اربعین: روایت حدیث میں اسناد کی اہمیت

اسناد، امت محمدیہ کی خصوصیات میں سے ہے

اَلإِسْنَادُ مِنْ خَصَائِصِ الْأُمَّةِ الْمُحَمَّدِیَّةِ

اِسناد، اُمتِ محمدیہ کی خصوصیات میں سے ہے

8. عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ بُنْدَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَاتِمٍ الرَّازِيَّ یَقُولُ: لَمْ یَکُنْ فِي أُمَّةٍ مِّنَ الأُمَمِ مُنْذُ خَلَقَ اللهُ آدَمَ أُمَنَاءُ یَحْفَظُوْنَ آثَارَ الرُّسُلِ إِلاَّ فِي هٰذِهِ الأُمَّةِ. فَقَالَ لَهٗ رَجُلٌ: یَا أَبَا حَاتِمٍ، رُبَّمَا رَوَوْا حَدِیْثًا لاَ أَصْلَ لَهٗ وَلَا یَصِحُّ. فَقَالَ: عُلَمَاؤُهُمْ یَعْرِفُوْنَ الصَّحِیْحَ مِنَ السَّقِیْمِ، فَرِوَایَتُهُمْ ذٰلِکَ لِلْمَعْرِفَةِ لِیَتَبَیَّنَ لِمَنْ بَعْدَهُمْ أَنَّهُمْ مَیَّزُوا الْآثَارَ وَحَفِظُوْهَا۔ ثُمَّ قَالَ: رَحِمَ اللهُ أَبَا زُرْعَةَ، کَانَ وَاللهِ مُجْتَهِدًا فِي حِفْظِ آثَارِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ.

رَوَاهُ الْخَطِیْبُ الْبَغْدَادِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

أخرجہ الخطیب البغدادي في شرف أصحاب الحدیث: 43، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 38: 30

قاسم بن بندار روایت کرتے ہیں: میں نے ابو حاتم رازی کو یہ بیان کرتے سنا ہے: جب سے اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا ہے، کسی امت میں اس قدر امناء (امانت دار لوگ) نہیں تھے جو رسولوں کے آثار کی حفاظت کرتے مگر امت محمدیہ میں ہیں۔ انہیں ایک آدمی نے کہا: اے ابو حاتم! شاید وہ ایسی حدیث بھی روایت کرتے ہوں جس کی نہ تو اصل ہو اور نہ ہی وہ صحیح ہو۔ اس پر آپ نے کہا: امتِ محمدی کے علماء سقیم (غیر صحیح) کے مقابلہ میں صحیح کی معرفت رکھتے ہیں، ان کا اس طرح روایت کرنا اسی معرفت کی بنیاد پر ہوتا ہے تاکہ ان کے بعد آنے والوں کے لیے یہ چیز واضح ہو جائے کہ انہوں نے آثار کو نمایاں کیا اور انہیں محفوظ کیا۔ پھر ابو حاتم رازی نے کہا: اللہ تعالیٰ ابو زُرعہ پر رحم فرمائے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے آثار و اَقوال کو حفظ کرنے میں بڑی تگ و دو کیا کرتے تھے۔

اسے خطیب بغدادی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

9. عَنْ أَبِي بَکْرٍ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ، قَالَ: بَلَغَنِي أَنَّ اللهَ خَصَّ هٰذِهِ الأُمَّةَ بِثَـلَاثِ أَشْیَاءَ، لَمْ یُعْطِهَا مِنْ قَبْلِهَا: الإِسْنَادُ، وَالأَنْسَابُ، وَالْإِعْرَابُ.

رَوَاهُ الْخَطِیْبُ الْبَغْدَادِيُّ.

أخرجہ الخطیب البغدادي في شرف أصحاب الحدیث: 40، وذکرہ السیوطي في تدریب الراوي، 2: 160، والسخاوي في فتح المغیث شرح ألفیۃ الحدیث للعراقي، 3: 3

ابو بکر محمد بن احمد سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِس امت کو تین اشیاء کے ساتھ خاص کیا ہے جو اُس نے اِس سے پہلے کسی اُمت کو عطا نہیں کیں: (1)علم الاسناد، (2) علم الانساب، اور (3) علم الاعراب۔

اسے خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے۔

رَوَی الْخَطِیْبُ الْبَغْدَادِيُّ بِإِسْنَادِهٖ إِلٰی أَبِي الْعَبَّاسِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّغُوْلِيِّ السَّرَخْسِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ حَاتِمِ بْنِ الْمُظَفَّرِ یَقُولُ: إِنَّ اللهَ أَکْرَمَ هٰذِهِ الأُمَّةَ وَشَرَّفَهَا وَفَضَّلَهَا بِالإِسْنَادِ، وَلَیْسَ لِأَحَدٍ مِنَ الأُمَمِ کُلِّهَا قَدِیْمِهِمْ وَحَدِیْثِهِمْ أَسْنَادٌ، وَإِنَّمَا هِيَ صُحُفٌ فِي أَیْدِیهِمْ وَقَدْ خَلَطُوْا بِکُتُبِهِمْ أَخْبَارَهُمْ. وَلَیْسَ عِنْدَهُمْ تَمْیِیزٌ بَیْنَ مَا نَزَلَ مِنَ التَّوْرَاةِ وَالإِنْجِیلِ مِمَّا جَائَهُمْ بِهٖ أَنْبِیَاؤُهُمْ، وَتَمْیِیزٌ بَیْنَ مَا أَلْحَقُوهُ بِکُتُبِهِمْ مِنَ الأَخْبَارِ الَّتِي أَخَذُوا عَنْ غَیْرِ الثِّقَاتِ. وَهٰذِهِ الأُمَّۃُ إِنَّمَا تَنُصُّ الْحَدِیثَ مِنَ الثِّقَةِ الْمَعْرُوفِ فِي زَمَانِهِ، الْمَشْهُورِ بِالصِّدْقِ وَالْأَمَانَةِ عَنْ مِثْلِهٖ حَتّٰی تَتَنَاهٰی أَخْبَارُهُمْ، ثُمَّ یَبْحَثُونَ أَشَدَّ الْبَحْثِ حَتّٰی یَعْرِفُوا الأَحْفَظَ فَالأَحْفَظَ، وَالأَضْبَطَ فَالأَضْبَطَ، وَالأَطْوَلَ مُجَالَسَةً لِمَنْ فَوْقَهٗ مِمَّنْ کَانَ أَقَلَّ مُجَالَسَةً.

أخرجہ الخطیب البغدادي في شرف أصحاب الحدیث: 40

خطیب بغدادی نے اپنی براهِ راست سند سے ابو العباس محمد بن عبد الرحمن دغولی السرخسی سے روایت کیا ہے، وہ بیان کرتے ہیں: میںنے محمد بن حاتم بن مظفر کو بیان کرتے سنا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے اس امت کو عزت اور شرف بخشا اور اسے علمِ اسنادکے ساتھ فضیلت عطا فرمائی۔ تمام قدیم و جدید اُمتوں میں سے کسی کے ہاں بھی علم الاسناد نہیں تھا بلکہ ان کے ہاتھوں میں صرف صحیفے ہوتے تھے جنہیں انہوں نے اپنی کتب میں اپنی مرضی کی خبروں کے ساتھ خلط ملط کر دیا تھا۔ اَہلِ کتاب کے ہاں انبیاء کرام f پر نازل ہونے والی اَصل تورات، انجیل اور دیگر کتب و صحائف میں غیر ثقہ و غیر مستند لوگوں سے لی گئی روایات میں کوئی فرق نہیں کیا جاسکتا۔ جب کہ یہ اُمت محمدیہ اَحادیث کو ایسے ثقہ راوی سے لیتی ہے جو اپنے زمانے میں معروف ہو اور جو صدق و اَمانت میں بھی مشہور ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی اِنہی جیسی صفات کے حاملین سے روایت کرنے والا ہو۔ پھر اُمتِ محمدیہ کے علماء و محدثین (کی یہ بھی صفت ہے کہ وہ اَخذ و نقلِ روایت میں) بہت زیادہ بحث و تمحیص کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ سب سے زیادہ حافظے والے، سب سے زیادہ ضبط والے اور اپنی نسبت اوپر کے علماء سے زیادہ مجالست رکھنے والے سے روایت کرتے ہیں۔

قَالَ ابْنُ الصَّلاَحِ: اَلْإِسْنَادُ خَصِیْصَةٌ فَاضِلَةٌ مِنْ خَصَائِصِ هٰذِهِ الْأُمَّةِ، وَسُنَّةٌ بَالِغَةٌ مِنَ السُّنَنِ الْمُؤَکَّدَةِ.

قالہ ابن الصلاح في المقدمۃ: 150، والسخاوي في فتح المغیث شرح ألفیۃ الحدیث للعراقي، 3: 3

امام ابن صلاح نے کہا ہے: اِسناد اس امت کے خصائص میں سے ایک فضیلت والی خصوصیت ہے اور سننِ مؤکدہ میں سے ایک بلند درجہ سنت ہے۔

قَالَ ابْنُ تَیْمِیَّةَ فِي کِتَابِهٖ ’مِنْهَاجُ السُّنَّةِ النَّبَوِیَّةِ‘: وَالإِسْنَادُ مِنْ خَصَائِصِ هٰذِهِ الأُمَّةِ وَهُوَ مِنْ خَصَائِصِ الإِسْلاَمِ، ثُمَّ هُوَ فِي الإِسْلاَمِ مِنْ خَصَائِصِ أَهْلِ السُّنَّةِ، وَالرَّافِضَۃُ مِنْ أَقَلِّ النَّاسِ عِنَایَةً إِذْ کَانُوْا لَا یُصَدِّقُوْنَ إِلاَّ بِمَا یُوَافِقُ أَهْوَائَ هُمْ وَعَلَامَۃُ کَذِبِهٖ أَنَّهٗ یُخَالِفُ هَوَاهُمْ.

قالہ ابن تیمیۃ في منہاج السنۃ النبویۃ، 7: 37

علامہ ابن تیمیہ اپنی کتاب ’منہاج السنۃ النبویۃ‘ میں کہتے ہیں: اِسناد اس امت کے خصائص میں سے ایک خصوصیت ہے اور وہ اسلام کے خصائص میں سے بھی ہے، پھر وہ اسلام میں اہل سنت کے خصائص میں سے ہے اور روافض اسناد کا سب سے کم اہتمام کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ صرف اسی حدیث کی تصدیق کرتے ہیں جو ان کی خواہشاتِ نفس کے مطابق ہو، اور اس کے جھوٹے ہونے کی علامت (ان کے نزدیک) یہ ہوتی ہے کہ وہ ان کی خواہشاتِ نفس کی مخالفت کرنے والی ہو۔

وَقَالَ أَیْضًا في الْفَتَاوٰی: وَعِلْمُ الإِسْنَادِ وَالرِّوَایَةِ مِمَّا خَصَّ اللهُ بِهٖ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ ﷺ وَجَعَلَهٗ سُلَّمًا إلَی الدِّرَایَةِ. فَأَهْلُ الْکِتَابِ لَا إِسْنَادَ لَهُمْ یَأْثُرُونَ بِهِ الْمَنْقُولَاتِ.

قالہ ابن تیمیۃ في مجموع الفتاویٰ، 1: 9

علامہ ابن تیمیہ سے ’مجموع الفتاویٰ‘ میں بھی منقول ہے: علم الاسناد اور علم الروایۃ اُن علوم میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اُمتِ محمدیہ کے ساتھ خاص فرمایا اور انہیں درایت (تحقیق و جستجو اور تدبر و تفکر) کی سیڑھی بنایا ہے۔ اِس کے برعکس اَہلِ کتاب کے ہاں اِسناد کا کوئی تصور نہیں جو ان کے منقولہ علوم کے ساتھ خاص ہو۔

قَالَ الْمُلاَّ عَلِيٌّ الْقَارِيُّ فِي ’شَرْحِ شَرْحِ نُخْبَةِ الْفِکْرِ‘: أَصْلُ الْإِسْنَادِ خَصِیصَةٌ فَاضِلَةٌ مِنْ خَصَائِصِ هٰذِهِ الأُمَّةِ، وَسُنَّةٌ بَالِغَةٌ مِنَ السُّنَنِ الْمُؤَکَّدَةِ، بَلْ مِنْ فُرُوْضِ الْکِفَایَةِ… وَطَلَبُ الْعُلُوِّ أَمْرٌ مَطْلُوْبٌ وَشَأْنٌ مَرْغُوْبٌ.

قالہ الملا علي القاري في مصطلحات أھل الأثر شرح شرح نخبۃ الفکر: 617

ملا علی قاری نے ’شرح نخبۃ الفکر‘ کی شرح ’مصطلحات أھل الأثر‘ میں لکھا ہے: سند کی اصل اس امت کے خصائص میں سے ایک فضیلت والی خصوصیت ہے، اور سنن مؤکدہ میں سے ایک بلند رتبہ سنت ہے، بلکہ فرائض کفایہ میں سے ہے … اور طلبِ علو (یعنی سندِ عالی کا طلب کرنا) اَمرِ مطلوب اور پسندیدہ شان ہے۔

قَالَ ابْنُ حِبَّانَ فِي کِتَابِ الْمَجْرُوْحِیْنَ: أَرْجُوْ أَنْ لَا یَکُوْنَ مِنْ هٰذِهِ الأُمَّةِ فِي الْجَنَّةِ أَقْرَبُ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ مِنْ هٰذِهِ الطَّائِفَةِ.

قالہ ابن حبان في کتاب المجروحین من المحدثین والضعفاء والمتروکین، 1: 89

امام ابن حبان نے ’کتاب المجروحین‘ میں کہا ہے: میں امید کرتا ہوں کہ جنت میں سب سے بڑھ کر حضور نبی اکرم ﷺ کے قرب میں گروهِ (محدّثین) کے سوا کوئی اور نہیں ہوگا۔

قَالَ ابْنُ حِبَّانَ فِي قَوْلِهٖ ﷺ: فَإِنَّهٗ مَنْ یَعِشْ مِنْکُمْ فَسَیَرَی اخْتِلَافًا فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِي؛ دَلِیْلٌ صَحِیْحٌ عَلٰی أَنَّهٗ ﷺ أَمَرَ أُمَّتَهٗ بِمَعْرِفَةِ الضُّعَفَاءِ مِنْهُمْ مِنَ الثِّقَاتِ، لِأَنَّهٗ لَا یَتَهَیَّأُ لُزُوْمُ السُّنَّةِ مَعَ مَا خَلَطَهَا مِنَ الْکَذِبِ وَالْأَبَاطِیْلِ إِلَّا بِمَعْرِفَةِ الضُّعَفَاءِ مِنَ الثِّقَاتِ، وَقَدْ عَلِمَ النَّبِيُّ ﷺ بِمَا یَکُوْنُ مِنْ ذٰلِکَ.

ذکرہ ابن حبان في المجروحین من المحدثین والضعفاء والمتروکین، 1: 10

ابن حبان نے حضور نبی اکرم ﷺ کے فرمان - تم میں سے جو زندہ رہا وہ (اُمت میں) اِختلافات دیکھے گا، لہٰذا تم پر میری سنت (کی پیروی) لازم ہے - کے بارے میں کہا ہے کہ یہ (فرمان) اس بات پر دلیلِ صحیح ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی امت کو ثقہ راویوں کے مقابلہ میں ضعیف راویوں کی پہچان کرنے کا حکم عطا فرمایا کیونکہ سنت کے ساتھ جھوٹ اور من گھڑت باتوں کا اِختلاط ہو تو سنت کے ساتھ مضبوط وابستگی ممکن نہیں سوائے اس بات کے کہ ثقہ راویوں کے مقابلہ میں کمزور راویوں کی پہچان ہوجائے۔ بے شک حضور نبی اکرم ﷺ کو ان پیش آمدہ مسائل کا علم تھا۔

10. عَنْ عَبْدِ السَّلاَمِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ أَبِي الصَّلْتِ الْهَرَوِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُوْسَی الرِّضَا، عَنْ أَبِیْهِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِیْهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَیْنِ، عَنْ أَبِیْهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضوان الله علیهم اجمعین، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: الإِیْمَانُ مَعْرِفَةٌ م بِالْقَلْبِ، وَقَوْلٌ م بِاللِّسَانِ وَعَمَلٌ م بِالْأَرْکَانِ. قَالَ أَبُوالصَّلْتِ: لَوْ قُرِئَ هٰذَا الإِسْنَادُ عَلٰی مَجْنُوْنٍ لَبَرَأَ.

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَہ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَیْهَقِيُّ نَحْوَهٗ.

أخرجہ ابن ماجہ في السنن، المقدمۃ، باب في الإیمان، 1: 25، الرقم: 65، والطبراني في المعجم الأوسط، 6: 226، الرقم: 6254، 8: 262، الرقم: 8580، والبیہقي في شعب الإیمان، 1: 47، الرقم: 16، والمروزي في تعظیم قدر الصلاۃ، 2: 742

امام عبد السلام بن صالح ابی الصلت الہروی، امام علی بن موسیٰ الرضا سے، وہ اپنے والد (امام موسیٰ الرضا) سے، وہ امام جعفر بن محمد سے، وہ اپنے والد (امام محمد الباقر) سے، وہ امام علی بن حسین سے، وہ اپنے والد (امام حسین علیہ السلام ) سے، وہ اپنے والد حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ایمان دل سے (اللہ تعالیٰ کی) معرفت پانے، زبان سے اقرار کرنے اور اعضاء سے عمل (صالح) کرنے کا نام ہے۔ (امام ابن ماجہ کے شیخ) ابوصلت الہروی فرماتے ہیں: اگر یہ سند - {عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُوْسَی الرِّضَا، عَنْ أَبِیْهِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِیْهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَیْنِ، عَنْ أَبِیْهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضوان الله علیهم اجمعین} - پڑھ کر کسی پاگل پر دم کیا جائے تو وہ ٹھیک ہوجائے گا۔

اسے امام ابن ماجہ اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور امام بیہقی نے بھی اسی طرح کی روایت بیان کی ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved