اربعین: محبت حسنین کریمین علیھما السلام

الآیات القرآنیۃ و الاحادیث النبویۃ

اَلْقُرْآن

  1. اِنَّمَا يُرِيْدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِرَکُمْ تَطْهِيْرًاo

(الأحزاب، 33/ 33)

بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔

  1. قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی.

(الشوری، 42/ 23)

فرما دیجیے: میں اِس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (میری) قرابت (اور  اللہ  کی قربت) سے محبت (چاہتا ہوں)۔

اَلْحَدِيْثُ

  1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ الدَّوْسِيِّ رضی الله عنه، قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي طَائِفَةِ النَّهَارِ، لَا يُکَلِّمُنِي وَلَا أُکَلِّمُهُ، حَتّٰی أَتٰی سُوْقَ بَنِي قَيْنُقَاعَ، فَجَلَسَ بِفِنَاءِ بَيْتِ فَاطِمَةَ، ... فَجَائَ يَشْتَدُّ حَتّٰی عَانَقَهُ وَقَبَّلَهُ، وَقَالَ: اَللّٰهُمَّ أَحِبَّهُ وَأَحِبَّ مَنْ يُحِبُّهُ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب البيوع، باب ما ذکر في الأسواق، 2/ 747، الرقم/ 2016، و مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة رضوان الله عليهم اجمعين، باب فضائل الحسن والحسين عليهما السلام، 4/ 1882، الرقم/ 2421.

حضرت ابو ہریرہ الدوسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا: دن کے کسی حصے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے، نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے کوئی بات کی اور نہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قینقاع بازار میں جا پہنچے اور حضرت فاطمہ علیھا السلام کے گھر کے صحن میں بیٹھ گئے (اور شہزادے حضرت حسن رضی اللہ عنہ یا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بلانے لگے) ۔۔۔ اتنے میں شہزادے دوڑتے ہوئے آگئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہزادے کو سینے سے لگا لیا اور بوسہ دیا نیز فرمایا: اے اللہ! تو اس سے محبت فرما اور جو اس سے محبت کرے اس سے بھی محبت فرما۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

  1. عَنِ الْبَرَاءِ رضی الله عنه، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ عَلٰی عَاتِقِهِ، يَقُوْلُ: اَللّٰهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسين، عليهما السلام، 3/ 1370، الرقم/ 3539، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة رضوان الله عليهم اجمعين، باب فضائل الحسن والحسين عليهما السلام، 4/ 1883، الرقم/ 2422، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسين 5/ 661، الرقم/ 3783، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 292، الرقم/ 18600، وأيضًا في فضائل الصحابة، 2/ 768، الرقم/ 1353.

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: انہوں نے فرمایا: میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا جبکہ حضرت حسن بن علی علیھما السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوش مبارک پر تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے: اے اللہ! میں اس سے محبت رکھتا ہوں، تو بھی اس سے محبت فرما۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

  1. عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: کُنْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي سُوْقٍ مِنْ أَسْوَاقِ الْمَدِيْنَةِ، فَانْصَرَفَ فَانْصَرَفْتُ، فَقَالَ: أَيْنَ لُکَعُ - ثَـلَاثًا - ادْعُ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ. فَقَامَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ يَمْشِي وَفِي عُنُقِهِ السِّخَابُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِيَدِهِ هٰکَذَا، فَقَالَ الْحَسَنُ بِيَدِهِ هٰکَذَا، فَالْتَزَمَهُ فَقَالَ: اللّٰهُمَّ، إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ وَأَحِبَّ مَنْ يُحِبُّهُ.

وَقَالَ أَبُوْ هُرَيْرَةَ رضی الله عنه: فَمَا کَانَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ عليهما السلام، بَعْدَ مَا قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم مَا قَالَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب اللباس، باب السخاب للصبيان، 5/ 2207، الرقم/ 5545.

حضرت نافع بن جبیر سے مروی ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں مدینہ منورہ کے بازاروں میں سے ایک بازار میں رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس لوٹے اور میں بھی (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ) واپس لوٹا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ننھا منا کہاں ہے؟ یہ کلمات تین مرتبہ دہرائے کہ حسن بن علی علیھما السلام کو بلاؤ چنانچہ حسن بن علی علیھما السلام کھڑے ہوئے اور چل پڑے اور ان کی گردن میں سخاب (ایک قسم کا ہار) تھا۔ (انہیں دیکھ کر) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بازو مبارک اس طرح پھیلا دیئے ایسے میں امام حسن رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے بازو اس طرح پھیلا دیئے توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنے سینہ مبارک سے لگا کر فرمایا: اے  اللہ ! میں اس سے محبت کرتا ہوں، تو بھی اس سے محبت فرما اور اُس سے بھی محبت فرما جو اِس سے محبت کرتا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس وقت سے حسن بن علی علیھما السلام سے بڑھ کر کوئی اور مجھے پیارا نہیں ہے جب سے رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے متعلق یہ ارشاد فرمایا تھا۔

اِسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ عليهما السلام، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، أَنَّهُ کَانَ يَأْخُذُهُ وَالْحَسَنَ وَيَقُوْلُ: اَللّٰهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا، أَوْ کَمَا قَالَ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسين عليهما السلام، 3/ 1369، الرقم/ 3537، وأيضًا في باب ذکر أسامة بن زيد عليهما السلام، 3/ 1366، الرقم/ 3528، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 210، الرقم/ 21877، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 1/ 326، الرقم/ 449، وابن فتوح في الجمع بين الصحيحين، 3/ 344، الرقم/ 2808.

حضرت اُسامہ بن زید علیھما السلام، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اور امام حسن کو اُٹھایا ہوا تھا اور فرما رہے تھے: اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں، تو بھی ان دونوں سے محبت رکھ یا اسی طرح کے الفاظ ارشاد فرمائے۔

اِسے امام بخاری، اَحمد اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، أَنَّهُ قَالَ لِحَسَنٍ: اَللّٰهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ، فَأَحِبَّهُ وَأَحْبِبْ مَنْ يُحِبُّهُ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَه وَلَفْظُهُ: قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم لِلْحَسَنِ: اَللّٰهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ وَأَحِبَّ مَنْ يُحِبُّهُ، قَالَ: وَضَمَّهُ إِلٰی صَدْرِهِ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة رضوان الله عليهم اجمعين، باب فضائل الحسن والحسين عليهما السلام، 4/ 1882، الرقم/ 2421، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 249، الرقم/ 7392، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فضل الحسن والحسين ابني علي بن أبي طالب 1/ 51، الرقم/ 142، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 233، الرقم/ 20862، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 13/ 189.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں: بے شک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں، تو بھی اس سے محبت فرما اور جو اس سے محبت رکھے اس سے بھی محبت فرما۔

اِسے امام مسلم، اَحمد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ ابن ماجہ کے الفاظ یہ ہیں: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن کے لیے ( اللہ  تعالیٰ کی بارگاہ میں) عرض کیا: اے اللہ! میں اس سے محبت رکھتا ہوں تو بھی اس سے محبت رکھ اور جو اس سے محبت رکھے اس سے بھی محبت فرما۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو اپنے سینے سے لگا لیا۔

  1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: خَرَجَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم إِلٰی سُوْقِ بَنِي قَيْنُقَاعَ مُتَّکِئًا عَلٰی يَدِي، فَطَافَ فِيْهَا ثُمَّ رَجَعَ فَاحْتَبٰی فِي الْمَسْجِدِ، وَقَالَ: أَيْنَ لَکَاعٌ؟ ادْعُوْا لِي لَکَاعًا. فَجَاءَ الْحَسَنُ عليه السلام فَاشْتَدَّ حَتّٰی وَثَبَ فِي حَبْوَتِهِ فَأَدْخَلَ فَمَهُ فِي فَمِهِ، ثُمَّ قَالَ: اللّٰهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ وَأَحِبَّ مَنْ يُحِبُّهُ... ثَـلَاثًا...قَالَ أَبُوْ هُرَيْرَةَ رضي الله عنه: مَا رَأَيْتُ الْحَسَنَ إِلَّا فَاضَتْ عَيْنِي أَوْ دَمَعَتْ عَيْنِي أَوْ بَکَتْ، شَکَّ الْخَيَاطُ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 532، الرقم/ 10904، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 2/ 35، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 13/ 192-193، وابن حجر الهيتمي في الصواعق المحرقة، 2/ 406، والهندي في کنز العمال، 13/ 279، الرقم/ 37645، والمحب الطبري في ذخائر العقبی/ 122.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنو قینقاع کے بازار کی طرف میرے ہاتھ کا سہارا لیتے ہوئے تشریف لے گئے، وہاں کا چکر لگا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس گھر تشریف لے آئے اور مسجد میں تشریف فرما ہو گئے اور فرمایا: میرا شہزادہ کہاں ہے؟ میرے شہزادے کو میرے لیے بلاؤ تو حضرت حسن علیہ السلام آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے شہزادے پر بہت زیادہ پیار آیا یہاں تک کہ بیٹھے بیٹھے جھپٹ کر ان کو پکڑ لیا اور دہن مبارک ان کے منہ میں رکھ دیا پھر فرمایا: اے اللہ! میں اس سے پیار کرتا ہوں تو بھی اس سے پیار کر اور اس سے بھی پیار کر جو اس سے پیار کرتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ یوں فرمایا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے: میں جب بھی حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھتا تو میری آنکھ بہہ پڑتی یا آنسو بہاتی یا رو پڑتی (راوی) خیاط کو ان الفاظ میں شک گزرا ہے۔

اِسے امام احمد، ابو نعیم اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ زُهَيْرِ بْنِ الْأَقْمَرِ قَالَ: بَيْنَمَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ عليهما السلام يَخْطُبُ بَعْدَمَا قُتِلَ عَلِيٌّ رضي الله عنه إِذْ قَامَ رَجُلٌ مِنَ الْأَزْدِ آدَمُ طُوَالٌ، فَقَالَ: لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَاضِعَهُ فِي حَبْوَتِهِ يَقُوْلُ: مَنْ أَحَبَّنِي فَلْيُحِبَّهُ، فَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ وَلَوْلَا عَزْمَهُ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم مَا حَدَّثْتُکُمْ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 366، الرقم/ 23155، وأيضًا في فضائل الصحابة، 2/ 780، الرقم/ 1387، وابن أبي شيبة في المصنف، 6/ 379، الرقم/ 32188، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 13/ 197، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9/ 176، والمزي في تهذيب الکمال، 6/ 228، والعسقلاني في الإصابة، 2/ 71.

زہیر بن اقمر بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت حسن بن علی علیھما السلام حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد خطاب فرما رہے تھے تو قبیلہ ازد کا ایک گندمی رنگ کا طویل القامت شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا: میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو اپنی گود میں رکھا ہوا تھا اور فرما رہے تھے: جو مجھ سے محبت کرتا ہے اس کو چاہیے کہ وہ اس سے بھی محبت کرے اور جو یہاں موجود ہے وہ غائب کو بتا دے، اور اگر رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حق واجب نہ ہوتا تو میں تمہیں کبھی یہ بات نہ بتاتا۔

اِسے امام احمد، ابن ابی شیبہ اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَيَةٍ عَنْهُ: قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: مَنْ أَحَبَّنِي فَلْيُحِبَّ هٰذَا الَّذِي عَلَی الْمِنْبَرِ، فَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ وَلَوْلَا دَعْوَهُ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم مَا حَدَّثْتُ أَحَدًا.

رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ.

أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 13/ 197.

اور زہیر بن اقمر ہی بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو مجھ سے محبت کرتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اس سے بھی محبت کرے جو اس منبر پر ہے (یعنی حضرت حسن علیہ السلام جو اس وقت منبر پر خطاب فرما رہے تھے)، پس جو حاضر ہے وہ غائب کو بتا دے اور اگر یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان نہ ہوتا تو میں کسی کو یہ حدیث بیان نہ کرتا۔

اسے امام ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: مَا رَأَيْتُ حَسَنًا رضي الله عنه قَطُّ إِلَّا دَمَعَتْ عَيْنِي، جَلَسَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي الْمَسْجِدِ وَأَنَا مَعَهُ، فَقَالَ: ادْعُوْا لِي لُکَع أَوْ أَيْنَ لُکَعٌ؟ فَجَاءَ الْحَسَنُ يَشْتَدُّ حَتّٰی أَدْخَلَ يَدَيْهِ فِي لِحْيَةِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ۔ فَوَضَعَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَمَهُ عَلٰی فَمِهِ أَوْ فَمَهُ عَلٰی فِيْهِ، ثُمَّ قَالَ: اَللّٰهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّ مَنْ يُحِبُّهُ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

  1. اللکع: قال ابن حجر في فتح الباري: قال الخطابي: اللکع علی معنيين أحدهما الصغير والآخر اللئيم والمراد هنا الأول. (العسقلاني في فتح الباري، 4/ 341)
  2. أخرجه أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2/ 788، الرقم/ 1407، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 13/ 192، وذکره الهندي في کنز العمال، 13/ 279، الرقم/ 37645.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں جب بھی حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھتا تو میری آنکھ اشک بار ہو جاتی، حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے لیے میرے شہزادے کو پکارو یا میرا شہزادہ کہاں ہے؟ تو حضرت حسن علیہ السلام بڑی مشکل سے لڑکھڑاتے ہوئے آئے، حتیٰ کہ آ کر اپنے (ننھے ننھے) ہاتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک میں داخل کر دیئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا منہ مبارک ان کے منہ پر یا منہ میں رکھ دیا اور فرمایا: اے اللہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما جو اس سے محبت کرتا ہے۔

اِسے امام احمد اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها: أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَأْخُذُ حَسَنًا فَيَضُمُّهُ إِلَيْهِ، فَيَقُوْلُ: اَللّٰهُمَّ إِنَّ هٰذَا ابْنِي فَأَحِبَّهُ، وَأَحِبَّ مَنْ يُحِبُّهُ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3/ 32، الرقم/ 2585، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 13/ 197، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9/ 176، وذکره الهندي في کنز العمال، 13/ 281، الرقم/ 37656.

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حسن رضی اللہ عنہکو پکڑتے اور اپنے سینے کے ساتھ لگا لیتے، اور فرماتے: اے  اللہ ! بے شک یہ میرا بیٹا ہے، تو اِس سے محبت فرما، اور اُس سے بھی محبت فرما جو اِس سے محبت کرے۔

اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عليهما السلام قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: {قُلْ لاَّ أَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلاَّ الْمََوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰی} (الشوری، 42/ 23)، قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، وَمَنْ قَرَابَتُکَ هٰؤُلَائِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ عَلَيْنَا مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ: عَلِيٌّ وَفَاطِمَهُ وَابْنَاهُمَا.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ مِنْ رِوَيَةِ حَرْبِ بْنِ الْحَسَنِ الطَّحَّانِ عَنْ حُسَيْنٍ الْأَشْقَرِ عَنْ قَيْسِ بْنِ الرَّبِيْعِ وَقَدْ وُثِّقُوْا کُلُّهُمْ وَضَعَّفَهُمْ جَمَاعَةٌ، وَبَقِيَهُ رِجَالِهِ ثِقَاتٌ.

وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ: هٰذَا الْحَدِيْثُ الصَّحِيْحُ. وَالْمَعْنٰی إِلاَّ أَنْ تَوَدُّوْنِي لِقَرَابَتِي فَتَحْفَظُوْنِي، وَالْخِطَابُ لِقُرَيْشٍ خَاصَّةً، وَالْقُرْبٰی قَرَابَةَ الْعُصُوْبَةِ وَالرَّحِمِ، فَکَأَنَّهُ قَالَ: احْفَظُوْنِي لِلْقَرَابَةِ إِنْ لَمْ تَتَّبِعُوْنِي لِلنُّبُوَّةِ.

أخرجه أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2/ 669، الرقم/ 1141، والطبراني في المعجم الکبير، 3/ 47، الرقم/ 2641، وأيضًا في، 11/ 444، الرقم/ 12259، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 7/ 103، وأيضًا في، 9/ 168، والعسقلاني في فتح الباري، 8/ 564، والزيلعي في تخريج الأحاديث والآثار، 3/ 234، الرقم/ 1143، وابن حجر الهيتمي في الصواعق المحرقة، 2/ 487، وقال: وفي سنده شيعي غال لکنه صدوق، ومحب الدين في ذخائر العقبی/ 25.

حضرت (عبد  اللہ ) بن عباس علیھما السلام سے مروی ہے: جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی: {قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی} ’فرما دیجیے: میں اِس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (میری) قرابت (اور  اللہ  کی قربت) سے محبت (چاہتا ہوں)۔‘ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول  اللہ ! آپ کی قرابت والے یہ لوگ کون ہیں جن کی محبت ہم پر واجب کی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی، فاطمہ اور ان کے دونوں بیٹے (حسن اور حسین)۔

اِسے امام اَحمد اور طبرانی نے مذکورہ الفاظ سے روایت کیا ہے۔ امام عسقلانی فرماتے ہیں: یہ صحیح حدیث ہے، اور اس کا معنیٰ یہ ہے کہ میں تم سے نہیں سوال کرتا مگر تم مجھ سے محبت کرو، میری قرابت کی وجہ سے (ان کے بارے میں) میرا لحاظ کرنا۔ آپ کا یہ خطاب قریش کے ساتھ خاص ہے اور قُربٰی سے مراد گروہی قرابت اور صلہ رحمی کی قرابت ہے۔ گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے(قریش سے) فرمایا: قرابت کی بناء پر ہی میرا لحاظ کرنا اگرچہ نبوت کی بناء پر تم میری پیروی نہیں کرتے۔

  1. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عليهما السلام قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: أَحِبُّوا اللهَ لِمَا يَغْذُوْکُمْ مِنْ نِعَمِهِ، وَأَحِبُّوْنِي بِحُبِّ اللهِ، وَأَحِبُّوْا أَهْلَ بَيْتِي لِحُبِّي.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالآجُرِيُّ.

وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ غَرِيْبٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

أخرجه أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2/ 986، الرقم/ 1952، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب أهل بيت النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5/ 664، الرقم/ 3789، والحاکم في المستدرک، 3/ 162، الرقم/ 4716، والطبراني في المعجم الکبير، 3/ 46، الرقم/ 2639، وأيضًا في، 10/ 281، الرقم/ 10664، والآجري في کتاب الشريعة، 5/ 2277-2278، الرقم/ 1760- 1761، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 3/ 211، والبيهقي في شعب الإيمان، 1/ 366، الرقم/ 408، وأيضًا في الاعتقاد/ 328، وابن تيمية في مجموع الفتاوی، 10/ 649.

حضرت (عبد  اللہ ) بن عباس علیھما السلام سے مروی ہے: رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے محبت کرو کہ وہ تمہیں نعمتوں سے غذا عطا فرماتا ہے۔ مجھ سے اللہ تعالیٰ کی محبت کی خاطر محبت کرو اور میرے اہل بیت سے میری محبت کی خاطر محبت کرو۔

اِسے امام ترمذی، احمد، حاکم، طبرانی اور آجری نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اس حدیث کی اسناد صحیح ہے۔

  1. عَنْ يَعْلَی الْعَامِرِيِّ رضي الله عنه، (1) أَنَّهُ خَرَجَ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم إِلٰی طَعَامٍ دُعُوْا لَهُ قَالَ: فَاسْتَمْثَلَ (2) رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم - قَالَ عَفَّانُ: قَالَ وُهَيْبٌ: فَاسْتَقْبَلَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم - أَمَامَ الْقَوْمِ، وَحُسَيْنٌ مَعَ غِلْمَانٍ يَلْعَبُ، فَأَرَادَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنْ يَأْخُذَهُ. قَالَ: فَطَفِقَ (3) الصَّبِيُّ يَفِرُّ هٰهُنَا مَرَّةً، وَهٰهُنَا مَرَّةً، فَجَعَلَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يُضَاحِکُهُ حَتّٰی أَخَذَهُ، قَالَ: فَوَضَعَ إِحْدٰی يَدَيْهِ تَحْتَ قَفَاهُ، وَالْأُخْرٰی تَحْتَ ذَقْنِهِ، فَوَضَعَ فَاهُ عَلٰی فِيْهِ، فَقَبَّلَهُ وَقَالَ: حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ، أَحَبَّ اللهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا، حُسَيْنٌ سِبْطٌ (4) مِنَ الْأَسْبَاطِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ بِاخْتِصَارٍ وَابْنُ مَاجَه وَابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ، وَفِي بَعْضِ النُّسَخِ حَسَنٌ صَحِيْحٌ کَمَا قَالَ النَّوَوِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: إِسْنَادُهُ حَسَنٌ. وَقَالَ الْکِنَانِيُّ: هٰذَا إِسْنَادٌ حَسَنٌ رِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

  1. يعلی بن مُرَّة الثقفي له صحبة، قال يحيی: کنيته أبو المرازم. (البخاري في التاريخ الکبير، 8/ 414، الرقم/ 3536)
  2. استمثل: انتصب قائمًا. (النهاية)
  3. طفق يفعل الشيء: أخذ في فعله واستمر فيه.(النهاية)

السَّبط: الشَّجَرَهُ لها أَغْصانٌ کَثيرَةٌ وأَصْلُها واحِدٌ. قالَ: ومِنْهُ اشْتِقاقُ الأَسْباطِ کأَنَّ الوالِدَ بمَنْزِلَة الشَّجَرَةِ والأَوْلادَ بمَنْزِلَة أَغْصانِها والسِّبْطُ بالکَسْرِ وَلَدُ الوَلَدِ وفي المُحْکَمِ وَلَدُ الابنِ والابْنَةِ وفي الحَديث الحَسَنُ والحُسَيْنُ سِبْطا رَسُولِ  اللہ  صلی الله عليه وآله وسلم، ورضي  اللہ  عنهما.

والسِّبْطُ: القَبيلَهُ من اليَهودِ وهُمُ الذين يَرْجِعونَ إِلَی أَبٍ واحِدٍ سُمِّيَ سِبْطاً لِيُفْرَقَ بَيْنَ وَلَدِ إسماعيلَ ووَلَدِ إسحاق، أَسْباطٌ وقالَ أَبُو العبّاسِ: سأَلْتُ ابن الأَعْرَابِيّ: مَا مَعْنَی السِّبْطِ في کلامِ العَرَب؟ قالَ: السِّبْطُ والسِّبْطانُ والأَسْباطُ خاصَّهُ الأَوْلادِ والمُصاصُ مِنْهُم.

وقالَ الأزْهَرِيُّ: الأَسْباطُ في بَني إسحاقَ بمَنْزِلَة القبائِلِ في بَني إسماعيلَ صَلَوات  اللہ  عليهما يُقَالُ: سُمُّوا بذلک ليُفْصَلَ بَيْنَ أَوْلادِهما.

ولَفْظُه: {حُسَيْنٌ سِبْطٌ من الأَسْباطِ مَنْ أَحَبَّنِي فَلْيُحِبَّ حُسَيْناً} قالَ أَبُو بَکْرٍ: أَيةأُمَّةٌ من الأُمَم في الخَيْر فهو واقِعٌ عَلَی الأُمَّةِ والأُمَّهُ واقِعَةٌ عَلَيْهِ.

(تاج العروس، 19/ 329-331)

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4/ 172، الرقم/ 17597، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسين d، 5/ 658، الرقم/ 3775، وقال الألباني: صحيح، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فضل الحسن والحسين ابني علي بن أبي طالب 1/ 51، الرقم/ 144، وقال الألباني: حسن، وابن حبان في الصحيح، 15/ 427، الرقم/ 6971، وابن أبي شيبة في المصنف، 6/ 380، الرقم/ 32196، وأيضًا في المسند، 2/ 307، الرقم/ 807، وإسناده حسن، والحاکم في المستدرک، 3/ 194، الرقم/ 4820، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 9/ 181، والکناني في مصباح الزجاجة، 1/ 22، الرقم/ 53، وذکره الألباني في السلسلة الصحيحة، 3/ 229، الرقم/ 1227.

حضرت یعلی عامری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ ایک دعوت پر کھانے کے لیے تشریف لے گئے، رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (ایک جگہ) ٹھہر گئے۔ عفان کہتے ہیں: وہیب نے کہا: رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے سامنے رک گئے، اور (دیکھا) حضرت حسین رضی اللہ عنہ وہاں بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے، تو رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں پکڑنا چاہا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ بچے نے اِدھر اُدھر بھاگنا شروع کردیا، رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں ہنسانے لگے یہاں تک کہ انہیں پکڑلیا اور اپنا ایک ہاتھ ان کی گردن کے نیچے اور دوسرا ان کی ٹھوڑی کے نیچے رکھا، اور اپنا منہ مبارک ان کے منہ پر رکھ کر بوسہ دیا، اور فرمایا: حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں،  اللہ تعالیٰ اُس سے محبت رکھتا ہے جو حسین سے محبت رکھتا ہے، حسین امتوں میں سے ایک امت ہے۔ (نواسوں میں سے ایک نواسہ ہیں۔)

اِسے امام اَحمد نے، ترمذی نے مختصراً، ابن ماجہ، ابن حبان اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔ جبکہ بعض نسخوں میں حسن صحیح بھی فرمایا جیسے کہ امام نووی نے بھی ذکر کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اس کی سند حسن ہے۔ امام کنانی نے فرمایا: اس کی سند حسن اور رجال ثقہ ہیں۔

وَفِي رِوَيَة: ثُمَّ اعْتَنَقَهُ فَقَبَّلَهُ، وَقَالَ: حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ، أَحَبَّ اللهُ مَنْ أَحَبَّ الْحَسَنَيْنَ، الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سِبْطَانِ مِنَ الأَسْبَاطِ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ وَابْنُ أَبِي الدُّنْيَا وَالْفَسَوِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ کُلُّهُمْ بِسَنَدٍ حَسَنٍ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: إِسْنَادُهُ حَسَنٌ.

أخرجه البخاري في التاريخ الکبير، 8/ 414، الرقم/ 3536، وأيضًا في الأدب المفرد/ 133، الرقم/ 364، وقال الألباني: حسن، وابن أبي الدنيا في العيال/ 386، الرقم/ 221، والطبراني في المعجم الکبير، 3/ 32، الرقم/ 2586، وأيضًا في، 22/ 274، الرقم/ 702، وأيضًا في مسند الشاميين، 3/ 184، الرقم/ 2043، والفسوي في المعرفة والتاريخ، 1/ 139، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 14/ 150، وذکره ابن کثير في البداية والنهاية، 8/ 206، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9/ 181، وابن حجر الهيتمي في الصواعق المحرقة، 2/ 562.

ایک روایت میں ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے بغلگیر ہو گئے، اور ان کو بوسہ دیا، اور فرمایا: حسین مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں،  اللہ تعالیٰ اس سے محبت رکھے جو حسنین (حسن اور حسین) سے محبت رکھے، حسن اور حسین علیھما السلام نواسوں میں سے دو نواسے ہیں (یا امتوں میں سے دو امتیں ہیں)۔

اِسے امام بخاری نے ’التاریخ الکبیر‘ میں، ابن ابی الدنیا، فسوی اور طبرانی تمام نے سندِ حسن کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے بھی فرمایا: اس کی سند حسن ہے۔

وَذَکرَ الْمُلاَّ عَلِيٌّ الْقَارِي: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: {حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ} قَالَ الْقَاضِي: کَأَنَّهُ صلی الله عليه وآله وسلم عَلِمَ بِنُوْرِ الْوَحْي مَا سَيَحْدُثُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقَوْمِ فَخَصَّهُ بِالذِّکْرِ وَبَيَنَ أَنَّهُمَا کَالشَّيئِ الْوَاحِدِ فِي وَجُوْبِ الْمَحَبَّةِ وَحُرْمَةِ التَّعَرُّضِ وَالْمُحَارَبَةِ وَأَکَّدَ ذٰلِکَ بِقَوْلِهِ:{أَحَبَّ اللهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا} فَإِنَّ مَحَبَّتَهُ مَحَبَّهُ الرَّسُوْلِ وَمَحَبَّهُ الرَّسُوْلِ مَحَبَّهُ اللهِ.

{حُسَيْنٌ سِبْطٌ} بِکَسْرِ السِّيْنِ وَفَتْحِ الْمُوَحَّدَةِ أَي وَلَدُ ابْنَتِي {مِنَ الأَسْبَاطِ} وَمَأْخَذُهُ مِنَ السَّبْطِ بِالْفَتْحِ وَهِيَ شَجَرَةٌ لَهَا أَغْصَانٌ کَثِيْرَةٌ وَأَصْلُهَا وَاحِدٌ کَأَنَّ الْوَالِدَ بِمَنْزِلَةِ الشَّجَرَةِ وَالأَوْلَادَ بِمَنْزِلَةِ أَغْصَانِهَا۔ وَقِيْلَ فِي تَفْسِيْرِهِ: إِنَّهُ أُمَّةٌ مِنَ الأَمَمِ فِي الْخَيْرِ.

قَالَ الْقَاضِي: اَلسِّبْطُ وَلَدُ الْوَلَدِ أَي هُوَ مِنْ أَوْلَادِ أَوْلَادِي أَکَّدَ ِبهِ الْبَعْضِيَةَ وَقَرَََّرَهَا وَيُقَالَ لِلْقَبِيْلَةِ قَالَ تَعَالٰی: {وَقَطَّعْنَاهُمُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ أَسْبَاطًا أُمَمًا} [الأعراف، 7/ 160]، أَي قَبَائِلَ وَيَحْتَمِلُ أَنْ يَکُوْنَ الْمُرَادُ هٰهُنَا عَلٰی مَعْنٰی أَنَّهُ يَتَشَعَّبُ مِنْهُ قَبِيْلَةٌ وَيَکُوْنُ مِنْ نَسْلِهِ خَلْقٌ کَثِيْرٌ فَيَکُوْنُ إِشَارَةً إِلٰی أَنَّ نَسْلَهُ يَکُوْنُ أَکْثَرَ وَأَبْقٰی وَکَانَ الأَمْرُ کَذٰلِکَ.

الملا علي القاري في مرقاة المفاتيح، 11/ 317، الرقم/ 6169، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 10/ 190- 191، الرقم/ 3775.

ملا علی قاری نے ذکر کیا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: {حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں}۔ قاضی عیاض فرماتے ہیں: گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نورِ وحی سے جان لیا تھا جو کچھ امام حسین علیہ السلام اور لوگوں کے درمیان پیش آنے والا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خصوصی طور پر اُن کا ذکر فرمایا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضاحت فرمادی کہ وہ دونوں (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امام حسین) اُن کے ساتھ محبت کے واجب ہونے میں، اور ان سے روگردانی کرنے میں اور ان کے ساتھ جنگ کرنے کی حرمت میں ایک ہی شے ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بات پر اپنے اس قول کے ساتھ زور دیا {اللہ تعالیٰ اُس سے محبت کرے جو حسین سے محبت کرتا ہے}۔ لہٰذا بے شک حسین علیہ السلام سے محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت، اللہ تعالیٰ سے محبت ہے۔

حُسَيْنٌ سِبْطٌ سبط،سین کی کسرہ اور فتحہ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے، یعنی میری بیٹی کا بیٹا مطلب نواسہ ہے مِنَ الأَسْبَاطِ اور اس کا ماخذ سبط ہے سین کی فتح کے ساتھ، اور اس سے مراد وہ درخت ہے جس کی بہت زیادہ شاخیں ہوں اور جس کی اصل اور جڑ ایک ہی ہو، گویا والد درخت کی مثل ہوتا ہے اور اولاد شاخوں کی مثل ہوتے ہیں، اور اس کی تفسیر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ نیکی کے باب میں امتوں میں سے ایک امت ہیں۔

قاضی عیاض بیان کرتے ہیں: سبط بیٹے کے بیٹے یعنی پوتے کو بھی کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد ہے کہ وہ میری اولاد کی اولاد میں سے ہے، اور اس کے ساتھ آپ نے بعض پر زور دیا ہے اور اسے مقرر کیا ہے، اور قبیلہ کو بھی سبط کہا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {اور ہم نے انہیں گروہ در گروہ بارہ قبیلوں میں تقسیم کر دیا} یعنی قبائل، اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد یہاں یہ ہو کہ اس میرے بیٹے سے ایک پورا قبیلہ پھیلے گا اور اس کی نسل میں سے ایک خلق کثیر جنم لے گی اور یہ اس طرف بھی اشارہ تھا کہ بے شک اس کی نسل کثیر اور باقی رہنے والی ہو گی اور (درحقیقت) معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔

  1. عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رضی الله عنها قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم جَالِسًا ذَاتَ يَوْمٍ فِي بَيْتِي، فَقَالَ: لَا يَدْخُلُ عَلَيَّ أَحَدٌ. فَانْتَظَرْتُ فَدَخَلَ الْحُسَيْنُ رضي الله عنه، فَسَمِعْتُ نَشِيْجَ. رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَبْکِي، فَاطَّلَعْتُ فَإِذَا حُسَيْنٌ فِي حِجْرِهِ وَالنَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَمَْسَحُ جَبِيْنَهُ وَهُوَ يَبْکِي، فَقُلْتُ: وَاللهِ، مَا عَلِمْتُ حِيْنَ دَخَلَ، فَقَالَ: إِنَّ جِبْرِيْلَ عليه السلام کَانَ مَعَنَا فِي الْبَيْتِ، فَقَالَ: تُحِبُّهُ؟ قُلْتُ: أَمَا مِنَ الدُّنْيَا فَنَعَمْ. قَالَ: إِنَّ أُمَّتَکَ سَتَقْتُلُ هٰذَا بِأَرْضٍ يُقَالُ لَهَا کَرْبَـلَاءُ. فَتَنَاوَلَ جِبْرِيْلُ علیه السلام مِنْ تُرْبَتِهَا، فَأَرَاهَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم، فَلَمَّا أُحِيْطَ بِحُسَيْنٍ حِيْنَ قُتِلَ، قَالَ: مَا اسْمُ هٰذِهِ الْأَرْضِ؟ قَالُوْا: کَرْبَـلَاءُ. قَالَ: صَدَقَ اللهُ وَرَسُوْلُهُ، أَرْضُ کَرْبٍ وَبَـلَاءٍ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ بِأَسَانِيْدَ وَرِجَالُ أَحَدِهَا ثِقَاتٌ.

النشيج: صوت مع توجع وبکاء.(النهاية)

البلاء والابتلاء: الاختيار بالخير ليتبين الشکر، وبالشر ليظهر الصبر.(النهاية)

أخرجه أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2/ 782، الرقم/ 1391، والطبراني في المعجم الکبير، 3/ 108، الرقم/ 2819، وأيضًا في، 23/ 289، الرقم/ 637، والآجري في کتاب الشريعة، 5/ 2172، الرقم/ 1662، وذکر الهيثمي في مجمع الزوائد، 9/ 189، وأبو جرادة في بغية الطلب في تاريخ حلب، 6/ 2598.

حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دن حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر میں تشریف فرما تھے۔ آپ نے فرمایا: ابھی میرے پاس کوئی نہ آئے۔ میں نے دھیان (تو) رکھا (مگر میری لاعلمی میں) حضرت حسین رضی اللہ عنہ حجرہ مبارک میں داخل ہوگئے۔ پھر اچانک میں نے رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہچکی بندھ کر رونے کی آواز سنی۔ میں نے حجرہ مبارک میں جھانکا تو کیا دیکھتی ہوں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود مبارک میں ہیں اور حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کی پیشانی مبارک پونچھ رہے ہیں اور ساتھ ہی رو بھی رہے ہیں۔میں نے عرض کیا:  اللہ  کی قسم! مجھے ان کے اندر آنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جبرائیل علیہ السلام ہمارے ساتھ ابھی گھر میں موجود تھے، انہوں نے کہا: آپ اِس (حسین رضی اللہ عنہ) سے محبت کرتے ہیں؟ میں نے کہا: ہاں، ساری دنیا سے بڑھ کر (اس سے محبت کرتا ہوں)۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا: بے شک آپ کی امت اِسے ایسی سرزمین پر شہید کرے گی جسے کربلا کہا جاتا ہے۔ جبرائیل علیہ السلام اس سرزمین کی مٹی بھی لائے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ مٹی انہیں دکھائی۔ جب (امام) حسین علیہ السلام کو شہادت کے وقت گھیرے میں لیا گیا توآپ (امام عالی مقام)نے پوچھا: یہ کون سی جگہ ہے؟ لوگوںنے کہا: کربلا، تو آپ نے فرمایا:  اللہ  تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سچے ہیں، یہ (واقعی) کرب و بلا (دکھ اور آزمائش) کی سرزمین ہے۔

اسے امام احمد اور طبرانی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: امام طبرانی نے اسے بہت سی اسانید سے روایت کیا ہے۔ ان میں سے ایک سند کے رجال ثقہ ہیں۔

ذَکَرَ الإِمَامُ الْمُنَاوِيُّ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: أَخْبَرَنِي جِبْرِيْلُ أَنَّ حُسَيْنًا ابْنَ فَاطِمَةَ يُقْتَلُ بِشَاطِيئِ الْفُرَاتِ (بِضَمِّ الْفَاءِ) أَي بِجَانِبِ نَهْرِ الْکُوْفَةِ الْعَظِيْمِ الْمَشْهُوْرِ وَهُوَ يَخْرُجُ مِنْ آخِرِ حُدُوْدِ الرُّوْمِ، ثُمَّ يَمُرُّ بِأَطْرَافِ الشَّامِ ثُمَّ بِأَرْضِ الطَّفِّ وَهِي مِنْ بِـلَادِ کَرْبَـلَاءَ، فَلاَ تَدَافُعَ بَيْنَهَ وَبَيْنَ خَبَرِ الطَّبَرَانِيِّ بِأَرْضِ الطَّفِّ وَخَبَرِهِ بِکَرْبَـلَاءَ، وَهٰذَا مِنْ أَعْـلَامِ النُّبُوَّةِ وَمُعْجِزَاتِهَا. وَذٰلِکَ أَنَّهُ لَمَّا مَاتَ مُعَاوِيَهُ أَتَتْهُ کُتُبُ أَهْلِ الْعِرَاقِ إِلَی الْمَدِيْنَةِ، أَنَّهُمْ بَيَعُوْهُ بَعْدَ مَوْتِهِ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمُ ابْنَ عَمِّهِ مُسْلِمَ بْنَ عَقِيْلٍ، فَبَيَعُوْهُ وَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَتَوَجَّهَ إِلَيْهِمْ فَخَذَلُوْهُ وَقَتَلُوْهُ بِهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَاشِرَ مُحَرَّمٍ سَنَةَ إِحْدٰی وَسِتِّيْنَ، وَکَسَفَتِ الشَّمْسُ عِنْدَ قَتْلِهِ کَسْفَةً أَبْدَتِ الْکَوَاکِبُ نِصْفَ النَّهَارِ کَمَا رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَسُمِعَتِ الْجِنُّ تَنُوْحُ عَلَيْهِ، وَرَأَی ابْنُ عَبَّاسٍ علیھما السلام النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي النَّوْمِ ذٰلِکَ الْيَوْمِ أَشْعَثَ أَغْبَرَ، بِيَدِهِ قَارُوْرَةٌ فِيْهَا دَمٌ، فَسَأَلَهُ عَنْهُ، فَقَالَ: هٰذَا دَمُ الْحُسَيْنِ وَأَصْحَابِهِ لَمْ أَزَلْ أَلْتَقِطُهُ مُنْذُ الْيَوْمِ.

المناوي في فيض القدير، 1/ 204-205.

امام مناوی بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے جبریل علیہ السلام نے خبر دی کہ بے شک حسین ابن فاطمہ علیھا السلام کو دریائے فرات کے کنارے شہید کیا جائے گا، یعنی کوفہ کے عظیم اور مشہور دریا کے کنارے، یہ دریا روم کی آخری حدوں سے نکلتا ہے اور شام کے اطراف سے ہوتا ہوا طف کی زمین میں سے گزرتا ہے، اور یہ زمین کربلاء کے علاقوں میں سے ہے۔ اِس خبر اور طبرانی کی بیان کردہ خبر (جس میں انہوںنے طف کی سرزمین اور کربلاء کے بارے میں بتایا ہے) میں کوئی تعارض نہیں ہے، اور یہ نبوت کی علامات اور معجزات میں سے ہے۔

یہ واقعہ اِس طرح ہوا کہ جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو آپ (یعنی حضرت اِمام حسین رضی اللہ عنہ) کے پاس مدینہ طیبہ میں اہل عراق کے خطوط آئے جن میں انہوں نے لکھا تھا کہ وہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد آپ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں، آپ نے ان کی طرف اپنے چچا زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیل کو بھیجا تو انہوں نے آپ کی بیعت کر لی۔ حضرت مسلم بن عقیل نے (کوفہ والوں کی ظاہری وفاداری سے متاثر ہوکر) امام حسین رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا۔ آپ اہلِ کوفہ کی طرف روانہ ہوئے تو وہ (بے وفائی کرتے ہوئے) آپ (کی بیعت) سے منحرف ہوگئے اور آپ کو کوفہ میں جمعہ کے روز دس محرم سن 61 ہجری میں کو شہید کردیا۔ آپ کی شہادت پر سورج کو اس قدر گرہن لگا کہ دن کے وقت ستارے ظاہر ہو گئے۔ جیسا کہ امام بیہقی نے روایت کیا ہے، اور اس دن جنّات کو آپ کا نوحہ کرتے ہوئے سنا گیا۔ حضرت (عبد  اللہ ) بن عباس علیھما السلام نے خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بکھرے ہوئے غبار آلود بالوں کے ساتھ اس حال میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ مبارک میں شیشی تھی جس میں خون تھا، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس بوتل کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ حسین اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے،میں صبح سے اس کو جمع کر رہا ہوں۔

  1. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ: دَخَلَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ رضي الله عنه عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُوَ يُوْحٰی إِلَيْهِ، فَنَزَا عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُوَ مُنْکَبٌّ، وَلَعِبَ عَلٰی ظَهْرِهِ، فَقَالَ جَبْرِيْلُ لِرَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: أَتُحِبُّهُ يَا مُحَمَّدُ؟ قَالَ: يَا جِبْرِيْلُ، وَمَا لِي لَا أُحِبُّ ابْنِي. قَالَ: فَإِنَّ أُمَّتَکَ سَتَقْتُلُهُ مِنْ بَعْدِکَ. فَمَدَّ جِبْرِيْلُ عليه السلام يَدَهُ، فَأَتَاهُ بِتُرْبَةٍ بَيْضَائَ، فَقَالَ: فِي هٰذِهِ الْأَرْضِ يُقْتَلُ ابْنُکَ هٰذَا يَا مُحَمَّدُ، وَاسْمُهَا الطَّفُّ. فَلَمَّا ذَهَبَ جِبْرِيْلُ عليه السلام مِنْ عِنْدِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، خَرَجَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَالتُّرْبَهُ فِي يَدِهِ يَبْکِي، فَقَالَ: يَا عاَئِشَهُ، إِنَّ جِبْرِيْلَ عليه السلام أَخْبَرَنِي أَنَّ الْحُسَيْنَ ابْنِي مَقْتُوْلٌ فِِي أَرْضِ الطَّفِّ، وَأَنَّ أُمَّتِي سَتُفْتَتَنُ بَعْدِي. ثُمَّ خَرَجَ إِلٰی أَصْحَابِهِ فِيْهِمْ عَلِيٌّ وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَحُذَيْفَهُ وَعَمَّارٌ وَأَبُوْ ذَرٍّ l وَهُوَ يَبْکِي، فَقَالُوْا: مَا يُبْکِيْکَ يَا رَسُوْلَ اللهِ؟ فَقَالَ: أَخْبَرَنِي جِبْرِيْلُ أَنَّ ابْنِي الْحُسَيْنَ يُقْتَلُ بَعْدِي بِأَرْضِ الطَّفِّ، وَجَائَنِي بِهٰذِهِ التُّرْْبَةِ، وَأَخْبَرَنِي أَنَّ فِيْهَا مَضْجَعَهُ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْمَاوَرْدِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3/ 107، الرقم/ 2814، والماوردي في أعلام النبوة/ 182، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9/ 188، وابن حجر الهيتمي في الصواعق المحرقة، 2/ 564، وذکره الهندي في کنز العمال، 12/ 56، الرقم/ 34299.

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، آپ نے فرمایا: امام حسین بن علی علیہ السلام رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہو رہی تھی۔ تو وہ (امام حسین علیہ السلام ) جست لگا کر رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اقدس پر چڑھ گئے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لیٹے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر کھیلنے لگے۔ جبرئیل علیہ السلام نے رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: یا محمد! کیا آپ اس (بیٹے حسین)سے محبت کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے جبرائیل، میں اپنے بیٹے سے کیوں محبت نہ کروں! جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: بے شک آپ کی اُمت آپ کے بعد اسے شہید کر دے گی۔ جبرائیل علیہ السلام نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سفید مٹی پکڑائی اور کہا: یا محمد! اس (مٹی والی) زمین میں آپ کا بیٹا (حسین) شہید کیا جائے گا اور اس زمین کا نام ’طَف‘ ہے۔ جبرائیل علیہ السلام رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے چلے گئے تو رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے جبکہ وہ مٹی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس میں تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رو رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ !جبرائیل علیہ السلام نے مجھے خبر دی ہے: میرا بیٹا حسین اَرضِ طَف (کربلا) میں شہید کیا جائے گا اور عنقریب میری اُمت میرے بعد آزمائش میں ڈالی جائے گی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اصحاب کی طرف تشریف لے گئے جن میں حضرت علی، حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت حذیفہ، حضرت عمار اور حضرت ابو ذر l تھے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت بھی رو رہے تھے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے عرض کیا: یارسول  اللہ ! کس چیز نے آپ کو (اس قدر) رُلا دیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے: میرا بیٹا حسین میرے بعد ارضِ طَف (یعنی کربلا)میں شہید کردیا جائے گا اور میرے لیے یہ مٹی لائے ہیں اور مجھے بتایا کہ اس مٹی (والی زمین) میں حسین کی شہادت گاہ ہے۔

اسے امام طبرانی اور ماوردی نے روایت کیا ہے۔

وَقَالَ الإِمَامُ الْمُنَاوِيُّ: وَتَفْصِيْلُ قِصَّةِ قَتْلِهِ تُمَزِّقُ الْأَکْبَادَ وَتُذِيْبُ الْأَجْسَادَ، فَلَعْنَهُ اللهِ عَلٰی مَنْ قَتَلَهُ أَوْ رَضِيَ أَوْ أَمَرَ وَبُعْدًا لَهُ کَمَا بَعُدَتْ عَادُ وَقَدْ أَفْرَدَ قِصَّةَ قَتْلِهِ خَلَائِقُ بِالتَّأْلِيْفِ. قَالَ أَبُو الْفَرَجِ بْنُ الْجَوْزِيُّ فِي کِتَابِهِ ’الرَّدُّ عَلَی الْمُتَعَصِّبِ الْعَنِيْدِ الْمَانِعِ مِنْ ذَمِّ يَزِيْدَ‘: أَجَاَزَ الْعُلَمَاءُ الْوَرِعُوْنَ لَعْنَهُ. وَفِي فَتَاوٰی حَافِظِ الدِّيْنِ الْکُرْدِيِّ الْحَنَفِيِّ لَعْنُ يَزِيْدَ يَجُوْزُ لٰـکِنْ يَنْبَغِي أَنْ لَا يُفْعَلُ وَکَذَا الْحَجَّاجُ. قَالَ ابْنُ الْکَمَالِ: وَحُکِيَ عَنِ الْإِمَامِ قِوَامِ الدِّيْنِ الصَّفَارِيِّ: وَلَا بَأْسَ بِلَعْنِ يَزِيْدَ وَلَا يَجُوْزُ لَعْنُ مُعَاوِيَةَ عَامِلِ الْفَارُوْقِ لٰـکِنَّهُ أَخْطَأَ فِي اجْتِهَادِهِ فَيَتَجَاوَزُ اللهُ تَعَالٰی عَنْهُ وَنَکُفُّ اللِّسَانَ عَنْهُ تَعْظِيْمًا لِمَتْبُوْعِهِ وَصَاحِبِهِ.

وَسُئِلَ ابْنُ الْجَوْزِيِّ عَنْ يَزِيْدَ وَمُعَاوِيَةَ فَقَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ، وَعَلِمْنَا أَنَّ أَبَاهُ دَخَلَهَا فَصَارَ آمِنًا وَالْاِبْنُ لَمْ يَدْخُلْهَا. ثُمَّ قَالَ الْمَوْلَی ابْنُ الْکَمَالِ: وَالْحَقُّ أَنَّ لَعْنَ يَزِيْدَ عَلَی اشْتِهَارِ کُفْرِهِ وَتَوَاتُرِ فَظَاعَتِهِ وَشَرِّهِ عَلٰی مَا عُرِفَ بِتَفَاصِيْلِهِ جَائِزٌ وَإِلاَّ فَلَعْنُ الْمُعَيِّنِ وَلَوکَانَ فَاسِقًا لَا يَجُوْزُ بِخِـلَافِ الْجِنْسِ وَذٰلِکَ هُوَ مَحْمَلُ قَوْلِ الْعَـلَّامَةِ التَّفْتَازَانِيِّ: لَا أَشُکُّ فِي إِسْلَامِهِ بَلْ فِي إِيْمَانِهِ فَلَعْنَهُ اللهِ عَلَيْهِ وَعَلٰی أَنْصَارِهِ وَأَعْوَانِهِ، قِيْلَ لِابْنِ الْجَوْزِيِّ: وَهُوَ عَلٰی کُرْسِيِّ الْوَعْظِ، کَيْفَ يُقَالُ يَزِيْدُ قَتَلَ الْحُسَيْنَ وَهُوَ بِدِمَشْقَ وَالْحُسَيْنُ بِالْعِرَاقِ؟ فَقَالَ: سَهْمٌ أَصَابَ وَرَامِيْهِ بِذِي سَلَمٍ مَنْ بِالْعِرَاقِ لَقَدْ أَبْعَدْتَ مَرْمَاکَا....

وَأَخْرَجَ الْحَاکِمُ فِي الْمُسْتَدْرَکِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عليهما السلام أَوْحَی اللهُ تَعَالٰی إِلٰی مُحَمَّدٍ: إِنِّي قَتَلْتُ بِيَحْيَی بْنِ زَکَرِيَا سَبْعِيْنَ أَلْفًا، وَإِنِّي قَاتِلٌ بِابْنِ ابْنَتِکَ الْحُسَيْنِ سَبْعِيْنَ أَلْفًا وَسَبْعِيْنَ أَلْفًا. قَالَ الْحَاکِمُ: صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ وَقَالَ الذَّهَبِيُّ: وَعَلٰی شَرْطِ مُسْلِمٍ. وَقَالَ ابْنُ حَجَرٍ: وَرَدَ مِنْ طَرِيْقٍ وَهٍ عَنْ عَلِيٍّ مَرْفُوْعًا: قَاتِلُ الْحُسَيْنِ فِي تَابُوْتٍ مِنْ نَارٍ، عَلَيْهِ نِصْفُ عَذَابِ أَهْلِ الدُّنْيَا.

وَابْنُ سَعْدٍ فِي طَبَقَاتِهِ مِنْ حَدِيْثِ الْمَدَائِنِيِّ عَنْ يَحْيَی بْنِ زَکَرِيَا عَنْ رَجُلٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ کرّم  اللہ  وجہہ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ذَاتَ يَوْمٍ وَعَيْنَاهُ تَفِيْضَانِ، قَالَ: فَذَکَرَهُ، وَرَوٰی نَحْوَهُ أَحْمَدُ فِي الْمُسْنَدِ. فَعَزْوُهُ إِلَيْهِ کَانَ أَوْلٰی وَلَعَلَّهُ لَمْ يَسْتَحْضِرْهُ، وَيَحْيَی بْنُ زَکَرِيَا أَوْرَدَهُ فِي الضُّعَفَاءِ، وَقَالَ: ضَعَّفَهُ الدَّارَ قُطْنِيُّ وَغَيْرُهُ انْتَهٰی.

لٰـکِنَّ الْمُؤَلِّفَ رحمة  اللہ  رَمَزَ لِحُسْنِهِ وَلَعَلَّهُ لِاعْتِضَادِهِ، فَفِي مُعْجَمِ الطَّبَرَانِيِّ عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها مَرْفُوْعًا: أَخْبَرَنِي جَبْرِيْلُ أَنَّ ابْنِي الْحُسَيْنَ يُقْتَلُ بَعْدِي بِأَرْضِ الطَّفِّ وَجَائَنِي بِهٰذِهِ التُّرْبَةِ وَأَخْبَرَنِي أَنْ فِيْهَا مَضْجَعَهُ، وَفِيْهِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ وَزَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ وَأَبِي أُمَامَةَ وَمُعَاذٍ وَأَبِي الطُّفَيْلِ وَغَيْرِهِمْ مِمَّنْ يَطُوْلُ ذِکْرُهُمْ نَحْوُهُ.

المناوي في فيض القدير، 1/ 205.

امام مناوی نے بیان فرمایا: امام حسین علیہ السلام کے واقعہ شہادت کی تفصیل جگر چیر دیتی ہے اور جسموں کو پگھلا دیتی ہے۔ لعنت ہو اس شخص پر جس نے آپ کو شہید کیا یا اس پر خوش ہوا یا اس کا حکم دیا، اس کے لیے بارگاہِ ایزدی سے ایسی ہی دوری ہے جیسے قوم عاد دور ہوئی۔ بہت سارے لوگوں نے اس قصہ کو الگ تالیف میں ذکر کیا ہے۔ امام ابو الفرج ابن الجوزی نے اپنی کتاب ’الرد علی المتعصب العنید المانع من ذم یزید‘ میں کہا کہ اہلِ ورع علماء نے یزید پر لعنت بھیجنے کو جائز قرار دیا ہے۔ حافظ الدین کردی حنفی کے فتاویٰ میں ہے: یزید کو لعنت کرنا جائز ہے لیکن زیادہ مناسب یہ ہے کہ ایسانہ کیا جائے، اور یہی معاملہ حجاج بن یوسف کا ہے، ابن کمال نے کہا ہے کہ امام قوام الدین صفاری سے بیان کیا گیا کہ یزید کو لعنت کرنے میں کوئی حرج نہیں جبکہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے گورنر معاویہ رضی اللہ عنہ کو لعنت کرنا جائز نہیں ہے، لیکن انہوں نے اجتہاد میں غلطی کی۔  اللہ تعالیٰ ان سے در گزر فرمائے۔ ہم ان کی اتباع اوردرجہ صحابیت کی تعظیم کی خاطر ان سے اپنی زبان کو روکتے ہیں۔

ابن جوزی سے یزید اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو ابو سفیان کے گھر داخل ہو گیا وہ امان میں ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ یزید کے والد اس گھر میں داخل ہوئے تھے تو وہ بھی امان والے ہوئے اور بیٹا (یزید) اس گھر میں کبھی داخل نہیں ہوا تھا (سو اسے کوئی امان حاصل نہیں)۔ پھر مولیٰ بن کمال نے کہا: حق بات یہ ہے کہ یزید کو لعنت کرنا اس کے کفر کے مشہور ہونے اور اس کے بھونڈے پن اور شر کے تواتر کی وجہ سے، جیسا کہ اس کی تفاصیل معروف ہیں، جائز ہے، وگرنہ کسی معین شخص پر (یعنی کسی کا نام لے کر اس پر) خواہ وہ فاسق ہی ہو (لعنت کرنا) جائز نہیں اور یہی علامہ تفتازانی کے قول کا مدعا ہے جس میں انہوں نے فرمایا: مجھے اس (یزید) کے اسلام میں ہی نہیں بلکہ اس کے ایمان میں بھی شک ہے پس لعنت ہو اس پر اور اس کے تمام ساتھیوں اور مددگاروں پر۔ ابن جوزی جب مسندِ وعظ پر تھے تو اُن سے پوچھا گیا: یہ کیسے کہا جائے کہ یزید نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا جبکہ وہ دمشق میں تھا اور امام حسین رضی اللہ عنہ عراق میں تھے؟ انہوں نے جواب میں فرمایا: ایک ایسا تیر جس کا پھینکنے والا وادی ذی سَلَم میں تھا، آکر اسے لگا جو عراق میں تھا۔ بے شک تو نے اپنے ہدف کو دور سے نشانہ بنایا۔

امام حاکم نے المستدرک میں حضرت (عبد  اللہ ) بن عباس علیھما السلام سے روایت کیا کہ  اللہ  تعالیٰ نے محمد (رسول اللہ) صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف وحی فرمائی کہ بے شک میں نے حضرت یحییٰ بن زکریا علیھا السلام کی شہادت کے بدلہ میں ستر ہزار کو موت کے گھاٹ اتارا اور میں آپ کے نواسہ کی شہادت کے بدلہ میں ستر ہزار اور ستر ہزار (ایک لاکھ چالیس ہزار) کو موت کے گھاٹ اتارنے والا ہوں۔ امام حاکم نے فرمایا: اس کی سند صحیح ہے اور امام ذہبی نے فرمایا کہ یہ حدیث امام مسلم کی شرط پر ہے۔ ابن حجر نے کہا کہ کمزور طریق سے حضرت علی رضی اللہ عنہسے مرفوعاً روایت ہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کا قاتل آگ کے تابوت میں ہے، اور اس پر تمام اہل دنیا کا آدھا عذاب مسلط ہے۔

امام ابن سعد نے ’الطبقات‘ میں مدائنی کی حدیث جو یحییٰ بن زکریا سے، وہ شعبی سے، وہ امیر المؤمنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں: آپ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمان مقدس برس رہی تھیں۔ انہوں نے پھر مکمل حدیث بیان کی اور اسی طرح کی حدیث امام اَحمد نے مسند میں روایت کی۔ پس اس کا آپ کی طرف منسوب کرنا زیادہ بہتر ہے اور شاید انہیں اس کا استحضار نہ ہو، اور یحییٰ بن زکریا نے اس کو ضعفاء میں وارد کیا اور کہا کہ اسے دارقطنی وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔

لیکن مؤلف نے اس حدیث کے حسن ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے، اور ایسا شاید اس روایت کے مضبوط ہونے کی بنا پر کیا ہے، اور طبرانی کی معجم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعاً بیان ہوا ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جبریل f نے مجھے بتایا کہ بے شک میرا بیٹا حسین میرے بعد طف کی سر زمین پر شہید کر دیا جائے گا، اور میرے پاس یہ مٹی بھی لے کر آئے ہیں، اور مجھے خبر دی ہے کہ حسین کا مرقد اس مٹی میں ہے، اور اس باب میں حضرت اُمّ سلمہ اور زینب بنت حجش علیھما السلام، ابو امامہ، معاذ اور ابو طفیل و دیگر صحابہ سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے۔ ان کا ذکر طوالت پکڑے گا۔

  1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: مَنْ أَحَبَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ فَقَدْ أَحَبَّنِي، وَمَنْ أَبْغَضَهُمَا فَقَدْ أَبْغَضَنِي.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَهُ وَالنَّسَائِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ. وَقَالَ الْکِنَانِيُّ: هٰذَا إِسْنَادٌ صَحِيْحٌ، رِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 288، 531، الرقم/ 7863، 10884، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فضل الحسن والحسين ابني علي ابن أبي طالب 1/ 51، الرقم/ 143، والنسائي في السنن الکبری، 5/ 49، الرقم/ 8168، والحاکم في المستدرک، 3/ 187، الرقم/ 4799، والطبراني في المعجم الکبیر، 3/ 47-48، الرقم/ 2645، 2648، وأیضًا في المعجم الأوسط، 5/ 102، الرقم/ 4795، والکناني في مصباح الزجاجة، 1/ 21، الرقم/ 52.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے حسن اور حسین سے محبت کی، اس نے درحقیقت مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔

اِسے امام احمد نے، ابن ماجہ نے مذکورہ الفاظ سے اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ اور امام کنانی نے فرمایا: اس حدیث کی اسناد صحیح ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔

  1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَمَعَهُ حَسَنٌ وَحُسَيْنٌ هٰذَا عَلٰی عَاتِقِهِ، وَهٰذَا عَلٰی عَاتِقِهِ(1)، وَهُوَ يَلْثِمُ(2) هٰذَا مَرَّةً، وَيَلْثِمُ هٰذَا مَرَّةً، حَتَّی انْتَهٰی إِلَيْنَا، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّکَ تُحِبُّهُمَا، فَقَالَ: مَنْ أَحَبَّهُمَا فَقَدْ أَحَبَّنِي، وَمَنْ أَبْغَضَهُمَا فَقَدْ أَبْغَضَنِي(3).

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ وَقَالَ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ، وَفِي بَعْضِهِمْ خِلَافٌ.

  1. العاتق: ما بين المنکب والعنق
  2. يلثم: يُقَبِّل
  3. البُغض: عکس الحبّ وهو الکره والمقت

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 440، الرقم/ 9671، وأيضا في فضائل الصحابة، 2/ 777، الرقم/ 1376، والحاکم في المستدرک، 3/ 182، الرقم/ 4777، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 13/ 199، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 9/ 179، والمزي في تهذيب الکمال، 6/ 228، والعسقلاني في الإصابة، 2/ 71.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک کندھے پر امام حسن علیہ السلام اور دوسرے کندھے پر امام حسین علیہ السلام سوار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی ایک کو چومتے کبھی دوسرے کو چومتے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس آ کر رک گئے۔ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! یقینا آپ ان سے (بے پناہ) محبت کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے ان دونوں سے محبت رکھی اس نے مجھ سے محبت رکھی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔

اِسے امام احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے اور انہوں نے فرمایا: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اس کے رجال ثقہ ہیں، بعض کے بارے میں اختلاف ہے۔

قَالَ الإِمَامُ الْمُنَاوِيُّ: وَمِنْ عَلَامَةِ حُبِّهِمْ حُبُّ ذُرِّيَتِهِمْ بِحَيْثُ يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ الآنَ نَظَرَهُ بِالأَمْسِ إِلٰی أُصُوْلِهِمْ لَوْ کَانَ مَعَهُمْ، وَيَعْلَمُ أَنَّ نُطْفَهُمْ طَاِهرَةٌ وَذُرِّيَتَهُمْ مُبَارَکَةٌ وَمَنْ کَانَتْ حَالَتُهُ مِنْهُمْ غَيْرُ قُوَيْمَةٍ فَإِنَّمَا تُبْغَضُ أَفْعَالُهُ لَا ذَاتُهُ...

قَالَ السُّهْرَوَرْدِيُّ: اقْتَضٰی هٰذَا الْخَبَرُ وَمَا أَشْبَهَهُ مِنَ الْأَخْبَارِ الْکَثِيْرَةِ فِي الْحَثِّ عَلٰی حُبِّ أَهْلِ الْبَيْتِ وَالتَّحْذِيْرِ مِنْ بُغْضِهِمْ وَتَحْرِيْمِ بُغْضِهِمْ وَوُجُوْبِ حُبِّهِمْ وَفِي تَوْثِيْقِ عَرَی الإِيْمَانِ.

عَنِ الْحَرَالِّيِّ: أَنَّ خَوَاصَ الْعُلَمَائِ يَجِدُوْنَ ِلأَجْلِ اخْتِصَاصِهِمْ بِهٰذَا الإِيْمَانِ حَـلَاوَةً وَمَحَبَّةً خَاصَّةً لِنَبِيِّهِمْ وَتَقْدِيْمًا لَهُ فِي قُلُوْبِهِمْ حَتّٰی يَجِدَ إِيْثَارَهُ عَلٰی أَنْفُسِهِمْ وَأَهْلِيْهِمْ.

المناوي في فيض القدير، 6/ 32.

امام مُناوی نے بیان کیا ہے کہ اہلِ بیت سے محبت کی علامات میں سے ایک علامت ان کی ذُرّیت (یعنی آل) سے محبت کرنا ہے، اہل بیت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو آج بھی اسی نظر سے دیکھنا چاہیے جیسا کہ ان کے آباء و اجداد۔ اگر وہ ان کے ساتھ ہوتا۔ بلاشبہ ان کی پاک و صاف نسلیں اب بھی پاکیزگی اور طہارت کی امین ہیں۔ جہاں تک (کسی کے انفرادی) عمل میں کمزوری کا تعلق ہے تو اس کے ذاتی عمل کو نا پسند کیا جائے گا نہ کہ اس کے نسب اور ذات کو ۔۔۔

امام سہروردی نے کہا: یہ اور اس سے ملتی جلتی بہت ساری دوسری روایات حبِّ اہلِ بیت پر ابھارتی ہیں اور ان سے بغض رکھنے سے انسان کو باز رکھتی ہیں، نیز ان سے بغض کو حرام اور ان کے ساتھ محبت کو واجب کرتی ہیں اور یہ روایات ایمان کی رسی کو مضبوط کرنے میں معاون ہیں۔

حرالی سے مروی ہے کہ خواص علماء اس حبِ اہل بیت سے پیدا ہونے والی تقویتِ ایمانی سے اپنے ایمان میںایک خاص قسم کی حلاوت اور اپنے نبی کے ساتھ خاص محبت اور تعلق رسالت میں تقویت کو واضح طور پر اپنے دلوں میں محسوس کرتے ہیں اور اس تعلق میں استحکام کو اپنی جان اور اپنے اہل خانہ کی محبت پر بھی مقدم رکھتے ہیں۔

  1. عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ جَدِّهِ رضوان الله عليهم اجمعين: أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم أَخَذَ بِيَدِ حَسَنٍ وَحُسَيْنٍ، فَقَالَ: مَنْ أَحَبَّنِي، وَأَحَبَّ هٰذَيْنِ، وَأَبَاهُمَا، وَأُمَّهُمَا، کَانَ مَعِي فِي دَرَجَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالآجُرِيُّ وَالْمَقْدِسِيُّ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ غَرِيْبٌ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1/ 77، الرقم/ 576، وأيضًا في فضائل الصحابة، 2/ 693، الرقم/ 1185، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب رضي الله عنه، 5/ 641، الرقم/ 3733، والطبراني في المعجم الکبير، 3/ 50، الرقم/ 2654، وأيضًا في المعجم الصغير، 2/ 163، الرقم/ 960، والآجري في کتاب الشريعة، 5/ 2151، الرقم/ 1638، وذکره المقدسي في الأحاديث المختارة، 2/ 44-45، الرقم/ 421، والمزي في تهذيب الکمال، 6/ 401، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 13/ 196.

حضرت علی بن حسین (زین العابدین) بواسطہ اپنے والد (امام حسین) اپنے دادا (حضرت علی ابی طالب l) سے روایت بیان کرتے ہیں: رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن اور حضرت حسین علیھما السلام کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: جس نے مجھ سے محبت کی اور ان دونوں سے، اور ان کے والد اور ان کی والدہ سے محبت کی تو وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجہ (منزل) میں ہو گا۔

اِسے امام اَحمد، ترمذی، طبرانی، آجری اور مقدسی نے اسناد حسن سے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

  1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: اَللّٰهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا۔ وَزاد ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ: يَعْنِي حَسَنًا وَحُسَيْنًا عليهما السلام.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ۔ وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 446، الرقم/ 9758، وابن أبي شيبة في المصنف، 6/ 378، الرقم/ 32175، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 9/ 180.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے  اللہ ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں پس تو بھی ان دونوں سے محبت فرما۔ امام ابن ابی شیبہ نے اضافہ فرمایا: یعنی حضرت حسن اور حضرت حسین علیھما السلام سے۔

اِسے امام احمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اس کی اسناد حسن ہے۔

  1. عَنْ عَطَائٍ: أَنَّ رَجُـلًا أَخْبَرَهُ أَنَّهُ رَأَی النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَضُمُّ إِلَيْهِ حَسَنًا وَحُسَيْنًا يَقُوْلُ: اَللّٰهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا.

رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رَوَاهُ أَحْمَدُ وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 369، الرقم/ 23182، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 9/ 179.

حضرت عطاء سے مروی ہے کہ بے شک ایک (صحابی) شخص نے انہیں خبر دی کہ اس نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن اور حسین کو اپنے ساتھ لگایا اور فرمایا: اے  اللہ ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں پس تو بھی ان دونوں سے محبت فرما۔

اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اسے امام احمد نے روایت کیا ہے اور اس حدیث کے رجال صحیح کے رجال ہیں۔

  1. عَنِ الْبَرَائِ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم أَبْصَرَ حَسَنًا وَحُسَيْنًا، فَقَالَ: اَللّٰهُمَّ، إِنِّي أُحِبُّهُمَا، فَأَحِبَّهُمَا.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ سَرَيَا وَابْنُ الأَثِيْرِ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔ وَقَالَ الأَلْبَانِيُّ: صَحِيْحٌ.

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسين 5/ 661، الرقم/ 3782، وابن سرايا في سلاح المؤمن في الدعاء/ 215، الرقم/ 367، وذکره ابن الأثير في جامع الأصول في أحاديث الرسول صلی الله عليه وآله وسلم، 9/ 27، الرقم/ 6552، وابن کثير في البداية والنهاية، 8/ 205، والألباني في صحيح وضعيف سنن الترمذي، 8/ 282، الرقم/ 3782.

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حضرت حسن اور حسین علیھما السلام پر نظر پڑی تو فرمایا: اے  اللہ ! میں ان سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان سے محبت فرما۔

اِسے امام ترمذی، ابن سرایا اور ابن اَثیر نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ البانی نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔

  1. عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ عَنْ أَبِيْهِ رضي الله عنه، أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ لِلْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ: إِنِّي أُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا أَوْ قَالَ: اَللّٰهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا.

رَوَاهُ الْبَزَّارُ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَفِيْهِ زِيَادُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ وَثَّقَهُ ابْنُ حِبَّانَ وَقَالَ: يَهِمُ وَبَقِيَهُ رِجَالِهِ ثِقَاتٌ.

أخرجه البزار في المسند، 8/ 252-253، الرقم/ 3317، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 9/ 180.

حضرت معاویہ بن قرہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن اور حضرت حسین کے لیے فرمایا: یقینا میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے  اللہ ! بے شک میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں پس تو بھی ان دونوں سے محبت فرما۔

اِسے امام بزار نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اس میں زیاد بن ابی زیاد راوی کو ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے، اور کہا کہ ان سے سہو ہو جاتا تھا جبکہ اس حدیث کے بقیہ راوی ثقہ ہیں۔

  1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: يَقُوْلُ لِلْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ: مَنْ أَحَبَّنِي فَلْيُحِبَّهُمَا.

رَوَاهُ الْبَزَّارُ، وَرِجَالُهُ وُثِّقُوْا وَفِيْهِمْ خِـلَافٌ کَمَا قَالَ الْهَيْثَمِيُّ.

ذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 9/ 180.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ایک روایت میں بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت حسن اور حضرت حسین کے لیے بیان فرماتے ہوئے سنا: جو شخص مجھ سے محبت رکھتا ہے وہ ان سے بھی محبت رکھے۔

امام ہیثمی فرماتے ہیں: اِسے امام بزار نے روایت کیا ہے اور اس کے راویوں کو ثقہ قرار دیا گیا ہے، اور ان میں اختلاف ہے۔

  1. عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ عليهما السلام، قَالَ: طَرَقْتُ(1) النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم ذَاتَ لَيْلَةٍ فِي بَعْضِ الْحَاجَةِ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُوَ مُشْتَمِلٌ(2) عَلٰی شَيئٍ، لَا أَدْرِي مَا هُوَ، فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنْ حَاجَتِي. قُلْتُ: مَا هٰذَا الَّذِي أَنْتَ مُشْتَمِلٌ عَلَيْهِ؟ فَکَشَفَهُ فَإِذَا حَسَنٌ وَحُسَيْنٌ عَلٰی وِرْکَيْهِ، فَقَالَ: هٰذَانِ ابْنَايَ وَابْنَا ابْنَتِي، اَللّٰهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا وَأَحِبَّ مَنْ يُحِبُّهُمَا.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ غَرِيْبٌ. وَقَالَ الأَلْبَانِيُّ: حَسَنٌ.

قَالَ: طَرَقْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم: أَي طَلَبْتُ الطَّرِيْقَ إِلَيْهِ فَفِي الْقَامُوْسِ الطَّرْقُ اْلِإتْيَانُُ بِاللَّيْلِ کَالطُّرُوْقِ فَفِي الْکَلَامِ تَجْرِيْدٌ أَوْ تَأْکِيْدٌ وَالْمَعْنَی أَتَيْتُهُ.(المرقاة، 11/ 315)

اَلْاِشْتِمَالُ: أَنْ يَتَلَفَّفَ بِالثَّوْبِ حَتّٰی يُجَلِّلَ بِهِ جَمِيْعَ جَسَدِهِ، وَلَا يَرْفَعُ شَيْئًا مِنْ جَوَانِبِهِ فَلَا يُمْکِنُهُ إِخْرَاجُ يَدِهِ إِلَّا مِنْ أَسْفَلِهِ. (النہایة)

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسين d، 5/ 656، الرقم/ 3769، والنسائي في السنن الکبری، 5/ 149، الرقم/ 8524، وابن حبان في الصحيح، 15/ 422-423، الرقم/ 6967، وابن أبي شيبة في المصنف، 6/ 378، الرقم/ 32182، وأيضًا في المسند، 1/ 125، الرقم/ 163، والبزار في المسند، 7/ 31، الرقم/ 2580، وذکره الألباني في صحيح وضعيف سنن الترمذي، 8/ 269، الرقم/ 3769.

حضرت اُسامہ بن زید علیھما السلام سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا: ایک رات میں کسی کام کی غرض سے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حال میں باہر تشریف لائے کہ کسی چیز کو اپنے جسم کے ساتھ کپڑے سے لپیٹے ہوئے تھے۔ میں نہ جان سکا کہ وہ کیا چیز ہے؟ جب میں اپنی ضرورت سے فارغ ہو گیا تو عرض کیا: (یا رسول اللہ!) یہ کیا چیز ہے جس پر آپ نے چادر اوڑھ رکھی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کپڑا اٹھایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر حسن اور حسین d تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ دونوں میرے بیٹے اور نواسے ہیں۔ اے  اللہ ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما اور جو ان سے محبت کرتا ہے اُس سے بھی محبت فرما۔

اِسے امام ترمذی، نسائی، ابن حبان اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ البانی نے بھی اسے حسن کہا ہے۔

  1. عَنْ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنه، قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يُصَلِّي فَإِذَا سَجَدَ وَثَبَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ عَلٰی ظَهْرِهِ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَمْنَعُوْهُمَا أَشَارَ إِلَيْهِمْ أَنْ دَعُوْهُمَا، فَلَمَّا صَلّٰی وَضَعَهُمَا فِي حِجْرِهِ ثُمَّ قَالَ: مَنْ أَحَبَّنِي فَلْيُحِبَّ هٰذَيْنِ.

رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالآجُرِّيُّ وَالْبَزَّارُ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَرِجَالُ أَبِي يَعْلٰی ثِقَاتٌ، وَفِي بَعْضِهِمْ خِلَافٌ. وَقَالَ الأَلْبَانِيُّ: قُلْتُ: وَهٰذَا إِسْنَادٌ حَسَنٌ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

أخرجه النسائي في السنن الکبری، 5/ 50، الرقم/ 8170، وابن خزيمة في الصحيح، 2/ 48، الرقم/ 887، وأبو يعلی في المسند، 8/ 434، الرقم/ 5017، وأيضًا في، 9/ 250، الرقم/ 5368، والبزار في المسند، 5/ 226، الرقم/ 1834، وابن أبي شيبة في المسند، 1/ 264، الرقم/ 397، والآجري في کتاب الشريعة، 5/ 2159، الرقم/ 1646، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 9/ 179، والألباني في سلسلة الأحاديث الصحيحة، 1/ 311، الرقم/ 312.

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں گئے تو حضرت حسن اور حسین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے، جب لوگوں نے انہیں روکنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو اشارہ کیا کہ ان دونوں کو چھوڑ دیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا فرما چکے تو دونوں کو اپنی گود میں لے لیا اور فرمایا: جو مجھ سے محبت کرتا ہے اسے چاہیے کہ ان دونوں سے بھی محبت کرے۔

اِسے امام نسائی، ابن خزیمہ، ابویعلی، ابن ابی شیبہ، آجری اور بزار نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: ابو یعلی کے رجال ثقہ ہیں جب کہ بعض میں اختلاف ہے۔ البانی نے کہا: اس کی اسناد حسن اور رجال ثقہ ہیں۔

  1. عَنْ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنه، قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يُصَلِّي وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ يَثِبَانِ عَلٰی ظَهْرِهِ، فَيُبَاعِدُهُمَا النَّاسُ، فَقَالَ صلی الله عليه وآله وسلم: دَعُوْهُمَا، بِأَبِي هُمَا وَأُمِّي، مَنْ أَحَبَّنِي، فَلْيُحِبَّ هٰذَيْنِ.

رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ. وَقَالَ الْأَلْبَانِيُّ: قُلْتُ: فَالإِسْنَادُ حَسَنٌ وَهُوَ صَحِيْحٌ بِشَوَاهِدِهِ.

أخرجه ابن حبان في الصحيح، کتاب إخباره صلی الله عليه وآله وسلم عن مناقب الصحابة، باب ذِکر البيان بأن محبة الحسن والحسين مَقْرونة بمحبة المصطفٰی صلی الله عليه وآله وسلم، 15/ 426، الرقم/ 6970، وابن خزيمة في الصحيح، 2/ 48، الرقم/ 887، وابن أبي شيبة في المصنف، 6/ 378، الرقم/ 32174، والطبراني في المعجم الکبير، 3/ 47، الرقم/ 2644، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 8/ 305، وذکره الألباني في سلسلة الأحاديث الصحيحة، 19/ 61، الرقم/ 4002.

حضرت عبد  اللہ  (بن مسعود رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے، انہوں نے بیان کیا: حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے کہ حضرت حسن اور حسین دونوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہوگئے۔ لوگوں نے انہیں ہٹانا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان دونوں کو چھوڑ دو، میرے ماں باپ ان دونوں پر قربان! جو مجھ سے محبت کرتا ہے اسے چاہیے کہ ان دونوں سے بھی محبت کرے۔

اِسے امام ابن حبان، ابن خزیمہ، ابو نعیم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ البانی نے کہا: اس کی اسناد حسن ہے اور یہ حدیث اپنے شواہد کے ساتھ صحیح ہے۔

  1. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه، قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يُصَلِّي وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ عليهما السلام يَصْعَدَانِ عَلٰی ظَهْرِهِ، فَأَخَذَ الْمُسْلِمُوْنَ يُمِيْطُوْنَهُمَا، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: رُدُّوْهُمَا فَمَنْ أَحَبَّنِي فَلْيُحِبَّ هٰذَيْنِ.

رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَاللَّفْظُ لَهُ.

أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 8/ 305، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 13/ 197، وابن أبي جرادة في بغية الطلب في تاريخ حلب، 6/ 2575۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھا کرتے تھے جبکہ حضرت حسن اور حضرت حسین علیھما السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر چڑھ جاتے تو مسلمان انہیں ہٹانے لگ جاتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہوتے تو فرماتے: ان دونوں کو میرے پاس لے آؤ، جو شخص مجھ سے محبت کرتا ہے اسے چاہیے کہ وہ ان دنوں سے بھی محبت کرے۔

اِسے امام ابو نعیم نے اور ابن عساکر نے مذکورہ الفاظ سے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه، يَقُوْلُ: سُئِلَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم أَيُّ أَهْلِ بَيْتِکَ أَحَبُّ إِلَيْکَ؟ قَالَ: الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ۔ وَکَانَ يَقُوْلُ لِفَاطِمَةَ: ادْعِي لِيَ ابْنَيَّ، فَيَشُمُّهُمَا وَيَضُمُّهُمَا إِلَيْهِ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَالْمَقْدِسِيُّ وَابْنُ عَدِيٍّ فِي الْکَامِلِ وَلَمْ يَجْرَحْهُ أَحَدًا. وَقَالَ الذَّهَبِيُّ: حَسَّنَهُ التِّرْمِذِيُّ.

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسين d، 5/ 657، الرقم/ 3772، وأبو يعلی في المسند، 7/ 274، الرقم/ 4294، والمقدسي في ذخيرة الحفاظ، 3/ 1434، الرقم/ 3141، وابن عدي في الکامل، 7/ 166، الرقم/ 2072، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 14/ 153، وذکره ابن کثير في البداية والنهاية، 8/ 205، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 3/ 252، وأيضًا في تاريخ الإسلام، 4/ 35، وابن حجر الهيتمي في الصواعق المحرقة، 2/ 404.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا: آپ کو اہل بیت میں سے زیادہ کون محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حسن اور حسین۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہ سے فرمایا کرتے تھے: میرے بیٹوں کو بلاؤ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی مہک محسوس فرماتے اور انہیں اپنے ساتھ لپٹا لیتے۔

اِسے امام ترمذی، ابو یعلی، مقدسی اور ابن عدی نے بغیر کسی جرح کے الکامل میں روایت کیا ہے۔ امام ذہبی نے فرمایا: ترمذی نے اسے حسن کہا ہے۔

  1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: مَرَّ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ: اللّٰهُمَّ إِنِّي أَحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا وَأَبْغِضْ مَنْ أَبْغَضَهُمَا.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ يَعْلٰی.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3/ 49، الرقم/ 2651، وأبويعلی في المسند، 11/ 78، الرقم/ 6215.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے بیان کیا: حضرت حسن اور حسین d، رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے  اللہ ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، پس تو بھی ان دونوں کو محبوب بنا لے اورجو ان دونوں سے بغض رکھے تو بھی اُسے ناپسند کر۔

اِسے امام طبرانی اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ أَبِي حَبِيْبَةَ مَوْلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ مَرْوَانَ بْنَ الْحَکَمِ أَتٰی أَبَا هُرَيْرَةَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيْهِ، فَقَالَ مَرْوَانُ لِأَبِي هُرَيْرَةَ: مَا وَجَدْتُ عَلَيْکَ فِي شَيئٍ مُنْذُ اصْطَحَبْنَا إِلَّا فِي حُبِّکَ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ. قَالَ: فَتَحَفَّزَ أَبُوْهُرَيْرَةَ فَجَلَسَ، فَقَالَ: أَشْهَدُ لَخَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم حَتّٰی إِذَا کُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيْقِ سَمِعَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم صَوْتَ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ وَهُمَا يَبْکِيَانِ وَهُمَا مَعَ أُمِّهِمَا، فَأَسْرَعَ السَّيْرَ حَتّٰی أَتَاهُمَا، فَسَمِعْتُهُ يَقُوْلُ لَهَا: مَا شَأْنُ ابْنَيَّ؟ فَقَالَتِ: الْعَطَشُ. قَالَ: فَأَخْلَفَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم إِلٰی شَنَّةٍ(1) يَبْتَغِي(2) فِيْهَا مَائً، وَکَانَ الْمَاءُ يَوْمَئِذٍ أَغْدَارًا، وَالنَّاسُ يُرِيْدُوْنَ الْمَائَ. فَنَادٰی: هَلْ أَحَدٌ مِنْکُمْ مَعَهُ مَائٌ؟ فَلَمْ يَبْقَ أَحَدٌ إِلاَّ أَخْلَفَ بِيَدِهِ إِلٰی کُـلَابِهِ(3) يَبْتَغِي الْمَائَ فِي شَنَّةٍ، فَلَمْ يَجِدْ أَحَدٌ مِنْهُمْ قَطْرَةً، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: نَاوِلِيْنِي أَحَدَهُمَا، فَنَاوَلَتْهُ يَاهُ مِنْ تَحْتِ الْخِدْرِ، فَرَأَيْتُ بَيَاضَ ذِرَاعَيْهَا حِيْنَ نَاوَلَتْهُ، فَأَخَذَهُ فَضَمَّهُ إِلٰی صَدْرِهِ وَهُوَ يَطْغُوْ(4) مَا يَسْکُتُ، فَأَدْلَعَ لَهُ لِسَانَهُ فَجَعَلَ يَمُصُّهُ حَتّٰی هَدَأَ أَوْ سَکَنَ، فَلَمْ أَسْمَعْ لَهُ بُـکَائً ا، وَالْآخَرُ يَبْکِي کَمَا هُوْ مَا يَسْکُتُ، فَقَالَ: نَاوِلِيْنِي الْآخَرَ، فَنَاوَلَتْهُ يَاهُ فَفَعَلَ بِهِ کَذٰلِکَ، فَسَکَتَا فَمَا أَسْمَعُ لَهُمَا صَوْتًا. ثُمَّ قَالَ: سِيْرُوْا فَصَدَعْنَا يَمِيْنًا وَشِمَالًا عَنِ الظَّعَائِنِ حَتّٰی لَقِيْنَاهُ عَلٰی قَارِعَةِ الطَّرِيْقِ(5)، فَأَنَا لَا أُحِبُّ هٰذَيْنِ وَقَدْ رَأَيْتُ هٰذَا مِنْ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم .

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالآجُرِّيُّ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

  1. الشن والشنة: القربة الصغيرة البالية من جلد أو غيره، يکون الماء فيها أبرد من غيرها.
  2. الابتغاء: الطلب والالتماس.
  3. الکُلاب والکلّوب والکَلْب: حديدة معوجة الرأس. والمراد: المسمار الذي علی رأس الرحل يعلق عليه الراکب السطحية. (لسان العرب مادة: ک ل ب)
  4. يطغو: (عند الآجري: يضغو) يصيح. وفي النهاية يقال: ضغا يضغو ضغوًا وضغاءً: إذا صاح وضج.
  5. قارعة الطريق: هي وسطه وقيل: أعلاه.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3/ 50، الرقم/ 2656، والآجري في کتاب الشريعة، 5/ 2152-2153، الرقم/ 1640، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 9/ 180-181، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 13/ 221-222، والمزي في تهذيب الکمال، 6/ 231، والعسقلاني في تهذيب التهذيب، 2/ 258، وذکره السيوطي في الخصائص الکبری، 1/ 106.

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام اسحاق بن ابی حبیبہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ مروان بن حکم حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے مرضِ وصال میں ان کے پاس آیا۔ مروان نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: جب سے ہماری دوستی اور میل ملاقات ہے مجھے آپ پر کسی معاملے میں اتنا غصہ نہیں آیا جتنا آپ کی حسن اور حسین ( علیھما السلام ) کے لیے محبت پر آتاہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ (یہ سن کر) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اٹھ کے بیٹھ گئے۔ پھر فرمایا: میں خود گواہ ہوں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر پر روانہ ہوئے، ہم راستے میں جا رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن اور حسین علیھما السلام دونوں کے رونے کی آواز سنی اور وہ دونوں اپنی والدہ ماجدہ (سیدہ فاطمہ) کے ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیز چلتے ہوئے ان کے پاس پہنچ گئے۔ (حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہکہتے ہیں کہ) میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سیدہ فاطمہ سے یہ فرماتے ہوئے سنا: میرے بیٹوں کو کیا ہوا؟ انہوں نے عرض کیا: اِنہیں سخت پیاس لگی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پانی لینے کے لیے پیچھے مشکیزے کی طرف گئے۔ اُن دنوں پانی کی سخت قلت تھی اور لوگوں کو پانی کی شدید ضرورت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آواز دی: کیا کسی کے پاس پانی موجود ہے؟ ہر ایک نے کجاووں سے لٹکتے ہوئے مشکیزوں میں پانی دیکھا مگر ان میں سے کسی ایک کو بھی قطرہ تک نہ ملا۔ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ سے فرمایا: ایک بچہ مجھے دو اُنہوں نے ایک کو پردے کے نیچے سے پکڑایا۔ میں نے ان کی مبارک کلائیوں کی سفیدی کو دیکھا جب انہوں نے شہزادے کو پردے کے نیچے سے پکڑایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے پکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا مگر وہ سخت پیاس کی وجہ سے مسلسل رو رہا تھا اور خاموش نہیں ہو رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کے منہ میں اپنی زبان مبارک ڈال دی بچہ اُسے چوسنے لگا یہاں تک کہ سیرابی کے بعد پر سکون ہوگیا۔ میں نے پھر اُس کے رونے کی آواز نہ سنی، جب کہ دوسرا بھی اُسی طرح مسلسل رو رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دوسرا بھی مجھے دے دو۔ سیدہ کائنات نے دوسرے بچے کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے کر دیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے ساتھ بھی وہی معاملہ کیا (یعنی زبان مبارک اس کے منہ میں ڈالی)، وہ دونوں (سیراب ہو کر) ایسے خاموش ہوئے کہ میں نے دوبارہ اُن کے رونے کی آواز نہ سنی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: چلو، تو ہم خواتین کے دائیں اور بائیں جانب بکھر گئے یہاں تک کہ ہم نے وسط راہ میں آپ کو آلیا، لہٰذا میں ان دونوں (شہزادوں) سے یوں ہی محبت نہیں کرتا بلکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔ (یعنی حسنین کریمین سے محبت دین میں سنتِ موکدہ کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔)

اِسے امام طبرانی اور آجری نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اس کے رجال ثقہ ہیں۔

  1. عَنْ يَعْلَی بْنِ مُرَّةَ رضي الله عنه: أَنَّ حَسَنًا وَحُسَيْنًا أَقْبَـلَا يَمْشِيَانِ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَلَمَّا جَائَ أَحَدُهُمَا جَعَلَ يَدَهُ فِي عُنُقِهِ، ثُمَّ جَاءَ الْآخَرُ فَجَعَلَ يَدَهُ الْأُخْرٰی فِي عُنُقِهِ، فَقَبَّلَ هٰذَا، ثُمَّ قَبَّلَ هٰذَا، ثُمَّ قَالَ: اَللّٰهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا، أَيُهَا النَّاسُ، إِنَّ الْوَلَدَ مَبْخَلَةٌ مَجْبَنَةٌ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالْقُضَاعِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3/ 32، الرقم/ 2587، وأيضًا في، 22/ 274، الرقم/ 703، وعبد الرزاق في المصنف، 11/ 140، الرقم/ 20143، والبيهقي في الأسماء والصفات، 2/ 389، الرقم/ 965، والقضاعي في مسند الشهاب، 1/ 50، الرقم/ 26، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 10/ 54.

حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: حضرت حسن اور حضرت حسین چلتے ہوئے رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف آئے، جب ان میں سے ایک پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا بازو مبارک اس کے گلے میں ڈالا، پھر دوسرا پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دوسرا بازو مبارک اس کے گلے میں ڈالا۔ بعد ازاں ایک کو چوما اور پھر دوسرے کو چوما اور فرمایا: اے  اللہ ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما۔ اے لوگو! بے شک اولاد بخل اور بزدلی (کے اسباب میں سے ایک) ہے۔

اِسے امام طبرانی، عبد الرزاق، بیہقی اور قضاعی نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ سَلْمَانَ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، يَقُوْلُ: الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ ابْنَايَ، مَنْ أَحَبَّهُمَا أَحَبَّنِي، وَمَنْ أَحَبَّنِي أَحَبَّهُ اللهُ، وَمَنْ أَحَبَّهُ اللهُ أَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمَا أَبْغَضَنِي، وَمَنْ أَبْغَضَنِي أَبْغَضَهُ اللهُ، وَمَنْ أَبْغَضَهُ اللهُ أَدْخَلَهُ النَّارَ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ، وَقَالَ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ.

أخرجه الحاکم في المستدرک، باب مناقب الحسن والحسين ابني بنت رسول  اللہ  صلی الله عليه وآله وسلم، 3/ 181، الرقم/ 4776، وذکرہ الہندي في کنز العمال، 12/ 55، الرقم/ 34286، وقال: صحيح.

حضرت سلمان (فارسی) رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا: حسن اور حسین علیھما السلام میرے بیٹے ہیں۔ جس نے ان دونوں سے محبت کی، اُس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی، اس سے اللہ تعالیٰ نے محبت کی اور جس سے اللہ تعالیٰ نے محبت کی  اللہ  تعالیٰ نے اسے جنت میں داخل کر دیا۔ جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا، اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اس پر  اللہ  کا غضب ہوا اور جس پر  اللہ  کا غضب ہوا اللہ اُسے آگ میں داخل کر دے گا۔

اِسے امام حاکم نے روایت کیا اور فرمایا: یہ حدیث امام بخاری اور مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔

  1. عَنْ سَلْمَانَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم لِلْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ: مَنْ أَحَبَّهُمَا أَحْبَبْتُهُ، وَمَنْ أَحْبَبْتُهُ أَحَبَّهُ اللهُ، وَمَنْ أَحَبَّهُ اللهُ أَدْخَلَهُ جَنَّاتِ النَّعِيْمِ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمَا(1) أَوْ بَغٰی عَلَيْهِمَا(2) أَبْغَضْتُهُ، وَمَنْ أَبَغَضْتُهُ أَبْغَضَهُ اللهُ، وَمَنْ أَبْغَضَهُ اللهُ أَدْخَلَهُ عَذَابَ جَهَنَّمَ وَلَهُ عَذَابٌ مُّقِيْمٌ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

  1. اَلبُغْضُ: عکس الحبّ وهو الکُره والمقت.(النهاية)
  2. بغٰی عليه: اعتدٰی عليه وظلمه.(النهاية)

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3/ 50، الرقم/ 2655، وأبو نعيم في معرفة الصحابة، 2/ 669، الرقم/ 1797، وأيضًا في تاريخ أصبهان، 1/ 82، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 14/ 156، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 9/ 181، والهندي في کنز العمال، 12/ 55، الرقم/ 34284.

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسن اور امام حسین علیھما السلام کے لیے فرمایا: جس نے ان دونوں سے محبت کی، اس سے میں نے محبت کی، اور جس سے میں محبت کروں اس سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے، اور جس سے اللہ تعالیٰ محبت رکھتا ہے اسے نعمتوں والے باغات (یعنی جنت) میں داخل کر دے گا۔ جس نے ان دونوں سے بغض رکھا یا ان دونوں سے بغاوت کی، اس سے میں ناراض ہو جاؤں گا اور جس سے میں ناراض ہو گیا اس سے  اللہ  ناراض ہو گا اور جس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوگیا تو وہ اُسے جہنم کے عذاب میں داخل کر دے گا اور اس کے لئے ہمیشگی کا عذاب ہو گا۔

اِسے امام طبرانی، ابو نعیم اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِِي وَقَّاصٍ رضي الله عنه قَالَ: دَخَلْتُ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ يَلْعَبَانِ عَلٰی بَطْنِهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَتُحِبُّهُمَا؟ فَقَالَ: وَمَالِي لَا أُحِبُّهُمَا، رَيْحَانَتَايَ.

رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَأَبُوْ سَعْدٍ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

  1. الريحان: الرزق وَيُسمی الْوَلَد ريحانا. (أبو عبد  اللہ  بن أبي نصر الأزدي (م488ـ)، تفسير غريب ما في الصحيحين البخاري ومسلم/ 200.
  2. قال: مع أنکم من ريحان  اللہ : أي من رزق  اللہ . يقال: سبحان  اللہ  وريحانة: أي أسبّحہ وأسترزقہ. وقال النمر: سلامُ الإلہ وَرَيْحانُہ ... وَرَحْمَتُہ وسَمَاء ٌ درَرْ.

وبعده ... غَمَامٌ يُنزِّلُ رزْق العباد ... فأحْيَا البلاد وطاب الشَّحَر.

  1. وهو مخفْف عن ريحِّان فَيعْلان من الروُّح لأن انتعاشه بالرزق. (الزمخشري (م538هـ)، الفائق في غريب الحديث والأثر، 1/ 185.
  2. الرَّيْحَانُ الوَلَدُ ويُحْتَمَلُ أَنْ يُرَادَ بِهِ أَنَّ شَمَّ الوَلَدِ کَشَمِّ الرَّيْحَانِ. في الحديث: الرّيح من رَوْحِِ اللهِ؛ أي من رحمته. (ابن الجوزي (م597هـ)، غريب الحديث، 1/ 419.
  3. رَيْحَانٌ: فِيهِ: إِنَّکُمْ لتُبَخِّلُون وتُجَهِلون وتُجَبِّنون، وإنَّکم لَمِنْ رَيْحَانِ اللهِ. يَعْنِي الْأَوْلَادَ. الرَّيْحَانُ: يُطلقُ عَلَی الرَّحمة وَالرِّزْقِ والرَّاحة، وَبِالرِّزْقِ سُمّي الولدُ رَيْحَانًا. (ابن الأثير (م606هـ)، النهاية في غريب الحديث والأثر، 2/ 288.

أخرجه البزار في المسند، 3/ 286، الرقم/ 1078، وأبو نعيم في معرفة الصحابة، 2/ 663، الرقم/ 1767، وأبو سعد النيسابوري في شرف المصطفٰی صلی الله عليه وآله وسلم، 5/ 339، الرقم/ 2297، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 9/ 181، والهندي في کنز العمال، 13/ 288، الرقم/ 37715.

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا: میں رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو (دیکھا کہ) حسن اور حسین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شکم مبارک پر کھیل رہے تھے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول  اللہ ! کیا آپ ان دونوں سے محبت کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں ان سے محبت کیوں نہ کروں۔ (یہ) دونوں میرے پھول ہیں۔

اِسے امام بزار، ابو نعیم اور ابو سعد نیشاپوری نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اسے امام بزار نے روایت کیا ہے اور اس حدیث کے رجال صحیح کے رجال ہیں۔

  1. عَنْ أَبِي أَيُوْبَ الْأَنْصَارِيِّ رضي الله عنه، قَالَ: دَخَلْتُ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ عليهما السلام يَلْعَبَانِِِ بَيْنَ يَدَيْهِ، وَفِي حِجْرِهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَتُحِبُّهُمَا؟ قَالَ: وَکَيْفَ لَا أُحِبُّهُمَا وَهُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْيَا أَشُمُّهُمَا.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 4/ 155، الرقم/ 3990، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 14/ 130، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 9/ 181، والهندي في کنز العمال، 12/ 56، الرقم/ 34296، والعيني في عمدة القاري، 16/ 243، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 6/ 32.

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوا تو (دیکھا کہ) حسن اور حسین علیھما السلام، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود مبارک میں کھیل رہے تھے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول  اللہ ! کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے محبت کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں ان سے محبت کیوں نہ کروں، وہ میرے گلشنِ دُنیا کے دو پھول ہیں جن کی مہک میں محسوس کرتا رہتا ہوں۔

اِسے امام طبرانی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعَتْ أُذُنَايَ هَاتَانِ، وَأَبْصَرَتْ عَيْنَايَ هَاتَانِ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُوَ آخِذٌ بِکَفَّيْهِ جَمِيْعًا حَسَنًا أَوْ حُسَيْنًا وَقَدَمَاهُ عَلٰی قَدَمَي رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُوَ يَقُوْلُ: حُزُقَّهُ حُزُقَّهُ، ارْقَ عَيْنَ بَقَّةٍ فَيَرْقَی الْغُـلَامُ حَتّٰی يَضَعَ قَدَمَيْهِ عَلٰی صَدْرِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، ثُمَّ قَالَ لَهُ: افْتَحْ. قَالَ: ثُمَّ قَبَّلَهُ، ثُمَّ قَالَ: اَللّٰهُمَّ، أَحِبَّهُ فَإِنِّي أُحِبُّهُ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الأَدَبِ وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَفِيْهِ أَبُوْ مُزَرِّدٍ وَلَمْ أَجِدْ مَنْ وَثَّقَهُ، وَبَقِيَهُ رِجَالِهِ رِجَالُ الصَّحِيْحِ۔ وَقَالَ الأَلْبَانِيُّ: قُلْتُ: وَرِجَالُهُ کُلُّهُمْ ثِقَاتٌ مَعْرُوْفُوْنَ غَيْرُ أَبِي مُزَرِّدٍ وَالِدِ مُعَاوِيَةَ وَاسْمُهُ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ يَسَارٍ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3/ 49، الرقم/ 2653، والبخاري في الأدب المفرد/ 96، الرقم/ 249، وابن عبد البر في الاستيعاب، 1/ 397، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 13/ 194، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 9/ 176، والهندي في کنز العمال، 13/ 286، الرقم/ 37701، والسيوطي في جامع الأحاديث، 34/ 421، الرقم/ 37626، والألباني في سلسلة الأحاديث الضعيفة، 7/ 483، الرقم/ 3486.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے ان دونوں کانوں نے سنا اور ان دونوں آنکھوں نے رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی دونوں ہتھیلیوں سے حضرت حسن یا حسین کو پکڑے ہوئے تھے اور ان کے دونوں قدم رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین مبارک پر تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے: اے لڑکھڑا کر چلنے والے! اے لڑکھڑا کر چلنے والے! اور اے (میری) آنکھ کے تارے اوپر چڑھ جاؤ، پھر وہ اوپر چڑھتے ہیں یہاں تک کہ اپنے دونوں قدم رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ اقدس پر رکھتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے فرماتے ہیں: اپنا منہ کھولو، اور اسے چومتے ہیں، پھر فرماتے ہیں: اے  اللہ ! اس سے محبت فرما بے شک میں بھی اس سے محبت کرتا ہوں۔

اِسے امام طبرانی نے، امام بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں، ابن عبد البر اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

امام ہیثمی نے فرمایا: اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے، اور اس میں ایک راوی ابو مزرد ہیں اور میں نے کوئی ایسا شخص نہیں پایا جو ان کو ثقہ قرار دیتا ہو، اور اس حدیث کے بقیہ رجال صحیح کے رجال ہیں۔ البانی نے کہا: میں کہتاہوں: اس کے سارے رجال ثقہ اور معروف ہیں سوائے معاویہ کے والد ابو مزرد کے، اور اس کا نام عبد الرحمن بن یسار ہے۔

  1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: وَقَفَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلٰی بَيْتِ فَاطِمَةَ فَسَلَّمَ، فَخَرَجَ إِلَيْهِ الْحَسَنُ أَوِ الْحُسَيْنُ، فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: اِرْقَ بِأَبِيْکَ أَنْتَ عَيْنُ بَقَّةٍ. وَأَخَذَ بِأُصْبُعَيْهِ، فَرَقٰی عَلٰی عَاتِقِهِ، ثُمَّ خَرَجَ الْآخَرُ الْحَسَنُ أَوِ الْحُسَيْنُ مُرْتَفِعَةً إِحْدٰی عَيْنَيْهِ، فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: مَرْحَبًا بِکَ، اِرْقَ بِأَبِيْکَ أَنْتَ عَيْنُ الْبَقَّةِ، وَأَخَذَ بِأُصْبُعَيْهِ فَاسْتَوٰی عَلٰی عَاتِقِهِ الآخَرِ، وَأَخَذَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم بِأَقْفِيَتِهِمَا حَتّٰی وَضَعَ أَفْوَاهَهُمَا عَلٰی فِيْهِ، ثُمَّ قَالَ: اَللّٰهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا وَأَحِبَّ مَنْ يُحِبُّهُمَا.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3/ 49، الرقم/ 2652، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 9/ 180، والهندي في کنز العمال، 13/ 286، الرقم/ 37700، والسيوطي في جامع الأحاديث، 34/ 374، الرقم/ 37533، والصالحي في سبل الهدی والرشاد، 7/ 117.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے بیان کیا: ایک دفعہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر کے سامنے رک کر انہیں سلام کیا۔ اتنے میں حضرت حسن یا حسین علیھما السلام (دونوں میں سے) ایک شہزادہ گھر سے باہر نکل آیا تو رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا: اپنے باپ کے کندھے پر سوار ہو جاؤ تم تو (میری) آنکھ کا تارا ہو اور اسے انگلیاں پکڑا کر اپنے کندھے مبارک پر سوار کر لیا۔ پھر حسن یا حسین میں سے دوسرا شہزادہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ترچھی آنکھوں سے تکتا ہوا باہر نکل آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بھی فرمایا: خوش آمدید، اپنے باپ کے کندھے پر سوار ہو جاؤ تم (بھی میری) آنکھ کا تارا ہو۔ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے انگلیاںپکڑا کر دوسرے کاندھے پر سوار کر لیا اور رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ان کی گردنوں سے پکڑا یہاں تک کہ ان دونوں کے منہ کو اپنے منہ مبارک پر رکھ دیا، اور پھر فرمایا: اے  اللہ ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما اور اس سے بھی محبت فرما جو ان سے محبت کرتا ہے۔

اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عليهما السلام، قَالَ: جَائَ الْعَبَّاسُ يَعُوْدُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي مَرَضِهِ، فَرَفَعَهُ فَأَجْلَسَهُ فِي مَجْلِسِهِ عَلَی السَّرِيْرِ، فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: رَفَعَکَ اللهُ يَا عَمِّ۔ فَقَالَ الْعَبَّاسُ: هٰذَا عَلِيٌّ يَسْتَأْذِنُ. فَقَالَ: يَدْخُلُ فَدَخَلَ وَمَعَهُ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: هٰؤُلَائِ وَلَدُکَ يَا رَسُوْلَ اللهِ. قَالَ: وَهُمْ وَلَدُکَ يَا عَمِّ. قَالَ: أَتُحِبُّهُمْ؟ فَقَالَ: أَحَبَّکَ اللهُ کَمَا أُحِبُّهُمْ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَالْهَيْثَمِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 3/ 217، الرقم/ 2962، وأيضًا في المعجم الصغير، 1/ 159، الرقم/ 246، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 13/ 196، وأيضًا في، 14/ 157، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 9/ 173، والهندي في کنز العمال، 13/ 288، الرقم/ 37711، والمحب الطبري في ذخائر العقبی/ 121.

حضرت (عبد اللہ) بن عباس علیھما السلام نے بیان فرمایا: حضرت عباس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیماری میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عیادت کے لیے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اٹھایا اور پلنگ پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسند پر بٹھایا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا: اے میرے چچا جان! اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے، تو حضرت عباس نے عرض کیا: یہ حضرت علی ہیں، آپ سے اجازت مانگ رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: داخل ہو جائے، تو وہ داخل ہو گئے اور ان کے ساتھ حضرت حسن اور حضرت حسین بھی تھے، تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یا رسول اللہ! یہ آپ کے بچے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے میرے چچا جان! یہ آپ کے بھی بچے ہیں۔ انہوں نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) کیا آپ ان سے محبت کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (اے چچا جان!) اللہ تعالیٰ آپ سے محبت فرمائے جیسے میں ان سے محبت کرتا ہوں۔

اِسے امام طبرانی، ابن عساکر اور ہیثمی نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ عَلِيٍّ رضي الله عنه قَالَ: أَخْبَرَنِي رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: أَنَّ أَوَّلَ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ أَنَا وَفَاطِمَهُ وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ. قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، فَمُحِبُّوْنَا؟ قَالَ: مِنْ وَرَائِکُمْ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَالْهَيْتَمِيُّ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ: صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

أخرجه الحاکم في المستدرک، باب ذکر مناقب فاطمة بنت رسول  اللہ  صلی الله عليه وآله وسلم، 3/ 164، الرقم/ 4723، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 14/ 169، وذکره ابن حجر الهيتمي في الصواعق المحرقة، 2/ 448، ومحب الدين في ذخائر العقبی/ 123، والهندي في کنز العمال، 13/ 275، الرقم/ 37617، والسيوطي في جامع الأحاديث، 29/ 272، الرقم/ 32128.

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: انہوں نے بیان فرمایا: رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے خبر دی کہ سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والوں میں سے، میں (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ خود)، فاطمہ، حسن اور حسین ہیں۔ میں نے عرض کیا: یا رسول  اللہ ! اور ہم سے محبت کرنے والے (کہاں ہوں گے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے پیچھے پیچھے (داخل ہوں گے)۔

اِسے امام حاکم، ابن عساکر اور ابن حجر ہیتمی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اس حدیث کی اسناد صحیح ہیں۔

  1. عَنْ عَلِيٍّ رضي الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: أَنَا وَفَاطِمَهُ وَحَسَنٌ وَحُسَيْنٌ مُجْتَمِعُوْنَ، وَمَنْ أَحَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، نَأْکُلُ وَنَشْرَبُ حَتّٰی يُفَرَّقَ بَيْنَ الْعِبَادِ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3/ 41، الرقم/ 2623، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 9/ 174، والهندي في کنز العمال، 12/ 46، الرقم/ 34165، والسيوطي في جامع الأحاديث، 7/ 39، الرقم/ 5752.

حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں، فاطمہ، حسن، حسین اور جو ہم سے محبت کرتے ہیں قیامت کے دن ایک ہی مقام پر جمع ہوں گے۔ ہم (اکٹھے) کھائیں گے، پیئیں گے حتیٰ کہ (محبت کرنے اور نہ کرنے والے) لوگوں کے درمیان تفریق کر دی جائے گی۔

اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عليهما السلام قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم بِأُذُنَيَّ وَإِلَّا فَصَمَتَا وَهُوَ يَقُوْلُ: أَنَا شَجَرَةٌ، وَفَاطِمَهُ حَمْلُهَا، وَعَلِيٌّ لِقَاحُهَا، وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ ثَمْرَتُهَا، وَالْمُحِبُّوْنَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَرَقُهَا، مِنَ الْجَنَّةِ حَقًّا حَقًّا.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالدَّيْلَمِيُّ.

أخرجه الحاکم في المستدرک، باب ذکر مناقب فاطمة بنت رسول  اللہ  صلی الله عليه وآله وسلم، 3/ 174، الرقم/ 4755، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 14/ 168، والديلمي في مسند الفرودس، 1/ 52، الرقم/ 135.

حضرت (عبد  اللہ ) بن عباس علیھما السلام سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے اپنے ان دونوں کانوں سے رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا اور اگر ایسا نہ ہو تو یہ دونوں کان بہرے ہو جائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے: میں درخت ہوں، فاطمہ اس کی ٹہنی ہے، علی اس کا شگوفہ اور حسن اور حسین اس کا پھل ہیں اور اہل بیت سے محبت کرنے والے اس کے پتے ہیں، یہ سب جنت میں ہوں گے، یہ حق ہے، یہ حق ہے۔

اِسے امام حاکم نے اور ابن عساکر نے مذکورہ الفاظ سے اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ عليهما السلام، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، اَللّٰهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْمَقْدِسِيُّ نَحْوَهُ بِسَنَدٍ صَحِيْحٍ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3/ 39، الرقم/ 2618، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 4/ 113، الرقم/ 1324، وذکره ابن الخطيب في وسيلة الإسلام بالنبي عليه الصلاة والسلام/ 78، والهندي في کنز العمال، 12/ 55، الرقم/ 34285.

حضرت اسامہ بن زید علیھما السلام روایت کرتے ہیں: رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حسن اور حسین دونوں جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں، تو بھی ان سے محبت فرما۔

اِسے امام طبرانی نے جب کہ مقدسی نے اسی کی مثل روایت اِسنادِ صحیح سے بیان کی ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved