حقیقت بھی رکھ دی گئی اور حیوانات کی حقیقت بھی۔ اسے جمادات کی حقیقت بھی عطاکر دی گئی اور نباتات کی حقیقت بھی۔ انسان کو رب کائنات نے اپنے قہروغضب کی مظہریت بھی عطا کی اور رافت و محبت کی آئینہ داری بھی۔ غرضیکہ اسے عالم پست و بالا کے جملہ محامد و محاسن کا مرقع بنا کر منصہ شہود پر جلوہ گر کیا گیا۔
تقاضائے ربوبیت کی تکمیل میں جب جملہ مظاہر حضرت انسان میں مجتمع ہو چکے تو مشیتِ ایزدی نے چاہا کہ اب عالمِ انفس و آفاق میں کسی ایسے پیکر کو خلعت وجود عطا کی جائے جو تمام اوصاف و کمالاتِ انسانیت کا جامع اور حسنِ الوہیت کے تمام مظاہر کا عکاس ہو۔ اس میں انوار و تجلیاتِ الهٰیہ اپنے پورے نکھار اور کامل شانِ مظہریت کے ساتھ جلوہ گر ہوں۔ چنانچہ اس ارادۂ ایزدی کی تکمیل میں خلاّقِ عالم نے پیکر نبوت کو وجود بخشا۔ حسن الوہیت کے تمام جلوے جو پیکرِ انسانیت میں موجود تھے، ذات ربوبیت کے مظاہر و کمالات جو مختلف طبقاتِ انسانی میں منتشر تھے وجودِ نبوت میں مجتمع کر دیئے گئے اور اس طرح پیکر نبوت مظاہر حسنِ الوہیت کا امین بن کر معرضِ وجود میں آ گیا۔ حسن و جمالِ نبوت کی مختلف شانیں حاملانِ نبوت میں درجہ بدرجہ تقسیم ہونے لگیں اس طرح کہ ہر حاملِ نبوت جداگانہ شانِ مظہریت کے ساتھ حسنِ الوہیت کی تجلیات کا گہوارہ بنا اور کائناتِ نبوت جملہ مظاہرِ ربوبیت کی امین قرار پائی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ۔
البقرہ، 2: 253
’’یہ سب رسول (جو ہم نے مبعوث فرمائے) ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔‘‘
پیکران نبوت کو ایک دوسرے پر کسی خاص فضیلت و خصوصیت کے حوالے سے فوقیت و برتری عطا ہوئی۔ کوئی کسی کمال میں یکتا ہوا تو کوئی کسی اعتبار سے ممتاز و یگانہ ہوا۔ الغرض کائناتِ نبوت جملہ محاسنِ ربوبیت اور کمالاتِ الوہیت کی جلوہ گاہ بن گئی۔
تمام پیکران نبوت و رسالت منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوگئے تو رب العالمین کی مشیت نے چاہا کہ کوئی ایسا پیکر نبوت بھی عالم میں ظہور پذیر ہو جس میں کائنات نبوت کے تمام تر محاسن اور خوبیاں جمع ہوں۔ جو حسنِ الوہیت کا مظہرِ اتم بھی ہو اور تمام کمالات و خصائصِ نبوت کا خلاصہ و مرقع بھی ہو۔ جملہ حاملانِ نبوت کو جو گونا گوں فضیلتیں اور اوصاف و کمالات حاصل ہیں اس محبوب ترین ہستی کے پیکر دلربا میں اپنے نقطۂ کمال کو پہنچے ہوئے ہوں۔ چنانچہ جب مشیت ایزدی کو یہ منظور ہوا کہ حسنِ کائناتِ نبوت اپنے اتمام کو پہنچے تو ’’ذاتِ محمدی ﷺ ‘‘ کو ظہور عطا فرما دیا۔ پیکرِ کمالاتِ نبوت وجودِ مصطفی ﷺ میں ڈھل کر سیدہ آمنہ رضی اللہ عنھا کی گود میں تشریف لے آیا۔
مبدء فیض رب ذوالجلال کا حسنِ سرمدی پھیلا توکائناتِ بسیط کو وجود ملا اور سمٹا تو وجودِ مصطفوی ﷺ ظہور قدسی کی صورت میں منصہ شہود پر جلوہ گر ہوا۔ وہ پیکر نبوت جس کا آغاز مخلوقِ انسانی کے جد اعظم حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا تھا تکمیل کی ارتقائی منزلیں طے کرتا ہوا کمالِ حسن ایزدی کی شان مظہریت کا پرتو بن کر حقیقتِ مصطفوی ﷺ کے قالب میں ڈھل گیا۔ یہاں ہم قدرے اختصار سے دیباچۂ کائنات حضرت محمد مصطفی ﷺ کی تکمیلِ نبوت تک کے ارتقائی سفر کا جائزہ لیں گے۔
ہم یہاں اجمالی طور پر اس امر کا جائزہ لیتے ہیں کہ کس طرح سلسلۂ نبوت کا حسن وجود مصطفی ﷺ میں اپنے تمام و کمال کو پہنچا۔ دیگر جتنے بھی انبیاء علیھم السلام آئے وہ ظہورِ آدم علیہ السلام سے ولادتِ مسیحں تک نسلِ انسانیت کا مرجع تھے، جبکہ حضور ﷺ سلسلۂ نبوت کا مرجع بن کر سب سے آخر میں تشریف لائے۔ ارشادِ ربانی ہے:
وَاِذْ اَخَذَ اللهُ مِيْثَاقَ النَّبِيِّيْنَ لَمَآ اٰتَيْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَةٍ ثُمَّ جَاء کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتَؤْمِنُنَّ بِهٖ وَلَتَنْصُرُنَّهٗ۔
آل عمران، 3: 81
’’اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اللہ نے انبیاء سے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول (ﷺ) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے۔‘‘
اب جہاں دنیا میں پائے جانے والے مختلف طبقاتِ انسانی کے لیے انبیاء پر ایمان لانا لازم ٹھہرا وہاں میثاقِ ازل کے مطابق قدسی صفات حاملانِ نبوت کو آپ ﷺ پر ایمان لانے کا پابند ٹھہرایا گیا۔ ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک انبیاء کو دین ملا ہے تو خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کو تکمیل دین کی نعمت عطا ہوئی۔ دیگر انبیاء کو اللہ کی بارگاہ سے نعمتِ نبوت ملی اور آپ ﷺ کو اتمامِ نعمت کی شان نصیب ہوئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُم وَاَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ۔
المائدۃ، 5: 3
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیااور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی۔‘‘
دیگر انبیاء و رسل کسی نہ کسی مخصوص انسانی گروہ، طبقے یا جماعت کی طرف مبعوث ہوئے جبکہ آپ ﷺ ابدالآباد تک جملہ کائنات انسانی کی جانب بھیجے گئے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ یٰـاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللهِ اِلَيْکُمْ جَمِيْعَا۔
الاعراف، 7: 158
’’آپ فرما دیں اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول (بن کر آیا) ہوں۔‘‘
گروهِ انبیاء کے دیگر ذی وجاہت افراد کو زمان و مکان کی حدود میں انذار ملا تو آپ ﷺ کو ان حدود سے ماوراء شانِ انذار عطا ہوئی۔ ارشاد فرمایا گیا:
تَبَارَکَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَی عَبْدِهِ لِیَکُوْنَ لِلْعَالَمِيْنَ نَذِيْرًاo
الفرقان، 25: 1
’’ (وہ اللہ) بڑی برکت والا ہے جس نے (حق و باطل میں فرق اور) فیصلہ کرنے والا (قرآن) اپنے (محبوب و مقرب) بندہ پر نازل فرمایا تا کہ وہ تمام جہانوں کے لیے ڈر سنانے والا ہو جائےo‘‘
دیگر انبیاء بلاشبہ رحمتِ حق کے مظہر تھے لیکن آپ ﷺ کو رب العزت نے سراسر اپنی رحمت قرار دیا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَo
الانبیاء، 21: 107
’’اور (اے رسول محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کرo‘‘
گویا آپ ﷺ کو صرف رحمت نہیں بلکہ سرچشمۂ رحمتِ بنا کر بھیجا گیا اور آپ ﷺ کی رحمت محدود نہیں بلکہ دنیا و عقبیٰ کو محیط ہے۔ دیگر انبیاء علیھم السلام کو خاص خطۂ زمین کی نوازشات عطا ہوئیں تو آپ ﷺ کو کائنات ارض و سما کے خزانے ارزانی فرمائے گئے۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أُعْطِيْتُ مَفَاتِيْحَ خَزَائِنِ اْلأرْضِ۔
1۔ بخاری، الصحیح، کتاب الجنائز، باب الصّلوۃ علی الشہید، 1:
451، رقم: 1279
2۔ بخاری، الصحیح، کتاب المغازی، باب أحد یجنا و نحبہ، 4: 1948، رقم: 3857
3۔ بخاری، الصحیح، کتاب الرقائق، باب ما یحذر من زہرۃ الدنیا، 5: 361، رقم: 6062
4۔ بخاری، الصحیح، کتاب الرقائق، باب فی الحوض، 5: 2408، رقم: 6218
5۔ مسلم، الصحیح، کتاب الفضائل باب اثبات حوض، 4: 1795، رقم: 2296
’’مجھے دنیا کے تمام خزانوں کی کنجیاں عطا کر دی گئی ہیں۔‘‘
وجودِ مصطفی ﷺ میں جملہ محاسن و کمالاتِ نبوت اس نقطۂ کمال تک پہنچے کہ اب قصرِ نبوت کا اور کوئی گوشہ تشنہ تکمیل نہ رہا اور نبوت کی رفیع الشان عمارت ہر لحاظ سے مکمل ہو گئی تو سلسلہ نبوت و رسالت کو ختم کر کے آپ ﷺ کے سر انور پر ختم نبوت کا تاج سجا دیا گیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ ط وَکَانَ اللهُ بِکُلِّ شَيْئٍ عَلِيْمًاo
الاحزاب، 33: 40
’’محمد (ﷺ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلہ نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہےo‘‘
حضور ر حمتِ عالم ﷺ نے اپنے خاتم النبیین ہونے کی خصوصیت کا خود اعلان فرمایا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِانْقَطَعَتْ فَـلَا رَسُوْلَ بَعْدِيْ وَلَا نَبِيَّ۔
1۔ ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب الرؤیا، باب ذھبت النبوۃ وبقیت
المبشرات، 4: 533، رقم: 2272
2۔ احمد بن حنبل، المسند، 3: 267، رقم: 13851
3۔ حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 4: 433، رقم: 8178
4۔ ابو یعلی نے ’المسند (7: 38، رقم: 3947) ‘ میں یہ حدیث مختصر الفاظ کے ساتھ روایت
کی ہے۔
5۔ ابن ابی شیبہ نے ’المصنف (6، 173، رقم: 30457) ‘ میں یہ حدیث مختصر الفاظ کے ساتھ
روایت کی ہے۔
6۔ مقدسی، الأحادیث المختارۃ، 7: 206، رقم: 6245
’’سلسلہ نبوت و رسالت منقطع ہو چکا ہے سو میرے بعد نہ کوئی رسول ہو گا اور نہ کوئی نبی۔‘‘
اپنی شانِ خاتمیت کا اظہار آقائے نامدار ﷺ نے ایک مقام پر انتہائی اچھوتے تمثیلی انداز میں اس طرح بھی فرمایا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ مَثَلِيْ وَمَثَلَ الْأَنْبِیَاء مِنْ قَبْلِي کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَی بَيْتًا، فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ إلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِیَةٍ، فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوْفُوْنَ بِهِ وَیَعْجَبُوْنَ لَهُ، وَیَقُوْلُوْنَ: ھَلَّا وُضِعَتْ ھَذِهِ اللَّبِنَةُ؟ قَالَ: فَأنَا اللَّبِنَةُ، وَأنَا خَاتِمُ النَّبِيِّيْنَ۔
1۔ بخاری، الصحیح، کتاب المناقب، باب خاتم النبیین، 3: 1300،
رقم: 3342
2۔ مسلم، الصحیح، کتاب الفضائل، باب ذکر کونہ خاتم النبیین، 6: 1790، 1791، رقم: 2286
’’بیشک میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایک ایسے شخص کی طرح ہے جس نے ایک گھر تعمیر کیا اور اسے بہت خوبصورت اور عمدہ بنایا لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ رہنے دی، لوگ اس گھر کے گرد چکر لگاتے اور اس پر خوشی کا اظہار کرتے اور کہتے یہ اینٹ کیوں نہیں لگائی گئی پس میں ہی قصرِ نبوت کی وہ آخری خشت ہوں اور میں ہی آخری نبی ہوں۔‘‘
سلسلہ انبیاء کے ختم ہونے کے بعد قصرِ نبوت کی تعمیر حبیب خدا حضرت محمد ﷺ کی بعثتِ سعیدہ کے ساتھ مکمل ہوگئی، لهٰذا اب جو کوئی دعویٰ نبوت کرے گا کذاب ہو گا۔
تاجدارِ کائنات ﷺ کی شانِ ختم نبوت کو مزید اجاگرکرنے کے لیے اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کو رفعتِ ذکر کی خلعتِ فاخرہ سے بھی نوازا، ارشاد فرمایا:
وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَo
الم نشرح، 94: 4
’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیاo‘‘
اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کے ذکر کو اتنا بلند کردیا کہ جہاں اپنا ذکر فرمایا، ساتھ ہی اپنے حبیب ﷺ کا ذکر کیا اور جہاں رسول ﷺ کا ذکر کیا وہیں اپنا ذکر فرمایا تاکہ سب کو علم ہو جائے کہ قیامت تک آنے والے زمانوں کے لیے یہی میرا آخری رسول ﷺ ہے۔ اب رہتی دنیا تک جہاں اللہ کا نام آئے گا وہیں رسولِ آخر و اعظم ﷺ کا نام آئے گا۔ قرآن مجید کی درج ذیل آیات سے ہر صاحبِ عقل و فہم کو اندازہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے نام کے ساتھ اپنے محبوب ﷺ کا ذکر فرماتا ہے اور آپ ﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت اور آپ ﷺ کی محبت کو اپنی محبت قرار دیتا ہے:
1۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِی یُحْبِبْکُمُ اللهُ۔
آل عمران، 3: 31
’’ (اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا۔‘‘
2۔ قُلْ اَطِيْعُوا اللهَ وَالرَّسُوْلَ ج فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللهَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِيْنَo
آل عمران، 3: 32
’’آپ فرما دیں کہ اللہ اور رسول (ﷺ) کی اطاعت کرو پھر اگر وہ روگردانی کریں تو اللہ کافروں کو پسند نہیں کرتاo‘‘
3۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَطِيْعُوا اللهَ وَاطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُم ج فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَيْئٍ فَرُدُّوْهُ اِلَی اللهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ۔
النساء، 4: 59
’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (ﷺ) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی، پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لیے) اللہ اور رسول (ﷺ) کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
4۔ وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللهِ۔
النساء، 4: 64
’’اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔‘‘
5۔ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللهَ۔
النساء، 4: 80
’’جس نے رسول (ﷺ) کا حکم مانا، بیشک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا۔‘‘
6۔ یَاَیُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اٰمِنُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِهٖ۔
النساء، 4: 136
’’اے ایمان والو! تم اللہ پر اور اس کے رسول (ﷺ) پر ایمان لاؤ۔‘‘
7۔ وَمَا مَنَعَھُمْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْھُمْ نَفَقٰتُھُمْ اِلَّا اَنَّھُمْ کَفَرُوْا بِاللهِ وَبِرَسُوْلِهٖ۔
التوبۃ، 9: 54
’’اور ان سے ان کے نفقات (یعنی صدقات) کے قبول کیے جانے میں کوئی (اور) چیز انہیں مانع نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے منکر ہیں۔‘‘
8۔ وَاللهُ وَرَسُوْلُهٗ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْهُ اِنْ کَانُوْا مُؤْمِنِيْنَo
التوبۃ، 9: 62
’’حالاں کہ اللہ اور اس کا رسول (ﷺ) زیادہ حقدار ہے کہ وہ اسے راضی کریں اگر یہ لوگ ایمان والے ہوتے (تو یہ حقیقت جان لیتے اور رسول ﷺ کو راضی کرتے، رسول ﷺ کے راضی ہونے سے ہی اللہ راضی ہو جاتا ہے کیوں کہ دونوں کی رضا ایک ہے) o‘‘
9۔ اَلَمْ یَعْلَمُوْا اَنَّهٗ مَنْ یُّحَادِدِ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ فَاَنَّ لَهٗ نَارَ جَھَنَّمَ خَالِدًا فِيْھَا۔
التوبہ، 9: 63
’’کیا وہ نہیں جانتے کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے تو اس کے لیے دوزخ کی آگ (مقرر) ہے جس میں وہ ہمیشہ رہنے والا ہے۔‘‘
10۔ اِنْ تَسْتَغْفِرْلَھُمْ سَبْعِيْنَ مَرَّةً فَلَنْ يَّغْفِرَ اللهُ لَھُمْ ط ذَالِکَ بِاَنَّھُمْ کَفَرُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِهٖ۔
التوبۃ، 9: 80
’’اگر آپ (اپنی طبعی شفقت اور عفو و درگزر کی عادت کریمانہ کے پیش نظر) ان کے لیے ستر مرتبہ بھی بخشش طلب کریں تو بھی اللہ انہیں ہر گز نہیں بخشے گا، یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے ساتھ کفر کیا ہے۔‘‘
11۔ وَلَا تُصَلِّ عَلٰی اَحَدٍ مِّنْھُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِهٖ ط اِنَّھُمْ کَفَرُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِهٖ وَمَاتُوْا وَھُمْ فَاسِقُوْنَo
التوبۃ، 9: 84
’’اور آپ کبھی بھی ان (منافقوں) میں سے جو کوئی مر جائے اس (کے جنازے) پر نماز نہ پڑھیں اور نہ ہی آپ اس کی قبر پر کھڑے ہوں (کیونکہ آپ کا کسی جگہ قدم رکھنا بھی رحمت و برکت کا باعث ہوتا ہے اور یہ آپ کی رحمت و برکت کے حقدار نہیں ہیں) بیشک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے ساتھ کفر کیا اور وہ نافرمان ہونے کی حالت میں ہی مر گئےo‘‘
12۔ وَمَنْ یُّطِعِ اللهَ وَرَسُوْلَهُ وَیَخْشَ اللهَ وَیَتَّقْهِ فَأُوْلٰئِکَ ھُمُ الْفَآئِزُوْنَo
النور، 24: 52
’’اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کرتا ہے اور اللہ سے ڈرتا ہے اور اس کا تقوی اختیار کرتا ہے پس ایسے ہی لوگ مراد پانے والے ہیںo‘‘
13۔ قُلْ أَطِيْعُوْا اللهَ وَأَطِيْعُوْا الرَّسُوْلَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْکُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ وَاِنْ تُطِيْعُوْهُ تَھْتَدُوْا۔
النور، 24: 54
’’فرما دیجئے تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (ﷺ) کی اطاعت کرو، پھر اگر تم نے (اطاعت) سے رو گردانی کی تو (جان لو) رسول (ﷺ) کے ذمہ وہی کچھ ہے جو ان پر لازم کیا گیا ہے اور تمہارے ذمہ وہ ہے جو تم پر لازم کیا گیا ہے، اور اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پا جاؤ گے۔‘‘
14۔ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُوْلِ اللهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ۔
الأحزاب، 33: 21
’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اللہ ( ﷺ کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂ حیات ہے۔‘‘
15۔ اِنَّ اللهَ لَعَنَ الْکٰفِرِيْنَ وَاَعَدَّ لَھُمْ سَعِيْرًاo خِٰلدِيْنَ فِيْھَا اَبَدًا ج لَا یَجِدُوْنَ وَلِیًّا وَّلَا نَصِيْرًاo یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْھُهُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَيْتَنَآ اَطَعْنَا اللهَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَاo
الأحزاب، 33: 64۔ 66
’’بیشک اللہ نے کافروں پر لعنت فرمائی ہے اور اُن کے لِئے (دوزخ کی) بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہےo جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ نہ وہ کوئی حمایتی پائیں گے اور نہ مددگارo جس دن ان کے مُنہ آتشِ دوزخ میں (بار بار) الٹائے جائیں گے (تو) وہ کہیں گے: اے کاش! ہم نے اللہ کی اطاعت کی ہوتی اور ہم نے رسول (ﷺ) کی اطاعت کی ہوتیo‘‘
16۔ یٰٓـأَیُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَطِيْعُوْا اللهَ وَاَطِيْعُوْا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْا اَعْمَالَکُمْo
محمد، 47: 33
’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کیا کرو اور رسول (ﷺ) کی اطاعت کیاکرو اور اپنے اعمال برباد مت کروo‘‘
17۔ وَمَنْ لَّمْ یُؤْمِنْ بِاللهِ وَرَسُوْلِهٖ فَاِنَّا اَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِيْنَ سَعِيْرًاo
الفتح، 48: 13
’’اور جو اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) پر ایمان نہ لائے، تو ہم نے کافروں کے لیے دوذخ تیار کر رکھی ہےo‘‘
18۔ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِهٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا۔
الحجرات، 49: 15
’’ایمان والے تو صرف وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) پر ایمان لائے، پھر شک میں نہ پڑے۔‘‘
19۔ وَمَا اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْهُ فَانْتَھُوْا۔
الحشر، 59: 7
’’اور جو کچھ رسول (ﷺ) تمہیں عطا فرمائیں سو اسے لے لیا کرو اور جس سے منع فرمائیں سو (اس سے) رک جایا کرو۔‘‘
20۔ وَمَنْ يَّعْصِ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ فَاِنَّ لَهٗ نَارَ جَھَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْھَا اَبَدًاo
الجن، 72: 23
’’اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی نافرمانی کرے تو بیشک اس کے لیے دوزخ کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گےo‘‘
ان آیات مبارکہ سے یہ حقیقت واضح ہے کہ ہر مقام پر اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کے ذکر کو جس طرح اپنے ذکر کے ساتھ یکجا کر دیا ہے اس کی غائت اولیٰ و منتہا ختم نبوت ہی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا اور حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی اور نبی نے بھی آنا ہوتا تو محبتوں اور عقیدتوں کے وہ نگینے، ادب و احترام کے وہ قرینے، اطاعت و اتباع کے وہ پیرائے اور شان و عظمت اور رفعتِ ذکر کے وہ زاویے جو صرف آپ ﷺ کے ذکر جمیل کے لیے مخصوص کیے گئے ان میں سے کچھ بعد میں آنے والے کے لیے بھی مختص کر دیئے جاتے۔ مگر اللہ رب العزت نے وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ کی ساری شانیں اپنے محبوب اولیں و آخریں کو عطا فرما دیں، بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اپنے شاہکار کو پیدا کر کے جیسے اللہ تعالیٰ کی مشیت نے گفتۂ اقبال کی یہ صورت اختیار کر لی ہو:
ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو خم بھی نہ ہو
بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
یہ تاجدار انبیاء ﷺ کی خصوصیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں آپ ﷺ کے ادب و تعظیم کے حوالے سے خصوصی احکام نازل فرمائے۔
1۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے محبوب ﷺ کی حرمت کا اس درجہ پاس تھا کہ اہلِ ایمان کو حکم فرما دیا کہ آپ ﷺ کے لیے کسی ذومعنی لفظ کے استعمال سے بھی گریز کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوْا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا ج وَلِلْکٰفِرِيْنَ عَذَابٌ اَلِيْمٌo
البقرۃ، 2: 104
’’اے ایمان والو! (نبی اکرم ﷺ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے) رَاعِنَا مت کہا کرو بلکہ (ادب سے) اُنْظُرْنَا (ہماری طرف نظر کرم فرمائیے) کہا کرو اور (ان کا ارشاد) بغور سنتے رہا کرو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہےo‘‘
2۔ اہلِ ایمان کو بارگاهِ مصطفی ﷺ کے آداب سکھائے گئے اور انہیں بطورِ انتباہ یہ وعید سنا دی گئی کہ آپ ﷺ کی موجودگی میں آواز کو بلند کرنا بھی ان کے اعمال کی بربادی کا سبب بن سکتا ہے اور ادب و احترام کی اس نزاکت کو ملحوظ خاطر رکھنے والوں کے لیے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ فرمایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰٓـاَیُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْھَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ کَجَھْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَOاِنَّ الَّذِيْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللهِ اُولٰٓئِکَ الَّذِيْنَ امْتَحَنَ اللهُ قُلُوْبَھُمْ لِلتَّقْوَیٰ ط لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِيْمٌo
الحجرات، 49: 2، 3
’’اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبیِ مکرّم (ﷺ) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہوجائیں اور تمہیں (ایمان اور اعمال کے برباد ہوجانے کا) شعور تک بھی نہ ہوo بیشک جو لوگ رسول اللہ (ﷺ) کی بارگاہ میں (ادب و نیاز کے باعث) اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے چُن کر خالص کر لیا ہے۔ ان ہی کے لیے بخشش ہے اور اجرِ عظیم ہےo‘‘
3۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس امر کی خاص تلقین فرمائی کہ نبی محتشم ﷺ کو اس طرح نہ پکارا کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَکُمْ کَدُعَآءِ بَعْضِکُمْ بَعْضاً۔
النور، 24: 63
’’ (اے مسلمانو!) تم رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی مثل قرار نہ دو (کہ کہیں اتنی بات پر بھی گرفت نہ ہو جائے، جب رسول اکرم ﷺ کو بلانا تمہارے باہمی بلاوے کی مثل نہیں تو خود رسول ﷺ کی ذات گرامی تمہاری مثل کیسے ہو سکتی ہے)۔‘‘
خیال رہے کہ اس درجہ ادب کی تعلیم پہلے جلیل القدر انبیاء میں سے کسی کے بارے میں نہیں دی گئی تھی۔ حضور نبی اکرم ﷺ چونکہ خاتم النّبیّین کے درجے پر فائز کیے گئے اس لیے بغایت درجہ ادب کا یہ پہلو بھی صرف آپ ﷺ کے لیے مختص کیا گیا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوٰۃ والسلام کی تربیت کے لیے قرآن حکیم میں حضور نبی اکرم ﷺ کو ذاتی نام سے نہیں پکارا۔ دیگر انبیاء کرام کو ان کے ذاتی نام لے کر مخاطب فرمایا جیسے یَا آدَمُ، یاَ نُوْحُ، یاَ اِبْرَاهِيْمُ، یَا مُوْسٰی، یَا عِيْسٰی، یَا دَاوٗدُ، یَا زَکَرِيَّا، یَا یَحْییٰ، مگر حضور خاتم النبیّین ﷺ کو ذاتی نام کی بجائے مختلف صفات و القاب سے مخاطب فرمایا، مثلاً یَا اَیُّھَا الْمُزَّمِّلُ، یَا اَیُّھَا الْمُدَّثِّرُ، یَا اَیُّھَا الرَّسُولُ، یَا اَیُّھَا النَّبِیُّ جیسے القاب لائے گئے جن سے بے پناہ محبت اور اپنائیت کا اظہار ہوتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی اس درجہ تعظیم و توقیر اور ادب احترام کے اہتمام سے آپ ﷺ کی شانِ خاتمیت کا اظہار ہوتا ہے۔
عقیدۂ ختم نبوت کا اثبات ایک سو سے زائد قطعی الدلالۃ آیات مبارکہ اور سینکڑوں احادیث مبارکہ سے ہوتاہے۔ یہ عقیدہ اس قدر قطعیت کے ساتھ ثابت شدہ ہے کہ اس پر مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں رہتی۔ کسی مسئلے پر قرآن کی ایک آیت ہی شک و شبہ سے بالاتر موجود ہو تو بطور نص حکم کے اعتبار سے کسی اور ثبوت کی گنجائش نہیں رہ جاتی چہ جائیکہ اتنی کثیر تعداد میں قرآنی آیات عقیدہ ٔ ختم نبوت کی تائید کرتی ہوں۔ مستزاد یہ کہ کثیر تعداد میں احادیث متواترہ نے عقیدۂ ختم نبوت کو اس قدر قطعیت کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ پورے ذخیرہ احادیث میں کسی موضوع پر اس کی مثال نہیں ملتی۔ چنانچہ عقیدۂ ختم نبوت قرآن و حدیث کی رو سے ایک متفق علیہ عقیدہ ہے جس پر پوری امت مسلمہ کا اجماع ہے۔ عہد نبوی سے لے کر آج تک تاریخ اسلام شاہد ہے کہ امتِ مسلمہ نے کبھی بھی کسی جھوٹے مدعی نبوت کو برداشت نہیں کیا۔ خلیفۂ راشد اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اوائل دور میں مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کے خلاف ہونے والی جنگِ یمامہ میں سات سو صرف حفاظِ قرآن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی جانوں کا قیمتی نذرانہ پیش کرکے عقیدۂ ختم نبوت کا دفاع کیا۔ شمعِ ختم نبوت کے پروا نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی قیادت میں سینکڑوں کی تعداد میں شہید ہو گئے مگر ختمِ نبوت کی حرمت پر حرف نہ آنے دیا۔ صحابہ کرام کی یہ عظیم قربانی امت کے لیے ایک عملی پیغام تھاکہ دعوائے نبوت کے فتنہ کی سر کوبی کے لئے اسلامی ریاست کسی بھی ممکنہ اقدام سے تامل نہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ دورِ صدیقی سے لے کر آج تک امت مسلمہ نے تحفظ ختم نبوت کی خاطر کبھی بڑی سے بڑی قربانی دینے سے دریغ نہیں کیا۔ سنت صدیقی کو زندہ رکھتے ہوئے صدیوں بعد شہرِ لاہور نے بھی تحریکِ ختم نبوت میں دس ہزار جانوں کا نذرانہ تحفظِ ختم نبوت کے لیے پیش کر دیا۔
عقیدۂ ختم نبوت کی اسی اہمیت کے پیش نظر قرآن نے دعوائے نبوت کے احتمال و امکان کا سد باب کرنے کے لیے کم و بیش ایک سو تیس مرتبہ خاتم النبیین ﷺ کی ختم نبوت کا اعلان فرمایا اور صاحب قرآن نے دو سو دس سے بھی زائد احادیث میں اپنی زبان حق ترجمان سے اس عقیدہ کی حقانیت کی گواہی دی۔ تاجدار کائنات حضرت محمد مصطفی ﷺ کی آمد سے قبل امم سابقہ خاتم الانبیاء کی آمد کا خصوصاً انتظار کیا کرتی تھیں مگر جونہی خاتم الانبیاء کی تشریف آوری ہوئی اقوام عالم کا یہ انتظار اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا۔ لیکن جیسا کہ خود مخبر صادق ﷺ نے اس امر کی پیشین گوئی فرمائی تھی کہ جھوٹے مدعیان نبوت ضرور آئیں گے اور ان کا آنا تعجب اور حیرانگی کی بات بھی نہیں بلکہ یہ تو اس فرمانِ مصطفی ﷺ کی صداقت کی دلیل ہے جس میں آپ ﷺ نے جھوٹے مدعیانِ نبوت کی پیشین گوئی فرمائی ہے۔
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
سَیَکُوْنُ فِي أُمَّتِي ثَـلَاثُوْنَ کَذَّابُوْنَ، کُلُّھُمْ یَزْعَمُ أَنهُ نَبِيٌّ، وَأَنـَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ لَانَبِيَّ بَعْدِي۔
1۔ ترمذي، السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء لا تقوم الساعۃ حتی
یخرج کذابون، 4: 499، رقم: 2219
2۔ أبو داؤد، السنن، کتاب الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن ودلائلھا، 4: 97، رقم: 4252
’’میری امت میں تیس کذاب ہوں گے جن میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘
آپ ﷺ کے اس واضح ارشاد کے بعد کہ میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں تاریخ کے کسی بھی دور میں کسی بھی جھوٹے نبی کو امت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئی اور اس نے عقیدئہ ختم نبوت کا علم مضبوطی سے تھامے رکھا۔ باطل اپنی تمام تر سازشوں، کوششوںاور تلبیسات و تاویلات کے باوجود امت مسلمہ کو اس عقیدہ سے سرِ مُو نہ ہٹا سکا۔
باطل کا ہر دور چاہے ماضی کا ہو یا حال کا مکر و فریب اور سازباز کے اعتبار سے ایک سا رہا ہے، صرف طریقہ واردات اور انداز میں فرق ہوتا ہے آج کا باطل بھی امت مسلمہ کو عقلی، لغوی اور لفظی بحثوں اور موشگافیوں میں الجھا کر اس عقیدہ سے دور ہٹانا چاہتا ہے۔ یہ ایک بدیہی امر ہے کہ عقائد کی بنیاد لغوی مباحث یا عقلی موشگافیوں پر نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات و تعلیمات یعنی قرآن و سنت کی پاسداری پر ہوتی ہے، اسی لیے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
1۔ وَأَطِيْعُوْا اللهَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَo
آل عمران، 3: 132
’’اور اللہ کی اور رسول (ﷺ) کی فرمانبرداری کرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائےo‘‘
دوسری جگہ اللہ رب العزت نے اپنے حبیب ﷺ کی اطاعت کو عین اپنی اطاعت قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
2۔ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللهَ۔
النساء، 4: 80
’’جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا۔‘‘
ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہوا:
3۔ فَـلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَھُمْ۔
النساء، 4: 65
’’پس (اے حبیب!) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنالیں۔‘‘
احادیث نبویہ کی رو سے بھی معیار دین اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری ہے۔ حضور سرور کائنات حضرت محمد مصطفی ﷺ کی اطاعت اللہ رب العزت کی اطاعت کا زینہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمانبردار اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمانبردار اور آپ ﷺ کا نافرمان اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا نافرمان ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَن أَطَاعَ مُحَمَّدًا ﷺ فَقَدْ أَطَاعَ اللهَ وَمَنْ عَصٰی مُحَمَّدًا ﷺ فَقَدْ عَصَی اللهَ۔
بخاری، الصحیح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب الإقتداء بسنن رسول اللہ ﷺ ، 6: 2655، رقم: 6852
’’جس نے محمد ﷺ کی اطاعت کی تحقیق اس نے اللہ ہی کی اطاعت کی اور جس نے محمد ﷺ کی نافرمانی کی تحقیق اس نے اللہ ہی کی نافرمانی کی۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ محبت رسول ﷺ کو تکمیل ایمان کا لازمہ قرار دیا گیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:
فَوَ الَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِهِ لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ۔
بخاری، الصحیح، کتاب الایمان، باب حب الرسول ﷺ ، 1: 14، رقم: 14
’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے والدین اور اس کی اولاد سے بڑھ کر اسے محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘
امام مسلم نے یہی روایت حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ کے ساتھ بیان کی ہے:
لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتيَّ أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ۔
1۔ مسلم، الصحیح، کتاب الإیمان، باب وجوب محبۃ رسول اللہ ﷺ
اکثر من الأھل والوالد والولد و الناس أجمعین، 1: 67، رقم: 44
2۔ نسائی، السنن، کتاب الإیمان، باب علامۃ الایمان، 8: 114، رقم: 5013
3۔ ابن حبان، الصحیح، 1: 405، رقم: 179
’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے والدین، اس کی اولاد یہاں تک ساری انسانیت سے بڑھ کر اسے محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘
اسی تصور کو اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اس شعر میں بیان کیا ہے:
بمصطفٰی برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی تمام بو لہبی ست
(خود کو بارگاہِ مصطفی ﷺ میں پہنچا دے کہ دین اسی کا نام ہے، اور اگر نہیں تو سب کچھ بو لہبی ہے دین نہیں۔)
حضور نبی اکرم ﷺ کے حکم کے آگے بلاچون و چرا سر تسلیم خم کر دینا، تمام محبتوں کو محبت و عشق رسول ﷺ پر قربان کر دینا اور عقل کو دہلیز مصطفی ﷺ پر سجدہ ریز کر دینا، یعنی عقل قربان کن بہ پیش مصطفی ﷺ کا جیتا جاگتا نمونہ بن جانا، یہی عین ایمان اور تقاضائے ختم نبوت ہے۔
اب اگر کوئی شخص بارگاهِ رسالت مآب ﷺ سے تمسک کیے بغیر براہ راست قرآن کریم سے ہدایت و رہنمائی کا طالب ہو، وہ مسلمان نہیں بلکہ منافق ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَا اَنْزَلَ اللهُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَيْتَ الْمُنَافِقِيْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًاo
النساء، 4: 61
’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ (قرآن) کی طرف اور رسول کی طرف آجاؤ تو آپ منافقوں کو دیکھیں گے کہ وہ آپ (کی طرف رجوع کرنے) سے گریزاں رہتے ہیںo‘‘
اسی تصور کو واضح کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا:
مغزِ قرآں روحِ ایماں جان دیں
ہست حُبِّ رحمۃ للَعالمیں
(قرآن، ایمان اور دین کا نچوڑ حضور رحمۃ للعالمین ﷺ کی محبت ہے۔)
ایک اور مقام پر علامہ نے حضور ﷺ کی ذات ستودہ صفات سے محبت ہی کو حاصلِ ایمان قرار دیا ہے:
نگاهِ عشق و مستی میں وہی اَوّل وہی آخر
وہی قرآن، وہی فرقاں، وہی یٰسیں، وہی طٰهٰ
خواجہ غلام فرید بارگاہ رسالت مآب ﷺ کے بارے میں اپنا عقیدہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
مینڈاں دین بھی تو تے ایمان بھی تو
مینڈاں مصحف تے قرآن بھی تو
مینڈی صوم صلوٰتاں حج زکوٰتاں
مینڈی جند بھی تو مینڈی جان بھی تو
مولانا ظفر علی خان حرمت و ناموسِ رسالت ﷺ کو اپنے ایمان کی اساس قرار دیتے ہیں اور اس پر اپنی جان کی بازی لگا دینے کو سعادت سمجھتے ہیں:
حج اچھا، نماز اچھی، روزہ اچھا، زکوٰۃ اچھی
مگر میں باوجود اس کے مسلماں ہو نہیں سکتا
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجۂ بطحا کی عزت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
دین اسلام میں ایمان اور اسلام کا مرکز و محور ذات محمدی ﷺ سے نسبت کا استحکام ہے، جبکہ آپ ﷺ کے در سے دوری اور مہجوری ذلت و خواری اور ضلالت و گمراہی ہے۔ آپ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کی وجہ ہی سے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے اور باقی انبیاء کرام کو جو معجزے انفرادی طور پر عطا کیے گئے تھے وہ سارے کے سارے آپ ﷺ کی ذات اقدس میں مجتمع کر دیے گئے۔ چنانچہ حضور ﷺ کے حسن و جمال کا یہ عالم ہے کہ حسن کائنات بلکہ حسنِ یوسف علیہ السلام بھی اس کے سامنے ماند پڑ جائے۔ جس گلی سے حضور ﷺ گزرتے، دیر تک خوشبو بہ داماں رہتی۔ آپ ﷺ کے پسینہ مبارک کو صحابہ خوشبو و عنبر کی جگہ استعمال کرتے۔ آپ ﷺ درختوں کو حکم فرماتے تو وہ اپنی جڑوں سمیت چل کر آجاتے، چاند کو اشارہ فرمایا تو اس کا سینہ شق ہو گیا، ڈوبے سورج کو حکم فرمایا تو وہ الٹے قدم واپس پلٹ آیا، کنکریوں کو حکم فرمایا تو وہ کلمہ پڑھنے لگیں، انگلیوں سے پانی کے چشمے پھوٹنے شروع ہو گئے۔ اس طرح کے بے شمار معجزے زبانِ حال سے حضور ﷺ کے اعجازِ رسالت اور ختمِ نبوت کی گواہی دیتے ہیں۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت ہے کہ وہ آپ ﷺ کے موئے مبارک کو اپنی ٹوپی میں رکھ کر جس معرکہ میں بھی شریک ہوتے فتح پاتے۔ دور و نزدیک سے سننے والے کانوں کی قوت سماعت ایسی کہ آج بھی میلوں دور بیٹھے دنیا کے کسی کونے میں پڑھتے ہوئے امتی کے درود و سلام کو سن لیں۔ خشک کنویں میں آپ ﷺ نے لعابِ دہن ڈالا تو وہ پانی سے بھر گیا، نابینا کی آنکھوں پر لعاب دہن لگایا تو اسے کھوئی ہوئی بینائی مل گئی، کٹے ہوئے بازو پر لعاب دہن لگایا تو وہ جسم کے ساتھ پیوست ہو گیا۔ حضرت ام معبد کی بکری کے خشک تھنوں کو ہاتھ لگایا تو وہ سوکھے پستان دودھ سے بھر گئے، کھارے چشمے کو فقط اشارہ کریں تو وہ میٹھا ہو جائے، کھجور کی خشک شاخ کو ہاتھ لگائیں تو وہ روشن مشعل میں تبدیل ہو جائے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے فوت شدہ بچوں کو باذن الٰہی زندہ کر دیں۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کی باہر نکلی ہوئی آنکھ ہاتھ لگانے سے جڑ جائے اور اس میں ایسی بینائی آ جائے جو پہلے نہیں تھی۔ وہ خاتم النبیین ﷺ جس کے ذکر کو خدا بلند کرے کیا اس کے بعد بھی کسی نبی کی ضرورت رہ جاتی ہے۔ ہمیں برملا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ جب انبیاء کا ہر کمالِ نبوت پیکرِ مصطفوی ﷺ میں اپنے نقطہ کمال کو پہنچ گیا تو دائرہ نبوت مکمل ہو گیا، اور آپ ﷺ ان تمام محاسن و محامد کے جامع بن گئے جو پہلے انبیاء و رسل میں فرداً فرداً موجود تھے کسی اہل دل شاعر نے کیا خوب نقشہ کھینچا ہے:
حسن یوسف، دم عیسی، ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
(حضور! آپ یوسفی حسن، عیسوی اعجازِ مسیحائی اور موسوی یدِ بیضاء رکھتے ہیں اور وہ تمام خوبیاں اور اوصاف جو حسینانِ جہاں میں موجود تھے وہ سب تنہا آپ کی ذات میں جمع کر دئیے گئے۔)
حضور نبی اکرم ﷺ کو وہ دوام و استمرار اور شان تمکن عطا ہوئی کہ آپ ﷺ نے اپنی نسبت فرمایا:
حَیَاتِيْ خَيْرٌ لَّکُمْ تُحَدِّثُوْنَ وَتُحَدَّثُ لَکُمْ وَوَفَاتِيْ خَيْرٌلَّکُمْ تُعْرَضُ عَلَيَّ أَعْمَالُکُمْ فَمَا رَأَيْتُ مِنْ خَيْرٍ حَمِدْتُ اللهَ وَمَا رَأَيْتُ مِنْ شَرٍّ اسْتَغْفَرْتُ اللهَ لَکُمْ۔
1۔ بزار، المسند، 5: 308، رقم: 1925
2۔ ہیثمي نے ’مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (9: 24) ‘ میںروایت کیا اور کہا: اسے بزار
نے روایت کیا اور اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
3۔ دیلمی نے ’الفردوس بما ثور الخطاب (1: 183، رقم: 686) ‘ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ سے یہ روایت بیان کی ہے۔
4۔ قاضی عیاض، الشفا، 1: 19
5۔ ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، 5: 275
’’میری حیات تمہارے لیے باعث خیر ہے کہ تم (مجھ سے) کلام کرتے ہو اور تم سے کلام کیا جاتا ہے اور میرا وصال تمہارے لیے باعث خیر ہے کہ تمہارے اعمال مجھ پر پیش ہوں گے پس خیر کو دیکھنے پرمیں اللہ کی تعریف کروں گا اور شر کو دیکھنے پر تمہارے لیے اللہ سے استغفار کروں گا۔‘‘
آقائے نامدار ﷺ نے اپنی امت کو خبردار کر دیا تھا کہ دیکھو میری رحلت کے بعد کہیں میرے فیضانِ نبوت کو منقطع تصور نہ کر بیٹھنا۔ فیضان رشد و ہدایت میرے وصال کے بعد بھی بدستور اسی طرح جاری رہے گا جس طرح میری ظاہری حیات میں جاری تھا۔ میری حیات بھی تمہارے لیے خیر ہے اور ممات بھی سراپا خیر ہو گی۔ بالفاظ دیگر میری عطا و بخشش کے سوتے کبھی خشک نہ ہوں گے۔ میرا چشمۂ فیض میرے وصال کے بعد بھی چمنستان امت کی آبیاری کرتا رہے گا اور میرا نورِ نبوت حجرۂ اقدس کے مزار میں منتقلی کے بعد بھی متلاشیانِ امت کے لیے ضیا پاشیاں کرتا رہے گا۔ صرف اس فرق کے ساتھ کہ پہلے میرے سراپائے حسن و جمال کو اپنے بھی دیکھتے تھے اور پرائے بھی۔ ابوبکرص و عمرص عثمان رضی اللہ عنہ و حیدر رضی اللہ عنہ بھی دیکھتے تھے اور ابولہب و ابوجہل بھی … آج بھی کوئی اُن رفقائے خاص جیسی آنکھ پیدا کر لے تو جلوہ جاناں کیا جا سکتا ہے۔ کیا یہ بات قابل غور نہیں کہ امت مسلمہ چودہ سو سال سے آقائے نامدار ﷺ کی ولادت پر خوشیاں مناتی چلی آرہی ہے لیکن کبھی آپ ﷺ کی وفات پر سوگ نہیں منایا گیا۔ اس کی حکمت و فلسفہ پر غور کریں تو سیدھی سی بات ہے کہ سوگ اس کے لیے منایا جاتا ہے جو دنیا میں آکر راہیِ ملکِ عدم ہو گیا ہو اور جو آیا ہی ہمیشہ رہنے کے لیے ہو اس کا سوگ بھلا کیونکر منایا جائے گا۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی کرم نوازی اور امت کی غم گساری کا سلسلہ آپ ﷺ کے وصال کے بعد بھی جاری و ساری ہے۔ اس حوالے سے ایک واقعہ منقول ہے جسے امام ابن قدامہ المقدسی (م 620ھ) ، امام نووی (م 677ھ) ، امام ابن کثیر (م 774ھ) اور دیگر ائمہ نے اپنی کتب میں درج کیا ہے۔ واقعہ درج ذیل ہے:
عن العتبی قال: کنت جالسا عند قبر النبی فجاء أعرابي، فقال: السلام علیک یا رسول اللہ! سمعت اللہ یقول: {وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْا اَنْفُسَھُمْ جَاءوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِيْمًاo۔ (1) } وقد جئتک مستغفرا لذنبی مستشفعا بک إلی ربي۔
(1) النسا، 4: 64
ثم أنشاء یقول:
یَا خَيْرُ مَنْ دُفِنَتْ بِالْقَاعِ أَعْظُمُهُ
فَطَابَ مِنْ طِيْبِھِنَّ الْقَاعُ وَالْأَکَمُ
نَفْسِيْ الْفِدَآء لِقَبْرٍ أَنْتَ سَاکِنُهُ
فِيْهِ الْعَفَافُ وَ فِيْهِ الْجُوْدُ وَالْکَرَمُ
ثم انصرف الأعرابي فحملتني عینی، فنمت فرأیت النبي ﷺ في النوم، فقال: یا عتبي! الحق الأعرابي، فبشرہ أن اللہ قد غفر لہ۔
1۔ ابن قدامہ، المغنی، فصل و یستحب زیارۃ قبر النبي، 3: 557
2۔ نووی، المجموع، 8: 217
3۔ نووی، الإیضاح: 498
4۔ ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1: 520
5۔ ثعالبی، جواہر الحسان فی تفسیر القرآن، 1: 386
ثعالبی کے مطابق اس واقعہ کو امام نووی نے ’حلیۃ‘ میں اور امام باجی نے ’سنن الصالحین‘ میں بیان کیا ہے۔
’’عتبی سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی قبر انور کے نزدیک بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اعرابی آیا اور عرض کیا: السّلام علیک یا رسول اللہ! میں نے یہ فرمان الٰہی سنا ہے: {اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول (ﷺ) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتےo} چنانچہ میں آپ کی خدمت میں اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور اس کے حضور آپ کی شفاعت طلب کرنے لیے حاضر ہوا ہوں۔
’’پھر وہ یہ اشعار پڑھنے لگا:
(اے ان تمام لوگوں سے بہترین ہستی جن کے اجساد میدانوں میں دفن کیے گئے ہیں اور ان کی خوشبو سے وہ میدان اور ٹیلے مہک اٹھے ہیں، میری جان اس قبر انور پر قربان جس میں آپ تشریف فرما ہیں، اس میں پارسائی ہے اور سخاوت اور کرم ہے۔)
’’پھر وہ اعرابی لوٹ گیا اور مجھ پر نیند کا غلبہ طاری ہوا اور میں سو گیا۔ میں نے خواب میں آقائے دوجہاں ﷺ کی زیارت کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے عتبی! اس اعرابی سے جا کر ملو اور اسے خوشخبری سناؤ کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی بخشش فرما دی ہے۔‘‘
اس واقعہ سے معلوم ہواکہ آقائے نامدار ﷺ کا دامنِ لطف و عطا آج بھی گنہگاروں کو سایہ رحمت عطا کر رہا ہے۔ آپ ﷺ کی نگاهِ عنایت آج بھی منتظر ہے کہ کب کوئی غم کا مارا میرے لطف و کرم کا طلب گار ہو اور میں اس کا دامن خیرات سے بھر دوں۔ آپ ﷺ کا دست جود و عطا آج بھی امت کی دستگیری کے لیے دراز ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے آقا و مولا ﷺ کے ساتھ تعلق غلامی کمزور کر چکے ہیں، وگرنہ اس صاحب جود و عطا کے لطف و کرم کے خزانے تو آج بھی اپنے گنہگار امتیوں کے لیے کھلے ہیں۔ کل روز قیامت جب ہنگامہ حشر برپا ہو گا اور ہر ایک نفسا نفسی کے عالم میں کسی سایہ عاطفت کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہو گا تو آپ ﷺ ہی کی شفاعت اپنا سایۂ رحمت عطا کرے گی اور اس کٹھن اور جاں گسل گھڑی میں ہر طرف سے مایوس انسانیت کو قیامت کی ہولناکیوں سے نجات دلائے گی۔ جس ذات کا فیضانِ لطف و کرم ہمیں قیامت کے روز بھی بے سہارا نہیں چھوڑے گا اس ذی شان و ذی احتشام ہستی کا فیضان آج ہمیں کس طرح اپنی نگاہ عنایت سے محروم کر سکتا ہے، مگر شرط یہ ہے کہ کوئی اپنا کاسۂ طلب لیے اس منبع جود و عطا کے در پر جا کر سوالی تو ہو، کوئی گنبد خضراء کے مکیں کے در پر جا کر اپنی بپتا اور درد بھری فریاد سنائے تو سہی، آج بھی آقائے دوجہاں ﷺ کا لطف و کرم بزبانِ حال پکار رہا ہے:
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے رہ رَوِ منزل ہی نہیں
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہدایتِ انسانی کے لیے سلسلۂ نبوت کا آغاز سیدنا حضرت آدم صفی اللہ علیہ السلام سے ہوا اور حضرت محمد مصطفی ﷺ پر اختتام پذیر ہوگیا، آدم علیہ السلام سے پہلے اور محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ یہی ہے وہ عقیدۂ ختم نبوت ہے جس کی بنیاد پر دین اسلام کی عظیم الشان عمارت استوار ہوئی۔ اسلام کا قلب و جگر، روح و جان اور مرکز و محور یہی عقیدہ ہے۔ اس عقیدہ میں معمولی سی کمزوری لچک یا نرمی انسان کو ایمان کے قصرِ رفیع الشان سے گرا کر کفر کے قعر مذلت میں پٹخ دیتی ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved