کائنات، اِس کے پورے ڈھانچے اور اِس کے مَبداء کا علم کونیات (Cosmology) کہلاتا ہے۔ جدید کونیات کا آغاز 1920ء میں اُس وقت ہوا جب ایک امریکی سائنسدان ایڈوِن ہبل (Edwin Hubble) نے یہ اِنکشاف کیا کہ کہکشاؤں کے مابین پایا جانے والا فاصلہ (وقت کے ساتھ ساتھ) مُسلسل بڑھ رہا ہے، جس کی وجہ سے کائنات وسیع تر ہو رہی ہے۔
کائنات کے آغاز اور اِنجام کے بارے میں بہت سے نظریات پائے جاتے ہیں۔ اُن میں سے ایک اہم نظریہ جو زیادہ دیر تک مقبولِ عام نہ رَہ سکا ’مستحکم حالت کا نظریہ‘ (Steady۔State Theory) تھا، جس کے مطابق کائنات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی٭۔
موجودہ دَور میں تقریباً تمام سائنسدان اِس بات پر متفق ہیں کہ کائنات ایک عظیم دھماکے سے وُجود میں آئی ہے٭۔ تاہم کائنات کے اِنجام کے بارے میں ابھی سائنسدانوں میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں اور کسی ایک نظریئے پر اُن کا اِتفاق نہیں ہو سکا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ کائنات کی موجودہ عمر تقریباً 14 ارب سال ہو چکی ہے (محتاط اندازہ 11 سے 20 ارب سال کے درمیان ہے) اب یہ نظریہ عام طور پر قبول کیا جا چکا ہے کہ کائنات کا آغاز ایک ایسے حیات اَفزُوں واقعہ سے ہوا جسے بِگ بینگ (Big Bang) کہا جاتا ہے۔ اِس نظریئے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کائنات کی اِبتدائی تاریخ میں بہت سارے واقعات اِنتہائی تیز رفتاری کے ساتھ رُونما ہوئے:
اپنی پیدائش کے معاً بعد کائنات مختلف قسم کے ذیلی ایٹمی ذرّات (Subatomic Particles) کا مجموعہ بن گئی، جس میں الیکٹران، پازیٹران، نیوٹریناس اور اینٹی نیوٹریناس کے علاوہ شعاع ریزی (Radiation) کرنے والے فوٹان بھی شامل تھے۔ اُس لمحے کائنات کا درجۂ حرارت ایک کھرب سینٹی گریڈ (ایک کھرب 80 ارب فارن ہائیٹ) تھا اور اُس کی کثافت (Density) پانی کی نسبت 4 ارب گنا (زیادہ) تھی۔
ایک سیکنڈ بعد درجۂ حرارت کم ہو کر 10 ارب سینٹی گریڈ (18 ارب فارن ہائیٹ) رہ گیا۔ اِس کے ساتھ ہی مادّہ اِس قدر پھیلا کہ اُس کی کثافت تیزی سے گِرتے ہوئے پانی کی نسبت محض 4 لاکھ گنا زیادہ رہ گئی، جس کے بعد پروٹان اور نیوٹران جیسے بھاری عناصر تشکیل پانے لگے۔
14 سیکنڈ بعد ٹمپریچر3 ارب سینٹی گریڈ (5 ارب 40 کروڑ فارن ہائیٹ) تک گِر گیا۔ جبکہ اُس کے ساتھ ہی ساتھ مُتضاد چارج شدہ پازیٹرانوں اور الیکٹرانوں نے ایک دُوسرے کو فنا کرتے ہوئے توانائی خارِج کرنا شروع کر دی۔ اِسی اثناء میں 2 پروٹان اور 2 نیوٹران پر مشتمل ہیلئم کے مرکزے (Nuclei) تشکیل پانے لگے۔
3 منٹ بعد کائنات کا درجۂ حرارت 90 کروڑ سینٹی گریڈ (ایک ارب 62 کروڑ فارن ہائیٹ) تک گِر گیا۔ اِس درجہ پر پہنچ کر حرارت کی شدّت میں اِس قدر کمی واقع ہو چکی تھی کہ ڈیوٹیریم (Deuterium) کا مرکزہ۔ ۔ ۔ جو ایک پروٹان اور ایک نیوٹران پر مشتمل ہوتا ہے۔ ۔ ۔ وُجود میں آسکے۔
30 منٹ بعد درجۂ حرارت 30 کروڑ سینٹی گریڈ (5 کروڑ40 لاکھ فارن ہائیٹ) تک آ پہنچا۔ اِس موقع پر آنے تک بیشتر اِبتدائی اصلی ذرّات ختم ہو چکے تھے کیونکہ الیکٹران اور پروٹان کی ایک بڑی تِعداد اپنے متضاد ذرّات (Antiparticles) یعنی پازیٹران اور اینٹی پروٹان کے ذریعے فنا ہو چکی تھی۔ جبکہ بہت سے بچے کھچے پروٹان اور نیوٹران ہائیڈروجن اور ہیلئم کے مرکزے کی تشکیل میں کام آ چکے تھے۔ یہ سلسلہ یونہی جاری رہا اور تقریباً ایک لاکھ سال بعد برق پارے (ions) اور الیکٹران نے مل کر ایٹم کو تشکیل دیا۔ کائنات کی وُسعت پذیری کا عمل جاری و ساری رہا، یہ سب کچھ ہائیڈروجن اور ہیلئم کے ذریعے ستاروں اور کہکشاؤں کی تشکیل شروع ہونے سے تقریباً ایک ارب سال پہلے کی بات ہے۔
کائنات ابھی تک مسلسل پھیل رہی ہے۔ اِس کے مزید پھیلاؤ کا اِنحصار اُس مادّہ پر ہے جس پر یہ کائنات مُشتمل ہے۔ کائنات کے خاتمے کی ایک ممکنہ صورت ’بِگ کرنچ‘ (Big Crunch) ہے٭۔ کہکشائیں اور دِیگر مادّۂ کائنات شاید ایک دُوسرے سے مختلف سمت میں سفر کر رہے ہیں، مگر اُن کی یہ حرکت باہمی مرکز مائل کشش کی وجہ سے مُقیّد ہے۔ اگر کائنات میں مادّہ کافی مِقدار میں موجود ہوا تو باہمی کشش بالآخر (اس مخالف سمتی رفتار پر) غالب آ جائے گی اور کہکشاؤں کو دوبارہ ایک دُوسرے کی طرف کھینچنا شروع کر دے گی، جس کے نتیجے میں کائنات ’بِگ بینگ‘ (Big Bang) کا اُلٹا تجربہ ’بِگ کرنچ‘ (Big Crunch) کی صورت میں دُہرائے گی۔
بِگ کرنچ جیسے عظیم حادثے کے بعد کیا ہو گا؟ ابھی یہ تصوّر کرنا بھی محال ہے۔ ایک ممکنہ صورت تو یہ ہو سکتی ہے کہ اِس کے نتیجے میں ایک نئی کائنات وُجود میں آ جائے، شاید وہ ہماری موجودہ کائنات سے یکسر مختلف ذرّات پر مشتمل ہو۔ ایک کے بعد دُوسری کائنات کی تخلیق کا یہ نظریہ ’دَوری نظریہ‘ (Cyclic Theory) کہلاتا ہے۔ جس کے مطابق کائنات بار بار تشکیل پانے، وُسعت اِختیار کرنے اور بالآخر مکمل طور پر تباہ ہو جانے کے چکر کو مُسلسل بھی جاری رکھ سکتی ہے۔ اِس صورت میں عظیم دھماکہ، پھیلاؤ اور (باہمی کشش کے نتیجے میں پیدا ہونے والے) سکڑاؤ کا یہ عمل بار بار دُہرایا جائے گا۔ اِس نظریئے کے مطابق موجودہ کائنات بار بار دُہرائے جانے والے اِس سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس میں سے ہر مرحلے کا اپنا بِگ بینگ اور اپنا بِگ کرنچ ہوتا ہے۔ منصہ شہود پر آنے والا یہ منظر ’اِہتزازیہ کائنات‘ ( کائناتوں کا سلسلہ) کہلاتا ہے۔ یہ عظیم دھماکے کے نظریئے کی نئی تشریح و تاوِیل ہے، جسے نظریۂ اِہتزازیہ کائنات(Oscillating Universe Theory) کہا جاتا ہے۔ یہ نظریہ موت کی طرف جاتی ہوئی کائنات کی بجائے ایک نہایت پُرجوش منظر پیش کرتا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved