اربعین: محبت رسول ﷺ میں صحابہ کرام (ر) کی وارفتگی

الاحادیث النبویۃ

اَ لْاَحَادِيْثُ النَّبَوِيَہُ

1. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا يُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِه وَوَلَدِه وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

1 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الإيمان، باب حبّ الرسول صلی الله عليه وآله وسلم من الإيمان، 1 / 14، الرقم : 15، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب وجوب محبّة رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم اکثر من الاهل والولد والوالد والناس أجمعين، 1 / 67، الرقم : 44.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اُس کے والد (یعنی والدین)، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے محبوب تر نہ ہو جاؤں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

2. عَنْ اَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا يُؤْمِنُ عَبْدٌ (وَفِي حَدِيْثِ عَبْدِ الْوَارِثِ : الرَّجُلِ) حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ اَهْلِه وَمَالِه وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ يَعْلٰی.

2 : اخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب وجوب محبة رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم اکثر من الاهل والولد والوالد والناس اجمعين وإطلاق عدم الإيمان علی من لم يحبه هذه المحبة، 1 / 67، الرقم : 44، واحمد بن حنبل نحوه في المسند، 5 / 162، الرقم : 21480، وابو يعلی في المسند، 7 / 6، الرقم : 3895.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے گھروالوں، اس کے مال اور تمام لوگوں سے محبوب تر نہ ہو جاؤں۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم، احمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

3. عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ص، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم اَنَّه قَالَ : لَا يُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی يَکُوْنَ اﷲُ وَ رَسُوْلُه اَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَحَتّٰی يُقْذَفَ فِي النَّارِ اَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ اَنْ يَعُوْدَ فِي الْکُفْرِ، (وفي روارواية : اَنْ يَرْجِعَ يَهُوْدِيّا اَوْ نَصْرَانِيّا) بَعْدَ اَنْ نَجَّاهُ اﷲُ مِنْهُ، وَلَا يُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَلَدِه، وَوَالِدِه، وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ.

رَوَاهُ اَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ مَنْدَه

3 : أخرجه احمد بن حنبل في المسند، 3 / 207، الرقم : 13174، وأيضًا، 3 / 278، 230، الرقم : 13991-13992، 13431، وابن حبان في الصحيح، 1 / 473، الرقم : 237، وابن منده في الإيمان، 1 / 433، الرقم : 283.

’’حضرت انس بن مالک ص، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ اللہ ل اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے باقی ہر ایک سے محبوب تر نہ ہو جائیں، اور جب تک کہ وہ کفر سے نجات پانے کے بعد دوبارہ اس (حالت) کفر (ایک روایت میں ہے کہ یہودیت اور نصرانیت) کی طرف لوٹنے کو اس طرح ناپسند کرتا ہو کہ اس کے بدلے اسے آگ میں پھینکا جانا پسند ہو۔ اور تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ میں اسے اُس کی اولاد اور اس کے والد (یعنی والدین) اور تمام لوگوں سے محبوب تر نہ ہوجاؤں۔‘‘

اس حدیث کو امام اَحمد، ابن حبان اور ابن مندہ نے روایت کیا ہے۔

4. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ هِشَامٍ رضی الله عنه قَالَ : کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ، وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ کُلِّ شَيئٍ إِلاَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِه، حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَيْکَ مِنْ نَفْسِکَ. فَقَالَ لَهُ عُمَرُ : فَإِنَّهُ الآنَ، وَاﷲِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : الآنَ يَا عُمَرُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

4 : اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأيمان والنذور، باب کيف کانت يمين النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 6 / 2445، الرقم : 6257.

’’حضرت عبد اللہ بن ہِشام رضی اللہ عنہ روایت بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھاما ہوا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ مجھے اپنی جان کے سوا ہر ایک چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! (تم اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے) یہاں تک کہ میں تمہیں اپنی جان سے بھی محبوب تر نہ ہو جاؤں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) اللہ (ربّ العزت) کی قسم! اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عمر! اب (تمہاری محبت کامل ہوئی) ہے۔‘‘

اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

5. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : جَاءَ تْ هِنْدٌ بِنْتُ عُتْبَةَ، قَالَتْ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَا کَانَ عَلٰی ظَهْرِ الْاَرْضِ مِنْ أَهْلِ خِبَاءٍ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يَذِلُّوْا مِنْ أَهْلِ خِبَائِکَ، ثُمَّ مَا أَصْبَحَ الْيَوْمَ عَلٰی ظَهْرِ الْاَرْضِ أَهْلُ خِبَاءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ يَعِزُّوْا مِنْ أَهْلِ خِبَائِکَ... الحديث. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

5 : اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب ذکر هند بنت عتبة بن ربيعة، 3 / 1390، الرقم : 3613، ومسلم في الصحيح، کتاب الأقضرواية، باب قضرواية هند، 3 / 1339، الرقم : 1714.

’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہند بنت عتبہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم! (قبولِ اسلام سے قبل) مجھے روئے زمین پر آپ کے اہلِ خانہ سے زیادہ کسی کی ذلت اور خواری محبوب نہیں تھی اور اب روئے زمین پر کوئی گھر ایسا نہیں جس میں رہنے والوں کی عزت مجھے آپ کے گھر والوں کی عزت سے زیادہ محبوب ہو۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

6. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَحِبُّوْا اﷲَ لِمَا يَغْذُوْکُمْ مِنْ نِعَمِه، وَأَحِبُّوْنِي بِحُبِّ اﷲِ لوَأَحِبُّوْا اَهْلَ بَيْتِي لِحُبِّي.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدَيْثٌ حَسَنٌ غَرِيْبٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

6 : أخرجه الترمذی في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب اهل البيت النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 5 / 664، الرقم : 3789، والحاکم في المستدرک، 3 / 162، الرقم : 4716، والطبراني في المعجم الکبير، 3 / 46، الرقم : 2639، وأيضًا، 10 / 281، الرقم : 10664، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 366، الرقم : 408.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ آپ نے بیان فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ سے محبت کرو ان نعمتوں کی وجہ سے جو اس نے تمہیں عطا فرمائیں اور مجھ سے اﷲ تعالیٰ کی محبت کے سبب محبت کرو اور میرے اہلِ بیت سے میری محبت کی خاطر محبت کرو۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی، حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اور امام حاکم نے فرمایا : اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

7. عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ عُتْبَةَ رضي اﷲ عنها، قَالَتْ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَا کَانَتْ قُبَّةٌ اَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ قُبَّتِکَ وَلَا اَحَبَّ اَنْ يُبِيْحَهَا اﷲُ وَمَا فِيْهَا، وَوَاﷲِ، مَا مِنْ قُبَّةٍ اَحَبُّ إِلَيَّ اَنْ يُعَمِّرَهَا اﷲُ وَيُبَارِکَ فِيْهَا مِنْ قُبَّتِکَ. فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : وَاَيْضًا وَاﷲِ، لَا يُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَلَدِه وَوَالِدِه.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ، وَقَالَ : هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

7 : اخرجه الحاکم في المستدرک، کتاب التفسير، تفسير سورة الممتحنة، 2 / 528، الرقم : 3805، والعسقلاني مختصرًا في فتح الباري، 9 / 511، وأيضًا في تلخيص الحبير، 4 / 53.

’’حضرت فاطمہ بنت عتبہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے (قبولِ اسلام کے بعد) عرض کیا : یا رسول اﷲ! (مسلمان ہونے سے قبل) آپ کے خیمہ سے زیادہ ناپسندیدہ خیمہ میرے لیے کوئی نہ تھا، اور میں پسند نہ کرتی تھی کہ خدا اس خیمہ کو اور اس خیمہ میں رہنے والے کو باقی رکھے، اور اب خدا کی قسم! مجھے آپ کے خیمہ سے زیادہ کوئی خیمہ محبوب نہیں، اﷲ تعالیٰ اسے (ہمیشہ) قائم رکھے، اور اس میں برکت نازل فرمائے۔تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور اسی طرح اﷲ کی قسم! تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ میں اسے اس کی اولاد اور اس کے (ماں) باپ سے بھی محبوب تر نہ ہو جاؤں۔‘‘ اسے امام حاکم نے روایت کیا نیز فرمایا : اس حدیث کی اسناد صحیح ہے۔

8. عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا کَانَ يَوْمُ اُحُدٍ حَاصَ اَهْلُ الْمَدِيْنَةِ حَيْصَةً، قَالُوْا : قُتِلَ مُحَمَّدٌ (صلی الله عليه وآله وسلم) حَتّٰی کَثُرَتِ الصَّوَارِخُ فِي نَاحِيَةِ الْمَدِيْنَةِ، فَخَرَجَتِ امْرَاَةٌ مِنَ الْاَنْصَارِ مُتَحَزِّمَةً فَاسْتَقْبَلَتْ بِابْنِهَا وَاَبِيْهَا وَزَوْجِهَا وَاَخِيْهَا لَا اَدْرِي اَيَهُمُ اسْتَقْبَلَتْ بِه اَوَّلًا فَلَمَّا مَرَّتْ عَلٰی آخِرِهِمْ قَالَتْ : مَنْ هٰذَا؟ قَالُوْا : اَبُوْکِ، اَخُوْکِ، زَوْجُکِ، ابْنُکِ، تَقُوْلُ : مَا فَعَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ يَقُوْلُوْنَ : اَمَامَکِ حَتّٰی دُفِعَتْ إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَاَخَذَتْ بِنَاحِيَةِ ثَوْبِه، ثُمَّ قَالَتْ : بِاَبِي اَنْتَ وَاُمِّي يَا رَسُوْلَ اﷲِ، لَا اُبَالِي إِذْ سَلِمْتَ مِنْ عَطَبٍ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَاَبُوْ نُعَيْمٍ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ عَنْ شَيْخِه مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبٍ وَلَمْ أَعْرِفْهُ وَبَقِيَةُ رِجَالِه ثِقَاتٌ.

8 : اخرجه الطبراني في المعجم الاوسط، 7 / 280، الرقم : 7499، وأبو نعيم في حلرواية الأولياء، 2 / 72، 332، والقاضي عياض في الشفا / 497، الرقم : 1215، وابن جرير الطبري في تاريخ الامم والملوک، 2 / 74، وابن هشام في السيرة النبورواية، 4 / 50، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 115، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 190، 2 / 74.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب غزوہ اُحد کا دن تھا تو اہل مدینہ سخت تنگی و پریشانی میں مبتلا ہوگئے (کیونکہ)، انہوں نے (غلط فہمی اور منافقین کی افواہیں سن کر) سمجھا کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (العیاذ باﷲ) شہید کر دیا گیا ہے، یہاں تک کہ مدینہ منورہ میں چیخ و پکار کرنے والی عورتوں کی کثیر تعداد (جمع) ہو گئی، یہاں تک کہ انصار کی ایک عورت پیٹی باندھے ہوئے باہر نکلی اور اپنے بیٹے، باپ، خاوند اور بھائی (کی لاشوں کے پاس) سے گذری، (راوی کہتے ہیں:) مجھے یاد نہیں کہ اس نے سب سے پہلے کس کی لاش دیکھی۔ پس جب وہ ان میں سے سب سے آخری لاش کے پاس سے گزری تو پوچھنے لگی : یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا : تمہارا باپ، بھائی، خاوند اور تمہارا بیٹا ہے۔ (جوکہ شہید ہو چکے ہیں) وہ کہنے لگی : (مجھے صرف یہ بتاؤ کہ) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس حال میں ہیں؟ لوگ کہنے لگے:آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے سامنے موجودہیںیہاں تک کہ اس عورت کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچا دیا گیا تو اس عورت نے (شدتِ جذبات سے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کرتہ مبارک کا پلو پکڑ لیا اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، جب آپ سلامت ہیں تو مجھے اور کوئی دکھ نہیں (یعنی یا رسول اﷲ! آپ پر میرا باپ،بھائی، خاوند اوربیٹاسب کچھ قربان ہیں)۔‘‘

اس حدیث کو امام طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔امام ہیثمی نے فرمایا : اسے امام طبرانی نے اپنے جس شیخ محمد بن شعیب سے روایت کیا ہے انہیں میں نہیں جانتا اور باقی تمام رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔

9. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مُغَفَّلٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، وَاﷲِ، إِنِّي لَاُحِبُّکَ. فَقَالَ : انْظُرْ مَاذَا تَقُوْلُ. قَالَ : وَاﷲِ، إِنِّي لَاُحِبُّکَ. فَقَالَ : انْظُرْ مَاذَا تَقُوْلُ. قَالَ : وَاﷲِ، إِنِّي لَاُحِبُّکَ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ. فَقَالَ : إِنْ کُنْتَ تُحِبُّنِي فَاَعِدَّ لِلْفَقْرِ تِجْفَافًا، فَإِنَّ الْفَقْرَ اَسْرَعُ إِلٰی مَنْ يُحِبُّنِي مِنَ السَّيْلِ إِلٰی مُنْتَهَاهُ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

9 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الزهد، باب ما جاء في فضل الفقر، 4 / 576، الرقم:2350، وابن حبان في الصحيح، 7 / 185، الرقم : 2922، والروياني في المسند، 2 / 88، الرقم : 872، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 173، الرقم : 1471، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 620، الرقم : 2505.

’’حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا : یا رسول اللہ، اللہ کی قسم! میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سوچ لو! کیا کہہ رہے ہو؟ اس نے پھر عرض کیا : اللہ کی قسم! میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (پھر) سوچ لو! کیا کہہ رہے ہو؟ اس نے پھر عرض کیا : اللہ کی قسم! میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ اس نے تین مرتبہ یہ بات دہرائی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تو مجھ سے محبت کرتا ہے تو فقر (کا سامنا کرنے) کے لیے تیار ہوجاکیوں کہ مجھ سے محبت کرنے والوں کی طرف فقر اس سے بھی زیادہ تیزی سے بڑھتا ہے جتنی تیزی سے سیلاب اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہے۔‘‘

اسے امام ترمذی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن ہے۔

10. عَنْ عَتْمَةَ الْجُهَنِيِّ رضی الله عنه، عَنْ اَبِيْهِ، قَالَ : خَرَجَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم ذَاتَ يَوْمٍ فَلَقِيَه رَجُلٌ مِنَ الْاَنْصَارِ، فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، بِاَبِي وَاُمِّي اَنْتَ، إِنَّه لَيَسُوْؤُنِيَ الَّذِي اَرٰی بِوَجْهِکَ وَعَمَّا هُوَ قَالَ : فَنَظَرَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِلٰی وَجْهِ الرَّجُلِ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ : الْجُوْعُ، فَخَرَجَ الرَّجُلُ يَعْدُوْ اَوْ شَبِيْهٌ بِالْعَدْوِ حَتّٰی اَتٰی بَيْتَه، فَالْتَمَسَ فِيْهِ الطَّعَامَ، فَلَمْ يَجِدْ شَيْئًا، فَخَرَجَ إِلٰی بَنِي قُرَيْظَةَ وَفَآجَرَ نَفْسَه بِکُلِّ دَلْوٍ يَنْزَعُهَا تَمْرَةً حَتّٰی جَمَعَ حَضْنَةً اَوْ کَفًّا مِنْ تَمْرٍ ثُمَّ رَجَعَ بِالتَّمْرِ حَتّٰی وَجَدَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي مَجْلِسٍ لَمْ يَرِمْ، فَوَضَعَه بَيْنَ يَدَيْهِ وَقَالَ : کُلْ اَي رَسُوْلَ اﷲِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : مِنْ اَيْنَ لَکَ هٰذَا التَّمْرُ؟ فَاَخْبَرَهُ الْخَبْرَ، فَقَالَ لَه رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي لَاَظُنُّکَ تُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَه قَالَ : اَجَلْ، وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ لَاَنْتَ اَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي وَوَلَدِي وَاَهْلِي وَمَالِي، فَقَالَ : اَمَّا لَا فَاصْطَبِرْ لِلْفَاقَةِ وَاَعِدَّ لِلْبَلَاءِ تِجْفَافًا فَوَالَّذِي بَعَثَنِي بِالْحَقِّ، لَهُمَا إِلٰی مَنْ يُحِبُّنِي اَسْرَعُ مِنْ هُبُوْطِ الْمَاءِ مِنْ رَاْسِ الْجَبَلِ إِلٰی اَسْفَلِه. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

10 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 18 / 83، الرقم : 155، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 313، والعسقلاني في الإصابة، 4 / 736، الرقم : 6086.

’’حضرت عتمہ جہنی رضی اللہ عنہ نے اپنے والد سے روایت کیا کہ انہوں نے بیان کیا : ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے تو انصار میں سے ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ کے چہرۂ اقدس کی اس حالت نے مجھے پریشان کردیا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لمحہ اس شخص کی طرف دیکھا پھر فرمایا : فاقہ، تو وہ شخص دوڑتا ہوا یا تیز تیز چلتا ہوا وہاں سے نکلا یہاں تک کہ اپنے گھر میں آیا اور وہاں کھانا تلاش کیا لیکن کوئی چیز نہ پائی، پھر وہ بنی قریظہ (قبیلہ یہود) کی طرف آیا اور فی ڈول پانی نکالنے کے بدلے ایک کھجور پر مزدوری کرلی، یہاں تک کہ گود بھر یا مٹھی بھر کھجوریں جمع کر لیں، پھر کھجوریں لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں لوٹا، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسی جگہ موجود پایا۔ سو اس نے وہ کھجوریں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے رکھ دیں اور عرض کیا : یا رسول اللہ! تناول فرمائیے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارے پاس یہ کھجوریں کہاں سے آئی ہیں؟ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں سارا واقعہ عرض کیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرا خیال ہے کہ تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ اس نے عرض کیا : جی ہاں (یا رسول اﷲ!) اور قسم ہے اس ذات کی جس نے حق کے ساتھ آپ کو مبعوث فرمایا! بلاشبہ آپ مجھے میری جان، میری اولاد، میرے اہل و عیال اور میرے مال سے بھی بڑھ کر محبوب ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (اگر ایسا ہے) تو فاقہ کشی کا انتظار کر اور مصائب (کا سامنا کرنے) کے لیے کمربستہ ہو جا۔ پس قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا! یہ (فقر و مصائب) دونوں میرے ساتھ محبت کرنے والے (کی آزمائش کے لیے اس) کی طرف پہاڑ کی چوٹی سے پستی کی طرف گرنے والے سیلاب سے بھی زیادہ تیزی سے آتے ہیں۔‘‘ اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

11. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا کَانَ لَيْلَةَ الْغَارِ قَالَ أَبُوْ بَکْرٍ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، دَعْنِي أَدْخُلْ قَبْلَکَ فَإِنْ کَانَ حَيَّةٌ اَوْ شَيئٌ کَانَتْ لِي قَبْلَکَ. قَالَ صلی الله عليه وآله وسلم : ادْخُلْ. فَدَخَلَ أَبُوْ بَکْرٍ، فَجَعَلَ يَلْتَمِسُ بِيَدِه، کُلَّمَا رَأَی جُحْرًا جَائَ بِثَوْبِه فَشَقَّه ثُمَّ أَلْقَمَهُ الْجُحْرَ حَتّٰی فَعَلَ ذَالِکَ بِثَوْبِه أَجْمَعَ. قَالَ : فَبَقِيَ جُحْرٌ فَوَضَعَ عَقِبَه عَلَيْهِ ثُمَّ أَدْخَلَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم. فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : فَأَيْنَ ثَوْبُکَ يَا أَبَا بَکْرٍ؟ فَأَخْبَرَه بِالَّذِي صَنَعَ، فَرَفَعَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَدَيْهِ وَقَالَ : اَللّٰهُمَّ، اجْعَلْ أَبَا بَکْرٍ مَعِي فِي دَرَجَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ. فَأَوْحَی اﷲُ لإِلَيْهِ أَنَّ اﷲَ تَعَالٰی قَدِ اسْتَجَابَ لَکَ. رَوَاهُ اَبُوْ نُعَيْمٍ.

11 : اخرجه ابو نعيم في حلرواية الاولياء، 1 / 33، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 240، ومحب الدين الطبري في الرياض النضرة، 1 / 451.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : (وقتِ ہجرت) جب غار (میں پناہ لینے) کی رات تھی تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! مجھے اجازت عنایت فرمائیے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے غار میں داخل ہوں تاکہ اگر کوئی سانپ یا کوئی اور چیز ہو تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بجائے مُجھے تکلیف پہنچائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جاؤ داخل ہو جاؤ۔ حضرت ابو بکرص داخل ہوئے اور اپنے ہاتھ سے ساری جگہ کی تلاشی لینے لگے۔ جب بھی کوئی سوراخ دیکھتے تو اپنے لباس کو پھاڑ کر سوراخ کو بند کر دیتے۔ یہاں تک کہ اپنے تمام لباس کے ساتھ یہی کچھ کیا۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر بھی ایک سوراخ بچ گیاتو انہوں نے اپنی ایڑی کو اُس سوراخ پر رکھ دیا اور پھر حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اندر تشریف لانے کی گزارش کی۔ جب صبح ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا : ’’اے ابو بکر ! تمھارا لباس کہاں ہے؟ تو انہوں نے جو کچھ کیا تھا اُس کے بارے بتا دیا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اُٹھائے اور دُعا کی : اے اﷲ! ابو بکرص کو قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجہ میں رکھنا۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف وحی فرمائی کہ اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دُعا کو قبول فرما لیا ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔

12. عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ اَنَّ نَفَرًا مِنْ قُرَيْشٍ فِيْهِمْ اَبُوْ سُفْيَانَ حَضَرُوْا قَتْلَ زَيْدٍ، فَقَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ : يَا زَيْدُ، اَنْشُدُکَ اﷲَ، اَتُحِبُّ اَنَّکَ الآنَ فِي اَهْلِکَ، وَاَنَّ مُحَمَّدًا عِنْدَنَا مَکَانَکَ نَضْرِبُ عُنُقَه؟ قَالَ : لَا، وَاﷲِ، مَا اُحِبُّ اَنَّ مُحَمَّدًا صلی الله عليه وآله وسلم يُشَاکُ فِي مَکَانِه شَوْکَةً تُؤْذِيْهِ، وَاَنِّي جَالِسٌ فِي اَهْلِي، قَالَ : يَقُوْلُ اَبُوْ سُفْيَانَ : وَاﷲِ، مَا رَاَيْتُ مِنْ قَوْمٍ قَطُّ اَشَدَّ حُبًّا لِصَاحِبِهِمْ مِنْ اَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم لَه. وفي روارواية : قَالَ : مَا رَأَيْتُ مِنَ النَّاسِ أَحَدًا يُحِبُّ کَحُبِّ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ مُحَمَّدًا (صلی الله عليه وآله وسلم).

رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ وَالْقَاضِي عِيَاضُ وَابْنُ هِشَامٍ وَابْنُ جَرِيْرٍ.

12 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 2 / 56، وابن هشام في السيرة النبورواية، 4 / 125، وابن جرير الطبري في تاريخ الامم و الملوک، 2 / 79، وابن کثير في البدارواية والنها رواية (السيرة)، 4 / 65، وابن الاثير في اسد الغابة، 2 / 108، 155، 358، والقاضي عياض في الشفا، 2 / 19، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 649.

’’حضرت عاصم بن عمر بن قتادہ ث بیان کرتے ہیں کہ قریش کے چند افراد جن میں ابو سفیان بھی تھا حضرت زید رضی اللہ عنہ کے قتل کے وقت آئے اور ان میں سے کسی نے کہا : اے زید! تجھے اللہ کی قسم! (سچ سچ بتا) کیا تو پسند کرتا ہے کہ اس وقت تمہاری جگہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس ہوتے کہ ہم (نعوذ باﷲ) انہیں قتل کرتے اور تم اس وقت اپنے اہل و عیال کے پاس ہوتے؟ تو انہوں نے جواب دیا : نہیں!ک اللہ کی قسم! میں تو یہ بھی گوارا نہیں کرتا کہ میرے آقا و مولا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس آپ وقت جہاں بھی رونق افروز ہوں، کانٹا بھی چبھے کہ جس سے انہیں تکلیف پہنچے اور میں آرام سے اپنے اہل و عیال کے ساتھ بیٹھا رہوں۔ راوی کہتے ہیں : ابو سفیان کہنے لگا : اللہ کی قسم! میں نے آج تک ایسی کوئی قوم نہیں دیکھی جو اپنے سردار سے اس طرح ٹوٹ کر محبت کرتی ہو جیسی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب ان سے کرتے ہیں۔‘‘ ایک روایت کے الفاظ ہیں کہا : میں نے کسی کو کسی سے اتنی محبت کرتے نہیں دیکھا جیسی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کرتے ہیں۔‘‘

اسے امام ابن سعد، قاضی عیاض، ابن ہشام اور ابن جریر طبری نے بیان کیا ہے۔

13. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ عَامِرِ بْنِ حُذَيْمٍ الْجَمْحِيِّ قَالَ : شَهِدْتُ مَصْرَعَ خُبَيْبٍ الْاَنْصَارِيِّ رضی الله عنه بِمَکَّةَ وَقَدْ بَضَعَتْ قُرَيْشٌ لَحْمَه ثُمَّ حَمَلُوْه عَلٰی جِذْعَةٍ، فَقَالُوْا : اَتُحِبُّ اَنَّ مُحَمَّدًا مَکَانَکَ؟ فَقَالَ : وَاﷲِ، مَا اُحِبُّ اَنِّي فِي اَهْلِي وَوَلَدِي وَاَنَّ مُحَمَّدًا صلی الله عليه وآله وسلم شِيْکَ بِشَوْکَةٍ، ثُمَّ نَادٰی : يَا مُحَمَّدُ (صلّی اﷲ عليک وسلم).

رَوَاهُ اَبُوْ نُعَيْمٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَالْعَسْقَلَانِيُّ.

13 : أخرجه ابو نعيم في حلرواية الاولياء، 1 / 246، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 21 / 162، والعسقلاني في فتح الباري، 7 / 384، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 622، 666.

’’حضرت سعید بن عامر بن حذیم جمحی روایت بیان کرتے ہیں کہ میں نے مکہ مکرمہ میں حضرت خبیب انصاری رضی اللہ عنہ کے مقام شہادت کی زیارت کی۔ جہاں مشرکینِ قریش ان کا گوشت نشتر سے (ٹکڑوں کی صورت میں) کاٹتے اور پھر اسے کھجور کے درخت پر لٹکا دیتے اور (شہید کرنے سے قبل) مشرکینِ قریش نے حضرت خبیب انصاری رضی اللہ عنہ سے کہا : کیا تم پسند کرتے ہو کہ (اس وقت) تمہاری جگہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوتے؟ تو حضرت خبیب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : اللہ کی قسم! مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ میں اپنے اہل و عیال میں (آرام کر رہا) ہوں اور (میرے آقا) محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی کانٹا بھی چبھے پھر آپ نے زور سے پکارا : یا محمد (صلّی اﷲ علیک وسلم)۔‘‘

اسے امام ابو نعیم، ابن عساکر اور عسقلانی نے روایت کیا ہے۔

14. عَنْ جَبَلَةَ بْنِ حَارِثَةَ، اَخِي زَيْدٍ، قَالَ : قَدِمْتُ عَلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، ابْعَثْ مَعِي اَخِي زَيْدًا، قَالَ : هُوَ ذَا، قَالَ : فَإِنِ انْطَلَقَ مَعَکَ لَمْ اَمْنَعْهُ، قَالَ زَيْدٌ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، وَاﷲِ، لَا اَخْتَارُ عَلَيْکَ اَحَدًا اَبَدًا، قَالَ : فَرَاَيْتُ رَاْيَ اَخِي اَفْضَلَ مِنْ رَاْيِي.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

14 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب زيد بن حارثه ص، 5 / 676، الرقم : 3815، وابن أبي عاصم في الاحاد والمثاني، 5 / 63، الرقم : 2600، وابن حبان في الثقات، 3 / 57، الرقم : 186، والبخاري في التاريخ الکبير، 2 / 217، الرقم : 2251، والحاکم في المستدرک، 3 / 237، الرقم : 4948، والطبراني في المعجم الکبير، 2 / 386، الرقم : 2192، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 132، الرقم : 1384.

’’حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے بھائی، حضرت جبلہ بن حارثہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میرے ساتھ میرے بھائی حضرت زید رضی اللہ عنہ کو (گھر) بھیج دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ (تمہارا بھائی) یہ (موجود) ہے۔ اگر تمہارے ساتھ جانا چاہے تو میں اسے روکوں گا نہیں، حضرت زید رضی اللہ عنہ نے (فورًا) عرض کیا : یا رسول اللہ، اللہ کی قسم! میں آپ (کی غلامی) پر کسی (آزادی) کو ترجیح نہیں دوں گا۔ (پھر اسلام میں حضرت زید رضی اللہ عنہ کا مقام دیکھ کر) حضرت جبلہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے اپنی رائے سے زیادہ اپنے بھائی کے اس فیصلہ کو بہتر پایا۔‘‘

اسے امام ترمذی، ابن ابی عاصم، ابنِ حبان اور بخاری نے التاریخ الکبیر میں روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

15. عَنْ يَحْيَ بْنِ سَعِيْدٍ ... قَالَ سَعْدُ بْنُ رَبِيْعٍ رضی الله عنه لِاُبَيِّ بِنْ کَعْبٍ رضی الله عنه إِذَا جُرِحَ بِاُحُدٍ : فَاذْهَبْ إِلَيْهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَاَقْرِئْهُ مِنِّيَ السَّلَامَ، وَاَخْبِرْهُ اَنِّي قَدْ طُعِنْتُ اثْنَتَي عَشْرً طَعْنَةً، وَاَنِّي قَدْ أُنْفِذَتْ مُقَاتِلِي، وَاَخْبِرْ قَوْمَکَ اَنَّه لَا عُذْرَ لَهُمْ عِنْدَ اﷲِ إِنْ قُتِلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَوَاحِدٌ مِنْهُمْ حَيٌّ. رَوَاهُ مَالِکٌ وَابْنُ سَعْدٍ.

15 : اخرجه مالک في الموطا، کتاب الجهاد، باب الترغيب في الجهاد، 2 / 465-466، وابن سعد في الطبقات الکبری، 3 / 524، وابن عبد البر في الاستيعاب، 2 / 590، وأيضًا في التمييد، 24 / 94.

’’امام یحییٰ بن سعید سے مروی ہے کہ ۔ ۔ ۔ حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نے حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے اس وقت جب وہ (حضرت سعد بن ربیع) میدانِ اُحد میں زخمی حالت میں تھے کہا کہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں میرا سلام عرض کرنا اور کہنا کہ مجھے نیزے کے بارہ زخم لگے ہیں اور میں نے اپنے مقابل کے جسم سے نیزہ آر پار کر دیا ہے۔ اپنے قبیلہ کے لوگوں سے کہنا کہ اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کچھ ہوا اور تم میں سے ایک فرد بھی زندہ بچا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کا کوئی بھی عذر قابلِ قبول نہ ہو گا۔‘‘ اسے امام مالک اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔

16. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها، قَالَتْ : جَائَ رَجُلٌ إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّکَ لَأَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي، وَإِنَّکَ لَاَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ اَهْلِي وَاَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ وَلَدِي، وَإِنِّي لَاَکُوْنُ فِي الْبَيْتِ، فَاَذْکُرُکَ، فَمَا اَصْبِرُ حَتّٰی آتِيَکَ، فَانْظُرُ إِلَيْکَ، وَإِذَا ذَکَرْتُ مَوْتِي وَمَوْتَکَ عَرَفْتُ اَنَّکَ إِذَا دَخَلْتَ الْجَنَّةَ رُفِعْتَ مَعَ النَّبِيّيْنَ، وَاَنِّي إِذَا دَخَلْتُ الْجَنَّةَ حَسِبْتُ اَنْ لَا اَرَاکَ، فَلَمْ يَرُدَّ إِلَيْهِ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم شَيْئًا، حَتّٰی نَزَلَ جِبْرِيْلُ بِهٰذِهِ الْآيَةِ : ﴿وَمَنْ يُطِعِ اﷲَ وَالرَّسُوْلَ فَاُوْلٰئِکَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اﷲُ عَلَيْهِمْ . . . ﴾] النساء، 4 : 69، فَدَعَا بِه، فَقَرَاَهَا عَلَيْهِ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَاَبُوْ نُعَيْمٍ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ؟

16 : أخرجه الطبراني في المعجم الاوسط، 1 / 152، الرقم : 477، وأيضًا في المعجم الصغير، 1 / 53، الرقم : 52، وابو نعيم في حلرواية الاولياء، 4 / 240، 8 / 125، والايثمي في مجمع الزوائد، 7 / 7، وابن کثير في تفسير القرآن العظیم، 1 / 524، والسيوطي في الدر المنثور، 2 / 182.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ ایک صحابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر عرض گذار ہوا : یا رسول اللہ! آپ مجھے میری جان، اہل و عیال اور اولاد سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ جب میں اپنے گھر میں ہوتا ہوں تو بھی آپ کو ہی یاد کرتا رہتا ہوں اور اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک حاضر ہو کر آپ کی زیارت نہ کرلوں۔ لیکن جب مجھے اپنی موت اور آپ کے وصال مبارک کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ آپ تو جنت میں انبیاء کرام علیھم السلام کے ساتھ بلند ترین مقام پر جلوہ افروز ہوں گے اور جب میں جنت میں داخل ہوں گا تو اپنے درجے میں ہوں گا لہٰذا مجھے خدشہ ہے کہ کہیں میں آپ کی زیارت سے محروم نہ ہو جاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس صحابی کی اس بات پر سکوت فرمایا، یہاں تک کہ حضرت جبرائیل ں یہ آیت مبارکہ لے کر اُترے:’’اور جو کوئی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روز قیامت) اُن (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کو بلایا اور اسے یہ آیت پڑھ کر سنائی۔‘‘

اسے امام طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا : اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔

17. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : لَقَدْ ضَرَبُوْا رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم حَتّٰی غَشِيَ عَلَيْهِ فَقَامَ أَبُوْ بَکْرٍ رضی الله عنه فَجَعَلَ اُنَادِي يَقُوْلُ : وَيْلَکُمْ أَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا أَنْ يَقُوْلَ رَبِّيَ اﷲُ؟ قَالُوْا : مَنْ هٰذَا؟ قَالُوْا : هٰذَا ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ الْمَجْنُوْنُ. رَوَاهُ اَبُوْ يَعْلٰی وَالْحَاکِمُ.

17 : اخرجه ابو يعلی في المسند، 6 / 362، الرقم : 3691، والحاکم في المستدرک، 3 / 70، الرقم : 4424، والمقدسي في الاحاديث المختارة، 6 / 221، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 17، والسيوطي في الدر المنثور، 7 / 285.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کفار و مشرکین نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس قدر جسمانی اذیت پہنچائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر غشی طاری ہو گئی۔ حضرت ابو بکرص (آئے اور) کھڑے ہو گئے اور بلند آواز سے کہنے لگے : تم تباہ و برباد ہو جاؤ، کیا تم ایک (معزز) شخص کو صرف اِس لئے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ فرماتے ہیں کہ میرا رب اﷲ ل ہے؟ اُن ظالموں نے کہا : یہ کون ہے؟ (کفارو مشرکین میں سے کچھ) لوگوں نے کہا : یہ ابو قحافہ کا بیٹا ہے جو (عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں) مجنوں بن چکا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔

18. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : بَيْنَمَا أَنَا وَالنَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم خَارِجَانِ مِنَ الْمَسْجِدِ، فَلَقِيَنَا رَجُلٌ عِنْدَ سُدَّةِ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَتَی السَّاعَةُ؟ قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا أَعْدَدْتَ لَهَا؟ فَکَأَنَّّ الرَّجُلَ اسْتَکَانَ، ثُمَّ قَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَا أَعْدَدْتُ لَهَا کَبِيْرَ صِيَامٍ وَلَا صَلَاةٍ وَلَا صَدَقَةٍ وَلٰکِنِّي أُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَه، قَالَ : أَنْتَ مَعَ مَنْ اَحْبَبْتَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

18 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأحکام، باب القضاء والفتيا في الطريق، 6 / 2615، الرقم : 6734، ومسلم في الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب المرء مع من أحبّ، 4 / 2032-2033، الرقم : 2639.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معیت میں ایک مرتبہ مسجد سے نکل رہا تھا کہ مسجد کے دروازے پر ایک آدمی ملا اور اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ! قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم نے اس کے لیے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ وہ آدمی کچھ دیر تو خاموش رہا پھر اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے اس کے لیے بہت سے روزے، بہت سی نمازیں اور صدقہ وغیرہ (جیسے اَعمال) تو تیار نہیں کیے لیکن (اتنا ہے کہ) میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (قیامت کے روز) تم اسی کے ساتھ ہو گے جس سے محبت رکھتے ہو۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

19. عَنْ اَنَسٍ رضی الله عنه اَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم عَنِ السَّاعَةِ، فَقَالَ : مَتَی السَّاعَةُ؟ قَالَ : وَمَاذَا أَعْدَدْتَ لَهَا؟ قَالَ : لَا شَيئَ إِلَّا أَنِّي أُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَه صلی الله عليه وآله وسلم. فَقَالَ : أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ. قَالَ أَنَسٌ : فَمَا فَرِحْنَا بِشَيئٍ فَرَحَنَا بِقَوْلِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ. قَالَ أَنَسٌ : فَأَنَا أُحِبُّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم وَأَبَابَکْرٍ وَعُمَرَ وَأَرْجُوْ أَنْ أَکُوْنَ مَعَهُمْ بِحُبِّي إِيَاهُمْ، وَإِنْ لَمْ أَعْمَلْ بِمِثْلِ أَعْمَالِهِمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

19 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب عمر بن الخطاب أبي حفص القرشي العدوي، 3 / 1349، الرقم : 3485، و مسلم في الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب المرء مع من أحب، 4 / 2032، الرقم : 2639.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی آدمی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قیامت کے متعلق سوال کیا کہ (یا رسول اﷲ!) قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم نے اس کے لیے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ اس نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) میرے پاس تو کوئی شے نہیں۔ ماسوا اس کے کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم (قیامت کے روز) اسی کے ساتھ ہو گے جس سے محبت رکھتے ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں (یعنی تمام صحابہ کو) کبھی کسی خبر سے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی خوشی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمانِ اَقدس سے ہوئی کہ تم اسی کے ساتھ ہو گے جس سے محبت کرتے ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں اور حضرت ابو بکر اور عمر رضی اﷲ عنہما سے بھی محبت کرتا ہوں لہٰذا امید کرتا ہوں کہ ان کی محبت کے باعث میں بھی ان حضرات کے ساتھ ہی رہوں گا اگرچہ میرے اَعمال تو ان کے اعمال جیسے نہیں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

20. عَنْ اَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه اَنَّه قَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، الرَّجُلُ يُحِبُّ الْقَوْمَ وَلَا يَسْتَطِيْعُ اَنْ يَعْمَلَ کَعَمَلِهِمْ، قَالَ : اَنْتَ يَا اَبَا ذَرٍّ، مَعَ مَنْ اَحْبَبْتَ. قَالَ : فَإِنِّي اُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَه صلی الله عليه وآله وسلم ، قَالَ : فَإِنَّکَ مَعَ مَنْ اَحْبَبْتَ. قَالَ : فَاَعَادَهَا اَبُوْ ذَرٍّ فَاَعًادَهَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم.

رَوَاهُ اَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَالْبَزَّارُ بِإِسْنَادٍ جَيّدٍ.

20 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب أخبار الرجل الرجل بمحبته إليه، 4 / 333، الرقم : 5126، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 156، الرقم : 61416، 21501، والدارمي في السنن، 2 / 414، الرقم : 2787، والبزار في المسند، 9 / 373، الرقم : 395، وابن حبان في الصحيح، 2 / 315، الرقم : 556، والبخاري في الأدب المفرد / 128، الرقم : 351.

’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں) عرض کیا : یا رسول اللہ! ایک آدمی کچھ لوگوں سے محبت کرتا ہے، لیکن ان جیسا عمل نہیں کرسکتا(تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ تو) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابو ذر! تو اسی کے ساتھ ہوگا جس سے تجھے محبت ہے۔ انہوں نے عرض کیا : میں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ فرمایا : اے ابو ذر! تم یقینا اسی کے ساتھ ہو گے جس سے تم محبت کرتے ہو۔ راوی کا بیان ہے کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے پھر اپنا سوال دہرایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی دوبارہ وہی جواب عطا فرمایا۔‘‘

اسے امام ابو داود، اَحمد، دارمی اور بزار نے اِسناد جید کے ساتھ روایت کیا ہے۔

21. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه اَنَّ رَجُلًا عَلٰی عَهْدِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ اسْمُه عَبْدَ اﷲِ، وَکَانَ يُلَقَّبُ حِمَارًا، وَکَانَ يُضْحِکُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، وَکَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم قَدْ جَلَدَه فِي الشَّرَابِ، فَاُتِيَ بِه يَوْمًا، فَاَمَرَ بِه، فَجُلِدَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : اَللّٰهُمَّ، الْعَنْهُ مَا اَکْثَرَ مَا يُؤْتٰی بِه، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَلْعَنُوْهُ، فَوَاﷲِ، مَا عَلِمْتُ إِنَّه يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَه. وفي روارواية : لَا تَلْعَنْهُ فَإِنَّه يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَه.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَأَبُوْ يَعْلٰی، وَإِسْنَادُه حَسَنٌ.

21 : اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الحدود، باب ما يکره من لعن شارب الخمر وإنه ليس بخارج من الملة، 6 / 2489، الرقم : 6398، وعبد الرزاق في المصنف، 7 / 381، الرقم : 13552، وابو يعلی في المسند، 1 / 161، الرقم : 176، وأبو نعيم في حلرواية الأولياء، 3 / 228، والبزار في المسند، 1 / 393، الرقم : 269.

’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایک شخص تھاجس کا نام عبد اﷲ اور لقب حمار تھا، اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہنسایا کرتا تھا۔ (ایک بار وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حالت نشہ میں لایا گیا تو) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر شُرْبِ خمر کی حد جاری فرمائی۔ ایک روز اسے (پھر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حالتِ نشہ میں لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے اسے (دوبارہ) کوڑے لگائے گئے۔ لوگوں میں سے کسی نے کہا : اے اﷲ! اس پر لعنت فرما، یہ کتنی دفعہ (اس جرم میں) لایا گیا ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس پر لعنت نہ بھیجو، میں جانتا ہوں کہ یہ اﷲتعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس پر لعنت نہ بھیجو کیوں کہ یہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری، عبد الرزاق اور ابو یعلی نے اِسنادِ حسن کے ساتھ روایت کیا ہے۔

22. عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه قَالَ : جَائَ أَعْرَابِيٌّ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم شَيْخٌ کَبِيْرٌ، فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ، مَتَی السَّاعَةُ؟ قَالَ : مَا أَعْدَدْتَ لَهَا؟ فَقَالَ : لَا، وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ، مَا أَعْدَدْتُ لَهَا مِنْ کَبِيْرِ صَلَاةٍ وَلَا صِيَامٍ، إِلَّا إِنِّي أُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَه. قَالَ : فَأَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ. قَالَ : فَوَثَبَ الشَّيْخُ، فَبَالَ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : دَعُوْهُ، فَعَسٰی أَنْ يَکُوْنَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَصَبَّ عَلٰی بَوْلِه مَائً.

رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَنَحْوَهُ الدَّارَ قُطْنِيُّ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

22 : أخرجه البزار في المسند، 5 / 161، الرقم : 1753، والدار قطني في السنن، 1 / 131، الرقم : 2.3، وأبو يعلی في المسند، 6 / 310، الرقم : 3626، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 286، 10 / 280.

’’حضرت عبد اﷲ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان فرمایا کہ ایک نہایت بوڑھا دیہاتی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ عالیہ میں حاضر ہوا، اس نے عرض کیا : یا محمد! قیامت کب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے اس کے لیے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ تو اس نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) کچھ نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو مبعوث فرمایا! میں نے قیامت کے لیے نہ بہت زیادہ نمازیں اور نہ روزے تیار کر رکھے ہیں سوائے اس کے (کوئی زادِ آخرت نہیں) کہ بے شک میں اﷲ ل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سو تم اسی کے ساتھ ہو گے جس سے تم محبت رکھتے ہو۔ راوی نے بیان کیا کہ وہ بوڑھا دیہاتی اسی وقت (پیشاب کی شدید حاجت کی بناء پر) تیزی سے اُٹھا اور مسجد میں پیشاب کر دیا۔ (صحابہ کرام ث اس کو روکنے کے لیے بڑھے) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسے چھوڑ دو، عنقریب وہ اہل جنت میں سے ہو گا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کے پیشاب پر پانی بہا دیا۔‘‘

اسے امام بزار، ابویعلی اور اسی طرح دارقطنینے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا : اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔

23. عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ وَمَرْوَانَ رضي اﷲ عنهما قَالَا : إِنَّ عُرْوَةَ جَعَلَ يَرْمُقُ اَصْحَابَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم بِعَيْنَيْهِ قَالَ : فَوَاﷲِ، مَا تَنَخَّمَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي کَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَدَلَکَ بِهَا وَجْهَه وَجِلْدَه، وَإِذَا اَمَرَهُم ابْتَدَرُوْا اَمْرَه، وَإِذَا تَوَضَّاَ کَادُوْا يَقْتَتِلُوْنَ عَلٰی وُضُوْئِه، وَإِذَا تَکَلَّمَ خَفَضُوْا اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَه، وَمَا يُحِدُّوْنَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيْمًا لَه. فَرَجَعَ عُرْوَةُ إِلٰی اَصْحَابِه فَقَالَ : اَي قَوْمِ، وَاﷲِ، لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَی الْمُلُوْکِ، وَفَدْتُ عَلٰی قَيْصَرَ وَکِسْرٰی وَالنَّجَاشِيِّ، وَاﷲِ، إِنْ رَاَيْتُ مَلِکًا قَطُّ يُعَظِّمُه اَصْحَابُه مَا يُعَظِّمُ اَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم مُحَمَّدًا..... الحديث. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.

23 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الشروط، باب الشروط في الجهاد والمصالحة مع أهل الحرب وکتابة الشروط، 2 / 974، الرقم : 2581، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 329، وابن حبان في الصحيح، 11 / 216، الرقم : 4872.

’’حضرت مسور بن مخرمہ اور مروان رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے، عروہ بن مسعود (جب بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کفار کا وکیل بن کر آیا تو) صحابہ کرام ث کو بغور دیکھتا رہا کہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا لعاب دہن پھینکتے ہیں تو کوئی نہ کوئی صحابی اسے اپنے ہاتھ پر لے لیتا ہے اور اسے اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی بات کا حکم دیتے ہیں تو اس کی فوراً تعمیل کی جاتی ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضو فرماتے ہیں تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استعمال شدہ پانی کو حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گفتگو فرماتے ہیں تو صحابہ اپنی آوازوں کو پست کر لیتے ہیں اور انتہائی تعظیم کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نظر جما کر بھی نہیں دیکھتے۔ اس کے بعد عروہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گیا اور ان سے کہنے لگا : اے قوم! اﷲ کی قسم! میں (عظیم الشان) بادشاہوں کے درباروں میں وفد لے کر گیا ہوں، میں قیصر و کسریٰ اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے درباروں میں حاضر ہوا ہوں لیکن خدا کی قسم! میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا کہ اس کے درباری اس کی اس طرح تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب ان کی تعظیم کرتے ہیں۔‘‘ اسے امام بخاری، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

وفي روارواية : عَنْ مِسْوَرِ بْنِ مَخَْرَمَةَ وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ (في حديث صلح الحديبرواية) أَنَّ عُرْوَةَ قَامَ مِنْ عِنْدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَقَدْ رَأٰی مَا يَصْنَعُ بِه أَصْحَابُه لَا يَتَوَضَّأُ وُضُوْئً ا إِلاَّ ابْتَدَرُوْهُ وَلاَ يَبْصُقُ بُصَاقًا إِلاَّ ابْتَدَرُوْهُ وَلَا يَسْقُطُ مِنْ شَعَرِه شَيئٌ إِلاَّ أَخَذُوْهُ، فَرَجَعَ إِلٰی قُرَيْشٍ فَقَالَ : يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، إِنِّي جِئْتُ کِسْرٰی فِي مُلْکِه وَجِئْتُ قَيْصَرَ وَالنَّجَاشِيَّ فِي مُلْکِهِمَا، وَاﷲِ، مَا رَأَيْتُ مَلِکًا قَطُّ مِثْلَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم فِي أَصْحَابِه وَلَقَدْ رَأَيْتُ قَوْمًا لَا يُسْلِمُوْنَه لِشَيئٍ أَبْدًا.

رَوَاهُ أَحْمَدُ.

اخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 323-324، الرقم : 18930، والشوکاني في نيل الأوطار، 1 / 69.

’’ایک روایت میں ہے حضرت مسور بن مخرمہ اور مروان بن حکم سے (صلح حدیبیہ والی طویل روایت میں) مروی ہے کہ (مشرکین کا قاصد) عروہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ سے واپسی کے لیے اٹھا تو اس نے صحابہ کرام کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و عقیدت کے واقعات دیکھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضو کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام ث اس وضو کے پانی کی طرف لپکتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لعاب مبارک پھینکتے تو یہ اس کی طرف بھاگتے ہیں تاکہ وہ زمین پر نہ گرنے پائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو موئے مبارک بھی گرتا ہے اسے اٹھا لیتے ہیں۔ وہ قریش کی طرف واپس گیا اور کہا : اے قومِ قریش! میں کسریٰ کے ملک میں اس کے پاس اور قیصر اور نجاشی کے پاس ان کے ملکوں میں گیا ہوں۔ اللہ کی قسم! میں نے کسی بادشاہ کا ایسا مقام نہیں دیکھا جیسے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کرام میں ہیں اور میں نے (جانثار عاشقوں کی) ایسی قوم دیکھی ہے کہ وہ انہیں کسی بھی صورت تمہارے حوالے نہیں کریں گے۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔

24. عَنْ مُحَمَّدٍ يَعْنِي ابْنَ سِيْرِيْنَ عَنْ اَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا حَلَقَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم رَاْسَه بِمِنًی اَخَذَ شِقَّ رَاْسِهِ الْاَيْمَنَ بِيَدِه فَلَمَّا فَرَغَ نَاوَلَنِي فَقَالَ : يَا اَنَسُ، انْطَلِقْ بِهٰذَا إِلٰی اُمِّ سُلَيْمٍ، فَلَمَّا رَاَی النَّاسُ مَا خَصَّهَا بِه مِنْ ذَالِکَ تَنَافَسُوْا فِي الشِّقِّ الْآخَرِ، هٰذَا يَاْخُذُ الشَّيئَ وَهٰذَا يَاْخُذُ الشَّيئَ، قَالَ مُحَمَّدٌ : فَحَدَّثْتُه عُبَيْدَةَ السَّلْمَانِيَّ فَقَالَ : لَاَنْ يَکُوْنَ عِنْدِي مِنْهُ شَعْرَةٌ اَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ کُلِّ صَفْرَائَ وَبَيْضَائَ اَصْبَحَتْ عَلٰی وَجْهِ الْاَرْضِ وَفِي بَطْنِهَا.

رَوَاهُ اَحْمَدُ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ سَعْدٍ.

وَقَالَ الذَّهَبِيُّ فِي السِّيَرِ : قُلْتُ (اَي الذَّهَبِيُّ) : هٰذَا الْقَوْلُ مِنْ عُبَيْدَةَ رضی الله عنه هُوَ مِعْيَارُ کَمَالِ الْحُبِّ وَهُوَ اَنْ يُؤْثَرَ شَعَرَةٌ نَبَوِيَةٌ عَلٰی کُلِّ ذَهَبٍ وَفِضَّةٍ بِاَيْدِي النَّاسِ وَمِثْلُ هٰذَا يَقُوْلُه هٰذَا الإِمَامُ بَعْدَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم بِخَمْسِيْنَ سَنَةً، فَمَا الَّذِي نَقُوْلُه نَحْنُ فِي وَقْتِنَا لَوْ وَجَدْنَا بَعْضَ شَعَرِه بِإِسْنَادٍ ثَابِتٍ اَوْ شَسِعٍ نَعْلٌکَانَ لَه، اَوْ قُلَامَةُ ظُفْرٍ اَوْ شَقَفَةٌ مِنْ إِنَائٍ شَرِبَ فِيْهِ، فَلَوْ بَذَلَ الْغَنِيُّ مُعْظَمَ اَمْوَالِه فِي تَحْصِيْلِ شَيئٍ مِنْ ذَالِکَ عِنْدَه اَکُنْتَ تَعُدُّه مُبَذِّرًا اَوْ سَفِيْها، کَلَّا فَابْذُلْ مَالَکَ فِي زَوْرَةِ مَسْجِدِهِ الَّذِي بَنٰی فِيْهِ بِيَدِه وَالسَّلَامِ عَلَيْهِ عِنْدَ حُجْرَتِه فِي بَلَدِه إِلٰی اُحَدِه وَاَحَبِّه فَقَدَ کَانَ نَبِيُکَ صلی الله عليه وآله وسلم اُحِبُّه وَتَمْلَاُ بِالْحُلُوْلِ فِي رَوْضَتِه وَمَقْعَدِه فَلَنْ تَکُوْنَ مُؤْمِنًا حَتّٰی يَکُوْنَ هٰذَا السَّيّدُ اَحَبَّ إِلَيْکَ مِنْ نَفْسِکَ وَوَلَدِکَ وَاَمْوَالِکَ وَالنَّاسِ کُلِّهِمْ وَقَبِّلْ حَجَرًا مُکَرَّمًا نَزَلَ مِنَ الْجَنَّةِ وَضَعْ فَمَکَ لَاثِمًا مَکَانًا قَبَّلَه سَيّدُ الْبَشَرِ بِيَقِيْنٍ، فَهَنَّاکَ اﷲُ بِمَا اَعْطَاکَ فَمَا فَوْقَ ذَالِکَ مَفْخَرٌ. وَلَوْ ظَفَرْنَا بِالْمِحْجَنِ الَّذِي اَشَارَ بِهِ الرَّسُوْلُ صلی الله عليه وآله وسلم إِلَی الْحَجَرِ، ثُمَّ قَبَّلَ مِحْجَنَه لَحَقٌّ لَنَا اَنْ نَزْدَحِمَ عَلٰی ذًالِکَ الْمِحْجَنِ بِالتَّقْبِيْلِ وَالتَّبْجِيْلِ، وَنَحْنُ نَدْرِي بِالضَّرُوْرَةِ اَنَّ تَقْبِيْلَ الْحَجَرِ اَرْفَعُ وَاَفْضَلُ مِنْ تَقْبِيْلِ مِحْجَنِه وَنَعْلِه، وَقَدْ کَانَ ثَابِتُ الْبُنَانِيُّ إِذَا رَاٰی اَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رضی الله عنه اَخَذَ يَدَه، فَقَبَّلَهَا وَيَقُوْلُ : يَدٌ مَسَّتْ يَدَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَنَقُوْلُ : نَحْنُ إِذْ فَاتَنَا ذَالِکَ حَجَرٌ مُعَظَّمٌ بِمَنْزِلَةِ يَمِيْنِ اﷲِ فِي الْاَرْضِ مَسَّتْهُ شَفَتَا نَبِيّنَا صلی الله عليه وآله وسلم لَاثِمًا لَه، فَإِذَا فَاتَکَ الْحَجُّ وَتًلَقَّيْتَ الْوَفَدَ فَالْتَزِمِ الْحَاجَّ وَقَبِّلَ فَمَه. وَقُلْ : فَمٌ مَسَّ بِالتَّقْبِيْلِ حَجَرًا قَبَّلَه خَلِيْلِي صلی الله عليه وآله وسلم.

’’امام محمد بن سیرین، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیںکہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منیٰ میں اپنے سرمبارک کے بال اُتروائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سر انور کی دائیں جانب (کے موئے مبارک) کو اپنے ہاتھ سے پکڑا پس جب (اُتروا کر) فارغ ہوئے تو مجھے (وہ موئے مبارک) عطا فرمائے اور فرمایا : اے انس! یہ اُمِّ سلیم کے پاس لے جاؤ۔ جب صحابہ کرام نے اس عطیہ کے معاملہ میں اُم سلیم پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصی عنایت دیکھی تو وہ دوسری جانب (کے موئے مبارک کے حصول کے لیے آپس) میں مقابلہ کرنے لگے۔ کچھ موئے مبارک ایک صحابی لے رہا ہے تو کچھ دوسرا۔ امام محمد بن سیرین کہتے ہیں : میں نے یہ بات حضرت عبیدہ سلمانی رضی اللہ عنہ سے بیان کی تو انہوں نے فرمایا : (کاش) میرے پاس ان موئے مبارک میں سے اگر ایک بھی ہوتا تو وہ میرے نزدیک سونے چاندی سے بھی، جو اس زمین کے اوپر موجود ہیں یا اس کے اندر پوشیدہ ہیں، سے زیادہ محبوب ہوتا۔ (یعنی وہ موئے مبارک میرے لیے کائنات کے تمام ظاہر اور پوشیدہ خزانوں سے بڑھ کر ہوتا)۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد، بیہقی اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔

’’امام ذہبی اپنی کتاب سیر اعلام النبلاء میں فرماتے ہیں : میں کہتا ہوں حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول کمالِ محبت کا انتہائی اعلیٰ معیار ہے اور وہ یہ کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک موئے مبارک کو ساری دنیا کے لوگوں کے پاس موجود سونے چاندی کے خزانوں پر بھی ترجیح دی جائے اور یہ قول اس امام کا ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صرف پچاس سال بعد ہوئے ہیں۔ پھر ہم اپنے اس زمانے میں کیا کہیں گے جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض موئے مبارک کو صحیح سند کے ساتھ پالیں۔ یا کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت والی چیز خواہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک ہوں یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ناخن مبارک کا تراشہ، یا اس برتن کا ٹکڑا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نوش فرمایا ہو۔ پس اگر کوئی امیر آدمی ان چیزوں کے حصول میں اپنا بہت زیادہ مال صرف کر دے تو کیا تم اسے فضول خرچ یا بے وقوف خیال کروگے؟ ہرگز نہیں۔ بس تم بھی اپنا مال (اس مقصد کی خاطر) خرچ کرو (اور اگر اور کچھ نہیں) تو اس مسجد کی زیارت ہی کر لو جسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دستِ اقدس سے تعمیر کیا۔ (اسی طرح تم اپنا مال) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حجرہ مبارک کے قریب، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر میں اور وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب پہاڑ اُحد تک، سلام عرض کرنے کے لیے خرچ کرو۔ پس حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے (اُحد پہاڑ سے) محبت فرماتے تھے، اور (اے زائر!) تو حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ اطہر اور مسند شریف کی جگہ حاضری کی سعادت حاصل کر اور تم ہرگز مومن نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ یہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں تمہاری ذات، تمہاری اولاد اور تمہارے اموال اور تمام لوگوں سے محبوب تر نہ ہوجائیں۔ اور تُو اس بزرگی والے پتھر (یعنی حجر اسود) کو بھی چوم لے جو جنت سے نازل ہوا۔ اور اپنے منہ سے اس جگہ کا بوسہ لینے کی سعادت حاصل کر جس جگہ سے یقینی طور پر سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بوسہ لیا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ تیرے لیے اس امرکو باعث مسرت بنائے رکھے جو اس نے تجھے عطا کیا ہے اور جو اس سے زیادہ ہے وہ قابل فخر ہے۔ اور اگر ہم حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس عصا مبارک کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں جس کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجر اسود کی طرف اشارہ فرمایا اور پھر اسے چوما، تو ہمارے لیے یہ واجب ہے کہ ہم اس عصا مبارک کے گرد (با ادب ہوکر) ہجوم بنا لیں اور اسے چومیں اور اس کی (بے پناہ) تعظیم بجا لائیں، اور ہم بالضرور جانتے ہیں کہ بے شک حجرِ اسود کا چومنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عصا مبارک اور نعل مقدس کے چومنے سے ارفع و افضل ہے۔ اور حضرت ثابت بنانی رضی اللہ عنہ جب حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو دیکھتے تو ان کے ہاتھ چومتے اور فرماتے یہ وہ ہاتھ ہے جس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس) کو مس کیا تھا۔ پس ہم کہتے ہیں جبکہ ہم اُس (دستِ اقدس کے بوسہ کی) نعمت سے محروم ہیں تو ہمارے پاس وہ عظیم الشان حجرِ اسود موجود ہے جو اس زمین میں اﷲتعالیٰ کا دایاں دستِ قدرت ہے اور جسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک لبوں نے چومتے ہوئے چھوا تھا۔ اور (اگر) تمہیں خود حج کی سعادت نصیب نہ ہو سکے اور تو کسی ایسے وفد سے مل لو جو حج (اور روضئہ اقدس کی حاضری) کی سعادت حاصل کرکے لوٹا ہو۔ تو تم (اس وفد میں سے) کسی حاجی کے ہی منہ کو بوسہ دے لو یہ سوچ کر کہ یہ وہ لب ہیں جنہوں نے اس حجرِ اسود کا بوسہ لینے کی سعادت حاصل کی ہے جسے میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک لبوں نے بوسہ دیا تھا۔‘‘

25. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : اَصَابَ نَبِيَّ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم خَصَاصَةٌ فَبَلَغَ ذَالِکَ عَلِيّا، فَخَرَجَ يَلْتَمِسُ عَمَلًا يُصِيْبُ فِيْهِ شَيْئًا لِيُقِيْتَ بِه رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَاَتٰی بُسْتَانًا لِرَجُلٍ مِنَ الْيَهُوْدِ، فَاسْتَسْقٰی لَه سَبْعَةَ عَشَرَ دَلْوًا کُلُّ دَلْوٍ بِتَمْرَةٍ، فَخَيَرَهُ الْيَهُوْدِيُّ مِنْ تَمْرِه سَبْعَ عَشَرَةَ عَجْوَةً، فَجَائَ بِهَا إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم.

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه.

25 : اخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الأحکام، باب الرجل يستسقي کل دلو بتمرة، 2 / 818، الرقم : 2446، والبيهقي في السنن الکبری، 6 / 119، الرقم : 11429.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ (ایک مرتبہ) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاقہ سے تھے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ خبر پہنچی تو وہ مزدوری کرنے نکلے تاکہ اُس کے معاوضہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کھانا پیش کر سکیں چنانچہ وہ ایک یہودی کے باغ میں پہنچے تو اس کے لیے ہر ڈول کے عوض ایک کھجور کے معاوضہ پر سترہ ڈول پانی کھینچا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ وہ سترہ عجوہ کھجوریں لے کر بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہو گئے۔‘‘ اسے امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

والبيهقي ايضًا إِلاَّ قَالَ : فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مِنْ اَيْنَ هٰذَا يَا اَبَا الْحَسَنِ؟ قَالَ : بَلَغَنِي مَا بِکَ مِنَ الْخَصَاصَةِ يَا نَبِيَّ اﷲِ، فَخَرَجْتُ أَلْتَمِسُ عَمَلًا لِاُصِيْبَ لَکَ طَعَامًا. قَالَ : فَحَمَلَکَ عَلٰی هٰذَا حُبُّ اﷲِ وَرَسُوْلِه؟ قَالَ عَلِيٌّ : نَعَمْ، يَا نَبِيَّ اﷲِ، فَقَالَ نَبِيٌّ صلی الله عليه وآله وسلم : وَاﷲِ، مَا مِنْ عَبْدٍ يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَه إِلَّا الْفَقْرُ اَسْرَعُ إِلَيْهِ مِنْ جَرْيَةِ السَّيْلِ عَلٰی وَجْهِه، مَنْ اَحَبَّ اﷲَ وَرَسُوْلَه فَلْيُعِدَّ تِجْفَافًا وَإِنَّمَا يَعْنِي الصَّبْرَ.

’’امام بیہقی نے مزید بیان کیا کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا : اے ابو الحسن! یہ کھجوریں کہاں سے آئیں؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا نبی اﷲ! مجھے آپ کے فاقہ کی خبر پہنچی تو میں مزدوری کی تلاش میں نکل پڑا تاکہ آپ کی خدمت میں کچھ کھانے کو پیش کر سکوں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تجھے اﷲ ل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت نے اس کام پر ابھارا تھا؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : جی ہاں، یا نبی اﷲ! تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : خدا کی قسم! کوئی بندہ ایسا نہیں کہ وہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہو اور فقر و فاقہ اس کے چہرے کی طرف سیلاب کی سی تیزی سے نہ بڑھیں لہٰذا جو اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہو تو اسے (ان آزمائشوں پر) صبر کے لیے تیار رہنا چاہیے۔‘‘

26. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَخْرُجُ عَلٰی أَصْحَابِه مِنَ الْمُهَاجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ، وَهُمْ جُلُوْسٌ، فِيْهِمْ أَبُوْ بَکْرٍ وَعَُمَرُ، فَلَا يَرْفَعُ إِلَيْهِ أَحَدٌ مِنْهُمْ بَصَرَه إِلاَّ أَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ، فَإِنَّهُمَا کَانَا يَنْظُرَانِ إِلَيْهِ وَيَنْظُرُ إِلَيْهِمَا وَيَتَبَسَّمَانِ إِلَيْهِ وَيَتَبَسَّمُ إِلَيْهِمَا.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ وَأَحْمَدُ فِي الْفَضَائِلِ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

26 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في مناقب أبي بکر وعمر کليهما، 5 / 612، الرقم : 3668، والحاکم في المستدرک، 1 / 209، الرقم : 417، والطيالسي في المسند، 1 / 275، الرقم : 2064، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 212، الرقم : 339.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مہاجر اور انصار صحابہ کرام کے جھرمٹ میں تشریف فرما ہوتے اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنھما بھی ان میں ہوتے تو کوئی صحابی بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نگاہ اٹھا کر نہ دیکھتا، البتہ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنھما حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور کو مسلسل تکتے رہتے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں دیکھتے، یہ دونوں حضرات رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر مسکراتے اور خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دونوں کو دیکھ کر تبسم فرماتے۔‘‘

اسے امام ترمذی، حاکم اور احمد نے فضائل الصحابہ میں روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

27. عَنِ ابْنِ شِمَاسَةَ الْمَهْرِيِّ قَالَ : حَضَرْنَا عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ رضی الله عنه وَهُوَ فِي سِيَاقَةِ الْمَوْتِ، فَبَکٰی طَوِيْلًا وَقَالَ : وَمَا کَانَ اَحَدٌ اَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، وَلَا اَجَلَّ فِي عَيْنِي مِنْهُ، وَمَا کُنْتُ اُطِيْقُ اَنْ اَمْلَاَ عَيْنَيَّ مِنْهُ إِجْلَالًا لَه، وَلَوْ سُئِلْتُ اَنْ اَصِفَه مَا اَطَقْتُ لِاَنِّي لَمْ اَکُنْ اَمْلَاُ عَيْنَيَّ مِنْه ... الحديث.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَابْنُ مَنْدَه.

27 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب کون الإسلام يهدم ما قبله وکذا الهجرة والحج، 1 / 112، الرقم : 121، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 131، الرقم : 2515، وابن منده في الإيمان، 1 / 420، الرقم : 270، وابو عوانة في المسند، 1 / 70، الرقم : 200، وابن أبي عاصم في الأحاد والمثاني، 2 / 101، الرقم : 801.

’’حضرت ابن شِماسہ مہری بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ مرض موت میں مبتلا تھے ہم ان کی عیادت کے لیے گئے۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کافی دیر تک روتے رہے اور فرمانے لگے : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ مجھے (اس کائنات میں) کوئی ہستی محبوب نہ تھی، اور نہ میری نظر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کوئی بزرگ و معزز تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و جلالت کے پیش نظر میںکبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آنکھ بھر کر نہیں دیکھ سکا۔ اگر مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیہ مبارک بیان کرنے کو کہا جائے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیہ مبارک بیان نہیں کر سکتا کیوں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی آنکھ بھر کر دیکھ ہی نہیں سکا۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم، ابن خزیمہ، اور ابن مندہ نے روایت کیا ہے۔

28. عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ وَاَبِي سَعِيْدٍ رضي اﷲ عنهما يَقُوْلَانِ : خَطَبَنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَومًا قَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِه. ثَلَاثَ مَرَّاتٍ. ثُمَّ اَکَبَّ، فَاَکَبَّ کُلُّ رَجُلٍ مِنَّا يَبْکِي لَا نَدْرِي عَلٰی مَاذَا حَلَفَ ثُمَّ رَفَعَ رَاْسَه، فِي وَجْهِهِ الْبُشْرٰی فَکَانَتْ اَحَبَّ إِلَيْنَا مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ، ثُمَّ قَالَ : مَا مِنْ عَبْدٍ يُصَلِّي الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ وَيَصُوْمُ رَمَضَانَ وَيُخْرِجُ الزَّکَاةَ وَيَجْتَنِبُ الْکَبَائِرَ السَّبْعَ إِلَّا فُتِّحَتْ لَه اَبْوَابُ الْجَنَّةِ، فَقِيْلَ لَهُ : ادْخُلْ بِسَلَامٍ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ.

28 : أخرجه النسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب وجوب الزکاة، 5 / 8، الرقم : 2438، وأيضًا في السنن الکبری، 2 / 5، الرقم : 2218، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 299، الرقم : 1103، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 170.

’’حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابو سعید رضی اﷲ عنہما دونوں کا بیان ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا : اس ہستی کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! (اس ہستی کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس ہستی کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!) تین دفعہ فرمانے کے بعد چہرہ اقدس کے بل جا گرے(یعنی سجدہ ریز ہو گئے)، ہم سب بھی منہ کے بل گر کر رونے لگے۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حلف کیوں اُٹھایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سرِ انور اٹھایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور پر رونق تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس پر خوشی کے آثار ہمیں سرخ اونٹوں سے بھی بڑھ کر پسند تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمانے لگے : جو شخص پانچ نمازیں پڑھے، رمضان المبارک کے روزے رکھے، زکوٰۃ ادا کرے اور سات کبیرہ گناہوں سے بچا رہے، اس کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور اسے کہا جائے گا کہ سلامتی سے داخل ہو جاؤ۔‘‘

اس حدیث کو امام نسائی نے روایت کیا ہے۔

29. عَنِ الْاَدْرَعِ السُّلَمِيِّ رضی الله عنه قَالَ : جِئْتُ لَيْلَةً اَحْرُسُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَإِذَا رَجُلٌ قِرَائَ تُه عَالِيَةٌ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، هٰذَا مُرَائٍ (وفي روارواية قَالَ : فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، أَمُرَائٍ هٰذَا؟ قَالَ : مَعَاذَ اﷲِ، هٰذَا عَبْدُ اﷲِ ذُو الْبِجَادَيْنِ) قَالً : فَمَاتَ بِالْمَدِيْنَةِ، فَفَرَغُوْا مِنْ جِهَازِه، فَحَمَلُوْا نَعْشَه. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : ارْفُقُوْا بِه رَفَقَ اﷲُ بِه، إِنَّه کَانَ يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَه. قَالَ : وَحَفَرَ حُفْرَتَه. فَقَالَ : اَوْسِعُوْا لَه اَوْسَعَ اﷲُ عَلَيْهِ. فَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِه : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، لَقَدْ حَزِنْتَ عَلَيْهِ. فَقَالَ : اَجَلْ إِنَّه کَانَ يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَه.

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ. وَقَالَ الْکِنَانِيُّ : وَلَه شَوَاهِدُ مِنْ حَدِيْثِ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ رضی الله عنه رَوَاهُ أَصْحَابُ السُّنَنِ الْاَرْبَعَةِ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

29 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في حفر القبر، 1 / 497، الرقم : 1559، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 337، الرقم : 18992، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 4 / 348، الرقم : 2382، وابن حبان في الثقات، 2 / 99، وأبو نعيم في حلرواية الاولياء، 1 / 122، والطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 52، الرقم : 9111، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 417، الرقم : 583، وابن عبد البر في الاستيعاب، 3 / 1003، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 43، 9 / 369.

’’حضرت ادرع سلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات میں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہرہ داری کے فرائض ادا کرنے آیا تو (کہیں سے) ایک شخص کی بلند آواز سے قرات کی آواز آرہی تھی۔ اتنے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لے آئے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! یہ آدمی ریاکار معلوم ہوتا ہے (ایک روایت میں بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یارسول اﷲ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کیا یہ شخص ریاکار ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : معاذ اﷲ! یہ تو عبد اﷲ ذو البجادین ہے۔) اس کے چند روز بعد اس آدمی کا انتقال ہوگیا۔ جب اس کا جنازہ تیار ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا : اپنے بھائی کے ساتھ نرمی کرنا اللہ تعالیٰ بھی اس کے ساتھ نرمی کرے گاکیوں کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھتا تھا۔ لوگوں نے اس کی قبر کھودی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قبر کشادہ کرو، اللہ ل بھی اس پر کشادگی کرے گا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ کو اس کا بہت غم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں یہ اللہ ل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت (جو) رکھتا تھا۔‘‘

اسے امام ابن ماجہ، احمد اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔ امام کنانی نے فرمایا : اس حدیث کے دیگر شواہد بھی موجود ہیں جو کہ حضرت ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں جو کہ چاروں اصحابِ سنن (ترمذی، ابو داود، نسائی اور ابن ماجہ) نے روایت کی ہیں۔ امام ہیثمی نے فرمایا : اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔

وفي روارواية : عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه قَالَ : وَاﷲِ، لَکَأَنِّي أَرٰی رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي غَزْوةِ تَبُوْکَ وَهُوَ فِي قَبْرِ عَبْدِ اﷲِ ذِي الْبِجَادَيْنِ وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ رضي اﷲ عنهما يَقُوْلُ : أَدْلِيَا مِنِّي أَخَاکُمْ وَأَخَذَه مِنْ قِبَلِ الْقِبْلَةِ حَتّٰی أَسْنَدَه فِي لَحْدِه، ثُمَّ خَرَجَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم وَوَلاَّهُمَا الْعَمَلَ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ دَفْنِهِ، اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ رَافِعًا يَدَيْهِ يَقُوْلُ : اَللّٰهُمَّ، إِنِّي أَمْسَيْتَ عَنْهُ رَاضِيا فَارْضِ عَنْهُ وَکَانَ ذَالِکَ لَيْلًا. فَوَاﷲِ، لَقَدْ رَأَيْتُنِي، وَلَوَدِدْتُ أَنِّي مَکَانَه وَلَقَدْ أَسْلَمْتُ قَبْلَه بِخَمْسَةَ عَشْرَ سَنَةً.

رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ.

’’ایک روایت میں حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اﷲ کی قسم! میں نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غزوہ تبوک کے موقع پر دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو بکر و عمر رضی اﷲ عنھما کے ساتھ حضرت عبد اﷲ ذو البجادین رضی اللہ عنہ کی قبر میں اُترے ہوئے ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنھما سے) فرما رہے ہیں : اپنے بھائی کو میرے قریب کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں قبلہ رُخ سے تھاما یہاں تک کہ انہیں ان کی لحد میں رکھ دیا، پھر حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبر سے باہر تشریف لے آئے اور تدفین کا باقی کام حضرت ابو بکر و عمر رضی اﷲ عنھما کو سونپ دیا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی تدفین سے فارغ ہو گئے، تو قبلہ رخ ہو کر قیام فرما ہوئے اور اپنے دستِ مبارک بارگاہِ الٰہی میں دعا کے لیے اٹھا لیے اور عرض کیا : اے اﷲ! میں (اپنے اس غلام) سے راضی ہوں سو تو بھی اس سے راضی ہو جا۔‘‘ وہ رات کا وقت تھا۔ (حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں) پس اﷲ کی قسم! اس وقت میں نے (رشک کے باعث) شدید خواہش کی کہ کاش ان کی جگہ میں دفن ہوتا۔ جبکہ میں نے ان سے پندرہ سال پہلے اسلام قبول کیا تھا۔‘‘ اس حدیث کو امام ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔

وفي روارواية عنه : قَالَ : قُمْتُ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ وَأَنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي غَزْوَةِ تَبُوْکَ قَالَ : فَرَأَيْتُ شُعْلَةً مِنْ نَارٍ فِي نَاحِيَةِ الْعَسْکَرِ، قَالَ : فَاتَّبَعْتُهَا أَنْظُرْ إِلَيْهَا، فَإِذَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ، وَإِذَا عَبْدُ اﷲِ ذُو الْبِجَادَيْنِ الْمُزَنِيُّ قَدْ مَاتَ فَإِذَا هُمْ قَدْ حَفَرُوْا لَه، وَرَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي حُفْرَتِه، وأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ يُدْلِيَانِه وَهُوَ يَقُوْلُ : أَدْلِيَا لِي أَخَاکُمَا، فَدَلُّوْهُ إِلَيْهِ، فَلَمَّا هَيَأَهُ لِشِقِّه قَالَ : اَللّٰهُمَّ، إِنِّي قَدْ أَمْسَيْتُ عَنْه رَاضِيا فَارْضِ عَنْه، قَالَ : يَقُوْلُ عَبْدُ اﷲِ بْنُ مَسْعُوْدٍ ص : لَيْتَنِي کُنْتُ صَاحِبَ الْحُفْرَةِ. وفي روارواية : فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ : وَاﷲِ، لَوَدِدْتُ أَنِّي صَاحِبَ الْحُفْرَةِ.

رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَالطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ الْعَيْنِيُّ : قَالَ الذَّهَبِيُّ : حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.

’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہی ایک روایت میں بیان فرماتے ہیں کہ آدھی رات کو میں اٹھ کھڑا ہوا، اور میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ غزوہ تبوک میں تھا، میں نے لشکر کی جانب آگ کا ایک شعلہ دیکھا، میں اس شعلہ کو دیکھتے ہوئے (معلوم کرنے) اس جانب چلا گیا، پس دیکھا تو حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت ابو بکر و عمر رضی اﷲ عنھما موجود ہیں۔ اور حضرت عبد اﷲ ذو البجادین مزنی رضی اللہ عنہ فوت ہو چکے ہیں۔ اور وہ ان کے لیے قبر تیار کروا چکے تھے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی قبر میں اترے ہوئے تھے، اور حضرت ابو بکر و عمر رضی اﷲ عنھما ان کے جسدِ اقدس کو قبر میں اتار رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے : اپنے بھائی کو میرے قریب کرو، پس انہوں نے اسے قریب کیا، پس جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں لحد میں لٹا دیا تو بارگاہ الٰہی میں عرض کیا : ’’اے اﷲ! میں اس سے راضی ہو چکا ہوں، پس تو بھی اس سے راضی ہوجا۔‘‘ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ (میں نے رشک کے باعث اس وقت شدید خواہش کی کہ) کاش میں اس قبر میں ان کی جگہ دفن ہوتا (جس میں خود حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُترے ہوئے تھے)۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے (بھی اس وقت رشک سے) فرمایا : میں نے چاہا کہ کاش اس صاحب قبر کی جگہ میں ہوتا!‘‘

اس حدیث کو امام ابو نعیم، طبرانی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے، اور امام عینی نے بیان کیا کہ امام ذہبی نے فرمایا : یہ حدیث صحیح ہے۔

30. عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ الْاَنْصَارِيِّ رضی الله عنه وَکَانَ تَبِعَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم ، وَخَدَمَه وَصَحِبَه اَنَّ اَبَا بَکْرٍ کَانَ يُصَلِّي لَهُمْ فِي وَجَعِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم الَّذِي تُوُفِّيَ فِيْهِ، حَتّٰی إِذَا کَانَ يَوْمُ الْاِثْنَيْنِ وَهُمْ صُفُوْفٌ فِي الصَّلَاةِ، فَکَشَفَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم سِتْرَ الْحُجْرَةِ، يَنْظُرُ إِلَيْنَا وَهُوَ قَائِمٌ، کَاَنَّ وَجْهَه وَرَقَةُ مُصْحَفٍِ، ثُمَّ تَبَسَّمَ يَضْحَکُ فَهَمَمْنَا اَنْ نَفْتَتِنَ مِنَ الْفَرَحِ بِرُؤْيَةِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَنَکَصَ اَبُوْ بَکْرٍ عَلٰی عَقِبَيْهِ لِيَصِلَ الصَّفَّ، وَظَنَّ اَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم خَارِجٌ إِلَی الصَّلَاةِ، فَاَشَارَ إِلَيْنَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم اَنْ اَتِمُّوْا صَلَاتَکُمْ وَاَرْخَی السِّتْرَ، فَتُوُفِّيَ مِنْ يَوْمِه. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

30 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأذان، باب اهل العلم والفضل احقّ بالإمامة، 1 / 240، الرقم : 648، وأيضًا في کتاب الاذان، باب هل يلتفت لأمر ينزل به، 1 / 262، الرقم : 721، وأيضًا في کتاب المغازي، باب مرض النبي صلی الله عليه وآله وسلم ووفاته، 4 / 1616، الرقم : 4183، ومسلم في الصحيح، کتاب الصلاة، باب استخلاف الإمام إذا عرض له عذر من مرض وسفر وغيرهما من يصلي بالناس، 1 / 316، الرقم : 419.

’’حضرت انس بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ جو کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی اور خادم خاص تھے فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرض وصال میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے، چنانچہ پیر کے روز لوگ صفیں بنائے نماز ادا کر رہے تھے کہ اتنے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجرہ مبارک کا پردہ اٹھایا اور کھڑے ہمیں دیکھنے لگے۔ اس وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور قرآن کے ورق کی طرح معلوم ہوتا تھا، پھر (جماعت کو دیکھ کر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار پرُانوار کی خوشی میں قریب تھا کہ ہم نماز توڑ دیتے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹ کر صف میں مل جانا چاہا، کیوں کہ اُنہیں خیال ہوا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لیے تشریف لا رہے ہیں لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اشارہ سے فرمایا کہ تم لوگ نماز پوری کرو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردہ گرا دیا اور اسی روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوگیا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

31. عَنْ اَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا ثَقُلَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم جَعَلَ يَتَغَشَّاهُ فَقَالَتْ فَاطِمَةُ عليها السلام : وَا کَرْبَ اَبَاهُ. فَقَالَ لَهَا : لَيْسَ عَلٰی اَبِيْکِ کَرْبٌ بَعْدَ الْيَوْمِ. فَلَمَّا مَاتَ قَالَتْ : يَا اَبَتَاهُ اَجَابَ رَبًّا دَعَاهُ، يَا اَبَتَاهْ مَنْ جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَاْوَاهُ، يَا اَبَتَاهْ إِلٰی جِبْرِيْلَ نَنْعَاهْ. فَلَمَّا دُفِنَ قَالَتْ فَاطِمَةُ عليها السلام : يَا اَنَسُ، اَطَابَتْ اَنْفُسُکُمْ اَنْ تَحْثُوْا عَلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم التُّرَابَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَابْنُ حِبَّانَ.

31 : اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المغازي، باب مرض النبي ووفاته صلی الله عليه وآله وسلم ، 4 / 1619، الرقم : 4193، والنسائي في السنن، کتاب الجنائز، باب في البکاء علی الميت، 4 / 12، الرقم : 1844، وعبد الرزاق في المصنف، 3 / 553، الرقم : 6673، وابن حبان في الصحيح، 14 / 592، الرقم : 6622.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرض نے شدت اختیار کرلی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر غشی طاری ہو گئی تو حضرت فاطمہ علیہا السلام نے کہا : ہائے میرے اباجان ایسی تکلیف! تو آپ نے ان سے فرمایا : تمہارے اباجان کو آج کے بعد تکلیف نہ ہوگی۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوگیا تو انہوں نے کہا : اے ابا جان! آپ نے اپنے ربّ کریم کے بلاوے کو قبول کرلیا۔ اباجان! آپ تو جنت الفردوس میں قیام پذیر ہیں۔ اے اباجان! میں اس غم کی خبر حضرت جبرائیل ں کو سناتی ہوں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دفن کیا جا چکا تو سیدہ فاطمہ علیہا السلام نے حضرت انس سے فرمایا : تمہارے دلوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مٹی ڈالنا کیسے برداشت کرلیا۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری، نسائی، عبد الرزاق اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

وفي روارواية : عَنْ ثَابِتٍ عَنْ اَنَسٍ رضی الله عنه اَنَّ فَاطِمَةَ قَالَتْ : حِيْنَ قُبِضَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : وَا اَبَتَاهُ إِلٰی جِبْرَائِيْلَ اَنْعَاهُ، وَا اَبَتَاهُ مِنْ رَبِّه مَا اَدْنَاهُ، وَا اَبَتَاهُ جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَاْوَاهُ، وَا اَبَتَاهُ اَجَابَ رَبًّا دَعَاهُ، قَالَ حَمَّادٌ : فَرَاَيْتُ ثَابِتًا حِيْنَ حَدَّثَ بِهٰذَا الْحَدِيْثِ بَکٰی حَتّٰی رَاَيْتُ اَضْلَاعَه تَخْتَلِفُ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالدَّارِمِيُّ.

اخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب ما جاء في الجنائز، باب ذکر وفاته ودفنه صلی الله عليه وآله وسلم ، 1 / 522، الرقم : 1630، والدارمي في السنن، 1 / 54، الرقم : 87.

’’ایک روایت میں حضرت ثابت رضی اللہ عنہ ، حضرت انس سے بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوگئی تو سیدہ زہرا سلام اﷲ علیہا نے فرمایا : اے میرے ابا جان! میں جبرائیل سے آپ کے وصال کا دکھ بیان کرتی ہوں، اے میرے ابا جان! آپ اپنے خدا سے کس قدر قریب ہیں، اے میرے ابا جان! آپ کا مقام جنت ہے۔ اے میرے ابا جان! آپ نے اﷲ تعالیٰ کے بلاوے کو قبول کیا ہے۔ راوی حماد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ثابت رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ جب وہ اس حدیث کو بیان کر رہے تھے تو اتنا روئے کہ ان کی پسلیاں ایک دوسرے پر چڑھ رہی تھیں۔‘‘ اسے امام ابن ماجہ اور دارمی نے روایت کیا ہے۔

32. عَنِ الْقَاسِمِ ابْنِ مُحَمَّدٍ اَنَّ رَجُلًا مِنْ اَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم ذَهَبَ بَصَرُه، فَعَادُوْهُ. فَقَالَ : کُنْتُ اُرِيْدُهُمَا لِاَنْظُرَ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَاَمَّا إِذْ قُبِضَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَوَاﷲِ، مَا يَسُرُّنِي اَنْ مَا بِهِمَا بِظَبْيٍ مِنْ ظِبَائِ تُبَالَةَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْاَدَبِ وَابْنُ سَعْدٍ.

32 : أخرجه البخاري في الادب المفرد / 188، الرقم : 533، وابن سعد في الطبقات الکبری، 2 / 313.

’’حضرت قاسم بن محمد رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک صحابی کی بینائی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدائی میں) جاتی رہی تو لوگ ان کی عیادت کے لیے گئے۔ (جب ان کی بینائی ختم ہونے پر افسوس کا اظہار کیا) تو انہوں نے فرمایا : میں ان آنکھوںکو فقط اس لیے پسند کرتا تھا کہ ان کے ذریعہ مجھے میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار نصیب ہوتا تھا۔ اب چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو گیا ہے اس لیے اگر مجھے چشم غزال (ہرن کی آنکھیں) بھی مل جائیں تو کوئی خوشی نہ ہوگی (کیونکہ اب دیدارِ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مجھے ان ظاہری آنکھوں کی ضرورت نہیں)۔‘‘

اسے امام بخاری نے الادب المفرد میں اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔

33. عَنْ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدٍ رضی الله عنه عَنْ اَبِيْهِ قَالَ : مَا سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما يَذْکُرُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَطُّ إِلاَّ بَکٰی. رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.

33 : أخرجه الدارمي في السنن، باب في وفاة النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 1 / 54، الرقم : 86.

’’حضرت عمر بن محمد رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے جب بھی حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے سنا تو اُن کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے۔‘‘ اس حدیث کو امام دارمی نے روایت کیا ہے۔

وفي روارواية : عَنْ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ ث قَالَ : سَمِعْتُ اَبِي يَقُوْلُ : مَا ذَکَرَ ابْنُ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِلَّا بَکٰی وَمَا مَرَّ عَلٰی رِبْعِهِمْ إِلَّا غَمَضَ عَيْنَيْهِ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.

أخرجه البيهقي في المدخل إلی السنن الکبری، باب أقاويل الصحابة ث إذا تفرقوا فيها ويستدل به، 1 / 148، الرقم : 113، والعسقلاني في الإصابة، 4 / 187، والقيسراني في تذکرة الحفاظ، 1 / 38.

’’ایک روایت میں حضرت عمر بن محمد بن زید بن عبد اللہ بن عمر ث سے مروی ہے کہ میں نے اپنے والد سے سنا : انہوں نے بیان کیا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرتے تو آبدیدہ ہو جاتے، اور جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے (آثار و) مقامات سے گزرتے تو آنکھیں بند کر لیتے۔‘‘ اسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

34. عَنِ الْمُثَنَّی بْنِ سَعِيْدٍ الذَّرَاعِ قَالَ : سَمِعْتُ اَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رضی الله عنه يَقُوْلُ : مَا مِنْ لَيْلَةٍ إِلَّا وَاَنَا اَرٰی فِيْهَا حَبِيْبِي صلی الله عليه وآله وسلم، ثُمَّ يَبْکِي. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

34 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 7 / 20، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 9 / 358، والذهبي في سير اعلام النبلاء، 3 / 403.

’’حضرت مثنی بن سعید ذراع روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد) کوئی ایک رات بھی ایسی نہیں گزری جس میں، میں نے اپنے محبوب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نہ کرتا ہوں یہ کہہ کرحضرت اَنس رضی اللہ عنہ زار و قطار رونے لگے۔‘‘

اسے امام ابن سعد اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

35. عَنْ عُمَرَ اَنَّه فَرَضَ لِاُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ فِي ثَلاثَةِ آلَافٍ وَخَمْسِ مِائَةٍ وَفَرَضَ لِعَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ فِي ثَلَاثَةِ آلَافٍ. قَالَ عَبْدُ اﷲِ بْنُ عُمَرَ لِاَبِيهِ : لِمَ فَضَّلْتَ أُسَامَةَ عَلَيَّ، فَوَاﷲِ، مَا سَبَقَنِي إِلٰی مَشْهَدٍ. قَالَ : لِاَنَّ زَيْدًا کَانَ اَحَبَّ إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنْ اَبِيْکَ وَکَانَ اُسَامَةُ اَحَبَّ إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنْکَ، فَآثَرْتُ حُبَّ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلٰی حُبِّي. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

35 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب زيد بن حارثة، 5 / 675، الرقم : 3813.

’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا وظیفہ ساڑھے تین ہزار مقرر فرمایا اور (اپنے بیٹے) عبد اﷲ بن عمر کے لیے تین ہزار۔ حضرت عبد اللہ بن عمر نے اپنے والد سے پوچھا : آپ نے حضرت اُسامہ بن زید کو مجھ پر کیوں فضیلت دی؟ وہ کسی جنگ میں مجھ پر سبقت نہیں لے گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت زید، تمہارے باپ سے اور حضرت اسامہ تم سے زیادہ محبوب تھے لہٰذا میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب کو اپنے محبوب پر ترجیح دی ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔

36. عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مِنْ اَشَدِّ اُمَّتِي لِي حُبًّا نَاسٌ يَکُوْنُوْنَ بَعْدِي، يَوَدُّ اَحَدُهُمْ لَوْ رَآنِي بِاَهْلِه وَمَالِه.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.

36 : اخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجنة وصفة نعيمها واهلها، باب فيمن يود رؤرواية النبي صلی الله عليه وآله وسلم باهله وماله، 4 / 2178، الرقم : 2832، واحمد بن حنبل في المسند، 2 / 417، الرقم : 9388، وابن عبد البر في التمهيد، 20 / 248، وأيضًا في الاستذکار، 1 / 188، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 212، الرقم : 809، والذهبي في سير اعلام النبلاء، 12 / 526.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری اُمت میں مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد ہوں گے، ان میں سے ایک شخص کی یہ آرزو ہوگی کہ کاش وہ اپنے تمام اہل و عیال اور مال و دولت کو قربان کر کے میری زیارت کر لے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔

37. عَنِ ابْنِ سِيْرِيْنَ قَالَ : قُلْتُ لِعُبَيْدَةَ : عِنْدَنَا مِنْ شَعَرِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ، اَصَبْنَاهُ مِنْ قِبَلِ اَنَسٍ، اَوْ مِنْ قِبَلِ أَهْلِ اَنَسٍ ص، فَقَالَ : لَأَنْ تَکُوْنَ عِنْدِي شَعَرَةٌ مِنْهُ اَحَبُّ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيْهَا.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

37 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الوضوء، باب الماء الذي يغسل به شعر الإنسان وکان عطاء لا يری، 1 / 75، الرقم : 168، والبيهقي في السنن الکبری، 7 / 67، الرقم : 13188.

’’امام ابن سیرین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے حصرت عبیدہ رضی اللہ عنہ کو بتایا : ہمارے پاس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ موئے مبارک ہیں جنہیں ہم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یا حضرت انس رضی اللہ عنہ کے گھر والوں سے حاصل کیا ہے۔ حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اگر ان میں سے ایک موئے مبارک بھی میرے پاس ہوتا تو وہ مجھے دنیا کی ساری نعمتوں سے کہیں زیادہ محبوب ہوتا۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

38. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ أَبُوْ بَکْرٍ، بَعْدَ وَفَاةِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، لِعُمَرَ : انْطَلِقْ بِنَا إِلٰی أُمِّ أَيْمَنَ رضي اﷲ عنها نَزُوْرُهَا. کَمَا کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَزُوْرُهَا. فَلَمَّا انْتَهَيْنَا إِلَيْهَا بَکَتْ فَقَالَا لَهَا : مَا يُبْکِيْکِ؟ مَا عِنْدَ اﷲِ خَيْرٌ لِرَسُوْلِه. فَقَالَتْ : مَا أَبْکِي أَنْ لَا أَکُوْنَ أَعْلَمُ أَنَّ مَا عِنْدَ اﷲِ خَيْرٌ لِرَسُوْلِه صلی الله عليه وآله وسلم ، وَلٰکِنْ أَبْکِي أَنَّ الْوَحْيَ قَدِ انْقَطَعَ مِنَ السَّمَائِ فَهَيَجَتْهُمَا عَلَی الْبُکَائِ فَجَعَلَا يَبْکِيَانِ مَعَهَا.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَ ابْنُ مَاجَه وَأَبُوْ يَعْلٰی.

38 : اخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة ث، باب من فضائل أم أيمن، 4 / 1907، الرقم : 2454، وابن ماجه في السنن، کتاب ما جاء في الجنائز، باب ذکر وفاته ودفنه صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 / 523، الرقم : 1635، وأبو يعلی في المسند، 1 / 71، الرقم : 69.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر سے کہا کہ چلو حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا کی زیارت کر کے آئیں جس طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی ملاقات کے لیے تشریف لے جاتے تھے، جب ہم حضرت ام ایمن کے پاس پہنچے تو وہ رونے لگیں، ان دونوں نے کہا : کس چیز نے آپ کو رُلا دیا؟ اللہ تعالیٰ کے پاس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے جو کچھ ہے وہ زیادہ اچھا ہے۔ حضرت ام ایمن رضی اﷲ عنہا نے کہا کہ میں اس لیے نہیں رو رہی کہ میں نہیں جانتی کہ اللہ تعالیٰ کے پاس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اچھا اجر ہے، لیکن میں اس لیے رو رہی ہوں کہ آسمان سے وحی کا نزول بند ہو گیا ہے، حضرت ام ایمن کی اس بات نے ان پر بھی گریہ طاری کردیا اور وہ بھی رونے لگ گئے۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم، ابن ماجہ اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

39. عَنْ کَرِيْمَةَ بِنْتِ هَمَّامٍ رضي اﷲ عنها اَنَّ امْرَاَةً اَتَتْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها فَسَاَلَتْهَا عَنْ خِضَابِ الْحِنَّائِ. فَقَالَتْ : لَا بَاْسَ بِه، وَلٰکِنْ اَکْرَهُه، کَانَ حَبِيْبِي رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَکْرَهُ رِيْحَه.

رَوَاهُ اَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَاَحْمَدُ.

39 : اخرجه ابو داود في السنن، کتاب الترجل، باب الخضاب للنساء، 4 / 76، الرقم : 4164، والنسائي في السنن، کتاب الزينة، باب کراهرواية ريح الحناء، 8 / 142، الرقم : 5090، وايضًا في السنن الکبری، 5 / 419، الرقم : 9365، واحمد بن حنبل في المسند، 6 / 210، الرقم : 25801.

’’حضرت کریمہ بنت ہمام رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ ایک عورت نے مہندی کے خضاب کے متعلق حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے دریافت کیا۔ تو انہوں نے فرمایا : اِس میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن میں اسے ناپسند کرتی ہوں کیوں کہ میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی بو کو ناپسند فرمایا کرتے تھے۔‘‘

اِس حدیث کو امام ابوداود، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔

40. عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما فَخَدِرَتْ رِجْلُه، فَقُلْتُ : يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، مَا لِرِجْلِکَ؟ قَالَ : اجْتَمَعَ عَصَبُهَا مِنْ هَاهُنَا. فَقُلْتُ : اُدْعُ اَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْکَ. فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ. فَانْبَسَطَتْ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْاَدَبِ وَابْنُ السُّنِّيِّ وَاللَّفْظُ لَه.

40 : اخرجه البخاري في الادب المفرد / 335، الرقم : 964، وابن الجعد في المسند، 1 / 369، الرقم : 2539، وابن سعد في الطبقات الکبری، 4 / 154، وابن السني في عمل اليوم والليلة / 141-142، الرقم : 168-170، 172، والقاضي عياض في الشفا / 498، الرقم : 1218، ويحيی بن معين في التاريخ، 4 / 24، الرقم : 2953.

’’حضرت عبد الرحمن بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کے ساتھ تھے کہ ان کا پاؤں سن ہوگیا تو میں نے ان سے عرض کیا : اے ابو عبد الرحمن! آپ کے پاؤں کو کیا ہوا ہے؟ توانہوں نے فرمایا : یہاں سے میرے پٹھے کھینچ گئے ہیں تو میں نے عرض کیا : تمام لوگوں میں سے جو ہستی آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہو اسے پکاریں، تو انہوں نے یا محمد (صلی اﷲ علیک وسلم) کا نعرہ بلند کیا (راوی بیان کرتے ہیں کہ) اسی وقت ان کے اعصاب کھل گئے۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری نے الادب المفرد میں اور ابن السنی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔

وفي روارواية : خَدِرَتْ رِجْلُ رَجُلٍ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما : اُذْکُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْکَ. فَقَالَ : مُحَّمَدٌ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَذَهَبَ خَدِرَه. رَوَاهُ ابْنُ السُّنِّيِّ.

’’ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما کے پاس بیٹھے کسی شخص کی ٹانگ سن ہو گئی تو انہوں نے اس شخص سے فرمایا : لوگوں میں سے جو تمہیں سب سے زیادہ محبوب ہے، اسے یاد کرو، تو اس شخص نے کہا : (وہ محبوب ترین ہستی) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ تو (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم مبارک لیتے ہی) اُس کی ٹانگ ٹھیک ہو گئی۔‘‘ اس روایت کو امام ابن السنی نے روایت کیا ہے۔

وفي روارواية : عَنِ الْهَيْثَمِ بْنِ حَنَشٍ، قَالَ : کُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما فَخَدِرَتْ رِجْلُه، فَقَالَ لَه رَجُلٌ : اُذْکُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْکَ فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ (صلی اﷲ عليک وسلم)، فَقَالَ : فَقَامَ فَکَأَنَّمَا نُشِطَ مِنْ عِقَالٍ. رَوَاهُ ابْنُ السُّنِّيِّ.

’’ایک روایت میں حضرت ہیثم بن حنش رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ ہم حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کے پاس تھے کہ ایک آدمی کی ٹانگ سن ہو گئی، تو اس سے کسی شخص نے کہا : تمہیں لوگوں میں سے جو سب سے زیادہ محبوب ہے، اُس کا نام لو تو اس نے یا محمد (صلی اﷲ علیک وسلم)! کا نعرہ لگایا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ یوں اٹھ کھڑا ہوا گویا باندھی ہوئی رسی سے آزاد ہو کر چست ہو گیا ہو۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن السنی نے روایت کیا ہے۔

41. عَنْ صَفِيَةَ بِنْتِ مَجْزَأَةَ رضي اﷲ عنها أَنَّ أَبَا مَحْذُوْرَةَ رضی الله عنه کَانَتْ لَه قُصَّةٌ فِي مُقَدَّمِ رَأْسِه، إِذَا قَعَدَ أَرْسَلَهَا، فَتَبْلُغُ الْاَرْضَ، فَقَالُوْا لَه : أَلَا تَحْلِقُهَا؟ فَقَالَ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مَسَحَ عَلَيْهَا بِيَدِه، فَلَمْ أَکُنِْلاَحْلِقَهَا حَتّٰی أَمُوْتَ. فَلَمْ يَحْلِقْهَا حَتّٰی مَاتَ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ وَالطَّبَرَانِيُّ.

41 : اخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 589، الرقم : 6181، والبخاري في التاريخ الکبير، 4 / 177، الرقم : 2403، والطبراني في المعجم الکبير، 7 / 176، الرقم : 6746، وابن حبان في الثقات، 4 / 386، الرقم : 3489، والمزي في تهذيب الکمال، 34 / 258، والذهبي في سير اعلام النبلاء، 3 / 119، والهيثمي في مجمع الزوائد، 5 / 165.

’’حضرت صفیہ بنت مجزاۃ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کے بالوں کے اگلے حصے میں ایک طویل لٹ تھی۔ جب وہ بیٹھتے اور اسے نیچے چھوڑ دیتے تو وہ لٹ زمین تک پہنچ جاتی تھی۔ لوگوں نے ان سے کہا : آپ اسے منڈواتے کیوں نہیں؟ تو انہوں نے فرمایا : ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان بالوں پر اپنا دستِ شفقت پھیرا تھا لہٰذا میں ان بالوں کو اپنے مرتے دم تک نہیں کٹواؤں گا چنانچہ انہوں نے اپنی موت تک ان بالوں کو نہیں کٹوایا۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم، بخاری نے التاریخ الکبیر میں اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

42. عَنْ عَبْدَةَ بِنْتِ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ رضي اﷲ عنهما قَالَتْ : مَا کَانَ خَالِدٌ يَاْوِي إِلٰی فِرَاشٍ إِلَّا وَهُوَ يَذْکُرُ مِنْ شَوْقِه إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، وَإِلٰی اَصْحَابِه مِنَ الْمُهَاجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ يُسَمِّيْهِمْ، وَيَقُوْلُ : هُمْ اَصْلِي وَفَصْلِي، وَإِلَيْهِمْ يَحِنُّ قَلْبِي، طَالَ شَوْقِي إِلَيْهِمْ، فَعَجِّلْ رَبِّي قَبْضِي إِلَيْکَ، حَتّٰی يَغْلِبَهُ النَّوْمُ. رَوَاهُ اَبُوْ نُعَيْمٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

42 : اخرجه ابو نعيم في حلرواية الاولياء، 5 / 210، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 16 / 199، والذهبي في سير اعلام النبلاء، 4 / 539، والمزي في تهذيب الکمال، 8 / 171، والقاضي عياض في الشفا / 496، الرقم : 1212.

’’حضرت عبدہ بنت خالد بن معدان رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ جب بھی حضرت خالد رضی اللہ عنہ اپنے بستر پر لیٹتے تو وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مہاجرین و انصار صحابہ کرام ث کا نام لے لے کر ان کے لیے اپنے شوق کا اظہار کرتے اور فرماتے تھے کہ یہ میری اصل اور فصل (یعنی میرا خاندان اور قبیلہ) ہیں اور بس انہی کی طرف میرا دل مشتاق رہتا ہے۔ میرا شوقِ (ملاقات) ان کی طرف طویل ہوگیا ہے۔ سو اے میرے ربّ! مجھے جلد اپنے پاس بلا (تاکہ ملاقاتِ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سامان ہو جائے) یہاں تک کہ (یہ کہتے کہتے) ان پر نیند غالب آجاتی۔‘‘

اس حدیث کو امام ابونعیم اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved