1. عن ابي الطفيل عن محمد نبن الحنفية قال : کنا عند علي رضي الله عنه فسأله رجل عن المهدي فقال علي رضي الله عنه : هيهات ثم عقد بيده سبعا فقال : ذاک يخرج في آخر الزمان اذا قال الرجل اﷲ اﷲ قتل فيجمع اﷲ تعالٰي له قوما قزع کقزع السحاب يؤلف اﷲ قلوبهم لا يستوحشون الي احد ولا يفرحون باحد يدخل فيهم علي عدة اصحاب بدر لم يسبقهم الاولون ولا يدرکهم الاخرون و علي عدد اصحاب طالوت الذين جاوزوا معه النهر قال ابن الحنفية : اتريده قلت : نعم قال : انه يخرج من بين هذين الخشبتين قلت لا جرم واﷲ لا اديمهما حتي اموت فمات بها يعني بمکة حرسها اﷲ تعالٰي.
قال ابو عبداﷲ الحاکم : هذا حديث صحيح علي شرط الشيخين ووافقه الذهبي
حاکم، المستدرک، 4 : 596، رقم : 8659
حضرت ابو الطفیل رضی اللہ عنہ محمد بن الحنفیہ سے روایت کرتے ہیں کہ محمد بن الحنفیہ نے کہا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ ایک شخص نے ان سے (امام) مہدی کے بارے میں پوچھا؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے (بر بنائے لطف) فرمایا۔ دور ہو، پھر ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ مہدی کا ظہور آخر زمان میں ہوگا (اور بے دینی کا اس قدر غلبہ ہوگا کہ) اللہ کے نام لینے والے کو قتل کر دیا جائے گا(ظہور مہدی کے وقت) اللہ تعالیٰ ایک جماعت کو ان کے پاس اکٹھا کر دے گا، جس طرح بادل کے متفرق ٹکڑوں کو مجتمع کر دیتا ہے اور ان میں یگانگت و الفت پیدا کر دے گا۔ یہ نہ تو کسی سے خوفزدہ ہوں گے اور نہ کسی کے انعام کو دیکھ کر خوش ہوں گے۔ (مطلب یہ ہے کہ ان کا باہمی ربط وضبط سب کے ساتھ یکساں ہوگا) خلیفہ مہدی کے پاس اکٹھا ہونے والوں کی تعداد اصحابِ بدر (غزوۂ بدر میں شریک ہونے والے صحابۂ کرام) کی تعداد کے مطابق (یعنی 313) ہوگی۔ اس جماعت کو ایک ایسی (خاص) فضیلت حاصل ہوگی جو ان سے پہلے والوں کو حاصل ہوئی ہے نہ بعد والوں کو حاصل ہوگی۔ نیز اس جماعت کی تعداد اصحابِ طالوت کی تعداد کے برابر ہوگی۔ جنہوں نے طالوت کے ہمراہ نہر (اردن) کو عبور کیا تھا۔ حضرت ابو الطفیل کہتے ہیں کہ محمد بن الحنفیہ نے مجمع سے پوچھا کیا تم اس جماعت میں شریک ہونے کا ارادہ اور خواہش رکھتے ہو، میں نے کہا ہاں توانہوں نے (کعبہ شریف کے) دو ستونوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ خلیفہ مہدی کا ظہور انہی کے درمیان ہوگا۔ اس پر حضرت ابوالطفیل نے فرمایا بخدا میں ان سے تاحیات جدا نہ ہوں گا۔ (راوی حدیث کہتے ہیں) چنانچہ حضرت ابوالطفیل کی وفات مکہ معظمہ ہی میں ہوئی۔
2. عن علي الهلالي رضي الله عنه أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال لفاطمة : ’’يا فاطمة والذي بعثني بالحق إن منهما. يعني من الحسن والحسين. مهدي هذه الأمة، إذا صارت الدنيا هرجا و مرجا و تظاهرت الفتن و تقطعت السبل و أغار بعضهم علي بعض فلا کبير يرحم صغيراً ولا صغير يوقر کبيراً بعث اﷲ عند ذلک منهما من يفتح حصون الضلالة و قلوبا غلفا، يقوم بالدين في آخر الزمان کما قمت في أول الزمان، و يملأ الأرض عدلا کما ملئت جوراً‘‘.
i. سيوطي، الحاوي للفتاویٰ، 2 : 66، 67
ii. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 57، رقم : 2675
iii. طبراني، المعجم الاوسط، 6 : 328، رقم : 6540
iv. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 165
حضرت علی الھلالی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمۃ الزھراء رضی اﷲ عنہا سے ارشاد فرمایا ’’اے فاطمہ قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا بے شک ان دونوں یعنی حسن و حسین رضی اﷲ عنہما (کی اولاد) میں سے اس امت کے مہدی پیدا ہونگے۔ جب دنیا فتنہ و فساد کا شکار ہوجائیگی اور فتنوں کا ظہور ہوگا، اور راستے کٹ جائیں گے اور لوگ ایک دوسرے پر حملہ آور ہونگے۔ کوئی بڑا چھوٹے پر رحم نہیں کرے گا اور کوئی چھوٹا بڑے کی عزت نہیں کرے گا تو اللہ رب العزت اس وقت ان دونوں (حسن و حسین کی اولاد) میں سے ایک ایسے شخص کو بھیجے گا جو گمراہی کے قلعوں کو فتح کریں گے اور بند دلوں کو کھولیں گے اس امت کے آخری زمانے میں دین کو قائم کریں گے جس طرح میں نے (اس امت کے) ابتدائی زمانے میں قائم فرمایا ہے اور وہ زمین کو عدل سے بھردیں گے جس طرح پہلے وہ ظلم سے بھری ہوگی۔
3. عن أبي سعيد الخدري رضی الله عنه : سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : ’’يخرج رجل من أهل بيتي يقول بسنتي، ينزل اﷲ له القطر من السماء، و تخرج له الأرض من برکتها، تملأ الأرض منه قسطا و عدلا کما ملئت جوراً و ظلماً، يعمل علي هذه الأمة سبع سنين، و ينزل بيت المقدس‘‘.
i. سيوطي، الحاوي للفتاویٰ، 2 : 62
ii. طبراني، المعجم الاوسط، 2 : 15، رقم : 1075
iii. هيثمي، مجمع الزوائد، 7 : 317
سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ’’میری اہل بیت میں سے ایک شخص ظاہر ہونگے جو میری سنت کی بات کریں گے، اللہ رب العزت ان کے لئے آسمان سے بارش برسائے گا اور زمین ان کیلئے اپنی برکات نکال دے گی (یعنی اپنے خزانے اگل دے گی)۔ زمین ان کے ذریعے عدل و انصاف سے بھر جائیگی جس طرح پہلے وہ ظلم و ستم سے بھری ہوگی۔ وہ اس امت پر سات سال تک حکومت کریں گے اور بیت المقدس میں نزول فرمائیں گے۔‘‘
4. عن ابي هريرة رضي الله عنه قال : ’’حدثني خليلي أبو القاسما قال : لا يقوم الساعة حتي يخرج عليهم رجل من أهل بيتي، فيضربهم حتي يرجعوا إلي الحق، قلت : و کم يملک؟ قال : خمساً و اثنين‘‘.
i. سيوطي، الحاوي للفتاویٰ، 2 : 62
ii. ابويعلي، المسند، 12 : 19، رقم : 3335
iii. هيثمي، مجمع الزوائد، 7 : 315
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا ’’مجھے میرے خلیل ابو القاسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ میری اہل بیت سے ایک شخص ظاہر نہ ہونگے جو لوگوں کا مقابلہ کریں گے حتی کہ وہ حق کی طرف رجوع کرلیں گے‘‘ میں نے عرض کی۔ وہ کتنا عرصہ بادشاہ رہیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ پانچ اور دو (یعنی سات سال)۔
5. عن جابر رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال يکون في امتي خليفة يحثي المال في الناس حثيا لا يعده عدا ثم قال والذي نفسي بيده ليعودن.
رواه البزار و رجاله رجال الصحيح.
i. حاکم، المستدرک، 4 : 501، رقم : 8400
ii. هيثمي، مجمع الزوائد، 7 : 316
iii. نعيم بن حماد، الفتن، 1 : 362، رقم : 1055
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ میری امت میں ایک خلیفہ ہوگا جو لوگوں کو مال لبالب بھربھر کے تقسیم کرے گا۔ شمار نہیں کرے گا۔ (یعنی سخاوت اور دریا دلی کی بناء پر شمار کئے بغیرکثرت سے لوگوں میں عطیات تقسیم کریں گے) اور قسم ہے اس ذاتِ پاک کی جس کی قدرت میں میری جان ہے، بالتحقیق (غلبہ اسلام کا دور) ضرور لوٹے گا (یعنی امرِ اسلام مضمحل ہو جانے کے بعد ان کے زمانہ میں پھر سے فروغ حاصل کرلے گا۔)
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved