Huzur (PBUH) ka Sharaf-e-Nubuwwat awr Awwaliyyat-e-Khilqat

حضور ﷺ کی نسبی فضیلت و طہارت کا بیان

بَابٌٌ فِي کَرَامَۃِ اَصْلِہِ وَطَہَارَۃِ نَسَبِہِ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم
{حضور صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی نسبی فضیلت و طہارت کا بیان}

48 / 1. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ فِي رَکْبٍ مِنْ قُرَيْشٍ وَکَانُوْا تُجَّارًا بِالشَّامِ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مَادَّ فِيْهَا أَبَا سُفْيَانَ وَکُفَّارَ قُرَيْشٍ، فَأَتَوْهُ وَهُمْ بِإِيْلِيَاءَ، فَدَعَاهُمْ فِي مَجْلِسِهِ، وَحَوْلَهُ عُظَمَاءُ الرُّوْمِ، ثُمَّ دَعَاهُمْ وَدَعَا بِتَرْجُمَانِهِ، فَقَالَ : أَيُّکُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا بِهَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعَمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ؟ فَقَالَ أَبُوْ سُفْيَانَ : فَقُلْتُ : أَنَا أَقْرَبُهُمْ نَسَبًا، فَقَالَ : أَدْنُوْهُ مِنِّي وَقَرِّبُوْا أَصْحَابَهُ، فَاجْعَلُوْهُمْ عِنْدَ ظَهْرِهِ، ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ : قُلْ لَهُمْ إِنِّي سَائِلٌ هَذَا عَنْ هَذَا الرَّجُلِ، فَإِنْ کَذَبَنِي، فَکَذِّبُوْهُ، فَوَاﷲِ، لَوْ لاَ الْحَيَاءُ مِنْ أَنْ يَأْثِرُوْا عَلَيَّ کَذِبًا لَکَذَبْتُ عَنْهُ، ثُمَّ کَانَ أَوَّلَ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ أَنْ قَالَ : کَيْفَ نَسَبُهُ فِيْکُمْ؟ قُلْتُ : هُوَ فِيْنَا ذُوْ نَسَبٍ… فَقَالَ لِلتَّرْجُمَانِ قُلْ لَهُ : سَأَلْتُکَ عَنْ نَسَبِهِ فَذَکَرْتَ : أَنَّهُ فِيْکُمْ ذُوْ نَسَبٍ، فَکَذَلِکَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي نَسَبِ قَوْمِهَا… الحديث. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.

48 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : بدء الوحي، باب : کيف کان بدء الوحي إلی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، 1 / 7، الرقم : 7، وفي کتاب : الجهاد والسير، باب : دعاء النبي صلی الله عليه وآله وسلم الناس إلی الإسلام والنبوة، 3 / 1074، الرقم : 2782، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 309، الرقم : 11064، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 262، الرقم : 2370، وأبو يعلی في المسند، 5 / 7، الرقم : 2617، والطبراني في المعجم الکبير، 8 / 16، 20، الرقم : 7270، 7272، وابن منده في الإيمان، 1 / 288، الرقم : 143، وأبو عوانة في المسند، 4 / 268، الرقم : 6727، والبيهقي في السنن الکبری، 9 / 177، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2 / 174، وفي البداية والنهاية، 2 / 204.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ انہیں ابو سفیان بن حرب نے بتایا کہ انہیں ہرقل (شاہ روم) نے قریش کی ایک جماعت کے ساتھ اپنے دربار میں بلایا جب کہ وہ شام میں بغرضِ تجارت موجود تھے۔ اس زمانے میں جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے ابو سفیان اور کفارِ قریش سے معاہدہ امن (صلح حدیبیہ) کیا ہوا تھا۔ یہ لوگ ہرقل کے پاس پہنچے اور ہرقل مع اپنی جماعت کے ایلیا (بیت المقدس) میں تھا۔ ہرقل نے ان لوگوں کو اپنے دربار میں طلب کیا، اس کے اردگرد عمائدین روم بیٹھے تھے، اس نے انہیں بلایا اور پھر اپنے ترجمان کو بھی بلایا اور کہا : تم میں سے بلحاظ نسب کون اس شخص سے زیادہ قریب ہے جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے؟ ابو سفیان نے کہا : میں نسبی لحاظ سے ان کے زیادہ قریب ہوں۔ اس نے کہا : اسے میرے قریب کر دو اور ان کے ساتھیوں کو اس کے قریب اس کی پشت کے پیچھے بٹھا دو۔ پھر اس نے اپنے ترجمان سے کہا : ان کے ساتھیوں سے کہو میں اس سے اس نبوت کے دعویدار شخص کے متعلق پوچھنے لگا ہوں، اگریہ غلط بیانی کرے تو تم اس کی تکذیب کر دینا۔ (ابو سفیان نے کہا) خدا کی قسم! اگر مجھے اس بات کی شرم نہ ہوتی کہ وہ (یعنی میرے ساتھی) بعد میں لوگوں سے میرے جھوٹ بیان کریں گے تو میں حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے بارے میں ضرور جھوٹ بولتا پھر اس نے سب سے پہلے حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے متعلق مجھ سے جو بات پوچھی وہ یہ تھی کہ تم میں اس شخص (یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) کا مقامِ نسب کیسا ہے؟ میں نے کہا : وہ ہم میں سے نہایت عالی نسب ہیں۔ ۔ ۔ اس نے ترجمان سے کہا : ان سے کہو میں نے تم سے اس کے نسب کے متعلق پوچھا تو تم نے بتایا کہ وہ تم میں نہایت عالی نسب ہیں اور اسی طرح تمام رسولوں کی (نشانی یہ ہے) کہ وہ اپنی قوم کے ایسے ہی (سب سے اعلیٰ) نسب میں مبعوث کیے جاتے ہیں۔ (آگے طویل حديث ہے۔ )‘‘

اس حديث کو امام بخاری، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔

49 / 2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : بُعِثْتُ مِنْ خَيْرِ قُرُوْنِ بَنِي آدَمَ قَرْنًا فَقَرْنًا، حَتَّی کُنْتُ مِنَ الْقَرْنِ الَّذِي کُنْتُ فِيْهِ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ.

49 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : صفة النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 3 / 1305، الرقم : 3364، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 373، الرقم : 8844، 9381، وأبو يعلی في المسند، 11 / 431، الرقم : 6553، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 139، الرقم : 1392، وفي دلائل النبوة، 1 / 175، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 24، وابن حبان في طبقات المحدثين بأصبهان، 4 / 275، والقاضي عياض في الشفا، 1 / 125، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 43 / 95، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2 / 174، وفي البداية والنهاية، 2 / 256، والقيسراني في تذکرة الحفاظ، 4 / 1254.

’’حضرت ابو ہریرہ رضي اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے نوعِ انسانی کے بہترین زمانہ میں مبعوث کیا گیا۔ زمانوں پر زمانے گزرتے رہے یہاں تک کہ مجھے اس زمانہ میں رکھا گیا جس میں، میں اب موجود ہوں۔‘‘

اس حديث کو امام بخاری اور احمد نے روایت کیا ہے۔

50 / 3. عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ رضي اﷲ عنه يَقُوْلُ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : إِنَّ اﷲَ اصْطَفَی کِنَانَةَ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيْلَ، وَاصْطَفَی قُرَيْشًا مِنْ کِنَانَةَ، وَاصْطَفَی مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي هَاشِمٍ، وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِِذِيُّ.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

50 : أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : فضل نسب النبی صلی الله عليه وآله وسلم، 4 / 1782، الرقم : 2276، والترمذی فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : باب : ما جاء فی فضل النبی صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 583، الرقم : 3605، وابن حبان فی الصحيح، 14 / 135، الرقم : 6242، وأحمد بن حنبل فی المسند، 4 / 107، وابن أبي شيبة فی المصنف، 6 / 317، الرقم : 31731، وأبو يعلی فی المسند، 13 / 469، الرقم : 7485، والبيهقی فی السنن الکبری، 6 / 365، الرقم : 12852، 3542، وفی شعب الإيمان، 2 / 139، الرقم : 1391، وفي دلائل النبوة، 1 / 165، والطبرانی فی المعجم الکبير، 22 / 66، الرقم : 161، واللالکائي فی اعتقاد أهل السنة، 4 / 751، الرقم : 1400، والقاضي عياض في الشفا، 1 / 126.

’’حضرت واثلہ بن اسقع رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اولادِ اسماعیل عليہم السلام سے بنی کنانہ کو منتخب کیا اور اولادِ کنانہ میں سے قریش کو منتخب کیا اور قریش میں سے بنی ہاشم کو منتخب کیا اور بنی ہاشم میں سے مجھے شرفِ انتخاب بخشا۔‘‘

اس حديث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حديث حسن ہے۔

51 / 4. عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ رضي اﷲ عنه قَالَ : جَاءَ الْعَبَّاسُ إِلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَکَأَنَّهُ سَمِعَ شَيْئًا‘ فَقَامَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم عَلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ : مَنْ أَنَا؟ فَقَالُوْا : أَنْتَ رَسُوْلُ اﷲِ عَلَيْکَ السَّلَامُ، قَالَ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، إِنَّ اﷲَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ فِرْقَةً‘ ثُمَّ جَعَلَهُمْ فِرْقَتَيْنِ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ فِرْقَةً‘ ثُمَّ جَعَلَهُمْ قَبَائِلَ، فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ قَبِيْلَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ بُيُوْتًا فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ بَيْتًا وَخَيْرِهِمْ نَسَبًا.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ.
وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

51 : أخرجه الترمذی فی السنن، کتاب : الدعوات عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : (99)، 5 / 543، الرقم : 3532، وأحمد بن حنبل فی المسند، 1 / 210، الرقم : 1788 والبيهقي في دلائل النبوة، 1 / 149، والديلمي فيمسند الفردوس، 1 / 41، الرقم : 95، والحسيني في البيان والتعريف، 1 / 178، الرقم : 466، والهندي في کنز العمال، 11 / 415، الرقم : 31950، والقاضي عياض في الشفا، 1 / 126.

’’حضرت مطلب بن ابی وداعہ رضي اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عباس رضي اﷲ عنہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ایسا لگ رہا تھا گویا کہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے (اس وقت کافروں سے) کوئی ناگوار بات سنی تھی (اور آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم اس وقت جلال کی حالت میں تھے، پس واقعہ پر مطلع ہو کر) حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا : میں کون ہوں؟ صحابہ نے عرض کیا : آپ پر سلامتی ہو، آپ رسولِ خدا ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں (رسولِ خدا تو ہوں ہی اس کے علاوہ نسبًا میں) محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب ہوں۔ جب خدا نے مخلوق کو پیدا کیا تومجھے بہترین خلق (یعنی انسانوں) میں پیدا کیا‘ پھر مخلوق کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا (یعنی عرب و عجم)‘ تو مجھے بہترین طبقہ (یعنی عرب) میں رکھا۔ پھر ان کے مختلف قبائل بنائے تو مجھے بہترین قبیلہ (یعنی قریش) میں پیدا کیا، پھر ان کے گھرانے بنائے تو مجھے (ان میں سے) بہترین گھرانہ میں پیدا کیا اور ان میں سے بہترین نسب والا بنایا، (اس لئے میں ذاتی شرف اور حسب و نسب کے لحاظ سے تمام مخلوق سے افضل ہوں)۔‘‘

اس حديث کو امام ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے، نیز امام ابو عیسی نے فرمایا کہ یہ حديث حسن ہے۔

52 / 5. عَنْ عَائِشَةَ رضي اللّٰه عنها عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ جِبْرِيْلَ عليهم السلام قَالَ : قَلَّبْتُ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا فَلَمْ أَجِدْ رَجُـلًا أَفْضَلَ مِنْ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم، وَلَمْ أَرَ بَيْتًا أَفْضَلَ مِنْ بَيْتِ بَنِي هَاشِمٍ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.

52 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 237، الرقم : 6285، والبيهقي في دلائل النبوة، 1 / 176، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 632، الرقم : 1494، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 628، الرقم : 1073، واللالکائي فی اعتقاد أهل السنة، 4 / 752، الرقم : 1402، والديلمي في مسند الفردوس، 3 / 187، الرقم : 4516، والخطيب في وسيلة الإسلام بالنبي عليه الصلاة والسلام، 1 / 140، ومحب الدين الطبري في الذرية الطاهرة، 1 / 122، وابن کثير في البداية والنهاية، 2 / 257، وفي تفسير القرآن العظيم، 2 / 174، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 66، والمناوي في فيض القدير، 4 / 499، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 8 / 217 .

’’ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حضرت جبریل عليہم السلام نے (خدمت اقدس میں حاضر ہو کر) عرض کیا : (یا رسول اللہ!) میں نے تمام زمین کے اطراف و اکناف اور گوشہ گوشہ چھان مارا، مگر نہ تو میں نے محمد مصطفی صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے بہتر کسی کو پایا اور نہ ہی میں نے بنو ہاشم کے گھرانہ سے بڑھ کر بہتر کسی گھرانے کو دیکھا۔‘‘

اس حديث کو امام احمد، طبرانی، بیہقی اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔

53 / 6. عَنْ خُرَيْمِ بْنِ أَوْسِ بْنِ حَارِثَةَ بْنِ لَامٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : کُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ لَهُ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي اﷲ عنهما : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنِّي أُرِيْدُ أَنْ أَمْدَحَکَ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : هَاتِ لَا يَفْضُضِ اﷲُ فَاکَ فَأَنْشَأَ الْعَبَّاسُص يَقُوْلُ :

وَأَنْتَ لَمَّا وُلِدْتَ أَشْرَقَتِ
الْأَرْضُ وَضَائَتْ بِنُوْرِکَ الْأُفُقُ

فَنَحْنُ فِي الضِّيَائِ وَفِي
النُّوْرِ وَسُبُلُ الرَّشَادِ نَخْتَرِقُ

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْحَاکِمُ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ.

53 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 4 / 213، الرقم : 4167، والحاکم في المستدرک، 3 / 369، الرقم : 5417، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 1 / 364، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 102، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 53، وابن عبد البر في الاستيعاب، 2 / 447، الرقم : 664، والعسقلاني في الإصابة، 2 / 274، الرقم : 2247، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 217، والخطابي في إصلاح غلط المحدثين، 1 / 101، الرقم : 57، وابن قدامة في المغني، 10 / 176، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 66، وابن کثير في البداية والنهاية (السيرة)، 2 / 258، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 13 / 146، والحلبي في السيرة، 1 / 92.

’’حضرت خریم بن اوس بن حارثہ بن لام رضي اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں موجود تھے، حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اﷲ عنہما نے آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : یا رسول اﷲ! میں آپ کی مدح و نعت پڑھنا چاہتا ہوں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لاؤ مجھے سناؤ اﷲ تعالیٰ تمہارے دانت صحيح و سالم رکھے (یعنی تم اسی طرح کا عمدہ کلام پڑھتے رہو) تو حضرت عباس رضي اﷲ عنہ نے یہ پڑھنا شروع کیا :

اور آپ وہ ذات ہیں کہ جب آپ کی ولادت ہوئی تو ساری زمین چمک اٹھی اور آپ کے نور سے اُفقِ عالم روشن ہو گیا پس ہم ہیں اور ہدایت کے راستے ہیں اور ہم آپ کی عطا کردہ روشنی اور آپ ہی کے نور میں ان (ہدایت کی راہوں) پر گامزن ہیں۔‘‘

اس حديث کو امام طبرانی، حاکم اور ابو نعيم نے روایت کیا ہے۔

54 / 7. عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي اﷲ عنه قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّ قُرَيْشًا جَلَسُوْا فَتَذَاکَرُوْا أَحْسَابَهُمْ بَيْنَهُمْ، فَجَعَلُوْا مَثَلَکَ مَثَلَ نَخْلَةٍ فِي کَبْوَةٍ مِنَ الْأَرْضِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ اﷲَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِهِمْ، مِنْ خَيْرِ فِرَقِهِمْ وَخَيْرِ الْفَرِيْقَيْنِ، ثُمَّ تَخَيَرَ الْقَبَائِلَ فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِ قَبِيْلَةٍ، ثُمَّ خَيَرَ الْبُيُوْتَ فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِ بُيُوْتِهِمِ، فَأَنَا خَيْرُهُمْ نَفْسًا، وَخَيْرُهُمْ بَيْتًا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْبَزَّارُ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَأَحْمَدُ فِي الْفَضَائِلِ.

وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

54 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : في فضل النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 584، الرقم : 3607، والبزار في المسند، 4 / 140، الرقم : 1316، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1 / 25، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 937، الرقم : 1803، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 216، والهندي في کنز العمال، 11 / 415، الرقم : 31950، والحسينی في البيان والتعريف، 1 / 178، الرقم : 466، والمناوي في فيض القدير، 2 / 232.

’’حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا : یارسول اللہ! قریش نے ایک مجلس میں اپنے حسب و نسب کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی مثال کھجور کے اس درخت سے دی جو کسی ٹیلہ پر ہو۔ اس پر آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا کیا پھر ان کے گروہ بنائے تو مجھے سب سے بہتر مخلوق (انسانوں) میں پیدا فرمایا اور انسانوں کے دو گروہ (عرب و عجم) میں سے بہترین گروہ (یعنی عربوں) میں پیدا فرمایا۔ پھر تمام قبائل (میں سے) چنا (اور) مجھے ان میں سے بہترین قبیلہ (قریش) میں پیدا فرمایا۔ پھر اس نے (اس قبیلہ میں سے) گھرانے منتخب فرمائے تو مجھے ان میں سے بہترین گھرانے (بنو ہاشم) میں پیدا فرمایا، سو (جان لو!) میں ان میں سے بہترین فرد اور بہترین خاندان والا ہوں (یعنی ذات کے اعتبار سے بھی اور اصل و نسب کے اعتبار سے بھی ان سب سے برتر ہوں)۔‘‘

اس حديث کو امام ترمذی، بزار، ابو نعيم، اور امام احمد نے اپنی کتاب ’’فضائل الصحابہ‘‘ میں روایت کیا ہے، اور امام ابو عیسی نے فرمایا کہ یہ حديث حسن ہے۔

55 / 8. عَنْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِيْعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ أَنَا؟ قَالُوْا : أَنْتَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ. قَالَ : فَمَا سَمِعْنَاهُ قَطُّ يَنْتَمِي قَبْلَهَا، أَلَا إِنَّ اﷲَ خَلَقَ خَلْقَهُ، فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِ خَلْقِهِ، ثُمَّ فَرَّقَهُمْ فِرْقَتَيْنِ فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِ الْفِرْقَتَيْنِ، ثُمَّ جَعَلَهُمْ قَبَائِلَ فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِهِمْ قَبِيْلَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ بُيُوْتًا فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِهِمْ بَيْتًا، وَأَنَا خَيْرُکُمْ بَيْتًا وَخَيْرُکُمْ نَفْسًا.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْحَاکِمُ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

55 : أخرجه أحمد بن حنبل فی المسند، 4 / 165، والطبراني في المعجم الکبير، 20 / 286، الرقم : 675-676، والحاکم في المستدرک، 3 / 275، الرقم : 5077، وأبونعيم في دلائل النبوة، 1 / 58، الرقم : 16، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 632، الرقم : 1497، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 303، الرقم : 31639، والشيباني في الآحاد والمثاني، 1 / 318، الرقم : 439، وابن کثير فی تفسير القرآن العظيم، 2 / 174، والسيوطي في الدر المنثور، 3 / 294.295، 4 / 128، 201.

’’حضرت عبد المطلب بن ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب رضي اﷲ عنہ سے روایت ہے : انہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے لوگو! میں کون ہوں؟ انہوں نے عرض کیا : آپ اللہ عزوجل کے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں محمد بن عبد اﷲ بن عبد المطلب ہوں۔ راوی نے بیان کیا کہ (پھر آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ) جان لو، بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات کو پیدا فرمایا تو مجھے اپنی بہترین مخلوق (بنی نوع انسان) میں پیدا فرمایا، پھر ان میں دو گروہ (عرب و عجم) بنائے تو مجھے ان دو میں سے بہترین گروہ (عربوں) میں پیدا کیا، پھر اس نے ان کے قبائل بنائے تو مجھے ان میں سے بہترین قبیلہ (قریش) میں پیدا کیا، پھر ان میں خاندان بنائے تو مجھے ان میں سے بہترین گھرانہ (بنو ہاشم) میں پیدا کیا، جان لو! کہ میں تم میں سے گھرانے اور نسب دونوں حوالوں سے بہترین ہوں۔‘‘

اس حديث کو امام احمد، طبرانی، حاکم، ابو نعيم اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال صحيح حديث کے رجال ہیں۔

56 / 9. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ اﷲَ حِيْنَ خَلَقَ الْخَلْقَ بَعَثَ جِبْرِيْلَ فَقَسَمَ النَّاسَ قِسْمَيْنِ، فَقَسَمَ الْعَرَبَ قِسْمًا، وَقَسَمَ الْعَجَمَ قِسْمًا، وَکَانَتْ خِيْرَةُ اﷲِ فِي الْعَرَبِ، ثُمَّ قَسَمَ الْعَرَبَ قِسْمَيْنِ، فَقَسَمَ الْيَمَنَ قِسْمًا، وَقَسَمَ مُضَرَ قِسْمًا، وَقُرَيْشًا قِسْمًا، فَکَانَتْ خِيْرَةُ اﷲِ فِي قُرَيْشٍ، ثُمَّ أَخْرَجَنِي مِنْ خَيْرِ مَنْ أَنَا مِنْهُ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

56 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 135، الرقم : 3802، 8 / 155، الرقم : 8252، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 217 والحلبي في السيرة، 1 / 44.

’’حضرت ابو ہریرہ رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک جب اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا فرما لیا تو حضرت جبرئیل عليہ السلام کو بھیجا سو انہوں نے لوگوں کو دو اقسام میں بانٹ دیا۔ ان میں سے ایک قسم عرب اور دوسری قسم عجم بنائی اور عرب میں اللہ تعالیٰ کے منتخب لوگ تھے، پھر عرب کو دو قسموں میں بانٹا تو یمن کو ایک قسم بنایا۔ مضر کو ایک قسم بنایا اور قریش کو ایک قسم بنایا اور اللہ تعالیٰ کے منتخب لوگ قریش میں تھے، پھر مجھے قریش میں سے بہترین فرد پیدا فرمایا میں ان ہی میں سے (سب سے افضل) ہوں۔‘‘ اس حديث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔‘‘

57 / 10. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ اﷲَ تَعَالَی قَسَمَ الْخَلْقَ قِسْمَيْنِ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمَا قِسْمًا، فَذَلِکَ قَوْلُهُ : {أَصْحَابُ الْيَمِيْنِ} [الواقعة، 56 : 27] {وَأَصْحَابُ الشِّمَالِ} [الواقعة، 56 : 41]، فَأَنَا مِنْ أَصْحَابِ الْيَمِيْنِ وَأَنَا مِنْ خَيْرِ أَصْحَابِ الْيَمِيْنِ، ثُمَّ جَعَلَ الْقِسْمَيْنِ بُيُوْتًا، فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمَا بَيْتًا، فَذَلِکَ قَوْلُهُ : {فَأَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ مَا أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ وَأَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ مَا أَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ وَالسَّابِقُوْنَ السَّابِقُوْنَ} [الواقعة، 56 : 8.10]، فَأَنَا مِنْ خَيْرِ السَّابِقِيْنَ، ثُمَّ جَعَلَ الْبُيُوْتَ قَبَائِلَ فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِهَا قَبِيْلَةً، فَذَلِکَ قَوْلُهُ : {شُعُوبًا وَّ قَبَائِلَ} [الحجرات، 49 : 13]، فَأَنَا أَتْقَی وَلَدِ آدَمَ وَأَکْرَمُهُمْ عَلَی اﷲِ عزوجل وَلَا فَخْرَ، ثُمَّ جَعَلَ الْقَبَائِلَ بُيُوْتًا، فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهَا بَيْتًا، فَذَلِکَ قَوْلُهُ : {إِنَّمَا يُرِيْدُ اﷲُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِرَکُمْ تَطْهِيْرًا} [الأحزاب، 33 : 33].

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ إِلاَّ قَالَ : فَأَنَا وَأَهْلُ بَيْتِي مُطَهَرُوْنَ مِنَ الذُّنُوْبِ.

57 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 56، الرقم : 2674، 12 / 103، الرقم : 12604، والبيهقي في دلائل االنبوة، 1 / 170، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 215، والحکيم الترمذي في نوادر الأصول، 1 / 330، وابن کثير في البداية والنهاية، 2 / 257، والحلبي في السيرة، 1 / 44.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو دو قسموں میں تقسیم کیا تو مجھے ان میں بہترین قسم میں پیدا فرمایا : اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’اور دائیں جانب والے‘‘، ’’اور بائیں جانب والے۔‘‘ سو میں دائیں جانب والوں میں سے ہوں اور میں دائیں جانب والوں میں سے بہترین ہوں۔ پھر (اللہ تعالیٰ نے) گھروں کی دو اقسام بنائیں تو مجھے ان میں سے بہترین گھرانہ میں پیدا فرمایا، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’سو (ایک) دائیں جانب والے، دائیں جانب والوں کا کیا کہنا اور (دوسرے) بائیں جانب والے، کیا (ہی برے حال میں ہوں گے) بائیں جانب والے۔ اور (تیسرے) سبقت لے جانے والے (یہ) پیش قدمی کرنے والے ہیں۔‘‘ سو میں ان سبقت لے جانے والوں میں سے سب سے بہتر ہوں، پھر اللہ تعالیٰ نے گھروں کو (باہمی ملا کر) قبائل بنائے تو مجھے ان میں سے بہترین قبیلہ میں پیدا کیا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’(اور ہم نے تمہیں بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا۔‘‘ سو میں اولادِ آدم میں سب سے زیادہ پرہیزگار اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک معزز و مکرم ہوں اور میں یہ بات فخر سے نہیں کہتا، پھر اللہ تعالیٰ نے قبائل کو گھرانوں میں بنایا تو مجھے ان میں سے بہترین گھرانہ میں پیدا فرمایا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔‘‘

اسے امام طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا۔ امام بیہقی نے ان الفاظ کا اضافہ بیان کیا کہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’سو میں اور میرے اہلِ بیت گناہوں سے پاک کر دیئے گئے ہیں۔‘‘

58 / 11. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما قَالَ : إِنَّا لَقُعُوْدٌ بِفَنَائِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فذکر الحديث إلی أن قال : عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّ اﷲَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ سَبْعًا، فَاخْتَارَ الْعُلْيَا فَسَکَنَهَا وَأَسْکَنَ سَائِرَ سَمَاوَاتِهِ مَنْ شَاءَ مِنْ خَلْقِهِ وَخَلَقَ الْأَرْضِيْنَ سَبْعًا، فَاخْتَارَ الْعُلْيَا وَأَسْکَنَهَا مَنْ شَاءَ مِنْ خَلْقِهِ، ثُمَّ خَلَقَ الْخَلْقَ وَاخْتَارَ مِنَ الْخَلْقِ بَنِي آدَمَ، فَاخْتَارَ مِنْ بَنِي آدَمَ الْعَرَبَ، وَاخْتَارَ مِنَ الْعَرَبِ مُضَرَ، وَاخْتَارَ مِنْ مُضَرَ قُرَيْشًا، وَاخْتَارَ مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي هَاشِمٍ، وَاخْتَارَنِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ، فَأَنَا مِنْ خِيَارٍ إِلَی خِيَارٍ، فَمَنْ أَحَبَّ الْعَرَبَ فَلِحُبِّي أَحَبَّهُمْ وَمَنْ أَبْغَضَ الْعَرَبَ فَلِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ.

58 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 199، الرقم : 6182، وفي المعجم الکبير، 12 / 455، الرقم : 13650، والحاکم في المستدرک، 4 / 83، الرقم : 6953، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1 / 25، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 139، 229، الرقم : 1393، 1606، وفي دلائل النبوة، 1 / 170، وابن عدی في الکامل، 2 / 248، الرقم : 422، والحاکم في معرفة علوم الحديث، 1 / 166، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 215.

’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے گھر کے صحن میں بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر انہوں نے طویل حديث بیان کی، یہاں تک کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے روایت کیا کہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک اﷲ تعالیٰ نے سات آسمانوں کو پیدا فرمایا، تو ان میں سب سے بلند آسمان کو چن لیا اور اس پر (اپنی شان کے لائق) سکونت اختیار کی اور اپنے تمام (دیگر) آسمانوں پر اپنی مخلوق میں سے جسے چاہا قیام بخشا اور اﷲ تعالیٰ نے سات زمینیں پیدا کیں تو ان میں سے سب سے بلند کو چنا اور اس پر اپنی مخلوق میں سے جسے چاہا سکونت بخشی، پھر مخلوقات کو پیدا فرمایا تو مخلوقات میں سے بنی آدم کو منتخب کیا، بنی آدم میں سے عرب کو چنا اور عرب میں سے مضر کو چنا اور مضر میں سے قریش کو چنا اور قریش میں سے بنو ہاشم کو چنا اور بنو ہاشم میں سے مجھے منتخب فرمایا، سو میں نسل در نسل بہترین سے بہترین کی طرف منتقل ہوتا رہا لہذا جو عرب سے محبت رکھے وہ میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت رکھے اور جو عرب سے بغض رکھے وہ میری وجہ سے ان سے بغض رکھے۔‘‘ اس حديث کو امام طبرانی، حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

59 / 12. عَنِ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنَا النَّبِيُّ لَا کَذِبَ، أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، أَنَا أَعْرَبُ الْعَرَبِ، وَلَدَتْنِي قُرَيْشٌ، وَنَشَأْتُ فِي بَنِي سَعْدِ بْنِ بَکْرٍ، فَأَنَّی يَأْتِيْنِي اللَّحْنُ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ.

59 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 6 / 35، الرقم : 5437، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 42، الرقم : 98، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 218.

’’حضرت ابو سعید خُدری رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں ہی (سچا) نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں، میں عبد المطلب جیسے (سردار) کا لختِ جگر ہوں، میں عربوں میں سے بہترین عربی ہوں، مجھے قریش نے جنم دیا اور میں نے بنو سعد بن بکر میں پرورش پائی. پس میری زبان میں لحن کیسے آ سکتا ہے؟‘‘

اس حديث کو امام طبرانی اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔

60 / 13. عَنْ طَاوُوْسٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما يَرْفَعُهُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : قَرَأَ : {لَقَدْ جَائَکُمْ رَسُوْلٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ} التوبة، 9 : 128، يَعْنِي مِن أَعْظَمِکُمْ قَدْرًا. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

60 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 262، الرقم : 2945، والشوکاني في فتح القدير، 2 / 420.

’’طاووس حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت کرتے ہوئے مرفوعاً بیان کیا کہ انہوں نے پڑھا : ’’بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) تشریف لائے۔‘‘ فرمایا : یعنی تم میں سے مقام و مرتبہ (اور نسب) کے لحاظ سے سب سے افضل رسول (تشریف لائے)۔‘‘ اس حديث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔

61 / 14. عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيْهِ فِي قَوْلِهِ تَعَالَی : {لَقَدْ جَائَکُمْ رَسُوْلٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ} التوبة، 9 : 128، قَالَ : لَمْ يُصِبْهُ شَيئٌ مِنَ وِلَادَةِ الْجَاهِلِيَةِ. قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي خَرَجْتُ مِنْ نِکَاحٍ وَلَمْ أَخْرُجْ مِنْ سِفَاحٍ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالطَّبَرِيُّ وَالْبَغَوِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

61 : أخرجه البيهقي في السنن الکبری، 7 / 190، الرقم : 13855، والطبري في جامع البيان، 11 / 56، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2 / 404، والبغوي في معالم التنزيل، 2 / 341، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 227، والصنعاني في تفسيره، 2 / 292، وابن الجوزي في زاد المسير، 3 / 520، والسيوطي في الدر المنثور، 4 / 327 وابن کثير في البداية والنهاية، 2 / 256 والشوکاني في فتح القدير، 2 / 419 .

’’حضرت جعفر بن محمد رضي اﷲ عنہ نے اپنے والد سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان : ’’بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک با عظمت) رسول ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) تشریف لائے۔‘‘ کی تفسير میں روایت کیا انہوں نے فرمایا : یعنی آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کو دورِ جاہلیت کی ولادت (یعنی بدکاری) سے معمولی ذرہ تک نہیں پہنچا۔ فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں نکاح سے پیدا ہوا اور میں بدکاری سے پیدا نہیں ہوا۔‘‘

اس حديث کو امام بیہقی، طبری، بغوی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

62 / 15. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ وَعَنْ أَبِي بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ رضي اﷲ عنهما قَالَا : بَلَغَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم، أَنَّ رِجَالًا مِنْ کِنْدَةَ يَزْعَمُوْنَ أَنَّهُ مِنْهُمْ، فَقَالَ إِنَّمَا کَانَ يَقُوْلُ ذَاکَ الْعَبَّاسُ، وَأَبُوْ سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ إِذَا قَدِمَا الْمَدِيْنَةَ لِيَأْمَنَا بِذَلِکَ، وَإِنَّا لَنْ نَنْتَفِيَ مِنْ آبَائِنَا، نَحْنُ بَنُو النَّضْرِ بْنِ کِنَانَةَ. قَالَ : وَخَطَبَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ : أَنَا مُحَمَّدُ، بْنُ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، بْنِ هَاشِمِ، بْنِ عَبْدِ مَنَافِ، ابْنِ قُصَيِّ، بْنِ کِلَابِ، بْنِ مُرَّةَ، بْنِ کَعْبِ، بْنِ لُؤَيِّ، بْنِ غَالِبِ، بْنِ فِهْرِ، ابْنِ مَالِکِ، بْنِ النَّضْرِ، بْنِ کِنَانَةَ، بْنِ خُزَيْمَةَ، بْنِ مُدْرِکَةَ، بْنِ إِلْيَاسَ، بْنِ مُضَرَ، بْنِ نِزَارٍ، وَمَا افْتَرَقَ النَّاسُ فِرْقَتَيْنِ إِلَّا جَعَلَنِيَ اﷲُ فِي خَيْرِهِمَا، فَأُخْرِجْتُ مِنْ بَيْنِ أَبَوَيْنِ، فَلَمْ يُصِبْنِي شَيئٌ مِنْ عَهْرِ الْجَاهِلِيَةِ. وَخَرَجْتُ مِنْ نِکَاحٍ، وَلَمْ أَخْرُجْ مِنْ سِفَاحٍ، مِنْ لَدُنْ آدَمَ، حَتَّی انْتَهَيْتُ إِلَی أَبِي وَأُمِّي، فَأَنَا خَيْرُکُمْ نَفْسًا وَخَيْرُکُمْ أَبًا.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

62 : أخرجه البيهقي في دلائل النبوة، 1 / 174، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 29، والحاکم في معرفة علوم الحديث، 1 / 171، والحسيني في البيان والتعريف، 1 / 294، الرقم : 784، والمناوي في فيض القدير، 3 / 37، وابن کثير في البداية والنهاية، 2 / 255، وأحمد بن حنبل في المسائل، 1 / 17.

’’حضرت انس بن مالک اور حضرت ابو بکر بن عبد الرحمن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے وہ دونوں فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کو خبر پہنچی کہ بنو کندہ کے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ان کے قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس طرح عباس اور ابو سفیان بن حرب بھی کہا کرتے تھے جب وہ مدینہ منورہ آئے تاکہ انہیں اس طرح کہنے سے پناہ ملے (آگاہ ہو جاؤ) ہم اپنے آباء اجداد سے جدائی اختیار نہیں کرتے ہم بنو نضر بن کنانہ میں سے ہیں۔ راوی نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں محمد بن عبد اﷲ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مُرّہ بن کعب بن لوئ بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار ہوں اور جب بھی لوگوں کے دو گروہ بنے تو اﷲ تعالیٰ نے مجھے ان میں سے بہترین گروہ میں رکھا پس میں اپنے والدین سے پیدا ہوا ہوں میری پیدائش میں زمانہ جاہلیت کی بدکاری میں سے ایک ذرہ بھی شامل نہیں۔ حضرت آدم عليہم السلام سے لے کر اپنے والدین تک نسل در نسل میں بطریقِ نکاح پیدا ہوا ہوں نہ کہ بدکاری سے بس میں خاندان اور اصل کے اعتبار سے تم سب سے بہترین ہوں۔‘‘

اس حديث کو امام حاکم، بیہقی اور ابن عساکر نے روایت کیا، مذکورہ الفاظ امام بیہقی کے ہیں۔

63 / 16. عَنْ عَلِيٍّ رضي اﷲ عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : خَرَجْتُ مِنْ نِکَاحٍ وَلَمْ أَخْرُجْ مِنْ سِفَاحٍ، مِنْ لَدُنْ آدَمَ إِلَی أَنْ وَلَدَنِي أَبِي وَأُمِّي.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

63 : أخرجه الطبرانی فی المعجم الأوسط، 5 / 80، الرقم : 472، وابن أبی شيبة فی المصنف، 6 / 303، الرقم : 31641، والبيهقی عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما فی السنن الکبری، 7 / 190، وأبونعيم في دلائل النبوة، 1 / 24، والديلمی فی مسند الفردوس، 2 / 190، الرقم : 2949، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 8 / 214، والحسينی فی البيان والتعريف، 1 / 294، الرقم : 784، والهندی فی کنز العمال، 11 / 402، الرقم : 31870.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نکاح کے ساتھ متولد ہوا نہ کہ غیر شرعی طریقہ پر اور میرا (یہ نسبی تقدس) حضرت آدم عليہ السلام سے شروع ہو کر میرے ماں باپ (حضرت عبد اللہ اور حضرت آمنہ رضی اﷲ عنہما) کے مجھے جننے تک برقرار رہا (اور زمانہ جاہلیت کی بد کرداریوں اور آوارگیوں کی ذرا بھر ملاوٹ بھی میرے نسب میں نہیں پائی گئی)۔‘‘

اس حديث کو امام طبرانی، بیہقی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

64 / 17. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما {وَتَقَلُّبَکَ فِي السَّاجِدِيْنَ} [الشعراء، 26 : 219] قَالَ : مِنْ صُلْبِ نَبِيٍّ إِلَی نَبِيٍّ حَتَّی صِرْتَ نَبِيًّا.

رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ، وَالطَّبَرَانِيُّ وَلَفْظُهُ : مِنْ نَبِيٍّ إِلَی نَبِيٍّ حَتَّی أُخْرِجْتَ نَبِيًّا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَزَّارُ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُمَا ثِقَاتٌ.

64 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 362، الرقم : 12021، والبزار في المسند (کشف الأستار)، الرقم : 2362، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 24، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 226، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 86، 8 / 214، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 13 / 144، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 353، وقال : رواه البزار وابن أبي حاتم من طريقين عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے اس آیہ مبارکہ : ’’اور سجدہ گزاروں میں (بھی) آپ کا پلٹنا دیکھتا (رہتا) ہے۔‘‘ کی تفسير میں فرمایا : اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے (نور مبارک) کو ایک نبی کی پشت سے دوسرے نبی کی پشت میں (نسل در نسل) منتقل کرتا رہا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کو خود نبوت سے سرفراز کر کے (مبعوث) فرمایا۔‘‘

اسے بزار نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔ طبرانی نے بھی اسے روایت کیا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں : ’’آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم (کے نورِ اقدس) کو ایک نبی سے دوسرے نبی تک (نسل در نسل) اس وقت تک منتقل کرتا رہا یہاں تک کہ خود آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کو نبوت سے سرفراز کر کے پیدا فرمایا۔‘‘

65 / 18. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا وَلَدَنِي مِنْ سِفَاحِ أَهْلِ الْجَاهِلِيَةِ شَيئٌ، وَمَا وَلَدَنِي إِلَّا نِکَاحٌ کَنِکَاحِ الإِسْلَامِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

65 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 10 / 329، الرقم : 10812، والبيهقي في السنن الکبری، 7 / 190، الرقم : 13854، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، باب : ذکر طهارة مولده وطيب أصله وکرم محتده صلی الله عليه وآله وسلم، 3 / 400، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 63، وابن کثير في البداية والنهاية، 2 / 256، وفي تفسير القرآن العظيم، 2 / 257، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 214، وقال : ورجاله وثقوا، والزيلعي في نصب الراية، 3 / 213، والعسقلاني في الدراية، 2 / 65.

حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری ولادت میں دورِ جاہلیت کی بدکاری کا ذرہ تک شامل نہیں اور میری ولادت اسلامی طریقہ نکاح سے ہوئی۔‘‘

اس حديث کو امام طبرانی، بیہقی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔ ۔

66 / 19. عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍص {الَّذِي يَرَاکَ حِيْنَ تَقُوْمُo وَ تَقَلُّبَکَ فِي السَّاجِدِيْنَ} الشعراء، 26 : 218.219، قَالَ : فِي أَصْلَابِ الْآبَاءِ مِنَ الرُّسُلِ مِنْهُمْ : آدَمُ وَمِنْهُمْ نُوْحٌ وَمِنْهُمْ إِبْرَاهِيْمُ وَإِسْمَاعِيْلُ عليهم السلام. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.

وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما : أَي فِي أَصْلَابِ الآبَاءِ آدَمَ وَنُوْحٍ وَإِبْرَاهِيْمَ عليهم السلام حَتَّی أَخْرَجَهُ نَبِيًّا.

66 : أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 1 / 423، الرقم : 1719، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 13 / 144.

’’حضرت معاذ بن جبل رضي اﷲ عنہ نے اس آیہ مبارکہ : ’’ جو آپ کو (رات کی تنہائیوں میں بھی) دیکھتا ہے جب آپ (نمازِ تہجد کے لئے) قیام کرتے ہیں۔ اور سجدہ گزاروں میں (بھی) آپ کا پلٹنا دیکھتا (رہتا) ہے۔‘‘ کی تفسير میں فرمایا : یعنی رسولوں میں سے آپ کے آباء و اجداد کی پشتوں میں (آپ کا منتقل ہونا دیکھتا رہا) ان میں سے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت ابراہیم عليہ السلام اور حضرت اسماعیل عليہ السلام ہیں۔‘‘

اس حديث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔

اور حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا : ’’یعنی آپ کو آپ کے آباء و اجداد حضرت آدم، حضرت نوح اور حضرت ابراہیم عليہم السلام کی پشتوں میں (منتقل ہوتا) دیکھتا رہا۔ یہاں تک کہ خود آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس کو نبی بنا کر پیدا کیا۔‘‘

67 / 20. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا وَلَدَتْنِي بَغِيٌّ قَطُّ مُذْ خَرَجْتُ مِنْ صُلْبِ أَبِي آدَمَ، وَلَمْ تَزَلْ تُنَازِعُنِيَ الْأُمَمُ کَابِرًا عَنْ کَابِرٍ حَتَّی خَرَجْتُ مِنْ أَفْضَلِ حَيَيْنِ مِنَ الْعَرَبِ : هَاشِمٌ وَزُهْرَةُ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ.

67 : أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 226، والسيوطي في الدر المنثور، 4 / 329 وفي الخصائص الکبری، 1 / 66.

’’حضرت ابو ہریرہ رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے (میری امہات میں سے کسی) بدکار عورت نے کبھی جنم نہیں دیا جب سے میں حضرت آدم عليہ السلام کی پشت سے پیدا ہوا ہوں، اور میں ہمیشہ (نسل در نسل) اعلیٰ سے اعلیٰ (افراد) کی طرف منتقل ہوتا رہا یہاں تک کہ میں عرب کے سب سے افضل دو قبیلوں ہاشم و زہرہ میں پیدا ہوا۔‘‘ اسے امام ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

68 / 21. عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رِبَاحٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما فِي قَوْلِهِ تَعَالَی : {وَ تَقَلُّبَکَ فِي السَّاجِدِيْنَ} الشعراء، 26 : 219، قَالَ : مَا زَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَتَقَلَّبُ فِي أَصْلَابِ الْأَنْبِيَاءِ حَتَّی وَلَدَتْهُ أُمُّهُ صلی الله عليه وآله وسلم .

رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَالْبَغَوِيُّ وَلَفْظُهُ : أَرَادَ تَقَلُّبَکَ فِي أَصْلَابِ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ نَبِيٍّ إِلَی نَبِيٍّ حَتَّی أَخْرَجَکَ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ.

68 : أخرجه البغوی في معالم التنزيل، 3 / 402، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1 / 25، وابن الجوزي في زاد المسير، 6 / 148، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 353.

’’حضرت عطاء بن ابی رباح نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے اس آیہ مبارکہ : ’’اور سجدہ گزاروں میں (بھی) آپ کا پلٹنا دیکھتا (رہتا) ہے۔‘‘ کی تفسير میں روایت کیا، انھوں نے فرمایا : ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم (کا نور) انبیاء کرام کی پشتوں میں منتقل کیا جاتا رہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی والدہ نے آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کو جنم دیا۔‘‘

اسے امام ابونعيم، ابن عساکر نے روایت کیا ہے اور امام بغوی کی روایت کے الفاظ ہیں : ’’اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم (کے نور) کو انبیاء کرام عليہم السلام کی پشتوں میں نسل در نسل ایک نبی سے دوسرے نبی کی طرف منتقل کرنے کا ارادہ کیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کو اس امت میں (نبی بنا کر) پیدا کیا۔‘‘

69 / 22. عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيْهِ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ اﷲَ أَخْرَجَنِي مِنَ النِّکَاحِ وَلَمْ يُخْرِجْنِي مِنَ السِّفَاحِ.

رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ.

وفي رواية : عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيْهِ فِي قَوْلِهِ تَعَالَی : { لَقَدْ جَاءَ کُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ} التوبة، 9 : 128، قَالَ : لَمْ يُصِبْهُ شَيئٌ مِنْ شِرْکٍ فِي وِلَادَتِهِ. رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ.

69 : أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 227، والطبري في جامع البيان، 11 / 56، وابن کثير في البداية والنهاية، 2 / 256.

’’حضرت جعفر بن محمد رضي اﷲ عنہ نے اپنے والد سے روایت کیا انہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھے نکاح سے پیدا کیا اور مجھے بدکاری سے کبھی پیدا نہیں کیا (یعنی میرے اجداد میں سے بھی کبھی کسی نے بدکاری نہیں کی)۔‘‘

اس حديث کو امام ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

اور ایک روایت میں حضرت جعفر بن محمد رضي اﷲ عنہ اپنے والد سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان : ’’بے شک تمھارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) تشریف لائے۔ تمھارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔‘‘ کی تفسير میں فرمایا : یعنی شرک (یا مشرکین) کا ذرہ تک بھی آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ میں شامل نہیں ہوا۔‘‘ اس حديث کو امام طبری نے روایت کیا ہے۔

70 / 23. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : خَرَجْتُ مِنْ نِکَاحٍ غَيْرَ سِفَاحٍ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

وفي رواية : عَنْ هِشَامِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْکَلْبِيِّ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : کَتَبْتُ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم خَمْسَمِائَةِ أُمٍّ فَمَا وَجَدْتُ فِيْهِنَّ سِفَاحًا وَلَا شَيْئًا مِمَّا کَانَ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَةِ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

70 : أخرجه ابن سعد في الطبقات، 1 / 60.61، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 227. 228، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 63.64، وابن کثير في البداية والنهاية، 2 / 256، والحلبي في السيرة، 1 / 65، والشوکاني في فتح القدير، 2 / 419.

’’حضرت عائشہ رضي اﷲ عنہا سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں بغیر بدکاری کے (اسلامی طریقہ) نکاح سے پیدا ہوا۔‘‘

اس حديث کو امام ابن سعد اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

اور ایک روایت میں حضرت ہشام بن محمد کلبی رضي اﷲ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے لئے (آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی) پانچ سو ماؤں کے اسماء (و حالات) لکھے۔ سو میں نے ان میں سے کسی کو بھی بدکار نہیں پایا اور نہ ہی امورِ جاہلیت کا کوئی ذرہ تک ان میں پایا۔‘‘

اس حديث کو امام ابن سعد اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

71 / 24. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضي اﷲ عنهما قَالَ : کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَهَبَطَ عَلَيْهِ جِبْرِيْلُ فَقَالَ : يَا أَبَا إِبْرَاهِيْمَ، اﷲُ يُقْرِئُکَ السَّـلَامَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : نَعَمْ، أَنَا أَبُوْ إِبْرَاهِيْمَ، وَإِبْرَاهِيْمُ جَدُّنَا وَبِهِ عُرِفْنَا، وَقَدْ قَالَ اﷲُ تَعَالَی فِي مُحْکَمِ کِتَابِهِ : {مِلَّةَ أَبِيْکُمْ إِبْرَاهِيْمَ هُوَ سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِيْنَ} الحج، 22 : 78. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ.

71 : أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 28، وابن عدی في الکامل، 4 / 93.

’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کہا کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے کہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی طرف جبرئیل امین عليہ السلام نازل ہوئے، انہوں نے عرض کیا : اے ابو ابراہیم! اللہ تعالیٰ آپ کو سلام کہتا ہے۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں میں ابو ابراہیم ہوں اور ابراہیم عليہ السلام ہمارے دادا بھی تھے اور ان سے ہم پہچانے جاتے ہیں، اور تحقیق اللہ تعالیٰ نے اپنی محکم کتاب (قرآن پاک) میں فرمایا : ’’(یہی) تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کا دین ہے۔ اس (اللہ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے۔‘‘ اس حديث کو امام ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

72 / 25. عَنْ أَبِي يَزِيْدَ الْمَدِيْنِيِّ قَالَ : نُبِّئْتُ أَنَّ عَبْدَ اﷲِ أَبَا رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَتَی امْرَأَةً مِنْ خَثْعَمَ فَرَأَتِ النُّوْرَ بَيْنَ عَيْنَيْهِ نُوْرًا سَاطِعًا إِلَی السَّمَاء، فَقَالَتْ : هَلْ لَکَ فِيَّ؟ قَالَ : نَعَمْ، حَتَّی أَرْمِيَ الْجَمْرَةَ، فَانْطَلَقَ فَرَمَی الْجَمْرَةَ، ثُمَّ أَتَی امْرَأَتَهُ آمِنَةَ بِنْتَ وَهْبٍ، ثُمَّ ذَکَرَ، يَعْنِي الْخَثْعَمِيَةَ، فَأَتَاهَا، فَقَالَتْ : هَلْ أَتَيْتَ امْرَأَةً بَعْدِي؟ قَالَ : نَعَمْ، امْرَأَتِي آمِنَةَ بِنْتَ وَهْبٍ، قَالَتْ : فَـلَا حَاجَةَ لِي فِيْکَ، إِنَّکَ مَرَرْتَ وَبَيْنَ عَيْنَيْکَ نُوْرٌ سَاطِعٌ إِلَی السَّمَاءِ، فَلَمَّا وَقَعْتَ عَلَيْهَا ذَهَبَ، فَأَخْبِرْهَا أَنَّهَا قَدْ حَمَلَتْ خَيْرَ أَهْلِ الْأَرْضِ.

رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

72 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری 1 / 97، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1 / 90، والبيهقي في دلائل النبوة، 1 / 102، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 228، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 70، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 50.

’’حضرت ابو یزید المدینی رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے انھوں نے بیان کیا کہ مجھے بتایا گیا کہ بیشک حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے والد گرامی حضرت عبد اللہ رضي اﷲ عنہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت کے پاس آئے تو اس نے آپ کی دونوں آنکھوں کے درمیان (یعنی پیشانی پر) آسمان تک پھیلا ہوا ایک نور دیکھا۔ اس نے آپ سے کہا : کیا آپ کو میرے ساتھ (نکاح کرنے میں) دلچسپی ہے؟ آپ نے فرمایا : ہاں، لیکن پہلے مقام جمرہ پر کنکریاں مارنے سے فارغ ہو جاؤں۔ سو وہ تشریف لے گئے اور مقام جمرہ پر کنکریاں ماریں۔ پھر آپ اپنی زوجہ محترمہ حضرت آمنہ بنت وہب رضی اﷲ عنہا کے پاس تشریف لے گئے پھر آپ کو وہ قبیلہ خثعم کی عورت یاد آئی۔ تو آپ اس کے پاس تشریف لے گئے۔ تو اس نے کہا : کیا آپ میرے (پاس سے جانے کے) بعد کسی عورت سے ملے ہیں؟ (یعنی ہم بستری کی ہے) انہوں نے فرمایا : ہاں، میں اپنی بیوی آمنہ بنت وہب سے ملا ہوں تو اس نے کہا : اب مجھے آپ سے کوئی حاجت (و دلچسپی) نہیں۔ جب آپ گزرے تھے تو آپ کی پیشانی پر آسمان تک بلند ایک نور تھا۔ جب آپ اپنی بیوی سے ملے تو وہ نور (اس کی طرف) چلا گیا۔ سو اسے بتا دیں کہ اس نے تمام اہلِ زمین سے افضل ہستی کو (اپنے بطنِ اقدس میں) اٹھایا ہوا ہے۔‘‘ اس حديث کو ابن سعد، ابو نعيم، بیہقی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

73 / 26. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وأَبِي الْفَيَاضِ الْخَثْعَمِيِّ قَالَا : مَرَّ عَبْدُ اﷲِ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بِامْرَأَةٍ مِنْ خَثْعَمَ، يُقَالُ لَهَا فَاطِمَةُ بِنْتُ مُرٍّ، وَکَانَتْ مِنْ أَجْمَلِ النَّاسِ وَأَشَبِّهِ وَأَعَفِّهِ، وَکَانَتْ قَدْ قَرَأَتِ الْکُتُبَ، وَکَانَ شَبَابُ قُرَيْشٍ يَتَحَدَّثُوْنَ إِلَيْهَا، فَرَأَتْ نُوْرَ النُّبُوَّةِ فِي وَجْهِ عَبْدِ اﷲِ، فَقَالَتْ : يَا فَتَی مَنْ أَنْتَ؟ فَأَخْبَرَهَا، قَالَتْ : هَلْ لََکَ أَنْ تَقَعَ عَلَيَّ وَأُعْطِيْکَ مِائْةً مِنَ الإِْبِلِ؟ فَنَظَرَ إِلَيْهَا وَقَالَ :

أَمَّا الْحَرَامُ فَالْمَمَاتُ دُوْنَهُ
وَالْحِلُّ لَا حِلَّ فَاسْتَبِيْنَهُ
فَکَيْفَ بالْأَمْرِ الَّذِي تَنْوِيْنَهُ؟

ثُمَّ مَضَی إِلَی امْرَأَتِهِ آمِنَةَ بِنْتِ وَهْبٍ رضي اﷲ عنها، فَکَانَ مَعَهَا، ثُمَّ ذَکَرَ الْخَثْعَمِيَةَ وَجَمَالَهَا وَمَا عَرَضَتْ عَلَيْهِ، فَأَقْبَلَ إِلَيْهَا فَلَمْ يَرَ مِنْهَا مِنَ الإِقْبَالِ عَلَيْهِ آخِرًا کَمَا رَآهُ مِنْهَا أَوَّلًا، فَقَالَ : هَلْ لَکِ فِيْمَا قُلْتِ لِي؟ فَقَالَتْ : قَدْ کَانَ ذَاکَ مَرَّةً فَالْيَوْمَ لَا، فَذَهَبْتَ مِثْـلًا قَالَتْ : أَيُّ شَيئٍ صَنَعْتَ بَعْدِي؟ قَالَ : وَقَعْتُ عَلَی زَوْجَتِي آمِنَةَ بِنْتِ وَهْبٍ، قَالَتْ : إِنِّي وَاﷲِ، لَسْتُ بِصَاحِبَةِ رَيْبَةٍ، وَلَکِنِّي رَأَيْتُ نُوْرَ النُّبُوَّةِ فِي وَجْهِکَ فَأَرَدْتُ أَنْ يَکُوْنَ ذَلِکَ فِيَّ وَأَبَی اﷲُ إِلَّا أَنْ يَجْعَلَهُ حَيْثُ جَعَلَهُ، وَبَلَغَ شَبَابَ قُرَيْشٍ مَا عَرَضَتْ عَلَی عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَتَأَبِّيِّهِ عَلَيْهَا، فَذَکُرُوْا ذَلِکَ لَهَا، فَأَنْشَأَتْ تَقُوْلُ :

إِنِّي رَأَيْتُ مَخِيْلَةً عَرَضَتْ
فَتَلأْلَأَتْ بِحَنَاتِمِ الْقَطْرِ

فَلِمَائِهَا نُوْرٌ يُضِيئُ لَهُ
مَا حَوْلَهُ کَإِضَائَ ةِ الْفَجْرِ

وَرَأَيْتُهُ شَرَفًا أَبُوْئُ بِهِ
مَا کُلُّ قَادِحِ زَنْدِهِ يُوْرِي

ِﷲِ مَا زُهْرِيَةٌ سَلَبَتْ
ثَوْبَيْکَ مَا اسْتَلَبَتْ وَمَا تَدْرِي

رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ وَالطَّبَرِيُّ وَابْنُ الْأَثِيْرِ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

73 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 96، والطبري في تاريخ الأمم والملوک، 1 / 500، وابن الأثير في الکامل، 1 / 547، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 228.229، وابن کثير في البداية والنهاية، 2 / 250، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 48، وفي المنتظم، 2 / 202، والزمخشري في الفائق، 3 / 446.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس اور ابو الفیاض خثعمی رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے والد محترم حضرت عبد اﷲ رضي اﷲ عنہ بنو خثعم کی ایک عورت جس کا نام فاطمہ بنت مر تھا کے پاس سے گزرے جو نہایت حسین و جمیل، نوجوان و پاکدامن عورت تھی جس نے بہت سی مذہبی کتب پڑھ رکھیں تھیں قریش کے نوجوان اس کے حسن و جمال کے تذکرے کرتے تھے۔ اس نے حضرت عبد اﷲ کے چہرہ پر نورِ نبوت دیکھا۔ اس نے ان سے پوچھا : اے جوان! آپ کون ہیں؟ حضرت عبد اﷲ نے اپنا تعارف کرایا تو اس عورت نے کہا : کیا آپ کو اسی وقت میرے ساتھ مباشرت میں دلچسپی ہے؟ اس کے عوض میں آپ کو 100 اونٹ دوں گی۔ حضرت عبد اﷲ نے اس پر ایک نظر ڈالی اور فرمایا : ’’حرام ہو نہیں سکتا اس سے موت بہتر ہے اور حلال کی یہ شکل نہیں لہذا جو تم چاہتی ہو وہ بات کیسے ممکن ہے۔‘‘ پھر آپ اپنی زوجہ محترمہ حضرت آمنہ رضی اﷲ عنہا کے پاس آئے جو ان کے ساتھ تھیں پھر آپ کو خثعمہ اور اس کے حسن و جمال اور اس کی پیشکش کا خیال آیا تو اس کے پاس آئے مگر اس نے وہ توجہ نہ دی جس طرح پہلی ملاقات میں دی تھی پس حضرت عبد اﷲ نے پوچھا : کیا تو اب بھی اس بات کے لئے آمادہ ہے تو اس نے کہا اب نہیں وہ دن گذر گیا اور اس نے حضرت عبد اﷲ سے پوچھا میرے پاس سے جانے کے بعد آپ نے کیا کیا؟ آپ نے فرمایا : میں اپنی زوجہ آمنہ سے ملا ہوں، تو اس عورت نے کہا : خدا کی قسم! میں بدکار عورت نہیں لیکن میں نے نورِ نبوت آپ کے چہرے پر دیکھا تھا سو میری خواہش تھی کہ وہ نور مجھے ملے مگر اﷲ تعالیٰ کو یہ بات منظور نہ تھی کہ یہ سعادت مجھے نصیب ہو۔ اس نے جہاں مناسب سمجھا اسے ودیعت کر دیا جب قریش کے نوجوانوں کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو انہوں نے اس سے تذکرہ کیا تو اس نے اس پر یہ چند اشعار کہے :

’’میں نے دیکھا کہ ایک گھٹا سامنے ہے جو تیر و تار یعنی (بابرکت ابر باراں سے) روشن ہو گئی ہے اس کے پانی میں ایک ایسا نور ہے جس سے اس کے اردگرد اس طرح روشنی ہو رہی ہے جس طرح صبح صادق روشن ہوتی ہے میں نے دیکھا کہ یہ ایک ایسی عزت ہے جو مجھے حاصل کرنی چاہئے لیکن ہر شخص جو چقماق (آگ جلانے والا پتھر) جھاڑتا ہے ضروری نہیں کہ وہ کامیاب ہی ہو۔ قبیلہ بنی زہرہ کی وہ خاتون کیسی خوش نصیب ہے جس نے اے عبد اﷲ! تجھ سے یہ دولت حاصل کر لی اور تجھے خبر تک نہ ہوئی۔‘‘

اس حديث کو امام ابن سعد، طبری، ابن اثیر اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

74 / 27. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : سَأَلْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، قُلْتُ : فِدَاکَ أَبِي وَأُمِّي، أَيْنَ کُنْتَ وَآدَمُ فِي الْجَنَّةِ؟ قَالَ : فَتَبَسَّمَ حَتَّی بَدَتْ ثَنَايَاهُ (وفي رواية : نَوَاجِذُهُ) ثُمَّ قَالَ : کُنْتُ فِي صُلْبِهِ وَرُکِبَ بِي السَّفِيْنَةَ فِي صُلْبِ أَبِي نُوْحٍ، وَقُذِفَ بِي فِي صُلْبِ إِبْرَاهِيْمَ، لَمْ يَلْتَقِ أَبَوَايَ قَطُّ عَلَی سِفَاحٍ، لَمْ يَزَلِ اﷲُ تَعَالَی يَنْقُلُنِي مِنْ الْأَصْلَابِ الْحَسَنَةِ إِلَی الْأَرْحَامِ الطَّاهِرَةِ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ وَابْنُ کَثِيْرٍ وَالسَّيُوْطِيُّ.

74 : أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 230.231، والسيوطي في الدر المنثور، 6 / 332، وابن کثير في البداية والنهاية، 2 / 258، والمناوي في فيض القدير، 3 / 437.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ اس وقت کہاں تھے جب حضرت آدم عليہ السلام جنت میں تھے؟ وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے تبسم کناں ہوئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے دندانِ مبارک نظر آنے لگے پھر آپ نے فرمایا : میں ان کی پشت میں تھا اور اپنے باپ حضرت نوح عليہ السلام کی پشت میں (کشتی میں) سوار کرایا گیا اور میں اپنے باپ حضرت ابراہیم عليہ السلام کی پشت میں (انہیں آگ میں ڈالتے وقت) چھپایا گیا۔ میرے والدین کبھی بھی بغیر نکاح (یعنی بدکاری سے) نہیں ملے۔ اﷲ تعالیٰ مجھے ہمیشہ پاک صلبوں سے پاک رحموں میں منتقل فرماتا رہا۔‘‘

اس حديث کو امام ابن عساکر، ابن کثير اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔

75 / 28. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَمْ يَلْتَقِ أَبَوَايَ فِي سِفَاحٍ لَمْ يَزَلِ اﷲُ يَنْقُلُنِي مِنْ أَصْلَابٍ طيبةٍ إِلَی أَرْحَامٍ طَاهِرَةٍ صَافِيًا مُهَذَّبًا لَا تَتَشَعَّبُ شُعْبَتَانِ إِلَّا کُنْتُ فِي خَيْرِهِمَا.

رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ.

75 : أخرجه أبونعيم في دلائل النبوة، 1 / 24، والکلاعي في الاکتفاء، 1 / 11، والسيوطي في الدر المنثور، 4 / 328، والمناوي في فيض القدير، 3 / 437.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے والدین کبھی بھی بغیر نکاح کے نہیں ملے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیشہ مجھے پاک پشتوں سے پاکیزہ رحموں میں منتقل فرماتا رہا، جب بھی لوگوں کے دو گروہ ہوئے تو مجھے ان میں سے بہترین گروہ میں رکھا گیا۔‘‘ اس حديث کو امام ابو نعيم نے روایت کیا ہے۔

76 / 29. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍث : أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : قَسَمَ اﷲُ الْأَرْضَ نِصْفَيْنِ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمَا، ثُمَّ قَسَمَ النِّصْفَ عَلَی ثَـلَاثَةٍ فَکُنْتُ فِي خَيْرِ ثُلَثٍ مِنْهَا، ثُمَّ اخْتَارَ الْعَرَبَ مِنَ النَّاسِ، ثُمَّ اخْتَارَ قُرَيْشًا مِنَ الْعَرَبِ، ثُمَّ اخْتَارَ بَنِي هَاشِمٍ مِنْ قُرَيْشٍ، ثُمَّ اخْتَارَ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ، ثُمَّ اخْتَارَنِي مِنْ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ.

76 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 20، والسيوطي في الدر المنثور، 4 / 329.

’’حضرت محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ بیشک حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے زمین کو دو حصوں میں تقسیم کیا تو مجھے ان دونوں میں سے بہترین حصہ میں رکھا، پھر اس ایک حصہ کو مزید تین حصوں میں تقسیم کیا تو مجھے ان تینوں میں سے بہترین حصہ میں رکھا، پھر (اللہ تعالیٰ نے) لوگوں میں سے عرب کو پسند کیا، پھر عرب میں سے قریش کو پسند کیا، پھر قریش میں سے بنو ہاشم کو پسند کیا، پھر بنو ہاشم میں سے بنو عبد المطلب کو پسند کیا پھر بنو عبد المطلب میں سے مجھے (اپنا حبیب) چن لیا۔‘‘ اس حديث کو امام ابن سعد نے روایت کیا ہے۔

77 / 30. عَنْ قَتَادَةَ قَالَ : ذُکِرَ لَنَا أَنَّ نَبِيَّ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّ اﷲَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَبْعَثَ نَبِيًّا نَظَرَ إِلَی خَيْرِ أَهْلِ الْأَرْضِ قَبِيْلَةً، فَيَبْعَثُ خَيْرَهَا رَجُلًا. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ.

77 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 25، والسيوطي في الدر المنثور، 4 / 298.

’’حضرت قتادہ رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے انھوں نے بیان کیا کہ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک جب اللہ تعالیٰ کسی نبی کو مبعوث کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو زمین والوں میں سے بہترین قبیلہ کو دیکھتا ہے پھر اس (قبیلہ) کے بہترین شخص کو (اپنا نبی بنا کر) مبعوث کرتا ہے۔‘‘ اس حديث کو امام ابن سعد نے روایت کیا ہے۔

78 / 31. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : خَيْرُ الْعَرَبِ مُضَرَ، وَخَيْرُ مُضَرَ بَنُوْ عَبْدِ مَنَافٍ، وَخَيْرُ بَنُوْ عَبْدِ مَنَافٍ، بَنُوْ هَاشِمٍ، وَخَيْرُ بَنُوْ هَاشِمٍ بَنُوْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَاﷲِ، مَا افْتَرَقَ شُعْبَتَانِ مُنْذُ خَلَقَ اﷲُ آدَمَ إِلَّا کُنْتُ فِي خَيْرِهِمَا. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ کَمَا قَالَ السَّيُوْطِيُّ.

78 : أخرجه السيوطي في الدر المنثور، 4 / 296 وفي الخصائص الکبری، 1 / 64، والحلبي في السيرة، 1 / 46.

’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عرب میں سے بہترین لوگ مضر ہیں، اور مضر میں سے بہترین لوگ بنو عبد مناف ہیں، اور بنو عبد مناف میں سے بہترین لوگ بنو ہاشم ہیں، اور بنو ہاشم میں سے بہترین لوگ بنو عبد المطلب ہیں اور بخدا! حضرت آدم عليہ السلام کی خلقت سے اب تک کوئی دو گروہ جدا نہیں ہوئے مگر میں ان دونوں میں سے بہترین میں رہا۔‘‘

اس حديث کو امام ابن سعد نے روایت کیا ہے، جیسا کہ امام سیوطی نے فرمایا ہے۔

79 / 32. عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَتَانِي جِبْرِيْلُ عليهم السلام فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ، إِنَّ اﷲَ بَعَثَنِي فَطُفْتُ شَرْقَ الْأَرْضِ وَغَرْبَهَا وَسَهْلَهَا وَجَبَلَهَا فَلَمْ أَجِدْ حَيًّا خَيْرًا مِنَ الْعَرَبِ، ثُمَّ أَمَرَنِي فُطُفْتُ فِي الْعَرَبِ فَلَمْ أَجِدْ حَيًّا خَيْراً مِنْ مُضَرَ، ثُمَّ أَمَرَنِي فَطُفْتُ فِي مُضَرَ فَلَمْ أَجِدْ حَيًّا خَيْرًا مِنْ کِنَانَةَ، ثُمَّ أَمَرَنِي فَطُفْتُ فِي کِنَانَةَ فَلَمْ أَجِدْ حَيًّا خَيْرًا مِنْ قُرُيْشٍ، ثُمَّ أَمَرَنِي فَطُفْتُ فِي قُرَيْشٍ فَلَمْ أَجِدْ حَيًّا خَيْرًا مِنْ بَنِي هَاشِمٍ، ثُمَّ أَمَرَنِي أَنْ أَخْتَارَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ فَلَمْ أَجِدْ فِيْهِمْ نَفْسًا خَيْرًا مِنْ نَفْسِکَ. رَوَاهُ الْحَکِيْمُ التِّرْمِذِيُّ وَالسَّيُوْطِيُّ.

79 : أخرجه الحکيم الترمذي في نوادر الأصول، 1 / 332، والسيوطي في الدر المنثور، 4 / 298 وفي جامع الأحاديث، 1 / 76، الرقم : 366، والهندي في کنز العمال، 1 / 2409، الرقم : 34101، والحلبي في السيرة، 1 / 43.

’’حضرت جعفر بن محمد رضي اﷲ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں اور انہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے پاس جبرئیل امین عليہ السلام آئے اور انہوں نے عرض کیا : اے محمد! بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا تو میں نے زمین کے شرق و غرب اور میدانی و پہاڑی تمام علاقے گھومے۔ اور میں نے عرب سے افضل کوئی قبیلہ نہیں پایا۔ پھر (اللہ تعالیٰ نے) مجھے حکم دیا، میں تمام عرب گھوما تو قبیلہ مضر سے بڑھ کر کسی کو افضل نہیں پایا۔ پھر (اللہ تعالیٰ نے) مجھے حکم دیا تو میں تمام مضر میں گھوما تو قبیلہ کنانہ سے بڑھ کر کوئی افضل قبیلہ نہیں پایا، پھر (اللہ تعالیٰ نے) مجھے حکم دیا میں تمام کنانہ میں گھوما تو میں نے قریش سے بڑھ کر کسی کو افضل نہیں پایا۔ پھر (اللہ تعالیٰ نے) مجھے حکم دیا تو میں تمام قریش میں گھوما تو بنو ہاشم سے بڑھ کر کسی قبیلہ کو افضل نہیں پایا۔ پھر (اللہ تعالیٰ نے) مجھے حکم دیا کہ ان میں سے کسی ایک ذات کو پسند کروں تو (یا رسول اللہ!) میں نے ان میں آپ کی ذات اقدس سے بڑھ کر کسی کو بہتر و افضل نہیں پایا۔‘‘

اس حديث کو امام حکیم ترمذی اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔

80 / 33. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما أَنَّ قُرَيْشًا کَانَتْ نُوْرًا بَيْنَ يَدَيِ اﷲِ تَعَالَی قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ الْخَلْقَ بِأَلْفَي عَامٍ يُسَبِّحُ ذَلِکَ النُّوْرُ وَتُسَبِّحُ الْمَـلَائِکَةُ بِتَسْبِيْحِهِ، فَلَمَّا خَلَقَ اﷲُ آدَمَ. أَلْقَی ذَلِکَ النُّوْرَ فِي صُلْبِهِ. قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : فَأَهْبَطَنِيَ اﷲُ إِلَی الْأَرْضِ فِي صُلْبِ آدَمَ. وَجَعَلَنِي فِي صَُلْبِ نُوْحٍ عليهم السلام وَقُذِفَ بِي فِي صُلْبِ إِبْرَاهِيْمَ عليهم السلام ثُمَّ لَمْ يَزَلِ اﷲُ يَنْقُلُنِي مِنَ الْأَصْلَابِ الْکَرِيْمَةِ إِلَی الْأَرْحَامِ الطَّاهِرَةِ حَتَّی أَخْرَجَنِي مِنْ بَيْنِ أَبَوَيَّ لَمْ يَلْتَقِيَا عَلَی سِفَاحٍ قَطُّ.

رَوَاهُ أَبُوْسَعْدٍ وَالسَّيُوْطِيُّ.

80 : أخرجه أبو سعد النيشابوري في شرف المصطفی صلی الله عليه وآله وسلم، 1 / 304، الرقم : 78، والسيوطي في الدر المنثور، 4 / 298 وفي الخصائص الکبری، 1 / 66، والحلبي في السيرة، 1 / 42.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ بے شک مخلوقات کی پیدائش سے دو ہزار سال قبل قریش اللہ تعالیٰ کے سامنے ایک نور تھا۔ یہ نور (اللہ تعالیٰ کی) تسبیح بیان کیا کرتا، اور فرشتے بھی اس کی تسبیح جیسی تسبیح بیان کیا کرتے تھے، سو جب اللہ تعالیٰ نے آدم عليہ السلام کو پیدا فرمایا تو اس نور کو ان کی پشت میں منتقل کردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عليہ السلام کی پشت میں مجھے زمین پر اتار دیا۔ اور مجھے حضرت نوح عليہ السلام کی پشت میں ڈالا گیا پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ مجھے مکرم پشتوں سے پاکیزہ رحموں میں منتقل کیا، یہاں تک کہ مجھے اپنے والدین سے پیدا فرمایا۔ وہ دونوں بدکاری پر کبھی بھی نہیں ملے۔‘‘ اس حديث کو امام سیوطی نے روایت کیا ہے۔

81 / 34. عَنْ أَنَسٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَرَأَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : {لَقَدْ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ} التوبة، 9 : 128، فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رضي اﷲ عنه : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَا مَعْنَی مِنْ أَنْفُسِکُمْ؟ قَالَ : نَسَبًا وَصَهْرًا وَحَسَبًا لَيْسَ فِيَّ وَلَا فِي آبَائِي مِنْ لَدُنْ آدَمَ سِفَاحٌ کُلُّنَا نِکَاحٌ. رَوَاهُ السَّيُوْطِيُّ وَالشَّوْکَانِيُّ.

81 : أخرجه السيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 66، والشوکاني في فتح القدير، 2 / 420.

’’حضرت انس رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے یہ آیہ مبارکہ پڑھی : ’’بے شک تمھارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) تشریف لائے۔‘‘ تو حضرت علی رضي اﷲ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! (مِنْ أَنْفُسِکُمْ) کا کیا معنی ہے؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نسب، سسرال اور حسب (ہر ایک) کے اعتبار سے (میں سب سے افضل ہوں) نہ مجھ میں اور نہ ہی میرے آباء و اجداد میں سے حضرت آدم عليہ السلام تک کسی نے بدکاری کی ہم سب (اسلامی طریقہ) نکاح سے پیدا ہوئے۔‘‘

اسے امام سیوطی اور شوکانی نے روایت کیا ہے۔

82 / 35. عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ : أُمُّ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم الَّتِي وَلَدَتْهُ : آمِنَةُ بِنْتُ وَهْبِ، بْنِ عَبْدِ مَنَافِ، بْنِ زُهْرَةَ، بْنِ کِلَابٍ، وَأُمُّهَا بَرَّةُ بِنْتُ عَبْدِ الْعُزَّی بْنِ عُثْمَانَ، بْنِ عَبْدِ الدَّارِ، بْنِ قُصَيِّ، بْنِ کِلَابِ، بْنِ مُرَّةَ. وَأُمُّهَا أُمُّ سُفْيَانَ بِنْتُ أَسَدِ، بْنِ عَبْدِ الْعُزَّی، بْنِ قُصَيِّ، بْنِ کِلَابِ، بْنِ مُرَّةَ. وَأُمُّهَا بَرَّةُ بِنْتُ عَوْفِ، بْنِ عُبَيْدِ، بْنِ عُوَيْجٍ مِنْ بَنِي عَدِيِّ، بْنِ کَعْبِ بْنِ لُؤَيِّ، بْنِ غَالِبِ بْنِ فِهْرٍ. وَأُمُّهَا قِلَابَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ بْنِ صَعْصَعَةَ مِنْ بَنِي عَائِذِ بْنِ لِحْيَانَ بْنِ هُذَيْلٍ، وَأُمُّهَا ابْنَةُ مَالِکِ بْنِ غَنَمٍ مِنْ بَنِي لِحْيَانَ. وَأُمُّ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم الَّتِي أَرْضَعَتْهُ حَتَّی شَبَّ : حَلِيْمَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ بْنِ شِجْنَةَ السَّعْدِيَةُ. مِنْ بَنِي سَعْدِ بْنِ بَکْرِ بْنِ هَوَازِنَ، بْنِ مَنْصُوْرِ، بْنِ عِکْرِمَةَ، بْنِ خَصْفَةَ، بْنِ قَيْسٍ غَيْلَانَ، بْنِ مُضَرَ. وَزَوْجُ حَلِيْمَةَ، الْحَارِثُ بْنُ عَبْدِ الْعُزَّی. فَفِي هَؤُلَاءِ شَبَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم .

رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

82 : أخرجه البيهقي في دلائل النبوة، 1 / 183، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 96.97.

’’حضرت زہری رضي اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ جنہوں نے آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کو جنم دیا ان کا شجرہ نسب آمنہ بنت وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب اور ان کی والدہ بّرہ بنت عبد العزی بن عثمان بن عبد الدار بن قصی بن کلاب بن مرہ اور ان کی والدہ اُم سفیان بنت اسد بن عبد العزی بن قصی بن کلاب بن مرہ اور ان کی والدہ برہ بنت عوف بن عبید بن عویج ہیں جو بنی عدی بن کعب بن لوئ بن غالب بن فہر سے تھیں اور ان کی والدہ قلابہ بنت حارث بن صعصعہ جو بنی عائذ بن لحیان بن ہذیل سے تھیں اور ان کی والدہ بنت مالک بن غنم ہیں جو بنی لحیان سے تھیں اور حضورنبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی وہ ماں جنھوں نے آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کو بڑے ہونے تک دودھ پلایا۔ حضرت حلیمہ بنت حارث بن شجنہ السعدیہ ہیں۔ جن کا تعلق بنی سعد بن بکر بن ہوازن بن منصور بن عکرمہ بن خصفہ بن قیس غیلان بن مضر سے تھا اور ان کے شوہر حارث بن عبد العزی ہیں، سو حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم انھی لوگوں میں پل کر جوان ہوئے۔‘‘

اس حديث کو امام بیہقی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

83 / 36. عَنْ أَبِي بَشَرٍ هَارُوْنَ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ : أَمْلَی عَلَيْنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلِ بْنِ غَزْوَانَ أَنَّ نِسَبَةَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : مُحَمَّدُ صلی الله عليه وآله وسلم بْنُ عَبْدِ اﷲِ، بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، بْنِ هَاشِمِ، بْنِ عَبْدِ مَنَافِ، بْنِ قُصَيِّ، بْنِ کِلَابِ، بْنِ مُرَّةَ، بْنِ لُؤَيِّ، بْنِ غَالِبِ، بْنِ فِهْرِ، بْنِ مَالِکِ، بْنِ النَّضْرِ، بْنِ مَالِکِ، بْنِ کِنَانَةَ، بْنِ خُزَيْمَةَ، بْنِ مُدْرِکَةَ، بْنِ إِلْيَاسَ بْنِ مُضَرَ، بْنِ نَزَارِ، بْنِ مَعَدِّ، بْنِ عَدْنَانَ، بْنِ أُدُدَ، بْنِ أَشْحَبَ، بْنِ صَالِحِ عليهم السلام بْنِ صَالُوْحِ، بْنِ الهَمِيْسَعِ، بْنِ نَبَتِ، بْنِ قِيْذَارَ، بْنِ إِسْمَاعِيْلَ عليهم السلام بْنِ إِبْرَاهِيْمَ عليهم السلام بْنِ تَارِخِ(1) … بْنِ أَنُوْشَ بْنِ شِيْثِ عليهم السلام بْنِ آدَمَ عليهم السلام.

رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ.

83 : أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 36.

(1) أخرجه الطبری في تاريخ الأمم والملوک، 1 / 142، وابن الأثير في الکامل، 1 / 72، وابن الجوزي في المنتظم، 1 / 258.

’’ابو بشر ہارون بن حاتم بیان کرتے ہیں کہ ہمیں محمد بن فضیل بن غزوان نے حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کا نسب لکھایا (جو کہ یہ ہے:) محمد بن عبد اﷲ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن لوی بن غالب بن فھر بن مالک بن نضر بن مالک بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان بن ادو بن اشحب بن صالح بن صالوح بن ہمیسع بن نبت بن قیذار بن اسماعیل بن ابراہیم بن تارخ۔ ۔ ۔ بن شیث بن آدم عليہ السلام ہیں۔‘‘

اس حديث کو امام ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved