Wasa’it-e-Shar‘iyya

پیش لفظ

واسطہ کا لفظ عام طور پر دو الگ چیزوں کے درمیان رابطے اور تعلق کے لیے بولا جاتا ہے۔ اصطلاحِ شریعت میں بالعموم واسطہ اور وسیلہ دونوں مترادف الفاظ کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں لیکن اہلِ علم و فن نے دونوں کے درمیان کسی حد تک فرق رکھا ہے۔ وسیلہ کے معنی کسی چیز کی طرف رغبت کے ساتھ پہنچنے کے ہیں جبکہ واسطہ وہ رابطہ اور تعلق ہے جسے پہنچنے کے لیے وسیلہ بنایا جاتا ہے۔

دینی عقائد اور بالخصوص توحید کے باب میں ائمہ نے یہ دونوں اصطلاحات استعمال کی ہیں خصوصاً توّسل کے تصوّر اور اس کی توضیحات پر مستقل کتب بھی موجود ہیں۔ جبکہ توسّط پر پورا ذخیرہ علمی کھنگال لیں آپ کو دو یا تین صفحات سے زیادہ مواد نہیں ملے گا۔ چنانچہ عقیدۂ توحید کے سلسلہ دروس کے دوران حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی نے جن موضوعات پر پوری شرح و بسط اور مجتہدانہ ادراک کے ساتھ توضیحات فرمائیں، وسائط کا موضوع ان میں سے ایک ہے۔ واسطہ پر جس تفصیلی وضاحت اور صراحت کے ساتھ آپ نے روشنی ڈالی ہے یہ پوری علمی تاریخ میں صرف ان کا امتیاز اور اختصاص ہے۔ ضرورت چونکہ ایجاد کی ماں ہے اس لئے اس موضوع پر بھی تفصیلی بحث کا سبب وہ غلط فہمیاں ہیں جن کا وجود شاہد پہلے نہیں تھا۔

مشرق و مغرب میں اسلامی عقائد بالخصوص توحید و رسالت مناظروں اور بحث و مباحثہ کا جس طرح گذشتہ کئی دہائیوں سے موضوع بنے ہوئے ہیں پہلے نہیں تھے۔ علم الکلام کی بعض بحثیں اسلاف کے ہاں بھی متنازعہ رہی ہیں لیکن اس وقت کے معروضی حالات اور اب کے معروضی حالات میں زمین و آسمان کا فرق ہے، تب یہ تنازعات بالعموم علماء کی حد تک محدود رہتے تھے۔ حکومت و ریاست پر بھی چونکہ مسلمانوں کی اپنی دسترس تھی اس لئے مجموعی قوت و طاقت متاثر نہیں ہوتی تھی، جبکہ ہمارے اس دور میں تو باطل استعمار اسلام کی سیاسی قوت کے پھر سے اُبھرنے کے امکانات کو بھی ختم کرنا چاہتا ہے۔ اس لئے ان کلامی مباحث کی غلط تعبیر اور اس کے نتیجے میں مناقشے، مناظرے اور دنگا و فساد کو ہوا دینا اس کے مزعومہ ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ ہمارے بعض نادان طبقات زہر افشانی کے اس ابلیسی مشن کو اسلامی خدمت اور افضل جہاد سمجھ کر دن رات ایک کئے ہوئے ہیں حالانکہ حقوق و فرائض کی تعلیمات اور اعمال کی اصلاح کا میدان بہت وسیع ہے۔ پھر یہ سلسلہ اگر اسلامی ممالک اور مذہبی معاشروں تک محدود ہوتا تو کسی حد تک قابل فہم تھا، مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ چین کی مسلمان اقلیت ہو یا یورپ اور امریکہ میں مقیم محنت کش بھولے بھالے مسلمان ہر کہیں عقائد کی تفریق اور انتشارِ ذہنی کے اثرات پہنچ چکے ہیں۔ نوجوان نسل تو اس جھنجٹ میں پڑنے سے ویسے ہی گھبراتی ہے اور اسی وجہ سے ان کے دلوں میں علماء اسلام کا وہ ادب و احترام اب باقی نہیں جو کسی وقت اسلامی سوسائٹی کا امتیاز ہوتا تھا۔ چنانچہ عوام و خواص اور خواتین و حضرات کو جب تک تصویر کا صحیح رخ نہیں دکھایا جاتا وہ تشکیک کے کانٹوں سے اپنے خرمن ایمان کو سلامت نہیں رکھ سکتے۔ ’’سلسلہ عقیدہ توحید‘‘ کے جملہ موضوعات اسی اہم ترین عصری ضرورت کی تکمیل اور مرض لادوا کا علاج ہے۔

اس مختصر کتاب میں وسائط شرعیہ کی اقسام کے ساتھ واسطہ شرکیہ کو الگ بیان کردیا گیا ہے تاکہ مغالطوں کا سلسلہ بند ہوسکے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ذاتِ گرامی کو ایمان اور عقائد میں جس مرکزی حیثیت پر فائز فرمایا ہے اس کو پوری مرحلہ وار واضحیت کے ساتھ درج کیا گیا ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ اس کتاب کے مطالعہ سے اس باب میں پیدا شدہ تشکیک کا غبار کافی حد تک چھٹ جائے گا۔

(ڈاکٹر علی اَکبر قادری)
ڈائریکٹر، فریدِ ملّت رحمۃ اللہ علیہ  رِیسرچ اِنسٹی ٹیوٹ

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved