Jami‘ Khalq par Huzur Nabi Akram (PBUH) ki Rahmat wa Shafqat

باب 2 :حضور ﷺ کی تمام جہانوں اور جملہ مخلوقات پر رحمت و شفقت کا بیان

بَابٌ فِي کَوْنِه صلی الله عليه وآله وسلم رَحْمَةً لِلْعَالَمِيْنَ وَشَفَقَتِه عَلَی الْخَلْقِ جَمِيْعًا

{حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام جہانوں اور جملہ مخلوقات پر رحمت و شفقت}

1 /1. عَنْ عَائِشَةَ رضي اللہ عنها زَوْجِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهَا قَالَتْ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم: هَلْ أَتَی عَلَيْکَ يَوْمٌ کَانَ أَشَدَّ مِنْ يَوْمِ أُحُدٍ؟ قَالَ: لَقَدْ لَقِيْتُ مِنْ قَوْمِکِ، مَا لَقِيْتُ، وَکَانَ أَشَدَّ مَا لَقِيْتُ مِنْهُمْ يَوْمَ الْعَقَبَةِ، إِذْ عَرَضْتُ نَفْسِي عَلَی ابْنِ عَبْدِ يَالِيْلَ بْنِ عَبْدِ کُـلَالٍ، فَلَمْ يُجِبْنِي إِلَی مَا أَرَدْتُ، فَانْطَلَقْتُ وَأَنَا مَهْمُوْمٌ عَلَی وَجْهِي. فَلَمْ أَسْتَفِقْ إِلَّا وَأَنَا بِقَرْنِ الثَّعَالِبِ، فَرَفَعْتُ رَأْسِي، فَإِذَا أَنَا بِسَحَابَةٍ قَدْ أَظَلَّتْنِي، فَنَظَرْتُ فَإِذَا فِيْهَا جِبْرِيْلُ فَنَادَانِي، فَقَالَ: إِنَّ اللهَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِکَ لَکَ وَمَا رَدُّوْا عَلَيْکَ، وَقَدْ بَعَثَ إِلَيْکَ مَلَکَ الْجِبَالِ لِتَأْمُرَه بِمَا شِئْتَ فِيْهِمْ، فَنَادَانِي مَلَکُ الْجِبَالِ فَسَلَّمَ عَلَيَّ ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، فَقَالَ: ذَالِکَ فِيْمَا شِئْتَ إِنْ شِئْتَ أَنْ أُطْبِقَ عَلَيْهِمُ الْأَخْشَبَيْنِ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: بَلْ أَرْجُوْ أَنْ يُخْرِجَ اللهُ مِنْ أَصْلَابِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللهَ وَحْدَه لَا يُشْرِکُ بِه شَيْئًا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

1: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکة، 3 /1180، الرقم: 3059، ومسلم في الصحيح،کتاب الجهاد والسير، باب ما لقي النبي صلی الله عليه وآله وسلم من أذی المشرکين والمنافقين، 3 /1420، الرقم: 1795، والنسائي في السنن الکبری، 4 /405، الرقم: 7706، وابن حبان في الصحيح، 14 /516، الرقم: 6561، وأبو عوانة في المسند، 4 /340، الرقم: 6902، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 /370، الرقم: 8902.

’’اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اُنہوں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا: (یا رسول اللہ!) کیا آپ پر جنگِ اُحد کے دن سے بھی سخت کوئی دن آیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے تمہاری قوم سے بڑی تکلیفیں پہنچی ہیں اور مجھ پر سب سے سخت دن یومِ عقبہ کا تھا، جب میں نے خود کو (بطور نبی) ابن عبد یالیل بن عبد کلال پر پیش کیا تو اس نے میری بات نہ مانی۔ میں (طائف سے) واپس چلا آیا اور پریشانی کے آثار میرے چہرے سے عیاں تھے۔ (چلتے چلتے) اچانک میں نے دیکھا تو میں قرن الثعالب میں تھا۔ میں نے اپنا سر اُوپر اُٹھایا تو بادل کا ایک ٹکڑا مجھ پر سایہ فگن تھا۔ میں نے اس کے اندر جبریل علیہ السلام کو دیکھا۔ اُس نے مجھے ندا دی اور عرض کیا: (یا رسول اللہ!) بیشک اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ آپ کی قوم کی گفتگو اور اُن کا جواب سن لیا ہے، لہٰذا آپ کی خدمت میں پہاڑوں پر مامور فرشتے کو بھیجا ہے، تاکہ آپ اِسے کافروں کے متعلق جو چاہیں حکم فرمائیں۔ پھر پہاڑوں پر مامور فرشتے نے مجھے پکارا اور سلام عرض کیا اور کہا: یا رسول اللہ! آپ کی مرضی پر منحصر ہے، اگر آپ چاہیں تو میں اخشبین (پہاڑ) کو اُٹھا کر اُن کے اُوپر رکھ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (نہیں) بلکہ مجھے اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی اَصلاب (نسلوں) سے ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو خدائے واحد کی عبادت کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

2 /2. عَنْ عَبْدِ اللهِ رضی الله عنه قَالَ: کَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم يَحْکِي نَبِيًّا مِنَ الأَنْبِيَاءِ، ضَرَبَه قَوْمُه فَأَدْمَوْه وَهُوَ يَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِه وَيَقُوْلُ: اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

2: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الأنبياء، باب حديث الغار، 3 /1282، الرقم: 3290، ومسلم في الصحيح،کتاب الجهاد والسير، باب غزوة أحد، 3 /1417، الرقم: 1792، وابن ماجه في السنن،کتاب الفتن، باب الصبر علی البلاء، 2 /1335، الرقم: 4025، وأحمد بن حنبل في المسند،1 /453، الرقم: 4331، وأبو يعلی في المسند، 9 /131، الرقم: 5205، والبزار في المسند، 5 /106، 107، الرقم: 1686.

’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ گویا میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُسی حالت میں دیکھ رہا ہوں جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انبیائے کرام میں سے کسی نبی کا ذکر فرما رہے تھے جنہیں اُن کی قوم نے مارتے مارتے لہولہان کر دیا تھا اور وہ اپنے پر نور چہرے سے خون صاف کرتے ہوئے فرماتے جاتے تھے: اے اللہ! میری قوم کو بخش دے کیونکہ یہ لوگ مجھے نہیں پہچانتے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

3 /3. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، اُدْعُ عَلَی الْمُشْرِکِيْنَ، قَالَ: إِنِّي لَمْ أُبْعَثْ لَعَّانًا، وَإِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَةً.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ.

وفي رواية: إِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَةً وَلَمْ أُبْعَثْ عَذَابًا.

رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

3: أخرجه مسلم في الصحيح،کتاب البر والصلة والآداب، باب النهي عن لعن الدواب وغيرها، 4 /2006، الرقم: 2599، والبخاري في الأدب المفرد /119، الرقم: 321، وأبو يعلی في المسند،11 /35، الرقم: 6174، وأبو نعيم في دلائل النبوة،1 /40، الرقم: 2، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 /144، الرقم: 1403، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 4 /92، والحسيني في البيان والتعريف، 1 /283، الرقم: 754، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 /202.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا: (یا رسول اللہ!) مشرکین کے خلاف بددعا کیجئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا، میں تو صرف سراپا رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔‘‘

اِس حدیث کو امام مسلم اور بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں روایت کیا ہے۔

’’اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے (سراپا) رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے عذاب بنا کر نہیں۔‘‘

اِس حدیث کو امام ابو نعیم، بیہقی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

4 /4. عَنْ سَلْمَانَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: إِنَّمَا بَعَثَنِي رَحْمَةً لِلْعَالَمِيْنَ … الحديث. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ.

4.6: أخرجه أبو داود في السنن،کتاب السنة، باب النهي عن سبّ أصحاب رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم ، 4 /215، الرقم: 4659، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 /437، 268، الرقم: 23757، 22361، والطبراني في المعجم الکبير، 8 /196، الرقم: 7803، وأبو نعيم في دلائل النبوة،1 /4، الرقم: 1، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 /181، الرقم: 3583، وابن رجب في جامع العلوم والحکم،1 /415، والهيثمي في مجمع الزوائد، 5 /69، والسيوطي في الدر المنثور، 5 /688.

5 /5. وفي رواية: عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: إِنَّ اللهَ بَعَثَنِي رَحْمَةً لِلْعَالَمِيْنَ وَهُدًی لِلْعَالَمِيْنَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

6 /6. وفي رواية: وَهُدًی لِلْمُتَّقِيْنَ. رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ.

’’حضرت سلمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے ’’رَحْمَةً لِلْعَالَمِيْنَ‘‘ (تمام جہانوں کے لئے رحمت) بنا کر بھیجا۔‘‘

اِس حدیث کو امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔

’’اور امام احمد نے حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا: ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے ’’رَحْمَةً لِلْعَالَمِيْنَ‘‘ (یعنی تمام جہانوں کے لئے رحمت) اور ’’هُدًی لِلْعَالَمِيْنَ ‘‘ (یعنی تمام جہانوں کے لئے ہدایت) بنا کر مبعوث فرمایا۔‘‘

اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’هُدًی لِلْمُتَّقِيْنَ‘‘ مجھے تمام پرہیز گاروں (یعنی انبیائ، اولیاء اور صالحین) کے لئے ہدایت بنا کر مبعوث فرمایا۔‘‘

اِسے امام ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔

7 /7. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: يَا أَيُهَا النَّاسُ، إِنَّمَا أَنَا رَحْمَةٌ مُهْدَاةٌ.

رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْحَاکِمُ وَاللَّفْظُ لَه. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِهِمَا فَقَدِ احْتَجَّا جَمِيْعًا بِمَالِکِ بْنِ سَعِيْرٍ وَالتَّفَرُّدُ مِنَ الثِّقَاتِ مَقْبُوْلٌ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

7: أخرجه الدارمي في السنن، المقدمة، باب کيف کان أول شأن النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 1 /21، الرقم: 15، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 /325، الرقم: 31782، والحاکم في المستدرک،1 /91، الرقم: 100، والقضاعي في مسند الشهاب، 2 /189.190، الرقم: 1160.1161، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 /223، الرقم: 2981، وأيضًا في المعجم الصغير، 1 /168، الرقم: 264، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 /143.144، الرقم: 1402.1404، 1445، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 /257.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! بے شک میں رَحْمَةٌ مُهْدَاةٌ (یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ رحمت) ہوں۔‘‘

اِس حدیث کو امام دارمی، ابن ابی شیبہ اور حاکم نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرائط پر صحیح ہے اور ان دونوں نے مالک بن سعیر کو بھی حجت مانا ہے اور ثقہ راویوں کی جانب سے تفرد مقبول ہوتا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔

8 /8. عَنْ أَبِي مُوْسَی الْأَشْعَرِيِّ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يُسَمِّي لَنَا نَفْسَه أَسْمَاءً. فَقَالَ: أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَحْمَدُ، وَالْمُقَفِّي وَالْحَاشِرُ وَنَبِيُّ التَّوْبَةِ وَنَبِيُّ الرَّحْمَةِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

8: أخرجه مسلم في الصحيح،کتاب الفضائل، باب في أسمائه صلی الله عليه وآله وسلم ، 4 /1828، الرقم: 2355، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 /395، 404، 407، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 /311، الرقم: 31692.31693، والحاکم في المستدرک، 2 /659، الرقم: 4185.4186، والطبراني في المعجم الأوسط، 4 /327، الرقم: 4338،4417، وابن الجعد في المسند،1 /479، الرقم: 3322.

’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اپنے کئی اسماء گرامی بیان فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں’’ محمد‘‘، ’’احمد‘‘، ’’مقفی‘‘ (بعد میں آنے والا) ’’حاشر‘‘ (جس کی پیروی میں روزِ حشر سب لوگ جمع کئے جائیں گے) ’’نبي التوبۃ‘‘ (اللہ تعالیٰ کی طرف ہمہ وقت رجوع کرنے والا) اور ’’نبي الرحمۃ‘‘ (رحمتیں بانٹنے والا نبی) ہوں۔‘‘

اِس حدیث کو امام مسلم، احمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

9 /9. عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ: لَقِيْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضي اللہ عنهما قُلْتُ: أَخْبِرْنِي عَنْ صِفَةِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي التَّوْرَاةِ؟ قَالَ: أَجَلْ وَاللهِ، إِنَّه لَمَوْصُوْفٌ فِي التَّوْرَاةِ بِبَعْضِ صِفَتِه فِي الْقُرْآنِ: {يَا أَيُهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنٰـکَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا} ]الأحزاب، 33: 45[ وَحِرْزًا لِلْأُمِّيِّيْنَ أَنْتَ عَبْدِي وَرَسُوْلِي سَمَّيْتُکَ الْمُتَوَکِّلَ لَيْسَ بِفَظٍّ وَلَا غَلِيْظٍ وَلَا سَخَّابٍ فِي الْأَسْوَاقِ وَلَا يَدْفَعُ بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ وَلٰـکِنْ يَعْفُوْ وَيَغْفِرُ وَلَنْ يَقْبِضَهُ اللهُ حَتّٰی يُقِيْمَ بِهِ الْمِلَّةَ الْعَوْجَاءَ بِأَنْ يَقُوْلُوْا: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَيَفْتَحُ بِهَا أَعْيُنًا عُمْيًا وَأذَانًا صُمًّا وَقُلُوْبًا غُلْفًا.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ.

9: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب البيوع، باب کراهية السخب في السوق، 2 /747، الرقم: 2018، وأيضًا فيکتاب التفسير، باب إنا أرسلنـک شاهدًا ومبشرًا ونذيرًا، 4 /1831، الرقم: 4558، وأيضًا في الأدب المفرد /95، الرقم: 246، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 /174، الرقم: 6622، والدارمي في السنن،1 /16، الرقم: 6، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 5 /387، وابن سعد في الطبقات الکبری،1 /360، 362، والبيهقي في السنن الکبری، 7 /45، الرقم: 13079، وأيضًا في شعب الإيمان، 2 /147، الرقم: 1410، وأيضًا في الاعتقاد،1 /256، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 9 /460، الرقم: 435، والطبري في جامع البيان، 9 /83، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2 /254.

’’حضرت عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے ملا اور عرض کیا: مجھے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تورات میں بیان کردہ صفات بیان فرمائیں۔ اُنہوں نے فرمایا: اللہ کی قسم، تورات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعض صفات بیان ہوئی ہیں جو قرآن مجید میں ہیں: ’’(اے نبِیّ (مکرّم!) بے شک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ اور آپ اَن پڑھوں کی جائے پناہ، اور میرے (محبوب) بندے اور رسول ہیں۔ میں نے آپ کا نام ’’متوکل‘‘ رکھا ہے آپ نہ تو ترش رو اور سنگ دل ہیں اور نہ ہی بازاروں میں شور مچانے والے ہیں اور برائی کا بدلہ برائی سے دینے والے نہیں ہیں بلکہ معاف اور درگزر فرمانے والے ہیں۔ (حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ) اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُس وقت تک اپنے پاس نہیں بلائے گا جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے ٹیڑھی ملت کو سیدھا نہ کر دے اور وہ کلمہ نہ پڑھ لیں اور اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اَندھی آنکھوں، بہرے کانوں اور غلاف چڑھے ہوئے (زنگ آلود) دلوں کو کھول نہ دے۔‘‘

اِس حدیث کو امام بخاری، احمد اور دارمی نے روایت کیا ہے۔

10 /10. عَنْ مَالِکِ بْنِ الْحُوَيْرَثِ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم رَحِيْمًا رَقِيْقًا…الحديث. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالدَّارَ قُطْنِيُّ.

10: أخرجه مسلم في الصحيح،کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب من أحق بالإمامة، 1 /465، الرقم: 674، والدار قطني في السنن،1 /272، الرقم: 1، والطبراني في المعجم الکبير، 19 /288، الرقم: 637، والبيهقي في السنن الکبری،1 /385، الرقم: 1678، وأيضًا، 2 /17، الرقم: 2102، 3 /120، الرقم: 5076.

’’حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ’’رحیم‘‘ (نہایت رحمدل) اور ’’رقیق‘‘ (نہایت نرم دل) تھے الحدیث۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم اور دارقطنی نے روایت کیا ہے۔

11 /11. عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ رضی الله عنه أَنَّ رَجُـلًا ضَرِيْرَ الْبَصَرِ أَتَی النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: اُدْعُ اللهَ لِي أَنْ يُعَافِيَنِي. فَقَالَ: إِنْ شِئْتَ أَخَّرْتُ لَکَ وَهُوَ خَيْرٌ. وَإِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ. فَقَالَ: اُدْعُهْ. فَأَمَرَه أَنْ يَتَوَضَّأَ فَيُحْسِنَ وُضُوْئَه وَيُصَلِّيَ رَکْعَتَيْنِ. وَيَدْعُوَ بِهٰذَا الدُّعَاءِ: {اَللّٰهُمَّ، إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ. يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلٰی رَبِّي فِي حَاجَتِي هٰذِه لِتُقْضٰی. اَللّٰهُمَّ فَشَفِّعْه فِيَّ}.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَه وَأَحْمَدُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وَقَالَ أَبُوْ إِسْحَاقَ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيحٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْأَلْبَانِيُّ: صَحِيْحٌ.

11: أخرجه الترمذي في السنن،کتاب الدعوات، باب في دعاء الضعيف، 5 /569، الرقم: 3578، وابن ماجه في السنن،کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في صلاة الحاجة، 1 /441، الرقم: 1385، والنسائي في السنن الکبری، 6 /168، الرقم: 10494، 10495، وابن خزيمة في الصحيح، 2 /225، الرقم: 1219، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 /138، الرقم: 17240.17242، والحاکم في المستدرک، 1 /458، 700، 707، الرقم: 1180، 1909، 1929، والطبراني في المعجم الصغير، 1 /306، الرقم: 508، وأيضًا في المعجم الکبير، 9 /30، الرقم: 8311، والبخاري في التاريخ الکبير، 6 /209، الرقم: 2192، وعبد بن حميد في المسند،1 /147، الرقم: 379، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 /272، الرقم: 1018، والهيثمي في مجمع الزوائد، 2 /279.

’’حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں میرے لئے عافیت (یعنی بینائی کے لوٹ آنے) کی دعا فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تو چاہے تو تیرے لئے دعا کو مؤخر کر دوں جو تیرے لئے بہتر ہے اور اگر تو چاہے تو تیرے لئے (ابھی) دعا کر دوں۔ اس نے عرض کیا: (آقا) ابھی دعا فرما دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے حکم دیا کہ اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھے پھر اِن الفاظ کر ساتھ کرے: {اَللّٰهُمَّ، إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلٰی رَبِّي فِي حَاجَتِي هٰذِه لِتُقْضٰی اَللّٰهُمَّ فَشَفِّعْه فِيَّ} ’’اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف نبی رحمت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے متوجہ ہوتا ہوں، یا محمد! میں نے آپ کے وسیلہ سے اپنے ربّ کی بارگاہ میں اپنی یہ حاجت پیش کر دی ہے تاکہ میری یہ حاجت پوری ہو۔ اے اللہ! میرے حق میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت قبول فرما۔‘‘

اِس حدیث کو امام ترمذی، نسائی، ابن ماجہ نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ، احمد اور بخاری نے ’التاریخ الکبیر‘ میں روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ امام ابو اسحاق نے بھی فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے۔ امام حاکم نے بھی فرمایا: یہ حدیث بخاری ومسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے اور شیخ البانی نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔

12 /12. عَنْ أَبِي مُوْسَی الْأَشْعَرِيِّ رضی الله عنه قَالَ: خَرَجَ أَبُوْ طَالِبٍ إِلَی الشَّامِ، وَخَرَجَ مَعَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي أَشْيَاخٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَلَمَّا أَشْرَفُوْا عَلَی الرَّاهِبِ هَبَطُوْا، فَحَلُّوْا رِحَالَهُمْ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمُ الرَّاهِبُ، وَکَانُوْا قَبْلَ ذَالِکَ يَمُرُّوْنَ بِه فَـلَا يَخْرُجُ إِلَيْهِمْ وَلَا يَلْتَفِتُ، قَالَ: فَهُمْ يَحُلُّوْنَ رِحَالَهُمْ، فَجَعَلَ يَتَخَلَّلُهُمُ الرَّاهِبُ، حَتّٰی جَاءَ فَأَخَذَ بِيَدِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَقَالَ: هٰذَا سَيِّدُ الْعَالَمِيْنَ، هٰذَا رَسُوْلُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، يَبْعَثُهُ اللهُ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ…الحديث.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

12: أخرجه الترمذي في السنن،کتاب المناقب، باب ما جاء في نبوة النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 5 /590، الرقم: 3620، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 /317، الرقم: 31733، 36541، وابن حبان في الثقات، 1 /42، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1 /45، الرقم: 19، والطبري في تاريخ الأمم والملوک، 1 /519.

’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابو طالب روسائے قریش کے ہمراہ شام کے سفر پر روانہ ہوئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ جب (بحیرا) راہب کے پاس پہنچے تو سواریوں سے اُترے اور اپنے کجاوے اُتار دیئے۔ راہب اُن کے پاس آیا حالانکہ وہ (روسائے قریش) اِس سے قبل بھی اس کے پاس سے گزرتے تھے لیکن وہ ان کے پاس نہیں آتا تھا اور نہ ہی ان کی طرف کوئی توجہ کرتا تھا۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ ابھی اپنا سامان اُتار ہی رہے تھے کہ وہ راہب ان کے درمیان چلنے لگا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب پہنچا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دستِ اقدس پکڑ کر کہا: یہ تمام جہانوں کے سردار اور رب العالمین کے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا ہےالحدیث۔‘‘

اِس حدیث کو امام ترمذی، ابن ابی شیبہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔

13 /13. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه قَالَ: إِذَا صَلَّيْتُمْ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأَحْسِنُوْا الصَّـلَاةَ عَلَيْهِ فَإِنَّکُمْ لَا تَدْرُوْنَ لَعَلَّ ذَالِکَ يُعْرَضُ عَلَيْهِ. قَالَ: فَقَالُوْا لَه: فَعَلِّمْنَا: قَالَ: قُوْلُوْا: اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ صَلَاتَکَ، وَرَحْمَتَکَ، وَبَرْکَاتِکَ، عَلٰی سَيِّدِ الْمُرْسَلِيْنَ وَإِمَامِ الْمُتَّقِيْنَ وَخَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ، مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُوْلِکَ إِمَامِ الْخَيْرِ وَقَائِدِ الْخَيْرِ وَرَسُوْلِ الرَّحْمَةِ. اَللّٰهُمَّ، ابْعَثْه مَقَامًا مَحْمُوْدًا يَغْبِطُه بِهِ الْأَوَّلُوْنَ وَالْأخِرُوْنَ…الحديث. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَأَبُوْ يَعْلٰی.

13: أخرجه ابن ماجه في السنن،کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم ،1 /293، الرقم: 906، وعبد الرزاق في المصنف، 2 /213، الرقم: 3109، وأبو يعلی في المسند، 9 /175، الرقم: 5267، والطبراني في المعجم الکبير، 8 /115، الرقم: 8594، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 /208، الرقم: 1550، والشاشي في المسند، 2 /89، الرقم: 611، والمحاملي في الأمالي،1 /287.288، الرقم: 294، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 /329، الرقم: 2588.

’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب تم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجو تو نہایت احسن انداز سے بھیجو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ (تمہارا یہ نذرانہ درود) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے، راوی بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا: پھر آپ ہی ہمیں دروو بھیجنا سکھائیے۔ اُنہوں نے فرمایا: (یوں) کہو: اے اللہ! تو اپنے درود، اپنی رحمت اور اپنی برکات کو سید المرسلین، امام المتقین، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے خاص فرما جو تیرے خاص بندے اور برگزیدہ رسول ہیں، جو بھلائی کے امام بھلائی کے قائد اور رسولِ رحمت ہیں۔ یا اللہ! تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس مقام محمود پر فائز فرما جس پر اولین و آخرین (کے لوگ) رشک کریں گےالحدیث۔‘‘

اِس حدیث کو امام ابن ماجہ، عبد الرزاق اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

14 /14. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: صِفَتِي، أَحْمَدُ الْمُتَوَکِّلُ، لَيْسَ بِفَظٍّ وَلَا غَلِيْظٍ يَجْزِي بِالْحَسَنَةِ وَلَا يُکَافِيئُ السَّيِّئَةَ. مَوْلِدُه بِمَکَّةَ وَمُهَاجِرُه طَيِّبَةُ، وَأُمَّتُهُ الْحَمَّادُوْنَ يَأْتَزِرُوْنَ عَلٰی أَنْصَافِهِمْ وَيُوَضِّؤُوْنَ أَطْرَافَهُمْ، أَنَاجِيْلُهُمْ فِي صُدُوْرِهِمْ، يَصِفُّوْنَ لِلصَّلَاةِ کَمَا يَصِفُّوْنَ لِلْقِتَالِ، قُرْبَانُهُمُ الَّذِي يَتَقَرَّبُوْنَ بِه إِلَيَّ دِمَاؤُهُمْ، رُهْبَانٌ بِاللَّيْلِ لَيُوْثٌ بِالنَّهَارِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ.

14: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 10 /89، الرقم: 10046، والديلمي في مسند الفردوس، 2 /400، الرقم: 3779، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 /271.

’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور بنی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرا وصف یہ ہے کہ (میں) ’’أحمد‘‘ ہوں اور ’’اَلْمُتَوَکِّل‘‘ (یعنی اللہ پر توکل کرنے والا) ہوں، نہ تندخو ہوں اور نہ ہی سخت دل، نیکی کا بدلہ چکاتا ہوں اور برائی کا بدلہ نہیں لیتا، (میں وہ ہوں کہ) جس کی جائے ولادت شہر مکہ اور جائے ہجرت مدینہ طیبہ ہے اور (وہ آخری نبی ہوں) جس کے اُمتی (اللہ تعالیٰ کی) حمد کرنے والے ہیں، اور اپنے ٹخنوں کے اوپر تک تہبند باندھتے ہیں اور اپنی اطراف (ہاتھ، منہ، پاؤں) دھوتے ہیں (یعنی وضو کرتے ہیں) اور ان کی اناجیل (انجیل کی جمع ہے مراد یہاں قرآن پاک ہے۔) ان کے سینوں میں ہے (یعنی قرآن حفظ کرتے ہیں) اور نماز کے لئے ایسے ہی صف بندی کرتے ہیں جیسے جہاد کے لئے کرتے ہیں اور ان کے (خون میں) وہ قربانی (رچی بسی ہوتی) ہے جس کے ذریعے وہ قربِ الٰہی حاصل کرتے ہیں۔ اور وہ رات راہبوں کی طرح اور دن شیروں کی طرح بسر کرتے ہیں۔‘‘

اِس حدیث کو امام طبرانی اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔

15 /15. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: اِسْمِي فِي الْقُرْآنِ مُحَمَّدٌ، وَفِي الإِنْجِيْلِ أَحْمَدُ، وَفِي التَّوْرَاةِ أُحِيْدُ، وَإِنَّمَا سُمِّيْتُ أُحِيْدَ لِأَنِّي أُحِيْدُ عَنْ أُمَّتِي نَارَ جَهَنَّمَ، فَأَحِبُّوا الْعَرَبَ بِکُلِّ قُلُوْبِکُمْ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ وَالْقُرْطَبِيُّ وَالذَّهَبِيُّ.

15: أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 /32، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 18 /84، والذهبي في ميزان الاعتدال،1 /336، والعسقلاني في لسان الميزان، 1 /354، الرقم: 1096، والنووي في تهذيب الأسماء،1 /49، والسيوطي في الخصائص الکبری،1 /133.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قرآن میں میرا نام ’’محمد‘‘ انجیل میں ’’احمد‘‘ اور تورات میں ’’احید‘‘ ہے اور بے شک میرا نام اُحید اس لئے رکھا گیا ہے کہ میں اپنی اُمت سے جہنم کی آگ کو ہٹاؤں گا۔ سو تم عربوں سے اپنے دلوں کی گہرائی سے محبت کیا کرو۔‘‘ اِس حدیث کو امام ابن عساکر، قرطبی اور ذہبی نے روایت کیا ہے۔

16 /16. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَا مِنْ مُوْمِنٍ إِلَّا وَأَنَا أَوْلَی بِه فِي الدُّنْيَا وَالْأخِرَةِ، اقْرَؤا إِنْ شِئْتُمْ: {النَّبِيُّ أَوْلَی بِالْمُوْمِنِيْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ} [الأحزاب، 33: 6]، فَأَيُمَا مُوْمِنٍ مَاتَ وَتَرَکَ مَالًا فَلْيَرِثْه عَصَبَتُه مَنْ کَانُوْا، وَمَنْ تَرَکَ دَيْنًا أَوْ ضَيَاعًا فَلْيَأْتِنِي، فَأَنَا مَوْلَاه. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

16: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الاستقراض وأداء الديون والحجر والتفليس، باب الصلاة علی من ترک دينا، 2 /845، الرقم: 2269، وأيضًا فيکتاب تفسير القرآن، باب{النَّبِيُّ أَوْلَی بِالْمُوْمِنِيْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ}، 4 /1795، الرقم: 4503، ومسلم في الصحيح، کتاب الفرائض، باب من ترک مالا فلورثته، 3 /1238، الرقم: 1619، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 /334، الرقم: 8399، وعبد الرزاق في المصنف، 8 /291، الرقم: 15261، وأبو عوانة في المسند، 3 /445، الرقم: 5630، والبيهقي في السنن الکبری، 6 /238، الرقم: 12148، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 /469.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دنیا و آخرت ہر دو جگہ پر، میں ہر مومن کا سب سے زیادہ قریبی ہوں۔ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو: ’’یہ نبيِّ (مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حقدار ہیں۔‘‘ پس جو مسلمان فوت ہو جائے اور مال چھوڑے تو وہ اُس کے ورثاء کا ہے اور جو قرض یا بال بچے چھوڑے تو وہ میرے پاس آئے کہ اُس کا مددگار میں ہوں۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

17 /17. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا خَطَبَ احْمَرَّتْ عَيْنَاه، وَعَـلَا صَوْتُه، وَاشْتَدَّ غَضَبُه. حَتّٰی کَأَنَّه مُنْذِرُ جَيْشٍ، يَقُوْلُ: صَبَّحَکُمْ وَمَسَّاکُمْ. وَيَقُوْلُ: بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ کَهَاتَيْنِ وَيَقْرُنُ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطٰی. وَيَقُوْلُ: أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ کِتَابُ اللهِ. وَخَيْرُ الْهُدَی هُدَی مُحَمَّدٍ. وَشَرُّ الْأُمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا. وَکُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ ثُمَّ يَقُوْلُ: أَنَا أَوْلٰی بِکُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِه. مَنْ تَرَکَ مَالًا فَلِأَهْلِه وَمَنْ تَرَکَ دَيْنًا أَوْ ضَيَاعًا فَإِلَيَّ وَعَلَيَّ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.

17: أخرجه مسلم في الصحيح،کتاب الجمعة، باب تخفيف الصلاة والخطبة، 2 /592، الرقم: 867، والنسائي في السنن،کتاب صلاة العيدين، باب کيف الخطبة، 3 /188، الرقم: 1578، وأيضًا في السنن الکبری، 1 /550، الرقم: 1786، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب اجتناب البدع والجدل،1 /17، الرقم: 45، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 /310، الرقم: 14373، وابن حبان في الصحيح،1 /186، الرقم: 10، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 /160، الرقم: 9418، وأيضًا في المعجم الکبير، 3 /100، الرقم: 8531، وأبو يعلی في المسند، 4 /85، الرقم: 2111، وأيضًا، 4 /90، الرقم: 2119، والبيهقي في السنن الکبری، 3 /206، الرقم: 5544.

’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب خطبہ دیتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ مقدس سرخ ہو جاتیں، آواز بلند ہوتی اور جلال زیادہ ہو جاتا اور یوں لگتا جیسے آپ کسی ایسے لشکر سے ڈرا رہے ہوں جو صبح و شام میں (کسی بھی وقت) حملہ کرنے والا ہو۔ اور فرماتے: میں اور قیامت اِن دو انگلیوں کی طرح ساتھ ساتھ بھیجے گئے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انگشتِ شہادت اور درمیانی انگلی کو ملاتے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد فرماتے: یاد رکھو بہترین بات اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور بہترین سیرت، محمد مصطفی( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی سیرت ہے اور بدترین کام دین میں نئے طریقے(نکالنا) ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ پھر فرماتے: میں ہر مومن کے لئے اُس کی جان سے بھی زیادہ قریب ہوں۔ جس شخص نے مال چھوڑا وہ اُس کے وارثوں کا ہے اور جس نے قرض یا اہل و عیال چھوڑے وہ میرے ذمہ ہیں۔‘‘

اِس حدیث کو امام مسلم، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

18 /18. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أُتِيَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِرَجُلٍ قَدْ شَرِبَ قَالَ: اضْرِبُوْهُ…فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: أَخْزَاکَ اللهُ، قَالَ: لَا تَقُوْلُوْا هٰکَذَا، لَا تُعِيْنُوْا عَلَيْهِ الشَّيْطَانَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ.

وفي رواية: وَلٰـکِنْ قُوْلُوْا: رَحِمَکَ اللهُ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.

18: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الحدود، باب الضرب بالجريد والنعال، 6 /2488، الرقم: 6395، وأيضًا في باب ما يکره من لعن شارب الخمر وإنه ليس بخارج من الملة، 6 /2489، الرقم: 6399، وأبو داود في السنن،کتاب الحدود، باب الحد في الخمر، 4 /162، الرقم: 4477، والنسائي في السنن الکبری، 3 /252، الرقم: 5287، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 /299، الرقم: 7973.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص کو لایا گیا جس نے شراب پی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِسے مارو (حد خمر جاری ہو جانے کے بعد) جب وہ شخص واپس پلٹا تو کسی شخص نے کہا: تجھے اللہ تعالیٰ نے ذلیل کیا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کہو اور اُس پر شیطان کی مدد نہ کرو۔‘‘

اِس حدیث کو امام بخاری اور ابو داود نے روایت کیا ہے۔

ایک روایت کے الفاظ ہیں (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ) ’’بلکہ یوں کہو: اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے۔‘‘ اِسے امام نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔

19 /19. عَنْ أَبِي مُوْسٰی رضی الله عنه قَالَ: صَلَّيْنَا الْمَغْرِبَ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم ، ثُمَّ قُلْنَا: لَوْ جَلَسْنَا حَتّٰی نُصَلِّيَ مَعَهُ الْعِشَاءَ. قَالَ: فَجَلَسْنَا فَخَرَجَ عَلَيْنَا فَقَالَ: مَا زِلْتُمْ هٰهُنَا؟ قُلْنَا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، صَلَّيْنَا مَعَکَ الْمَغْرِبَ، ثُمَّ قُلْنَا: نَجْلِسُ حَتّٰی نُصَلِّيَ مَعَکَ الْعِشَاءَ. قَالَ: أَحْسَنْتُمْ أَوْ أَصَبْتُمْ قَالَ: فَرَفَعَ رَأْسَه إِلَی السَّمَاءِ وَکَانَ کَثِيْرًا مِمَّا يَرْفَعُ رَأْسَه إِلَی السَّمَاءِ. فَقَالَ: اَلنُّجُوْمُ أَمَنَةٌ لِلسَّمَاءِ فَإِذَا ذَهَبَتِ النُّجُوْمُ أَتَی السَّمَاءَ مَا تُوْعَدُ، وَأَنَا أَمَنَةٌ لِأَصْحَابِي فَإِذَا ذَهَبْتُ أَنَا أَتَی أَصْحَابِي مَا يُوْعَدُوْنَ، وَأَصْحَابِي أَمَنَةٌ لِأُمَّتِي، فَإِذا ذَهَبَ أَصْحَابِي أَتَی أُمَّتِي مَا يُوْعَدُوْنَ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.

19: أخرجه مسلم في الصحيح،کتاب فضائل الصحابة، باب بيان أن بقاء النبي صلی الله عليه وآله وسلم أمان لأصحابه وبقاء أصحابه أمان للأمة، 4 /1961، الرقم: 2531، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 /398، وأبو يعلی في المسند، 13 /260، الرقم: 7276.

’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نمازِ مغرب پڑھی پھر ہم نے سوچاکہ اگر ہم یہیں بیٹھے رہیں یہاں تک کہ عشاء بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ پڑھیں (تو یہ بہتر ہو گا) وہ کہتے ہیں کہ ہم بیٹھے رہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (حجرہ مبارک سے) باہر تشریف لائے اور فرمایا: تم ابھی تک یہیں ہو؟ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم نے آپ کے ساتھ مغرب کی نماز ادا کی اور پھر ہم نے سوچا کہ ہم یہیں بیٹھے رہیں تاکہ عشاء کی نماز بھی آپ کے ساتھ پڑھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم نے بہت اچھا کیا یا فرمایا: تم نے ٹھیک کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر چہرہ اقدس آسمان کی طرف اُٹھایا کرتے تھے، پھر فرمایا: تارے آسمان کے لئے بچاؤ ہیں اور جب تارے ختم ہو جائیں گے تو جس چیز کا وعدہ کیا گیا ہے وہ (یعنی قیامت) آسمان پر آ جائے گی اور میں اپنے صحابہ کے لئے ڈھال ہوں اور جب میں چلا جاؤں گا تو میرے صحابہ پر بھی وہ وقت آئے گا جس کا اُن سے وعدہ ہے اور میرے صحابہ میری اُمت کے لیے امان ہیں اور جب میرے صحابہ چلے جائیں گے تو میری اُمت پر وہ وقت آئے گا جس کا اُن سے وعدہ کیا گیا ہے۔‘‘

اِس حدیث کو امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔

20 /20. عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ عِنْدَ أَضَاةِ بَنِي غِفَارٍ قَالَ: فَأَتَاهُ جِبْرِيْلُ فَقَالَ: إِنَّ اللهَ يَأْمُرُکَ أَنْ تَقْرَأَ أُمَّتُکَ الْقُرْآنَ عَلٰی حَرْفٍ، فَقَالَ: أَسْأَلُ اللهَ مُعَافَاتَه وَمَغْفِرَتَه، وَإِنَّ أُمَّتِي لَا تُطِيْقُ ذَالِکَ، ثُمَّ أَتَاهُ الثَّانِيَةَ فَقَالَ: إِنَّ اللهَ يَأْمُرُکَ أَنْ تَقْرَأَ أُمَّتُکَ الْقُرْآنَ عَلٰی حَرْفَيْنِ، فَقَالَ: أَسْأَلُ اللهَ مُعَافَاتَه وَمَغْفِرَتَه وَإِنَّ أُمَّتِي لَا تُطِيْقُ ذَالِکَ، ثُمَّ جَائَهُ الثَّالِثَةَ فَقَالَ: إِنَّ اللهَ يَأْمُرُکَ أَنْ تَقْرَأَ أُمَّتُکَ الْقُرْآنَ عَلٰی ثَـلَاثَةِ أَحْرُفٍ، فَقَالَ: أَسْأَلُ اللهَ مُعَافَاتَه وَمَغْفِرَتَه وَإِنَّ أُمَّتِي لَا تُطِيْقُ ذَالِکَ، ثُمَّ جَائَهُ الرَّابِعَةَ فَقَالَ: إِنَّ اللهَ يَأْمُرُکَ أَنْ تَقْرَأَ أُمَّتُکَ الْقُرْآنَ عَلٰی سَبْعَةِ أَحْرُفٍ، فَأَيُمَا حَرْفٍ قَرَؤا عَلَيْهِ فَقَدْ أَصَابُوْا.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ.

20: أخرجه مسلم في الصحيح،کتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب بيان أن القرآن علی سبعة أحرف وبيان معناه، 1 /562، الرقم: 821، والنسائي في السنن،کتاب الافتتاح، باب جامع ما جاء في القرآن، 2 /152، الرقم: 939، وأيضًا في السنن الکبری،1 /326، الرقم: 1011، وأبو داود في السنن،کتاب الصلاة، باب أنزل القرآن علی سبعة أحرف، 2 /76، الرقم: 1478، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 /127، الرقم: 21210، وابن حبان في الصحيح، 3 /13، الرقم: 738، والطيالسي في المسند،1 /76، الرقم: 558، والبيهقي في السنن الکبری، 2 /384، الرقم: 3801.

’’حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبیلہ بنی غفار کے تالاب پر تشریف فرما تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حضرت جبرائیل حاضر ہوئے اور عرض کیا: (یا رسول اللہ!) اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ اپنی اُمت کو ایک حرف (یعنی لغت) پر قرآن مجید پڑھائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ سے عفو اور مغفرت کا سوال کرتا ہوں اور یہ کہ میری اُمت اِس کی طاقت نہیں رکھتی۔ حضرت جبرائیل دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: آپ اپنی اُمت کو دو حرفوں پر قرآن مجید پڑھائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ سے عفو اور مغفرت کا سوال کرتا ہوں، میری اُمت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ حضرت جبرائیل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں تیسری بار حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: آپ اپنی اُمت کو تین حرفوں پر قرآن مجید پڑھائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ سے عفو اور مغفرت کا سوال کرتا ہوں اور یہ کہ میری اُمت اِس کی بھی طاقت نہیں رکھتی۔ پھر حضرت جبرائیلں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں چوتھی بار حاضر ہوئے اورعرض کیا: (یا رسول اللہ!) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: آپ اپنی اُمت کو سات حرفوں (لغات) پر قرآن مجید پڑھائیں، وہ جس حرف (لغت) میں بھی قرآن مجید پڑھ لیں گے صحیح ہو گا۔‘‘ اِس حدیث کو امام مسلم، نسائی اور ابو داود نے روایت کیا ہے۔

21 /21. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ امْرَأَةً سَوْدَاءَ کَانَتْ تَقُمُّ الْمَسْجِدَ أَوْ شَابًّا فَفَقَدَهَا رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَسَأَلَ عَنْهَا أَوْ عَنْهُ فَقَالُوْا: مَاتَ قَالَ: أَفَـلَا کُنْتُمْ آذَنْتُمُوْنِي قَالَ: فَکَأَنَّهُمْ صَغَّرُوْا أَمْرَهَا أَوْ أَمْرَه فَقَالَ: دُلُّوْنِي عَلٰی قَبْرِه فَدَلُّوْهُ، فَصَلّٰی عَلَيْهَا ثُمَّ قَالَ: إِنَّ هٰذِهِ الْقُبُوْرَ مَمْلُوْئَةٌ ظُلْمَةً عَلٰی أَهْلِهَا وَإِنَّ اللهَ يُنَوِّرُهَا لَهُمْ بِصَلَاتِي عَلَيْهِمْ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.

21: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الصلاة، باب کنس المسجد، 1 /175.176، الرقم: 446، 448، وأيضًا فيکتاب الجنائز، باب الصلاة علی القبر بعد ما يدفن،1 /448، الرقم: 2172، ومسلم في الصحيح،کتاب الجنائز، باب الصلاة علی القبر، 2 /659، الرقم: 956، وأبوداود في السنن،کتاب الجنائز، باب الصلاة علی القبر، 3 /211، الرقم: 3203، وابن ماجه في السنن،کتاب ما جاء في الجنائز، باب ما جاء في الصلاة علی القبر،1 /489، الرقم: 1527.1529، والنسائي في السنن الکبری،1 /651، الرقم: 2149، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 /388، الرقم: 9025، وأبو يعلی في المسند، 11 /314، الرقم: 6429، وابن حبان في الصحيح، 7 /355، الرقم: 3086، والبيهقي في السنن الکبری، 4 /46.47، الرقم: 6802.6806.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک حبشی عورت یا ایک نوجوان مسجد کی صفائی کیا کرتا تھا، پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے (عورت یا جوان کو کچھ عرصہ ) مفقود پایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عورت یا نوجوان کے بارے میں دریافت فرمایا تو صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ فوت ہوگیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو آپ لوگوں نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟ راوی بیان کرتے ہیں گویا صحابہ کرام نے اس کی موت کو اتنی اہمیت نہ دی تھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے اُس کی قبر کے بارے میں بتاؤ۔ صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُس کا مقام تدفین بتایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (خود وہاں تشریف لے جا کر) اس کی نماز جنازہ ادا کی اور فرمایا: یہ قبریں ان قبروں والوں کے لیے ظلمت اور تاریکی سے بھری ہوئی ہیں، اور بے شک اللہ تعالیٰ میری ان پر پڑھی گئی نماز جنازہ کی بدولت (ان کی تاریک قبور میں) روشنی فرما دے گا۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

22 /22. عَنْ أَبِي مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي لَأَتَأَخَّرُ عَنِ الصَّلَاةِ فِي الْفَجْرِ مِمَّا يُطِيْلُ بِنَا فُـلَانٌ فِيْهَا، فَغَضِبَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم ، مَا رَأَيْتُهُ غَضِبَ فِي مَوْضِعٍ کَانَ أَشَدَّ غَضَبًا مِنْهُ يَوْمَئِذٍ، ثُمَّ قَالَ: يٰا أَيُهَا النَّاسُ، إِنَّ مِنْکُمْ مُنَفِّرِيْنَ؟ فَمَنْ أَمَّ النَّاسَ فَلْيَتَجَوَّزْ، فَإِنَّ خَلْفَهُ الضَّعِيْفَ وَالْکَبِيْرَ وَذَا الْحَاجَةِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

22: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الأذان، باب من شکا إمامه إذا طوّل، 1 /249، الرقم: 672، ومسلم في الصحيح،کتاب الصلاة، باب أمر الأئمة بتخفيف الصلاة في تمام،1 /340، الرقم: 466، وابن ماجه في السنن،کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب من أم قومًا فليخفف، 1 /315، الرقم: 984، والدارمي في السنن، 1 /322، الرقم: 1259، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 /118، الرقم: 17106، وابن حبان في الصحيح، 5 /509، الرقم: 2137، والطبراني في المعجم الکبير، 17 /207، الرقم: 557.

’’حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! میں نمازِ فجر (باجماعت ادا کرنے) سے رہ جاتا ہوں کیونکہ فلاں صاحب ہمیں لمبی نماز پڑھاتے ہیں۔ (یہ بات سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہوئے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُس روز سے زیادہ ناراض ہوتے کبھی نہیں دیکھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! (کیا) تم میں نفرت دلانے والے بھی ہیں؟ تم میں سے جو بھی لوگوں کی امامت کرے تو اُسے چاہیے کہ مختصر نماز پڑھائے کیونکہ اُس کے پیچھے کمزور، بوڑھے اور ضرورت مند بھی ہوتے ہیں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

23 /23. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمْ لِلنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ، فَإِنَّ مِنْهُمُ الضَّعِيْفَ وَالسَّقِيْمَ وَالْکَبِيْرَ وَإِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمْ لِنَفْسِه فَلْيُطَوِّلْ مَا شَاءَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

23: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الأذان، باب إذا صلی لنفسه فليطوّل ما شاء، 1 /248، الرقم: 671، ومسلم في الصحيح،کتاب الصلاة، باب أمر الأئمة بتخفيف الصلاة في تمام، 1 /341، الرقم: 467، والترمذي في السن، کتاب الصلاة، باب ما جاء إذا أم أحدکم الناس فليخفف، 1 /461، الرقم: 236، وأبو داود في السنن،کتاب الصلاة، باب في تخفيف الصلاة،1 /211، الرقم: 794، والنسائي في السنن،کتاب الإمامة، باب ما علی الإمام من التخفيف، 2 /94، الرقم: 823، ومالک في الموطأ،کتاب صلاة الجماعة، باب العمل في صلاة الجماعة، 1 /134، الرقم: 301، وابن حبان في الصحيح، 5 /56، الرقم: 1760، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 /486، الرقم: 10311، والبيهقي في السنن الکبری، 3 /117، الرقم: 5058.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو تخفیف کرے (یعنی مختصر نماز پڑھائے) کیونکہ اُن میں کمزور، بیمار اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں اور جب تم میں سے کوئی تنہا نماز پڑھے تو اسے جتنا چاہے طول دے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

24 /24. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: رُبَّ أَشْعَثَ مَدْفُوْعٍ بِالْأَبْوَابِ، لَوْ أَقْسَمَ عَلَی اللهِ لَأَبَرَّه. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

24: أخرجه مسلم في الصحيح،کتاب البر والصلة والأداب، باب فضل الضعفاء والخاملين، 4 /2024، الرقم: 2622، وأيضًا فيکتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب النار يدخلها الجبارون والجنة يدخلها الضعفاء، 4 /2191، الرقم: 2854، والبيهقي في شعب الإيمان، 7 /331، الرقم: 10482، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 10 /105، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 /73، الرقم: 4849.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کتنے ایسے لوگ ہوتے ہیں جو پراگندہ حال ہوتے ہیں جنہیں دروازوں سے دھتکار دیا جاتا ہے (مگر اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کا یہ مقام ہوتا ہے کہ) اگر وہ کسی معاملے میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا لیں تو وہ اسے ضرور پورا فرما دیتا ہے۔‘‘ اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

25 /25. وفي رواية: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی لله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: کَمْ مِنْ أَشْعَثَ أَغْبَرَ ذِي طِمْرَيْنِ، لَا يُوْبَهُ لَه، لَوْ أَقْسَمَ عَلَی اللهِ لَأَبَرَّهُ، مِنْهُمْ الْبَرَاءُ بْنُ مَالِکٍ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

25: أخرجه الترمذي في السنن،کتاب المناقب، باب مناقب البراء بن مالک، 5 /692، الرقم: 3854، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 /145، الرقم: 12502، وابن حبان في الصحيح، 14 /403، الرقم: 6483، والحاکم في المستدرک، 3 /331، الرقم: 5274، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 /264، الرقم: 861، وعبد بن حميد في المسند، 1 /370، الرقم: 1236، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 4 /420، الرقم: 1595.

’’ایک اور روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کتنے ہی بکھرے بالوں والے، غبار آلودہ، پھٹے پرانے کپڑوں والے لوگ ہیں جنہیں لوگ بنظر حقارت دیکھتے ہیں، مگر وہ اللہ تعالیٰ پر قسم کھا لیں تو اللہ تعالیٰ اُنہیں اِس میں سچا کر دے۔ حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ بھی اُنہی میں سے ہیں۔‘‘

اِس حدیث کو امام ترمذی، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے اور امام حاکم نے بھی فرمایا: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

26 /26. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْقَاسِمِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: لَا تُنْزَعُ الرَّحْمَةُ إِلَّا مِنْ شَقِيٍّ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالْبُخَارِيُّ فِي الأَدَبِ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ وَأَقَرَّهُ الذَّهَبِيُّ.

26: أخرجه الترمذي في السنن،کتاب البر والصلة، باب ما جاء في رحمة الناس، 4 /323، الرقم: 1923، وأبو داود في السنن،کتاب الأدب، باب في الرحمة، 4 /286، الرقم: 4942، والبخاري في الأدب المفرد /136، الرقم: 374، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 /301، الرقم: 7988، وابن حبان في الصحيح، 2 /213، الرقم: 466، وأبو يعلی في المسند، 10 /526، الرقم: 6141، وابن أبي شيبة في المصنف، 5 /214، الرقم: 25360، والحاکم في المستدرک، 4 /277، الرقم: 7632، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 /54، الرقم: 2453، والطيالسي في المسند، 1 /330، الرقم: 2529، والبيهقي في السنن الکبری، 8 /161، الرقم: 16420، وأيضًا في شعب الإيمان، 7 /476، الرقم: 11050، والذهبي في ميزان الاعتدال، 5 /204.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو فرماتے ہوئے سنا: رحمت، بدبخت کے سوا کسی (کے دل) سے نہیں نکالی جاتی۔‘‘

اِس حدیث کو امام ترمذی، ابو داود اور بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے جبکہ امام حاکم نے بھی فرمایا: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔ امام ذہبی نے اِن کی موافقت کی ہے۔

27 /27. عَنْ يَزِيْدَ بْنِ ثَابِتٍ رضی الله عنه، وَکَانَ أَکْبَرَ مِنْ زَيْدٍ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَلَمَّا وَرَدَ الْبَقِيْعَ فَإِذَا هُوَ بِقَبْرٍ جَدِيْدٍ، فَسَأَلَ عَنْهُ، قَالُوْا: فُـلَانَةُ، قَالَ: فَعَرَفَهَا، وَقَالَ: أَلَا أذَنْتُمُوْنِي بِهَا، قَالُوْا: کُنْتَ قَائِـلًا صَائِمًا فَکَرِهْنَا أَنْ نُوْذِيَکَ، قَالَ: فَـلَا تَفْعَلُوْا لَا أَعْرِفَنَّ مَا مَاتَ مِنْکُمْ مَيِّتٌ مَا کُنْتُ بَيْنَ أَظْهُرِکُمْ إِلَّا أذَنْتُمُونِي بِه، فَإِنَّ صَلَاتِي عَلَيْهِ لَه رَحْمَةٌ، ثُمَّ أَتَی الْقَبْرَ فَصَفَفْنَا خَلْفَه فَکَبَّرَ عَلَيْهِ أَرْبَعًا.

رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَه وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

27: أخرجه النسائي في السنن، کتاب الجنائز، باب الصلاة علی القبر، 4 /84، الرقم: 2022، وابن ماجه في السنن،کتاب الجنائز، باب ما جاء في الصلاة علی القبر،1 /489، الرقم: 1528، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 /388، الرقم: 19470، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 /475، الرقم: 11217، والطبراني في المعجم الکبير، 22 /240، الرقم: 628، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 4 /27، الرقم: 1970، والبيهقي في السنن الکبری، 4 /48، الرقم: 6809.

’’حضرت یزید بن ثابت، جو کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے بڑے بھائی ہیں، بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ باہر نکلے، جب ہم جنت البقیع پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک نئی قبر دیکھ کر لوگوں سے اُس کے بارے میں دریافت فرمایا، لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ فلاں کی قبر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم نے مجھے اِس کی وفات کی اطلاع کیوں نہ دی؟ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ روزے سے تھے اور دوپہر کے وقت آرام فرما رہے تھے ہم نے آپ کو تکلیف دینا مناسب نہیں سمجھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کیا کرو۔ جب تک میں تم میں موجود ہوں مجھے ہر شخص کی وفات کی ضرور اطلاع ہونی چاہیے کیونکہ میرا اُن کی نماز جنازہ پڑھنا اُن کے لیے رحمت کا باعث ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اُس کی) قبر پر تشریف لائے، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے صفیں بنائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چار تکبیریں ادا فرمائیں (یعنی اس کی نمازِ جنازہ پڑھی)۔‘‘

اِس حدیث کو امام نسائی اور ابن ماجہ نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ، احمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

28 /28. عَنْ عَبْدِ اللهِ (بْنِ مَسْعُوْدٍ) رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنَّ ِللهِ مَـلَائِکَةً سَيَاحِيْنَ يُبَلِّغُوْنِي عَنْ أُمَّتِي السَّـلَامَ قَالَ: وَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: حَيَاتِي خَيْرٌ لَکُمْ، تُحْدِثُوْنَ وَتُحْدَثُ لَکُمْ، وَوَفَاتِي خَيْرٌ لَکُمْ تُعْرَضُ عَلَيَّ أَعْمَالُکُمْ، فَمَا رَأَيْتُ مِنْ خَيْرٍ حَمِدْتُ اللهَ عَلَيْهِ، وَمَا رَأَيْتُ مِنْ شَرٍّ اِسْتَغْفَرْتُ اللهَ لَکُمْ.

رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَالْجَهْضَمِيُّ وَالشَّاشِيُّ وَابْنُ سَعْدٍ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

28: أخرجه البزار في المسند، 5 /308، الرقم: 1925، والجهضمي في فضل الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 1 /38.39، الرقم: 25.26، وابن سعد في الطبقات الکبری، 2 /194، والشاشي في المسند، 2 /253، الرقم: 826، والديلمي في مسند الفردوس، 1 /183، الرقم: 686، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 /24، والحارث في المسند، 2 /884، الرقم: 953.

’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک کچھ سیاحت کرنے والے اللہ تعالیٰ کے ایسے فرشتے بھی ہیں جو مجھے میری اُمت کا سلام پہنچاتے ہیں اور فرمایا: میری زندگی بھی تمہارے لئے خیر ہے کیونکہ (بذریعہ وحی الٰہی اور میری سنت) تمہیں نئے نئے احکام ملتے ہیں اور میری وفات بھی تمہارے لئے خیر ہے کیونکہ (میری قبر میں بھی) تمہارے اعمال میرے سامنے پیش ہوا کریں گے۔ چنانچہ اگر (تمہاری) نیکیاں دیکھوں گا تو اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لایا کروں گا اور اگر برائیاں دیکھوں گا تو تمہارے لئے اللہ تعالیٰ سے استغفار کیا کروں گا۔‘‘

اِس حدیث کو امام بزار، جہضمی، شاشی اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔

29 /29. قال الإمام البيهقي: سَمَّاهُ اللهُ تَعَالٰی فِي الْقُرْآنِ: رَسُوْلًا، نَبِيًّا، أُمِّيًّا، وَسَمَّاهُ: شَاهِدًا، وَمُبَشِّرًا، وَنَذِيْرًا، وَدَاعِيًا إِلَی اللهِ بِإِذْنِه، وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا، وَسَمَّاهُ: رَؤفًا رَحِيْمًا، وَسَمَّاهُ: نَذِيْرًا مُّبِيْنًا، وَسَمَّاهُ: مُذَکِّرًا، وَجَعَلَه رَحْمَةً، وَنِعْمَةً، وَهَادِيًا، وَسَمَّاهُ: عَبْدًا صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَعَلٰی آلِه وَسَلَّمَ کَثِيْرًا.

29: أخرجه البيهقي في دلائل النبوة،1 /159.160، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 /20.

’’امام بیہقی علیہ الرحمہ بیان فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مندرجہ ذیل اسمائے مبارکہ عطا فرمائے: رسول، نبی، اُمّی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شَاهِدًا، وَمُبَشِّرًا، وَنَذِيْرًا، وَدَاعِيًا إِلَی اللهِ بِإِذْنِهِ، (یعنی اللہ کے اذن سے اس کی طرف دعوت دینے والا)، َسِرَاجًا مُّنِيْرًا (روشن کرنے والا چراغ) کا نام بھی دیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’رَؤفًا ، (نہایت مہربان)، رَحِيْمًا، (نہایت رحم کرنے والا) نَذِيْرًا مُّبِيْنًا (روشن نشانیوں کے ساتھ اللہ کا ڈر سنانے والا) اور مُذَکِّرًا ‘‘ (یعنی اللہ کی یاد دلانے والے) کے اَسماء مبارکہ بھی عطا فرمائے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رحمت، نعمت اور ہدایت دینے والا بنایا ہے اور عبد (کامل) کا نام دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی آل پر بہت زیادہ درود و سلام بھیجے۔‘‘

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved