25. عَنْ أَبِي سَعِیْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، فِي رِوَایَةٍ طَوِیْلَةٍ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: فَمَا أَنْتُمْ بِأَشَدَّ لِي مُنَاشَدَةً فِي الْحَقِّ قَدْ تَبَیَّنَ لَکُمْ، مِنَ الْمُؤْمِنِ یَوْمَئِذٍ لِلْجَبَّارِ، وَإِذَا رَأَوْا أَنَّهُمْ قَدْ نَجَوْا فِي إِخْوَانِهِمْ، یَقُوْلُوْنَ: رَبَّنَا إِخْوَانُنَا، کَانُوْا یُصَلُّوْنَ مَعَنَا، وَیَصُوْمُوْنَ مَعَنَا، وَیَعْمَلُوْنَ مَعَنَا، فَیَقُوْلُ اللهُ تَعَالٰی: اذْھَبُوْا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهٖ مِثْقَالَ دِیْنَارٍ مِنْ إِیْمَانٍ فَأَخْرِجُوْهُ، وَیُحَرِّمُ اللهُ صُوَرَهُمْ عَلَی النَّارِ، فَیَأْتُوْنَهُمْ وَبَعْضُهُمْ قَدْ غَابَ فِي النَّارِ إِلَی قَدَمِهٖ وَإِلَی أَنْصَافِ سَاقَیْهِ، فَیُخْرِجُوْنَ مَنْ عَرَفُوْا، ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ، فَیَقُوْلُ: اذْھَبُوْا، فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهٖ مِثْقَالَ نِصْفِ دِیْنَارٍ فَأَخْرِجُوْهُ، فَیُخْرِجُوْنَ مَنْ عَرَفُوْا، ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ، فَیَقُوْلُ: اذْھَبُوْا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهٖ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ مِنْ إِیْمَانٍ فَأَخْرِجُوْهُ، فَیُخْرِجُوْنَ مَنْ عَرَفُوْا. قَالَ أَبُوْسَعِیْدٍ: فَإِنْ لَمْ تُصَدِّقُوْنِي فَاقْرَئُوْا: {اِنَّ اللهَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍج وَاِنْ تَکُ حَسَنَةً یُّضٰعِفْهَا} [النساء، 4: 40]. فَیَشْفَعُ النَّبِیُّوْنَ وَالْمَلَائِکَۃُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب التوحید، باب قول الله تعالٰی: وجوه یومئذ ناضرة إلی ربھا ناظرة، 6: 2707، الرقم: 7001، وأحمد بن حنبل فی المسند، 3: 16، وابن حبان فی الصحیح، 16: 379، الرقم: 7377.
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم مجھ سے حق کا مطالبہ کرنے میں جو تمہارے لیے واضح ہوچکا ہے آج اس قدر سخت نہیں ہو جس قدر شدت کے ساتھ مومن اس روز اللہ تعالیٰ سے مطالبہ کریں گے جس وقت وہ دیکھیں گے کہ وہ نجات پاگئے ہیں (مگر ان کے روحانی بھائی مشکل میں ہیں)۔ اپنے بھائیوں کے حق میں نجات کا مطالبہ کرتے ہوئے وہ عرض کریں گے: اے رب! (یہ) ہمارے بھائی (ہیں جو دوزخ میں چلے گئے) یہ ہمارے ساتھ نمازیں پڑھتے تھے، ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور ہمارے ساتھ (نیک) عمل کرتے تھے۔اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جاؤ جس کے دل میں دینار کے وزن کے برابر ایمان پاؤ، اسے (دوزخ سے) نکال لو اور اللہ تعالیٰ ان کی صورتوں کو آگ پر حرام کر دے گا۔ پس وہ (صالحین) ان (دوزخیوں) کے پاس آئیں گے جبکہ بعض (صرف) قدموں تک اور بعض (صرف) پنڈلیوں تک آگ میں ڈوبے ہوئے ہوں گے (اور ان کے چہرے جلنے سے بچا لیے گئے ہوں گے تاکہ صالحین انہیں شفاعت کے لیے پہچان سکیں)۔ لہٰذا جنہیں وہ پہچانیں گے انہیں نکال لے جائیں گے۔ پھر واپس لوٹیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اب جس کے دل میں نصف دینار کے برابر ایمان پاؤ اسے بھی نکال لو، پس وہ جسے پہچانیں گے نکال لے جائیں گے۔ پھر وہ واپس لوٹیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اب جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان پاؤ اسے بھی نکال لو۔ لہٰذا وہ جسے پہچانیں گے نکال لیں گے۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جسے یقین نہ آتا ہو وہ یہ آیت پڑھ لے: {اِنَّ اللهَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍج وَاِنْ تَکُ حَسَنَةً یُّضٰعِفْهَا} ’بے شک اللہ تعالیٰ ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا، اوراگر کوئی نیکی ہو تو اسے دوگنا کردیتا ہے‘۔ پس انبیاء کرام علیہم السلام، فرشتے اور مؤمنین شفاعت کریں گے۔
اسے امام بخاری اور احمد نے روایت کیا ہے۔
26. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِذَا جَمَعَ اللهُ الْأَوَّلِیْنَ وَالْآخَرِیْنَ یُنَادِي مُنَادٍ فِي صَعِیْدٍ وَاحِدٍ مِنْ بُطْنَانِ الْعَرْشِ: أَیْنَ أَھْلُ الْمَعْرِفَةِ بِاللهِ؟ أَیْنَ الْمُحْسِنُوْنَ؟ قَالَ: فَیَقُوْمُ عُنُقٌ مِنَ النَّاسِ حَتّٰی یَقِفُوْا بَیْنَ یَدَيِ اللهِ، فَیَقُوْلُ وَھُوَ أَعْلَمُ بِذٰلِکَ: مَا أَنْتُمْ؟ فَیَقُوْلُوْنَ: نَحْنُ أَھْلُ الْمَعْرِفَةِ الَّذِیْنَ عَرَّفْتَنَا إِیَّاکَ وَجَعَلْتَنَا أَھْـلًا لِذٰلِکَ. فَیَقُوْلُ: صَدَقْتُمْ. ثُمَّ یَقُوْلُ لِلْآخَرِیْنَ: مَا أَنْتُمْ؟ قَالُوْا: نَحْنُ الْمُحْسِنُوْنَ. قَالَ: صَدَقْتُمْ، قُلْتُ لِنَبِيٍّ: {مَا عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ مِنْ سَبِیْلٍ} [التوبة، 9: 91]، مَا عَلَیْکُمْ مِنْ سَبِیْلٍ، ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِي. ثُمَّ تَبَسَّمَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَقَالَ: لَقَدْ نَجَّاھُمُ اللهُ مِنْ أَھْوَالِ بَوَائِقِ الْقِیَامَةِ.
رَوَاهُ أَبُوْ نُعَیْمٍ فِي الأَرْبَعِیْنَ.
أخرجه أبو نعیم في کتاب الأربعین، 1: 100، الرقم: 51، وذکره المناوي في فیض القدیر، 1: 420، الرقم: 4.
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ (روزِ قیامت) جب تمام اوّلین و آخرین کو جمع فرمائے گا تو ایک پکارنے والا عرش کے پایوں تلے ایک میدان سے صدا دے گا: کہاں ہیں اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھنے والے؟ کہاں ہیں صاحبانِ احسان؟ فرمایا: لوگوں میں سے ایک گروہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جا کھڑا ہو گا۔ تو اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا، حالانکہ وہ بہتر جاننے والا ہے: تم کون ہو؟ وہ کہیں گے: ہم اہلِ معرفت ہیں جنہیں تو نے اپنی معرفت عطا کی اور ہمیں اس معرفت کا اہل بنایا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تم نے سچ کہا، پھر دوسرے گروہ سے پوچھے گا: تم کون ہو؟ وہ عرض کریں گے: ہم صاحبانِ احسان ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تم نے سچ کہا، میں نے اپنے نبی سے فرمایا تھا: ’صاحبانِ احسان پر اِلزام کی کوئی راہ نہیں۔‘ لہٰذا تم پر بھی (ایسی) کوئی راہ نہیں۔ میری رحمت کے ساتھ سیدھے جنت میں داخل ہو جاؤ۔ پھر رسول اللہ ﷺ مسکرا پڑے اور فرمایا: یقینا اللہ تعالیٰ انہیں قیامت کی ہولناکیوں اور سختیوں سے نجات عطا فرمائے گا۔
اسے امام ابونعیم نے ’کتاب الاربعین‘ میں روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved