Sira al-Rasul (PBUH) ki Tahzibi wa Saqafati Ahamiyyat

حصہ سوم :یورپ کی عمومی صورتحال و جزیرہ عرب کی صورتحال اور اسلامی تہذیب و تمدن

5۔ یورپ کی عمومی صورت حال

یورپ کے مشرقی حصے میں جو شام و مصر سے ملحق تھا، بازنطینی حکومت قائم تھی جس نے یونانی تہذیب و مدنیت کو ورثے میں پایا تھا، مگر رومن جباریت نے جلد ان کی علمی و ثقافتی روایات کو فراموش کر دیا۔ چنانچہ ابنِ خلدون لکھتے ہیں:

ولما انقرض أمر اليونان وصار الأمر للقياصرة وأخذوا بدين النصرانية هجروا تلک العلوم … وبقيت فی صحفها ودواوينها مخلّدة باقية فی خزائنهم.

ابن خلدون، تاريخ، 1: 629

‘‘اور جب یونانیوں کا دور ختم ہوگیا، قیصرانِ روم کے اقتدار کا دور آیا اور انہوں نے مسیحی مذہب اختیار کر لیا تو پھر ان علوم کو بالکل ہی چھوڑ دیا ۔۔۔ اور یہ علوم کتابوں اور رسالوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کتب خانوں کے اندر پڑے رہے۔’’

دراصل اس علاقے کی علمی و فکری سرگرمیوں میں بہت پہلے سے جمود و اضمحلال کا گھن لگ چکا تھا۔

پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت 569ء میں ہوئی اور اس کے چالیس سال قبل ایتھنز کا مدرسہ فلسفہ - جو یونانی فلسفہ و حکمت کے شکستہ آثار میں سے تھا - بند کیا جا چکا تھا۔ اس کی وجہ مسیحی تعصب و تنگ نظری سمجھی جاتی ہے۔ مگر اصل وجہ یہ ہے کہ یونانی تہذیب مضمحل ہو چکی تھی اور اس میں بدلے ہوئے زمانہ کی ثقافتی قیادت کی صلاحیت نہیں رہی تھی۔

یونانی ثقافت حکمائے یونان کی ہزار سالہ فکری مساعی کا نام ہے۔ اس کی ابتداء ثالیس الملطی سے ہوتی ہے جس کا زمانہ 624 سے 548 قبل مسیح ہے۔ جبکہ ایتھنز کا مدرسہ فلسفہ قیصر جسٹینین کے حکم سے بند کردیا گیا۔ اس طویل مدت میں یونانی عبقریت نے متعدد حکماء و فلاسفہ پیدا کیے جنہوں نے منطق و فلسفہ، ریاضی و ہیئت اور طب کے علوم کو سائنٹیفک بنیادوں میں مدون کیا۔

ارسطو سکندرِ اعظم کا ہم عصر تھا اور اس نے موخر الذکر کے سال بھر بعد انتقال کیا۔ اُدھر سکندر کے مرنے پر اس کی وسیع سلطنت اس کے جنرلوں میں تقسیم ہوگئی۔ مصر بطلیموسی خاندان کے حصے میں آیا اور وہ اپنے ہمراہ یونانی علم و حکمت کو بھی اس ملک میں لے گئے چنانچہ ان کے عہد حکومت میں اسکندریہ جو اس زمانہ میں مصر کا پایہ تخت تھا، یونانی ثقافت اور یونانی علوم کا گہوارہ بن گیا۔ اس خاندان کی آخری تاجدار کلیوپطرا تھی جس پر 30 قبل مسیح میں قیصر آگسٹس نے حملہ کر کے مصر کو فتح کر لیا۔ کچھ ہی عرصہ بعد مسیحیت کا ظہور ہوا جو اپنی روز افزوں مقبولیت کی وجہ سے سلطنتِ روما کے لیے خطرہ سمجھی جانے لگی۔ بنابریں عیسائیوں پر ظلم و ستم کا آغاز ہو اس ظلم و ستم کے دوران میں فلاسفہ نے بھی عیسائی مذہب کو تنقید کا نشانہ بنایااور پہلے رواقیوں نے اور بعد میں نو فلاطونی فلاسفہ نے عیسائیت کے خلاف اعتراضات کا انبار لگا دیا۔ مگر فلاسفہ عہد کی فکری سرگرمیاں اس تنگ نظری تک محدود نہ رہیں۔ یونانی عبقریت کے جمود و اضمحلال نے اس تنگ نظری کے ساتھ توہم پرستی کو بھی اپنا شعار بنا لیا اور ترقی پسندی کے بجائے رجعت پسندی ان کا طرہ امتیاز بن گئی۔ چنانچہ یہ حکماء محض قومی مذہب کی عصبیت اور مسیحیت بیزاری کی بناء پر پھر شرک وکثرت پرستی کی طرف مائل ہو گئے۔

ایک عرصہ تک مسیحی لوگ رومن امپائر میں معتوب رہے مگر 333ء میں قسطنطین اعظم تخت نشین ہوا تو اس نے کچھ دن بعد عیسائی مذہب اختیار کر لیا۔ اس طرح مسیحیت رومن امپائر کا سرکاری مذہب بن گئی لیکن سیاسی اقتدار ملتے ہی یہ مظلوم اور ستم رسیدہ مسیحیت اپنے آزار رسانوں سے کہیں زیادہ ظالم اور ستم شعار ثابت ہوئی۔ رومن امپائر کی اگلی دو سو سال کی تاریخ مذہبی تشدد، تنگ نظری اور فرقہ وارانہ کشمکش کی مسلسل داستان ہے۔

چنانچہ قیصر ثاؤ دوسیوس (Theodocius زمانہ 379۔ 395ء) کے تخت نشین ہونے پر رومی مملکت کے تمام باشندوں کو جبراً عیسائی بنانے کی کاروائی پر سختی سے عمل کیا گیا۔ پادریوں نے بلا اِستثناء کے تمام مندروں کو برباد کرنا شروع کیا۔ مگر سرافیس کے مندر کے معاملے میں بلوہ ہو گیا۔ بڑی خوں ریزی کے بعد عیسائیوں نے اسے منہدم کر کے گرجا بنا لیا۔ اس مذہبی جنون کا افسوسناک پہلو یہ تھا کہ سرافیون کی لائبریری، جو بطلیموس فیلاڈلفیوس کی لائبریری (مشہور کتب خانہ اسکندریہ) کے جل جانے پر قائم ہوئی تھی، 391ء میں اس تعصب و تنگ نظری کا شکار ہوگئی۔

ثاؤ دوسیوس کے آخر عہد میں سائرل (Cyril) مصر کا اسقف اعظم بنا۔ اس نے فلسفے کے مدارس کو بھی اپنے تعصب و تنگ نظری کا شکار بنایا، کیونکہ اس کے خیال میں یہی مدارس فلسفہ، جاہلیت و وثنیت کے مراکز تھے۔ اس کے ایماء سے فلاسفہ پر حملہ ہوا۔ اس تعصب و تنگ نظری کا تاریک ترین پہلو عقیل و فہیم ہائی پیشیہ (Hypatia) کا درد ناک قتل تھا جو اسکندریہ کی نوفلاطونی جماعت کی صدر تھی۔ تاریخ فکر انسانی کا یہ گھناؤنا سانحہ 415ء میں پیش آیا۔

پادریوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا۔ انہوں نے علم و حکمت کی ترقی کو بھی قانوناً بند کر دیا۔ اس سلسلے میں ان کی تنگ نظری کا شدید ترین حملہ منطق پر ہوا۔ چنانچہ ابن ابی اصیبعہ نے فارابی سے نقل کیا ہے:

جائت النصرانية فبطل التعليم من رومية وبقی بالإسکندرية إلی أن نظر ملک النصرانية فی ذلک واجتمعت الأساقفة وتشاوروا فيما يترک من هذا التعليم وما يبطل فرأوا أن يعلم من کتب المنطق إلٰی آخر الأشکال الوجودية، ولا يعلم ما بعده لأنّهم رأوا أن في ذلک ضرراً علَی النصرانية وأن فيما أطلقوا تعليمه ما يستعان به علی نصرة دينهم. فبقی الظاهر من التعليم هذا المقدار وما ينظر فيه من الباقی مستوراً إلی أن کان الإسلام بعده بمدة طويلة … وکان الّذي يتعلم في ذلک الوقت إلی آخر الأشکال الوجودية.

ابن ابی اُصيبعة، عيون الأنباء فی طبقات الأطباء، 1: 604. 605

‘‘مسیحیت کا زمانہ آیا اور شہر روم میں فلسفہ کی تعلیم ختم کر دی گئی، صرف اسکندریہ میں باقی رہی۔ یہاں تک کہ عیسائیوں کے بادشاہ نے اس مسئلہ پر غور کیا اور پادری لوگوں نے جمع ہو کر باہم مشورہ کیا کہ اس میں سے کتنی تعلیم باقی رہنے دی جائے اور کتنی ختم کر دی جائے تو ان کی یہ رائے ہوئی کہ منطق کی آٹھ کتابوں میں سے ‘‘اشکالِ وجودیہ‘‘ کے آخر تک پڑھایا جائے اور اس کے بعد کی پانچ کتابیں نہ پڑھائی جائیں کیونکہ ان کی رائے میں اس سے عیسائی مذہب کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا اور جس حصے کے پڑھنے پڑھانے کی اجازت دی تھی، اس سے لوگ اپنے مذہب کی تائید میں مدد لے سکتے تھے۔ پس تعلیم کی اتنی ہی مقدار کا رواج رہا اور باقی حصہ مستور رہا، یہاں تک کہ عرصہ دراز کے بعد اسلام مبعوث ہوا ۔۔۔ اور اس زمانہ میں جو پڑھایا جاتا تھا وہ اشکال وجودیہ کے آخر تک تھا۔’’

بہرحال مشرقی یورپ میں جہاں بازنطینی حکومت قائم تھی، ایتھنز کے مدرسہ کی قفل بندی کے بعد کوئی برائے نام عالم پیدا نہیں ہوا۔ مشرق کے مسیحی شہنشاہوں نے فلسفہ کا مدرسہ جاری کرنے کی کئی بار کوشش کی تاکہ نیا دار السلطنت ایتھنز اور اسکندریہ کا حریف بن جائے۔ 618ء میں شہنشاہ ہرقل نے اسکندریہ کے ایک استاد کو قسطنطنیہ بلایا تاکہ اس کی تعلیم سے بازنطینی ذہانت و فطانت اپنے جمود سے بیدار ہو جائے، مگر یہ سعی، سعيِ لاحاصل ہی ثابت ہوئی۔ متوقع بیداری کو ظہور میں آنے کے لیے ابھی کئی نسلیں درکار تھیں۔ غرض اس عہد تاریک کا یورپ جہالت و پسماندگی کی آماج گاہ بنا ہوا تھا۔ چنانچہ ڈریپر لکھتا ہے:

‘‘یورپ کے ان قدیم باشندوں کے بارے میں مشکل ہی سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ بربریت و وحشت کی منزل سے آگے ترقی کر چکے تھے۔ ان کے بدن ناپاک تھے، دماغ توہمات سے بھرے ہوئے تھے، یہ لوگ مزاروں کی کرامات اور جھوٹے ادعائی تبرکات کے متعلق ہر قسم کے بے سروپا افسانوں پر اعتقاد کامل رکھتے تھے۔’’

Draper, History of Intellectual Development of Europe, vol. II, p. 42.

6۔ جزیرہ عرب کی صورتِ حال

خود جزیرہ نمائے عرب جہاں آفتاب ہدایت کی پہلی کرن چمکی اس منزل سے گزر رہا تھا جو تاریخ میں ‘‘عہدِ جاہلیت‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ علم جو تہذیب کی اساس ہے، ان کے یہاں مفقود تھا۔ اس کے برعکس جہل اور اکھڑ پن ان کا سرمایا فخر و مباہات تھا۔ اسی اکھڑ پن اور جہالت پر فخر کرتے ہوئے ایک جاہلی شاعر عمرو بن کلثوم کہتا ہے:

ألا لا يجهلن أحد علينا

فنجهل فوق جهل الجاهلينا

(خبردار! ہم سے کوئی اکھڑ پن (جہالت) نہیں کر سکتا۔ اگر کرے گا تو ہم جاہلوں سے بھی زیادہ جہالت دکھا سکتے ہیں۔ )

  1. قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 1: 253

  2. ابن جوزی، زاد المسير، 1: 36

  3. آلوسی، روح المعانی، 4: 238

ابن خلدون نے اپنی تاریخ کے مقدمہ میں ایک مستقل فصل اس بارے میں قائم کی ہے کہ عربوں کی طبعی و نسلی خصوصیات ہی علوم وحکمت کے لیے ساز گار نہیں تھیں۔ اس فصل کا عنوان اپنے مضمون کا آئینہ دار ہے:

فصل في أن العرب بعد الناس عن الصنائع والسبب في ذلک أنهم أعرق في البدو وأبعد عن العمران الحضری وما يدعو إليه من الصنائع.

ابن خلدون، تاريخ، 1: 506

‘‘فصل اس بات میں کہ عرب نوع انسان میں علم و ہنر سے سب سے زیادہ بے بہرہ ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ وہ سب جنگلی پن میں راسخ ہیں اور شہری تمدن اور اس کے لوازم سے سب سے زیادہ دور ہیں۔’’

خطہ عرب کے ہمسایہ ممالک خواہ مشرقی سرحد پر بسنے والے ہوں یا مغربی سرحد پر انہیں بڑی نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اہلِ ایران تو انہیں قابلِ التفات ہی نہیں سمجھتے تھے، چنانچہ فردوسی جو اپنی ایران پرستی اور عرب دشمنی کے لیے مشہور ہے عربوں کی فتح ایران سے مشتعل ہو کر ‘‘شاہ نامہ میں کہتا ہے:

ز شیر شتر خوردن وسوسمار
عرب را بہ جائي رسیدہ است کار

کہ تاج کیانی کنند آرزو
تفو بر تو اے چرخ گردوں تفو

فردوسی، شاہ نامہ، 7: 2238

گو یہ فردوسی کا مغالطہ تھا کہ اس نے اس عرب کو جو اعلاء کلمۃ اﷲ کی خاطر جنگ قادسیہ میں مصروف جہاد تھا، اسی عرب کے طرح سمجھتا تھا جو کبھی کسريٰ کے دربار میں ہاتھ باندھے کھڑا رہتا تھا۔ اسی طرح عربوں کے مغربی پڑوسی انہیں ‘‘سراسین یعنی خانہ بدوش کے حقارت آمیز لقب سے یاد کرتے تھے مگر یہ اسلام کی برکت تھی کہ جس نے اسی ‘‘سراسین قوم کے ملک کو کچھ ہی دنوں میں علم و حکمت کی روشنی کا مطلع انوار بنا دیا۔

الغرض جزیرہ نمائے عرب میں بھی ظلم، بربریت اور درندگی کا راج تھا۔ تاریخ کا سفر جاری تھا، کرہ ارضی پر وسیع و عریض خطے سیاسی اور جغرافیائی اکائیوں میں تقسیم ہو چکے اور ان کی تقسیم در تقسیم کا عمل جاری تھا۔ یہ اکائیاں سیاسی، معاشی اور ثقافتی بالادستی کے لئے باہم دست و گریباں تھیں۔

7۔ اِسلامی تہذیب و تمدن

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسلام نے اس دنیائے آب و گل کو ایک نیا تمدن اور نئی تہذیب عطا کی۔ دنیا کا گھسا پٹا نظام یکسر بدل کر رکھ دیا۔ اس میں نظم و نسق قائم کیا۔ دستور زندگی کی بنیاد رکھی۔ انسانوں کے اندر ایک ایسا بھائی چارہ قائم کیا جس نے فرد اور جماعت کے درمیان الفت و محبت، اخوت و تعاون اور اتحاد و اتفاق کے اوصاف کو نشوونما بخشی، شورائی نظام پر نظام مملکت استوار کیا۔ دین میں جبر و اکراہ کا خاتمہ کر دیا۔ لَکُمْ دِيْنُکُمْ وَلِيَ دِيْنِ (سو) تمہارا دین تمہارے لیے اور میرا دین میرے لیے ہے) کہہ کر واضح کر دیا کہ قصرِ اسلام میں داخل ہونے کے لئے ہر شخص کو آزادی حاصل ہے۔ محض کافر ہونے کی وجہ سے وہ باعثِ نفرت نہیں ہو سکتا بلکہ اہلِ کتاب عورتوں کے ساتھ ازدواجی تعلقات استوار کرنے کی اجازت بھی دی گئی ہے۔ الغرض اسلام رواداری، تحمل اور بردباری کا حامل ہے اور یہ ایسی دنیا بسانا چاہتا ہے جو ظلم و ستم، بغض و کینہ اور حسد و تنگ نظری کے جذبات سے پاک ہو اور نوع بشر کے لئے امن و سلامتی اور پیار و محبت کا گہوارہ ہو۔ عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہر عظمت اور ہر رفعت نقوشِ کفِ پائے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیرہن میں سج دھج کر تہذیبِ انسانی کی آبرو قرار پاتی دکھائی دیتی ہے۔

الکافرون، 109: 6

اسلام کا یہ آفتاب جہاں آراء اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ روشنیاں بکھیرتا ہوا نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنی نورانی شعاعوں سے پوری دنیا کو منور کرنے لگا۔ اسلام کے لائے ہوئے روحانی و اَخلاقی اِنقلاب کے نتیجہ میں عربوں کی صدیوں کی مجتمع قوت نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد صرف چند سال کے اندر اندر عربوں کو مغربی ایشیاء کا مالک و مختار بنا دیا۔ عرب کے اجڈ اور شریدہ سر لوگوں کے دل اور احوال بدل گئے، فکر و نظر میں انقلابی تبدیلی آ گئی۔ الغرض غصب و قزاقی کے خوگر عرب نظام اسلام کی آمد کے ساتھ ہی نہ صرف انسان بلکہ ایسے نمونہ انسانیت بن گئے کہ ساری کائنات کے ہادی و راہنما دکھائی دینے لگے۔

قرونِ وسطيٰ کے یورپ کی ظلمت وجہالت کے مقابلے میں اس عہد کی اسلامی دنیا کی علمی و ثقافتی عظمت و رفعت کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈریپر لکھتا ہے:

‘‘(اس کے مقابلے میں اندلس کی اسلامی تہذیب کس قدر خوش آئند معلوم ہوتی ہے) جب کہ ہم یورپ کے جنوب مغربی گوشہ اسپین پر نظر ڈالتے ہیں، جہاں بالکل ہی مختلف حالات کے تحت علم و حکمت کے انوارِ تاباں کی روشنی پھوٹ رہی تھی۔ مغرب میں ہلال (اسلامی تہذیب) بدر کامل بن کر مشرق (وسطی یورپ) کی طرف جانے والا تھا۔’’

Draper, History of Intellectual Development of Europe, vol. II, p. 42.

دوسرے مقام پر یہ مصنف اندلس (اسپین) کے مسلمان حکمرانوں کی علمی سرپرستی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:

‘‘جونہی عربوں کو اسپین میں مضبوطی سے قدم جمانے کا موقع ملا، انہوں نے ایک روشن دور کا آغاز کیا ۔۔۔ قرطبہ کے امیروں نے خود کو علم و ادب کا سرپرست بنا کر ممتاز کر لیا اور ذوق سلیم کی ایک ایسی مثال قائم کر دی جو یورپ کے دیسی حکمرانوں کی حالت کے بالکل برعکس تھی۔’’

Draper, History of Intellectual Development of Europe, vol. II, p. 30.

اس کے بعد مسلمانوں کے علمی کارناموں کا اجمالی جائزہ پیش کرتا ہے:

‘‘انہوں نے بڑے بڑے شہروں میں لائبریریاں قائم کیں۔ کہا جاتا ہے کہ ستر سے زیادہ لائبریریاں اس زمانے میں موجود تھیں۔ ہر مسجد کے ساتھ ایک عوامی مکتب ہوتا تھا، جہاں غریبوں کے بچوں کو نوشت و خواند اور قرآن مجید کی تعلیم دی جاتی تھی۔ صاحب استطاعت لوگوں کے لیے علمی مجامع (اعليٰ مدارس) تھے، جہاں ایک بڑا عالم صدر ہوتا تھا۔ قرطبہ، غرناطہ اور دوسرے بڑے شہروں میں یونیورسٹیاں تھیں۔ ان یونیورسٹیوں میں بعض پروفیسر ۔۔۔ ریاضی و ہیئت کی تعلیم دیتے تھے ۔۔۔ ان کے علاوہ مخصوص فنون کے واسطے خصوصی مدارس تھے، بالخصوص طب کے لیے۔’’

Draper, History of Intellectual Development of Europe, vol. II, p. 34.

آرنلڈ (Arnold) مسلم دنیا کے مرکز علم ہونے کی حیثیت کو بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:

‘‘عربوں (مسلمانوں) نے اس زمانہ میں اعليٰ تعلیم اور علم و حکمت کے مطالعہ کو زندہ رکھا۔ جبکہ مسیحی مغرب (یورپ) بربریت و جہالت کے ساتھ جان توڑ لڑائی لڑ رہا تھا۔ ان کی علمی سرگرمیوں کا عہد نویں دسویں صدی میں متعین کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ان کی یہ سرگرمیاں پندرھویں صدی تک جاری رہیں۔ بارھویں صدی کے بعد ہر وہ شخص جسے علم و حکمت کا ذرا سا بھی شوق ہوتا یا حصول علم کی تھوڑی سی بھی خواہش ہوتی تو وہ یا مشرق (بغداد) کا سفر کرتا یا اسپین کا۔’’

 Arnold, Legacy of Islam, p. 377.

آج اہل مشرق یورپی ومغربی جامعات میں جا کر حصول تعلیم کو فضل و کمال کا طرہ امتیاز سمجھتے ہیں۔ لیکن ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے کہ یورپی فضلا عالم اسلام کے علمی سفر کو تمغائے فضل و کمال اور سرمایہ فخر و مباہات سمجھتے تھے، چنانچہ ڈریپر لکھتا ہے کہ تحصیلِ علم کے لیے اسپین کا سفر شائقین علم و حکمت نے دسویں صدی مسیح ہی سے شروع کر دیا تھا:

‘‘دسویں صدی مسیح ہی سے جن لوگوں کو حصول علم کا شوق ہوتا، یا تہذیب و ثقافت کا ذوق رکھتے، وہ ہمسایہ ممالک سے اسپین پہنچتے اور بعد کے زمانے میں تو اس رسم پر لوگوں کا عمل بہت زیادہ بڑھ گیا، بالخصوص جبکہ گربرٹ نے اپنی غیر معمولی ترقی سے ایک شاندار مثال قائم کر دی۔ کیونکہ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں، وہ قرطبہ کی اسلامی یونیورسٹی ہی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد پوپ کے عہدہ پر فائز ہوا۔’’

Draper, History of Intellectual Development of Europe, vol. II, p. 36.

مگر قرون وسطيٰ کے یورپی فضلا میں گربرٹ (جو آگے چل کر سلوسٹر دوم کے نام سے پاپائے روم بنا) ہی اکیلا شخص نہیں ہے، جس نے اسلامی اسپین کی یونیورسٹیوں میں تعلیم پائی ہو۔ قرطبہ اور غرناطہ کی یونیورسٹیاں اس زمانے میں یورپی فضلا سے بھری رہتی تھیں اور یہیں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہ مغربی تہذیب و ثقافت کے رہنما بنتے تھے۔ ڈریپر لکھتا ہے:

‘‘اسپین کی یونیورسٹیاں خطہ یورپ کے علمائے دینیات سے بھری رہتی تھیں۔ پیٹردی وینریبل جو ابیلارڈ کا دوست اور مربی تھا، جس نے قرطبہ میں کافی وقت گزارا تھا اور جو نہ صرف روانی سے عربی بول سکتا تھا، بلکہ جس نے قرآن کریم کا لاطینی زبان میں ترجمہ بھی کیا تھا، بیان کرتا ہے کہ جب وہ پہلی مرتبہ اسپین پہنچا تو اس نے دیکھا کہ یورپ حتی کہ انگلستان کے بہت سے تعلیم یافتہ اَشخاص وہاں ہیئت کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔’’

Draper, History of Intellectual Development of Europe, vol. II, p. 37.

اسلام کی تہذیبی روایات نے مغرب کو بھی دقیانوسیت اور تہذیبی فرسودگی سے نکلنے اور تہذیبی ترقی کی سمت عطا کی:

On Western Christendom the effect of this impact was wholly good, and Western culture in the Middle Ages owed much to Muslim Iberia. On Byzantine Christendom the impact was excessive and evoked a crushing re-erection of the Roman Empire under Leo the Syrian. The case of Abyssinia, a Christian 'fossil' in a fastness encircled by the Muslim World, is also noticed.(1)

(1) Arnold J. Toynbee, A Study of History, Abridgement of Volumes I-VI By D. C. Somervell, Oxford University Press, 1947, p. 574.

‘‘مغرب کی عیسائی دنیا پر اسلام کے اثرات مکمل طور پر مثبت تھے اور قرونِ وسطيٰ کے دوران مغرب کا کلچر مسلمانوں ہی کا مرہون منت تھا۔ بازنطینی عیسائی دنیا پر بھی اسلام کا اثر بہت زیادہ تھا اور اس کے زیرِ اثر ہی شامی لیو کے تحت رومی سلطنت کا رد عمل پیدا ہوا۔ حبشہ بھی جو دنیائے عیسائیت کا ایک متحجر حصہ تھا، قابلِ غور حد تک مسلم دنیا کے اثرات کے ماتحت تھا۔’’

اِسلام مغرب کے لئے ان اعليٰ اقدار کی تکمیل کا پیغام لے کر آیا جن کی تعلیم حضرت عیسٰی علیہ السلام نے دی تھی اور مغرب انہیں فراموش کر چکا تھا۔ ایک مغربی مفکر اس پہلو کو بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:

In the creative soul of Muhammad the radiation of Judaism and Christianity was transmuted into a spiritual force which discharged itself in the new 'higher religion' of Islam.(2)

(2) Arnold J. Toynbee, A Study of History, Abridgement of Volumes I-VI By D. C. Somervell, Oxford University Press, 1947, p. 411.

‘‘یہودیت اور عیسائیت کی روشنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خلاق روح میں یوں جمع ہوگئی کہ یہ ایک روحانی قوت میں بدل گئی، جو ایک بلند تر مذہب یعنی اسلام کی صورت میں ظاہر ہوئی۔’’

انسانی تہذیب کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ یونان کا ہیلینیائی طرز فکر تھا۔ اسلام نے انسانیت کو اس سے چھٹکارا عطا کیا:

The Syriac Society had to wait for the emergence of Islam in order to lay its hand upon a religion which was capable of serving as an effective instrument for casting Hellenism out...(3)

(3) Arnold J. Toynbee, A Study of History, Abridgement of Volumes I-VI By D. C. Somervell, Oxford University Press, 1947, p. 391.

‘‘شام کے معاشرے کو اسلام کے طلوع کا انتظار کرنا تھا کہ وہ ایک ایسے مذہب کی دستگیری حاصل کر سکے جو اس قابل تھا کہ اس کے موثر ذریعے سے یہ معاشرہ ہیلینیائی اثرات سے باہر نکل سکے۔’’

ٹوائن بی مزید لکھتا ہے:

The Arab onslaught upon the infant civilization of the West was an incident in the final Syriac reaction against the long Hellenic intrusion upon the Syriac domain; for when the Arabs took up the task in the strength of Islam they did not rest until they had recovered for the Syriac Society the whole of its former domain at its widest extension.(1)

(1) Arnold J. Toynbee, A Study of History, Abridgement of Volumes I-VI By D. C. Somervell, Oxford University Press, 1947, p. 124.

‘‘مغرب کی ابتدائی مرحلوں سے گزرنے والی تہذیب پر عربوں کی یلغار ایک ایسا واقعہ تھی جو شام کے علاقے پر ہیلینیائی مداخلت کے خلاف شام کے آخری رد عمل کا حصہ تھی۔ کیونکہ جب عربوں نے اسلام کی طاقت کے ساتھ اس کام کو شروع کیا تو وہ اس وقت تک نہیں رکے، جب تک انہوں نے شامی معاشرے میں کاملاً اور وسیع بنیادوں پر اپنی روایات کو قائم نہیں کر دیا۔’’

اور پھر اسلام کے یہ اثرات پورے یورپ تک پھیلتے چلے گئے:

The Emperor Heraclius himself was condemned not to taste of death until he had seen 'Umar the Successor of Muhammad the Prophet coming into his kingdom to undo, utterly and for ever, the work of all the Hellenizers of Syriac domains from Alexander onwards. For Islam succeeded where its predecessors had failed. It completed the eviction of Hellenism from the Syriac World.(2)

(2) Arnold J. Toynbee, A Study of History, Abridgement of Volumes I-VI By D. C. Somervell, Oxford University Press, 1947, p. 144.

‘‘شہنشاہ ہرکولیس اس وقت تک موت سے دو چار نہیں ہوا جب تک اس نے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں دیکھ لیا۔ جس نے ہمیشہ کے لیے اس کی سلطنت کو تہ و بالا کر دیا اور شام کے علاقوں میں دورِ سکندر سے شروع ہونیوالے ہیلینیائی اثرات کا قلع قمع کر دیا۔ کیونکہ اسلام ہی اس معاملے میں کامیاب رہا جس میں اس کے پیش رو ناکام رہے، اس نے شامی دنیا سے ہیلینیائی اثرات کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا۔’’

اسلامی تہذیب کے اثرات کے مغرب پہنچنے میں اسپین کا کردار بھی کلیدی ہے:

The scholars of Muslim Spain contributed unintentionally to the philosophical edifice erected by the medieval Western Christian schoolmen, and some of the works of the Hellenic philosopher Aristotle first reached the Western Christian World through Arabic translations. It is also true that many 'Oriental' influences on Western culture which have been attributed to infiltration through the Crusaders' principalities in Syria really came from Muslim Iberia.(1)

(1) Arnold J. Toynbee, A Study of History, Abridgement of Volumes I-VI By D. C. Somervell, Oxford University Press, 1947, p. 160-1.

‘‘مسلم اسپین کے اہل علم نے غیر ارادی طور پر اس فلسفیانہ روایت میں اضافہ کیا جو قرون وسطيٰ کے مغربی عیسائی اہل دانش نے قائم کی تھی اور معروف ہیلینیائی فلاسفر ارسطو کی اکثر تصنیفات سب سے پہلے مغربی عیسائی دنیا میں عربی تراجم کے ذریعے ہی پہنچیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ بہت سے مشرقی اثرات جو مغربی کلچر پر ہیں وہ صلیبی جنگ لڑنے والوں کے ذریعے وہاں منتقل ہوئے یہ اثرات بڑی حد تک شامی تھے اور فی الاصل مسلم آئبیریا سے آئے تھے۔’’

اسلام کے دئیے ہوئے شعور کے تحت مسلمانوں نے روزِ اول سے ہی اپنی قومی زندگی کے استحکام کی بنیاد علمی اور فکری ترقی پر رکھی۔ یہی سبب تھا کہ معاصر اقوام مسلمانوں کی اس روایت کی تقلید پر مجبور تھیں:

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved