اربعین: فضیلت و حقیقت ایمان

ایمان کی فضیلت اور اس کا اجر

فَضْلُ الإِيْمَانِ وَأَجْرُهُ

{اِیمان کی فضیلت اور اُس کا اَجر}

الْقُرْآن

(1) وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَيَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْکُمْ شَهِيْدًا ط وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِيْ کُنْتَ عَلَيْهَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَيْهِ ط وَاِنْ کَانَتْ لَکَبِيْرَةً اِلَّا عَلَی الَّذِيْنَ هَدَی اللهُ ط وَمَا کَانَ اللهُ لِيُضِيْعَ اِيْمَانَکُمْ ط اِنَّ اللهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌo

(البقرة، 2/ 143)

اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور (ہمارا یہ برگزیدہ) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ ہو، اور آپ پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے صرف اس لیے مقرر کیا تھا کہ ہم (پرکھ کر) ظاہر کر دیں کہ کون (ہمارے) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرتا ہے (اور) کون اپنے الٹے پاؤں پھر جاتا ہے، اور بے شک یہ (قبلہ کا بدلنا) بڑی بھاری بات تھی مگر ان پر نہیں جنہیں اللہ نے ہدایت (و معرفت) سے نوازا، اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ تمہارا ایمان (یونہی) ضائع کردے، بے شک اللہ لوگوں پر بڑی شفقت فرمانے والا مہربان ہے۔

(2) وَلَا تَهِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَo

(آل عمران، 3/ 139)

اور تم ہمت نہ ہارو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب آؤ گے اگر تم (کامل) ایمان رکھتے ہو۔

(3) اَلَّذِيْنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَـکُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ اِيْمَانًا ق وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَکِيْلُo

(آل عمران، 3/ 173)

(یہ) وہ لوگ (ہیں) جن سے لوگوں نے کہا کہ مخالف لوگ تمہارے مقابلے کے لیے (بڑی کثرت سے) جمع ہو چکے ہیں سو ان سے ڈرو تو (اس بات نے) ان کے ایمان کو اور بڑھا دیا اور وہ کہنے لگے: ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ کیا اچھا کارساز ہے۔

(4) وَمَنْ يَکْفُرْ بِالْاِيْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ ز وَهُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَo

(المائدة، 5/ 5)

اور جو شخص (احکامِ الٰہی پر) ایمان (لانے) سے انکار کرے تو اس کا سارا عمل برباد ہوگیا اور وہ آخرت میں (بھی) نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔

(5) اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُکِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَاِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ اٰيٰـتُهُ زَادَتْهُمْ اِيْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّهِمْ يَتَوَکَّلُوْنَo

(الأنفال، 8/ 2)

ایمان والے (تو) صرف وہی لوگ ہیں کہ جب (ان کے سامنے) اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے (تو) ان کے دل (اس کی عظمت و جلال کے تصور سے) خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ (کلامِ محبوب کی لذت انگیز اور حلاوت آفریں باتیں) ان کے ایمان میں زیادتی کر دیتی ہیں اور وہ (ہر حال میں) اپنے رب پر توکل (قائم) رکھتے ہیں (اور کسی غیر کی طرف نہیں تکتے)۔

(6) وَعَدَ اللهُ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا وَمَسٰکِنَ طَيِّبَةً فِيْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ط وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللهِ اَکْبَرُ ط ذٰلِکَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُo

(التوبة، 9/ 72)

اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے جنتوں کا وعدہ فرما لیا ہے جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں اور ایسے پاکیزہ مکانات کا بھی (وعدہ فرمایا ہے) جوجنت کے خاص مقام پر سدا بہار باغات میں ہیں، اور (پھر) اللہ کی رضا اور خوشنودی (ان سب نعمتوں سے) بڑھ کر ہے (جو بڑے اجر کے طور پر نصیب ہو گی)، یہی زبردست کامیابی ہے۔

(7) وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ فَمِنْهُمْ مَّنْ يَقُوْلُ اَيُکُمْ زَادَتْهُ هٰذِهِ اِيْمَانًاج فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْهُمْ اِيْمَانًا وَّهُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَo

(التوبة، 9/ 124)

اور جب بھی کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو ان (منافقوں) میں سے بعض (شرارتاً) یہ کہتے ہیں کہ تم میں سے کون ہے جسے اس (سورت) نے ایمان میں زیادتی بخشی ہے، پس جو لوگ ایمان لے آئے ہیں سو اس (سورت) نے ان کے ایمان کو زیادہ کردیا اور وہ (اس کیفیت ایمانی پر) خوشیاں مناتے ہیں۔

(8) اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ يَهْدِيْهِمْ رَبُّهُمْ بِاِيْمَانِهِمْ ج تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰـرُ فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِo

(يونس، 10/ 9)

بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے انہیں ان کا رب ان کے ایمان کے باعث (جنتوں تک) پہنچا دے گا، جہاں ان (کی رہائش گاہوں) کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہوں گی (یہ ٹھکانے) اُخروی نعمت کے باغات میں (ہوں گے)۔

(9) ثُمَّ نُنَجِّيْ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کَذٰلِکَج حَقًّا عَلَيْنَا نُنْجِ الْمُؤْمِنِيْنَo

(يونس، 10/ 103)

پھر ہم اپنے رسولوں کو بچالیتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی جو اس طرح ایمان لے آتے ہیں (یہ بات) ہمارے ذمہء کرم پر ہے کہ ہم ایمان والوں کو بچا لیں۔

(10) وَيَزِيْدُ اللهُ الَّذِيْنَ اهْتَدَوْا هُدًی ط وَالْبٰـقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّخَيْرٌ مَّرَدًّاo

(مريم، 19/ 76)

اور اللہ ہدایت یافتہ لوگوں کی ہدایت میں مزید اضافہ فرماتا ہے، اور باقی رہنے والے نیک اعمال آپ کے رب کے نزدیک اجر و ثواب میں (بھی) بہتر ہیں اور انجام میں (بھی) خوب تر ہیں۔

(11) وَالَّذِيْنَ هُمْ بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُوْنَo وَالَّذِيْنَ هُمْ بِرَبِّهِمْ لَا يُشْرِکُوْنَo وَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰی رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَo اُولٰٓـئِکَ يُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَيْرٰتِ وَهُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَo

(المؤمنون، 23/ 58-61)

اور جو لوگ اپنے رب کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور جو لوگ اپنے رب کے ساتھ (کسی کو) شریک نہیں ٹھہراتے۔ اور جو لوگ (اللہ کی راہ میں اتنا کچھ) دیتے ہیں جتنا وہ دے سکتے ہیں اور (اس کے باوجود) ان کے دل خائف رہتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں (کہیں یہ نا مقبول نہ ہو جائے)۔ یہی لوگ بھلائیوں (کے سمیٹنے میں) جلدی کر رہے ہیں اور وہی اس میں آگے نکل جانے والے ہیں۔

(12) هُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ السَّکِيْنَةَ فِيْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِيْنَ لِيَزْدَادُوْٓا اِيْمَانًا مَّعَ اِيْمَانِهِمْ ط وَ ِﷲِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط وَکَانَ اللهُ عَلِيْمًا حَکِيْمًاo

(الفتح، 48/ 4)

وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں تسکین نازل فرمائی۔ تاکہ ان کے ایمان پر مزید ایمان کا اضافہ ہو (یعنی علم الیقین، عین الیقین میں بدل جائے)، اور آسمانوں اور زمین کے سارے لشکر اللہ ہی کے لیے ہیں، اور اللہ خوب جاننے والا، بڑی حکمت والا ہے۔

(13) وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ فِيْکُمْ رَسُوْلَ اللهِ ط لَوْ يُطِيْعُکُمْ فِيْ کَثِيْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلٰـکِنَّ اللهَ حَبَّبَ اِلَيْکُمُ الْاِيْمَانَ وَزَيَنَهُ فِيْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّهَ اِلَيْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْيَانَ ط أُولٰٓئِکَ هُمُ الرّٰشِدُوْنَo

(الحجرات، 49/ 7)

اور جان لو کہ تم میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود ہیں، اگر وہ بہت سے کاموں میں تمہارا کہنا مان لیں تو تم بڑی مشکل میں پڑ جاؤ گے لیکن اللہ نے تمہیں ایمان کی محبت عطا فرمائی اور اسے تمہارے دلوں میں آراستہ فرمادیا اور کفر اور نافرمانی اور گناہ سے تمہیں متنفرّ کر دیا، ایسے ہی لوگ دین کی راہ پر ثابت اور گامزن ہیں۔

(14) يَمُنُّوْنَ عَلَيْکَ اَنْ اَسْلَمُوْا ط قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَيَ اِسْلَامَکُمْ ج بَلِ اللهُ يَمُنُّ عَلَيْکُمْ اَنْ هَدٰکُمْ لِلْاِيْمَانِِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِيْنَo

(الحجرات، 49/ 17)

یہ لوگ آپ پر احسان جتلاتے ہیں کہ وہ اسلام لے آئے ہیں۔ فرما دیجئے: تم اپنے اسلام کا مجھ پر احسان نہ جتلاؤ بلکہ اللہ تم پر احسان فرماتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا راستہ دکھایا ہے، بشرطیکہ تم (ایمان میں) سچے ہو۔

(15) لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللهَ وَرَسُوْلَهُ وَلَوْکَانُوْٓا اٰبَآئَ هُمْ اَوْ اَبْنآئَهُمْ اَوْاِخْوانَهُمْ اَوْ عَشِيْرَتَهُمْ ط اُولٰٓئِکَ کَتَبَ فِيْ قُلُوْبِهِمُ الْاِيْمَانَ وَاَيَدَ هُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ ط وَيُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ط رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ ط اُولٰٓئِکَ حِزْبُ اللهِ ط اَ لَآ اِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَo

(المجادلة، 58/ 22)

آپ اُن لوگوں کو جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں کبھی اس شخص سے دوستی کرتے ہوئے نہ پائیں گے جو اللہ اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دشمنی رکھتا ہے خواہ وہ اُن کے باپ (اور دادا) ہوں یا بیٹے (اور پوتے) ہوں یا اُن کے بھائی ہوں یا اُن کے قریبی رشتہ دار ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اُس (اللہ) نے ایمان ثبت فرما دیا ہے اور انہیں اپنی روح (یعنی فیضِ خاص) سے تقویت بخشی ہے، اور انہیں (ایسی) جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ اُن میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، اللہ اُن سے راضی ہوگیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے ہیں، یہی اللہ (والوں) کی جماعت ہے، یاد رکھو! بے شک اللہ (والوں) کی جماعت ہی مراد پانے والی ہے۔

(16) وَالَّذِيْنَ تَبَوَّؤُا الدَّارَ وَالْاِيْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُوْنَ فِيْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ کَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ط وَمَنْ يُوْقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَاُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَo

(الحشر، 59/ 9)

(یہ مال اُن انصار کے لیے بھی ہے) جنہوں نے اُن (مہاجرین) سے پہلے ہی شہرِ (مدینہ) اور ایمان کو گھر بنالیا تھا۔ یہ لوگ اُن سے محبت کرتے ہیں جو اِن کی طرف ہجرت کر کے آئے ہیں۔ اور یہ اپنے سینوں میں اُس (مال) کی نسبت کوئی طلب (یا تنگی) نہیں پاتے جو اُن (مہاجرین) کو دیا جاتا ہے اور اپنی جانوں پر انہیں ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود اِنہیں شدید حاجت ہی ہو، اور جو شخص اپنے نفس کے بُخل سے بچالیا گیا پس وہی لوگ ہی با مراد و کامیاب ہیں۔

(17) وَالَّذِيْنَ جَآئُوْا مِنْم بَعْدِهِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رَئُوْفٌ رَّحِيْمٌo

(الحشر، 59/ 10)

اور وہ لوگ (بھی) جو اُن (مہاجرین و انصار) کے بعد آئے (اور) عرض کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی، جو ایمان لانے میں ہم سے آگے بڑھ گئے اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے لیے کوئی کینہ اور بغض باقی نہ رکھ۔ اے ہمارے رب! بے شک تو بہت شفقت فرمانے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔

(18) وَمَا جَعَلْنَآ اَصْحٰبَ النَّارِ اِلاَّ مَلٰٓئِکَةً ص وَّمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ اِلاَّ فِتْنَةً لِّلَّذِيْنَ کَفَرُوْالا لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَيَزْدَادَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِيْمَانًا وَّلَا يَرْتَابَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَالْمُؤْمِنُوْنَ.

(المدثر، 74/ 31)

اور ہم نے دوزخ کے داروغے صرف فرشتے ہی مقرر کیے ہیں اور ہم نے ان کی گنتی کافروں کے لیے محض آزمائش کے طور پر مقرر کی ہے تاکہ اہلِ کتاب یقین کر لیں (کہ قرآن اور نبوتِ محمدی حق ہے کیوں کہ ان کی کتب میں بھی یہی تعداد بیان کی گئی تھی) اور اہلِ ایمان کا ایمان (اس تصدیق سے) مزید بڑھ جائے، اور اہلِ کتاب اور مومنین (اس کی حقانیت میں) شک نہ کرسکیں۔

الْحَدِيْث

1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَوْ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضي الله عنه - شَکَّ الْأَعْمَشُ - قَالَ: لَمَّا کَانَ غَزْوَةُ تَبُوْکَ أَصَابَ النَّاسَ مَجَاعَةٌ، قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، لَوْ أَذِنْتَ لَنَا، فَنَحَرْنَا نَوَاضِحَنَا، فَأَکَلْنَا وَادَّهَنَّا. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : اِفْعَلُوْا. قَالَ: فَجَائَ عُمَرُ رضي الله عنه فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنْ فَعَلْتَ قَلَّ الظَّهْرُ وَلٰـکِنِ ادْعُهُمْ بِفَضْلِ أَزْوَادِهِمْ ثُمَّ ادْعُ اللهَ لَهُمْ عَلَيْهَا بِالْبَرَکَةِ، لَعَلَّ اللهَ أَنْ يَجْعَلَ فِي ذٰلِکَ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : نَعَمْ، قَالَ: فَدَعَا بِنِطَعٍ، فَبَسَطَهُ، ثُمَّ دَعَا بِفَضْلِ أَزْوَادِهِمْ. قَالَ: فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيئُ بِکَفِّ ذُرَةٍ. قَالَ: وَيَجِيئُ الْآخَرُ بِکَفِّ تَمْرٍ. قَالَ: وَيَجِيئُ الْآخَرُ بِکَسْرَةٍ، حَتَّی اجْتَمَعَ عَلَی النِّطَعِ مِنْ ذٰلِکَ شَيْئٌ يَسِيْرٌ. قَالَ: فَدَعَا رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلَيْهِ بِالْبَرَکَةِ، ثُمَّ قَالَ: خُذُوْا فِي أَوْعِيَتِکُمْ، قَالَ: فَأَخَذُوْا فِي أَوْعِيَتِهِمْ حَتّٰی مَا تَرَکُوْا فِي الْعَسْکَرِ وِعَائً إِلَّا مَلَئُوْهُ. قَالَ: فَأَکَلُوْا حَتّٰی شَبِعُوْا، وَفَضَلَتْ فَضْلَةٌ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَأَنِّي رَسُوْلُ اللهِ، لَا يَلْقَی اللهَ بِهِمَا عَبْدٌ غَيْرَ شَاکٍّ فَيُحْجَبَ عَنِ الْجَنَّةِ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الشرکة، باب الشرکة في الطعام والنهد والعروض، 2/ 879، الرقم/ 2352، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الدليل علی أن من مات علی التوحيد دخل الجنة قطعًا، 1/ 56، الرقم/ 27، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 11، الرقم/ 11095.

حضرت ابو ہریرہ یا حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما نے بیان فرمایا (راوی اعمش کو نام میں شک ہے) کہ جب غزوہ تبوک (کے سفر) میں لوگوں کو سخت بھوک لگی تھی توا نہوں نے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں) عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر آپ اجازت دیں تو ہم پانی لانے والے اونٹوں کو ذبح کر کے کھا لیں اور چربی کا تیل بنا لیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (بادلِ نخواستہ) فرمایا: کر لو، اتنے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر آپ نے یہ اجازت دے دی تو سواریاں کم ہو جائیں گی، البتہ آپ لوگوں کا بچا ہوا زاد راہ منگوا لیجیے اور اس پر برکت کی دعا فرما دیجئے، یقینا اللہ تعالیٰ اس میں برکت عطا فرمائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ پھر ایک چمڑے کا دسترخوان بچھا دیا گیا اور لوگوں کا بچا ہوا کھانا منگوایا گیا، کوئی شخص اپنی ہتھیلی میں جوار اور کوئی کھجوریں اور کوئی روٹی کے ٹکڑے لیے چلا آ رہا تھا، یہ سب چیزیں مل کر بھی بہت تھوڑی مقدار میں جمع ہوئیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر برکت کی دعا فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سب اپنے اپنے برتنوں میں کھانا بھر لیں۔ چنانچہ تمام لوگوں نے اپنے اپنے برتن بھر لیے یہاں تک کہ لشکر کے تمام برتن بھر گئے (اور کوئی برتن خالی نہ رہا) اور سب نے سیر ہو کر کھا لیا اور کھانا پھر بھی بچ گیا۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں اور یہ کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں اور جو شخص بھی ان دو حقیقتوں پر بغیر شک و شبہ کے ایمان رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو گا، وہ جنت سے محروم نہیں رہے گا۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

2. عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ الأَنْصَارِيِّ، أَنَّ عِتْبَانَ بْنَ مَالِکٍ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : فَإِنَّ اللهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَی النَّارِ مَنْ قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، يَبْتَغِي بِذٰلِکَ وَجْهَ اللهِ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، أبواب المساجد، باب المساجد في البيوت، 1/ 164، الرقم/ 415، وأيضًا في کتاب الأطعمة، باب الخزيرة، 5/ 2063، الرقم/ 5086، ومسلم في الصحيح، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب الرخصة في التخلف عن الجماعة بعذر، 1/ 455، الرقم/ 658، وأبو عوانة في المسند، 1/ 357، الرقم/ 1282، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 124، الرقم/ 20179.

حضرت محمود بن ربیع الانصاری سے مروی طویل روایت میں ہے کہ حضرت عتبان بن مالک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: رضاے الٰہی کی خاطر لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ کہنے والے پر اللہ تعالیٰ نے دوزخ کو حرام کر دیا ہے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

3. عَنْ عُثْمَانَ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ مَاتَ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، دَخَلَ الْجَنَّةَ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ عَوَانَةَ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الدليل علی أن من مات علی التوحيد دخل الجنة قطعًا، 1/ 55، الرقم/ 26، وأبو عوانة في المسند، 1/ 19، الرقم/ 10، 11.

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اس حال میں فوت ہوا کہ وہ یہ جانتا (یعنی ایمان رکھتا)ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، وہ جنت میں داخل ہوگا۔

اِسے امام مسلم اور ابو عوانہ نے روایت کیا ہے۔

4. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَبِرَسُولِهِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَصَامَ رَمَضَانَ، کَانَ حَقًّا عَلَی اللهِ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، جَاهَدَ فِي سَبِيْلِ اللهِ أَوْ جَلَسَ فِي أَرْضِهِ الَّتِي وُلِدَ فِيْهَا.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ مَنْدَه.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب درجات المجاهدين في سبيل اللہ، 3/ 1028، الرقم/ 2637، وأيضًا في کتاب التوحيد، باب {وکان عرشه علی الماء}، 6/ 2700، الرقم/ 6987، وابن حبان في الصحيح، 5/ 42، الرقم/ 1747، وابن منده في الإيمان، 1/ 284، الرقم/ 136.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول پر ایمان لائے، نماز قائم کرے، رمضان کے روزے رکھے، اس کے جنت میں داخلے کا حق اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ خواہ اُس نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کیا یا اُسی جگہ بیٹھا رہا جہاں وہ پیدا ہوا تھا۔

اِسے امام بخاری، ابن حبان اور ابن مندہ نے روایت کیا ہے۔

5. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: يَدْخُلُ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ وَأَهْلُ النَّارِ النَّارَ، ثُمَّ يَقُوْلُ اللهُ تَعَالٰی: أَخْرِجُوْا مِنَ النَّارِ مَنْ کَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيْمَانٍ. فَيُخْرَجُوْنَ مِنْهَا.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَبُوْ عَوَانَةَ وَابْنُ مَنْدَه.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الإيمان، باب تفاضل أهل الإيمان في الأعمال، 1/ 16، الرقم/ 22، وأيضًا في کتاب الرقاق، باب صفة الجنة والنار، 5/ 2400، الرقم/ 6192، وأبو عوانة في المسند، 1/ 158، الرقم/ 455، وابن أبي عاصم في السنة، 2/ 405، الرقم/ 842، وابن منده في الإيمان، 2/ 806، الرقم/ 821.

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل ہو جائیں گے، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جس کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی ایمان ہے، اُسے دوزخ سے نکال لو چنانچہ وہ اُس سے نکال لیے جائیں گے۔

اِسے امام بخاری، ابو عوانہ اور ابن مندہ نے روایت کیا ہے۔

6. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَنْ قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيْکَ لَهُ، لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيْرٌ، فِي يَوْمٍ مِائَةَ مَرَّةٍ، کَانَتْ لَهُ عَدْلَ عَشْرِ رِقَابٍ، وَکُتِبَ لَهُ مِائَةُ حَسَنَةٍ، وَمُحِيَتْ عَنْهُ مِائَةُ سَيِّئَةٍ، وَکَانَتْ لَهُ حِرْزًا مِنَ الشَّيْطَانِ يَوْمَهُ ذٰلِکَ حَتّٰی يُمْسِيَ، وَلَمْ يَأْتِ أَحَدٌ بِأَفْضَلَ مِمَّا جَاءَ إِلَّا رَجُلٌ عَمِلَ أَکْثَرَ مِنْهُ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الدعوات، باب فضل التهليل، 5/ 2351، الرقم/ 6040-6041، ومسلم في الصحيح، کتاب الذکر والدعاء والتوبه والاستغفار، باب فضل التهليل والتسبيح والدعاء، 4/ 2071، الرقم/ 2693، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 302، الرقم/ 7995، والترمذي في السنن، کتاب الدعوات، باب: (104)، 5/ 555، الرقم/ 3553، ومالک في الموطأ، 1/ 209، الرقم/ 488، وابن حبان في الصحيح، 3/ 129، الرقم/ 849.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص دن میں سو مرتبہ یہ کلمات کہے: {لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْکَ لَهُ، لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيْرٌ} (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اُسی کی بادشاہی ہے اور اُسی کے لیے سب تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔) تو اس کے لیے دس غلام آزاد کرنے کا ثواب ہے، اس کے لیے سو نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں اور اُس کی سو برائیاں مٹا دی جاتی ہیں اور اس روز شام تک یہ عمل اس کے لیے شیاطین سے بچاؤ کا سبب بنتا ہے اور اس سے افضل کسی اور کا عمل نہ ہو گا سوائے اس شخص کے جو یہی عمل اُس سے بڑھ کر کرے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

7. عَنْ عُبَادَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْکَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ، وَأَنَّ عِيْسٰی عَبْدُ اللهِ وَرَسُوْلُهُ وَکَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلٰی مَرْيَمَ وَرُوْحٌ مِنْهُ، وَالْجَنَّةُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، أَدْخَلَهُ اللهُ الْجَنَّةَ عَلٰی مَا کَانَ مِنَ الْعَمَلِ.

وَفِي رِوَايَةِ جُنَادَةَ، وَزَادَ: أَدْخَلَهُ اللهُ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ الثَّمَانِيَةِ، أَيَهَا شَاءَ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قوله: يا أهل الکتاب لا تغلوا في دينکم، 3/ 1267، الرقم/ 3252، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الدليل علی أن من مات علی التوحيد دخل الجنة قطعا، 1/ 57، الرقم/ 28، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 313، الرقم/ 22727، والنسائي في السنن الکبری، 6/ 278، الرقم/ 10970، وأيضًا، 6/ 277، الرقم/ 10969.

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور بے شک محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اور بے شک حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اللہ کے بندے، اس کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جسے اس نے حضرت مریم (سلام اللہ علیہا) کی طرف پہنچا دیا اور اس (کی طرف) سے ایک روح ہیں اور جنت و دوزخ حق ہیں، تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل فرمائے گا خواہ اس کے عمل (اس گواہی سے پہلے) کچھ بھی تھے۔

حضرت جنادہ کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اُسے جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس سے چاہے گا، داخل کردے گا۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

8. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه، أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم - وَمُعَاذٌ رَدِيْفُهُ عَلَی الرَّحْلِ - قَالَ: يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ. قَالَ: لَبَّيْکَ يَا رَسُوْلَ اللهِ، وَسَعْدَيْکَ. قَالَ: يَا مُعَاذُ. قَالَ: لَبَّيْکَ يَا رَسُوْلَ اللهِ. وَسَعْدَيْکَ، ثَـلَاثًا. قَالَ: مَا مِنْ أَحَدٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ إِلَّا حَرَّمَهُ اللهُ عَلَی النَّارِ. قَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَفَـلَا أُخْبِرُ بِهِ النَّاسَ فَيَسْتَبْشِرُوْا؟ قَالَ: إِذًا يَتَّکِلُوْا. وَأَخْبَرَ بِهَا مُعَاذٌ عِنْدَ مَوْتِهِ تَأَثُّمًا.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب العلم، باب من خصّ بالعلم قوما دون قوم کراهية أن لا يفهموا، 1/ 59، الرقم/ 128، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الدليل علی أن من مات علی التوحيد دخل الجنة قطعًا، 1/ 61، الرقم/ 32، وابن منده في الإيمان، 1/ 234، الرقم/ 93، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4/ 840-841، الرقم/ 1564، والبيهقي في شعب الإيمان، 1/ 146-147، الرقم/ 126.

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پر جبکہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے سوار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (حضرت معاذ سے) فرمایا: اے معاذ بن جبل! حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: لبیک یا رسول اللہ وسعدیک! حضرت انس کہتے ہیں کہ تین مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کیا اور ہر مرتبہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے یہی الفاظ دہرائے۔ تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد (مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ اس پر دوزخ کی آگ حرام کر دے گا۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں اس بات سے لوگوں کو مطلع نہ کر دوں تاکہ وہ خوش ہو جائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں! اگر تم انہیں یہ بات بتا دو گے تو وہ اسی پر بھروسہ کر کے بیٹھ رہیں گے (اور عمل میں کوتاہی کریں گے) چنانچہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث اپنے انتقال کے وقت بیان کی تاکہ حدیث بیان نہ کرنے کی وجہ سے گناہ گار نہ ہوں۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

9. عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ قَالَ: يَدْخُلُ قَوْمٌ مِنَ أَهْلِ الإِيْمَانِ بِذُنُوْبِهِمُ النَّارَ، فَيَقُوْلُ لَهُمُ الْمُشْرِکُوْنَ: مَا أَغْنٰی عَنْکُمْ إِيْمَانُکُمْ وَنَحْنُ وَأَنْتُمْ فِي دَارٍ وَاحِدَةٍ مُعَذَّبُوْنَ. فَيَغْضَبُ اللهُ لَهُمْ، فَيَأْمُرُ مَالِکًا فَـلَا يَدَعُ فِي النَّارِ أَحَدًا يَقُوْلُ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ. فَيُخْرَجُوْنَ وَقَدِ احْتَرَقُوْا حَتّٰی صَارُوْا کَالْحُمَّةِ السَّوْدَاءِ إِلَّا وُجُوْهَهُمْ، وَأَنَّهُ لَا تَزْرَقُ أَعْيُنُهُمْ فَيُؤْتٰی بِهِمْ نَهَرَ الْحَيَوَانِ، فَيَغْتَسِلُوْنَ فِيْهِ، فَيُذْهَبُ عَنْهُمْ کُلُّ فَتْرَةٍ وَأَذًی ثُمَّ يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ.

فَتَقُوْلُ لَهُمُ الْمَـلَائِکَةُ: طِبْتُمْ فَادْخُلُوْهَا خَالِدِيْنَ. فَيُدْعَوْنَ الْجَهَنَّمِيُوْنَ. ثُمَّ يَدْعُوْنَ اللهَ تَعَالٰی فَيُذْهِبُ عَنْهُمْ ذٰلِکَ الْاِسْمَ فَـلَا يُدْعَوْنَ بِهِ أَبَدًا. فَإِذَا خَرَجُوْا مِنَ النَّارِ قَالَ الْکُفَّارُ: يَا لَيْتَنَا کُنَّا مُسْلِمِيْنَ. فَذٰلِکَ قَوْلُهُ تَعَالٰی: {رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا لَوْ کَانُوْا مُسْلِمِيْنَo} [الحجر، 15/ 2].

رَوَاهُ أَبُوْ حَنِيْفَةَ.

أخرجه الخوارزمي في جامع المسانيد للإمام أبي حنيفة، 1/ 156.

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اہلِ ایمان میں سے ایک قوم اپنے گناہوں کے باعث جہنم میں داخل ہو گی تو مشرکین اُن سے کہیں گے: تمہیں تمہارے ایمان نے کوئی فائدہ نہیں دیا کہ ہمیں اور تمہیں ایک ہی جگہ عذاب دیا جا رہا ہے۔ ان کی اس بات پر اللہ تعالیٰ اُن پر غضب فرمائے گا اور (داروغۂ جہنم) مالک کو حکم دے گا کہ وہ دوزخ میں کسی ایسے شخص کو نہ چھوڑے جس نے لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ کہا ہو۔ انہیں اس حال میں جہنم سے نکالا جائے گا کہ چہروں کے سوا ( ان کے پورے جسم) جل کر سیاہ کوئلے کی مانند ہو چکے ہوں گے اور ابھی ان کی آنکھیں نیلگوں نہیں ہونگی کہ انہیں نہرِ حیات پر لایا جائے گا۔ وہ اس میں نہائیں گے تو ان سے ہر قسم کی کمزوری اور تکلیف دور کر دی جائے گی۔ پھر وہ جنت میں داخل ہوں گے۔

فرشتے ان سے کہیں گے: تم خوش و خرم رہو، سو ہمیشہ رہنے کے لیے اس میں داخل ہو جاؤ، انہیں (جنت میں) جہنم والے کہہ کر بلایا جائے گا۔ پھر (کچھ عرصہ بعد) وہ اللہ تعالیٰ سے عرض کریں گے تو وہ ان سے اس نام کو ختم فرما دے گا۔ بعد ازاں انہیں اس نام سے کبھی بھی نہیں بلایا جائے گا۔ جب وہ آگ سے نکلیں گے تو کافر کہیں گے: کاش ہم بھی مسلمان ہوتے! اسی کے بارے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا لَوْ کَانُوْا مُسْلِمِيْنَo} ’کفار (آخرت میں مومنوں پر اللہ کی رحمت کے مناظر دیکھ کر) بار بار آرزو کریں گے کہ کاش وہ مسلمان ہوتے‘

اسے امام ابو حنیفہ نے روایت کیاہے۔

10. عَنْ أَنَسِ بْنِ مََالِکٍ رضي الله عنه، فِي رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : فَيَأْتُوْنَنِي، فَأَقُوْلُ: أَنَا لَهَا، فَأَسْتَأْذِنُ عَلٰی رَبِّي، فَيُؤْذَنُ لِي، وَيُلْهِمُنِي مَحَامِدَ أَحْمَدُهُ بِهَا لَا تَحْضُرُنِي الْآنَ، فَأَحْمَدُهُ بِتِلْکَ الْمَحَامِدِ، وَأَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا. فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَکَ، وَقُلْ يُسْمَعْ لَکَ، وَسَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُوْلُ: يَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي، فَيُقَالُ: انْطَلِقْ، فَأَخْرِجْ مِنْهَا مَنْ کَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ شَعِيْرَةٍ مِنْ إِيْمَانٍ، فَأَنْطَلِقُ فأَفْعَلُ. ثُمَّ أَعُوْدُ فَأَحْمَدُهُ بِتِلْکَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَکَ، وَقُلْ يُسْمَعْ لَکَ، وَسَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُوْلَ: يَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي، فَيُقَالُ: انْطَلِقْ فَأَخْرِجْ مِنْهَا مَنْ کَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ أَوْ خَرْدَلَةٍ مِنْ إِيْمَانٍ، فَأَنْطَلِقُ، فَأَفْعَلُ. ثُمَّ أَعُوْدُ فَأَحْمَدُهُ بِتِلْکَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَکَ، وَقُلْ يُسْمَعْ لَکَ، وَسَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُوْلُ: يَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِْی، فَيَقُوْلُ: انْطَلِقْ، فَأَخْرِجْ مَنْ کَانَ فِي قَلْبِهِ أَدْنٰی أَدْنٰی أَدْنٰی مِثْقَالِ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ إِيْمَانٍ، فَأَخْرِجْهُ مِنَ النَّارِ، فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ.

وَفِيْهِ قَالَ: ثُمَّ أَعُوْدُ الرَّابِعَةَ، فَأَحْمَدُهُ بِتِلْکَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَکَ، وَقُلْ يُسْمَعْ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُوْلُ: يَا رَبِّ، إِئْذَنْ لِي فِيْمَنْ قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، فَيَقُوْلُ: وَعِزَّتِي وَجَلَالِي، وَکِبْرِيَائِي وَعَظَمَتِي: لَأُخْرِجَنَّ مِنْهَا مَنْ قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب التوحيد، باب کلام الرب يوم القيامة مع الأنبياء وغيرهم، 6/ 2727، الرقم/ 7072، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب أدنٰی أهل الجنة منزلة فيها، 1/ 182-184، الرقم/ 193، والنسائي في السنن الکبری، 6/ 330، الرقم/ 11131، وأبو يعلی في المسند، 7/ 311، الرقم/ 4350، وابن منده في الإيمان، 2/ 841، الرقم/ 873.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (قیامت کے دن حصولِ شفاعت کے لیے) لوگ میرے پاس آئیں گے تو میں کہوں گا: ہاں! اس شفاعت کے لیے تو میں ہی مخصوص ہوں۔ پھر میں اپنے رب سے اجازت طلب کروں گا تو مجھے اجازت مل جائے گی اور مجھے حمدیہ کلمات الہام کیے جائیں گے کہ اُن کے ساتھ میں اللہ کی حمد بیان کروں؛ ابھی وہ کلمات مجھ تک نہیں پہنچے۔ میں ان حمدیہ کلمات سے اللہ کی تعریف و توصیف کروں گا اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوجاؤں گا۔ پھر مجھے کہا جائے گا: اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! اپنا سر اٹھائیے اور کہیے آپ کی بات سنی جائے گی۔ مانگیے آپ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: میرے رب! میری امت، میری امت، پس فرمایا جائے گا: جائیے اور جہنم سے ہر ایسے امتی کو نکال لیجئے جس کے دل میں جَو کے برابر بھی ایمان ہو، چنانچہ میں جا کر ایسا ہی کروں گا۔ پھر واپس آکر ان حمدیہ کلمات کے ساتھ پھر اللہ کی حمد بیان کروں گا اور اس کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا۔ پھر کہا جائے گا: محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! اپنا سر اٹھائیے اور کہیے!آپ کو سنا جائے گا، سوال کیجئے آپ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کیجیے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے رب! میری امت، میری امت! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جائیے اور جہنم سے اسے بھی نکال لیجئے جس کے دل میں ذرہ بھر یا رائی کے برابر بھی ایمان ہو۔ چنانچہ میں جاکر ایسے ہی کروں گا۔ پھر واپس آکر انہی حمدیہ کلمات کے ساتھ ایک مرتبہ پھر اللہ کی حمد بیان کروں گا اور پھر اس کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا۔ پس فرمایا جائے گا: اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! اپنا سر اٹھائیے اور کہیے، آپ کو سنا جائے گا، سوال کیجئے آپ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے پیارے رب! میری امت، میری امت، جس پر وہ فرمائے گا: جائیے اور اس شخص کو بھی جہنم سے نکال لیجئے جس کے دل میں رائی کے دانے سے بھی بہت ہی کم بہت ہی کم بہت ہی کم ایمان ہو۔ پس میں خود جاؤں گا اور جا کر انہیں نکال لاؤں گا۔

اِسی روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں چوتھی دفعہ واپس آؤں گا اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کی حمد کروں گا پھر اس کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا۔ فرمایا جائے گا: اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! اپنا سر اٹھائیں اور کہیں آپ کو سنا جائے گا، سوال کیجئے آپ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے (پیارے) رب ! مجھے اُن کی (شفاعت کرنے کی) اجازت بھی دیجئے جنہوں نے لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ کہا ہے، اس بات پر وہ فرمائے گا: مجھے اپنی عزت و جلال اور عظمت و کبریائی کی قسم! میں انہیں (بھی) ضرور جہنم سے نکالوں گا جنہوں نے لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ کہا ہے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

11. عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رضي الله عنه، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ حَرَّمَ اللهُ عَلَيْهِ النَّارَ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الدلیل علی أن من مات علی التوحيد دخل الجنة قطعا، 1/ 57، الرقم/ 29، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 318، الرقم/ 22763، والترمذي في السنن، کتاب الإيمان، باب ما جاء فيمن يموت وهو يشهد أن لا إله إلا اللہ، 5/ 23، الرقم/ 2638، والنسائي في السنن الکبری، 6/ 277، الرقم/ 10967.

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کی آگ حرام کر دے جس نے گواہی دی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔

اِسے امام مسلم، احمد، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

12. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه، أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: يُخْرَجُ مِنَ النَّارِ مَنْ کَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنَ الإيمان. قَالَ أَبُوْ سَعِيْدٍ: فَمَنْ شَکَّ فَلْيَقْرَأْ: {اِنَّ ﷲَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ} [النساء، 4/ 40].

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هٰذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب صفة الجهنم، باب منه، 4/ 714، الرقم/ 2598، وعبد اللہ بن أحمد في السنة، 1/ 367-368، الرقم/ 794، وذکره السيوطي في الدر المنثور، 2/ 540.

حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس کے دل میں ذرہ بھر بھی ایمان ہو گا جہنم سے نکال لیا جائے گا۔ حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جسے شک ہو وہ یہ آیت پڑھے: {اِنَّ اللهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ} ’بے شک اللہ ذرّہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا۔‘

اِسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

13. عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ رضي الله عنهما، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَنُؤَاخَذُ بِمَا عَمِلْنَا فِي الْجَاهِلِيَةِ؟ قَالَ: مَنْ أَحْسَنَ فِي الإِسْلَامِ لَمْ يُؤَاخَذْ بِمَا عَمِلَ فِي الْجَاهِلِيَةِ، وَمَنْ أَسَائَ فِي الإِسْلَامِ أُخِذَ بِالْأَوَّلِ وَالْآخِرِ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب إثم من أشرک باللہ وعقوبته في الدنيا والآخرة، 6/ 2536، الرقم/ 6523، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب هل يؤاخذ بأعمال الجاهلية، 1/ 111، الرقم/ 120، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/ 431، الرقم/ 4103، وأبو يعلی في المسند، 9/ 6، الرقم/ 5071، والطيالسي في المسند، 1/ 34، الرقم/ 260، والشاشي في المسند، 2/ 25، الرقم/ 488، وابن منده في الإيمان، 1/ 496، الرقم/ 382.

حضرت (عبد اللہ) بن مسعود رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں) عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! جو کام ہم نے عہدِ جاہلیت میں کیے تھے، کیا اُن پر بھی ہماری پکڑ ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دائرۂ اسلام میں داخل ہو کر حسن عمل اختیار کرلیا تو اُس کے دورِ جاہلیت کے اَعمال پر اُس کا کچھ مواخذہ نہیں ہوگا؛ البتہ اگر اسلام میں آکر (حسبِ سابق) برائی (اختیار) کی، تو اس کے اگلے اور پچھلے تمام اَعمالِ (بد) کا مواخذہ ہوگا۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

14. عَنْ حَکِیمِ بْنِ حِزَامٍ رضي الله عنه، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَرَأَيْتَ أَشْيَاءَ کُنْتُ أَتَحَنَّثُ بِهَا فِي الْجَاهِلِيَةِ، مِنْ صَدَقَةٍ، أَوْ عَتَاقَةٍ، وَصِلَةِ رَحِمٍ، فَهَلْ فِيْهَا مِنْ أَجْرٍ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : أَسْلَمْتَ عَلٰی مَا سَلَفَ مِنْ خَيْرٍ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الزکاة، باب من تصدق في الشرک ثم أسلم، 2/ 521، الرقم/ 1369، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب صدق الإيمان وإخلاصه، 1/ 114، الرقم/ 123.

حضرت حکیم بن حِزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: (ایک بار) میں نے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں) عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے دورِ جاہلیت میں جو نیک عمل کیے یعنی صدقہ دیا، غلام آزاد کیا یا صلہ رحمی کی، کیا مجھے اُن کا بھی اَجر ملے گا؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (دورِ جاہلیت میں کی گئی) اپنی پہلی نیکیوں کی وجہ سے ہی تو تمہیں دولتِ اِسلام نصیب ہوئی ہے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

15. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ اللهَ لَا يَظْلِمُ مُؤْمِنًا، حَسَنَةً يُعْطٰی بِهَا فِي الدُّنْيَا وَيُجْزٰی بِهَا فِي الْآخِرَةِ؛ وَأَمَّا الْکَافِرُ، فَيُطْعَمُ بِحَسَنَاتِ مَا عَمِلَ بِهَا ِﷲِ فِي الدُّنْيَا، حَتّٰی إِذَا أَفْضٰی إِلَی الْآخِرَةِ لَمْ تَکُنْ لَهُ حَسَنَةٌ يُجْزٰی بِهَا.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَأَبُو يَعْلٰی.

15: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب صفة القیامة والجنة والنار، باب جزاء المؤمن بحسناته في الدنيا والآخرة، 4/ 2162، الرقم/ 2808، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 123، الرقم/ 12259، وابن حبان في الصحيح، 2/ 101، الرقم/ 377.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ مومن پر ظلم نہیں فرمائے گا، اُسے دنیا میں بھی اُس کی نیکی کا اجر دیا جائے گا اور آخرت میں بھی اس کی جزا دی جائے گی۔ رہا کافر، تو اُس نے دنیا میں اللہ کے لیے جو اَعمالِ خیر کیے ہیں اُس کا اَجر اُسے اِسی دنیا میں دے دیا جائے گا، جب وہ آخرت میں پہنچے گا تو اُس کے پاس کوئی ایسی نیکی نہیں ہوگی جس کی اُسے جزا دی جائے۔

اسے امام مسلم، احمد، ابن حبان اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

16. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَخْلُصُ الْمُؤْمِنُونَ مِنَ النَّارِ فَيُحْبَسُونَ عَلَی قَنْطَرَةٍ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ فَيُقَصُّ لِبَعْضِهِمْ مِنْ بَعْضٍ مَظَالِمُ کَانَتْ بَيْنَهُمْ فِي الدُّنْيَا حَتّٰی إِذَا هُذِّبُوا وَنُقُّوا أُذِنَ لَهُمْ فِي دُخُولِ الْجَنَّةِ. فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَأَحَدُهُمْ أَهْدٰی بِمَنْزِلِهِ فِي الْجَنَّةِ مِنْهُ بِمَنْزِلِهِ کَانَ فِي الدُّنْيَا.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الرقاق، باب القصاص يوم القيامة، 5/ 2394، الرقم/ 6170، وأحمد في المسند، 3/ 13، الرقم/ 11110، والحاکم في المستدرک، 4/ 616، الرقم/ 8706.

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب مومن جہنم سے نجات پا جائیں گے تو جنت اور دوزخ کے درمیان ایک پل پر روک لیے جائیں گے۔ یہاں اس کا حساب ہوگا جو دنیا میں انہوں نے ایک دوسرے پر ظلم کیا ہوگا حتیٰ کہ جب حقوق کا بدلہ دے کر پاک ہو جائیں گے تو انہیں جنت میں داخل ہونے کی اجازت ملے گی۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے کہ ہر ایک جنت میں اپنی رہائش گاہ کو اس سے زیادہ پہچانے گا جتنا وہ دنیا میں اپنے گھر کو پہچانتا ہے۔

اسے امام بخاری، احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

17. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: جَائَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، فَسَأَلُوهُ: إِنَّا نَجِدُ فِي أَنْفُسِنَا مَا يَتَعَاظَمُ أَحَدُنَا أَنْ يَتَکَلَّمَ بِهِ. قَالَ: وَقَدْ وَجَدْتُمُوهُ؟ قَالُوا: نَعَمْ. قَالَ: ذَاکَ صَرِيحُ الإيمان.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُو دَاوُدَ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان الوسوسة في الإيمان وما يقوله من وجدها، 1/ 119، الرقم/ 132، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب في ردّ الوسوسة، 4/ 329، الرقم/ 5111، وابن منده في الإيمان، 1/ 473، الرقم/ 344.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بعض صحابہ کرام l (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اَقدس میں) حاضر ہوئے، انہوں نے عرض کیا: (یا رسول اللہ! بعض اوقات) ہمارے دلوں میں ایسے (بُرے) خیالات آتے ہیں جن کا بیان کرنا بھی ہم گناہ سمجھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا واقعی تمہیں ایسے خیالات آتے ہیں؟ اُنہوں نے عرض کیا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ تو عینِ ایمان ہے (یعنی ایسے وساوس و خیالات کو دل سے برا سمجھنا بھی علامتِ ایمان ہے)۔

اسے امام مسلم اور ابو داود نے روایت کیا ہے۔

18. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، أَنَّهُ قَالَ: قِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَنْ أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِکَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَقَدْ ظَنَنْتُ يَا أَبَاهُرَيْرَةَ، أَنْ لَا يَسْأَلَنِي عَنْ هٰذَا الْحَدِيْثِ أَحَدٌ أَوَّلُ مِنْکَ، لِمَا رَأَيْتُ مِنْ حِرْصِکَ عَلَی الْحَدِيْثِ، أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، مَنْ قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ خَالِصاً مِنْ قَلْبِهِ أَوْ نَفْسِهِ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب العلم، باب الحرص علی الحديث، 1/ 49، الرقم/ 99، وأيضاً في کتاب الرقاق، باب صفة الجنة والنار، 5/ 2402، الرقم/ 6201، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 373، الرقم/ 8845، والنسائی في السنن الکبری، 3/ 426، الرقم/ 5842.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! قیامت کے روز آپ کی شفاعت کا سب سے زیادہ مستحق کون ہو گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ابوہریرہ! میرا گمان یہی تھا کہ اس بارے میں تم سے پہلے مجھ سے کوئی نہیں پوچھے گا کیونکہ میں نے تمہارا شوقِ حدیث دیکھا ہے۔ (سنو!) قیامت کے روز میری شفاعت حاصل کرنے میں سب سے زیادہ خوش نصیب شخص وہ ہوگا جس نے خلوصِ دل یا (فرمایا:) خلوصِ جاں سے لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ پڑھا ہو گا۔

اِسے امام بخاری، احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

19. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، قَالَ: مَا زِلْتُ أَشْفَعُ إِلٰی رَبِّي وَيُشَفِّعُنِي حَتّٰی أَقُوْلَ: رَبِّ شَفِّعْنِي فِيْمَنْ قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ.

رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلٰی وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.

أخرجه أبو يعلی في المسند، 5/ 172، الرقم/ 2786، وابن أبي عاصم في السنة، 2/ 395-396، الرقم/ 828.

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں اپنے رب کی بارگاہ میں شفاعت کرتا رہوں گا اور وہ میری شفاعت قبول فرماتا رہے گا، یہاں تک کہ میں عرض کروں گا: میرے ربّ! میری شفاعت اس شخص کے حق میں بھی قبول فرما لے جس نے لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ کا کلمہ پڑھا تھا۔

اِسے امام ابو یعلی اور ابنِ ابی عاصم نے روایت کیاہے۔

20. وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَقُوْلُ اللهُ: أَخْرِجُوْا مِنَ النَّارِ مَنْ کَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ شَعِيْرَةٍ مِنْ إِيْمَانٍ. ثُمَّ يَقُوْلُ: أَخْرِجُوْا مِنَ النَّارِ مَنْ کَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيْمَانٍ. ثُمَّ يَقُوْلُ: وَعِزَّتِي وَجَـلَالِي لَا أَجْعَلُ مَنْ آمَنَ بِي سَاعَةً مِنْ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ کَمَنْ لَا يُؤْمِنُ بِي.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الصغير، 2/ 114، الرقم/ 875، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 10/ 380.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن فرشتوں سے) فرمائے گا: تم دوزخ سے اس شخص کو نکال لو جس کے دل میں جَو کے برابر بھی ایمان موجود ہو۔ پھر ارشاد فرمائے گا: اس شخص کو بھی نکال لو جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان موجود ہو، پھر فرمائے گا: مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم! جو شخص مجھ پر دن اور رات کی کسی ایک ساعت بھی ایمان لایا، میں اس کے ساتھ ایمان نہ لانے والے شخص کی طرح سلوک نہیں کروں گا۔

اِسے امام طبرانی نے روایت کیاہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved