قرآنِ مجید اِنسانیت کو اُس کے اِردگِرد پھیلی ہوئی بے عیب، عظیم اور بارُعب کائنات کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ درس دیتا ہے کہ وہ اﷲ رب العزّت کی ہدایت کی اِطاعت گزاری کرے۔ اِن چند آیات کا مطالعہ اِس کائنات کی تخلیق اور اِرتقاء سے متعلق بہت سے نکات واضح کرتا ہے جس میں ہم رہائش پذیر ہیں۔ جن میں اِرشاد ہوا :
1. إِنَّ رَبَّکُمُ اﷲُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرْضَ فِیْ سِتَّةِ أَيَّامٍ.
(يونس، 10 : 3)
یقیناً تمہارا ربّ اﷲ ہے جس نے آسمانوں اور زمین (کی بالائی و زیریں کائنات) کو چھ مراحل میں تدریجاً پیدا فرمایا۔
2. اَﷲُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضَ وَ مَا بَيْنَهُمَا فِیْ سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِط. . . يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ إِلَی الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِیْ يَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُه أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَO
(حم السجده، 32 : 4، 5)
اﷲ ہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے، کو چھ مراحل میں پیدا کیا، پھر اپنے تخت پر قیام فرمایا۔ ۔ ۔ وہ آسمان سے زمین تک ہر کام کی تدبیر فرماتا ہے، پھر یہ کائنات اُسی کی طرف لوٹ جائے گی، ایک ایسے دِن میں جو تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال کے برابر ہوگاo
3. سَبَّحَ لِلّٰه مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِج وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُO لَه‘ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِج يُحْی وَ يُمِيْتُج وَ هُوَ عَلٰی کُلِّ شَئٍ قَدِيْرٌO هُوَ الْأَوَّلُ وَ الْآخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُج وَ هُوَ بکُلِّ شَئٍ عَلِيْمٌO هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضَ فِیْ سِتَّةِ أَيَّامٍ.
(الحديد، 57 : -41)
آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اﷲ کی تسبیح کرتے ہیں اور وُہی زبردست حِکمت والا ہےo آسمانوں اور زمین میں اُسی کی حکومت ہے، وُہی زندگی اور موت دیتا ہے۔ وُہی اوّل و آخر ہے اور ظاہر و باطن ہے اور وہ ہر شے سے بخوبی آگاہ ہےo وُہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ مراحل میں پیدا کیا۔
قرآنِ حکیم میںاِن کے علاوہ اور بھی بہت سی ایسی آیات موجود ہیں جو کائنات کی تخلیق و اِرتقاء پر روشنی ڈالتی ہیں۔ ہم اپنے موضوع پر قدم بڑھاتے ہوئے اُن میں سے چند ایک کا ذِکر کریں گے۔ مذکورہ بالا آیات سے ہم بآسانی مندرجہ ذیل نکات حاصل کر سکتے ہیں :
مذکورہ بالا آیاتِ کریمہ سے یہ بات اَظہر مِن الشمس ہوتی ہے کہ کائنات کی تخلیق و ترقی چھ اَیام (چھ اَدوار) میں ہوئی۔ قرآن کا تصوّرِ یوم وہ دِن ہرگز نہیں جو عام طور پر طلوعِ شمس سے غروبِ آفتاب تک مُراد لیا جاتا ہے۔
1۔ قرآنِ مجید نے ’یوم‘ کا لفظ ’وقت کی تغیر پذیر لمبائی‘ (Variable Length of Time) کے لئے اِستعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر سورۃُ السجدہ میں اِرشاد فرمایا :
يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ إِلَی الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِیْ يَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُه‘ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَO
(السجده، 32 : 5)
وُہی آسمان سے زمین تک ہر کام کی تدبیر فرماتا ہے، پھر یہ کائنات اُسی کی طرف لوٹ جائے گی، ایک ایسے دِن میں جو تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال کے برابر ہو گاo
اِسی طرح ایک اور مقام پر ’یوم‘ کا لفظ 50ہزار سال کے لئے بھی اِستعمال کیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید میں ہے :
تَعْرُجُ الْمَلاَئِکَةُ وَ الرُّوْحُ إِلَيْهِ فِیْ يَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُه‘ خَمْسِيْنَ أَلْفَ سَنَةٍO
(المعارج، 70 : 4)
(یہ اُس وقت ہو گا جب) فرشتے اور جبرئیل علیہ السلام اُس کی طرف عروج کریں گے، ایک ایسے دن میں جس کی مدّت (زمینی شمار کے مطابق) 50ہزار سال کے برابر ہو گیo
2۔ ’سِتَّة أَيَّامٍ ‘ (چھ دِنوں) کے اَلفاظ اُس مدّت کے لئے اِستعمال کئے گئے ہیں جس میں سورج کی تخلیق عمل میں آئی۔ بظاہر نظر آنے والے شب و روز کا وُجود سورج اور زمین کے وُجود میں آنے سے قبل ناممکن تھا۔ لہٰذا یہ بات عیاں ہے کہ قرآنِ مجید کا بیان کردہ لفظِ ’یَوْم‘ وقت کی ایک تغیر پذیر مُعینہ مدّت ہے۔ یہ (مدّت) لاکھوں، اربوں سالوں پر محیط ہو سکتی ہے۔
قرآنِ مجید کا تفصیلی مطالعہ ہمیںیہ (حقیقت) جاننے کے قابل بناتا ہے کہ کائنات کی تخلیق و ترقی دو ایسے مراحل میں مکمل ہوئی جو چھ مکمل اَدوار میں منقسم ہیں :
یہ مرحلہ تخلیق کے6 اَدوار میں سے پہلے2عہدوں پر مشتمل ہے۔ قرآنِ حکیم کی یہ آیتِمُبارکہ اِس حقیقت کو یوں عیاں کرتی ہے :
فَقَضٰهُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ فِیْ يَوْمَيْنِ وَ أَوْحٰی فِیْ کُلِّ سَمَآءٍ أَمْرَهَاط وَ زَيَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ وَ حِفْظًاط ذٰلِکَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِO
(حم السجده، 41 : 12)
پھر اُس نے دو مراحل میں اُنھیں سات آسمان بنا دیا اور ہر آسمان میں اُس کے (نظام پر مبنی) اَحکام بھیج دیئے، اور ہم نے آسمانِ دُنیا کو چراغوں (ستاروں) سے مزین کیا اور اُسے محفوظ بنایا۔ یہ زبردست اور علم رکھنے والے کا اِنتظام ہےo
یہ آیتِ کریمہ اِس تناظُر میں 8 مختلف اِنکشافات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ آیتِ مُبارکہ کا ہر حصہ کائنات کے تخلیقی و اِرتقائی خدّوخال ظاہر کرتا ہے۔
آیت کا پہلا حصہ سات آسمانوں یا سات کائناتوں کا اِنکشاف کرتا ہے۔
یہ حصہ اُس عرصے سے متعلق ہے جو تشکیلِ کائنات میں صرف ہوا۔
آیتِ کریمہ کے تیسرے حصے کے مطابق ہر آسمان یا ہر کائنات کو اُس کامکمل نظام عطا کیا گیا ہے، ایک ایسا نظام یا عمل درآمد کا ایک ایسا اِنتظامی آرڈر جو اُس کی تشکیل سے متعلقہ اَفعال کا حامل ہو۔
اِن حصوں میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ ہمارا قریب ترین آسمان یا کائنات، جو وُسعت پذیر اور غیرمحدُود ہے، ناقابلِ شمار ستاروں سے بھری پڑی ہے۔
کہکشائیں اور ستارے کائنات میں اِس قدر دُوری میں واقع ہیں کہ (سات آسمانوں میں سے) ہمارا نزدیک ترین آسمان اِس قدر پھیلاؤ اور غیرمحدُودِیت کے سبب اِنتہائی محفوظ ہو گیا ہے۔ یہ بات اِنتہائی محیرالعقول ہے کہ روشنی (جو کائنات کا اپنا مادّی حصہ ہے) اور جو مجرّد مادّی ذرّات کے لئے تیز ترین اور سفر کا حتمی ذرِیعہ ہے، اُس کے لئے بھی کائنات ناقابلِ فسخ ہے۔ (واضح رہے کہ) روشنی ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سیکنڈ کی سمتی رفتار٭ (Velocity) سے اِس وُسعت پذیر کائنات میں سفر کرتی ہے۔ بنیادی سائنسی حقائق قرآنِ مجید کی مذکورہ بالا آیاتِ کریمہ سے کس قدر حیرت انگیز حد تک مطابقت رکھتے ہیں! روشنی کی ’سمتی رفتار‘ میں ثبات کی تخلیق کی حقیقت جو ’سمتی رفتار‘ کی شرح کو طے کرتی ہے، سائنس کی دریافت کردہ ایک زِندہ بنیادی حقیقت ہے اور یہ ایک بنیادی قانون ہے جو اﷲ تعالیٰ نے کائنات کی وُسعت کے تناظُر میں اُس کے ناقابلِ فسخ ہونے کے لئے پیدا کیا ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ روشنی جو اِنتہائی چھوٹے مجرّد مادّی ذرّات سے بنی ہے، کائنات میں سفر کے لئے بہت ہی زیادہ ’سمتی رفتار‘ کی حامل ہے اور اُس سے تیز شے کبھی کوئی نہیں ہو سکتی۔ یہ کائنات میں مادّی ذرّات کی اِنتہا درجے کی رفتار ہے۔
٭ روشنی کی ولاسٹی 1,86,282.397 میل یعنی 2,99,792.458 کلومیٹر ہے۔ مترجم
یہ بھی قرآنی آیت کا ایک مقصدی اور قطعی حصہ ہے کہ اگر کوئی اﷲ ربّ العزّت کی قدرت کو ماپ تول کر جاننا چاہے یا اُس کی تخلیقی قوّت کا اِشارہ (حاصل کرنا) چاہے تو بہتر ہے کہ وہ نزدیکی آسمان کے ناقابلِ شکست و ریخت ہونے پر غور کرے (اپنے دَور کی سائنسی تحقیقات کی روشنی میں قریبی کائنات کا قابلِ مُشاہدہ حصہ دیکھے) جو سات آسمانوں میں سے محض ایک ہے، جس میں اربوں کہکشائیں ہیں جن میں سے ہر ایک اربوں ستاروں پر مشتمل ہے اور اربوں سیارے اربوں نوری سال کی مسافت پر واقع ہیں۔ (ایک نوری سال اُس فاصلے پر مشتمل ہوتا ہے جسے روشنی ایک لاکھ 86ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے ایک سال میں طے کرتی ہے) ہماری کہکشاں کے ستاروں کے مابین فاصلہ اِس قدر زیادہ ہے کہ اگر (اِس میں موجود) ستاروں کی تِعداد لاکھوں گنا زیادہ ہوتی تو بھی ہماری کہکشاں (ملکی وے) بہت زیادہ پُرہجوم نہ ہوتی۔
اِس آیتِ ربانی کے آٹھویں اور آخری حصے میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ اﷲ ربّ العزّت ہر شے کا جاننے والا ہے، اِس کا مطلب یہ ہے کہ وُہی سات آسمانوں اور ہماری ناقابلِ شکست و ریخت کائنات سمیت ہر شے کا خالق و مالک اور قادرِ مطلق ہے۔
کائنات کا ناقابلِ شکست و ریخت ہونا اُس قواسر(Quasar) کی دریافت سے متحقق ہو سکتا ہے جسے ’PKS2000-300‘ کہا جاتا ہے۔ اُسے آسٹریلوی اور برطانوی سائنسدانوں نے دریافت کیا تھا اور وہ ہم سے 18 ارب نوری سال کی مسافت پر واقع کائنات کا بعید ترین روشن جسم ہے اور 10 نیل (10,00,00,00,00,00,000) سورجوں کی توانائی خارج کرتا ہے۔ اِس دریافت نے پہلے سے موجود اِس تصوّر کو یکسر مُستردّ کر دیا کہ کائنات کے آخری کنارے دریافت ہو چکے ہیں۔ ماہرینِ کونیات (Cosmologists) کا کہنا ہے کہ (صحیح معنوں میں) اُن کی سائنس ہی ایک ناقابلِ تردِید حقیقت ہے جبکہ (کائنات سے متعلق) رِوایتی شعور میں خطاء کا اِمکان پایا جاتا ہے، عین ممکن ہے کہ نئی دریافتیں تصویرِ عالم کو مکمل طور پر تبدیل کر کے رکھ دیں۔
زمین بھی اُنہی دو مراحل میں تخلیق ہوئی۔ (قرآنِ مجید میں) اِسے زمینی تخلیق کے ضمن میں یوں بیان کیا گیا ہے :
قُلْ أَئِنَّکُمْ لَتَکْفُرُوْنَ بِالَّذِیْ خَلَقَ الْأَرْضَ فِیْ يَوْمَيْنِ وَ تَجْعَلُوْنَ لَه‘ أَنْدَادًاط ذٰلِکَ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَO
(حم السجده، 41 : 9)
اُن سے پوچھئے کہ کیا تم اُس ذات کے مُنکر ہو جس نے زمین کو دو مراحل میں تخلیق کیا؟ اور (دوسروں کو) اُس کا ہمسر ٹھہراتے ہو؟ وُہی تو تمام جہانوں کا پروردگار ہےo
جدید تحقیقات کی رُو سے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ زمین کی تخلیق 4 ارب 60 کروڑ سال پہلے عمل میں آئی۔ اصل حقیقت سے اﷲ تعالیٰ ہی بہتر آگاہ ہے۔ جدید سائنس قرآنِ مجید کے پیش کردہ حقائق کی بھی تصدیق کرتی ہے۔ علمِ طبقاتُ الارض (Geology) کے جدوَل کے مطابق زِندگی کے ظہور سے قبل جو مرحلہ تھا اُسے اَیزویک اِیرا (Asoic Era) کہتے ہیں۔ اُس زمانے کے بارے میں یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ وہ کم و بیش 20ارب سالوں پر محیط تھا۔ اُس زمانے میں زمین کسی بھی نوعِ حیات کے لئے قابلِ سکونت نہ تھی۔ پھر اِذنِ اِلٰہی سے زمین کے حالات کو اَنواعِ حیات کے قابل بنایا گیا اور (کرۂ ارضی پر) حیات رُونما ہونے لگی۔ یہاں سے ہماری گفتگو میں عملِ تخلیق کے دُوسرے مرحلے کا آغاز ہوتا ہے۔
یہ مرحلہ چار اَدوار میں منقسم ہے۔ قرآنِ مجید اِس بارے میں یوں گویا ہوتا ہے :
وَ جَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِیَ مِنْ فَوْقِهَا وَ بَارَکَ فِيْهَا وَ قَدَّرَ فِيْهَآ أَقْوَاتَهَا فِیْ أَرْبَعَةِ أَيَّامٍط سَوَآءً لِّلسَّائِلِيْنَO
(حم السجده، 41 : 10)
اور اُس نے (زمین کے) اُوپر سے اُس میں پہاڑ رکھے اور اُس میں برکتیں رکھیں اور اُس نے چار مراحل میں (زمین) میں اُس کے ذرائعِ نِعَم رکھے، جو ہر جُویا کے لئے برابر ہیںo
یہ جان کر اِسلام پر ہمارا یقین مزید پختہ ہوتا چلا جاتا ہے کہ جدید سائنس قرآنِ حکیم میں پیش کئے جانے والے اوّلین ظہورِ حیات کے بعد زِندگی کے چار مراحل کی مکمل طور پر بھرپور حمایت کرتی ہے۔
سائنسی تحقیقات جن چار اَدوار کو بیان کرتی ہیں وہ یہ ہیں :
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved