اربعین: آخرت میں اللہ تعالیٰ کا انبیاء اور اولیاء و صالحین سے کلام کرنا

اللہ تعالیٰ کا فرشتوں سے کلام فرمانا

کَلَامُهٗ تَعَالٰی مَعَ الْمَلائِکَةِ

اللہ تعالیٰ کا فرشتوں سے کلام فرما ہونا

اَلْقُرْآن

(1) وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً ط قَالُوٓا اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَـآءَ ج وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ ط قَالَ اِنِّیٓ اَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُوْنَo وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّھَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَی الْمَلٰٓئِکَةِ فَقَالَ اَنْبِئُوْنِیْ بِاَسْمَآءِ ھٰٓؤُلَآءِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَo قَـالُوْا سُبْحٰنَکَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَآ ط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُo

(البقرة، 2: 30-32)

اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں، انہوں نے عرض کیا: کیا تُو زمین میں کسی ایسے شخص کو (نائب) بنائے گا جو اس میں فساد انگیزی کرے گا اور خونریزی کرے گا؟ حالاں کہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرتے رہتے ہیں اور (ہمہ وقت) پاکیزگی بیان کرتے ہیں، (اللہ نے) فرمایا: میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ اور اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو تمام (اشیاء کے) نام سکھا دیے پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا، اور فرمایا: مجھے ان اشیاء کے نام بتا دو اگر تم (اپنے خیال میں) سچے ہو۔ فرشتوں نے عرض کیا: تیری ذات (ہر نقص سے) پاک ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر اسی قدر جو تو نے ہمیں سکھایا ہے، بے شک تو ہی (سب کچھ) جاننے والا حکمت والا ہے۔

(2) وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلَآئِکَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلآَّ اِبْلِیْسَ ط اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَo

(البقرة، 2: 34)

اور (وہ وقت بھی یاد کریں) جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، اس نے انکار اور تکبر کیا اور (نتیجتاً) کافروں میں سے ہوگیا۔

(3) وَلَقَدْ خَلَقْنٰـکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰـکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ ط لَمْ یَکُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَo

(الأعراف، 7: 11)

اور بے شک ہم نے تمہیں (یعنی تمہاری اصل کو) پیدا کیا پھر تمہاری صورتگری کی (یعنی تمہاری زندگی کی کیمیائی اور حیاتیاتی ابتداء و ارتقاء کے مراحل کو آدم (علیہ السلام) کے وجود کی تشکیل تک مکمل کیا) پھر ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔ وہ سجدہ کرنے والوں میں سے نہ ہوا۔

(4) وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَةِ اِنِّیْ خَالِقٌ م بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍo فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَنَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَo فَسَجَدَ الْمَلٰٓئِکَۃُ کُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَo اِلَّا اِبْلِیْسَ ط اَبٰٓی اَنْ یَّکُوْنَ مَعَ السّٰجِدِیْنَo قَالَ یٰٓـاِبْلِیْسُ مَا لَکَ اَلاَّ تَکُوْنَ مَعَ السّٰجِدِیْنَo

(الحجر، 15: 28-32)

اور (وہ واقعہ یاد کیجیے) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں سِن رسیدہ (اور) سیاہ بودار، بجنے والے گارے سے ایک بشری پیکر پیدا کرنے والا ہوں۔ پھر جب میں اس کی (ظاہری) تشکیل کو کامل طور پر درست حالت میں لا چکوں اور اس پیکر (بشری کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں تو تم اس کے لیے سجدہ میں گر پڑنا۔ پس (اس پیکرِ بشری کے اندر نورِ ربانی کا چراغ جلتے ہی) سارے کے سارے فرشتوں نے سجدہ کیا۔ سوائے ابلیس کے، اس نے سجدہ کرنے والوں کے ساتھ ہونے سے انکار کر دیا۔ (اللہ نے) ارشاد فرمایا: اے ابلیس! تجھے کیا ہوگیا ہے کہ تو سجدہ کرنے والوں کے ساتھ نہ ہوا۔

اَلْحَدِیْث

17. عَنْ أَبِي ھُرَیْرَةَ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: إِذَا أَحَبَّ اللهُ الْعَبْدَ نَادٰی جِبْرِیْلَ: إِنَّ اللهَ یُحِبُّ فُـلَانًا، فَأَحْبِبْهُ، فَیُحِبُّهٗ جِبْرِیْلُ، فَیُنَادِي جِبْرِیْلُ فِي أَھْلِ السَّمَاءِ: إِنَّ اللهَ یُحِبُّ فُـلَانًا، فَأَحِبُّوْهُ، فَیُحِبُّهٗ أَھْلُ السَّمَاءِ، ثُمَّ یُوْضَعُ لَهُ الْقَبُوْلُ فِي الْأَرْضِ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکة، 3: 1175، الرقم: 3037، وأیضًا في کتاب الأدب، باب المِقَةِ من الله تعالی، 5: 2246، الرقم: 5693، و مسلم في الصحیح، کتاب البر والصلة والآداب، باب إذا أحب الله عبدا حببه إلی عباده، 4: 2030، الرقم: 2637، ومالک في الموطأ، 2: 953، الرقم: 1710.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرائیل علیہ السلام کو آواز دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت رکھتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو۔ تو جبرائیل علیہ السلام اس سے محبت کرتے ہیں۔ پھر جبرائیل علیہ السلام آسمانی مخلوق میں ندا دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے، لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو۔ چنانچہ آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور پھر زمین والوں (کے دلوں) میں (بھی) اس کی مقبولیت رکھ دی جاتی ہے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

وَفِي رِوَایَةِ ثَوْبَانَ رضی اللہ عنہ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ: إِنَّ الْعَبْدَ لَیَلْتَمِسُ مَرْضَاةَ اللهِ وَلَا یَزَالُ بِذٰلِکَ. فَیَقُولُ اللهُ تعالیٰ لِجِبْرِیلَ: إِنَّ فُلَانًا عَبْدِي یَلْتَمِسُ أَنْ یُرْضِیَنِي؛ أَلَا، وَإِنَّ رَحْمَتِي عَلَیْهِ. فَیَقُوْلُ جِبْرِیْلُ: رَحْمَۃُ اللهِ عَلٰی فُـلَانٍ وَیَقُوْلُهَا حَمَلَۃُ الْعَرْشِ وَیَقُوْلُهَا مَنْ حَوْلَهُمْ حَتّٰی یَقُوْلَهَا أَهْلُ السَّمٰوَاتِ السَّبْعِ، ثُمَّ تَهْبِطُ لَهٗ إِلَی الْأَرْضِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5: 279، الرقم: 22454، والطبراني في المعجم الأوسط، 2: 57، الرقم: 1240.

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ، حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک ایک بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا کاطلب گار ہوتا ہے، اور مسلسل اسی جستجو میں رہتا ہے، تو اللہ تعالیٰ جبریل علیہ السلام سے فرماتا ہے: فلاں شخص میری رضا کی جستجو میں ہے۔ آگاہ رہو! بلاشبہ میری رحمت اس پر سایہ فگن ہے۔ جبریل علیہ السلام کہتے ہیں: فلاں آدمی پر اللہ تعالیٰ کی رحمت سایہ فگن ہے۔ حاملین عرش بھی یہی کہتے ہیں اور ان کے آس پاس کے فرشتے بھی یہی کہنے لگتے ہیں، حتیٰ کہ ساتوں آسمانوں کی مخلوق بھی یہی کہنے لگتی ہے۔ پھر (اُس کے لیے کہی گئی) یہ بات زمین پر اُتار دی جاتی ہے (یعنی زمین والے بھی یہ کہنے لگتے ہیں کہ فلاں پر خدا کی رحمت ہے)۔

اِسے امام احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَایَةِ حُمَیْدَةَ بِنْتِ ثَابِتٍ، قَالَتْ: کَانَ أَنَسٌ وَأَبُوْ طِـلَالٍ فِي بَیْتِ ثَابِتٍ، فَقَالَ أَنَسٌ: یَا أَبَا طِلَالٍ، مَتٰی فَقَدْتَ بَصَرَکَ؟ فَقَالَ: وَأَنَا صَبِيٌّ، اِعْقِلْ. قَالَ: فَهَلْ لاَ أُحَدِّثُکَ حَدِیْثًا حَدَّثَنِیْهِ حَبِیْبِي ﷺ یَرْوِیْهِ عَنْ جِبْرَائِیْلَ وَجِبْرَائِیْلُ یَرْوِیْهِ عَنِ اللهِ تعالیٰ؟ قَالَ: یَا جِبْرَائِیْلُ، مَا جَزَاءُ مَنْ سَلَبْتُ کَرِیْمَتَیْهِ. فَقَالَ: سُبْحَانَکَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا. قَالَ: جَزَاؤُهُ الْخُلُوْدُ فِي دَارِي وَالنَّظَرُ إِلٰی وَجْهِي.

رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَاللَّالَکَائِيُّ.

أخرجه ابن حبان في الثقات، 9: 4، الرقم: 14861، واللالکائي في شرح أصول اعتقاد أهل السنة، 3: 522، الرقم: 923.

ایک روایت میں حمیدہ بنت ثابت بیان کرتی ہیں: حضرت انس اور ابو طلال رضی اللہ عنہما (میرے والد) حضرت ثابت کے گھر پر موجود تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابو طلال! آپ نے اپنی بصارت کب کھوئی تھی؟ انہوں نے جواب دیا: جب میں بچہ تھا۔ (اُس سے خود) اندازہ کرلو! انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں آپ کو وہ حدیث مبارکہ نہ بیان کروں جو میرے محبوب ﷺ نے مجھے جبرائیل علیہ السلام سے روایت کرتے ہوئے بیان فرمائی ہے اور جبرائیل علیہ السلام نے اسے اللہ تعالیٰ سے روایت کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے جبرائیل! اس شخص کی کیا جزا ہے جس کی دونوں آنکھیں میںنے چھین لی ہوں؟ جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: تیری ذات (ہر نقص سے) پاک ہے، ہمیں کچھ علم نہیں مگر اُسی قدر جو تو نے ہمیں سکھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس کی جزا میرے گھر (جنت) میں ہمیشہ کا قیام اور میرے چہرے کو تکتے رہنا ہے۔

اسے امام ابن حبان اور لالکائی نے روایت کیا ہے۔

18. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: یَتَعَاقَبُوْنَ فِیْکُمْ مَـلَائِکَۃٌ بِاللَّیْلِ وَمَـلَائِکَۃٌ بِالنَّهَارِ، وَیَجْتَمِعُوْنَ فِي صَـلَاةِ الْفَجْرِ وَصَـلَاةِ الْعَصْرِ، ثُمَّ یَعْرُجُ الَّذِیْنَ بَاتُوْا فِیْکُمْ. فَیَسْأَلُهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِھِمْ: کَیْفُ تَرَکْتُمْ عِبَادِي؟ فَیَقُوْلُوْنَ: تَرَکْنَاهُمْ وَهُمْ یُصَلُّوْنَ وَأَتَیْنَاهُمْ وَهُمْ یُصَلُّوْنَ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب مواقیت الصلاة، باب فضل صلاة العصر، 1: 203، الرقم: 530، ومسلم في الصحیح، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب فضل صلاتي الصبح والعصر والمحافظة علیهما، 1: 439، الرقم: 632، وأحمد بن حنبل في المسند، 2: 257، الرقم: 743، وابن حبان في الصحیح، 5: 28، الرقم: 1736.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: رات اور دن کے فرشتے تمہارے پاس باری باری آتے رہتے ہیں اور فجر اور عصر کی نماز کے اوقات میں اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ پھر جو فرشتے رات تمہارے پاس ٹھہرے تھے، اوپر کائناتِ آسمانی کی طرف چڑھ جاتے ہیں اور ان سے ان کا پروردگار پوچھتا ہے - حالانکہ وہ انہیں (اپنے بندوں کو) خوب جانتا ہیـ - تم میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑ کر آئے ہو؟ وہ کہتے ہیں: جب ہم ان کے پاس سے (عصر کے وقت) روانہ ہوئے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس (صبح)پہنچے تھے، تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

وَفِي رِوَایَةِ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضی اللہ عنہ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، أَنَّهٗ قَالَ: لَیْسَ مِنْ عَمَلِ یَوْمٍ إِلَّا وَهُوَ یُخْتَمُ عَلَیْهِ، فَإِذَا مَرِضَ الْمُؤْمِنُ، قَالَتِ الْمَلَائِکَۃُ: یَا رَبَّنَا! عَبْدُکَ فُلَانٌ قَدْ حَبَسْتَهٗ. فَیَقُولُ الرَّبُّ ل: اخْتِمُوا لَهٗ عَلٰی مِثْلِ عَمَلِهٖ حَتّٰی یَبْرَأَ أَوْ یَمُوتَ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالرُّویَانِيُّ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4: 146، الرقم: 17354، والحاکم في المستدرک علی الصحیحین، 4: 344، الرقم: 7855، والطبراني في المعجم الکبیر، 17: 284، الرقم: 782، والرویاني في المسند، 1: 156، الرقم: 177.

ایک روایت میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بندے کا دن بھر کا کوئی عمل ایسا نہیں جس پر مہر نہ لگائی جاتی ہو۔ چنانچہ جب مومن بیمار ہوتا ہے تو فرشتے عرض کرتے ہیں: اے ہمارے رب! تونے فلاں بندے کو (بیماری کی وجہ سے) روک رکھاہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وہ جیسے اعمال پہلے بجا لاتا رہا ہے اس کے نامۂ اعمال میں ویسے ہی عمل (لکھ کر) ان پر مہر لگاتے رہو یہاں تک کہ وہ صحت یاب ہو جائے یا فوت ہوجائے۔

اسے امام احمد، حاکم، طبرانی اور رویانی نے روایت کیا ہے۔

19. عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّہٍ، قَالَ: هٰذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَیْرَةَ رضی اللہ عنہ عَنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللهِ ﷺ فَذَکَرَ أَحَادِیثَ مِنْهَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: قَالَ اللهُ ل: إِذَا تَحَدَّثَ عَبْدِي بِأَنْ یَعْمَلَ حَسَنَةً فَأَنَا أَکْتُبُهَا لَهٗ حَسَنَةً مَا لَمْ یَعْمَلْ. فَإِذَا عَمِلَهَا فَأَنَا أَکْتُبُهَا بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا. وَإِذَا تَحَدَّثَ بِأَنْ یَعْمَلَ سَیِّئَةً فَأَنَا أَغْفِرُهَا لَهٗ مَا لَمْ یَعْمَلْهَا. فَإِذَا عَمِلَهَا فَأَنَا أَکْتُبُهَا لَهٗ بِمِثْلِهَا. وَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: قَالَتِ الْمَلَائِکَۃُ: رَبِّ، ذَاکَ عَبْدُکَ یُرِیدُ أَنْ یَعْمَلَ سَیِّئَةً وَهُوَ أَبْصَرُ بِهٖ. فَقَالَ: ارْقُبُوهُ. فَإِنْ عَمِلَهَا فَاکْتُبُوهَا لَهٗ بِمِثْلِهَا وَإِنْ تَرَکَهَا فَاکْتُبُوهَا لَهٗ حَسَنَةً، إِنَّمَا تَرَکَهَا مِنْ جَرَّايَ. وَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: إِذَا أَحْسَنَ أَحَدُکُمْ إِسْلَامَهٗ فَکُلُّ حَسَنَةٍ یَعْمَلُهَا تُکْتَبُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلٰی سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ، وَکُلُّ سَیِّئَةٍ یَعْمَلُهَا تُکْتَبُ بِمِثْلِهَا حَتّٰی یَلْقَی اللهَ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.

أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب إذا هم العبد بحسنة کتبت وإذا هم بسیئة لم تکتب، 1: 117، الرقم: 129، وأحمد بن حنبل في المسند، 2: 317، الرقم: 8203

ہمام بن منبہ کہتے ہیں: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سیّدنا محمد رسول اللہ ﷺ سے احادیث روایت کر رہے تھے، ان میں سے ایک یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: جب میرا بندہ اپنے دل میں نیک عمل کرنے کا ارادہ کرتا ہے اور ابھی وہ اس نیکی کو عملی جامہ نہیں پہناتا تب بھی (محض اس کے نیک ارادے کے باعث) میں اس کے لیے ایک نیکی لکھ دیتا ہوں اور جب وہ اس نیکی کا عمل کر لیتا ہے تو میں اس کے عوض دس نیکیاں لکھ دیتا ہوں۔ اور اگر وہ دل میں کسی گناہ کی سوچ لاتا ہے تو جب تک وہ اس گناہ پر عمل نہ کر لے میں اس سوچ کو بخش دیتا ہوں، جب وہ گناہ کر لیتا ہے تو میں اس کے لیے ایک گناہ لکھ دیتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: فرشتے کہتے ہیں: اے رب! تیرا فلاں بندہ گناہ کا ارادہ رکھتا ہے (حالانکہ اللہ تعالیٰ کو اس بات کا خوب علم ہوتا ہے)۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے: انتظار کرو، اگر وہ گناہ کا ارتکاب کر لے تو ایک گناہ لکھ لینا اور اگر گناہ نہ کرے تو اس کے بدلے میں ایک نیکی لکھ دینا، کیونکہ اس نے گناہ کو صرف میرے خوف کی وجہ سے چھوڑ دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے مزید فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص صدقِ دل سے اسلام قبول کر لیتا ہے تو اس کی ایک نیکی کو دس سے لے کر سات سو گنا تک لکھ دیا جاتا ہے جبکہ اس کا گناہ صرف ایک ہی لکھا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو جاتا ہے۔

اسے امام مسلم اور احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَایَةِ أَبِي أُمَامَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ اللهَ تعالیٰ یَقُوْلُ لِلْمَلائِکَةِ: انْطَلِقُوْا إِلٰی عَبْدِي، فَصُبُّوْا عَلَیْهِ الْبَـلَاءَ صَبًّا، فَیَأْتُوْنَهٗ فَیَصُبُّوْنَ عَلَیْهِ الْبَـلَاءَ، فَیَحْمَدُ اللهَ، فَیَرْجِعُوْنَ، فَیَقُوْلُوْنَ: یَا رَبَّنَا، صَبَبْنَا عَلَیْهِ الْبَـلَاءَ صَبًّا کَمَا أَمَرْتَنَا، فَیَقُوْلُ: ارْجِعُوْا فَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَ صَوْتَهٗ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَیْهَقِيُّ وَذَکَرَهُ الْمُنْذِرِيُّ وَالْهَیْثَمِيُّ وَالْهِنْدِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 8: 166، الرقم: 7697، والبیهقي في شعب الإیمان، 7: 149، الرقم: 9801، وذکره المنذري في الترغیب والترهیب، 4: 143، الرقم: 5168، والهیثمي في مجمع الزوائد، 2: 290- 291، والهندي في کنز العمال، 3: 136، الرقم: 6821.

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے: میرے (فلاں) بندے کی طرف جاؤ اور اُسے خوب آزمائش میں مبتلا کرو۔ فرشتے آتے ہیں، اُسے خوب آزمائش میں مبتلا کرتے ہیں، لیکن وہ بندہ (اس آزمائش) پر بھی اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا ہی کرتا رہتا ہے۔ فرشتے واپس جاتے ہیں اور عرض کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہم نے اس پر خوب آزمائش وارد کی جس طرح تونے حکم فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: واپس چلے جاؤ، میں تو اس حال میں صرف اس کی آواز سننا چاہتا تھا (مجھے اس کی زبان سے شکر گزاری کی آواز کا سننا بہت پسند تھا)۔

اسے امام طبرانی، بیہقی، منذری، ہیثمی اور ہندی نے بیان کیا ہے۔

وَفِي رِوَایَةِ أَنَسٍ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: إِنَّ الْعَبْدَ لَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ، اغْفِرْ لِي. وَقَدْ أَذْنَبَ. فَتَقُوْلُ الْمَلَائِکَۃُ: یَا رَبِّ، إِنَّهٗ لَیْسَ لِذٰلِکَ بِأَهْلٍ. قَالَ اللهُ تَعَالٰی: لٰـکِنِّي أَهْلٌ أَنْ أَغْفِرَ لَهٗ.

رَوَاهُ الْحَکِیْمُ التِّرْمِذِيُّ وَذَکَرَهُ الْهِنْدِيُّ.

أخرجه الحکیم الترمذي في نوادر الأصول، 3: 199، وذکره الهندي في کنز العمال، 1: 243، الرقم: 2097.

حضرت انس رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک ایک بندہ دعا کرتا ہے: اے پروردگار! مجھے بخش دے، جبکہ اس سے گناہ سرزد ہوا ہوتا ہے۔ فرشتے بارگاہ اِلٰہی میں عرض کرتے ہیں: اے ہمارے پروردگار! بلا شبہ یہ شخص (اپنے گناہوں کے باعث) اِس (بخشش) کا اہل نہیں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (اگرچہ وہ اس کا اہل نہیں) مگر میری شان تو یہ ہے کہ (اُس کی بد اَعمالیوں کے باوجود) اُسے بخش دوں۔

اسے حکیم ترمذی نے روایت کیا ہے اور ہندی نے ’کنز العمال‘ میں بیان کیا ہے۔

وَفِي رِوَایَةِ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: إِذَا نَامَ الْعَبْدُ فِي سُجُودِهٖ، بَاھَی اللهُ تعالیٰ بِهٖ مَلَائِکَتَهٗ، قَالَ: انْظُرُوا إِلٰی عَبْدِي، رُوحُهٗ عِنْدِي وَجَسَدُهٗ فِي طَاعَتِي.

رَوَاهُ الدَّیْلَمِيُّ وَتَمَّامُ الرَّازِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

أخرجه الدیلمي في مسند الفردوس، 1: 290-291، الرقم: 1142، وتمام الرازي في الفوائد، 2: 255، الرقم: 1670، والقزویني في التدوین في أخبار قزوین، 2: 110، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 41: 292.

ایک روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب بندہ بارگاهِ ایزدی میں حالتِ سجدہ میں سوجاتا ہے، اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے اس پر فخر کرتا ہے اور (فرشتوں سے) فرماتا ہے: میرے اس بندے کی طرف دیکھو! اس کی روح ہمارے پاس ہے، لیکن اس کا جسم ہماری عبادت میں مصروف ہے۔

اسے امام دیلمی، تمام الرّازی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved