20. قَالَ الإِمَامُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: طَلَبُ الإِسْنَادِ الْعَالِي سُنَّةٌ عَمَّنْ سَلَفَ.
رَوَاهُ ابْنُ الصَّلَاحِ.
أخرجہ ابن الصلاح في علوم الحدیث: 150
امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا ہے: عالی سند کا طلب کرنا سلف صالحین کی سنت ہے۔
اسے امام ابن الصلاح نے روایت کیا ہے۔
سُئِلَ الإِمَامُ أَحْمَدُ عَنِ الرَّجُلِ یَطْلُبُ الإِسْنَادَ الْعَالِيَ؟ قَالَ: طَلَبُ الإِسْنَادِ الْعَالِي سُنَّةٌ عَمَّنْ سَلَفَ، لِأَنَّ أَصْحَابَ عَبْدِ اللهِ کَانُوْا یَرْحَلُوْنَ مِنَ الْکُوْفَةِ إِلَی الْمَدِیْنَةِ، فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْ عُمَرَ، وَیَسْمَعُوْنَ مِنْهُ.
رَوَاهُ الْخَطِیْبُ الْبَغْدَادِيُّ.
أخرجہ الخطیب البغدادي في الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع، 1: 123
امام احمد بن حنبلؒ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو عالی سند طلب کرتا ہے؟ آپ نے فرمایا: عالی سند کا طلب کرنا سلف صالحین کی سنت ہے، کیونکہ حضرت عبد اللہ کے اَصحاب کوفہ سے مدینہ کی طرف سفر کرتے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے علم حاصل کرتے اور ان سے براهِ راست احادیث کا سماع کرتے تھے۔
اسے خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے۔
21. قِیْلَ لِیَحْیَی بْنِ مَعِیْنٍ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِیْهِ: مَا تَشْتَهِي؟ قَالَ: بَیْتٌ خَالِيٌّ وَإِسْنَادٌ عَالِيٌّ.
رَوَاهُ ابْنُ الصَّلَاحِ.
ذکرہ ابن الصلاح في علوم الحدیث: 150
یحییٰ بن معین سے ان کے مرضِ وصال میں پوچھا گیا: آپ کی کیا خواہش ہے؟ تو آپ نے فرمایا: خالی گھر اور عالی سند۔
اسے امام ابن الصلاح نے روایت کیا ہے۔
22. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْلَمَ الطُّوْسِيِّ الزَّاهِدِ الْعَالِمِ، أَنَّهٗ قَالَ: قُرْبُ الإِسْنَادِ قُرْبٌ إِلَی اللهِ تعالیٰ.
رَوَاهُ ابْنُ الصَّلَاحِ.
22: ابن الصلاح في علوم الحدیث: 151، والخطیب البغدادي في الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع، 1: 123، وذکرہ الطیبي في الخلاصۃ في أصول الحدیث: 55
بہت بڑے زاہد اور عالم محمد بن اسلم الطوسی سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: سند کا قرب اللہ تعالیٰ کا قرب ہے۔
اسے امام ابن الصلاح نے روایت کیا ہے۔
وَقَالَ ابْنُ الصَّلاَحِ بَعْدَ رِوَایَةِ هٰذَا الْقَوْلِ: وَهٰذَا کَمَا قَالَ: لِأَنَّ قُرْبَ الإِسْنَادِ قُرْبٌ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، وَالْقُرْبُ إِلَیْهِ قُرْبٌ إِلَی اللهِ تعالیٰ.
قالہ ابن الصلاح في علوم الحدیث: 151، والخطیب البغدادي في الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع، 1: 123
امام ابن الصلاح اس قول کو روایت کرنے کے بعد کہتے ہیں: اوریہ اس طرح ہے کہ سند کا قرب رسول اللہ ﷺ کا قرب ہے، اور آپ ﷺ کا قرب اللہ تعالیٰ کا قرب ہے۔
23. عَنْ شُعْبَةَ، قَالَ: لاَ یَزَالُ الْعَبْدُ فِي فُسْحَةٍ مِنْ دِیْنِهٖ مَا لَمْ یَطْلُبِ الإِسْنَادَ یَعْنِي التَّعَالِيَ فِیْهِ.
رَوَاهُ الرَّامَهُرْمُزِيُّ وَالْخَطِیْبُ الْبَغْدَادِيُّ.
أخرجہ الرامہرمزي في المحدث الفاصل بین الراوي والواعي: 236، الرقم: 136، والخطیب البغدادي في الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع، 1: 124، الرقم: 122
شعبہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: بندہ اس وقت تک اپنے دین کے معاملہ میںبے راہ رَو اور غیر پختہ رہتا ہے جب تک وہ سند طلب نہیں کرتا یعنی عالی سند رکھنے والے شیخ: اُستاد سے دین حاصل نہیں کرتا۔
اسے امام رامہرمزی اور خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے۔
قَالَ الْحَاکِمُ فِي ’مَعْرِفَةِ عُلُومِ الْحَدِیْثِ‘: طَلَبُ الإِسْنَادِ الْعَالِي سُنَّةٌ صَحِیْحَةٌ.
قالہ الحاکم في معرفۃ علوم الحدیث: 5
امام حاکم نے اپنی کتاب ’معرفۃ علوم الحدیث‘ میں کہا ہے: عالی سند کو طلب کرنا سنت صحیحہ ہے۔
قَالَ الطِّیْبِيُّ فِي الْخُلَاصَةِ: اَلإِسْنَادُ خَصِیْصَةٌ مِنْ هٰذِهِ الأُمَّةِ، وَسُنَّةٌ مِنَ السُّنَنِ الْبَالِغَةِ، وَطَلَبُ الْعُلُوِّ فِیْهِ سُنَّةٌ أَیْضًا وَلِذٰلِکَ اسْتَحَبَّهُ الرَّحَلَۃُ، وَعُلُوُّهٗ بِبُعْدٍ مِنَ الْخَلَلِ وَالْمُتَطَرِّقُ إِلٰی کُلِّ رَاوٍ.
وَالْعُلُوُّ الْمَطْلُوبُ فِي الْحَدِیْثِ خَمْسَۃُ أَقْسَامٍ:
(1) أَحَدُهَا: اَلْقُرْبُ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ بِإِسْنَادٍ صَحِیْحٍ نَظِیْفٍ، کَأُحَادِیَّاتِ وَثُنَائِیَّاتِ الإِمَامِ أَبِي حَنِیْفَةَ، وَثُلاثِیَّاتِ الْبُخَارِيِّ.
(2) اَلْقُرْبُ مِنْ إِمَامٍ مِنْ أَئِمَّةِ الْحَدِیْثِ وَإِنْ کَثُرَ الْعَدَدُ مِنْهُ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ.
(3) الْعُلُوُّ بِالنِّسْبَةِ إِلٰی رَاوِیَةِ صَحِیْحِ الْبُخَارِيِّ وَمُسْلِمٍ أَوْ أَحَدِهِمَا أَوْ غَیْرِهِمَا مِنَ الْکُتُبِ الْمُعْتَمَدَةِ.
(4) الْعُلُوُّ بِتَقَدُّمِ وَفَاةِ الرَّاوِي.
(5) الْعُلُوُّ بِتَقَدُّمِ السَّمَاعِ وَکَثِیْرٌ مِنْ هٰذَا یَدْخُلُ فِي الَّذِيْ قَبْلَهٗ مِنْ حَیْثُ قُرْبِ الزَّمَانِ لَا مِنْ حَیْثُ احْتِمَالِ حَذْفِ الْوَاسِطَةِ لِأَنَّ الْاِحْتِمَالَ فِي الْوَفَاةِ أَقْوٰی وَهُوَ یَمْتَازُ بِهٖ عِنْدَمَا یَسْمَعُ شَخْصَانِ مِنْ شَیْخٍ وَسَمَاعُ أَحَدِهِمَا مِنْ سِتِّیْنَ سَنَةً مَثَلاً، وَسَمَاعُ الآخِرِ مِنَ الأَرْبَعِیْنَ. هٰذَانِ وَإِنْ تَسَاوَیَا فِي الْعَدَدِ إِلَیْهِمَا وَعَدَمِ الْوَاسِطَةِ؛ فَالأَوَّلُ أَعْلٰی.
ذکرہ الطیبي في الخلاصۃ في أصول الحدیث: 55-56
امام طیبی نے ’الخلاصۃ في أصول الحدیث‘ میں لکھا ہے: (علم) الاسناد اِس اُمت کا امتیازی وصف اور حدِ کمال کو پہنچنے والے ضابطوں میں سے ایک ضابطہ ہے۔ اِسی طرح اَعلیٰ سند کا طلب کرنا بھی ایک ضابطہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طلبِ (حدیث) میں سفر کرنے والوں (یعنی محدثین) نے اسے پسند کیا ہے۔ اِسناد کاخلل (عیب) سے پاک ہونا ہی عالی مرتبہ ہونا ہے۔ اسناد ہی کے ذریعے ہر راوی کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔
علم الحدیث میں پانچ اَقسام کے علوم مطلوب ہوتے ہیں:
(1) سند صحیح کے ساتھ رسول اللہ ﷺ سے قربِ زمانی رکھنا، جیسا کہ امام ابو حنیفہ کی اُحادیات (وہ احادیث جن میں رسولِ اکرم ﷺ تک ایک واسطہ ہو) اور ثنائیات (جن میں دو واسطے ہوں) اور امام بخاری کی ثلاثیات (جن میں تین واسطے ہوں)۔
(2) اَئمہ حدیث میں سے کسی امام کے ساتھ قربت اگرچہ رسول اللہ ﷺ تک پہنچنے میں رُواۃ کی کثیر تعداد ہو۔
(3) صحیح بخاری، صحیح مسلم یا ان دونوں میں سے کسی ایک یا ان دونوں کے علاوہ بھی دیگر معتمد کتب کی روایت میں سند کا عالی ہونا۔
(4) راوی کی وفات کے تقدم کے ذریعے علو ہونا (جیسے دو اِسناد میں رُواۃ کی تعداد برابر ہو تو ان میں سے اُسے علو حاصل ہوگا جس میں راوی کی وفات دوسرے کی نسبت پہلے ہوئی ہو)۔
(5) حدیث کے سماع میں اوّلیت و سبقت کے اِعتبار سے حدیث کا عالی مرتبہ ہونا (یعنی شیخ سے سماع کرنے میں سبقت لے جانے کے اِعتبار سے حدیث کا عالی مرتبہ ہونا)۔ اِس نوع کی زیادہ تر احادیث مذکورہ بالا قسم میں داخل ہوتی ہیں یعنی حضور نبی اکرم ﷺ سے زمانہ قریب ہونے کے اِعتبار سے نہ کہ حذفِ واسطہ کے احتمال کی بنا پر کیونکہ وفات میں اِحتمال قوی ہے (جس کی وجہ سے واسطہ کم ہوجاتا ہے)۔ یہ اُس وقت ممتاز ہوتا ہے جب دو شخص ایک ہی شیخ سے سنتے ہیں اور ان میں سے ایک کا سماع اس سے ساٹھ سال پہلے ہوا جب کہ دوسرے کا سماع ان سے چالیس سال پہلے ہو۔ دونوں اگرچہ اُس سے روایت کرنے میں عدد کے اِعتبار سے مساوی ہیں اور اُن کے درمیان کوئی واسطہ بھی نہیں ہے، تاہم (ان دونوں میں سے) پہلے والا اَعلیٰ (یعنی اس کی سند عالی) ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved