جشنِ میلاد النبی ﷺ منانا حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت باسعات کی تاریخی خوشی میں مسرت و شادمانی کا اظہار ہے اور صحیح بخاری کی روایت سے یہ بات واضح ہے کہ یہ ایسا مبارک عمل ہے جس سے ابو لہب جیسے کافر کو بھی فائدہ پہنچتا ہے حالانکہ اُس کی مذمت میں پوری سورت نازل ہوئی ہے۔ اگر ابو لہب جیسے کافر کو میلاد النبی ﷺ کی خوشی میں ہر پیر کو عذاب میں تخفیف نصیب ہوسکتی ہے تو اُس مومن مسلمان کی سعادت کا کیا ٹھکانا ہوگا جس کی زندگی میلاد النبی ﷺ کی خوشیاں منانے میں بسر ہوتی ہو۔
حضور سرورِ کائنات ﷺ خود بھی اپنے یومِ ولادت کی خوشی مناتے اور اِس کائنات میں اپنے ظہور وجود پر باگاہِ ربّ العزت میں سپاس گزار ہوتے ہوئے پیر کے دن روزہ رکھتے۔ آپ ﷺ کا اپنے یوم ولادت کی تعظیم و تکریم فرماتے ہوئے تحدیثِ نعمت کا شکر بجا لانا حکم خداوندی تھا کیوں کہ حضور نبی اکرم ﷺ ہی کے وجودِ مسعود کے تصدق اور وسیلہ سے ہر وجود کو سعادت ملی ہے۔
جشنِ میلاد النبی ﷺ کا عمل مسلمانوں کو حضور نبی اکرم ﷺ پر درود و سلام جیسے اَہم فرائض کی طرف رغبت دلاتا ہے اور قلب و نظر میں ذوق و شوق کی فضاء ہموار کرتا ہے۔ صلوٰۃ و سلام بذات خود شریعت میں بے پناہ نوازشات و برکات کا باعث ہے۔ اس لیے جمہور اُمت نے میلاد النبی ﷺ کا اِنعقاد مستحسن سمجھا۔
سیرتِ طیبہ کی اَہمیت اُجاگر کرنے اور جذبۂ محبتِ رسول ﷺ کے فروغ کے لیے محفلِ میلاد کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اِسی لیے جشنِ میلاد النبی ﷺ میں فضائل، شمائل، خصائل اور معجزاتِ سید المرسلین ﷺ کا تذکرہ اور اُسوۂ حسنہ کا بیان ہوتا ہے۔
جشنِ میلاد النبی ﷺ کا ایک اَہم مقصد محبت و قربِ رسول اللہ ﷺ کا حصول و فروغ اور آپ ﷺ کی ذاتِ گرامی سے مسلمانوں کے تعلق کا اِحیاء ہے اور یہ اِحیاء منشاءِ شریعت ہے۔ چونکہ حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اَقدس اُمتِ مسلمہ کے ایمان کا مرکز و محور اور حقیقی اَساس ہے۔ اُمتِ مسلمہ کی بقا و سلامتی اور ترقی کا راز ہی اِس اَمر پر منحصر ہے کہ وہ فقط ذاتِ مصطفی ﷺ کو اپنی جملہ عقیدتوں، محبتوں اور تمناؤں کا مرکز و محور گردانے اور یہ بات قطعی طور پر جان لے کہ آپ ﷺ کی نسبت کے اِستحکام اور واسطہ کے بغیر دنیا و آخرت میں کوئی عزت و سرفرازی نصیب نہیں ہو سکتی ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے فضائل و کمالات کی معرفت ایمان باللہ اور ایمان بالرسالت میں اِضافہ کا محرک بنتی ہے۔ آپ ﷺ کی تعظیم و توقیر ایمان کا پہلا بنیادی تقاضا ہے اور میلادِ مصطفی ﷺ کے سلسلہ میں مسرت و شادمانی کا اظہار کرنا، محافلِ ذکر و نعت کا انعقاد کرنا اور کھانے کا اہتمام کرنا اللہ تعالیٰ کے حضور شکر گزاری کے سب سے نمایاں مظاہر میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو ہمارے لیے مبعوث فرما کر ہمیں اپنے بے پایاں احسانات و عنایات اور نوازشات کا مستحق ٹھہرایا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس احسانِ عظیم کو جتلایا ہے۔
جس طرح ماہِ رمضان المبارک کو اللہ ربّ العزت نے قرآن حکیم کی عظمت و شان کے طفیل دیگر تمام مہینوں پر امتیاز عطا فرمایا ہے اُسی طرح ماہ ربیع الاوّل کے اِمتیاز اور اِنفرادیت کی وجہ بھی اس میں صاحبِ قرآن کی تشریف آوری ہے۔ یہ ماہِ مبارک حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت با سعادت کے صدقے جملہ مہینوں پر نمایاں فضیلت اور امتیاز کا حامل ہے۔ شبِ میلادِ رسول ﷺ لیلۃ القدر سے بھی افضل ہے۔ لیلۃ القدر میں نزولِ قرآن ہوا تو شبِ میلاد میں صاحبِ قرآن کی آمد ہوئی۔ لیلۃ القدر کی فضیلت اس لیے ہے کہ وہ نزولِ قرآن اور نزولِ ملائکہ کی رات ہے اور نزولِ قرآن قلبِ مصطفی ﷺ پر ہوا ہے۔ اگر حضور نبی اکرم ﷺ نہ ہوتے تو نہ قرآن ہوتا، نہ شبِ قدر ہوتی، نہ کوئی اور رات ہوتی۔ یہ ساری فضیلتیں اور عظمتیں میلادِ مصطفی ﷺ کا صدقہ ہیں۔
اس کائناتِ انسانی پر اللہ تعالیٰ نے بے حد و حساب احسانات و انعامات فرمائے اور اس نے ہمیں لاتعداد نعمتوں سے نوازا جن میں سے ہر نعمت دوسری سے بڑھ کر ہے لیکن اس نے کبھی کسی نعمت پر احسان نہیں جتلایا۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں لذت و توانائی سے بھرپور طرح طرح کے کھانے عطا کیے، پینے کے لیے خوش ذائقہ مختلف مشروبات دیے، دن رات کا ایک ایسا نظام الاوقات دیا جو سکون و آرام فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری ضروریاتِ زندگی کی کفالت کرتا ہے، سمندروں، پہاڑوں اور خلائے بسیط کو ہمارے لیے مسخر کر دیا، ہمیں اشرف المخلوقات بنایا اور ہمارے سر پر بزرگی و عظمت کا تاج رکھا؛ والدین، بہن، بھائی اور اولاد جیسی نعمتوں کی اَرزانی فرمائی الغرض اپنی ایسی ایسی عطاؤں اور نوازشوں سے فیض یاب کیا کہ ہم ان کا ادراک کرنے سے بھی قاصر ہیں لیکن ان سب کے باوجود اس نے بطور خاص ایک بھی نعمت کا احسان نہیں جتلایا۔ لیکن ایک نعمت ایسی تھی کہ خدائے بزرگ و برتر نے جب اسے اپنے حریمِ کبریائی سے نوعِ اِنسانی کی طرف بھیجا تو پوری کائناتِ نعمت میں صرف اس پر اپنا اِحسان جتلایا اور اس کا اظہار بھی عام پیرائے میں نہیں کیا بلکہ اہلِ ایمان کو اس کا احساس دلایا۔ مومنین سے روئے خطاب کر کے ارشاد فرمایا:
لَقَدْ مَنَّ اللهُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ.
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ اُن میں اُنہی میں سے عظمت والا رسول ( ﷺ ) بھیجا۔‘‘
(آل عمران، 3: 164)
اِسلام میں اللہ کی نعمتوں اور اُس کے فضل و کرم پر شکر بجا لانا تقاضائے عبودیت و بندگی ہے، لیکن قرآن نے ایک مقام پر اس کی جو حکمت بیان فرمائی ہے وہ خاصی معنی خیز ہے۔ ارشاد فرمایا:
لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌo
(إبراهیم، 14: 7)
’’اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اِضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقینا سخت ہے۔‘‘
اِس آیہ کریمہ کی رُو سے نعمتوں پر شکر بجا لانا مزید نعمتوں کے حصول کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔ پھر نعمتوں پر شکرانہ صرف اُمتِ محمدیہ پر ہی واجب نہیں بلکہ اُمم سابقہ کو بھی اس کا حکم دیا جاتا رہا۔ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 47 میں بنی اسرائیل کو وہ نعمت یاد دلائی گئی جس کی بدولت انہیں عالم پر فضیلت حاصل ہوگئی اور پھر اس قوم کو فرعونی دور میں ان پر ٹوٹنے والے ہول ناک عذاب کی طرف متوجہ کیا گیا جس سے رہائی ان کے لیے ایک عظیم نعمت کی صورت میں سامنے آئی۔ اِس کے بعد فرمایا:
وَاِذْ نَجَّیْنٰـکُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُونَکُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ.
(البقرة، 2: 49)
’’اور (اے آلِ یعقوب! اپنی قومی تاریخ کا وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب ہم نے تمہیں قومِ فرعون سے نجات بخشی جو تمہیں اِنتہائی سخت عذاب دیتے تھے۔‘‘
اِس قرآنی اِرشاد کی روشنی میں غلامی و محکومی کی زندگی سے آزادی بہت بڑی نعمت ہے جس پر شکر بجا لانا آنے والی نسلوں پر واجب ہے۔ اِس سے اِستدلال کرتے ہوئے ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ قومی آزادی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی ہوئی نعمتِ غیر مترقبہ سمجھیں اور اس پر شکرانہ ادا کریں۔ مذکورہ بالا آیت کریمہ اِس اَمر پر شاہدہے کہ نعمت کے شکرانے کے طور پر باقاعدگی کے ساتھ بالاہتمام خوشی و مسرت کا اظہار اس لیے بھی ضروری ہے کہ آئندہ نسلوں کو اِس نعمت کی قدر و قیمت اور اَہمیت سے آگاہی ہوتی رہے۔
یوں تو اِنسان سارا سال نعمتِ اِلٰہی پر خدا کی ذات کریمہ کا شکر ادا کرتا رہتا ہے لیکن جب گردشِ اَیام سے وہ دن دوبارہ آتا ہے جس میں من حیث القوم اس پر اللہ تعالیٰ کا کرم ہوا اور مذکورہ نعمت اس کے شریک حال ہوئی تو خوشی کی کیفیات خود بخود جشن کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ قرآن مجید میں جا بجا اس کا تذکرہ ہے کہ جب بنی اسرائیل کو فرعونی ظلم و ستم اور اس کی چیرہ دستیوں سے آزادی ملی اور وہ نیل کی طوفانی موجوں سے محفوظ ہو کر وادیٔ سینا میں پہنچے تو وہاں ان کا سامنا شدید گرمی اور تیز چلچلاتی دھوپ سے ہوا تو ان پر بادلوں کا سائبان کھڑا کر دیا گیا۔ یہ ایک ایسی نعمت تھی جس کا ذکر اس آیہ کریمہ میں کیا گیا ہے:
وَظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَ وَاَنْزَلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰی.
(البقرة، 2: 57)
’’اور (یاد کرو) جب (تم فرعون کے غرق ہونے کے بعد شام کو روانہ ہوئے اور وادیٔ تِیہ میں سرگرداں پھر رہے تھے تو) ہم نے تم پر بادل کا سایہ کیے رکھا اور ہم نے تم پر مَنّ و سلوٰی اتارا۔‘‘
قرآن مجید نے دیگر مقامات پر خاص خاص نعمتوں کا ذکر کرکے ان ایام کے حوالے سے انہیں یاد رکھنے کا حکم دیا ہے۔ پھر نعمتوں پر خوشی و مسرت کا اظہار کرنا سنت انبیاء علیھم السلام بھی ہے۔ حضرت عیسیٰ ں نے جب اپنی قوم کے لیے نعمتِ مائدہ طلب کی تو اپنے ربّ کے حضور یوں عرض گزار ہوئے:
رَبَّنَـآ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَـآئِدَةً مِّنَ السَّمَآءِ تَکُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّـاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا وَاٰیَةً مِّنْکَ.
’’اے ہمارے ربّ! ہم پر آسمان سے خوانِ (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے اترنے کا دن) ہمارے لیے عید (یعنی خوشی کا دن) ہوجائے ہمار ے اگلوں کے لیے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے لیے (بھی) اور (وہ خوان) تیری طرف سے (تیری قدرتِ کاملہ کی) نشانی ہو۔‘‘
(المائدة، 5: 114)
قرآن مجید نے اس آیہ کریمہ کے ذریعے اپنے نبی کے حوالے سے اُمتِ مسلمہ کو یہ تصور دیاہے کہ جس دن نعمتِ اِلٰہی کا نزول ہو اس دن جشن منانا شکرانۂ نعمت کی مستحسن صورت ہے۔ اِس آیت سے یہ مفہوم بھی مترشح ہے کہ کسی نعمت کے حصول پر خوشی وہی مناتے ہیں جن کے دل میں اپنے نبی کی محبت جاگزیں ہوتی ہے اور وہ اِس کے اِظہار میں نبی کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی کسی نعمت پر شکربجالانے کا ایک معروف طریقہ یہ بھی ہے کہ انسان حصولِ نعمت پر خوشی کا اظہار کرنے کے ساتھ اس کا دوسروں کے سامنے ذکر بھی کرتا رہے کہ یہ بھی شکرانۂ نعمت کی ایک صورت ہے اور ایسا کرنا قرآن حکیم کے اس ارشاد سے ثابت ہے:
وَاَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّکَ فَحَدِّثْo
’’اور اپنے رب کی نعمتوں کا (خوب) تذکرہ کریں۔‘‘
(الضحی، 93: 11)
اِس میں پہلے ذکرِ نعمت کا حکم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت کو دل وجان سے یاد رکھا جائے اور زبان سے اس کا ذکر کیا جائے لیکن یہ ذکر کسی اور کے لیے نہیںفقط اللہ تعالیٰ کے لیے ہو۔ اس کے بعد تحدیثِ نعمت کا حکم دیا کہ کھلے بندوں مخلوقِ خدا کے سامنے اس کو یوں بیان کیا جائے کہ نعمت کی اَہمیت لوگوں پر عیاں ہوجائے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ ذکر کا تعلق اللہ تعالیٰ سے اور تحدیثِ نعمت کا تعلق مخلوق سے ہے کیوں کہ اس کا زیادہ سے زیادہ لوگوں میں چرچا کیا جائے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا:
فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَ لَا تَکْفُرُوْنِo
(البقرة، 2: 152)
’’سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور (میری نعمتوں کا) اِنکار نہ کیا کرو۔‘‘
اس آیۂ کریمہ میں تلقین کی گئی ہے کہ خالی ذکر ہی نہ کرتے رہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر شکرانے کے ساتھ اس انداز میں کرو کہ مخلوقِ خدا میں اس کا خوب چرچا ہو۔ اس پر مستزاد اظہارِ تشکر کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ نعمت پر خوشی کا اظہار جشن اور عید کی صورت میں کیا جائے۔ اُممِ سابقہ بھی جس دن کوئی نعمت انہیں میسر آتی اس دن کو بطورِ عید مناتی تھیں۔ قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ ں کی اس دعا کا ذکر ہے جس میں وہ بارگاہِ اِلٰہی میں یوں ملتجی ہوتے ہیں:
رَبَّنَـآ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَـآئِدَةً مِّنَ السَّمَآءِ تَکُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّـاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا.
(المائدة، 5: 114)
’’اے ہمارے ربّ! ہم پر آسمان سے خوانِ (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے اترنے کا دن) ہمارے لیے عید (یعنی خوشی کا دن) ہوجائے ہمار ے اگلوں کے لیے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے لیے (بھی)۔‘‘
یہاں مائدہ جیسی عارضی نعمت پر عیدمنانے کا ذکرہے۔ عیسائی لوگ آج تک اتوار کے دن اس نعمت کے حصول پر بطورشکرانہ عید مناتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ کیا نزولِ مائدہ جیسی نعمت کی ولادت و بعثتِ مصطفی ﷺ سے کوئی نسبت ہو سکتی ہے؟ اس نعمتِ عظمیٰ پر تو مائدہ جیسی کروڑوں نعمتیں نثار کی جاسکتی ہیں۔
’صحیح بخاری‘ اور ’صحیح مسلم‘ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ متفق علیہ روایت موجود ہے کہ جب ایک یہودی نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ جس دن آیت - اَلْیَومَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ - نازل ہوئی اس دن کو بطور عید مناتے ہیں؟ اگرہماری تورات میں ایسی آیت اترتی تو ہم اسے ضرور یومِ عید بنا لیتے۔ اس کے جواب میں حضرت عمر ص نے فرمایا: ہم اس دن اور جگہ کو جہاں یہ آیت اتری تھی خوب پہچانتے ہیں۔ یہ آیت یومِ حج اور یومِ جمعۃ المبارک کو میدانِ عرفات میں اتری تھی اور ہمارے لیے یہ دونوں دن عید کے دن ہیں۔
اس پر سوال کیا جاسکتا ہے کہ اگر تکمیلِ دین کی آیت کے نزول کا دن بطورِ عید منانے کا جواز ہے تو جس دن خود محسنِ انسانیت ﷺ اس دنیامیں تشریف لائے اسے بطور عید میلاد کیوں نہیں منایا جاسکتا؟ یہی سوال فضیلتِ یومِ جمعہ کے باب میں اَربابِ فکر و نظر کو غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
رِوایات میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے اپنے میلاد کی خوشی میں بکرے ذبح کرکے ضیافت کا اہتمام فرمایا۔ حضرت انس ص کی روایت کے مطابق حضورنبی اکرم ﷺ نے بعد اَز بعثت اپنا عقیقہ کیا۔ اس پر امام سیوطی (849-911ھ) کا اِستدلال ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ کا عقیقہ آپ ﷺ کے دادا حضرت عبد المطلب آپ کی ولادت کے سات دن بعد کرچکے تھے اور عقیقہ زندگی میں صرف ایک بار کیاجاتاہے۔ اس لیے آپ ﷺ نے یہ ضیافت اپنے میلاد کے لیے دی تھی، عقیقہ کے لیے نہیں۔
کائنات میں حضور ﷺ سے بڑی نعمتِ اِلٰہیہ کا تصور بھی محال ہے۔ اس پر جو غیر معمولی خوشی اور سرور و اِنبساط کا اظہار کیا گیا اس کا کچھ اندازہ کتبِ سیر و تاریخ کے مطالعہ سے ہوتا ہے۔ ان کتابوں میں فضائل و شمائل اور خصائص کے حوالے سے بہت سی روایات ملتی ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے حبیب محمد مصطفی ﷺ کی ولادت مبارکہ پر خوشی منائی۔
روایات شاہد ہیں کہ ولادتِ مصطفی ﷺ کا پورا سال نادر الوقوع مظاہر اور محیر العقول واقعات کا سال تھا۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں کا نزول جاری رہا یہاں تک کہ وہ سعید ساعتیں جن کا صدیوں سے انتظار تھا گردشِ ماہ و سال کی کروٹیں بدلتے بدلتے اس لمحۂ منتظر میں سمٹ آئیں جس میں خالق کائنات کے بہترین شاہکار کو منصہ شہود پر بالآخر اپنے سرمدی حسن و جمال کے ساتھ جلوہ گر ہونا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کی دنیا میں آمد کے موقع پر اِس قدر چراغاں کیا کہ شرق تا غرب سارے آفاق روشن ہو گئے۔ متعدد کتب احادیث میں حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُن کی والدہ نے اُن سے بیان کیا: ’’جب ولادتِ نبوی ﷺ کا وقت آیا تو میں سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی۔ میں دیکھ رہی تھی کہ ستارے آسمان سے نیچے ڈھلک کر قریب ہو رہے ہیں یہاں تک کہ میں نے محسوس کیا کہ وہ میرے اوپر گرپڑیں گے۔ پھر جب آپ ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی تو سیدہ آمنہ سے ایسا نور نکلا جس سے پورا گھر جس میں ہم تھے اور حویلی جگمگ کرنے لگی اور مجھے ہر ایک شے میں نور ہی نور نظر آیا۔‘‘
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے بارگاہِ رِسالت مآب ﷺ میں عرض کیا: یا رسول اللہ ! آپ کی نبوتِ مبارکہ کی شروعات کیسے ہوئی؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا اور عیسیٰ کی بشارت ہوں۔ اور (میری ولادت کے وقت) میری والدہ ماجدہ نے دیکھا کہ اُن کے جسم اَطہر سے ایک نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے۔‘‘ (مسند احمد)
حضرت آمنہ اپنے عظیم نونہال کے واقعاتِ ولادت بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں: ’’جب سرورِ کائنات ﷺ کا ظہور ہوا تو ساتھ ہی ایسا نور نکلا جس سے شرق تا غرب سب آفاق روشن ہوگئے۔‘‘ (طبقات ابن سعد)
ایک روایت میں سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وقتِ ولادت اُن سے ایسا نور خارِج ہوا جس کی ضوء پاشیوں سے اُن کی نگاہوں پر شام میں بصریٰ کے محلات اور بازار روشن ہوگئے یہاں تک اُنہوں نے بصریٰ میں چلنے والے اونٹوں کی گردنیں بھی دیکھ لیں۔ (طبقات ابن سعد)
احادیث میں یوم عاشورہ کے حوالے سے جشنِ میلاد کو عید مسرت کے طور پر منانے پر محدثین نے استدلال کیا ہے۔ یوم عاشورہ کو یہودی مناتے ہیں اور یہ وہ دن ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے جبر و استبداد سے نجات ملی۔ اس طرح یہ دن ان کے لیے یوم فتح اور آزادی کا دن ہے جس میں وہ بطور شکرانہ روزہ رکھتے ہیں اور خوشی مناتے ہیں۔ متفق علیہ روایات میں ہے کہ ہجرت کے بعد جب حضور ﷺ نے یہود مدینہ کا یہ عمل دیکھا تو فرمایا: موسیٰ پر میرا حق نبی ہونے کے ناتے ان سے زیادہ ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے عاشورا کے دن اِظہارِ تشکر کے طور پر خود بھی روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ اس پر بھی بہت سی روایات ہیں جس سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ اگر یہود اپنے پیغمبر کی فتح اور اپنی آزادی کا دن جشن عید کے طور پر منا سکتے ہیں تو ہم مسلمانوں کو بدرجہ اولیٰ اس کا حق پہنچتا ہے کہ ہم حضور نبی رحمت ﷺ کی ولادت کا جشن مثالی جوش و خروش سے منائیں جو اللہ کا فضل اور رحمت بن کر پوری نسل انسانیت کو ہر قسم کے مظالم اور ناانصافیوں سے نجات دلانے کے لیے اس دنیا میں تشریف لائے۔
وَیَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰـلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْهِمْ.
(الأعراف، 7: 157)
’’اور اُن سے اُن کے بارِ گراں اور طوقِ (قیود) - جو اُن پر (نافرمانیوں کے باعث مسلط) تھے - ساقط فرماتے (اور اُنہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔‘‘
آخری بات یہ کہ ِاس کائناتِ اَرضی میں ایک مومن کے لیے سب سے بڑی خوشی اِس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ کا ماہِ ولادت آئے تو اسے یوں محسوس ہونے لگے کہ کائنات کی ساری خوشیاں ہیچ ہیں اور اس کے لیے میلادِ مصطفی ﷺ کی خوشی ہی حقیقی خوشی ہے۔ جس طرح اُمم سابقہ پر اس سے بدرجہ ہا کم تر احسان اور نعمت عطا ہونے کی صورت میں واجب کیا گیا تھا جب کہ ان امتوں پر جو نعمت ہوئی وہ عارضی اور وقتی تھی اس کے مقابلے میں جو دائمی اور اَبدی نعمتِ عظمیٰ حضور نبی اکرم ﷺ کے ظہورِ قدسی کی صورت میں اُمتِ مسلمہ پر ہوئی ہے اس کا تقاضا ہے کہ وہ بدرجہ اَتم سراپا تشکر و امتنان بن جائے اور اظہارِ خوشی و مسرت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے۔
قرآن مجید نے بڑے بلیغ انداز سے جملہ نوع انسانی کو اس نعمت اور فضل و رحمت کو یاد رکھنے کا حکم دیا ہے جو محسنِ انسانیت پیغمبر رحمت حضور نبی اکرم ﷺ کی صورت میں انہیں عطا ہوئی اور جس نے ان اندھیروں کو چاک کر دیا جو صدیوں سے شبِ تاریک کی طرح ان پر مسلط تھے اور نفرت و بغض کی وہ دیواریں گرا دیں جو انہیں قبیلوں اور گروہوں میں منقسم کیے ہوئے تھیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللهِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَفَّ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖ اِخْوَانًا.
’’اور اپنے اوپر (کی گئی) اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اُس نے تمہارے دلوں میں اُلفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہو گئے۔‘‘
(آل عمران، 3: 103)
ان ٹوٹے ہوئے دلوں کو پھر سے جوڑنا اور گروہوں میں بٹی ہوئی انسانیت کو رشتہ اُخوت و محبت میں پرو دینا اتنا بڑا واقعہ ہے جس کی کوئی نظیر تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔ لہٰذا میلادِ مصطفی ﷺ پر خوشی منانا اور شکرِ اِلٰہی بجا لانا اُمتِ مسلمہ پر سب خوشیوں سے بڑھ کر واجب کا درجہ رکھتا ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے اِس مجموعہ حدیث میں تاجدارِ کائنات ﷺ کی ولادت باسعادت کے واقعات اور اس پر اِظہارِ مسرت کے حوالے سے احادیث مبارکہ مع ترجمہ و تخریج اور ضروری شرح درج کی گئی ہیں۔ دعا ہے کہ یہ مجموعہ احادیث اَہل اِیمان کے دلوں میں محبت و عشق رسول کی ضیاء باریوں میں مزید اِضافہ کرے۔ (آمین بجاہِ سید المرسلین ﷺ )
(حافظ ظہیر اَحمد الاِسنادی)
رِیسرچ اسکالر، فریدِ ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved