کائنات کی وسیع و عریض ساخت میں زمین ایک اَیسے سورج کا (اَدنیٰ سا) سیارہ ہے جو لاکھوں کہکشاؤں (کی ریل پیل) میں سے ایک کہکشاں (ملکی وے) کے (ایک کھرب ستاروں میں) ایک کنارے پر واقع ہے۔
سورج نیوکلیائی اِخراج کا دیوقامت منبع ہے جو ڈیڑھ کروڑ (1,50,00,000) سینٹی گریڈ درجۂ حرارت کے ساتھ چمک رہا ہے۔ اُس کا قطر زمین کے قطر سے 100 گنا بڑا ہے اور زیادہ تر کائنات کے ہلکے ترین عناصر ہائیڈروجن اور ہیلئم پر مشتمل ہونے کے باوجود اُس کی کمیّت زمین سے 3لاکھ گنا زیادہ ہے۔
ہمارا سورج (ملکی وے کی ) دُوسری یا تیسری نسل کا (نمائندہ) سِتارہ ہے، جو آج سے تقریباً 4ارب 6کروڑ سال پیشتر اپنے سے پہلے عظیم نوتارے (Supernova) کے ملبے پر مشتمل گھومتی ہوئی گیس کے بادل سے معرضِ وُجود میں آیا تھا۔ اُس گیس اور گرد و غبار کے زیادہ تر ایٹم (اپنے اندر نو ساختہ) ہائیڈروجن اور ہیلئم کے کثیف گولے کی طرف اِکٹھے ہونے لگے اور یوں وہ سورج وُجود میں آ گیا جسے آج ہم سب جانتے ہیں۔ اُس گھومتے ہوئے گیسی مادّے کا باقی حصہ نوزائیدہ سورج کے گِرد چکر لگانے لگا، اور سب سے پہلے اُس (مادّے) سے (نظامِ شمسی کے چاروں) بڑے سیارے مُشتری، زُحل، یورینس اور نیپچون تشکیل پائے۔ زمین سمیت باقی (تمام چھوٹے) سیارے اور سیارچے کافی عرصہ بعد گرد و غبار کے باقی ماندہ ذرّات سے پیدا ہوئے۔
1۔ زمین اِبتدائی طور پر بے اِنتہا گرم تھی اور اِس پر (کسی قسم کی) فضا موجود نہ تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ٹھنڈی ہوتی چلی گئی اور چٹانوں سے نکلنے والی گیسوں کے اِخراج سے پُرفضا ہو گئی۔ (زمین کے) اِبتدائی دَور کی فضا ہرگز اِس قابل نہ تھی کہ ہم اُس میں زِندہ رہ سکتے۔ اُس میں آکسیجن بالکل نہیں تھی بلکہ ہائیڈروجن سلفائیڈ جیسی زہریلی گیسیں تھیں۔
2۔ اُس وقت (اﷲ ربّ العزّت نے) زِندگی کچھ ایسی اِبتدائی حالتوں میں (پیدا کی) تھی جو سمندروں میں ہی پنپ اور پروان چڑھ سکتی تھی۔ ممکن ہے کہ ایٹموں کے ملنے کے نتیجے میں ایسی بڑی بڑی ساختیں پیدا ہونے لگ گئی ہوں گی، جنہیں ’میکرومالیکیولز‘ (Macromolecules) کہا جاتا ہے، اور وہ (امرِ باری تعالیٰ سے) سمندروں میں موجود دُوسرے ایٹموں سے ایسی ہی مزید ساختیں پیدا کرنے کے قابل ہو گئے ہوں گے۔ نئے مالیکیولوں نے مزید مالیکیولز کو جنم دِیا اور یوں اِرتقاء کے اِس عمل سے زِندہ اَجسام کی خودکار اَفزائشِ نسل وُجود میں آگئی۔
3۔ زِندگی کی اُن اِبتدائی شکلوں نے بہت سے زہریلے مادّے تحلیل کر دیئے اور آکسیجن کو جنم دِیا۔ یوں آہستہ آہستہ فضا ایسے ترکیبی عناصر میں تبدیل ہوتی چلی گئی، جو آج بھی (رُوئے زمین پر بکثرت) پائے جاتے ہیں اور اُس (نو ترکیب شدہ فضا) نے زِندگی کی اَعلیٰ اَقسام : حشرات، مچھلیوں، ممالیہ جانوروں اور بالآخر (اَشرفُ المخلوقات) نسلِ اِنسانی کو ترقی پذیر ہونے کا موقع فراہم کیا۔
باہمی اِنحصار کے اُس توازُن، ہم آہنگی اور تعاونِ باہمی نے پوری کائنات میں قوانینِ فطرت کو جنم دِیا اور پروان چڑھایا، جن کے تحت تمام کہکشائیں، ستارے، سیارے اور دُوسری مخلوقات اپنا وُجود برقرار رکھے ہوئے ہیں، حرکت پذیر ہیں، زِندہ ہیں اور باہمی اِنحصار کے ساتھ مصروفِ عمل ہیں۔
کائنات کی مندرجہ بالا تمام شکل و صورت قرآنِ مجید یوں بیان کرتا ہے :
1. أَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا أَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَاط وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَئٍ حَيٍّط أَفَلاَ يُؤْمِنُوْنَO
(الانبياء، 21 : 30)
اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اِکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے، پس ہم نے اُنہیں پھاڑ کر جدا کر دِیا، اور ہم نے (زمین پر) ہر زِندہ چیز (کی زندگی) کی نمود پانی سے کی، تو کیا وہ (اِن حقائق سے آگاہ ہو کر اَب بھی) اِیمان نہیں لاتےo
2. وَ جَعَلْنَا فِی الْأَرْضِ رَوَاسِیَ أَنْ تَمِيْدَ بِهِمْ وَ جَعَلْنَا فِيْهَا فِجَاجًا سُبُلاً لَّعَلَّهُمْ يَهْتَدُوْنَO
(الانبياء، 21 : 31)
اور ہم نے زمین میں محفوظ پہاڑ بنا دیئے تاکہ ایسا (نہ) ہو کہ کہیں (زمین اپنے مدار میں) حرکت کرتے ہوئے اُنہیں لے کر کانپنے لگے اور ہم نے اس (زمین) میں کشادہ راستے (درّے) بنائے تاکہ لوگ (مختلف منزلوں تک پہنچنے کے لئے) راہ پا سکیںo
3. وَ جَعَلْنَا السَّمَآءَ سَقْفًا مَحْفُوْظًاج وَّ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا مُعْرِضُوْنَO
(الانبياء، 21 : 32)
اور ہم نے سمآء (یعنی زمین کے بالائی کرّوں) کو محفوظ چھت بنایا (تاکہ اہلِ زمین کو خلا سے آنے والی مُہلک قوّتوں اور جارحانہ لہروں کے مُضر اَثرات سے بچائیں) اور وہ اُن (سماوِی طبقات کی) نشانیوں سے رُوگرداں ہیںo
4. وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ الَّيْلَ وَ النَّهَارَ وَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَط کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ يَّسْبَحُوْنَO
(الانبياء، 21 : 33)
اور وُہی اﷲ ہے جس نے رات اور دِن کو پیدا کیا اور سورج اور چاند کو (بھی)، تمام (آسمانی کرّے) اپنے اپنے مدار کے اندر تیزی سے تیرتے چلے جاتے ہیںo
5. وَ جَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِیَ مِنْ فَوْقِهَا وَ بَارَکَ فِيْهَا وَ قَدَّرَ فِيْهَآ أَقْوَاتَهَا فِیْ أَرْبَعَةَ أَيَّامٍط سَوَآءً لِّلسَّائِلِيْنَO
(فصلت، 41 : 10)
اور اُس نے اِس (زمین) کے اُوپر سے بھاری پہاڑ رکھے اور اس (زمین) کے اندر بڑی برکت رکھی (قسم قسم کی کانیں اور نشو و نما کی قوّتیں) اور اُس (میں اپنی مخلوق کے لئے) سامانِ معیشت مقرر کیا جو تمام طلبگاروں کے لئے یکساں ہےo
6. ثُمَّ اسْتَوٰی إِلَی السَّمَآءِ وَ هِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَ لِلأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ کَرْهًاط قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِيْنَO
(فصلت، 41 : 11)
پھر وہ (اﷲ تعالیٰ) آسمان کی طرف متوجہ ہوا کہ وہ (اُس وقت) دُھواں (سا) تھا۔ پھر اُسے اور زمین کو حکم دِیا کہ تم دونوں (باہمی اِنحصار کے توازُن کے لئے) خوشی سے آؤ یا ناخوشی سے، اُن دونوں نے کہا کہ ہم (فطری نظام کے تحت) خوشی سے حاضر ہیںo
7. فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ فِیْ يَوْمَيْنِ وَ أَوْحٰی فِیْ کُلِّ سَمَآءٍ أَمْرَهَاط وَ زَيَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ وَ حِفْظًاط ذٰلِکَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِO
(فصلت، 41 : 12)
پھر دو (خاص) مراحل میں سات آسمان بنا دیئے اور ہر آسمان کے اَحکام اُس میں بھیج دیئے، اور ہم نے آسمانِ دُنیا کو چراغوں سے رَونق بخشی اور اُس کو محفوظ (بھی) کر دِیا، یہ اِنتظام ہے زبردست (اور) علم والے ربّ کاo
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved