32. عَنِ الشَّافِعِيِّ، قَالَ: مَثَلُ الَّذِي یَطْلُبُ الْعِلْمَ بِلَا حُجَّةٍ کَمَثَلِ حَاطِبِ لَیْلٍ، یَحْمِلُ حُزْمَةَ حَطَبٍ وَفِیْهِ أَفْعٰی تَلْدَغُهٗ، وَهُوَ لَا یَدْرِي.
رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ فِي الْمَدْخَلِ.
أخرجہ البیہقي في المدخل إلی السنن الکبری: 211
امام شافعی (م204ھ) نے فرمایا ہے: اس شخص کی مثال جو بلا تحقیق و بلا دلیل علم طلب کرتا ہے، رات کے وقت لکڑیاں اکٹھی کرنے والے کی طرح ہے، جو لکڑیوں کا ایسا گٹھا اٹھاتا ہے جس میں سانپ بھی ہوتاہے، جس سے وہ بے خبر ہے، اور وہ سانپ اُسے (بے خبری میں) ڈس لیتا ہے۔
اسے امام بیہقی نے اپنی کتاب ’المدخل في السنن الکبریٰ‘ میں روایت کیا ہے۔
وَعَنْهُ أَیْضًا، قَالَ: مَثَلُ الَّذِيْ یَطْلُبُ الْحَدِیْثَ بِلَا إِسْنَادٍ کَمَثَلِ حَاطِبِ لَیْلٍ.
ذَکَرَهُ السَّخَاوِيُّ.
ذکرہ السخاوي في فتح المغیث شرح ألفیۃ الحدیث للعراقي، 3: 4
امام شافعی سے ہی مروی ہے۔ وہ فرماتے ہیں: بلا اسناد حدیث طلب کرنے والے کی مثال رات کو لکڑیاں اکٹھی کرنے والے کی سی ہے۔
اسے سخاوی نے ذکر کیا ہے۔
33. رَوَی السَّخَاوِيُّ: قَالَ الإِمَامُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: إِنَّهَا لَوْ بَطَلَتِ (الإِْجَازَۃُ) لَضَاعَ الْعِلْمُ.
ذَکَرَهُ السَّخَاوِيُّ.
ذکرہ السخاوي في فتح المغیث شرح ألفیۃ الحدیث للعراقي، 2: 69
امام احمد بن حنبل نے فرمایا: اگر اجازت (سند) باطل ہو جائے تو علم ضائع ہو جائے (یعنی علم و خبر کی ثقاہت اور برکت ختم ہو جاتی ہے)۔
اسے سخاوی نے روایت کیا ہے۔
34. عَنِ ابْنِ عُیَیْنَةَ، قَالَ: إِنَّ الْحَدِیْثَ بِلَا إِسْنَادٍ لَیْسَ بِشَيْئٍ، وَإِنَّ الإِسْنَادَ دُرْجُ الْمُتُونِ، بِهٖ یُوْصَلُ إِلَیْهَا.
رَوَاهُ الْخَطِیْبُ الْبَغْدَادِيُّ.
أخرجہ الخطیب البغدادي في الکفایۃ في علم الروایۃ: 393
ابن عیینہ سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا: بلا اِسناد حدیث کی کوئی حیثیت نہیں۔ اور بے شک سند کی حیثیت متون کی سیڑھی کی ہے، اسی کے ذریعے ہی ان متون تک پہنچا جاتا ہے۔
اسے خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے۔
35. عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، قَالَ: قُلْتُ لِلشَّعْبِيِّ: أَ لَا أُحَدِّثُکَ؟ قَالَ: فَقَالَ الشَّعْبِيُّ: أَعَنِ الأَحْیَائِ تُحَدِّثُنِي أَمْ عَنِ الأَمْوَاتِ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا، بَلْ عَنِ الأَحْیَائِ۔ قَالَ: فَـلَا تُحَدِّثْنِي عَنِ الأَحْیَاءِ.
رَوَاهُ الْخَطِیْبُ الْبَغْدَادِيُّ.
أخرجہ الخطیب البغدادي في الکفایۃ في علم الروایۃ: 139
ابن عون نے شعبی سے کہا: کیا میں آپ کو حدیث بیان نہ کروں؟ امام شعبی نے کہا: کیا آپ مجھے زندوں سے مروی حدیث بیان کریں گے یا وفات پاجانے والوں سے؟ آپ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا: بلکہ زندوں سے مروی حدیث سناؤں گا۔ آپ نے کہا: زندوں سے مروی حدیث مجھے بیان نہ کرو (یعنی وہ ہمارے ہی ہم عصر ہیں، پہلوں کی روایت عالی سند کی حامل اور زیادہ ثقاہت پر مشتمل ہوگی)۔
اسے خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَةٍ عَنِ ابْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ، قَالَ: ذَاکَرْتُ الشَّافِعِيَّ یَوْمًا بِحَدِیْثٍ وَّأَنَا غُلَامٌ، فَقَالَ: مَنْ حَدَّثَکَ بِهٖ؟ فَقُلْتُ: أَنْتَ۔ فَقَالَ: مَا حَدَّثْتُکَ بِهٖ مِنْ شَيْئٍ، فَهُوَ کَمَا حَدَّثْتُکَ، وَإِیَّاکَ وَالرِّوَایَةَ عَنِ الأَحْیَائِ.
رَوَاهُ الْخَطِیْبُ الْبَغْدَادِيُّ.
أخرجہ الخطیب البغدادي في الکفایۃ في علم الروایۃ: 140
ایک روایت میں ابن عبد الحکم بیان کرتے ہیں: میں نے نوعمری میں ایک دن امام شافعی کے سامنے ایک حدیث ذکر کی۔ انہوں نے پوچھا: تمہیں یہ حدیث کس نے بیان کی ہے؟ میں نے کہا: آپ نے۔ اس پر انہوں نے فرمایا: جو چیز میں نے تمہیں بیان کی ہے وہ بالکل اسی طرح ہے جسے میں نے بیان کی ہے مگر زندوں سے روایت کرنے سے بالعموم اجتناب کیا کرو۔
اسے خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے۔
36. قَالَ الْحَاکِمُ النَّیْسَابُوْرِيُّ: فَلَوْلَا الإِسْنَادُ وَطَلَبُ هٰذِهِ الطَّائِفَةِ لَهٗ، وَکَثْرَۃُ مُوَاظَبَتِهِمْ عَلٰی حِفْظِهٖ لَدُرِسَ مَنَارُ الإِسْلَامِ، وَلَتَمَکَّنَ أَهْلُ الْإِلْحَادِ وَالْبِدَعِ فِیْهِ بِوَضْعِ الْأَحَادِیْثِ، وَقَلْبِ الْأَسَانِیْدِ۔ فَإِنَّ الْأَخْبَارَ إِذَا تَعَرَّتْ عَنْ وُجُوْدِ الْأَسَانِیْدِ فِیْهَا کَانَتْ بُتْرًا۔
ثُمَّ ذَکَرَ بِإِسْنَادِهٖ إِلٰی عُتْبَةَ بْنِ أَبِي حَکِیْمٍ الْهَمْدَانِيِّ (م147ھ)، أَنَّهٗ کَانَ عِنْدَ إِسْحَاقَ بْنِ أَبِي فَرْوَةَ، وَعِنْدَهُ الزُّهْرِيُّ، قَالَ: فَجَعَلَ ابْنُ أَبِي فَرْوَةَ یَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ، قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ. فَقَالَ لَهُ الزُّهْرِيُّ: قَاتَلَکَ اللهُ یَا ابْنَ أَبِي فَرْوَةَ، مَا أَجْرَأَکَ عَلَی اللهِ، لَا تُسْنِدُ حَدِیْثَکَ؟ تُحَدِّثُنَا بِأَحَادِیْثَ لَیْسَ لَهَا خُطُمٌ، وَلَا أَزِمَّةٌ.
قالہ الحاکم في معرفۃ علوم الحدیث: 6
امام حاکم نیشاپوری کہتے ہیں: اگر علم الاسناد نہ ہوتا، ائمہ و محدثین اسے طلب نہ کرتے اور اسناد کی حفاظت میں وہ بہت زیادہ ثابت قدمی نہ دکھاتے، تو مینارۂ اسلام منہدم ہو چکا ہوتا، اور اہلِ اِلحاد اور اہلِ بدعات یقینا احادیث وضع کرنے اور اسانید کو الٹ پلٹ کرنے پر قادر ہوجاتے۔ بے شک احادیث جب اسانید سے تہی دامن ہوں گی تو وہ اصل سے کٹی ہوئی ہوں گی۔
پھر امام حاکم نے عتبہ بن ابی حکیم الہمدانی (م147ھ) تک اپنی سند بیان کرتے ہوئے ان سے روایت کیا کہ وہ اسحاق بن ابی فروہ کے پاس تھے، اور امام زہری بھی ان کے ہاں موجود تھے۔ عتبہ بن ابی حکم بیان کرتے ہیں: ابن ابی فروہ (سند بیان کیے بغیر) کہنے لگے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ اس پر امام زہری نے انہیں کہا: اے ابن ابی فروہ! اللہ تمہیں غارت کرے، تو اللہ تعالیٰ پر کتنی جسارت کر رہا ہے (یعنی تو خوفِ خدا سے عاری ہے)، تم اپنی حدیث کی سند بیان نہیں کرتے؟ تم ہمیں ایسی احادیث بیان کرتے ہو جن کی نہ نکیل ہے نہ لگام (یعنی بغیر سند کے ہیں)۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved