Falsafa e Mi‘raj al-Nabi (PBUH)

فصل 1 :اثبات معجزہ اور عقل ناقص کا کردار

اِبتدائے آفرینش سے آج تک تاریخِ اِرتقائے اِنسانی اِس اَمر پر شاہد عادل ہے کہ اِس کرۂ اَرضی پر بسنے والی اَولادِ آدم نے مادّی اور رُوحانی دونوں دنیاؤں میں تحقیق و جستجو اور علم و عمل کے چراغوں کی روشنی میں حرفِ حق کی تلاش کا سفر ہمیشہ جاری رکھا ہے۔ ہر عہد کی اپنی ایک سچائی ہوتی ہے۔ ذہنِ اِنسانی ہر واقعہ اور ہر نظریہ کو اُس سچائی کی کسوٹی پر پرکھتا ہے اور قلب و نظر میں تیقّن کے چراغ جلا کر اِطمینان، سکون، اَمن، آسودگی اور عافیّت کے جواہر سے اپنے دامنِ آرزو کو سجاتا ہے۔ فاران کی چوٹیوں پر جب ہر عہد کی دانش کا آفتابِ لازوال طلوع ہوا تو دُنیا جہالت اور گمراہی کے اندھیروں کی دبیز تہہ میں لپٹی ہوئی تھی، شعور و آگہی کی ہر کرن غبارِ تشکیک کے تارِیک سمندر کا رِزق بن چکی تھی۔ اگر کہیں تفکر کے چراغ روشن بھی تھے تو وہ بھی فلسفیانہ مُوشگافیوں اور عقلِ عیار کی مَن مانی تاوِیلات کی گرد میں کچھ اِس طرح سے اَٹے ہوئے تھے کہ زِندگی کے آئینہ خانے کا ہر عکس اپنی شناخت سے محروم ہو چکا تھا اور ہر طرف مقصدیت سے محروم بے چہرہ لوگ ہجوم در ہجوم جنگل کی خوفناک تاریکی میں بھٹک رہے تھے۔

ظہورِ اِسلام کے وقت دُنیا سائنسی علوم سے یکسر نابلد تھی۔ یونانی فلسفہ ہی عقل کا معیار متصوّر ہوتا تھا۔ تفسیرِ حیاتِ اِنسانی فلسفے کی لوح پر رَقم تھی اور جملہ حقائق و واقعات کو فلسفے کے حوالے سے دیکھنے کا رواج تھا۔ چنانچہ اَوائل دَورِ اِسلام میں یونانی فلسفے سے متاثر سیرت نگار حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مُعجزات کو فلسفے کی روشنی میں حق ثابت کرتے نظر آتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دَورِ اِسلام کی اِبتدائی صدیوں میں مُعجزاتِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر جتنا بھی علمی کام ہوا اُس کے پس منظر میں یہی فلسفیانہ توجیہات کارفرما تھیں۔

آج کا دَور سائنس کا دَور ہے، جس میں سائنٹیفک اپروچ (Scientific Approach) ہر تحقیق کا بنیادی وصف قرار پائی ہے۔ آج کا کم پڑھا لکھا سادہ اِنسان جو سائنسی علوم سے براہِ راست اِس قدر شغف نہیں رکھتا، وہ بھی کم از کم سائنسی طریقِ کار سے آگاہ ضرور ہے۔ اُس کے اِطمینانِ قلب کے لئے بھی سائنس کو کسوٹی بنا کر حقائق کو پرکھنے کا عمل جاری رکھنا ضروری ہے۔ جدید ذہن محض سنی سنائی بات پر یقین نہیں رکھتا۔ ہمارے عہد کے بچے بھی جگنو کی روشنی کو دِن کے اُجالوں میں پرکھنے کی ضد کرتے ہیں۔ شعور و اِدراک کی یہ منزل صحت مند سوچ کے اَیوان کا بنیادی پتھر ہے۔

ہر دَور کے بنیادی تقاضے مختلف ہوتے ہیں

عہدِ جدید کا ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ سائنسی بنیادوں پر کام کرنے سے نتائج کس طرح درُست برآمد ہوتے ہیں۔ چنانچہ عصرِ حاضر کے اِنسان سے مخاطب ہونے اور اُسے اِسلامی عقائد و تعلیمات سے رُوشناس کرانے کے لئے کہ وہ ان عقائد و تعلیمات کو اپنے روز و شب کا عنوان بنالے، ’’جدید علمِ کلام‘‘ کی ضرورت ہے۔ موجودہ دَور ’’صغریٰ‘‘ اور ’’کبریٰ‘‘ کے مابین واقع ’’حدِ اَوسط‘‘ کو گِرا کر ’’نتیجے‘‘ تک پہنچنے کا دَور نہیں بلکہ اِس دَور میں تجربہ، مُشاہدہ، مفروضہ اور پھر بارہا تجربات سے حاصل شدہ تنظیمِ نتائج کے ذریعے ’’نظریئے‘‘ تک پہنچنے کا اُسلوب، حقیقی عقلی اُسلوب کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ ہر عہد کے بنیادی تقاضے مختلف ہوتے ہیں۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: ’’اپنے بچوں کو وہ تعلیم نہ دو جو تمہارے والدین نے تمہیں دی تھی، کیونکہ اُن کا زمانہ تمہارے زمانے سے مختلف ہے‘‘۔ یہ اِنتہائی ترقی پسندانہ رویّہ اِجتماعی سطح پر وُہی قومیں اپنا سکتی ہیں جو ستاروں پر کمندیں ڈالنے کے ہنر سے بہرہ ور ہوں اور جو آسمان کے کناروں سے نکل کر تسخیرِ کائنات کے سفر کو اپنا شِعار بنائیں۔

قرونِ وُسطیٰ میں یونانی فلسفے کی اِسلامی عقائد پر یلغار کے جواب میں اُس دَور کے علمائے کرام اور اَئمۂ عظام نے علمِ کلام کو فروغ دیا اور اس کے ذرِیعے ثابت کیا کہ اِسلام ہی وہ سچا دِین ہے جو ہر شعبۂ زِندگی میں اِنقلاب آفریں تبدیلیوں کا متمنّی ہے۔ آج کے زوال پذیر دَور میں اگر ہم عظمتِ رفتہ کی بازیابی کے آرزومند ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہم قوموں کی اِمامت کا فریضہ سراِنجام دیں اور ہر دستارِ فضیلت ہمارے برہنہ سروں کا مقدّر بنے تو ہمیں تبلیغِ دین اور فروغِ اِسلام کا سارا کام اَزسرِنو سائنسی بنیادوں پر مرتّب کر تے ہوئے ذہنِ جدید کو یہ باور کرانا ہو گا کہ بطور نظامِ حیات اِسلام کے نفاذ کے جتنے اِمکانات آج روشن ہیں شاید ماضی قریب میں اِس سے پہلے کبھی نہ تھے۔ ہمیں سائنسی بنیادوں پر اِسلام کی حقانیت کا پرچم بلند کرنا ہو گا۔ مُستشرقین کے بے تکے اِلزامات کا منہ بند کرنے کے لئے۔ ۔ ۔ فقط جذباتی سطح پر نہیں۔ ۔ ۔ عقلی اور فکری سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنا پس منظر اور پیش منظر روشنیوں سے تحریر کرنے کے لئے ’جدید علمِ کلام‘ کو اَپنانا ہو گا تاکہ ہم سائنسی اَندازِ فکر رکھنے والے آج کے جدید معاشروں کے ناآسودہ ذِہنوں کو آسودہ لمحوں کی بشارت دینے کا کارنامہ سرانجام دیتے ہوئے اُنہیں نظری اور فکری حوالوں سے یہ باور کرا سکیں کہ اِسلام ہی ہر دَور کے اِنسان کا فطری عقیدہ ہے، اور سکون سے محروم اِنسان کو اگر اَمن، عافیّت اور آسودگی کی تلاش ہے تو اُسے دہلیزِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھک جانا ہو گا کہ اِس دہلیز سے پھوٹنے والی روشنی کی ہر کرن مُعجزاتی تاثیر لئے ہوئے ہے جو اِنسان کے حال و قال دونوں کو لذّتِ آشنائی سے ہمکنار کرنے کی صلاحیّت رکھتی ہے۔

مُعجزہ ایک اَزلی صداقت کا نام ہے

یہاں اِس اَمر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ فلسفہ و سائنس مُعجزے کی حقیقت کو حیطۂ شعور میں لانے میں ممدّ و معاوِن تو ثابت ہو سکتے ہیں اور اِیمان کی پختگی کا باعث بھی بن سکتے ہیں لیکن انہیں مُعجزات کی تفہیم کی اَساس یا کلید قرار نہیں دیا جا سکتا، اِس لئے کہ مُعجزات جو ربِ کائنات کی قدرتِ مطلقہ کا مظہر ہوتے ہیں کسی فلسفیانہ اور سائنسی توجیہہ کے محتاج نہیں ہوتے۔ مُعجزہ ایک اَزلی صداقت کا نام ہے۔ یہ بات بھی ذِہن نشین رہنی چاہئے کہ مُعجزہ وہ حقیقت ہے جو عقلِ اِنسانی کی تمام تر پرواز سے بالاتر ہے۔ مُعجزہ خلافِ معمول اور خارِقِ عادت اَفعال میں سے ہے۔ اِس لئے کہ یہاں عقل مجبورِ محض ہو کر رہ جاتی ہے۔ تاجدارِ کائنات حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات تو سراپا مُعجزہ ہے۔ وہ اِس لئے بھی کہ قرآن اگر مُعجزہ ہے۔ ۔ ۔ اور یقیناً ہے۔ ۔ ۔ تو صاحبِ قرآن کی حیاتِ مقدسہ کا اُسلوب بھی تمام مُعجزاتی کمالات کی تفسیر و تعبیر ہے۔ جس طرح آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام نبیوں اور رسولوں کے جِلَو میں ممیز و ممتاز حیثیت کے مالک ہیں اور منصبِ اُولیٰ پر جلوہ اَفروز ہیں، بالکل اِسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مُعجزاتی نظم بھی اَنبیائے ماسبق کے مُعجزات پر حاوِی ہے اور اَنبیاء کے گروہِ پاکبازاں کا کوئی فرد بھی نبوت کے خصائص و کمالات میں اور عظمتِ مُعجزات میں دُرِیتیم، آمنہ کے لال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہمسر نہیں۔

اِنسانی عقل کا عجز

عقل کو کسی مسئلہ کی تفہیم کے لئے ایک خاص طریقِ کار میں سے گزرنا ہوتا ہے اور ایک خاص اُسلوب اپنانا ہوتا ہے۔ مثلاً جب تک کوئی چیز آنکھوں سے دکھائی نہ دے عقل اُس کے عدم اور وُجود میں اِمتیاز نہیں کر سکتی، زبان جب تک کسی چیز کو چکھ نہ لے عقل اُس کے ذائقے کی نوعیت کو پہچاننے سے معذور ہوتی ہے، ہاتھ جب تک کسی چیز کو چھو نہ لیں عقل اُس کی سختی یا نرمی کا تعین کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ اِنسان کو اپنی عقل پر بڑا ناز ہے، بھولا بھٹکا اِنسان یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ جو چیز عقل کے حیطۂ اِدراک میں نہ آ سکے وہ حقیقت ہی نہیں۔ ذہنِ اِنسانی آج بھی غبارِ تشکیک کی تاریکیوں میں گم ہے۔

یہ دَورِ تشکیک نیا نہیں بلکہ آج سے تین ہزار سال پہلے بھی اس کرۂ ارضی پر ایسے ہی ایک دَور کا غلبہ ہوا تھا، جو تاریخ کا متمدّن دَور کہلاتا ہے۔ مادّی حوالے سے اِنسان ترقی کی کئی منازِل طے کر چکا تھا۔ جمہوری شعور اِنسانی سوچوں کا مرکز و محور بنا ہوا تھا۔ یونان کی فضائیں علم و ہنر کی روشنی سے معمور تھیں لیکن فکری اور روحانی طور پر بانجھ ساعتوں کا قافلہ بھی زمین پر اُتر آیا تھا۔ فلاسفۂ یونان نے اپنی سوچ اور فہم و اِدراک کی تاریخ کا آغاز بھی اِسی نکتے سے کیا تھا کہ جس بات کا اِدراک عقل کرے وہ حقیقت، باقی سب فسانہ۔ فلسفہ کی تاریخ میں اُس دَور کو ’دَورِ اوّلیت‘ کہا جاتا ہے۔

یونانی فلاسفرز کے نزدیک کسی بھی چیز کی حقیقت کو جاننے کا ذریعہ محض عقل ہی ہے لیکن اُس کے ساتھ وہ اِس حقیقت سے بھی اِنکار نہ کر سکے کہ ہزاروں حقیقتیں ایسی بھی ہیں کہ جن کو عقلِ اِنسانی بھی سمجھنے سے قاصر ہے۔ اِس لئے کہ عقلِ اِنسانی کا اِنحصار حواسِ خمسہ پر ہے۔ گویا عقل کی بنیاد پر اُٹھائے گئے اَفکار و نظریات کی خود ہی نفی کر دی گئی کہ کچھ چیزیں ورائے عقل بھی ہوتی ہیں۔ بہرحال یہ دَور بنیادی طور پر ’حسّیت کا دَور‘ تھا کیونکہ علم کا ماخذ و منبع حواسِ خمسہ کو قرار دیا گیا تھا اور اِس بناء پر اُنہیں اپنے نقطۂ نظر کے کھوکھلے پن کا اِحساس ہو گیا۔ طویل مدت کے بعد ہی سہی۔ ۔ ۔ بہرحال اِس نقطۂ نظر سے اِنحراف کی راہ اپنانے کے سوا کوئی چارہ ہی نہ تھا۔ پھر اُس کے بعد ’دَورِ تشکیک‘ کا آغاز ہوا۔

فلسفہ کی تاریخ کا بیان ہمارا مقصود نہیں بلکہ بتانا یہ مقصود ہے کہ جس طرح آج کا اِنسان عقل کو فیصلہ کن سمجھتا ہے، آج سے تین ہزار سال پہلے کا اِنسان بھی عقل ہی کو فیصلہ کن گردانتا تھا۔ چنانچہ تاریخ کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ آج کے اِنسان کا نقطۂ نظر بھی حتمی نہیں کہ عقل جس حقیقت کا اِنکار کر دے وہ حقیقت ہی نہیں۔ انبیائے کرام علیھم السلام کے مُعجزات کو عقل کے پیمانے اور شعور کی کسوٹی پر پرکھنا اور کہتے پھرنا کہ چاند کسی ہستی کی اُنگلی کے اِشارے پر کیسے دو لخت ہو سکتا ہے! کسی کی مرضی پر سورج کیسے اُلٹی گردش پھر سکتا ہے! اور یہ کیسے ممکن ہے کہ کنکریوں میں جان پڑ جائے اور وہ بلند آواز سے کلمہ پڑھنا شروع کر دیں! کہاں کی دانائی ہے۔

جدید سائنس کے اِعترافات

اِس کائناتِ رنگ و بو میں ورائے عقل بھی بہت سے حقائق ہیں۔ عقل کو خود اپنے اس عجز کا احساس ہے کہ کائنات کی ہر حقیقت اُس کے حیطۂ اِدراک میں نہیں آ سکتی۔ سائنس اُن حقائق کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے لیکن کاملاً اُنہیں سمجھنے سے قاصر رہتی ہے۔ اِنسانی عقل حواسِ خمسہ کے ساتھ پرواز کرتی ہے۔ جہاں حواسِ خمسہ ساتھ چھوڑ دیں وہاں عقل کی پرواز موقوف ہو کر رہ جاتی ہے۔ حواس کے خام مواد کے بغیر عقل عضوِ معطل ہے۔ ایک پیدائشی بہرہ آواز کی حقیقت تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا، اِسی طرح پیدائشی نابینا رنگ اور روشنی کی آمیزش سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اَب یہ عقل کے لئے تدبر و تفکر کا مقام ہے کہ جس طرح چار حواس کی موجودگی میں پانچویں حِس سے متعلقہ محسوسات سے آگاہی ممکن نہیں بالکل اِسی طرح اِس کائناتِ ہست و بود میں ہزار ہا ایسی اَشیاء اور ایسے حقائق موجود ہیں جو ہمارے پانچوں حواس کے دائرۂ محسوسات سے ماوراء ہیں۔ کیا یہ ضروری ہے کہ تمام کائنات کی خِلقت اُسی بنیادی ڈھانچے کی مطابقت میں عمل میں لائی گئی ہو جس بنیادی ڈھانچے کے مطابق اِنسانی حواس کی تخلیق ہوئی ہے؟ کائنات کے تمام موجودات کو حواسِ خمسہ کی کسوٹی پر پرکھنا اَیسے ہی خلافِ عقل بات ہے جیسے کوئی نابینا اُسے چار حواس کے بل بوتے پر پرکھتا پھرے، وہ یقیناً صحیح نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا۔ پوری کائنات تو دُور کی بات ہے، اِس کرۂ ارضی پر بھی کئی جاندار ایسے ہیں جن کی تخلیق اُس بنیادی ڈھانچے سے بہت مختلف طریق پر ہوئی ہے اور وہ ایسی بے شمار محسوسات سے یکسر نابلد ہیں جو حضرتِ اِنسان کے دائرۂ اِختیار میں شامل ہیں۔ اِس ضمن میں چھپکلی اور سانپ کی بعض اَقسام خاص طور پر قابلِ ذِکر ہیں جو محض دو اَبعاد سے شناسا ہیں اور تیسرے بُعد (Dimention) کا وُجود اُن کے حواس کے مطابق ناپید ہے۔ اِس کے علاوہ بہت سے جانوروں کا مخصوص رنگوں کے لئے ’کلر بلائینڈ‘ ہونا بھی اِسی ضمن میں آتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بے شمار اَحوال، واقعات اور حقائق اِنسان کے حواسِ خمسہ کی گرفت سے بھی کلیتاً آزاد ہیں۔

جدید سائنسی علوم تو قدیم فلسفے کی طرح اِس بات سے بھی اِنکاری نہیں کہ حقیقت وہ ہے جس کی حواسِ خمسہ سے تصدیق و توثیق ممکن ہو۔ جدید سائنس خود ایسی سینکڑوں مخلوقات اور اَحوال و واقعات کی دریافت کا کارنامہ سراِنجام دے چکی ہے جنہیں صرف حواسِ خمسہ اور محض عقلِ اِنسانی کے بل بوتے پر جاننا ممکن نہ تھا۔ مثلاً ’خوردبین‘ (Microscope)، ’دُور بین‘ (Telescope) اور ’پست موجی سراغ رساں‘ (Microwave Detector) جیسے آلات نے اِنسانی فہم و اِدراک کو اِس قابل کر دیا ہے کہ وہ اَن دیکھی مخلوقات کو دیکھ سکے اور لاکھوں نوری سال کی مُسافت پر پیدا ہونے والے ’سیاہ شگافوں‘ (Black Holes) سے نکلنے والی ’ایکس ریز‘ کی بدولت اُن کا مُشاہدہ کر سکے۔ چنانچہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قدیم فلسفے کی نسبت جدید سائنس کو مُعجزات اور دیگر ماوراء العقل عقائد پر قائل کرنا نسبتاً آسان ہے۔ جس طرح آج سے چند صدیاں پیشتر آج کے سائنسی حقائق سے کوئی واقف نہ تھا بالکل اِسی طرح آج کی جدید سائنس بھی اگلی صدیوں میں پیش آمدہ حقائق کا اِدراک کرنے سے قاصر ہے۔ جدید سائنس نے دینِ اِسلام۔ ۔ ۔ جو درحقیقت دینِ فطرت ہے۔ ۔ ۔ کی بیان کردہ بہت سی حقیقتوں کو مِن و عن تسلیم کر لیا ہے۔ باقی چند ایک مقامات پر اگر اشکال ہے تو عین ممکن ہے کہ اِکیسویں صدی میں جو یقیناً اِسلام کی صدی ہے، اِسلام کے تمام عقائد و اَعمال کے مبنی بر فطرت اور مبنی بر حقیقت ہونے کی شہادت بھی اُس وقت کی جدید ترین سائنس دینے کا اِعزاز حاصل کرے۔ مغربی مفکرین اور مستشرقین نے اِسلام اور پیغمبرِ اِسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں فکری مغالطوں اور علمی بد دیانتیوں کے جو طُومار باندھے تھے، اب اُنہیں جدید سائنسی اِنکشافات کی روشنی میں اپنی مفروضوں پر مبنی آراء سے رُجوع کر لینا چاہئے کیونکہ جن حقائق کو اُن نام نہاد مفکرین نے تضحیک کا نشانہ بنا کر اِسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کی تھی اُنہیں جدید سائنس تسلیم کرتی جا رہی ہے۔ اُنہیں اپنی تحقیق اور اپنے گھر کی گواہی کو تسلیم کر لینا چاہئے اور ضد اور تعصّب کی دلدل سے نکل کر اَعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرنا چاہئے کہ یہی اَہلِ علم کا شیوہ ہے۔ یہ معاملہ تو تھا اِسلام کے عقائد و اَعمال کے فطری ہونے کا، اَب جہاں تک معاملہ ہے مُعجزات کا، تو مُعجزہ وہ حقیقت ہے جو کسی بھی دَور میں کاملاً فہمِ اِنسانی میں سمانے سے قاصر ہے۔ جدید سائنس کی روشنی میں مُعجزے کو جزواً سمجھنا اور اُس کی جزوی توجیہہ کرنا کسی حد تک ممکن ہے مگر کاملاً مُعجزے کا اِدراک تاقیامِ قیامت ممکن نہیں کیونکہ مُعجزہ اُن حقائق پر مشتمل ہوتا ہے جو حواسِ خمسہ اور عقلِ اِنسانی تو کجا اِنسان کے اِیجاد کردہ تمام تر سائنسی آلات کی حدود سے بھی ماوراء ہوتا ہے۔

سیاہ شگاف (Black Hole) کی کامل تفہیم کے بعد اگلی نسلوں کو اس کی بدولت وقت میں سفر کی ترغیب دینے والا آج کا اِنسان اپنی حیرت انگیز اِیجادات کی بدولت اِس کرۂ ارضی سے کروڑوں اور اربوں میل کی مسافت پر وُقوع پذیر ہونے والے کائناتی تغیرات کا نہ صرف مُشاہدہ کررہا ہے بلکہ اُن مُشاہدات کی روشنی میں اَہلِ زمین کی سلامتی اور بقاء کے منصوبے بھی بنا رہا ہے اور اَولادِ آدم کے لئے آسودہ لمحوں کی تلاش میں اپنے نظامِ شمسی سے بھی بہت دُور خلا کی بے اَنت وُسعتوں میں اِنسانی بستیاں آباد کرنے کا آرزو مند ہے۔ کائنات کی تسخیر کے اِس سفر میں اُسے جن تجربات و مُشاہدات سے گزرنا پڑا، وہ اُسے تخلیقِ آدم اور تخلیقِ کائنات کی اُن ابدی سچائیوں کے بہت قریب لے آئے ہیں جن کا ذِکر آخری اِلہامی صحیفے۔ ۔ ۔ قرآنِ مجید۔ ۔ ۔ میں ربِ کائنات نے کھول کھول کر بیان کیا ہے اور جنوں اور اِنسان کو آسمانوں کی حدود سے نکل کر مُشاہدۂ حق کی ترغیب دی ہے۔ جوں جوں اِنسان جدید سائنسی علوم میں مہارت حاصل کر رہا ہے توں توں قرآنِ حکیم میں درج سائنسی حقائق کی تصدیق و توثیق ہوتی جا رہی ہے اور آج کا سائنسدان اِس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو سائنسی اِنکشافات کئے تھے وہ اِلہام کے بغیر ممکن ہی نہیں، اِس لئے قرآن آسمانی ہدایت کی سچی کتاب اور پیغمبرِ اِسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس کائنات کے خالق و مالک کے سچے رسول ہیں۔

عادتِ اِلٰہیہ اور قدرتِ خداوندی کی تفہیم

جدید ترین کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور اِنٹرنیٹ سے لے کر مصنوعی سیاروں اور خلائی سٹیشنوں کے وسیع و عریض نظام تک، اِنسانی زِندگی میں تحقیق و جستجو کے اَن گِنَت چراغ روشن ہیں۔ اِنسان اِس تگ و دَو میں ہے کہ کائنات کے رازہائے سربستہ سے پردہ اُٹھا کر اُس کی تخلیق، مقصدِ تخلیق اور کائنات کے اِنجام سے آگاہی حاصل کرے اور پھر اِنسان کی تخلیق، اِس کائنات میں اُس کے کردار اور دِیگر حقائق کی تہہ تک پہنچ سکے۔ یہ سب کچھ ایک مربوط نظام کے تحت تکمیل پذیر ہے۔ اسے سادہ اور آسان اَلفاظ میں ’فطری نظام‘ کہتے ہیں جبکہ اِصطلاحاًً اسے ’تکوینی نظام‘ اور ’مکافاتِ عمل‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ اِس کائناتِ رنگ و بو میں صرف دو چیزوں کا ظہور ہوتا ہے:

  1. اللہ ربّ العزّت کی عادت
  2. اللہ ربّ العزّت کی قدرت

یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ خالقِ کائنات کی عادت بھی اُس کی قدرتِ کاملہ ہی کے تحت ہوتی ہے، تاہم اِصطلاحاًً اللہ کی عادت سے مُراد اللہ تعالیٰ کا تخلیق کردہ نظامِ فطرت یا تکوینی نظام ہے، جس کے تحت یہ کائناتِ پست و بالا مسلسل حرکت پذیر ہے۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ کائنات کا آغاز تکوینی نظام کے تحت ہوا اور بالآخر اِس کا اِنجام بھی اِس تکوینی نظام کے تحت ہو گا۔

’اللہ کی قدرت‘ سے مُراد تمام وہ اَفعال ہیں جو عام نظامِ فطرت سے ہٹ کر وُقوع پذیر ہوتے ہیں۔ اللہ ربّ العزّت کی عادت کا اِدراک و شعور اور اُس کے آغاز سے اِنجام تک تمام پہلوؤں کا اِحاطہ، عقلِ اِنسانی کی جہدِ مسلسل اور کوششِ بسیار کا ماحصل ہے۔ اِس کے برعکس اللہ کی قدرت کا اِدراک ذہنِ اِنسانی کے بس کی بات ہی نہیں۔ مثلاً اگر نر اور مادہ کے اِمتزاج سے بچہ پیدا ہو تو بات اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ اِنسانی عقل میں سما جائے گی کہ یہ تیسرا فرد کیسے تخلیق ہوا، اور اگر اَسباب و عِلل کے بغیر قدرتِ اِلٰہیہ کا ظہور ہو تو عقل اُس کا اِدراک حاصل کرنے سے قاصر رہے گی۔ مثلاً ربِ ذوالجلال محض خاک سے ابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام کی تخلیق فرما دے تو یہ اللہ ربّ العزّت کی قدرت کا ظہور ہے، جس کا اِدراک عقل سے ممکن نہیں۔ حضرت صالح علیہ السلام کے ڈنڈے سے پہاڑ کا پھٹنا اور اُونٹنی کا برآمد ہونا، حضرت مریم علیھا السلام کے پاس بند کمرے میں بے موسمی پھل آنا۔ ۔ ۔ یہ سب قدرتِ الٰہیہ کے نظارے ہیں۔ عقل اِن نظاروں کے اِدراک کی طاقت نہیں رکھتی۔ عقل کی پہنچ عادت کے مطابق ہوتی ہے اور جو چیز ماہیت کے لحاظ سے تو وُقوع پذیر ہو مگر عادت کے خلاف ہو، وہ عقل کی سمجھ میں نہیں آ سکتی۔ عقل ایک مقررہ اُصول، سبب اور نتیجے کے تحت عادت کے نظام کو سمجھتی ہے اور جب عادت کا نظام ہی بدل جائے اور خدا کو اپنی قدرت کا اِظہار مقصود ہو تو عقل اپنی تمام تر صلاحیتوں کے باوُجود معطل ہو کر رہ جاتی ہے۔ اِس لئے اَنبیائے کرام کے مُعجزات کو اپنی عقل کے پیمانے سے ماپنے والوں کو اِس بنیادی نکتہ سے متفق ہونا پڑے گا کہ مُعجزہ کہتے ہی اُس اَمر کو ہیں جو عقل کی جملہ صلاحیتوں کو عاجز کر دے۔ اگر وہ واقعتاً عقل کے دائرے میں آ جائے تو وہ مُعجزہ نہیں ہے اور اگر مُعجزہ، مُعجزہ نہ رہے تو نبی کے کمالات کا اِنکار ہو جاتا ہے اور یہ صورتحال قدرتِ الٰہیہ کو کسی صورت میں قبول نہیں۔

تمدّنی اور ثقافتی پس منظر میں مُعجزات کا ظہور

تاریخِ اَنبیاء و مُرسلین ہمیں بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر نبی اور ہررسول کو کوئی نہ کوئی ایسا مُعجزہ ضرور عطا فرماتا ہے جو اپنے عہد کے معروضی حالات اور تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے۔ تاریخ کے مختلف اَدوار میں عقلِ اِنسانی کسی نہ کسی فن کو اپنے عروج پر لے جا چکی ہوتی ہے، لہٰذا اُس نبی کے عہد کے لوگوں کے ذِہنی اور فکری اِرتقاء کو مدِنظر رکھتے ہوئے اُسے ایسا مُعجزہ عطا کیا جاتا ہے کہ اُس کے پورے دَور میں عقلِ اِنسانی کسی ایسی چیز کو اِیجاد نہ کر سکے جو اُس نبی یا رسول کے مُعجزہ کو (نعوذُ باللہ) مات کر دے یا اُس مُعجزے کی نفی کر دے۔ مُعجزے کے لئے ضروری ہے کہ وہ عقلِ اِنسانی کی ماحصل تمام تر اِیجادات سے آگے نکل جائے۔ مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دَورِ نبوت میں یونانی اَطبّاء حضرات عجیب عجیب بیماریوں کو دوَا دے کر دُور کر دیتے تھے۔ یہ کارنامہ عقلِ اِنسانی کا تھا۔ اِس فکری اور نظری پس منظر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہ مُعجزہ عطا ہوا کہ آپ مُردوں کو زِندہ کر دیتے، مادر زاد اندھوں کو قوّتِ بینائی عطا کر دیتے، کوڑیوں کو اِذنِ شفا سے ہمکنار کرتے۔ آپ کا پورا عہد اپنی تمام تر تہذیبی، تمدّنی اور ثقافتی ترقی کے باوجود اللہ کے نبی کے ایک بھی مُعجزے کا جواب پیش نہ کر سکا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عہدِ مبارکہ میں عقلِ اِنسانی نے جادُو جیسے فن کو اِیجاد کیا۔ قرآنِ حکیم میں فرعون کے دربار کا ذِکر تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ فرعون نے اللہ کے نبی کے مقابلے میں بڑے بڑے جادُوگروں کو اِکٹھا کیا اور اُنہیں اپنے کمالات دِکھانے کے لئے کہا۔ جادُوگر زمین پر اپنی رسیاں پھینکتے تووہ رسیاں سانپ بن جاتیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اُن جادُوگروں کے مقابلے میں اپنا عصا پھینکنے کا حکم ہوا اور یوں ’قدرتِ الٰہیہ‘ کے مظہر کے طور پر آپ کا عصا ایک اژدھا بن کر سارے سانپوں کو نگل گیا۔

مُعجزاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہمہ گیریت

سابقہ تمام اَنبیائے کرام علیھم السلام کی نبوّتیں چونکہ زمان و مکان کی پابند تھیں اِس لئے اُنہیں اُسی سطح کے محدُود مُعجزات عطا کئے گئے۔ جب نبی آخر الزّماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور ہوا تو گو پوری دُنیا جہالت کی تاریکیوں میں لپٹی ہوئی تھی، تاہم تمدّنی اور ثقافتی حوالوں سے آپ کاعہد ماضی سے یکسر مختلف تھا۔ یہ تاریخِ اِرتقائے نسلِ اِنسانی کا ایک ایسا دَور تھا جس میں عقلِ اِنسانی ترقی کی کئی منازل طے کر چکی تھی اور اُسے قیامت تک تعمیر و ترقی کے اَن گِنَت مراحل سے گزرنا تھا اور کائنات کی وُسعتوں میں بستیاں آباد کرنا تھیں۔ اِس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو مُعجزات عطا کئے گئے وہ بھی جدید سائنسی علوم کے ذریعہ خلاؤں میں اِنسان کی پیش رفت کو مدِّنظر رکھ کر عطا کئے گئے۔ اِس لئے اَب قیامت تک عقلِ اِنسانی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں جتنی بھی ترقی کرتی چلی جائے مُعجزۂ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وُسعتوں اور عظمتوں کا جزوی طور پر بھی جواب پیش کرنے سے معذور رہے گی۔

دَورِ نبوتِ مصطفوی میں عقلِ اِنسانی کا سب سے بڑا کارنامہ جو بیسویں صدی کے آخر تک منصہ شہود پر چھایا رہا، وہ خلا کی تسخیر ہے۔ آج کا اِنسان زمین کی پستیوں سے اُٹھ کر خلا کی بلندیوں کو پھلانگتا ہوا چاند کو مسخر کر چکا ہے اور اِکیسویں صدی میں مریخ اور دیگر سیارگانِ فلکی کی تسخیر کے لئے بھی کوشاں ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت ہونے والی نت نئی اِیجادات کے بعد عقلِ اِنسانی کے پاس مُعجزۂ معراجِ مصطفوی کو جھٹلانے کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہی۔ اگر آج ناقص العقل اِنسان کا مادّی اَسباب کی بناء پر خلاؤں کا سینہ چیرتے ہوئے چاند پر قدم جمانا اور اپنے نظامِ شمسی کی آخری بلندیوں کو چھونا ممکن ہے، تو مسببُ الاسباب کی عطا کردہ رُوحانی قوّت کے ذرِیعہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آسمانوں کی وُسعتوں کو چیرتے ہوئے سِدرۃُ المُنتہٰی اور قَابَ قَوسَین تک جا پہنچنا کیونکر ممکن نہیں! عقلِ اِنسانی اِیجادات کے جو اَنبار لگا رہی ہے، وہ مُعجزاتِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحت کی دلیل کا کوئی نہ کوئی راستہ ہے۔ مُعجزے کا پورا اِدراک عقلِ اِنسانی سے ممکن نہیں لیکن جب عقل اپنے کمال۔ ۔ ۔ یعنی اِقرارِ نقص۔ ۔ ۔ کی طرف بڑھی تو مُعجزے کی صحت کے قریب ہوتی چلی گئی۔ عقل جب تک عقلِ ناقص ہو۔ ۔ ۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمتوں کا اِعتراف کرنے سے قاصر رہتی ہے، لیکن جب اپنے نقص کا اِقرار و اِعتراف کر کے عقلِ کامل بن جاتی ہے تو عظمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی نہ کوئی گوشہ اُس پر بھی آشکار ہو جاتا ہے۔ علامہ اِقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اسی عقلِ ناقص کے بارے میں فرمایا تھا:

گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے، منزل نہیں ہے

جدید سائنسی علوم کی تمام تر سعی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی عادت کا راز تلاش کرنے میں پنہاں ہے۔ عادتِ الٰہیہ کے راز کی جستجو ہی سائنس کا مکمل دائرۂ عمل ہے۔ مُعجزہ اللہ کی قدرت کا اِظہار ہونے کے ناطے جدید سائنسی تحقیقات کی ساری جدوجہد اور ہر طرح کی کاوِش کے باوُجود اُس کے دائرۂ کار سے خارِج ہے۔ مُعجزے کی سطح کا آغاز ہی عادتِ الٰہیہ کی آخری سرحدوں سے ہوتا ہے اور سائنس تو ابھی عادتِ الٰہیہ کی اَبجد بھی نہیں سیکھ پائی، البتہ قاعدۂ مطابقت اور مماثلت کے تحت اللہ ربّ العزّت کی عادت کے بیان میں بعض اَوقات سائنس لاشعوری طور پر مُعجزے کی مؤیّد اور مُصدِّق ضرور بنتی چلی جاتی ہے۔ اِس حوالے سے تفصیلی بحث آگے آئے گی۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved