اربعین: میلاد النبی ﷺ: احادیث مبارکہ کی روشنی میں

الاحادیث النبویۃ

1. عَنْ عُرْوَةَ في روایة طویلة قَالَ: وَثُوَیْبَةُ مَوْلَاةٌ لِأَبِي لَهَبٍ، کَانَ أَبُوْ لَهَبٍ أَعْتَقَهَا، فَأَرْضَعَتِ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم، فَلَمَّا مَاتَ أَبُوْ لَهَبٍ أُرِیَهٗ بَعْضُ أَهْلِهٖ بِشَرِّ حِیْبَةٍ، قَالَ لَهٗ: مَاذَا لَقِیْتَ؟ قَالَ أَبُوْ لَهَبٍ: لَمْ أَلْقَ بَعْدَکُمْ غَیْرَ أَنِّي سُقِیْتُ فِي هٰذِهٖ بِعَتَاقَتِي ثُوَیْبَةَ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالْمَرْوَزِيُّ.

أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب النکاح، باب وأمهاتکم اللاتي أرضعنکم، 5/1961، الرقم: 4813، وعبد الرزاق في المصنف، 7/478، الرقم: 13955، وأیضًا، 9/26، الرقم: 16350، والمروزي في السنة/82، الرقم: 290، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1/108، وابن أبي الدنیا في المنامات، بإسناد حسن/154، الرقم: 263، والبیهقي في السنن الکبری، 7/162، الرقم: 13701، وأیضًا في شعب الإیمان، 1/261، الرقم: 281، وأیضًا في دلائل النبوة، 1/149، والبغوي في شرح السنة، 9/76، الرقم: 2282.

’’حضرت عروہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ ثویبہ ابو لہب کی لونڈی تھی اور ابو لہب نے اُسے آزاد کر دیا تھا، اُس نے حضور نبی اکرم ﷺ کو دودھ پلایا تھا۔ جب ابو لہب مر گیا تو اُس کے اہل خانہ میں سے کسی کے خواب میں وہ نہایت بری حالت میں دکھایا گیا۔ اس (دیکھنے والے) نے اُس سے پوچھا: کیسے ہو؟ ابو لہب نے کہا: میں بہت سخت عذاب میں ہوں، اِس سے کبھی چھٹکارا نہیں ملتا۔ ہاں مجھے (اُس عمل کی جزا کے طور پر) اس (انگلی) سے قدرے سیراب کر دیا جاتا ہے جس سے میں نے (محمد ﷺ کی ولادت کی خوشی میں) ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔‘‘

اِسے امام بخاری، عبد الرزاق اور مروزی نے روایت کیا ہے۔

قَالَ الْحَافِظُ الْعَسْقَـلَانِيُّ فِي الْفَتْحِ: وَذَکَرَ السُّهَیْلِيُّ أَنَّ الْعَبَّاسَ رضی الله عنه قَالَ: لَمَّا مَاتَ أَبُوْ لَهَبٍ رَأَیْتُهٗ فِي مَنَامِي بَعْدَ حَوْلٍ فِي شَرِّ حَالٍ، فَقَالَ: مَا لَقِیْتُ بَعْدَکُمْ رَاحَةً إِلاَّ أَنَّ الْعَذَابَ یُخَفَّفُ عَنِّي کُلَّ یَوْمِ اثْنَیْنِ. قَالَ: وَذَالِکَ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم وُلِدَ یَوْمَ الْاِثْنَیْنِ وَکَانَتْ ثُوَیْبَةُ بَشَّرَتْ أَبَا لَهَبٍ بِمَوْلِدِهٖ فَأَعْتَقَهَا.

ذکره العسقلاني في فتح الباري، 9/145.

’’حافظ (ابن حجر) عسقلانی نے امام سہیلی کے حوالے سے فتح الباری میں یوں بیان کیا ہے کہ حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ابو لہب مر گیا تو میں نے اسے ایک سال بعد خواب میں بہت برے حال میں دیکھا اور یہ کہتے ہوئے پایا کہ تمہاری جدائی کے بعد آرام نصیب نہیں ہوا بلکہ سخت عذاب میں گرفتار ہوں، لیکن جب پیر کا دن آتا ہے۔ تو میرے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت مبارکہ پیر کے دن ہوئی تھی اور جب ثویبہ نے اس روز ابولہب کو آپ ﷺ کی ولادت کی خبر دی تو اس نے (ولادتِ مصطفی ﷺ کی خوشی میں) ثویبہ کو آزاد کر دیا تھا۔‘‘

قَالَ الْحَافِظُ شَمْسُ الدِّیْنِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْجَزْرِيُّ فِي تَصْنِیْفِهٖ ’عُرْفُ التَّعْرِیْفِ بِالْمَوْلِدِ الشَّرِیْفِ‘: فَإِذَا کَانَ أَبُوْ لَهَبٍ الْکَافِرُ الَّذِي نَزَلَ الْقُرْآنُ بِذَمِّهٖ جُوْزِيَ فِي النَّارِ بِفَرَحِهٖ لَیْلَةَ مَوْلِدِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم بِهٖ، فَمَا حَالُ الْمُسْلِمِ الْمُوَحِّدِ مِنْ أُمَّةِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم یَسُرُّ بِمَوْلِدِهٖ، وَبَذَلَ مَا تَصِلُ إِلَیْهِ قُدْرَتُهٗ فِي مَحَبَّتِهٖ صلی الله علیه وآله وسلم؟ لَعَمْرِي إِنَّمَا یَکُوْنُ جَزَاؤُهٗ مِنَ اللهِ الْکَرِیْمِ أَنْ یُدْخِلَهٗ بِفَضْلِهٖ جَنَّاتِ النَّعِیْمِ.

ذکره السیوطي في الحاوي للفتاوی/206، وأیضًا في حسن المقصد في عمل المولد/6566، والقسطلاني في المواهب اللدنیة، 1/147، والزرقاني في شرح المواهب اللدنیة، 1/260261، والصالحي في سبل الهدی والرشاد، 1/366ـ 367، والنبهاني في حجة الله علی العالمین في معجزات سید المرسلین صلی الله علیه وآله وسلم /237238.

’’حافظ شمس الدین محمد بن عبد الله جزری (م 660ھ) اپنی تصنیف عرف التعریف بالمولد الشریف میں لکھتے ہیں: حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں اُس ابولہب کے عذاب میںبھی تخفیف کر دی جاتی ہے جس کی مذمت میں قرآن حکیم میں ایک مکمل سورت نازل ہوئی ہے۔ تو اُمتِ محمدیہ کے اُس مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ ﷺ کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپ ﷺ کی محبت و عشق میں حسبِ اِستطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم! میرے نزدیک الله تعالیٰ ایسے مسلمان کو اپنے حبیب مکرّم ﷺ کی خوشی منانے کے طفیل اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائیں گے۔‘‘

قَالَ الْحَافِظُ شَمْسُ الدِّیْنِ مُحَمَّدُ بْنُ نَاصِرِ الدِّیْنِ الدِّمَشْقِيُّ فِي تَصْنِیْفِهٖ ’مَوْرِدُ الصَّادِي فِي مَوْلِدِ الْهَادِي‘: قَدْ صَحَّ أَنَّ أَبَا لَهَبٍ یُخَفَّفُ عَنْهُ عَذَابُ النَّارِ فِي مِثْلِ یَوْمِ الِاثْنَیْنِ لِإِعْتَاقِهٖ ثُوَیْبَةَ سَرُوْرًا بِمِیْـلَادِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم.

إِذَا کَانَ هٰذَا کَافِرٌ جَاءَ ذَمُّهٗ
وَتَبَّتْ یَدَاهُ فِي الْجَحِیْمِ مُخَلَّدَا

أَتٰی أَنَّهٗ فِي یَوْمِ الْاِثْنَیْنِ دَائِمًا
یُخَفَّفُ عَنْهُ لِلسَّرُوْرِ بِأَحْمَدَا

فَمَا الظَّنُّ بِالْعَبْدِ الَّذِي طُوْلَ عُمْرِهٖ
بِأَحْمَدَ مَسْرُوْرًا وَمَاتَ مُوَحِّدًا

ذکره السیوطي في الحاوي للفتاوی/206، وأیضًا في حسن المقصد في عمل المولد/66، والنبہاني في حجة الله علی العالمین في معجزات سید المرسلین صلی الله علیه وآله وسلم /238.

’’حافظ شمس الدین محمد بن ناصر الدین دمشقی (777۔842ھ) مورد الصادي في مولد الہادي میں فرماتے ہیں: یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ رسول الله ﷺ کی ولادت کی خوشی میں ثویبہ کو آزاد کرنے کے صلہ میں ہر پیر کے روز ابو لہب کے عذاب میں کمی کی جاتی ہے۔ لہٰذا:

جب ابو لہب جیسے کافر کے لیے - جس کی مذمت قرآن حکیم میں کی گئی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں اُس کے ہاتھ ٹوٹتے رہیں گے - حضور نبی اکرم ﷺ کے میلاد کی خوشی منانے کی وجہ سے ہر سوموار کو اُس کے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے، تو اس شخص کے بارے میں تیرا کیا خیال ہے جس نے اپنی ساری عمر حضور نبی اکرم ﷺ کے میلاد کی خوشی منائی اور توحید پر فوت ہوا۔‘‘

شیخ عبد الحق محدث دہلوی (958-1052ھ) اِسی روایت کا تذکرہ کرنے کے بعد ’مدارج النبوۃ (2/19)‘ لکھتے ہیں:

در اینجا سند است مر اہل موالید را کہ در شبِ میلاد آنحضرت ﷺ سرور کنند و بذل اموال نمایند یعنی ابولہب کہ کافر بود، و قرآن بمذمت وے نازل شدہ، چوں بسرور میلاد آنحضرت ﷺ و بذل شیر جاریہ وے بجہت آنحضرت ﷺ جزا دادہ شد تا حال مسلمان کہ مملوست بمحبت و سرور و بذل مال در وے چہ باشد۔ ولیکن باید کہ از بدعتہا کہ عوام احداث کردہ انداز تغنی وآلات محرمہ ومنکرات خالی باشد تا موجب حرمان اَز طریقہ اِتباع نگردد۔

’’یہ روایت میلاد کے موقع پر خوشی منانے اور مال صدقہ کرنے والوں کے لیے دلیل اور سند ہے۔ ابولہب جس کی مذمت میں ایک مکمل قرآنی سورت نازل ہوئی جب وہ حضور ﷺ کی ولادت کی خوشی میں لونڈی آزاد کر کے عذاب میں تخفیف حاصل کر لیتا ہے تو اس مسلمان کی خوش نصیبی کا کیا عالم ہوگا جو اپنے دل میں موجزن محبتِ رسول ﷺ کی وجہ سے ولادتِ مصطفی کے دن مسرت اور عقیدت کا اظہار کرے۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ (یہ اظہارِ مسرت اور عقیدت) ان بدعات سے پاک ہو جنہیں عوام الناس نے گھڑ لیا ہے جیسے موسیقی اور حرام آلات اور اسی طرح کے دیگر ممنوعات، تاکہ اتباعِ رسول ﷺ کے راستے سے محرومی کا باعث نہ بنے۔‘‘

2. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم الْمَدِیْنَةَ وَجَدَ الْیَهُوْدَ یَصُوْمُوْنَ عَاشُوْرَاءَ فَسُئِلُوْا عَنْ ذَالِکَ، فَقَالُوْا: هٰذَا الْیَوْمُ الَّذِي أَظْفَرَ اللهُ فِیْهِ مُوْسٰی وَبَنِي إِسْرَائِیْلَ عَلٰی فِرْعَوْنَ وَنَحْنُ نَصُوْمُهٗ تَعْظِیْمًا لَهٗ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم: نَحْنُ أَوْلٰی بِمُوْسٰی مِنْکُمْ. ثُمَّ أَمَرَ بِصَوْمِهٖ۔ مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب فضائل الصحابة، باب إتیان الیهود النبي صلی الله علیه وآله وسلم حین قدم المدینة، 3/1434، الرقم: 3727، ومسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشوراء، 2/795، الرقم: 1130، وأبو داود في السنن، کتاب الصوم، باب في صوم یوم عاشوراء، 2/326، الرقم: 2444، وابن ماجہ في السنن، کتاب الصیام، باب صیام یوم عاشوراء، 1/552، الرقم: 1734.

’’حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ یہودی یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں۔ پس ان سے اس کی بابت دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا: اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ و نصرت عطا فرمائی تو ہم اِس عظیم کامیابی کی تعظیم و تکریم بجا لانے کے لیے اِس دن روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہم تم سے زیادہ موسیٰ کے حق دار ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے (خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی) روزہ رکھنے کا حکم دیا۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

3. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم قَدِمَ الْمَدِیْنَةَ فَوَجَدَ الْیَهُوْدَ صِیَامًا یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم: مَا هٰذَا الْیَوْمُ الَّذِي تَصُوْمُوْنَهٗ؟ فَقَالُوْا: هٰذَا یَوْمٌ عَظِیْمٌ أَنْجَی اللهُ فِیْهِ مُوْسٰی وَقَوْمَهٗ وَغَرَّقَ فِرْعَوْنَ وَقَوْمَهٗ، فَصَامَهٗ مُوْسٰی شُکْرًا، فَنَحْنُ نَصُوْمُهٗ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم: فَنَحْنُ أَحَقُّ وَأَوْلٰی بِمُوْسٰی مِنْکُمْ. فَصَامَهٗ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم وَأَمَرَ بِصِیَامِهٖ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.

أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الأنبیاء، باب قول الله تعالٰی: وهل أتاک حدیث موسی، 3/1244، الرقم: 3216، ومسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشوراء، 2/796، الرقم: (2)1130، وابن ماجه في السنن، کتاب الصیام، باب صیام یوم عاشوراء، 1/552، الرقم: 1734، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/336، الرقم: 3112.

’’حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے یہودیوں کو یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے پایا۔ تو رسول الله ﷺ نے اُن سے پوچھا: یہ کون سا (خاص) دن ہے جس کا تم روزہ رکھتے ہو؟ اُنہوں نے کہا: یہ بہت عظیم دن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِس میں موسیٰ علیہ السلام اور اُن کی قوم کو نجات عطا کی جب کہ فرعون اور اُس کی قوم کو غرق کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شکرانے کے طور پر اُس دن کا روزہ رکھا، لہٰذا ہم بھی روزہ رکھتے ہیں۔ اِس پر رسول الله ﷺ نے فرمایا: تمہاری نسبت ہم موسیٰ کے زیادہ حق دار اور قریبی ہیں۔ پس اُس دن رسول الله ﷺ نے خود بھی روزہ رکھا اور (صحابہ کرام lکو بھی) اُس دن کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

4. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: قَدِمَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم الْمَدِینَةَ فَرَأَی الْیَهُوْدَ تَصُوْمُ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ، فَقَالَ: مَا هٰذَا؟ قَالُوْا: هٰذَا یَوْمٌ صَالِحٌ، هٰذَا یَوْمٌ نَجَّی اللهُ بَنِي إِسْرَائِیلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ فَصَامَهٗ مُوْسٰی. قَالَ: فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوْسٰی مِنْکُمْ. فَصَامَهٗ وَأَمَرَ بِصِیَامِهٖ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ یَعْلٰی.

أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الصوم، باب صیام یوم عاشوراء، 2/704، الرقم: 1900، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/291، الرقم: 2644، وأبو یعلی في المسند، 4/441، الرقم: 2567.

’’حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ یہودی یوم عاشورہ (دس محرم) کا روزہ رکھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے اُن سے اُس دن روزہ رکھنے کا سبب دریافت فرمایا تو اُنہوں نے جواب دیا: یہ دن (ہمارے لیے) متبرک ہے۔ یہ وہ مبارک دن ہے جس دن الله تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اُن کے دشمن (فرعون) سے نجات دلائی (یہ ہمارا یومِ آزادی اور یومِ نجات ہے)۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اُس دن روزہ رکھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم سے زیادہ موسیٰ کا حق دار میں ہوں۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اس دن کا روزہ رکھا اور (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی) اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔‘‘

اِسے امام بخاری، احمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

5. عَنْ أَبِي مُوْسٰی رضی الله عنه قَالَ: کَانَ یَوْمُ عَاشُوْرَاءَ تَعُدُّهُ الْیَهُوْدُ عِیْدًا، قَالَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم: فَصُوْمُوْهُ أَنْتُمْ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الصوم، باب صیام یوم عاشوراء، 2/704705، الرقم: 1901.

’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: یوم عاشورہ کو یہود یومِ عید شمار کرتے تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے (مسلمانوں کو حکم دیتے ہوئے) فرمایا: تم ضرور اس دن روزہ رکھا کرو۔‘‘

اِسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

6. عَنْ أَبِي مُوْسٰی رضی الله عنه قَالَ: کَانَ یَوْمُ عَاشُوْرَاءَ یَوْمًا تُعَظِّمُهُ الْیَهُوْدُ وَتَتَّخِذُهٗ عِیْدًا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم: صُوْمُوْهُ أَنْتُمْ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَالطَّحَاوِيُّ.

أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب صیام یوم عاشوراء، 2/796، الرقم: 1131، والنسائي في السنن الکبری، 2/159، الرقم: 2848، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 2/133، الرقم: 3217، والبیهقي في السنن الکبری، 4/289، الرقم: 8197.

’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: یہود یوم عاشورہ کی تعظیم کرتے تھے اور اُسے عید کے طور پر مناتے تھے۔ پس حضور نبی اکرم ﷺ نے (مسلمانوں کو) حکم دیا کہ تم بھی اِس دن روزہ رکھو۔‘‘

اِسے امام مسلم، نسائی اور طحاوی نے روایت کیا ہے۔

7. عَنْ أَبِي مُوْسٰی رضی الله عنه قَالَ: کَانَ أَهْلُ خَیْبَرَ یَصُوْمُوْنَ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ یَتَّخِذُوْنَهٗ عِیْدًا وَیُلْبِسُوْنَ نِسَائَهُمْ فِیْهِ حُلِیَّهُمْ وَشَارَتَهُمْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم: فَصُوْمُوْهُ أَنْتُمْ۔.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب صیام یوم عاشوراء، 2/796، الرقم: 1131.

’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اہلِ خیبر یوم عاشور کا روزہ رکھتے اور اُسے عید کے طور پر مناتے تھے۔ اُس دن وہ اپنی عورتوں کو خوب زیورات پہناتے اور اُن کا بناؤ سنگھار کرتے۔ تو رسول الله ﷺ نے (مسلمانوں سے) فرمایا: تم بھی اُس دن روزہ رکھا کرو۔‘‘

اِسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

8. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم بِأُنَاسٍ مِنَ الْیَهُوْدِ قَدْ صَامُوْا یَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ: مَا هٰذَا مِنَ الصَّوْمِ؟ قَالُوْا: هٰذَا الْیَوْمُ الَّذِي نَجَّی اللهُ مُوْسٰی وَبَنِي إِسْرَائِیلَ مِنَ الْغَرَقِ، وَغَرَّقَ فِیْهِ فِرْعَوْنَ، وَهٰذَا یَوْمٌ اسْتَوَتْ فِیْهِ السَّفِیْنَةُ عَلَی الْجُوْدِيِّ، فَصَامَهٗ نُوْحٌ وَمُوْسٰی شُکْرًا ِ اللهِ تَعَالٰی. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم: أَنَا أَحَقُّ بِمُوْسٰی وَأَحَقُّ بِصَوْمِ هٰذَا الْیَوْمِ. فَأَمَرَ أَصْحَابَهٗ بِالصَّوْمِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2/359360، الرقم: 8702، والعسقلاني في فتح الباري، 4/247.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ یہود کے چند لوگوں کے پاس سے گزرے جو کہ عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے تھے۔ آپ ﷺ نے اُن سے پوچھاـ: یہ کس چیز کا روزہ ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا: یہ وہ دن ہے جس دن الله تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو دریا میں غرق ہونے سے بچایا اور فرعون کو غرق کر دیا اور یہ وہ دن ہے جس میں جودی پہاڑ پر کشتی ٹھہری تو حضرت نوح اور موسیٰ علیہما السلام نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے روزہ رکھا۔ اِس پر حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں حضرت موسیٰ کا زیادہ حق دار ہوں اور میں اِس دن روزہ رکھنے کا زیادہ حق رکھتا ہوں۔ پھر آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی اُس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔‘‘

اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔

وَقَدْ سُئِلَ شَیْخُ الإِسْلَامِ حَافِظُ الْعَصْرِ أَبُو الْفَضْلِ ابْنُ حَجَرٍ عَنْ عَمَلِ الْمَوْلِدِ، فَأَجَابَ بِمَا نَصُّهٗ: قَالَ: وَقَدْ ظَهَرَ لِي تَخْرِیْجُهَا عَلٰی أَصْلٍ ثَابِتٍ، وَهُوَ مَا ثَبَتَ فِي الصَّحِیْحَیْنِ مِنْ: أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم قَدِمَ الْمَدِیْنَةَ، فَوَجَدَ الْیَهُوْدَ یَصُوْمُوْنَ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ، فَسَأَلَهُمْ، فَقَالُوْا: هُوَ یَوْمٌ أَغْرَقَ اللهُ فِیْهِ فِرْعَوْنَ، وَنَجَّی مُوْسٰی، فَنَحْنُ نَصُوْمُهٗ شُکْرًا ِ اللهِ تَعَالٰی.

فَیُسْتَفَادُ مِنْهُ فِعْلُ الشُّکْرِ ِ اللهِ تَعَالٰی عَلٰی مَا مَنَّ بِهٖ فِي یَوْمٍ مُعَیَّنٍ مِنْ إِسْدَاءِ نِعْمَةٍ، أَوْ دَفْعِ نِقْمَةٍ، وَیُعَادُ ذَالِکَ فِي نَظِیْرِ ذَالِکَ الْیَوْمِ مِنْ کُلِّ سَنَةٍ.

وَالشُّکْرُ اللهِ تَعَالٰی یُحْصَلُ بِأَنْوَاعِ الْعِبَادَاتِ کَالسُّجُوْدِ وَالصِّیَامِ وَالصَّدَقَةِ وَالتِّـلَاوَةِ، وَأَيُّ نِعْمَةٍ أَعْظَمُ مِنَ النِّعْمَةِ بِبُرُوْزِ هٰذَا النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم الَّذِي هُوَ نَبِيُّ الرَّحْمَةِ فِي ذَالِکَ الْیَوْمِ.

ذکره السیوطي في حسن المقصد في عمل المولد/ 63، وأیضًا في الحاوي للفتاوی/205206، والصالحي في سبل الہدی والرشاد في سیرة خیر العباد صلی الله علیه وآله وسلم، 1/366، والزرقاني في شرح المواهب اللدنیة بالمنح المحمدیة، 1/263، وأحمد بن زیني دحلان في السیرة النبویة، 1/54، والنبہاني في حجة الله علی العالمین في معجزات سید المرسلین صلی الله علیه وآله وسلم /237.

’’شیخ الاسلام حافظ العصر ابو الفضل ابن حجر سے میلاد شریف کے عمل کے حوالہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے اس کا جواب کچھ یوں دیا: ’میرے نزدیک یومِ میلاد النبی ﷺ منانے کی اَساسی دلیل وہ روایت ہے جسے ’’صحیحین‘‘ میں روایت کیا گیا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے یہود کو یومِ عاشور کا روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ آپ ﷺ نے ان سے پوچھا: ایسا کیوں کرتے ہو؟ اس پر وہ عرض کناں ہوئے کہ اس دن الله تعالیٰ نے فرعون کو غرق کیا اور موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی، سو ہم الله تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر بجا لانے کے لیے اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔

’’اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ الله تعالیٰ کی طرف سے کسی اِحسان و اِنعام کے عطا ہونے یا کسی مصیبت کے ٹل جانے پر کسی معین دن میں الله تعالیٰ کا شکر بجا لانا اور ہر سال اس دن کی یاد تازہ کرنا مناسب تر ہے۔

’’ الله تعالیٰ کا شکر نماز و سجدہ، روزہ، صدقہ اور تلاوتِ قرآن و دیگر عبادات کے ذریعہ بجا لایا جا سکتا ہے اور حضور نبی رحمت ﷺ کی ولادت سے بڑھ کر الله کی نعمتوں میں سے کون سی نعمت ہے؟ اس لیے اس دن ضرور شکر بجا لانا چاہیے۔‘‘

9. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ: کَانُوْا یَصُوْمُوْنَ عَاشُوْرَاءَ قَبْلَ أَنْ یُفْرَضَ رَمَضَانُ وَکَانَ یَوْمًا تُسْتَرُ فِیْهِ الْکَعْبَةُ، فَلَمَّا فَرَضَ اللهُ رَمَضَانَ، قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم: مَنْ شَاءَ أَنْ یَصُوْمَهٗ فَلْیَصُمْهُ، وَمَنْ شَاءَ أَنْ یَتْرُکَهٗ فَلْیَتْرُکْهُ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَیْهَقِيُّ.

أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الحج، باب قول الله : جعل الله الکعبة البیت الحرام، 2/578، الرقم: 1515، والطبراني في المعجم الأوسط، 7/278، الرقم: 7495، والبیهقي في السنن الکبری، 5/159، الرقم 9513.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں: اہلِ عرب رمضان کے روزے فرض ہونے سے قبل یومِ عاشور کا روزہ رکھتے تھے کیوں کہ اُس دن کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کر دیے تو رسول الله ﷺ نے فرمایا: تم میں سے جو اِس دن روزہ رکھنا چاہے وہ روزہ رکھ لے، اور جو ترک کرنا چاہے وہ ترک کر دے۔‘‘

اِسے امام بخاری، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

قَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ: فَإِنَّهٗ یُفِیْدُ أَنَّ الْجَاهِلِیَّةَ کَانُوْا یُعَظِّمُوْنَ الْکَعْبَةَ قَدِیْمًا بِالسُّتُوْرِ وَیَقُوْمُوْنَ بِهَا.

ذکره العسقلاني في فتح الباري، 3/455

’’حافظ ابن حجر عسقلانی (اِس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے) فرمایا: اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ زمانۂ جاہلیت سے ہی وہ کعبہ پر غلاف چڑھا کر اُس کی تعظیم کرتے تھے، اور اُس کی دیکھ بھال کرتے تھے۔‘‘

وَقَالَ أَیْضًا: أَمَّا صِیَامُ قُرَیْشٍ لِعَاشُوْرَاءَ فَلَعَلَّهُمْ تَلَقَّوْهُ مِنَ الشَّرْعِ السَّالِفِ، وَلِهٰذَا کَانُوْا یُعَظِّمُوْنَهٗ بِکِسْوَةِ الْکَعْبَةِ فِیْهِ.

ذکره العسقلاني في فتح الباري، 4/ 246

’’حافظ ابن حجر عسقلانی ایک اور مقام پر (قریش کے اس دن روزہ رکھنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے) کہتے ہیں: یومِ عاشور کو قریش کا روزہ رکھنے کا سبب یہ تھا کہ شاید اُنہوں نے گزشتہ شریعت سے اس کو پایا ہو، اور اِسی لیے وہ اس دن کی تعظیم کعبہ پر غلاف چڑھا کر کیا کرتے تھے۔‘‘

10. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه أَنَّ رَجُـلًا مِنَ الْیَهُوْدِ قَالَ لَهٗ: یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ، آیَةٌ فِي کِتَابِکُمْ تَقْرَئُوْنَهَا لَوْ عَلَیْنَا مَعْشَرَ الْیَهُوْدِ نَزَلَتْ لَاتَّخَذْنَا ذَالِکَ الْیَوْمَ عِیْدًا، قَالَ: أَيُّ آیَةٍ؟ قَالَ: {اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیْتُ لَکُمْ الْاِسْـلَامَ دِیْنًا} ]المائدة، 5:3[، قَالَ عُمَرُ: قَدْ عَرَفْنَا ذَالِکَ الْیَوْمَ وَالْمَکَانَ الَّذِي نَزَلَتْ فِیْهِ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم وَهُوَ قَائِمٌ بِعَرَفَةَ یَوْمَ جُمُعَةٍ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الإیمان، باب زیادة الإیمان ونقصانه، 1/25، الرقم: 45، وأیضًا في کتاب المغازي باب حجة الوداع، 4/1600، الرقم: 4145، وأیضًا في کتاب تفسیر القرآن، باب قوله: الیوم أکملت لکم دینکم، 4/1683، الرقم: 4330، وأیضًا في کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، 6/2653، الرقم: 6840، ومسلم في الصحیح، کتاب التفسیر، 4/2313، الرقم: 3017، والترمذي في السنن، کتاب تفسیر القرآن، باب من سورة المائدة، 5/250، الرقم: 3043، والنسائي في السنن، کتاب الإیمان، باب زیادة الإیمان، 8/114، الرقم: 5012.

’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ایک یہودی نے اُن سے کہا: اے امیر المومنین! آپ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں کہ اگر وہ آیت ہم گروہِ یہود پر اُترتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید بنا لیتے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کون سی آیت؟ اُس نے کہا: {آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بہ طورِ) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا}۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس دن اور جس جگہ یہ آیت حضور نبی اکرم ﷺ پر نازل ہوئی ہم اس کو پہچانتے ہیں۔ آپ ﷺ اُس وقت جمعہ کے دن عرفات کے مقام پر کھڑے تھے۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

11. عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم: إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَیَّامِکُمْ یَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِیْهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِیْهِ قُبِضَ، وَفِیْهِ النَّفْخَةُ، وَفِیْهِ الصَّعْقَةُ، فَأَکْثِرُوْا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِیْهِ، فَإِنَّ صَلَا تَکُمْ مَعْرُوْضَةٌ عَلَيَّ، قَالَ: قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللهِ ، کَیْفَ تُعْرَضُ صَـلَاتُنَا عَلَیْکَ وَقَدْ أَرِمْتَ؟ قَالَ: یَقُوْلُوْنَ: بَلِیْتَ. قَالَ: إِنَّ الله حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِیَاءِ.

وفي روایة: فَقَالَ: إِنَّ الله جَلَّ وَعَـلَا حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أَجْسَامَنَا.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَاللَّفْظُ لَهٗ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَابْنُ خُزَیْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ وَالدَّارِمِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ عَلٰی شَرْطِ الْبُخَارِيِّ. وَقَالَ الْوَادِیَاشِيُّ: صَحَّحَهُ ابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ: وَصَحَّحَهُ ابْنُ خُزَیْمَةَ. وَقَالَ الْعَجْلُوْنِيُّ: رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ بِإِسْنَادٍ جَیِّدٍ. وَقَالَ ابْنُ کَثِیْرٍ: تَفَرَّدَ بِهٖ أَبُوْ دَاوُدَ وَصَحَّحَهُ النَّوَوِيُّ فِي الْأَذْکَارِ.

أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب فضل یوم الجمعة ولیلة الجمعة، 1/275، الرقم: 1047، وأیضًا في کتاب الصلاة، باب في الاستغفار، 2/88، الرقم: 1531، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/8، الرقم: 16207، والنسائي في السنن، کتاب الجمعة، باب بإکثار الصلاة علی النبي صلی الله علیه وآله وسلم یوم الجمعة، 3/91، الرقم: 1374، وأیضًا في السنن الکبری، 1/519، الرقم: 1666، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة، باب في فضل الجمعة، 1/345، الرقم: 1085، وابن خزیمة في الصحیح، 3/118، الرقم: 1733۔ 1734، وابن حبان في الصحیح، 3/190، الرقم: 910، والدارمي في السنن، 1/445، الرقم: 1572، وابن أبي شیبة في المصنف، 2/253، الرقم: 8697، والحاکم في المستدرک، 1/413، الرقم: 1029، والطبراني في المعجم الأوسط، 5/97، الرقم: 4780، وأیضًا في المعجم الکبیر، 1/261، الرقم: 589، والبزار في المسند، 8/411، الرقم: 3485، والبیهقي في السنن الصغری، 1/371، الرقم: 634، وأیضًا في السنن الکبری، 3/248، الرقم: 5789، وأیضًا في شعب الإیمان، 3/109، الرقم: 3029، وأیضًا في فضائل الأوقات، 1/497، 275، والجهضمي في فضل الصلاة علی النبي صلی الله علیه وآله وسلم، 1/37، الرقم: 22، والوادیاشي في تحفة المحتاج، 1/524، الرقم: 661، والعسقلاني في فتح الباري، 11/370، والعجلوني في کشف الخفاء، 1/190، الرقم: 501.

’’حضرت اَوس بن اَوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: بیشک تمہارے دنوں میں سے جمعہ کا دن سب سے بہتر ہے اس دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اُسی دن انہوں نے وفات پائی اور اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن سخت آواز ظاہر ہو گی۔ پس اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیوں کہ تمہارا درود مجھے پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارا درود آپ کے وصال کے بعد آپ کو کیسے پیش کیا جائے گا؟ جبکہ آپ کا جسدِ مبارک تو خاک میں مل چکا ہو گا؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ نے زمین پر انبیائے کرام کے جسموں کو (کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانا) حرام کر دیا ہے۔‘‘

ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ برزگ و برتر نے زمین پر حرام قرار دیا ہے کہ وہ ہمارے جسموں کو کھائے۔‘‘

اِس حدیث کو امام اَحمد، ابو داود نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ، نسائی، ابن ماجہ، ابن خزیمہ، ابن حبان اور دارمی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث امام بخاری کی شرائط کے مطابق صحیح ہے۔ امام وادیاشی نے فرمایا: اِسے امام ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے۔ حافظ عسقلانی نے فرمایا: اِسے امام ابن خزیمہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ امام عجلونی نے فرمایا: اِسے امام بیہقی نے عمدہ سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

12. عَنْ أَبِي لُبَابَةَ بْنِ عَبْدِ الْمُنْذِرِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم: إِنَّ یَوْمَ الْجُمُعَةِ سَیِّدُ الْأَیَّامِ، وَأَعْظَمُهَا عِنْدَ اللهِ وَهُوَ أَعْظَمُ عِنْدَ اللهِ مِنْ یَوْمِ الْأَضْحٰی، وَیَوْمِ الْفِطْرِ، فِیْهِ خَمْسُ خِـلَالٍ: خَلَقَ اللهُ فِیْهِ آدَمَ إِلَی الْأَرْضِ، وَفِیْهِ تَوَفَّی اللهُ آدَمَ، وَفِیْهِ سَاعَةٌ لَا یَسْأَلُ الله فِیْهَا الْعَبْدُ شَیْئًا إِلَّا أَعْطَاهُ مَا لَمْ یَسْأَلْ حَرَامًا، وَفِیْهِ تَقُومُ السَّاعَةُ مَا مِنْ مَلَکٍ مُقَرَّبٍ وَلَا سَمَائٍ وَلَا أَرْضٍ وَلَا رِیَاحٍ وَلَا جِبَالٍ وَلَا بَحْرٍ إِلَّا وَهُنَّ یُشْفِقْنَ مِنْ یَومِ الْجُمُعَةِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَهٗ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِیْرِ.

أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فیها، باب في فضل الجمعة، 1/344، الرقم: 1084، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/430، 5/284، الرقم: 22510، وابن أبي شیبة في المصنف، 1/477، الرقم: 5516، والشافعي في المسند، 1/71، والبزار عن سعد بن عبادة رضی الله عنه في المسند، 9/191، الرقم: 3738، وعبد بن حمید في المسند، 1/127، الرقم: 309، والطبراني في المعجم الکبیر، 5/33، الرقم: 4511، 6/19، الرقم: 5376، والبخاري في التاریخ الکبیر، 4/44، الرقم: 1911.

’’حضرت ابو لبابہ بن عبد المنذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بے شک جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار ہے اور باقی دنوں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے ہاں عظمت والا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی عظمت عید الاضحی اور عید الفطر سے بھی بڑھ کر ہے (کیوں کہ) اس دن میں پانچ خصلتیں پائی جاتی ہیں: اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا اور اسی دن انہیں وفات دی اور اس دن میں ایک ساعت ایسی ہوتی ہے جس میں بندہ اللہ تعالیٰ سے جو بھی سوال کرے وہ اسے عطا فرماتا ہے جب تک کہ وہ کسی حرام چیز کا سوال نہیں کرتا، اور اسی دن قیامت بپا ہو گی۔ کوئی مقرب فرشتہ، آسمان، زمین، ہوا، پہاڑ اور سمندر ایسا نہیں جو جمعہ کے دن سے نہ ڈرتا ہو (کیوں کہ اس دن قیامت بپا ہوگی)۔‘‘

اسے امام احمد، ابن ماجہ نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور بخاری نے التاریخ الکبیر میں بیان کیا ہے۔

13. عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم سُئِلَ عَنْ صَوْمِ الاِثْنَیْنِ فَقَالَ: فِیْهِ وُلِدْتُ وَفِیْهِ أُنْزِلَ عَلَيَّ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

وفي روایة: أُنْزِلَتْ عَلَيَّ فِیْهِ النُّبُوَّةُ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ.

أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب استحبابِ صیام ثلاثة أیام من کل شهر، 2/819، الرقم: 1162، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/296، 297، الرقم: 22590، 22594، والنسائي في السنن الکبری، 2/146، الرقم: 2777.

’’حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اِسی روز میری ولادت ہوئی اور اِسی روز میرے اُوپر قرآن نازل کیا گیا۔‘‘

اِسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایاـ: ’’اِسی روز مجھے نبوت (یعنی بعثت) سے سرفراز کیا گیا۔‘‘ اِسے امام احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

14. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: وُلِدَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم یَوْمَ الاِثْنَیْنِ، وَاسْتُنْبِئَ یَوْمَ الاِثْنَیْنِ، وَخَرَجَ مُهَاجِرًا مِنْ مَکَّةَ إِلَی الْمَدِیْنَةِ یَوْمَ الِاثْنَیْنِ، وَقَدِمَ الْمَدِیْنَةَ یَوْمَ الِاثْنَیْنِ، وَرَفَعَ الْحَجَرَ یَوْمَ الِاثْنَیْنِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ. وَقَالَ الْهَیْثَمِيُّ: رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَفِیْهِ ابْنُ لَهِیْعَةَ وَهُوَ ضَعِیْفٌ، وَبَقِیَّهُ رِجَالِهٖ ثِقَاتٌ مِنْ أَهْلِ الصَّحِیْحِ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1/277، الرقم: 2506، وأیضًا في المسائل، 1/59، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 3/67، والهیثمي في مجمع الزوائد، 1/196، والطبري في جامع البیان، 6/84، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 2/14، والطبري في تاریخ الأمم والملوک، 2/5، 241، وابن کثیر في البدایة والنهایة، 2/260، 3/177، والکلاعي في الاکتفاء، 2/453، والفاکھي في أخبار مکة، 4/6، الرقم: 2298، وابن عبد البر في الاستیعاب، 1/47، والسیوطي في الخصائص الکبری، 2/473.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی پیر کے روز ولادت ہوئی، اور پیر کے روز ہی آپ ﷺ کو شرفِ نبوت سے سرفراز کیا گیا اور آپ ﷺ نے پیر کے روز ہی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ پیر کے روز ہی مدینہ منورہ میں آپ ﷺ کی تشریف آوری ہوئی اور حجر اسود اٹھانے کا واقعہ بھی پیر کے روز ہی ہوا۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اس حدیث کو امام احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں ابن لھیعہ نامی راوی کے علاوہ دیگر رجال ثقہ اور صحیح حدیث کے رجال میں سے ہیں۔

15. عَنِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الأَنْصَارِيِّ وَعَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَا: وُلِدَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم یَوْمَ الْفِیْلِ یَوْمَ الاِثْنَیْنِ الثَّانِي عَشَرَ مِنْ شَهْرِ رَبِیْعِ الأَوَّلِ، وَفِیْهِ بُعِثَ، وَفِیْهِ عُرِجَ إِلَی السَّمَاءِ، وَفِیْهِ هَاجَرَ، وَفِیْهِ مَاتَ صلی الله علیه وآله وسلم.

رَوَاهُ الْحَسَیْنُ ابْنُ إِبْرَاهِیْمَ الْجَوْرَقَانِيُّ وَلَمْ یَجْرَحْهٗ.

أخرجه الحافظ أبو عبد الله الحسین ابن إبراهیم الجورقاني الهمذاني في الأباطیل والمناکیر والصحاح والمشاهیر، کتاب الفضائل، باب فضل النبي صلی الله علیه وآله وسلم /27، الرقم: 122.

’’حضرت جابر بن عبد الله انصاری اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما دونوں نے بیان فرمایا: رسول الله ﷺ کی ولادتِ مبارکہ عام الفیل، پیر کے روز بارہ ربیع الاول کو ہوئی، اور اسی روز آپ ﷺ کو شرفِ نبوت سے سرفراز کیا گیا اور اسی روز آپ ﷺ کو آسمان کی طرف بلند کیا گیا (یعنی معراج کرائی گئی)، اور اسی دن آپ ﷺ نے ہجرت فرمائی، اور اسی روز آپ ﷺ کا وصال مبارک ہوا۔‘‘

اسے امام حسین بن ابراہیم الجورقانی نے بغیر کسی جرح کے روایت کیا ہے۔

وفي روایة: عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ رضی اللہ عنہ قَالَ: وُلِدَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم عَامَ الْفِیْلِ یَوْمَ الِاثْنَیْنِ لِاثْنَتَي عَشَرَ لَیْلَةً مَضَتْ مِنْ شَهْرِ رَبِیْعِ الْأَوَّلِ۔ رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ إِسْحَاقَ وَالْبَیْهَقِيُّ وَاللَّفْظُ لَهٗ.

أخرجه الحاکم في المستدرک، 2/659، الرقم: 4182، وابن حبان في الثقات، 1/15، والبیهقي في شعب الإیمان، 2/135، الرقم: 1387، وأیضًا في دلائل النبوة، 1/74، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 3/73، وابن جریر في تاریخ الأمم والملوک، 1/453، والکلاعي في الاکتفاء، 1/131، وابن إسحاق في السیرة النبویة/591۔594، وابن هشام في السیرة النبویة، 1/293.

’’حضرت محمد بن اسحاق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ عام الفیل میں پیر کے روز بارہ ربیع الاول کو اس دنیا میں تشریف لائے۔‘‘

اسے امام حاکم، ابن حبان، ابن اسحاق اور بیہقی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔

16. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ: دَخَلَ أَبُوْ بَکْرٍ وَعِنْدِي جَارِیَتَانِ مِنْ جَوَارِيَ الْأَنْصَارِ، تُغَنِّیَانِ بِمَا تَقَاوَلَتِ الْأَنْصَارُ یَوْمَ بُعَاثَ، قَالَتْ: وَلَیْسَتَا بِمُغَنِّیَتَیْنِ، فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ: أَ مَزَامِیْرُ الشَّیْطَانِ فِي بَیْتِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم؟ وَذَالِکَ فِي یَوْمِ عِیْدٍ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم: یَا أَبَا بَکْرٍ، إِنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِیْدًا وَهٰذَا عِیْدُنَا.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

وفي روایة لِمُسْلِمٍ: وَفِیْهِ جَارِیَتَانِ تَلْعَبَانِ بِدُفٍّ.

أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب العیدین، باب سنة العیدین لأہل الإسلام، 1/324، الرقم: 909، ومسلم في الصحیح، کتاب صلاة العیدین، باب الرفعة في اللعب الذي لا معصیة فیه في أیام العید، 2/607، الرقم: 892، وابن ماجه في السنن، کتاب النکاح، باب الغناء والدف، 1/612، الرقم: 1898، وابن حبان في الصحیح، 13/180، 187، الرقم:5871، 5877.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے اور میرے پاس انصار کی دو (نابالغ) لڑکیاـں - انصار نے جنگ بُعاث میں جو بہادری دکھائی تھی - وہ بیان کر رہیں تھیں۔ وہ فرماتی ہیں کہ یہ (پیشہ ور) گانے والی نہ تھیں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے گھر میں شیطانی باجہ! اور یہ عید کے دن کی بات ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے ابو بکر! ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

امام مسلم کی روایت میں ہے کہ وہ دونوں لڑکیاں دف بجا رہی تھیں۔‘‘

17. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم وَعِنْدِي جَارِیَتَانِ تُغَنِّیَانِ بِغِنَاءِ بُعَاثَ، فَاضْطَجَعَ عَلَی الْفِرَاشِ وَحَوَّلَ وَجْهَهٗ، وَدَخَلَ أَبُوْ بَکْرٍ، فَانْتَهَرَنِي وَقَالَ: مِزْمَارَةُ الشَّیْطَانِ عِنْدَ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم؟ فَأَقْبَلَ عَلَیْهِ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم فَقَالَ: دَعْهُمَا، فَلَمَّا غَفَلَ، غَمَزْتُهُمَا، فَخَرَجَتَا، وَکَانَ یَوْمَ عِیْدٍ یَلْعَبُ السُّوْدَانُ بِالدَّرَقِ وَالْحِرَابِ، فَإِمَّا سَأَلْتُ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم وَإِمَّا قَالَ: تَشْتَهِیْنَ تَنْظُرِیْنَ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَأَقَامَنِي وَرَاءَ هٗ، خَدِّي عَلٰی خَدِّهٖ، وَهُوَ یَقُوْلُ: دُوْنَکُمْ یَا بَنِي أَرْفِدَةَ، حَتّٰی إِذَا مَلِلْتُ۔ قَالَ: حَسْبُکِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ۔ قَالَ: فَاذْهَبِي.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

قَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ فِي الْفَتْحِ: ’’وَقَالَتْ - أَي عَائِشَةُ -: کَانَ یَوْمَ عِیْدٍ‘‘ فَتَبَیَّنَ بِهٰذَا أَنَّهٗ مَوْصُوْلٌ کَالْأَوَّلِ۔ قَوْلُهٗ: ’’یَلْعَبُ فِیْهِ السُّوْدَانُ‘‘ فِي رِوَایَةِ الزُّهْرِيِّ الْمَذْکُوْرَةِ: ’’وَالْحَبَشَةُ یَلْعَبُوْنَ فِي الْمَسْجِدِ.‘‘ وَزَادَ فِي رِوَایَةٍ مُعَلَّقَةٍ وَوَصَلَهَا مُسْلِمٌ ’’بِحِرَابِهِمْ‘‘ وَلِمُسْلِمٍ مِنْ رِوَایَةِ هِشَامٍ عَنْ أَبِیْهِ: ’’جَاءَ حَبَشٌ یَلْعَبُوْنَ فِي الْمَسْجِدِ‘‘، قَالَ الْمُحِبُّ الطَّبَرِيُّ: هٰذَا السِّیَاقُ یُشْعِرُ بِأَنَّ عَادَتَهُمْ ذَالِکَ فِي کُلِّ عِیْدٍ، وَوَقَعَ فِي رِوَایَةِ ابْنِ حِبَّانَ: ’’لَمَّا قَدِمَ وَفَدُ الْحَبَشَةِ، قَامُوْا یَلْعَبُوْنَ فِي الْمَسْجِدِ۔‘‘ وَهٰذَا یُشْعِرُ بِأَنَّ التَّرْخِیْصَ لَهُمْ فِي ذَالِکَ بِحَالِ الْقُدُوْمِ، وَلَا تُنَافِي بَیْنَهُمَا لِاحْتِمَالِ أَنْ یَکُوْنَ قُدُوْمُهُمْ صَادِفٌ یَوْمَ عِیْدٍ وَکَانَ مِنْ عَادَتِهِمُ اللَّعِبُ فِي الْأَعْیَادِ، فَفَعَلُوْا ذَالِکَ کَعَادَتِهِمْ ثُمَّ صَارُوْا یَلْعَبُوْنَ یَوْمَ کُلِّ عِیْدٍ، وَیَؤَیِّدُهٗ مَا رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ، عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ:’’ لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم الْمَدِیْنَةَ، لَعِبَتِ الْحَبَشَةُ فَرِحًا بِذَالِکَ لَعِبُوْا بِحِرَابِهِمْ.‘‘ وَلَا شَکَّ أَنْ یَوْمَ قُدُوْمِهٖ صلی الله علیه وآله وسلم کَانَ عِنْدَهُمْ أَعْظَمَ مِنْ یَوْمِ الْعِیْدِ.

أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب العیدین، باب الحراب والدرق یوم العید، 1/323، الرقم: 907، ومسلم في الصحیح، کتاب صلاة العیدین، باب الرخصة في اللعب الذي لا معصیة فیه في أیام العید، 2/609، الرقم: 892، وأبو یعلی في المسند، 8/247، الرقم: 4829، والبیهقي في السنن الکبری، 10/218، والعسقلاني في فتح الباري، 2/443.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ حضور نبی اکرم ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور میرے پاس دو لڑکیاں جنگ بعاث کے ترانے گا رہی تھیں۔ آپ ﷺ بستر پر آرام فرما ہو گئے اور ان سے منہ پھیر لیا۔ پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے اور انہوں نے مجھے ڈانٹا اور فرمایا: حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس شیطانی ساز! حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت ابو بکر کی جانب متوجہ ہو کر فرمایا: (ابو بکر) انہیں چھوڑ دو۔ (حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ) جب حضرت ابو بکر کسی اور طرف متوجہ ہوئے تو میں نے لڑکیوں کو نکل جانے کا اشارہ کیا۔ وہ حبشیوں کی عید کا دن تھا جو ڈھالوں اور برچھیوں سے کھیلتے۔ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا یا آپ ﷺ نے خود ہی فرمایا: (اے عائشہ! کیا) تم دیکھنا چاہتی ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا اور میرا رخسار آپ ﷺ کے رخسارِ مبارک پر تھا اور آپ ﷺ فرماتے رہے: اے بنو ارفدہ! اور دکھاؤ۔ یہاں تک کہ جب میں اُکتا گئی تو مجھ سے فرمایا: بس! تو میں نے عرض کیا: جی (یا رسول الله !)۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: جاؤ۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

حافظ عسقلانی ’’فتح الباری‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’وہ عید کا دن تھا۔‘‘ پس اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حدیث بھی پہلی حدیث کی طرح موصول ہے جس میں ہے کہ ’’اس دن حبشہ والے مسجد میںرقص کرتے‘‘ اور امام زہری کی مذکورہ روایت میں ہے: ’’اہل حبشہ مسجد میں کھیلتے‘‘ اور انہوں (امام زہری) نے ایک روایت - جو امام مسلم سے متصل ہے - میں لفظ بحرابھم (اپنے جنگی ساز و سامان کے ساتھ) کا اضافہ کیا ہے اور امام مسلم کی روایت جو کہ حضرت ہشام کی اپنے والد سے ہے - میں یہ الفاظ آتے ہیں جَاءَ حبَشٌ یَلْعَبُوْنَ فِي الْمَسْجِدِ کہ حبشہ کے لوگ مسجد میں کھیلنے کے لیے آئے۔ امام محب الدین طبری نے بیان کیا کہ یہ سیاق بتلاتا ہے کہ ہر عید میں ان کی یہ عادت تھی کہ وہ مسجد میں (اپنے سامان حرب کے ساتھ) کھیلتے تھے۔ امام ابن حبان کی روایت میں ہے کہ جب حبشہ کا وفد آیا، تو وہ مسجد میں (اپنے سامان حرب کے ساتھ) رقص کرنے لگے، اور یہ چیز بتلاتی ہے کہ انہیں اس کام کی اجازت وہاں آتے وقت ملی تھی۔ اور ان دونوں چیزوں میں مغایرت نہیں ہے کیوں کہ ممکن ہے ان کا وہاں آنا عید کے روز ہو، اور عیدوں میں کھیلنا ان کی عادت ہو، پس انہوں نے ایسا اپنی عادت کے مطابق کیا ہو، پھر وہ ہر عید کو ایسا کرنے لگے ہوں۔ اس چیز کی تائید وہ روایت بھی کرتی ہے، جسے امام ابو داود نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا: جب حضور نبی اکرم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے، تو اہلِ حبشہ نے آپ ﷺ کی آمد کی خوشی میں اپنے سامان حرب کے ساتھ رقص کیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی مدینہ منورہ تشریف آوری کا دن ان کے نزدیک (تمام خوشیوں اور) عید کے دنوں سے بڑھ کر تھا۔‘‘

18. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم الْمَدِیْنَةَ لَعِبَتِ الْحَبَشَةُ لِقُدُوْمِهٖ بِحِرَابِهِمْ فَرَحًا بِذَالِکَ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَإِسْنَادُهٗ صَحِیْحٌ وَالْبُخَارِيُّ فِي الصَّغِیْرِ وَأَبُوْ یَعْلٰی.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3/161، الرقم: 12670، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب في النہي عن الغناء، 4/281، الرقم: 4923، والبخاري في التاریخ الصغیر، 1/8، الرقم: 15، وعبد بن حمید في المسند، 1/371، الرقم: 1239، وأبو یعلی في المسند، 6/177، الرقم: 3459.

’’حضرت اَنس رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا: جب حضور نبی اکرم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہلِ حبشہ نے آپ ﷺ کی آمد کی خوشی مناتے ہوئے اپنے آلاتِ حرب کے ساتھ خوب کھیل کود (اور رقص) کیا۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد اور ابو داود نے روایت کیا ہے۔ اور اس کی اسناد صحیح ہے، اس کے علاوہ امام احمد اور بخاری نے التاریخ الصغیر میں اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

19. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ: خَرَجَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم وَالْحَبَشَةُ یَلْعَبُوْنَ، وَأَنَا أَطْلَعُ مِنْ خَوْخَةٍ لِي، فَدَنَا مِنِّي رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم، فَوَضَعْتُ یَدِي عَلٰی مَنْکِبِهٖ، وَجَعَلْتُ أَنْظُرُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم: بَنَاتُ أَرْفِدَةَ، فَمَا زِلْتُ، وَهُمْ یَلْعَبُوْنَ، وَیَزْفِنُوْنَ (وفي روایة: یَرْقُصُوْنَ) حَتّٰی کُنْتُ أَنَا الَّتِي انْتَهَیْتُ۔ رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.

وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ: وَهُمْ یَلْعَبُوْنَ وَیَزْفِنُوْنَ، وَالزُّفْنُ: الرَّقْصُ.

أخرجه النسائي في السنن الکبری، 5/309، الرقم: 8958، والطبراني في المعجم الأوسط، 9/121، الرقم: 9303، والعسقلاني في تلخیص الحبیر، 4/202، الرقم: 2125، وابن الملقن في خلاصة البدر المنیر، 2/443، الرقم: 2917.

’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول الله ﷺ باہر تشریف لائے درآنحالیکہ حبشی کھیل رہے تھے، میں نے اپنے حجرہ کے دروازہ سے باہر جھانکا تو رسول الله ﷺ میرے قریب ہوئے، پس میں نے اپنا ہاتھ رسول الله ﷺ کے مبارک کندھے پر رکھا اور (ان حبشیوں کو کھیلتے ہوئے) دیکھنے لگی، تو رسول الله ﷺ نے فرمایا: بناتِ اَرفدہ۔ پس میں انہیں دیکھتی رہی درآنحالیکہ وہ کھیل اور ناچ رہے تھے (اور ایک روایت میں ہے: وہ رقص کررہے تھے،) یہاں تک کہ میں نے خود ہی دیکھنا ختم کردیا (حضورنبی اکرم ﷺ نے مجھے منع نہیں فرمایا)۔‘‘

اس حدیث کو امام نسائی اورطبرانی نے روایت کیا ہے۔ حافظ عسقلانی نے فرمایا: وہ کھیل رہے تھے اور رقص کر رہے تھے۔ زُفن کا مطلب ’رقص کرنا‘ ہے۔

20. عَنْ عُبَیْدِ اللهِ بْنِ عَائِشَةَ رضی الله عنهما قَالَ: لَمَّا دَخَلَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم الْمَدِیْنَةَ … فَتَلَقَّی النَّاسَ وَالْعَوَاتِقَ فَوْقَ الْجَاجِیْرِ، وَالصِّبْیَانُ وَالْوَلَائِدُ یَقُوْلُوْنَ:

طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا
مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاعِ

وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا
مَا دَعَا ِ اللهِ دَاعِ

وَأَخَذَتِ الْحَبَشَةُ یَلْعَبُوْنَ بِحِرَابِهِمْ لِقُدُوْمِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم فَرَحًا بِذَالِکَ.

رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ فِي الثِّقَاتِ وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ وَالْعَسْقَـلَانِيُّ وَمُحِبُّ الدِّیْنِ الطَّبَرِيُّ.

أخرجه ابن حبان في الثقات، 1/131، وابن عبد البر في التمهید، 14/82، والعسقلاني في فتح الباري، 7/261، 8/129، والعیني في عمدة القاري، 17/60، ومحب الدین الطبري في الریاض النضرة، 1/480.

’’حضرت عبید الله بن عائشہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ مدینہ منورہ میں داخل ہوئے … تو آپ ﷺ نے لوگوں اور عورتوں کو (اپنے استقبال کے لیے) مکانوں کی چھتوں پر پایا جبکہ (مدینہ منورہ کے) بچے اور بچیاں یہ پڑھ رہے تھے:

’’ہم پر وداع کی گھاٹیوں سے چودھویں کا چاند (یعنی چہرۂ والضحیٰ ﷺ ) طلوع ہو گیا، اور ہم پر اس وقت تک شکر ادا کرتے رہنا واجب ہو گیا جب تک کوئی الله تعالیٰ کی طرف دعوت دینے والا دعوت دے رہا ہے (یعنی جب تک کوئی بھی خدا کا نام لینے والا باقی رہے گا)۔‘‘

رسول الله ﷺ کی تشریف آوری کا جشن منانے کی خاطر حبشہ کے لوگ اپنے آلات حرب کے ساتھ رقص کرتے رہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن حبان نے ’الثقات‘ میں، ابن عبد البر، عسقلانی اور محب طبری نے روایت کیا ہے۔

21. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: کَانَتِ الْحَبَشَةُ یَزْفِنُوْنَ بَیْنَ یَدَي رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم، وَیَرْقُصُوْنَ، وَیَقُوْلُوْنَ: مُحَمَّدٌ عَبْدٌ صَالِحٌ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم: مَا یَقُوْلُوْنَ؟ قَالُوْا: یَقُوْلُوْنَ: مُحَمَّدٌ عَبْدٌ صَالِحٌ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْمَقْدِسِيُّ وَإِسْنَادُهٗ صَحِیْحٌ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3/152، الرقم: 12562، والمقدسي في الأحادیث المختارة، 5/60، الرقم: 1680.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اہل حبشہ رسول الله ﷺ کے سامنے (اپنے آلاتِ حرب کے ساتھ) ناچ رہے اور رقص کررہے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے:مُحَمَّدٌ عَبْدٌ صَالِحٌ (محمد ﷺ ( الله تعالیٰ کے) برگزیدہ بندے ہیں)۔ پس رسول الله ﷺ نے دریافت فرمایا: یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ صحابہ کرام ث نے عرض کیا: یہ کہہ رہے ہیں: مُحَمَّدٌ عَبْدٌ صَالِحٌ (محمد ﷺ ( الله تعالیٰ کے) برگزیدہ بندے ہیں)۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد اور مقدسی نے روایت کیا ہے، اور اس کی سند صحیح ہے۔

22. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ الْحَبَشَةَ کَانُوْا یَزْفِنُوْنَ بَیْنَ یَدَي رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم، وَیَتَکَلَّمُوْنَ بِکَـلَامٍ لَا یَفْهَمُهٗ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم: مَا یَقُوْلُوْنَ؟ قَالُوْا: مُحَمَّدٌ عَبْدٌ صَالِحٌ.

رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالْمَقْدِسِيُّ.

أخرجه ابن حبان في الصحیح، 13/179، الرقم: 5870، والمقدسي في الأحادیث المختارة، 5/60، الرقم: 1681، والعسقلاني في فتح الباري، 2/444، والہیثمي في موارد الظمآن، 1/493، الرقم: 2012.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اہلِ حبشہ رسول الله ﷺ کے سامنے رقص کررہے تھے اور (اپنی زبان و لہجہ میں) کچھ کہہ رہے تھے جس کا معنی و مفہوم واضح نہیں تھا، تو آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا: مُحَمَّدٌ عَبْدٌ صَالِحٌ (محمد ﷺ ( الله تعالیٰ کے) برگزیدہ بندے ہیں)۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن حبان اور مقدسی نے روایت کیا ہے۔

23. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم عَقَّ عَنْ نَفْسِهٖ بَعْدَ النُّبُوَّةِ.

رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ وَالْمَقْدِسِيُّ.

أخرجه البیهقي في السنن الکبری، 9/300، الرقم: 19056، والمقدسي في الأحادیث المختارة، 5/205، الرقم: 1833، والنووي في تہذیب الأسماء واللغات، 2/557، الرقم: 962، والعسقلاني في فتح الباري، 9/595، وأیضًا في تهذیب التهذیب، 5/340، الرقم: 661، والمزي في تهذیب الکمال، 16/32، الرقم: 3523.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اِعلانِ نبوت کے بعد اپنا عقیقہ کیا۔‘‘

اِسے امام بیہقی اور مقدسی نے روایت کیا ہے۔

24. وفي روایة: عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم عَقَّ عَنْ نَفْسِهٖ بَعْدَ مَا بُعِثَ نَبِیًّا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْمَقْدِسِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 1/298، الرقم: 994، والمقدسي في الأحادیث المختارة، 5/205، الرقم: 1832، والرویاني في المسند، 2/386، الرقم: 1371

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: حضور نبی اکرم ﷺ نے بعد اَز بعثت اپنا عقیقہ کیا۔‘‘

اِسے امام طبرانی اور مقدسی نے روایت کیا ہے۔

25. وفي روایة: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: لَمَّا وُلِدَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم عَقَّ عَنْهُ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ رضی الله عنه بِکَبْشٍ۔ رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ.

أخرجه ابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 3/32، والحلبي في إنسان العیون في سیرة الأمین المامون، 1/128، والسیوطي في کفایة الطالب اللبیب في خصائص الحبیب، 1/134.

’’حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: جب حضور ﷺ کی ولادت ہوئی تو حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے آپ کی طرف سے ایک مینڈھا ذبح کرکے عقیقہ کیا۔‘‘

اِسے امام ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

قَالَ السُّیُوْطِيُّ: وَظَهَرَ لِي تَخْرِیْجُهٗ عَلٰی أَصْلٍ آخَرَ، وَهُوَ مَا أَخْرَجَهُ الْبَیْهَقِيُّ، عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم عَقَّ عَنْ نَفْسِهٖ بَعْدَ النُّبُوَّةِ۔ مَعَ أَنَّهٗ قَدْ وَرَدَ أَنَّ جَدَّهٗ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ عَقَّ عَنْهُ فِي سَابِعِ وِلَادَتِهٖ، وَالْعَقِیْقَةُ لَا تُعَادُ مَرَّةً ثَانِیَةً، فَیُحْمَلُ ذَالِکَ عَلٰی أَنَّ الَّذِي فَعَلَهُ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم إِظْهَارًا لِلشُّکْرِ عَلٰی إِیْجَادِ اللهِ تَعَالٰی إِیَّاهُ رَحْمَةً لِلْعَالَمِیْنَ وَتَشْرِیْفًا لِأُمَّتِهٖ، کَمَا کَانَ یُصَلِّي عَلٰی نَفْسِهٖ، لِذَالِکَ فَیَسْتَحِبُّ لَنَا أَیْضًا إِظْهَارُ الشُّکْرِ بِمَوْلِدِهٖ بِاجْتِمَاعِ الإِخْوَانِ، وَإِطْعَامِ الطَّعَامِ، وَنَحْوَ ذَالِکَ مِنْ وُجُوْهِ الْقُرُبِاتِ، وَإِظْهَارِ الْمَسَرَّاتِ.

ذکره السیوطي في حسن المقصد في عمل المولد/64، 65، وأیضًا في الحاوي للفتاوی/206، والصالحي في سبل الهدی والرشاد، 1/367، والزرقاني في شرح المواهب اللدنیة، 1/263264، والنبهاني في حجة الله علی العالمین/237.

’’امام سیوطی نے فرمایا: یوم میلاد النبی ﷺ منانے کے حوالہ سے ایک اور دلیل مجھ پر ظاہر ہوئی ہے، جسے امام بیہقی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اِعلانِ نبوت کے بعدخود اپنا عقیقہ کیا باوُجود اس کے کہ آپ ﷺ کے دادا عبد المطلب آپ ﷺ کی پیدائش کے ساتویں روز آپ ﷺ کا عقیقہ کر چکے تھے اورعقیقہ دو (2) بار نہیں کیا جاتا۔ پس یہ واقعہ اِسی پر محمول کیا جائے گا کہ آپ ﷺ نے اپنے آپ کو الله کی طرف سے رحمۃ للعالمین بنائے جانے اور اپنی اُمت کے مشرف ہونے کی وجہ سے اپنی ولادت کی خوشی کے اظہار کے لیے خود عقیقہ کیا۔ اسی طرح ہمارے لیے مستحب ہے کہ ہم بھی حضور نبی اکرم ﷺ کے یومِ ولادت پر خوشی کا اِظہار کریں اور کھانا کھلائیں اور دیگر عبادات بجا لائیں اور خوشیوں کا اظہار کریں۔‘‘

26. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه في روایة طویلة أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: ثُمَّ قَالَ: انْزِلْ فَصَلِّ، فَنَزَلْتُ فَصَلَّیْتُ، فَقَالَ: أَتَدْرِي أَیْنَ صَلَّیْتَ؟ صَلَّیْتَ بِبَیْتِ لَحْمٍ حَیْثُ وُلِدَ عِیْسٰی علیہ السلام.

رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَزَّارُ.

أخرجه النسائي في السنن، کتاب الصلاة، باب فرض الصلاة، 1/222، الرقم: 450، والطبراني في مسند الشامیین، 1/194، الرقم:341، وأیضًا في المعجم الکبیر، 7/283، الرقم: 7142، والبزار عن شداد بن أوس في المسند، 8/410، الرقم: 3484، والهیثمي في مجمع الزوائد، 1/73، والعسقلاني في فتح الباري، 7/199.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت میں مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے (اپنا سفرِ معراج بیان کرتے ہوئے) فرمایا: جبرائیل علیہ السلام نے (بیت اللحم کے مقام پر) مجھ سے کہا: آپ براق سے اُتریے اور نماز پڑھیے۔ میں نے اُتر کر نماز ادا کی۔ تو اُنہوں نے کہا: کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز ادا کی ہے؟ آپ نے بیت اللحم میں نماز ادا کی ہے جہاں عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی تھی۔‘‘

اِسے امام نسائی، طبرانی اور بزار نے روایت کیا ہے۔

27. عَنْ خُرَیْمِ بْنِ أَوْسِ بْنِ حَارِثَةَ بْنِ لَامٍ رضی الله عنه قَالَ: کُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم فَقَالَ لَهُ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي الله عنہما: یَا رَسُوْلَ اللهِ ، إِنِّي أُرِیْدُ أَنْ أَمْدَحَکَ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم: هَاتِ لَا یَفْضُضِ اللهُ فَاکَ فَأَنْشَأَ الْعَبَّاسُ رضی الله عنه یَقُوْلُ:

وَأَنْتَ لَمَّا وُلِدْتَ أَشْرَقَتِ
الْأَرْضُ وَضَائَتْ بِنُوْرِکَ الْأُفُقُ

فَنَحْنُ فِي الضِّیَائِ وَفِي
النُّوْرِ وَسُبُلُ الرَّشَادِ نَخْتَرِقُ

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْحَاکِمُ وَأَبُوْ نُعَیْمٍ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 4/213، الرقم: 4167، والحاکم في المستدرک، 3/369، الرقم: 5417، وأبو نعیم في حلیة الأولیائ، 1/364، والذهبي في سیر أعلام النبلائ، 2/102، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1/53، وابن عبد البر في الاستیعاب، 2/447، الرقم: 664، والعسقلاني في الإصابة، 2/274، الرقم: 2247، والہیثمي في مجمع الزوائد، 8/217، والخطابي في إصلاح غلط المحدثین، 1/101، الرقم: 57، وابن قدامة في المغني، 10/176، والسیوطي في الخصائص الکبری، 1/66، وابن کثیر في البدایة والنہایة (السیرة)، 2/258، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 13/146، والحلبي في إنسان العیون في سیرة الأمین المامون، 1/92.

’’حضرت خریم بن اوس بن حارثہ بن لام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے خدمتِ اقدس میں موجود تھے، حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہما نے آپ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول الله ! میں آپ کی مدح و نعت پڑھنا چاہتا ہوں۔ تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: لاؤ مجھے سناؤ، الله تعالیٰ تمہارے دانت صحیح و سالم رکھے (یعنی تم اسی طرح کا عمدہ کلام پڑھتے رہو)۔ سو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ پڑھنا شروع کیا:

’’آپ وہ ذات ہیں کہ جب آپ کی ولادت باسعادت ہوئی تو (آپ کے نور سے) ساری زمین چمک اٹھی اور آپ کے نور سے اُفقِ عالم روشن ہو گیا۔ پس ہم آپ کی عطا کردہ روشنی اور آپ ہی کے نور میں ان ہدایت کی راہوں پر گامزن ہیں۔‘‘

اس حدیث کو امام طبرانی، حاکم اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔

28. عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم: إِنِّي عِنْدَ اللهِ لَخَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ، وَإِنَّ آدَمَ علیہ السلام لَمُنْجَدِلٌ فِي طِیْنَتِهٖ، وَسَأُنَبِّئُکُمْ بِأَوَّلِ ذَالِکَ دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِیْمَ، وَبِشَارَةُ عِیْسٰی بِي، وَرُؤْیَا أُمِّي الَّتِي رَأَتْ وَکَذَالِکَ أُمَّهَاتُ النَّبِیِّیْنَ تَرَیْنَ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ.

29. وفي روایة عنہ: قَالَ: إِنِّي عَبْدُ اللهِ وَخَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ فذکر مثلہ وزاد فیه: إِنَّ أُمَّ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم رَأَتْ حِیْنَ وَضَعَتْهُ نُوْرًا أَضَائَتْ مِنْهُ قُصُوْرُ الشَّامِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِیْرِ.

28-29: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4/127128، الرقم: 16700، 16712، وابن حبان في الصحیح، 14/313، الرقم: 6404، وابن أبي عاصم في السنة، 1/179، الرقم:409، والبخاري في التاریخ الکبیر، 6/68، الرقم: 1736، والطبراني في المعجم الکبیر، 18/252، 253، الرقم: 629، 630، والحاکم في المستدرک، 2/656، الرقم: 4175، والبیهقي في شعب الإیمان، 2/134، الرقم: 1385.

’’حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: میں الله تعالیٰ کی بارگاہ میں اُس وقت سے آخری نبی لکھا جا چکا تھا جبکہ حضرت آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے اور میں تمہیں اس کی تاویل بتاتا ہوں: میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا (کا نتیجہ) ہوں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں، اور اس کے علاوہ اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے میری ولادت سے پہلے دیکھا تھا اور انبیاء کرام کی مائیں اسی طرح کے خواب دیکھتی ہیں۔‘‘

اِسے امام اَحمد نے روایت کیا ہے۔

ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں الله تعالیٰ کا بندہ اور آخری نبی ہوں۔‘‘ پھر راوی نے مذکورہ باب حدیث کی مثل حدیث بیان فرمائی اور اس میں یہ اضافہ کیا: ’’بے شک رسول الله ﷺ کی والدہ ماجدہ نے آپ ﷺ کی ولادت مبارکہ کے وقت نور دیکھا جس سے شام کے محلات تک روشن ہو گئے۔‘‘

اِسے امام اَحمد، ابن حبان، حاکم اور بخاری نے التاریخ الکبیر میں روایت کیا ہے۔

30. عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم: إِنِّي عِنْدَ اللهِ فِي أُمِّ الْکِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِیْنَتِهٖ، وَسَأُحَدِّثُکُمْ تَأْوِیْلَ ذَالِکَ: دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِیْمَ، دَعَا: {وَابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِنْهُمْ} ]البقرة، 2: 129[، وَبِشَارَةُ عِیْسَی بْنِ مَرْیَمَ قَوْلُهٗ: {وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ یَأْتِي مِنْم بَعْدِي اسْمُهٗ أَحْمَدُ}، ]الصف، 61: 6[۔ وَرُؤْیَا أُمِّي رَأَتْ فِي مَنَامِهَا أَنَّهَا وَضَعَتْ نُوْرًا أَضَاءَ تْ مِنْهُ قُصُوْرُ الشَّامِ.

رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَیْمٍ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ سَعْدٍ۔ وَقَالَ الْهَیْثَمِيُّ: وَأَحَدُ أَسَانِیْدِ أَحْمَدَ رِجَالُهٗ رِجَالُ الصَّحِیْحِ غَیْرَ سَعِیْدِ بْنِ سُوَیْدٍ وَقَدْ وَثَّقَهُ ابْنُ حِبَّانَ.

أخرجه ابن حبان في الصحیح، باب ذکر کتبه الله جل وعلا عنده محمدا صلی الله علیه وآله وسلم خاتم النبیین، 14/312، الرقم: 6404، والطبراني في المعجم الکبیر، 18/253، الرقم: 631، وأبو نعیم في حلیة الأولیائ، 6/40، وأیضًا في دلائل النبوة، 1/17، والحاکم في المستدرک، 2/656، الرقم: 4174، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1/149، والعسقلاني في فتح الباري، 6/583، والطبري في جامع البیان، 6/583، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 1/185، وأیضًا في البدایة والنهایة، 2/321، والھیثمي في موارد الظمآن، 1/512، الرقم: 2093، وأیضًا في مجمع الزوائد، 8/223.

’’حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: بے شک میں اللہ تعالیٰ کے ہاں لوحِ محفوظ میں اس وقت بھی آخری نبی تھا جبکہ آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گندھے ہوئے (مرحلۂ خلقت میں) تھے۔ میں تمہیں اِس کی تفصیل بتاتا ہوں کہ میں اپنے جدِ امجد ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں جو اُنہوں نے مانگی: ’’اے ہمارے ربّ! ان میں، انہی میں سے (وہ آخری اوربرگزیدہ) رسول ( ﷺ ) مبعوث فرما۔‘‘ اور میں عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کی بشارت ہوں، اُنہوں نے کہا: ’’اور اُس رسولِ (معظم ﷺ ) کی (آمد کی) بشارت سنانے والاہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت) احمد ( ﷺ ) ہے۔‘‘ اور میں اپنی والدہ کا خواب ہوں جو اُنہوں نے دیکھا کہ اُنہوں نے ایک ایسے نور کو جنم دیا ہے جس سے شام کے محلات بھی روشن ہو گئے۔‘‘

اسے امام ابن حبان، طبرانی، ابو نعیم، حاکم اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: امام اَحمد کی ایک سند کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں سوائے سعید بن سوید کے، اُنہیں امام ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے۔

31. عَنْ أَبِي مَرْیَمَ (سَنَانَ)، قَالَ: أَقْبَلَ أَعْرَابِيٌّ حَتّٰی أَتٰی رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم وَهُوَ قَاعِدٌ وَعِنْدَهٗ خَلْقٌ مِنَ النَّاسِ، فَقَالَ: أَلَا تُعْطِیْنِي شَیْئًا أَتَعَلَّمُهٗ وَأَحْمِلُهٗ وَیَنْفَعُنِي وَلَا یَضُرُّکَ؟ فَقَالَ النَّاسُ: مَهْ، اِجْلِسْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم: دَعَوْهُ، فَإِنَّمَا یَسْأَلُ الرَّجُلُ لِیَعْلَمَ، قَالَ: فَأَفْرَجُوْا لَهٗ، حَتّٰی جَلَسَ، قَالَ: أَيُّ شَيئٍ کَانَ أَوَّلَ أَمْرِ نُبُوَّتِکَ؟ قَالَ: أَخَذَ اللهُ مِنِّي الْمِیْثَاقَ، کَمَا أَخَذَ مِنَ النَّبِیِّیْنَ مِیْثَاقَهُمْ. ثُمَّ تَـلَا: {وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیِّیْنَ مِیْثَاقَهُمْ وَمِنْکَ وَمِنْ نُوْحٍ وَإِبْرَاهِیْمَ وَمُوْسَی وَعِیْسَی بْنِ مَرْیَمَ وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ مِیْثَاقًا غَلِیْظًا} ]الأحزاب، 33: 7[ وَبَشَّرَ بِيَ الْمَسِیْحُ بْنُ مَرْیَمَ۔ وَرَأَتْ أُمُّ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم فِي مَنَامِهَا أَنَّهٗ خَرَجَ مِنْ بَیْنِ رِجْلَیْهَا سِرَاجٌ أَضَاءَ تْ لَهٗ قُصُوْرُ الشَّامِ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 22/333، الرقم: 835، وأیضًا في مسند الشامیین، 2/98، الرقم: 984، وابن أبي عاصم في الأحاد والمثاني، 4/397، الرقم: 2446، والسیوطي في الخصائص الکبری، 1/8، والهیثمي في مجمع الزوائد، 8/224، وابن کثیر في البدایة والنهایة، 2/323.

’’حضرت ابو مریم (سنان) رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ اُس وقت تشریف فرما تھے اور آپ کے پاس بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ اُس اعرابی نے عرض کیا: (یا رسول الله !) کیا آپ مجھے کوئی ایسی شے نہیں دیں گے کہ میں جس سے سیکھوں اور اسے سنبھالے رکھوں اور وہ مجھے فائدہ پہنچائے اور آپ کو کوئی نقصان نہ دے؟ لوگوں نے اُسے کہا: ٹھہرو، بیٹھ جاؤ۔ اِس پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اِسے چھوڑ دو، بے شک آدمی جاننے کے لیے ہی سوال کرتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اِس کے لیے (بیٹھنے کی) جگہ بناؤ۔ یہاں تک کہ وہ بیٹھ گیا۔ اُس نے عرض کیا: یا رسول الله ! آپ کی نبوت کا سب سے پہلا معاملہ کیا تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھ سے میثاق لیا جیسا کہ دیگر انبیاء کرام علیہم السلام سے ان کا میثاق لیا۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت مبارکہ پڑھی: {اور (اے حبیب! یاد کیجیے) جب ہم نے انبیاء سے اُن (کی تبلیغِ رسالت) کا عہد لیا اور (خصوصاً) آپ سے اور نوح سے اور ابراہیم سے اور عیسی بن مریم ( علیہما السلام ) سے اور ہم نے اُن سے نہایت پختہ عہد لیا۔} آپ ﷺ نے فرمایا: اور عیسیٰ بن مریم علیہما السلام نے میری بشارت دی۔ اور رسول اللہ ﷺ کی والدہ محترمہ نے اپنے خواب میں دیکھا (کہ آپ ﷺ ولادتِ مبارکہ کے وقت) اُن کے بدنِ اَطہر سے ایک ایسا چراغ روشن ہوا جس سے شام کے محلات تک روشن ہو گئے۔‘‘

اسے امام طبرانی اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔

32. عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ رضی الله عنه قَالَ: أَخْبَرَتْنِي أُمِّي قَالَتْ: شَهِدْتُ آمِنَةَ رضی الله عنها لَمَّا وُلِدَتْ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم، فَلَمَّا ضَرَبَهَا الْمَخَاضُ نَظَرْتُ إِلَی النُّجُوْمِ تَنَزَّلُ (وفي روایة: تَدَلّٰی) حَتّٰی إِنِّي أَقُوْلُ: لَتَقَعَنَّ عَلَيَّ۔ فَلَمَّا وَلَدَتْهُ خَرَجَ مِنْهَا نُوْرٌ أَضَاءَ لَهُ الْبَیْتُ الَّذِي نَحْنُ فِیْهِ وَالدَّارُ، فَمَا شَيئٌ أَنْظُرُ إِلَیْهِ إِلَّا نُوْرٌ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَأَبُوْ نُعَیْمٍ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 25/147،186، الرقم: 355، 457، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 6/29، الرقم: 3210، وأبو نعیم في دلائل النبوة، 1/93، والبیهقي في دلائل النبوة، 1/111، والماوردي في أعلام النبوة، 1/273، والعسقلاني في تهذیب التهذیب، 7/117، الرقم: 270، وأیضًا في الإصابة، 8/259، الرقم: 12163، والمزي في تهذیب الکمال، 19/408، والهیثمي في مجمع الزوائد، 8/220.

’’حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ اُن کی والدہ محترمہ نے اُن سے بیان کیا: جب ولادتِ نبوی کا وقت آیا تو میں سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کے ہاں حاضر تھی، میں دیکھ رہی تھی کہ ستارے آسمان سے نیچے کی طرف ڈھلک کے قریب ہو رہے ہیں، یہاں تک کہ میں نے محسوس کیا کہ میرے اوپر آگریں گے۔ اور سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کے جسم اطہر سے ایسا نور نکلا جس سے پورا گھر اور حویلی جگمگ کرنے لگی اور مجھے ہر ایک شے میں نور ہی نور نظر آیا۔‘‘

اسے امام طبرانی، ابن ابی عاصم اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔

33. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما أَنَّ آمِنَةَ بِنْتَ وَهْبٍ قَالَتْ: لَقَدْ عَلِقْتُ بِهٖ، تَعْنِي رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم، فَمَا وَجَدْتُ لَهٗ مَشَقَّةً حَتّٰی وَضَعْتُهٗ، فَلَمَّا فَصَلَ مِنِّي خَرَجَ مَعَهٗ نُوْرٌ أَضَاءَ لَهٗ مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ.

وفي روایة: وَخَرَجَ مَعَهٗ نُوْرٌ أَضَائَتْ لَهٗ قُصُوْرُ الشَّامِ وَأَسْوَاقُهَا، حَتّٰی أَعْنَاقُ الإْبِلِ بِبُصْرٰی.

رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَابْنُ کَثِیْرٍ.

أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 1/98، 102، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 3/79، وابن کثیر في البدایة والنهایة، 2/264، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1/52، والسیوطي في الخصائص الکبری، 1/72،79، والحلبي في إنسان العیون، 1/80.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدہ آمنہ بنت وہب رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں: جب میں رسول الله ﷺ سے گراں بار ہوئی، تو مجھے ایسی کوئی دِقت پیش نہ آئی (جو عام طور پر عورتوں کو حمل کے دوران پیش آتی ہے) یہاں تک کہ میں نے آپ ﷺ کو جنم دیا۔ پس جب آپ ﷺ میرے جسم سے جدا ہوئے تو ان کے ساتھ ایک ایسا نور نمودار ہوا جس سے مشرق و مغرب روشن ہو گئے۔‘‘

ایک دوسری روایت میں ہے: آپ ﷺ کی ولادت کے ساتھ ہی ایک ایسا نور نمودار ہوا جس سے شام کے محلات اور بازار روشن ہوگئے حتی کہ بصریٰ میں (چلنے والے) اونٹوں کی گردنیںبھی (میرے سامنے) نمودار ہوگئیں۔‘‘

اسے امام ابن سعد، ابن عساکر اور ابن کثیر نے روایت کیا ہے۔

34. وفي روایة: عَنِ ابْنِ الْقَبْطِیَّةِ فِي مَولِدِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم: قَالَ: قَالَتْ أُمُّهٗ صلی الله علیه وآله وسلم: رَأَیْتُ کَأَنَّ شِهَابًا خَرَجَ مِنِّي أَضَاءَ تْ لَهُ الْأَرْضُ.

رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ.

أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 1/102، والسیوطي في الخصائص الکبری، 1/79.

’’حضرت ابن قبطیہ سے حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت پاک کے حوالے سے روایت ہے کہ آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ نے فرمایا: (آپ ﷺ کی ولادت کے وقت) میں نے مشاہدہ کیا، گویا کہ ایک روشن ستارہ میرے جسم سے نکلا ہے جس سے ساری زمین روشن ہو گئی۔‘‘

اسے امام ابن سعد نے روایت کیا ہے۔

35. وفي روایة: عَنْ أَبِي الْعَجْفَائِ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم قاَلَ: رَأَتْ أُمِّي حِیْنَ وَضَعَتْنِي سَطَعَ مِنْهَا نُوْرٌ أَضَاءَ تْ لَهٗ قُصُوْرُ بُصْرٰی.

رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ.

أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 1/102، والسیوطي في الخصائص الکبرٰی، 1/79، والحلبي في إنسان العیون، 1/91.

’’حضرت ابو عجفاء بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میری ولادت کے وقت میری والدہ ماجدہ نے دیکھا کہ ان کے جسمِ اقدس سے ایک نور نمودار ہوا ہے، جس سے بصریٰ کے محلات روشن ہو گئے۔‘‘

اسے امام ابن سعد نے روایت کیا ہے۔

36. وفي روایة: عَنْ أَبِي جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ رضوان الله علیهم اجمعین قَالَ: أُمِرَتْ آمِنَةُ وَهِيَ حَامِلٌ بِرَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم، أَنْ تُسَمِّیَهٗ أَحْمَدَ.

رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ.

أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 1/98،104، والسیوطي في الخصائص الکبری، 1/72، والحلبي في إنسان العیون، 1/128.

’’حضرت ابو جعفر بن محمد بن علی رضوان اللہ علیہم اجمعین سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کو - جب وہ رسول الله ﷺ سے گراں بار تھیں - حکم دیا گیا کہ اپنے ہونے والے بچے کا نام ’اَحمد‘ رکھیں۔‘‘

اسے امام ابن سعد نے روایت کیا ہے۔

37. عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ رضی الله عنه عَنْ أُمِّهِ الشِّفَاءِ بِنْتِ عَمْرٍو قَالَتْ: لَمَّا وَلَدَتْ آمِنَةُ مُحَمَّدًا صلی الله علیه وآله وسلم وَقَعَ عَلٰی یَدَيَّ، فَاسْتَهَلَّ، فَسَمِعْتُ قَائِـلًا یَقُوْلُ: رَحِمَکَ رَبُّکَ، قَالَتِ الشِّفَاءُ: فَأَضَاءَ لِي مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ حَتّٰی نَظَرْتُ إِلٰی بَعْضِ قُصُوْرِ الشَّامِ، قَالَتْ: ثُمَّ أَلْبَنْتُهٗ وَأَضْجَعْتُهٗ، فَلَمْ أَنْشَبْ أَنْ غَشِیَتْنِي ظُلْمَةٌ وَرُعْبٌ وَقُشَعْرِیْرَةٌ، ثُمَّ أُسْفِرَ عَنْ یَمِیْنِي، فَسَمِعْتُ قَائِـلًا یَقُوْلُ: أَیْنَ ذَهَبْتَ بِهٖ؟ قَالَ: ذَهَبْتُ بِهٖ إِلَی الْمَغْرِبِ، قَالَتْ: وَأَسْفَرَ ذَالِکَ عَنِّي، عَاوَدَنِي الرُّعْبُ بِهٖ؟ قَالَ: إِلَی الْمَشْرِقِ، وَلَنْ یَعُوْدَا أَبَدًا، فَلَمْ یَزَلِ الْحَدِیْثُ مِنِّي عَلٰی بَالٍ حَتَّی ابْتَعَثَ اللهُ رَسُوْلَهٗ، فَکُنْتُ فِي أَوَّلِ النَّاسِ إِسْـلَامًا۔.

رَوَاهُ أَبُوْ نُعَیْمٍ.

أخرجه أبو نعیم في دلائل النبوة، 1/136، الرقم: 77، والسیوطي في الخصائص الکبری، 1/80.

’’حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اپنی والدہ محترمہ حضرت شفاء بنت عمرو رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں، وہ بیان کرتی ہیں: جب حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا نے حضرت محمد مصطفی ﷺ کو جنم دیا تو آپ ﷺ میرے ہاتھوں پر رونق افروز ہوئے اور کچھ گریہ کیا۔ میں نے سنا کہ کوئی کہہ رہا تھا: اللہ تعالیٰ آپ پر رحمتوں کی برسات کرے۔ حضرت شفاء فرماتی ہیں: اس وقت مجھ پر مشرق سے مغرب تک ساری زمین روشن ہوگئی حتی کہ میں نے شام کے بعض محلات دیکھ لیے۔ وہ بیان فرماتی ہیں کہ پھر میں نے آپ ﷺ کو لباس پہنایا اور بستر پر لٹا دیا، کچھ ہی لمحوں بعد مجھ پر تاریکی، رعب اور لرزہ طاری ہو گیا۔ پھر میری دائیں طرف روشنی ہوئی اور میں نے کسی کی آواز سنی: تم انہیں کہاں لے گئے تھے؟ اس نے جواب دیا: مغرب کی طرف۔ اب پھرمجھ پر بائیں طرف سے رعب و خوف طاری ہوا، پھر روشنی ہوئی اور میں نے کسی کی آواز سنی: تم انہیں کہاں لے گئے تھے؟ اس نے جواب دیا کہ مشرق کی طرف، اب ان کا ذکر وہاں سے کبھی ختم نہ ہوگا۔ حضرت شفاء فرماتی ہیں: یہ واقعہ ہمیشہ میرے دل میں تازہ رہا تا آنکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو بعثت سے سرفراز فرمایا اور میں سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں سے تھی۔‘‘

اسے امام ابونعیم نے روایت کیا ہے۔

38. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا طَالِبٍ یُحَدِّثُ أَنَّ آمِنَةَ بِنْتَ وَهْبٍ لَمَّا وَلَدَتِ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم جَائَهٗ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ، فَأَخَذَهٗ وَقَبَّلَهٗ، ثُمَّ دَفَعَهٗ إِلٰی أَبِي طَالِبٍ۔ فَقَالَ: هُوَ وَدِیْعَتِي عِنْدَکَ، لَیَکُوْنَنَّ لِاِبْنِي هٰذَا شَأْنٌ۔ ثُمَّ أَمَرَ فَنُحِرَتِ الْجَزَائِرُ، وَذُبِحَتِ الشَّاءُ، وَأُطْعِمَ أَهْلُ مَکَّةَ ثَـلَاثًا، ثُمَّ نُحِرَ فِي کُلِّ شِعَبٍ مِنْ شِعَابِ مَکَّةَ جَزُوْرًا، لَا یُمْنَعُ مِنْهُ إِنْسَانٌ وَلَا سَبُعٌ وَلَا طَائِرٌ۔ رَوَاهُ أَبُوْ نُعَیْمٍ.

أخرجه أبو نعیم في دلائل النبوة، 1/138، الرقم: 81.

’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابو طالب سے سنا۔ وہ بیان کرتے تھے: جب حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا نے حضور نبی اکرم ﷺ کو جنم دیا تو آپ ﷺ کے جدِ امجد حضرت عبد المطلب تشریف لائے اور آپ ﷺ کو اٹھایا، ماتھے پر بوسہ دیا، پھر حضرت ابو طالب کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا: یہ تمہارے پاس میری امانت ہے، میرے اس بیٹے کی بہت بڑی شان ہوگی۔ پھر حضرت عبد المطلب نے اونٹ اور بکریاں ذبح کروائیں اور تمام اہل مکہ کی تین دن تک ضیافت کی۔ پھر مکہ مکرمہ کی طرف آنے والے ہر راستہ پر اونٹ ذبح کروا کے رکھ دیے جن سے تمام انسانوں، جانوروں او رپرندوں کو گوشت لینے کی اجازت تھی۔‘‘

اسے امام ابونعیم نے روایت کیا ہے۔

39. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: فَکَانَ مِنْ دَلَالَاتِ حَمْلِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم أَنَّ کُلَّ دَابَّةٍ کَانَتْ لِقُرَیْشٍ نَطَقَتْ تِلْکَ اللَّیْلَةَ، وَقَالَتْ: حُمِلَ بِرَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم وَرَبِّ الْکَعْبَةِ، وَهُوَ أَمَانُ الدُّنْیَا وَسِرَاجُ أَهْلِهَا، وَلَمْ یَبْقَ کَاهِنَةٌ مِنْ قُرَیْشٍ وَلَا قَبِیْلَةٌ مِنْ قَبَائِلِ الْعَرَبِ إِلَّا حُجِبَتْ عَنْ صَاحِبَتِهَا، وَانْتُزِعَ عِلْمُ الْکَهَنَةِ، وَلَمْ یَکُنْ سَرِیْرُ مَلِکٍ مِنْ مُلُوْکِ الدُّنْیَا إِلَّا أَصْبَحَ مَنْکُوْسًا، وَالْمَلِکُ مُخْرَسًا لَا یَنْطِقُ یَوْمَهٗ ذَالِکَ، وَمَرَّتْ وُحُوْشُ الْمَشْرِقِ إِلٰی وُحُوْشِ الْمَغْرِبِ بِالْبِشَارَاتِ، وَکَذَالِکَ الْبِحَارُ یُبَشِّرُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا بِهٖ، فِي کُلِّ شَهْرٍ مِنْ شُهُوْرِهٖ، نِدَائٌ فِي الْأَرْضِ وَنِدَائٌ فِي السَّمَاءِ: أَنْ أَبْشِرُوْا فَقَدْ آنَ لِأَبِي الْقَاسِمِ أَنْ یَخْرُجَ إِلَی الْأَرْضِ مَیْمُوْنًا مُبَارَکًا.

قَالَتْ آمِنَةُ رضی الله عنها : فَسَمِعْتُ وَجَبَةً شَدِیْدَةً وَأَمْرًا عَظِیْمًا، فَهَالَنِي ذَالِکَ، وَذَالِکَ یَوْمُ الْاِثْنَیْنِ، فَرَأَیْتُ کَأَنَّ جَنَاحَ طَیْرٍ أَبْیَضَ قَدْ مَسَحَ عَلٰی فُؤَادِي فَذَهَبَ عَنِّي کُلُّ رُعْبٍ، وَکُلُّ فَزَعٍ وَوَجْعٍ کُنْتُ أَجِدُهٗ، ثُمَّ الْتَفَتُّ، فَإذَا أَنَا بِشُرْبَةٍ بَیْضَاءَ وَظَنَنْتُهَا لَبَنًا، وَکُنْتُ عَطْشٰی فَتَنَاوَلْتُهَا فَشَرِبْتُهَا، فَأَضَاءَ مِنِّي نُوْرٌ عَالٍ.

الوجبة: السقوط علی الأرض. والمراد به هنا: صوت السقوط.

قَالَتْ: فَرَأَیْتُ قِطْعَةً مِنَ الطَّیْرِ قَدْ أَقْبَلَتْ مِنْ حَیْثُ لَا أَشْعُرُ حَتّٰی غَطَّتْ حُجْرَتِي، مَنَاقِیْرُهَا مِنَ الزُّمُرُّدِ، وَأَجْنِحَتُهَا مِنَ الْیَوَاقِیْتِ، فَکُشِفَ لِي عَنْ بَصَرِي، فَأَبْصَرْتُ سَاعَتِي مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغارِبَهَا، وَرَأَیْتُ ثَـلَاثَ أَعْـلَامٍ مَضْرُوْبَاتٍ، عَلَمٌ فِي الْمَشْرِقِ، وَعَلَمٌ فِي الْمَغْرِبِ، وَعَلَمٌ عَلٰی ظَهْرِ الْکَعْبَةِ.

قَالَتْ: فَوَلَدْتُ مُحَمَّدًا صلی الله علیه وآله وسلم، فَلَمَّا خَرَجَ مِنْ بَطْنِي دُرْتُ فَنَظَرْتُ إِلَیْهِ، فَإِذَا أَنَا بِهٖ سَاجِدٌ قَدْ رَفَعَ إِصْبَعَیْهِ کَالْمُتَضَرِّعِ الْمُبْتَهِلِ، ثُمَّ رَأَیْتُ سَحَابَةً بَیْضَاءَ قَدْ أَقْبَلَتْ مِنَ السَّمَائِ تَنْزِلُ حَتّٰی غَشِیَتْهُ، فَغِیْبَ عَنْ وَجْهِي۔ فَسَمِعْتُ مُنَادِیًا یَقُوْلُ: طُوْفُوْا بِمُحَمَّدٍ صلی الله علیه وآله وسلم شَرْقَ الْأَرْضِ وَغَرْبِهَا وَأَدْخِلُوْهُ الْبِحَارَ کُلَّهَا لِیَعْرِفُوْهُ بِاسْمِهٖ وَنَعْتِهٖ وَصُوْرَتِهٖ وَیَعْلَمُوْا أَنَّهٗ سُمِّيَ فِیْهَا الْمَاحِي، لَا یَبْقٰی شَيئٌ مِنَ الشِّرْکِ إِلَّا مُحِيَ بِهٖ فِي زَمَنِهٖ، ثُمَّ تَجَلَّتْ عَنْهُ فِي أَسْرَعِ وَقْتٍ، فَإِذَا بِهٖ مُدْرَجٌ فِي ثَوْبِ صُوْفٍ أَبَیْضَ أَشَدَّ بَیَاضًا مِنَ اللَّبَنِ، وَتَحْتَهٗ حَرِیْرَةٌ خَضْرَائُ، قَدْ قُبِضَ عَلٰی ثَـلَاثِ مَفَاتِیْحَ مِنَ اللُّؤْلُؤِ الرَّطْبِ الْأَبْیَضِ، وَإِذَا قَائِلٌ یَقُوْلُ: قَبَضَ مُحَمَّدٌ عَلٰی مَفَاتِیْحِ النَّصْرِ، وَمَفَاتِیْحِ الرِّیْحِ، وَمَفَاتِیْحِ النُّـبُوَّةِ۔ رَوَاهُ أَبُوْ نُعَیْمٍ.

أخرجه أبو نعیم في دلائل النبوة، 2/610۔612، الرقم: 555، والسیوطي في الخصائص الکبری، 1/81۔83، والحلبي في إنسان العیون، 1/109، وابن کثیر في البدایة والنهایة، 6/298.

’’حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ رحمِ مادر میں تشریف لائے تو اس کی علامات یہ تھیں کہ اس رات قریش کا ہر جانور بول اٹھا اور یوں گویا ہوا: رسول الله ﷺ رحم مادر میں جلوہ گر ہو گئے ہیں اور ربِّ کعبہ کی قسم! وہ دنیا کے لیے امان اور اہلِ دنیا کے لیے چراغِ ہدایت ہیں، اس رات قریش کا ہر نجومی اور عاملِ جنات اور عرب کا ہر قبیلہ اپنے جنوں کی ملاقات سے روک دیا گیا ان کے سینوں سے علمِ کہانت چھین لیا گیا، دنیا کے ہر بادشاہ کا تخت اوندھا ہو گیا۔ تمام بادشاہوں کے لبوں پر مہرِ سکوت لگ گئی اور وہ پورا دن کلام نہ کر سکے۔ مشرق و مغرب کے جانور ایک دوسرے کے پاس جا کر اور سمندر کی مچھلیاں باہم مبارکبادیاں دے رہی تھیں۔ پھر ہر مہینے آسمان اور زمین میں ندا کی جاتی رہی: مبارک ہو! جب ابو القاسم ( ﷺ ) برکت و رحمت کے جلو میں ارض کی طرف مبعوث ہوں گے۔

حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے (کوئی شے گرنے کی) ایک زوردار آواز سنی جس سے میں ڈر گئی۔ یہ پیر کا دن تھا پھر میں نے دیکھا کہ جیسے کچھ پرندے ہیں جو میرے دل پر اپنے پَر مل رہے ہیں جس سے مجھ پر (چھایا) سارا رعب و خوف جاتا رہا اور درد جو پہلے محسوس ہو رہا تھا جاتا رہا۔ پھر میں نے دیکھا کہ میرے پاس ایک سفید سا شربت پڑا تھا، میں اسے دودھ سمجھی۔ میں چونکہ پیاس محسوس کر رہی تھی میں نے اسے اٹھا کر پی لیا تو مجھ سے ایک بلند تر نور جلوہ گر ہوا۔

آپ فرماتی ہیں: پھر میں نے دیکھا کہ پرندوں کا ایک غول آیا، میں نہیں جانتی وہ کدھر سے آیا۔ بہرحال انہوں نے میرے حجرے کو بھر دیا، ان کی چونچیں زمرد کی اور پَر یاقوت کے تھے۔ پھر میری نگاہ سے حجابات اٹھا دیے گئے اور میں نے دیکھا کہ تین جھنڈے دنیا پر لگے ہوئے ہیں: ایک مشرق میں، ایک مغرب میں اور ایک کعبہ کی چھت پر۔

آپ فرماتی ہیں: جب محمد مصطفی ( ﷺ ) میرے بطن سے جلوہ گر ہوئے تو میں نے پہلو بدل کر انہیں دیکھا کہ آپ ﷺ سجدے میں پڑے ہیں اور نہایت عاجزی اور انکساری سے دعا کرنے والے کی طرح آسمان کی طرف انگلی اٹھائے ہوئے ہیں۔ پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے آسمان سے ایک سفید بادل اترا اور اس نے آپ ﷺ کو ڈھانپ لیا۔ آپ ﷺ میری نگاہ سے اوجھل ہو گئے تو میں نے سنا کوئی پکارنے والا کہہ رہا تھا: محمد ( ﷺ ) کو زمین کے مشرق و مغرب میں ٹھہراؤ، انہیں تمام سمندروں میں لے جاؤ تاکہ تمام اہلِ جہاں ان کے نام، صفات اور حلیہ مبارک سے واقف ہو جائیں اور جان لیں کہ یہی وہ ہستی ہیں جن کا نام دنیا میں ماحی رکھا گیا ہے کیوں کہ آپ ﷺ کے دور میں تمام دنیا سے شرک مٹا دیا جائے گا۔ پھر کچھ ہی دیر بعد وہ بادل چھٹ گیا تو آپ ﷺ اُون کے ایک سفید کپڑے میں، جو دودھ سے بھی سفید تر تھا، لپٹے ہوئے پڑے تھے۔ آپ ﷺ کے نیچے سبز ریشم تھا اور آپ ﷺ نے ہاتھ میں تروتازہ اور سفید موتی سے بنی ہوئی تین چابیاں پکڑ رکھی تھیں اور کوئی کہنے والا کہہ رہا تھا کہ محمد مصطفی ( ﷺ ) نے فتح و نصرت، ہوا اور نبوت کی چابیوں پر قبضہ کر لیا۔‘‘ اسے امام ابونعیم نے روایت کیا ہے۔

وَقَالَ الإِمَامُ الْقُسْطَـلَّانِيُّ فِي الْمَوَاهِبِ: إِذَا قُلْنَا بِأَنَّهٗ عَلَیْهِ الصَّـلَاةُ وَالسَّلَامُ وُلِدَ لَیْـلًا، فَأَیُّمَا أَفْضَلُ: لَیْلَةُ الْقَدْرِ أَوْ لَیْلَةُ مَوْلِدِهٖ صلی الله علیه وآله وسلم؟ أُجِیْبُ: بِأَنَّ لَیْلَةَ مَوْلِدِهٖ عَلَیْهِ الصَّـلَاةُ وَالسَّـلَامُ أَفْضَلُ مِنْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ مِنْ وُجُوْہٍ ثَـلَاثَةٍ:

أَحَدُهَا: أَنَّ لَیْلَةَ الْمَوْلِدِ لَیْلَةُ ظُهُوْرِهٖ صلی الله علیه وآله وسلم، وَلَیْلَةُ الْقَدْرِ مُعْطَاةٌ لَهٗ، وَمَا شَرُفَ بِظُهُوْرِ ذَاتِ الْمُشَرِّفِ مِنْ أَجْلِهٖ أَشْرَفُ مِمَّا شَرُفَ بِسَبَبِ مَا أُعْطِیَهٗ، وَلَا نِزَاعَ فِي ذَالِکَ، فَکَانَتْ لَیْلَةُ الْمَوْلِدِ - بِهٰذَا الْاِعْتِبَارِ - أَفْضَلُ.

اَلثَّانِي: أَنَّ لَیْلَةَ الْقَدْرِ شَرُفَتْ بِنُزُوْلِ الْمَـلَائِکَةِ فِیْهَا، وَلَیْلَةُ الْمَوْلِدِ شَرُفَتْ بِظُهُوْرِهٖ صلی الله علیه وآله وسلم فِیْهَا۔ وَمِمَّنْ شَرُفَتْ بِهٖ لَیْلَةُ الْمَوْلِدِ أَفْضَلُ مِمَّنْ شَرُفَتْ بِهٖ لَیْلَةُ الْقَدْرِ، عَلَی الأَصَحِّ الْمُرْتَضٰی (أَي عِنْدَ جُمْهُوْرِ أَهْلِ السنة) فَتَکُوْنُ لَیْلَةُ الْمَوْلِدِ أَفْضَلُ.

اَلثَّالِثُ: لَیْلَةُ الْقَدْرِ وَقَعَ التَّفَضُّلُ فِیْهَا عَلٰی أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صلی الله علیه وآله وسلم، وَلَیْلَةُ الْمَوْلِدِ الشَّرِیْفِ وَقَعَ التَّفَضُّلُ فِیْهَا عَلٰی سَائِرِ الْمَوْجُوْدَاتِ، فَهُوَ الَّذِي بَعَثَهُ اللهُ تَعَالٰی رَحْمَةً لِلْعَالَمِیْنَ، فَعَمَّتْ بِهِ النِّعْمَةُ عَلٰی جَمِیْعِ الْخَـلَائِقِ، فَکَانَتْ لَیْلَةُ الْمَوْلِدِ أَعَمَّ نَفْعًا، فَکَانَتْ أَفْضَلَ مِنْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ بِهٰذَا الْاِعْتِبَارِ.

ذکره القسطلاني في المواهب اللدنیة بالمنح المحمدیة، 1/145، وعبد الحق الدہلوي في ما ثبت مِن السنة في أیّام السنة/59-60، والزرقاني في شرح المواهب اللدنیة بالمنح المحمدیة، 1/ 255-256، والنبهاني في جواهر البحار في فضائل النبي المختار صلی الله علیه وآله وسلم، 3/424.

’’امام قسطلانی ’المواہب اللدنیہ‘ میں فرماتے ہیں: جب ہم یہ کہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ رات کے وقت پیدا ہوئے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ شبِ میلادِ رسول ﷺ اَفضل ہے یا شبِ قدر؟ میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ آپ ﷺ کی میلاد کی رات تین وجوہ کی بناء پر شبِ قدر سے اَفضل ہے:

  1. آپ ﷺ کا ظہور شبِ میلاد میں ہوا جب کہ شبِ قدر آپ ﷺ کو عطا کی گئی، لہٰذا وہ رات جس کو آپ ﷺ کے ظہور کا شرف ملا اُس رات سے زیاد شرف والی ہوگی جسے اِس رات میں تشریف لانے والی ہستی کے سبب سے شرف ملا، اور اِس میں کوئی نزاع نہیں۔ لہٰذا اِس اِعتبار سے شبِ میلاد شبِ قدر سے افضل ہوئی۔
  2. اگر لیلۃ القدر کی عظمت اِس بناء پر ہے کہ اِس میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے تو شبِ ولادت کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے محبوب ﷺ کائنات میں جلوہ فرما ہوئے۔ جمہور اہلِ سنت کے قول کے مطابق شبِ میلاد کو جس ہستی (یعنی حضور ﷺ ) نے شرف بخشا وہ شبِ قدر کو شرف بخشنے والی ہستیوں (یعنی فرشتوں) سے کہیں بلند و برتر اور عظمت والی ہے۔ لہٰذا شبِ ولادت ہی افضل ہے۔
  3. شبِ قدر کے باعث اُمتِ محمدیہ کو فضیلت بخشی گئی اور شبِ میلاد کے ذریعے جمیع موجودات کو فضیلت سے نوازا گیا۔ پس حضور ﷺ ہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا، اور اِس طرح نعمتِ رحمت جمیع کائنات کے لیے عام کر دی گئی۔ لہٰذا شبِ ولادت نفع رسانی میں کہیں زیادہ ہے، اور اِس اعتبار سے بھی یہ لیلۃ القدر سے افضل ٹھہری۔‘‘

وَنَقَلَ الإِمَامُ الطَّحَاوِيُّ عَنْ بَعْضِ الشَّوَافِعِ: إِنَّ أَفْضَلَ اللَّیَالِي لَیْلَةُ مَوْلِدِهٖ صلی الله علیه وآله وسلم، ثُمَّ لَیْلَةُ الْقَدْرِ، ثُمَّ لَیْلَةُ الإِسْرَائِ وَالْمِعْرَاجِ، ثُمَّ لَیْلَةُ عَرَفَةَ، ثُمَّ لَیْلَةُ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ لَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، ثُمَّ لَیْلَةُ الْعِیْدِ.

ذکره ابن عابدین في رد المحتار علی در المختار علی تنویر الأبصار، 2/511، والشرواني في حاشیة علی تحفة المحتاج بشرح المنهاج، 2/405، والنبہاني في جواهر البحار في فضائل النبي المختار صلی الله علیه وآله وسلم، 3/426.

’’امام طحاوی بعض شوافع سے نقل کرتے ہیں: راتوں میں سے افضل ترین شبِ میلادِ رسول ﷺ ہے، پھر شبِ قدر، پھر شبِ اِسراء و معراج، پھر شبِ عرفہ، پھر شبِ جمعہ، پھر شعبان کی پندرہویں شب اور پھر شبِ عید ہے۔‘‘

وَقَالَ الإِمَامُ النَّبْهَانِيُّ فِي الأَنْوَارِ الْمُحَمَّدِیَّةِ (ص/28): وَلَیْلَةُ مَوْلِدِهٖ صلی الله علیه وآله وسلم أَفْضَلُ مِنْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ.

’’امام نبہانی اپنی مشہور تصنیف ’الأنوار المحمدیة من المواهب اللدنیة (ص: 28)‘ میں لکھتے ہیں: اور شبِ میلادِ رسول ﷺ شبِ قدر سے افضل ہے۔‘‘

اِسْتِعْمَالُ مُصْطَلَحِ ’الْمِیْـلَادِ‘ فِي کُتُبِ الْحَدِیْثِ وَالسِّیَرِ

وَقَدْ عَقَدَ الإِمَامُ التِّرْمِذِيُّ فِي سُنَنِهٖ بَابًا عُنْوَانُهٗ: مَا جَاءَ فِي مِیْـلَادِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم:

40. وَرَوَی التِّرْمِذِيُّ عَنْ قَیْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ رضی الله عنه قَالَ: وُلِدْتُ أَنَا وَرَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم عَامَ الْفِیْلِ قَالَ: وَسَأَلَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رضی الله عنه قُبَاثَ بْنَ أَشْیَمَ أَخَا بَنِي یَعْمَرَ بْنِ لَیْثٍ أَ أَنْتَ أَکْبَرُ أَمْ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم؟ فَقَالَ: رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم أَکْبَرُ مِنِّي وَأَنَا أَقْدَمُ مِنْهُ فِي الْمِیْـلَادِ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّحَاوِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ غَرِیْبٌ.

40: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب ما جاء في میلاد النبي صلی الله علیه وآله وسلم، 5/589، الرقم: 3619، وأخرج المحدثون هذا الحدیث بأسانیدهم منهم: الطحاوي في شرح مشکل الآثار، 15/217، الرقم: 5969، والحاکم في المستدرک، 3/724، الرقم: 6624، والطبراني في المعجم الکبیر، 19/37، الرقم: 75، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 1/407، الرقم: 566، 927، والطبري في تاریخ الأمم والملوک، 1/453، والبیهقي في دلائل النبوة، 1/77، وابن کثیر في البدایة والنهایة، 2/ 216-217.

کتبِ اَحادیث و سیر میں اِصطلاحِ میلاد کا اِستعمال

اِمام ترمذی نے اپنی السنن میں کتاب المناقب کا (دوسرا) باب ہی ما جاء في میلاد النبي ﷺ کے عنوان سے قائم کیا ہے۔ وہ روایت کرتے ہیں:

’’حضرت قیس بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ بیان فرماتے ہیں کہ میں اور رسول الله ﷺ عام الفیل میں پیدا ہوئے۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے بنی یعمر بن لیث کے بھائی قباث بن اشیم سے پوچھا: آپ بڑے ہیں یا رسول الله ﷺ بڑے ہیں؟ انہوں نے کہا: رسول الله ﷺ مجھ سے بڑے ہیں اور میں میلاد (یعنی پیدائش) میں اُن سے پہلے ہوں۔‘‘

اسے امام ترمذی، طحاوی، حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

وَذَکَرَ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ مَا نَصُّهٗ: وَطَلَبَتْ قُرَیْشٌ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم أَشَدَّ الطَّلَبِ حَتَّی انْتَهَوْا إِلٰی بَابِ الْغَارِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّ عَلَیْهِ الْعَنْکَبُوْتَ قَبْلَ مِیْـلَادِ مُحَمَّدٍ (ﷺ) فَانْصَرَفُوْا.

أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 1/ 228، والسیوطي في کفایة الطالب اللبیب في خصائص الحبیب، 1/ 305.

امام ابن سعد نے اَلطَّبَقَات میں روایت بیان کی ہے جس کے الفاظ ہیں:

’’قریش نے رسول الله ﷺ کو بہت شدت سے تلاش کیا یہاں تک کہ تلاش کرتے کرتے غارِ ثور کے دہانے تک پہنچ گئے۔ تو اُن میں سے بعض نے کہا: اِس کے منہ پر تو محمد ( ﷺ ) کے میلاد (پیدائش) سے بھی پہلے کا مکڑی کا بنا ہوا جالا ہے۔ سو (یہ دیکھ کر) وہ لوٹ گئے۔‘‘

وفي روایة: فَلَمَّا انْتَهَوْا إِلٰی فَمِ الْغَارِ، قَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ: اُدْخُلُو الْغَارَ۔ فَقَالَ أُمَیَّةُ بْنُ خَلَفٍ: وَمَا أَرَ بِکُمْ أَي حَاجَتُکُمْ إِلَی الْغَارِ؟ أَنَّ عَلَیْهِ لَعَنْکَبُوْتًا کَانَ قَبْلَ مِیْـلَادِ مُحَمَّدٍ (ﷺ).

ذکره الحلبي في إنسان العیون في سیرة الأمین المامون، 2/209، والکلاعي في الاکتفاء بما تضمنہ من مغازي رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم، 1/339، والسیوطي فيکفایة الطالب اللبیب في خصائص الحبیب، 1/306.

اِسی موضوع کی ایک روایت میں درجِ ذیل اَلفاظ ہیں:

’’جب قریشِ مکہ غار کے دہانہ پر پہنچے تو اُن میں سے کسی نے کہا: غار میں داخل ہو جاؤ۔ اِس پر اُمیہ بن خلف نے کہا: تم غار میں جا کر کیا کرو گے؟ اِس کے منہ پر تو محمد ( ﷺ ) کے میلاد (پیدائش) سے بھی قبل کا مکڑی کا جالہ لگا ہوا ہے۔‘‘

وَذَکَرَ ابْنُ سَعْدٍ فِي ’الطَّبَقَاتِ‘: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قال: کَانَ بَیْنَ مُوْسَی بْنِ عِمْرَانَ وَعِیْسَی بْنِ مَرْیَمَ علیهم السلام أَلْفُ سَنَةٍ وَتِسْعُمِائَةِ سَنَةٍ وَلَمْ تَکُنْ بَیْنَهُمَا فَتَرَةٌ، وَإِنَّهٗ أُرْسِلَ بَیْنَهُمَا أَلْفُ نَبِيٍّ مِنْ بَنِي إِسْرَائِیْلَ سِوٰی مَنْ أُرْسِلَ مِنْ غَیْرِهِمْ، وَکَانَ بَیْنَ مِیْـلَادِ عِیْسٰی وَالنَّبِيِّ علیهما السلام، خَمْسُ مِائَةِ سَنَةٍ وَتِسْعٌ وَّسِتُّوْنَ سَنَةً.

أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری،1/53، والطبري في تاریخ الأمم والملوک، 1/495، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 6/122.

’’امام ابن سعد اَلطَّبَقَاتِ میں روایت بیان کرتے ہیں: حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ بن عمران اور عیسیٰ بن مریم علیہم السلام کے درمیان 1900 سال کا عرصہ ہے اور اُن دونوں کے درمیان زمانہ فترت (جس میں وحی کا سلسلہ موقوف ہو جاتا ہے) نہیں گزرا۔ اُن دونوں کے اِس عرصہ نبوت کے درمیان بنی اسرائیل میں ہی ایک ہزار نبی بھیجے گئے، اُن کے علاوہ بھیجے جانے والے علیحدہ ہیں۔ میلادِ عیسیٰ اور حضور ﷺ (کی بعثت) کا درمیانی عرصہ 569 سال بنتا ہیں۔‘‘

وَقَالَ ابْنُ عَوْنٍ: قُتِلَ عَمَّارٌ، رَحِمَهُ اللهُ ، وَهُوَ ابْنُ إِحْدٰی وَتِسْعِیْنَ سَنَةً، وَکَانَ أَقْدَمَ فِي الْمِیْـلَادِ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم.

أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 3/259، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 43/471، والمزي في تهذیب الکمال في أسماء الرجال، 21/224.

’’امام ابن عون بیان فرماتے ہیں: حضرت عمار رضی اللہ عنہ 91 سال کی عمر میں شہید کیے گئے اور وہ میلاد میں حضور نبی اکرم ﷺ سے پہلے تھے۔‘‘

لفظِ میلاد کی اَصل (origin) کے بارے میں بعض ناقدین کی طرف سے سوال اٹھایا جاتا ہے کہ عالم عرب میں اس کی جگہ مولد کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور میلاد ایسا لفظ ہے جو صرف برصغیر پاک و ہند میں مستعمل ہے۔ یہ ایک غلط تصور ہے۔ دراصل اُردو ایک لشکری زبان ہے جس کے ذخیرۂ اَلفاظ میں عربی، فارسی اور دیگر زبانوں کے بے شمار الفاظ شامل ہیں۔ اُردو میں ولد، والد، والدہ، مولود، میلاد، مولد اور متولد تمام عربی الاصل الفاظ ہیں۔ میلاد عربی لفظ ہے جسے امام محمد بن سعد (168-230ھ)، امام ترمذی (210-279ھ)، امام ابن جریر طبری (224-310ھ)، حافظ ابن کثیر (701-774ھ)، امام سیوطی (849-911ھ) اور حافظ عسقلانی (773-852ھ) سمیت متعدد مفسرین، محدّثین، مؤرّخین اور اَصحابِ سیر نے اِستعمال کیا ہے۔

اَئمہ لغت نے بھی لفظ میلاد اپنی کتب میں استعمال کیا ہے۔

1۔ ابن منظور افریقی (630-711ھ) اور عبد القادر رازی حنفی (660ھ کے بعد فوت ہوئے)، مرتضی زبیدی (1145-1205ھ) اور علامہ جوہری فرماتے ہیں:

وَمِیْـلَادُ الرَّجُلِ: اِسْمُ الْوَقْتِ الَّذِي وُلِدَ فِیْهِ.

  1. ابن منظور، لسان العرب، 3: 468
  2. رازی، مختار الصحاح: 422
  3. زبیدی، تاج العروس من جواهر القاموس، 5: 327
  4. جوهری، الصحاح فی اللغة والعلوم، 2: 713

’’اور اِنسان کا میلاد اُس وقت کا نام ہے جس میں اُس کی پیدائش ہوتی ہے۔‘‘

2۔ لغت کی معروف کتب ’المعجم الوسیط (2: 1056)‘ اور ’تاج العروس من جواہر القاموس (5: 327)‘ میں ہے:

اَلْمِیْـلَادُ: وَقْتُ الْوِلَادَةِ.

’’میلاد سے مراد وقتِ ولادت ہے۔‘‘

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved